Surat un Naba

Surah: 78

Verse: 2

سورة النبأ

عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ ۙ﴿۲﴾

About the great news -

اس بڑی خبر کے متعلق ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

What are they asking about? About the great news, meaning, what are they asking about? They are asking about the matter of the Day of Judgement, and it is the great news. Meaning the dreadful, horrifying, overwhelming information. الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(٢) ” عن النبا العظیم “ سے مرادقیامت ہے۔ اس میں اختلاف یہ ہے کہ کوئی تو مانتا ہی نہیں کہ قیامت ہوگی، کوئی مانتا ہے مگر اسے یقین نہیں، کوئی کہتا ہے مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہوسکتے ہیں ؟ یہ تو عقل ہی کے خلاف ہے اور کوئی کہتا ہے کہ جسم زندہ نہیں ہوں گے بلکہ سب خوشی اور غم روح ہی پر گزرے گا، وغیرہ وغیرہ ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

عَنِ النَّبَإِ الْعَظِيمِ الَّذِي هُمْ فِيهِ مُخْتَلِفُونَ (About the Great Event in which they dispute!...78:2, 3). The word naba& means &news& but not every news is naba&. It means a &momentous news of a great event&. This refers to the news of the Day of Judgment. The verse purports to convey that the inhabitants of Makkah ask about the Day of Judgment in which they dispute [ while some of them believed in Resurrection, others did not.] Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) reports that when the revelation of Qur&an started, the pagan Arabs used to form circles and discuss and criticise it, especially about the tremendous import of Resurrection and Judgment referred to in the Qur&an. The pagans thought this was impossible, and they used to have protracted discussion. The disbelievers persuade themselves to believe that the predicted event will never take place, though there were others who believed in the event. The Surah opens by shunning the enquirers and the enquiry, it wonders that anyone should raise any doubts about Resurrection and Judgment. Some of the commentators express the opinion that their enquiry was not a genuine one where they were keen to learn about the truth. So they ask half-mockingly and half in doubt, when that event, so loudly pronounced, will happen. Qur&an has responded by asserting one statement twice for emphasis, thus:

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ۝ ٢ ۙ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ ۔ } ” اس بڑی خبر کے بارے میں۔ “ یعنی قیامت کی خبر کے بارے میں ۔ جیسے سورة المدثر میں فرمایا گیا ہے : { اِنَّہَا لَاِحْدَی الْکُبَرِ ۔ } ” یقینا یہ بہت بڑی باتوں میں سے ایک بات ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(78:2) عن النباء العظیم : نبأ بمعنی خبر۔ عظیم بہت بڑی۔ اس سے کیا مراد ہے اس میں چند اقوال ہیں :۔ (1) اس سے مراد قیامت ہے بمصداق آیت شریفہ : قل ھو نبؤ عظیم انتم عنہ معرضون (38: 67:68) کہ وہ ایک بڑی (ہولناک چیز کی) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے۔ (2) نباء العظیم سے مراد قرآن شریف ہے۔ (3) اس سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ہے۔ جمہور کے نزدیک نبأ العظیم سے مراد قیامت ہے۔ راجح و اولیٰ قول بھی یہی ہے جملہ عن النبأ العظیم کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) یہ عن (اول) سے بدل ہے۔ وہ ایک بہت بڑی (ہولناک چیز کی) خبر کے متعلق پوچھتے ہیں۔ (2) عن النبأ العظیم سے پہلے فعل یتساء لون محذوف ہے۔ اس صورت میں یہ عم یتساء لون (جملہ استفہامیہ) کا جواب ہوگا۔ سوال یہ تھا کہ یہ کس چیز کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔ جواب ہوگا : یہ ایک بہت بڑی (ہولناک چیز کی) خبر کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔ (3) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ دوسرا جملہ بھی استفہامیہ ہو اور حرف استفہام محذوف ہو یعنی کیا یہ نباء عظیم کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔ اس صورت میں دوسرا جملہ پہلے جملہ کی تاکید ہوگا۔ (4) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسرا استفہام پہلے استفہام کی تاکید نہ ہو بلکہ انکاری ہو یعنی کیا یہ سچ مچ ہی نباء عظیم کے متعلق پوچھ رہے ہیں حالانکہ نبأ عظیم کے متعلق پوچھنا زیبا ہی نہیں ہے کیونکہ اس کی حالت تو کھلی ہوئی ہے۔ اس کی شدت وضوح ناقابل سوال ہے۔ اس کی تو مان لینا ہی ضروری ہے (ملاحظہ ہو تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

عن النبا ............................ مختلفون (3:78) ” کیا اس بڑی خبر کے سارے میں جس کے متعلق یہ مختلف چہ میگوئیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں “۔ یہاں اس عظیم حقیقت کا نام نہیں لیا گیا ، صرف اسے نباء عظیم کہا گیا ، جو اس کی صفت ہے ۔ اس لئے کہ تعجب اور مبالغے کے انداز کو جاری رکھا جائے۔ اس دن کے بارے میں ، اختلافات اہل ایمان اور اہل کفر کے درمیان تھے۔ ان لوگوں کے درمیان جو اس پر ایمان لائے تھے اور ایسے لوگوں کے درمیان جو اس کا انکار کرتے تھے ، سوالات دراصل انکار کرنے والوں ہی کی طرف سے تھے۔ پھر اس سوال اور قیل وقال کا کوئی جواب نہیں دیا جاتا ہے اور نہ اس بات کی تصریح کی جاتی ہے کہ یہ سوال و جواب کس امر کے بارے میں ہے۔ یہاں صرف اس امر عظیم کی صفت عظیم کا ذکر دیا جاتا ہے اور ایک ملفوف اور بالواسطہ دھمکی دینے پر ہی اکتفاء کردیا جاتا ہے اور یہ بالواسطہ دھمکی ڈائریکٹ جواب سے زیادہ موثر ہے۔ اور زیادہ خوفزدہ کردینے والی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) یہ اس عظیم الشان واقعہ سے سوال کررہے ہیں اور اس عظیم واقعہ کا حال دریافت کررہے ہیں۔