Surat ul Qiyama
Surah: 75
Verse: 29
سورة القيامة
وَ الۡتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿ۙ۲۹﴾
And the leg is wound about the leg,
اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی ۔
وَ الۡتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿ۙ۲۹﴾
And the leg is wound about the leg,
اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی ۔
And one shank will be joined with another shank. "This is the last day of the days of this world and the first day of the days of the Hereafter. So there will be hardships that will meet (more) hardships, except for he whom Allah has mercy upon." Ikrimah said, وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ And one shank will be joined with another shank. "The great matter (will be joined) with the great matter." Mujahid said, "A test (will be joined) with a test." Al-Hasan Al-Basri said concerning Allah's statement, وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (And one shank will be joined with another shank). "These are your two shins when they are bound together." In another narration from him (Al-Hasan) he said, "His two legs have died and they will not carry him while he used to walk around on them." Concerning Allah's statement, إِلَى رَبِّكَ يَوْمَيِذٍ الْمَسَاقُ
29۔ 1 اس سے یا تو موت کے وقت پنڈلی کا پنڈلی کے ساتھ مل جانا مراد ہے یا پے درپے تکلیفیں، بہت سے مفسرین نے دوسرے معنی کئے ہیں۔ (فتح القدیر)
[١٨] یعنی سب سے پہلے پاؤں کی طرف سے جان نکلنا شروع ہوتی ہے۔ جب پنڈلیوں سے جان نکل چکتی ہے تو انسان میں یہ سکت نہیں رہتی کہ وہ ایک پنڈلی کو دوسری سے اٹھا کر الگ کرسکے۔ جب یہ کیفیت طاری ہوجائے تو سمجھ لو کہ سفر آخرت شروع ہوگیا اور میت کا اپنے پروردگار سے ملاقات کا وقت آگیا۔ بس یہی وقت ہے جس کے لئے کافر باربار پوچھتے اور اس کی جلدی کا تقاضا کرتے ہیں۔ جس شخص کو موت آگئی تو گویا پوری قیامت کے احوال اس پر منکشف ہونے لگ جاتے ہیں۔
وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ٢٩ ۙ لفف قال تعالی: فَإِذا جاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء/ 104] أي : منضمّا بعضکم إلى بعض . يقال : لَفَفْتُ الشیء لَفّاً ، وجاء وا ومن لَفَّ لِفَّهُمْ ، أي : من انضمّ إليهم، وقوله : وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ/ 16] أي : التفّ بعضها ببعض لکثرة الشّجر . قال : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] والْأَلَفُّ : الذي يتدانی فخذاه من سمنه، والْأَلَفُّ أيضا : السّمين الثقیل البطیء من الناس، ولَفَّ رأسه في ثيابه، والطّائر رأسه تحت جناحه، واللَّفِيفُ من الناس : المجتمعون من قبائل شتّى، وسمّى الخلیل کلّ كلمة اعتلّ منها حرفان أصليّان لفیفا . ( ل ف ف ) الففت الشئی لفا کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملا دینے اور مدغم کردینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : جِئْنا بِكُمْ لَفِيفاً [ الإسراء/ 104] اور ہم تم سب کو جمع کرکے لے آئیں گے ۔ اور محاورہ ہے : جآء وا من لف لفھم یعنی وہ اور ان کے سب متعلقین آئے ۔ اور آیت کریمہ : وَجَنَّاتٍ أَلْفافاً [ النبأ/ 16] اور گھنے گھنے باغ میں الفاف سے مراد ایک دوسرے سے متصل گھنے اور گنجان درختوں والے باغیچے مراد ہیں ۔ التف ایک چیز کا دوسری سے لپٹ جانا ۔ قرآن میں ہے : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] اور پنڈلی سے پندلی لپٹ جائے گی ۔ الالف۔ وہ آدمی جس کی رانیں موٹاپے کی وجہ سے باہم ملی ہوئی ہوں اور بہت زیادہ بھاری جسم اور سست آدمی کو بھی الف کہاجاتا ہے ۔ لف راسہ ۔ اس نے اپنے سر کو ( کپڑوں ) ۔۔۔ میں ) چھپالیا ۔ اللفیف۔ مختلف قبائل کے ایک جگہ جمع ہونے والے لوگ اور خلیل نے ہر اس کلمے کا نام لفیف رکھا ہے جس کے حروف اصل میں سے دو حرف علت ہوں ۔ ساق سَوْقُ الإبل : جلبها وطردها، يقال : سُقْتُهُ فَانْسَاقَ ، والسَّيِّقَةُ : ما يُسَاقُ من الدّوابّ. وسُقْتُ المهر إلى المرأة، وذلک أنّ مهورهم کانت الإبل، وقوله : إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] ، نحو قوله : وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] ، وقوله : سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : ملك يَسُوقُهُ ، وآخر يشهد عليه وله، وقیل : هو کقوله : كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] ، وقوله : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] ، قيل : عني التفاف الساقین عند خروج الروح . وقیل : التفافهما عند ما يلفّان في الکفن، وقیل : هو أن يموت فلا تحملانه بعد أن کانتا تقلّانه، وقیل : أراد التفاف البليّة بالبليّة نحو قوله تعالی: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] ، من قولهم : کشفت الحرب عن ساقها، وقال بعضهم في قوله : يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] :إنه إشارة إلى شدّة «2» ، وهو أن يموت الولد في بطن الناقة فيدخل المذمّر يده في رحمها فيأخذ بساقه فيخرجه ميّتا، قال : فهذا هو الکشف عن الساق، فجعل لكلّ أمر فظیع . وقوله : فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] ، قيل : هو جمع ساق نحو : لابة ولوب، وقارة وقور، وعلی هذا : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] ، ورجل أَسْوَقُ ، وامرأة سَوْقَاءُ بيّنة السّوق، أي : عظیمة السّاق، والسُّوقُ : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ ( س و ق) سوق الابل کے معنی اونٹ کو سنکانے اور چلانے کے ہیں یہ سفقتہ ( ن) کا مصدر ہے اور انسان ( انفعال ) کے معنی ہنکانے کے بعد چل پڑنے کے ہیں ان جانوروں کو جو ہنکائے جاتے ہیں سیقۃ کہا جاتا ہے ۔ اور عورت کو مہر ادا کرنے کے لئے سقت المھر الی المرءۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب حق مہر میں وعام طور پر ) اونٹ دیا کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] میں امساق سے معنی پروردگار کی طرف چلنا کے ہیں جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] میں ہے یعنی تمہیں اپنے پروردگار کے پاس پہچنا ہے اور آیت سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا اور ایک ( اس کے عملوں کی ) گواہی دینے والا ۔ میں سابق سے وہ فرشتہ مراد ہے جو اسے چلا کر حساب کے لئے پیش کرے گا اور دوسرا فرشتہ شہید بطور گواہ کے اس کے ساتھ ہوگا جو اسکے حق میں یا سکے خلاف گواہی گا بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کیطرف دھکیلے جاتے ہیں کے ہم معنی ہے اور آیت : ۔ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] اور پنڈلی لپٹ جائے گی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبض روح کے وقت پنڈلیوں کا لپٹنا مراد لیا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان لپٹنے سے مراد موت ہے کہ زندگی میں وہ اس کے بوجھ کو اٹھا کر چلتی تھیں لیکن موت کے بعد وہ اس بار کی متحمل نہیں ہوسکیں گی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک شدت کا دوسری شدت سے لپٹنا مراد ہے اسی طرح آیت : ۔ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائیگا ۔ میں پنڈلی سے کپرا ا اٹھانا صعوبت حال سے کنایہ ہے اور یہ کشفت الحرب عن ساقھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی لڑائی کے سخت ہوجانے ہیں ۔ بعض نے اس کی اصل یہ بیان کی ہے کہ جب اونٹنی کے پیٹ میں بچہ مرجاتا ہے تو مزمر ( جنوانے والا ) اس کے رحم کے اندر ہاتھ ڈالتا ہے : ۔ اور اسے پنڈلیوں سے پکڑ کر ذور سے باہر نکالتا ہے ۔ اور یہ کشف عن الناق کے اصل معنی ہیں پھر ہر ہولناک امر کے متعلق یہ محاورہ استعمال ہوناے لگا ہے تو یہاں بھی شدت حال سے کنایہ ہے اور آیت : ۔ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سوق ساق کی جمع ہے جیسے لابۃ کی جمع لوب اور فارۃ کی جمع فور آتی ہے ۔ اور اسی طرح آیت : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ میں بھی سوق صیغہ جمع ہے اور رجل اسوق کر معنی بڑی پنڈلیوں والے آدمی کے ہیں اسکی مؤنث سوقاء آتی ہے اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ السویق کے معنی ستو کے ہیں کیونکہ وہ بغیر جائے حلق سے نیچے اتر جاتے ہیں ۔
آیت ٢٩{ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ۔ } ” اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جاتی ہے۔ “ یہ عین جان کنی کے وقت کی اس کیفیت کا ذکر ہے جب جسم کے نچلے حصے سے انسان کی جان نکلنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اس وقت وہ ناقابل بیان کرب اور شدید تکلیف کی کیفیت میں ہوتا ہے۔
20 Some commentators have taken the word saq (leg, shank) in its literal meaning, thereby implying that at death one lean leg will join the other lean leg; some others have taken it metaphorically in the sense of difficulty, vehemence and hardship so as to mean: At that tune one affliction will be joined with another affliction, one of being saparated from the world and all its enjoyments, and the other of being seized and taken to the Hereafter as a culprit, and this will be experienced by every disbeliever, hypocrite and sinner.
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :20 مفسرین میں سے بعض نے لفظ ساق ( پنڈلی ) کو عام لغوی معنی میں لیا ہے اور اس کے لحاظ سے مراد یہ ہے کہ مرنے کے وقت جب ٹانگیں سوکھ کر ایک دوسرے سے جڑ جائیں گی ۔ اور بعض عربی محاورے کے مطابق اسے شدت اور سختی اور مصیبت کے معنی میں لیا ہے ، یعنی اس وقت دو مصیبتیں ایک ساتھ جمع ہو جائیں گی ۔ ایک دنیا اور اس کی ہر چیز سے جدا ہو جانے کی مصیبت اور دوسری عالم آخرت میں ایک مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہو کر جانے کی مصیبت ، جس سے ہر کافر و منافق اور ہر فاسق و فاجر کو سابقہ پیش آئے گا ۔
11: نزع کی حالت میں جو تکلیف ہوتی ہے، اُس میں بسا اوقات مریض دونوں پنڈلیوں کو ملا لیتا ہے۔ یہ اسی کیفیت کی طرف اشارہ ہے۔
(75:29) والتفت الساق بالساق۔ یہ جملہ بھی معطوف ہے اور اس کا عطف بھی حسب سابق ہے۔ التفت ماضی واحد مؤنث غائب التفات (افتعال) مصدر۔ لف مادہ۔ بمعنی لپٹ جانا۔ منضم ہوجانا۔ ساق : پنڈلی۔ یعنی جب ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جائے گی (اور آدمی کو اس کے ہلانے کی طاقت نہیں ہوگی)
ف 11 یا جیسے کفن میں دونوں پنڈلیاں ملا کر لپیٹی جاتی ہیں۔
9۔ مراد اس سے ظہور سکرات موت ہے کچھ تخصیص التفات کی نہیں، اس کا ذکر تمثیلا ہے۔
والتفت الساق بالساق (75:29) ” پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے “۔ ہر حیلہ اور ہر وسیلہ فیل ہوجائے اور یہ بات طے ہوجائے کہ آپ بیمارنے جانا ہی ہے جس طرح ہر زندہ نے آخر کار جانا ہوتا ہے۔
(29) اور ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ لپٹ جاتی ہے یعنی سکرات موت کے وقت یہ حالت ہوتی ہے۔ پنڈلی پنڈلی مارنا ایک پنڈلی کا دم نکلنے کے بعد دوسری پنڈلی پر ج اگر نا اور ہوسکتا ہے کہ عام شدائد اور موت کی پیہم سختیوں کی طرف اشارہ ہو، جیسا کہ ہم سورة نون میں عرض کرچکے ہیں تمام عزیزواقارب ، بیوی ، بچے، مال و دولت چھوڑنے کا رنج اور آگے قبر کا اور آخرت کا ہول ہوسکتا ہے کہ مراد سختی پر سختی ملنے سے کنایہ ہو۔ (واللہ اعلم بالصواب)