Surat un Naba

Surah: 78

Verse: 35

سورة النبأ

لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّ لَا کِذّٰبًا ﴿ۚ۳۵﴾

No ill speech will they hear therein or any falsehood -

وہاں نہ تو وہ بیہودہ باتیں سنیں گے اور نہ ہی جھوٹی باتیں سنیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

No Laghw shall they hear therein, nor lying; This is similar to Allah's statement, لااَّ لَغْوٌ فِيهَا وَلااَ تَأْثِيمٌ Free from any Laghw, and free from sin. (52:23) meaning, there will not be any vain, worthless speech therein, nor any sinful lying. Rather, it will be the abode of peace, and everything that is in it will be free of any shortcomings. Allah then says, جَزَاء مِّن رَّبِّكَ عَطَاء حِسَابًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

35۔ 1 یعنی کوئی بےفائدہ اور بےہودہ بات وہاں نہیں ہوگی، نہ ایک دوسرے سے جھوٹ بولیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اگر کسی سے پوچھا جائے کہ آیا تم نے جھوٹ بولا تھا تو وہ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی ؟ گویا انسان جب جھوٹ بولتا ہے تو کسی ضرورت کے تحت بولتا ہے۔ یہ ضرورت خواہ کسی فائدہ کا حصول ہو یا کسی مصیبت یا تکلیف سے بچنا مقصود ہو۔ انہیں دو باتوں کے لیے وہ جھوٹ بولتا، ایک دوسرے سے الجھتا، لڑائی جھگڑا کرتا اور بیہودہ باتیں کرتا ہے۔ لیکن جنت میں نہ تو کوئی تکلیف پہنچنے کا امکان ہوگا نہ کسی فائدہ کا حصول مطلوب ہوگا کیونکہ ہر طرح کی نعمتیں تو انہیں پہلے ہی سے میسر ہوں گی۔ لہذا جنت میں جھوٹ، چغلی، غیبت اور دوسری بیہودہ باتوں کی کبھی ضرورت ہی پیش نہ آئے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(لایسمعون فیھا لغوا ولا کذباً : جنت کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ آدمی کے کان واں نہ کوئی بےہودہ بات سنیں گے اور نہ یہ سنیں گے کہ کوئی کسی کو جھوٹا کہہ رہا ہے۔ کوئی کسی سے جھگڑے گا ہی نہیں کہ اس کی بات کو جھٹلائے۔ گالی گلوچ اور دنگا فساد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس نعمت کی قدر وہی جانتا ہے جسے ان کاموں سے نفرت ہو پھر اس کا واسطہ بےہودہ بکنے والوں اور ایک دور سے کو جھٹلانے والے بدتمیزوں سے رہتا ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْہَا لَغْوًا وَّلَا كِذّٰبًا۝ ٣٥ ۚ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ لغو اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم : عن اللّغا ورفث التّكلّم يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] ، وقال : وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] ، لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] ، وقال : وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] ، وقوله : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] ، أي : كنّوا عن القبیح لم يصرّحوا، وقیل : معناه : إذا صادفوا أهل اللّغو لم يخوضوا معهم . ويستعمل اللغو فيما لا يعتدّ به، ومنه اللَّغْوُ في الأيمان . أي : ما لا عقد عليه، وذلک ما يجري وصلا للکلام بضرب من العادة . قال : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ومن هذا أخذ الشاعر فقال : ولست بمأخوذ بلغو تقوله إذا لم تعمّد عاقدات العزائم وقوله : لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] أي : لغوا، فجعل اسم الفاعل وصفا للکلام نحو : کاذبة، وقیل لما لا يعتدّ به في الدّية من الإبل : لغو، وقال الشاعر : كما أَلْغَيْتَ في الدّية الحواراولَغِيَ بکذا . أي : لهج به لهج العصفور بِلَغَاه . أي : بصوته، ومنه قيل للکلام الذي يلهج به فرقة فرقة : لُغَةٌ. ( ل غ و ) اللغو ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیث تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ/ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون/ 3] اور جو بہیودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص/ 55] اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة/ 25] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ الزام تراشی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے باس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفا نہ انداز سے گرزتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فحش بات کبھی صراحت سے نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمیشہ کنایہ سے کام لیتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اگر کہیں اتفاق سے وہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں ۔ جہاں بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو اس سے دامن بچاکر نکل جاتے ہیں ۔ پس لغو ہر اس بات کا کہاجاتا ہے جو کسی شمار قطار میں نہ ہو ۔ اور اسی سے لغو فی الایمان ہے ۔ یعنی وہ قسم جو یونہی بلا ارادہ زبان سے نکل جائے چناچہ قرآن میں ہے : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور شاعر نے کہا ہے ( البسیط) (395) ولست بماخود بلغو تقولہ اذالم تعمد عاقدات العزائم لغو قسم کھانے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ قصدا غرم قلب کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے ۔ اور آیت کریمہ لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية/ 11] وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے ۔ میں لاغیۃ بمعنی لغو کے ہے اور یہ ( اسم فاعل ) کلام کی صفت واقع ہوا ہے جیسا کہ کاذبۃ وغیرہ ۔ اور خونبہا میں لغو اونٹ کے ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو گنتی میں شمار نہ کئے جائیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (396) کما الغیت فی الدابۃ الحوارجیسا کہ اونٹ کے چھوٹے بچے کو خونبہا میں ناقابل شمار سمجھا جاتا ہے لغی بکذا کے معنی چڑیا کے چہچہانے کی طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سے ہر گز وہ کی زبان اور بولی جس کے ذریعے وہ بات کرتا ہ لغۃ کہلاتی ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21 At several places in the Qur'an this has been counted as among the major blessings of Paradise. Human ears there will remain secure against idle, false and indecent talk. There will be no nonsensical, meaningless gossiping in Paradise; no one will tell lies nor belie others; nor will there be any use of abusive language, slandering; calumnies and false accusations which are so common in the world. (For further explanations, see E.N. 28 of Surah Maryam, E.N.'s 13, 14 of AlWaqi`ah) .

سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :21 قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کو جنت کی بڑی نعمتوں میں شمار کیا گیا ہے کہ آدمی کے کان وہاں بیہودہ اور جھوٹی اور گندی باتیں سننے سے محفوظ رہیں گے ۔ وہاں کوئی یاوہ گوئی اور فضول گپ بازی نہ ہو گی ، کوئی کسی سے نہ جھوٹ بولے گا نہ کسی کو جھٹلائے گا ، دنیا میں گالم گلوچ ، بہتان ، افترا ، تہمت اور الزام تراشیوں کا جو طوفان برپا ہے اس کا کوئی نام و نشان نہ ہو گا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، مریم حاشیہ 38 ۔ جلد پنجم ، الواقعہ ، حواشی 13 ۔ 14 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(78:35) لا یسمعون فیہا لغوا ولا کذابا : یہ جملہ متقین کی ضمیر سے حال ہے فیہا کی ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع۔ (1) کا سا کی طرف راجع ہے یعنی دنیوی شراب پینے کے وقت جس طرح لغو اور بیہودہ باتیں سنی جاتی ہیں جنت کی شراب پیتے وقت وہ نہیں سنی جائیں گی۔ (2) فیہا کی ضمیر مفازا کی طرف راجع ہے اور مفازا سے مراد ہے حدائق اور جنتیں۔ (3) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ھا ضمیر کا مرجع جنت ہے۔ وہاں متقین کوئی بیہودہ بات نہیں سنیں گے اور نہ کوئی جھوٹ (خرافات) کذابا :۔ مصدر۔ منصوب بوجہ مفعول مطلق (باب تفعیل) کسی کو جھوٹا قرار دینا ۔ جھوٹا سمجھنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لا یسمعون ................ کذبا (35:78) ” وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے “۔ یعنی دو ایسی زنگی بسر کررہے ہوں گے کہ اس میں کوئی لغو بات نہ ہوگی۔ اور اس میں کوئی جھوٹ نہ ہوگا کیونکہ جھوٹ پر بالعموم جنگ وجدال کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے وہاں حقائق کھلے ہوں گے اور کسی کو بحث ومباحثے کا موقعہ نہ ہوگا۔ نہ ایسی باتیں وہاں ہوں گی جو بےفائدہ ہوں اور ان میں کوئی بھلائی نہ ہو۔ یہ صورت حالات اس جہان کے لئے مناسب ہے جو دارالخلد ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) وہاں یہ لوگ نہ کوئی بےہود بات سنیں گے اور نہ جھٹلانا ۔ یعنی دنیا کے شرابی جس طرح گالیاں بکتے ہیں اور آپس میں لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکذیب کرتا ہے اور جھوٹ بولتے ہیں ان تمام لغو اور بےہودہ باتوں میں سے کوئی بات بھی وہاں نہ ہوگی۔