Surat ul Mursilaat

Surah: 77

Verse: 23

سورة المرسلات

فَقَدَرۡنَا ٭ۖ فَنِعۡمَ الۡقٰدِرُوۡنَ ﴿۲۳﴾

And We determined [it], and excellent [are We] to determine.

پھر ہم نے اندازہ کیا اور ہم کیا خوب اندازہ کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيْلٌ يَوْمَيِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یعنی رحم مادر میں جسمانی ساخت و ترکیب و صحیح اندازہ کیا کہ دونوں آنکھوں، دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں اور دونوں کانوں کے درمیان اور دیگر اعضا کا ایک دوسرے کے درمیان کتنا فاصلہ رہنا چاہیئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] اندازہ یہ ہے کہ جب تک بچہ کی پوری قوتیں اور اس کے اعضاء مکمل نہیں ہوجاتے۔ بچہ رحم مادر میں ہی رہتا ہے اور جب ہر قسم کی نشوونما مکمل ہوجاتی ہے تو اس کے بعد ایک دن بھی بچہ رحم مادر میں نہیں رہ سکتا۔ ماں کو دردیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اور اس وقت تک یہ دردیں ختم نہیں ہوتیں جب تک بچہ وضع ہو کر اس کے رحم سے باہر نہ نکل آئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقَدَرْنَا۝ ٠ ۤ ۖ فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ۝ ٢٣ قَدْرُ والتَّقْدِيرُ والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال : قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ. يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه، فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين : أحدهما : بإعطاء القدرة . والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان : ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات . فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى [ الأعلی/ 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال، القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی/ 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ/ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج/ 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید/ 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔ نعم ( مدح) و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ( ن ع م ) النعمۃ نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص/ 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر/ 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ { فَقَدَرْنَاق فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ ۔ } ” تو ہم نے اندازہ مقرر کیا ‘ اور ہم کیا ہی اچھے ہیں اندازہ مقرر کرنے والے ! “ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ اپنی قدرت سے کیا اور ہم کیا ہی اچھی قدرت رکھنے والے ہیں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 This is an express argument for the possibility of the life-after-death What is meant to be said is: "When We had the power to shape and develop you into a perfect and complete man from insignificant sperm-drop, how shall We be helpless to re-create you in some other way ? Our this creation in consequence of which you exist as a living being, is a proof that We are excellent Possessors of power; We cannot be so helpless as to be unable to re-create you after having created you in the fi rst instance. "

سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :13 یہ حیات بعد موت کے امکان کی صریح دلیل ہے ۔ اللہ تعالی کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم ایک حقیر نطفے سے تمہاری ابتدا کر کے تمہیں پورا انسان بنانے پر قادر تھے ، تو آخر دوبارہ تمہیں کسی اور طرح پیدا کر دینے پر کیوں قادر نہ ہوں گے؟ ہماری یہ تخلیق ، جس کے نتیجے میں تم آج زندہ موجود ہو ، خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں ، ایسے عاجز نہیں ہیں کہ ایک دفعہ پیدا کر کے پھر تمہیں پیدا نہ کر سکیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: یعنی اِنسان کو ہم نے صرف پیدا ہی نہیں کیا، بلکہ اُس کی بناوَٹ میں ایسا بہترین توازن رکھا ہے جو ہمارے سوا کوئی قائم نہیں رکھ سکتا۔ اِنسان کے جسم کے مختلف حصوں پر جتنا غور کیا جائے، یہ حقیقت اتنی ہی زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(77:23) فقدرنا۔ ف تعقیب کا ہے قدرنا ماضی جمع متکلم۔ قدر (باب ضرب) مصدر سے۔ پھر ہم نے ایک اندازہ مقرر کیا۔ (یعنی ہم نے ماں کے پیٹ میں رہنے کا۔ وقت پیدائش کا۔ پیدا ہونے کے بعد اعمال زندگی، مدت زندگی، اور رزق کا اور نیک بخت یا بدبخت ہونے کا ایک اندازہ مقرر کردیا۔ (تفسیر مظہری) فنعم القدرون : نعم فعل ہے اور انشاء (بیان) ومدح (تعریف) کے لئے آتا ہے اس کی گردان نہیں آتی۔ ترجمہ آیت :۔ (1) پس ہم کتنے بہتر اندازہ ٹھہرانے والے ہیں۔ (ضیاء القرآن) (2) ہم کیا ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں۔ (فتح محمد جالندھری) (3) پھر ہم کیا ہی اچھے دار ہیں۔ (تفسیر حقانی) القادرون اندازہ کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی ہم نے ایک ایسی مدت مقرر کی جس میں بچہ کی ساخت مکمل ہوجاتی ہے، نہ کوئی چیز ضرورت سے زائد بنتی ہے اور نہ کوئی ضروری چیز رہ جاتی ہے۔ جب تک اس کے لئے رحم کے اندر رہنا ضروری ہوتا ہے وہ اس میں رہتا ہے اور جب باہر آنا ضروری ہوتا ہے تو وہ باہر آجاتا ہے۔ یہ مدت ہم نے مقرر کی اور ہم کتنا ٹھیک اندازہ کرنے والے ہیں۔ ” قدرنا “ کا دوسرا ترجمہ ” ہم قادر ہوئے “ بھی ہوسکتا ہے یعنی ہم نے پانی کی ایک بوند کو بتدریج ترقی دیتے دیتے کامل وعاقل انسان بنایا۔ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ ہم کیا خوب قدرت رکھنے والے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فقدرنا .................... القدرون (23:77) ” ہم قادر تھے پس ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں “۔ یہ قدرت اور یہ اندازہ اس قدر دقیق ہے کہ اس کا کوئی مرحلہ اور کوئی اندازہ غلط نہیں ہوتا۔ اور اس پر آخری تبصرہ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) غرض ہم نے اس کی بناوٹ کا ایک اندازہ کیا سو ہم کیسے اچھے اندازہ کرنے والے ہیں۔ بعض حضرات نے یوں ترجمہ کیا ہے پھر ہم اس کو پورا کرسکے سو ہم کیا خوب سکت والے ہیں قرات کے اختلاف کی وجہ سے ایک ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب اور دوسرا ترجمہ شاہ عبدالقادر صاحب (رح) کا ہے ہم نے شاہ رفیع الدین صاحب (رح) کا ترجمہ اختیار کیا ہے۔ یعنی اتنی مدت رحم میں رکھا کر پورا پاٹھا ہوکر پیدا ہوا نہ کوئی چیز کم ہوئی اور نہ زیادہ۔ بہرحال جب ہم نے ایک پانی کی بوند کو بتدریج انسان بنادیا تو ہمارے نزدیک مردہ انسان کو زندہ کرلینا کیا مشکل ہے لہٰذا تم بعث بعد الموت کی تکذیب نہ کرو کیونکہ۔