Surat ul Mursilaat
Surah: 77
Verse: 36
سورة المرسلات
وَ لَا یُؤۡذَنُ لَہُمۡ فَیَعۡتَذِرُوۡنَ ﴿۳۶﴾
Nor will it be permitted for them to make an excuse.
نہ انہیں معذرت کی اجازت دی جائے گی ۔
وَ لَا یُؤۡذَنُ لَہُمۡ فَیَعۡتَذِرُوۡنَ ﴿۳۶﴾
Nor will it be permitted for them to make an excuse.
نہ انہیں معذرت کی اجازت دی جائے گی ۔
And they will not be permitted to put forth any excuse. meaning, they will not be able to speak, nor will they be granted permission to speak so that they can make excuses. Rather, the proof will be established against them, and they will be called upon to speak about the wrong that they did, but they will not be able to say anything. The courts of the Day of Judgement will occur in stages. Sometimes the Lord informs of this stage and sometimes He informs of that stage. This is to show the terrors and calamities of that Day. Thus, after all the details of this discussion, He says: وَيْلٌ يَوْمَيِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ
3 6 ۔ 1 مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس پیش کرنے کے لیے معقول عذر ہی نہیں ہوگا جسے وہ پیش کرسکیں گے۔
[٢٢] یہ وہ وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کی عدالت میں لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ ہوچکے گا۔ اور ظالم لوگوں کے اعضاء وجوارح ان کے خلاف شہادت دے کر انہیں جھوٹا قرار دے چکے ہوں گے۔ انصاف کے تمام تر تقاضوں کے مکمل ہونے کے بعد مجرموں کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اپنی بریت کے لیے مزید کچھ کہہ سکیں نہ ہی اس وقت عذر پیش کرنے کا کوئی موقع باقی رہ جائے گا۔
وَلَا يُؤْذَنُ لَہُمْ فَيَعْتَذِرُوْنَ ٣٦ أذي الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة/ 264] ، قوله تعالی: فَآذُوهُما [ النساء/ 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة/ 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب/ 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام/ 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف/ 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة/ 222] ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔ ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ { لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى } ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ { فَآذُوهُمَا } ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ { وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ } ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ { وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى } ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ { وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا } ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ { لِمَ تُؤْذُونَنِي } ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ { وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ } ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔ عذر العُذْرُ : تحرّي الإنسان ما يمحو به ذنوبه . ويقال : عُذْرٌ وعُذُرٌ ، وذلک علی ثلاثة أضرب : إمّا أن يقول : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، فيذكر ما يخرجه عن کو نه مذنبا، أو يقول : فعلت ولا أعود، ونحو ذلک من المقال . وهذا الثالث هو التّوبة، فكلّ توبة عُذْرٌ ولیس کلُّ عُذْرٍ توبةً ، واعْتذَرْتُ إليه : أتيت بِعُذْرٍ ، وعَذَرْتُهُ : قَبِلْتُ عُذْرَهُ. قال تعالی: يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة/ 94] ، والمُعْذِرُ : من يرى أنّ له عُذْراً ولا عُذْرَ له . قال تعالی: وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة/ 90] ، وقرئ ( المُعْذِرُونَ ) «2» أي : الذین يأتون بالعذْرِ. قال ابن عباس : لعن اللہ المُعَذِّرِينَ ورحم المُعَذِّرِينَ «3» ، وقوله : قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 164] ، فهو مصدر عَذَرْتُ ، كأنه قيل : أطلب منه أن يَعْذُرَنِي، وأَعْذَرَ : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، وقیل : أَعْذَرَ من أنذر «4» : أتى بما صار به مَعْذُوراً ، قال بعضهم : أصل العُذْرِ من العَذِرَةِ وهو الشیء النجس «5» ، ومنه سمّي القُلْفَةُ العُذْرَةُ ، فقیل : عَذَرْتُ الصّبيَّ : إذا طهّرته وأزلت عُذْرَتَهُ ، وکذا عَذَرْتُ فلاناً : أزلت نجاسة ذنبه بالعفو عنه، کقولک : غفرت له، أي : سترت ذنبه، وسمّي جلدة البکارة عُذْرَةً تشبيها بِعُذْرَتِهَا التي هي القُلْفَةُ ، فقیل : عَذَرْتُهَا، أي : افْتَضَضْتُهَا، وقیل للعارض في حلق الصّبيّ عُذْرَةً ، فقیل : عُذِرَ الصّبيُّ إذا أصابه ذلك، قال الشاعر : 313- غمز الطّبيب نغانغ المَعْذُورِ «1» ويقال : اعْتَذَرَتِ المیاهُ : انقطعت، واعْتَذَرَتِ المنازلُ : درست، علی طریق التّشبيه بِالمُعْتَذِرِ الذي يندرس ذنبه لوضوح عُذْرِهِ ، والعَاذِرَةُ قيل : المستحاضة «2» ، والعَذَوَّرُ : السّيّئُ الخُلُقِ اعتبارا بِالعَذِرَةِ ، أي : النّجاسة، وأصل العَذِرَةِ : فناءُ الدّارِ ، وسمّي ما يلقی فيه باسمها . ( ع ذ ر ) العذر ایسی کوشش جس سے انسان اپنے گناہوں کو مٹا دینا چاہئے اس میں العذر اور العذر دو لغت ہیں اور عذر کی تین صورتیں ہیں ۔ اول یہ کہ کسی جرم کے ارتکاب سے قطعا انکار کردے دوم یہ کہ ارتکاب جرم کی ایسی وجہ بیان کرے جس سے اس کی براءت ثابت ہوتی ہو ۔ سوم یہ کہ اقرار جرم کے بعد آئندہ اس جرم کا ارتکاب نہ کرنے کا وعدہ کرلے عذر کی اس تیسری صورت کا نام تو بہ ہے جس سے ثابت ہو ا کہ تو بہ عذر کی ایک قسم ہے لہذا ہر توبہ کو عذر کہ سکتے ہیں مگر ہر عذر کو توبہ نہیں کہہ سکتے اعتذرت الیہ میں نے اس کے سامنے عذر بیان کیا عذرتہ میں نے اس کا عذر قبول کرلیا ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْقُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة/ 94] قُلْ لا تَعْتَذِرُوا[ التوبة/ 94] تو تم سے عذر کرینگے ان سے کہ دو کہ عذر مت کرو ۔ المعذر جو اپنے آپ کو معذور سمجھے مگر دراصل وہ معزور نہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ الْمُعَذِّرُونَ [ التوبة/ 90] عذر کرتے ہوئے ( تمہارے پاس آئے ) ایک قرات میں معذرون ہے یعنی پیش کرنے والے ابن عباس رضی للہ عنہ کا قول ہے : ۔ یعنی جھوٹے عذر پیش کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو اور جو واقعی معذور ہیں ان پر رحم فرمائے اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 164] تمہارے پروردگار کے سامنے معزرت کرسکیں ۔ میں معذرۃ عذرت کا مصدر ہے اور اسکے معنی یہ ہیں کہ میں اس سے در خواست کرتا ہوں کہ میرا عذر قبول فرمائے اعذ ر اس نے عذر خواہی کی اپنے آپ کو معذور ثابت کردیا ۔ کہا گیا ہے اعذر من انذر یعنی جس نے ڈر سنا دیا وہ معذور ہے بعض نے کہا ہے کہ عذر اصل میں عذرۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی نجاست اور گندگی کے ہیں اور اسی سے جو چمڑا ختنہ میں کاٹا جاتا ہے اسے عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذرت الصبی کے معنی ہیں میں نے لڑکے کا ختنہ کردیا گو یا اسے ختنہ کی نجاست سے پاک دیا اسی طرح عذرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے معانی دے کر اس سے گناہ کی نجاست کو دور کردیا جیسا کہ غفرت لہ کے معنی ہیں میں نے اس کا گناہ چھپا دیا اور لڑکے کے ختنہ کے ساتھ تشبیہ دے کر لڑکی کے پردہ بکارت کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اور عذر تھا کے معنی ہیں میں نے اس کے پردہ بکارت کو زائل کردیا اوبچے کے حلق کے درد کو بھی عذرۃ کہا جاتا ہے اسی سے عذرالصبی ہے جس کے معنی بچہ کے درد حلق میں مبتلا ہونے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( 305 ) غمز الطیب نعاجن المعذور جیسا کہ طبیب درد حلق میں مبتلا بچے کا گلا دبا تا ہے اور معتذر عذر خواہی کرنے والے کی مناسبت سے اعتذرت المیاۃ پانی کے سر چشمے منقطع ہوگئے اور اعتذرت المنازل ( مکانوں کے نشانات مٹ گئے ۔ وغیرہ محاورات استعمال ہوتے ہیں اور عذرۃ ( یعنی نجاست کے اعتبار ) سے کہاجاتا ہے ۔ العاذرۃ وہ عورت جسے استحاضہ کا خون آرہا ہو عذور ۔ بدخلق آدمی دراصل عذرۃ کے معنی مکانات کے سامنے کا کھلا میدان ہیں اس کے بعد اس نجاست کو عذرۃ کہنے لگے ہیں جو اس میدان میں پھینکی جاتی ہے ۔
20 This will be their ultimate state at the time they will be entering Hell. Before this in the plain of Resurrection they will be offering all sorts of excuses, blaming others for their errors and proving their own selves to be innocent, abusing their leaders and guides who led them astray; so much so that some of them will even disown their crimes shamelessly, as has been stated at several places in the Qur'an. But when their being criminals will have been established by every kind of evidence, and when their own hands and feet and limbs will have borne witness against them to prove their guilt fully, and when after fulfilling all requirements of justice rightly and truly, the sentence will be passed on them, they will be dumbfounded and no room will be left for them to offer any excuse. To refuse an opportunity or permission to offer an excuse, does not mean that judgment will be passed against them without giving them a chance for self-defence, but it means that their guilt and crime will be proved to the hilt and they will not be able to offer any excuse after it.
سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :20 یہ ان کی آخری حالت ہو گی جو جہنم میں داخلہ کے وقت ان پر طاری ہو گی ۔ اس سے پہلے میدان حشر میں تو یہ لوگ بہت کچھ کہیں گے ۔ بہت سی معذرتیں پیش کریں گے ، ایک دوسرے پر اپنے قصوروں کا الزام ڈال کر خود بے قصور بننے کی کوشش کریں گے ، اپنے گمراہ کرنے والے سرداروں اور پیشواؤں کو گالیاں دیں گے ، حتیٰ کہ بعض لوگ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے جرائم کا انکار کر گزریں گے ، جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ مگر جب تمام شہادتوں سے ان کا مجرم ہونا پوری طرح ثابت کر دیا جائے گا ، اور جب ان کے اپنے ہاتھ پاؤں اور ان کے اعضاء تک ان کے خلاف گواہی دے کر ثبوت جرم میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے ، اور جب بالکل بجا اور برحق طریقے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے انہیں سزا سنا دی جائے گی تو وہ دم بخود رہ جائیں گے اور ان کے لیے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے گی ۔ عذر پیش کرنے کا موقع نہ دینے یا اس کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صفائی کا موقع دیے بغیر ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے گا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم اس طرح قطعی ناقابل انکار حد تک ثابت کر دیا جائے گا کہ وہ اپنی معذرت میں کچھ نہ کہہ سکیں گے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ میں نے اس کو بولنے نہیں دیا ، یا میں نے اس کی زبان بند کر دی ، اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اس پر ایسی حجت تمام کی کہ اس کے لیے زبان کھولنے یا کچھ بولنے کا کوئی موقع باقی نہ رہا ۔
(77:36) ولا یؤذن لہم فیعتذرون : ولا یؤذن کا عطف لا ینطقون پر ہے۔ یعنی عذر پیش کرنے کی ان کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ معذرت کرسکیں ۔ فیعتذرون کا عطف لا یؤذن پر ہے۔ یعنی نہ ان کو اجازت ملے گی نہ وہ معذرت کریں گے۔ فیعتذرون : لا یؤذن لہم کی نفی کو جواب ہی نہیں ہے۔ یعنی عدم معذرت کی وجہ عدم اذن نہیں ہے ورنہ یہ وہم پیدا ہوسکتا ہے کہ :۔ چونکہ ان کی معذرت پیش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اس لئے معذرت پیش نہ کرسکیں گے حقیقت میں ان کے پاس عذر نہ ہوگا۔ اگر اجازت اس کی مل جائے تو پیش کرسکیں۔ (تفسیر مظہری) لیکن قیامت کے روز ان کے لبوں کو بند کردیا جائے گا۔ اور ان کو کسی قسم کا عذر بہانہ پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ (ضیاء القرآن) عذر پیش کرنے کا موقعہ نہ دینا یا اس کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صفائی کا موقع دئیے بغیر ان کے خلاف فیصلہ صادر کردیا جائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم اس طرح قطعی طور پر ناقابل انکار حد تک ثابت کردیا جائے گا کہ وہ اپنی معذرت میں کچھ نہ کہہ سکیں گے یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ میں نے اس کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا یا میں نے اس کی زبان بند کردی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اس پر ایسی حجت تمام کی کہ اس کے لئے زبان کھولنے یا کچھ بولنے کا موقع باقی نہ رہا۔ (تفہیم القرآن) بولنے کی اجازت بھی اس لئے نہ ہوگی کہ کوئی عذر ہی موجودد نہ ہوگا۔ جسے وہ پیش کرسکیں ۔ (تفسیر ماجدی) لا یؤذن۔ مضارع منفی مجہول جمع مذکر غائب اذن (باب سمع) مصدر سے۔ (ان کو ) اجازت نہیں دی جائے گی۔ فیعتذرون ۔ ف تعقیب کا ہے یعتذرون، مضارع جمع مذکر غائب اعتذار (افتعال) مصدر سے کہ وہ معذرت کریں۔ وہ معذرت کرتے ہیں۔
ف 4 کیونکہ وہاں تو بدلہ پانے کا وقت ہوگا۔ عذر اور توبہ کرنے کا وقت دنیا میں گزرچکا ہوگا۔