Surat un Naba
Surah: 78
Verse: 6
سورة النبأ
اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِہٰدًا ۙ﴿۶﴾
Have We not made the earth a resting place?
کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟
اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِہٰدًا ۙ﴿۶﴾
Have We not made the earth a resting place?
کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟
Have We not made the earth as a bed, meaning, an established, firm and peaceful resting place that is subservient to them. وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا
[٤] کیا کائنات کے چودھری حضرت انسان کی زندگی کا کچھ مقصد نہ ہونا چاہیے :۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کائنات سے چند ایسے آثار و شواہد پیش فرمائے ہیں جن سے ہر انسان کو سابقہ پڑتا ہے اور وہ ان سے متمتع ہو رہا ہے۔ انسان کو بتانا یہ مقصود ہے کہ کائنات میں یہ اشیاء کسی خاص مقصد کے لیے اور بڑی حکمت کے ساتھ پیدا کی گئی ہیں اور ان میں سے ہر چیز اپنے مقاصد کو پورا کر رہی ہے۔ اب رہا انسان جسے عقل و شعور اور ارادہ و اختیار دے کر اور اس کائنات میں چودھری بنا کر بھیجا گیا ہے کہ وہ ان تمام اشیاء سے حسب ضرورت فائدے اٹھائے تو کیا اس کی زندگی کا کچھ بھی مقصد نہ ہونا چاہیے ؟ کیا عقل اسے باور کرتی ہے کہ انسان فائدے تو ہر طرح سے اٹھائے۔ دنیا میں جو جی میں آئے کرتا پھرے۔ پھر جب مرجائے تو اس کا قصہ پاک ہوجائے اور اس سے کوئی مؤاخذہ کرنے والا نہ ہو ؟ کیا کائنات کی باقی سب اشیاء کے علی الرغم انسان کو ہی ایسا بےکار پیدا کیا گیا ہے۔ کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو ؟ انسان کی زندگی کا مقصد یہ آزمائش ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ قوتوں کا استعمال درست کرتا ہے یا غلط ؟ اسے اس امتحان کے لیے اس کی موت تک کا وقت دیا گیا ہے۔ خ اللہ کی نشانیاں زمین کا گہوارہ ہونا :۔ اس دوران وہ پرچہ امتحان کو جس طرح چاہے حل کرسکتا ہے۔ موت کے وقت اسے اس کے امتحان کے نتیجہ سے آگاہ کردیا جائے گا۔ اور دوسری دنیا یعنی عالم آخرت میں اسے اس کے کیے ہوئے اعمال کی جزا و سزا بھی دی جائے گی۔ آگے ان چند آثار و شواہد کا ذکر کیا جارہا ہے۔ سرفہرست یہ ہے کہ زمین اس کے لیے گہوارہ بنادی گئی ہے۔ جس میں ہم نے اس کی رہائش، اس کے چلنے پھرنے اور اس کے کھانے پینے اور نشوونما کے جملہ انتظامات کردیئے ہیں۔
(١) الم نجعل الارض مھداً :: اللہ تعالیٰ نے قیامت کا یقین دلانے کے لئے اور ان کی عقلوں کو جھنجھوڑنے کے لئے اپنی قدرت کے چند عجائب پیش فرمائے ہیں کہ عقل وچھو کہ اتنے بڑے بڑے کام کرنے والے کے لئے تمہیں دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے ؟ اور وہ عجائب بھی خود تمہارے گرد و پیش اور تمہاری ذات میں موجود ہیں۔ (٢) فرمایا جہاں رہتے ہو اسی کو دیکھ لو، کیا عقل میں آسکتا ہے کہ اتنی بڑی زمین کو ہم نے کس طرح پیدا کیا اور اس کی طرح بچھونے کی طرح بچھا دیا ہے ؟
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِہٰدًا ٦ ۙ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ مهد المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] ، ومِهاداً [ النبأ/ 6] م ھ د ) المھد ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا :
(٦۔ ١٠) کیا ہم نے زمین کو فرش اور پہاڑوں کو زمین کی میخیں نہیں بنایا اور ہم نے ہی تمہیں مرد و عورت بنایا اور تمہارے سونے کو تمہارے جسموں کی راحت کی چیز بنایا اور ہم نے ہی رات کو سکونت یا یہ کہ پردہ کی چیز بنایا۔
4 Enough light has been thrown at several places in The Meaning of the Qur'an on the supreme wisdom and power of Allah that underlies His making the earth a carpet, i.e. an abode of perfect peace and rest. For explanation, see E.N.'s 73, 74, 81 of An-Naml, E.N. 29 of Ya Sin, E.N.'s 90, 91 of Al-Mu'min, E.N. 7 of Az-Zukhruf, E.N. 7 of Al-Jathiyah, E.N. 18 of Surah Qaf.
سورة النَّبَا حاشیہ نمبر :4 زمین کو انسان کے لیے فرض ، یعنی ایک پرسکون قیام گاہ بنانے میں قدرت و حکمت کے جو کمالات کار فرما ہیں ان پر اس سے پہلے تفہیم القرآن میں متعدد مقامات پر تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے ۔ مثال کے طور پر مقامات ذیل ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن ، جلد سوم ، النمل ، حواشی 73 ۔ 74 ۔ 81 ۔ جلد چہارم ، یٰس ، حاشیہ 29 ۔ المؤمن ، حواشی 90 ۔ 91 ۔ الزخرف ، حاشیہ 7 ۔ الجاثیہ ، حاشیہ 7 ۔ جلد پنجم ، ق ، حاشیہ 18 ۔
٦۔ ١١۔ اوپر ذکر تھا کہ حشر اور قیامت کی باتوں کو خلاف عقل خیال کرکے اسلام لانے سے پہلے مکہ کے لوگ ان باتوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طرح طرح کی حجتیں کرتے تھے۔ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں دنیا کے چند عجائبات کا ذکر فرمایا ہے جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور جن کی حالت کے دیکھنے سے بڑے بڑے عقل مندوں کی عقل دنگ ہے کسی کی عقل میں نہیں آسکتا ہے کہ اتنی بڑی سات زمینوں کو پانی پر بچھونے کی طرح کیونکر بچھایا ہے۔ اور ان کے ٹکنے اور جم جانے کے لئے اتنے اتنے بڑے پہاڑوں کی میخیں ان میں کو نکر ٹھونکی ہیں کہ جس طرح خیمہ کی میخیں ٹھونک دینے سے خیمہ خوب مضبوط اور چورس ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پہاڑوں کی میخوں سے زمین خوب چورس اور مضبوط ہوگئی ‘ ہلتی جلتی نہیں۔ انسان کو مرد اور عورت کی صورت میں کس طرح پیدا کیا کہ ایک سے دوسرے کی شباہت بالکل الگ ہے۔ ایک حضرت آدم اور حوا کے جسم میں افزائش نسل کا یہ مادہ کیونکر رکھا گیا جس سے قیامت تک کی نسل چلے گی۔ آدمی کے مرجانے اور مرجانے کے بعد جینے کی نشانی کے لئے سونے اور جاگنے کو کس طرح پیدا کیا ہے پھر ایسے صاحب قدرت سے یہ کیا بعید ہے کہ جس طرح اس نے سرے سے بغیر کسی نمونہ کے ایک دفعہ یہ سب کچھ پیدا کیا ہے وہ دوبارہ اسی نمونہ کے موافق جو کچھ چاہے پھر پیدا کر دے۔ کیونکہ جب ایک چیز کا نمونہ قرار پا کر پیدائش دنیا سے اس کے ختم ہوجانے تک ہزارہا برس تک وہ نمونہ چل چکا ہے تو پھر دوبارہ اسی چیز کا بنانا نہایت سہل ہے اسی لئے سورة روم میں فرمایا وھوالذی یبد و الخلق ثم یعیدہ وھوا ھون علیہ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے تجربہ کے موافق بھی اسی طرح دوبارہ ہر چیز کا بنانا سہل ہے ورنہ اللہ کی قدرت کے آگے تو سب کچھ سہل اور آسان ہے اور یہ دوبارہ پیدائش اسی واسطے ضرور ہے کہ دنیا کی پیدائش سے اس کے ختم تک جو کچھ نیکی بدی دنیا میں ہوئی ہے اس کی جزا و سزا ہوجائے اور دنیا کی پیدائش بلا نتیجہ نہ رہے چناچہ اسی مطلب کو سورة جاثیہ میں ان لفظوں سے ادا فرمایا ہے۔ وخلق اللہ السموت والارض بالحق ولتبزی کل نفس بماکسبت وھولا یظلمون جس کا حاصل مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد نیک و بد کا انصاف نہ ہوتا تو یہ ایک بےانصافی تھی کیونکہ نیکی کا ثمرہ بدی کی پرسش کچھ بھی نہ ہوتا۔ یہ خلاف انصاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس ارادہ سے پیدا کیا ہے کہ دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد ایک دن نیک و بد کا انصاف ہو کر جزا و سزا ہوجائے اور دنیا کا پیدا کرنا ناانصافی کی بنیاد پر نہ رہے۔ سبات کہتے ہیں راحت اور سکون کو۔ نیند سے تھکان رفع ہو کر ایک طرح کی راحت حاصل ہوجاتی ہے ‘ اس لئے نیند کو سبات فرمایا رات کو لباس اس لئے فرمایا کہ جس طرح کپڑا بدن کو ڈھانک لیتا ہے اسی طرح رات کا اندھیرا ہر چیز پر چھا جاتا ہے اور دن کو روز گار کا موقع محل اس لئے فرمایا کہ اس میں چل پھر کر آدمی ہر طرح گزران کی صورت نکال سکتا ہے اگر رات کی طرح دن کو بھی اندھیرا رہتا تو آدمی دنیا کا کوئی کام دھندا نہ کرسکتا تھا۔ مسند امام احمد و ترمذی ١ ؎ میں ابوہریرہ (رض) سے اور مسند بزار وغیرہ میں عباس اور ابوذر سے اور مستدرک حاکم میں عمرو بن بن العاص سے جو روایات ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک اور اسی طرح ایک زمین سے دوسری زمین تک پانسو برس کی راہ ہے اور ہر آسمان کا فاصلہ بھی اسی قدر ہے۔ زمنیوں میں پانسو پانسو برس کے راستہ کے ٹکڑے کو حاکم نے صحیح کہا ہے اور باقی کے ٹکڑے کی چند روایتیں ہیں جن میں ایک سے دوسری روایت کو تقویت ہوجاتی ہے۔ اس حدیث سے ان اہل ہیئت کا قول بےاصل ٹھہرتا ہے جو کہتے ہیں کہ زمینوں کے مابین کچھ فاصلہ نہیں ہے۔ اسی طرح صحیح ٢ ؎ بخاری وغیرہ میں صحابہ کی ایک جماعت سے روایات ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص ایک بالشت بھر زمین بھی کسی کی دبا لے گا قیامت کے دن ساتوں زمینوں کے اسی قدر ٹکڑے کا ایک طوق بنا کر ایسے شخص کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ آیت اللہ الذی خلق سمع سموت ومن الارض مثلھن اور ان حدیثوں سے ان متکلمین کا قول غلط قرار پاتا ہے جو زمین کے ایک ہونے کے قائل ہیں۔ ترمذی ٣ ؎ وغیرہ میں جو حضرت انس (رض) سے روایت ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب زمین پانی پر بچھائی گئی تو وہ ہلتی تھی اس واسطے اس کی مضبوطی کے لئے پہاڑ پیدا کرکے میخوں کی طرح اس میں ٹھونکے گئے۔ اگرچہ اس کیس ند میں ایک شخص سلیمان بن ابی سلیمان مجہول ہے۔ لیکن آیت والقی فی الارض رواسی ان تمیدبکم سے اور مسند ٤ ؎ عبد الرازق میں جو بعض آثار ہیں ان سے اس روایت کی پوری تائید ہو کر سلیمان کی مجہولیت کسی قدر رفع ہوجاتی ہے سورة انبیاء میں گزر چکا کہ پہاڑوں کی میخیں زمین میں اس حکمت سے ٹھونکی گئی ہیں کہ پہاڑوں میں گھاٹیاں بھی رکھی گئی ہیں تاکہ پھرنے چلنے کا راستہ بند نہ ہو۔ صحیح بخاری ٥ ؎ وغیرہ میں جو حضرت عائشہ سے روایت ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ کی شرارتوں سے بہت تنگ آگئے تو اللہ تعالیٰ نے ملک الجبال کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا۔ اس فرشتے نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں تو مکہ کے ارد گرد کے دو پہاڑوں میں اہل مکہ کو بھینچ کر ان کا کام تمام کر دوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں نہیں ‘ مجھ کو تو اللہ کی ذات سے یہ توقع ہے کہ ان لوگوں کی نسل میں وہ لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کو وحدہ لاشریک اور مجھے اس کا رسول جانیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اور خدمتوں کی تعیناتی کی طرح پہاڑوں کے انتظام پر بھی فرشتوں کا ایک خاص گروہ تعینات ہے اور ملک الجبال اسی گروہ کے سردار کا لقب ہے۔ (١ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة الحدید ص ١٨٥ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب اثم من ظلم شیئا من الارض ص ٣٣١‘ ٣٣٢ ج ١۔ ) (٣ ؎ جامع ترمذی اواحر ابواب التیرار ص ١٩٨ ج ٢۔ ) (٤ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٥٦٥ ج ٢ و تفسیر ابن جریر ص ٩٠ ج ١٤۔ ) (٥ ؎ صحیح بخاری۔ باب بعد باب ذکر الملئکۃ ص ٤٨٨ ج ١۔ )
(78:6) الم نجعل الارض مھدا۔ یہاں سے لے کر آیت نمبر 16 تک اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کو نو (9) مصنوعات کا ذکر کرکے اپنی توحید پر، قدرت حشر پر اور اپنی عطا کی ہوئی نعمتوں کے وجوب شکر پر دلیل ذکر کی ہے تاکہ توحید و عبادت کے داعی کی دعوت کو لوگ مانیں اور اس کا اتباع کریں۔ أ ہمزہ استفہامیہ ہے لم نجعل مضارع منفی جحد بلم صیغہ جمع متکلم۔ کیا ہم نے نہیں بنایا۔ الارض مفعول اول مھدا مفعول ثانی۔ جعلنا کے۔ مھدا۔ بستر، ہموار میدان۔ اس کی جمع مھد ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا ہم نے زمین کو (تمہارے رہنے چلنے پھرنے کے لئے) فرش نہیں بنادیا ہے (یعنی ضرور بنادیا ہے) جملہ استفہام تقریری ہے۔ یعنی استفہام کی غرض یہ ہے کہ مخاطب کو اقرار و عبادت پر آمادہ کیا جائے۔ یا یہ استفہام انکاری ہے اور انکار نفی ثبوت کا فائدہ دیتا ہے۔
یہ سفر اس عظیم اور طویل و عریض کائنات کے اطراف و جوانب میں ہے ، اس سفر میں ہم بیشمار مناظر دیکھتے ہیں ، اور مشاہدے کرتے ہیں۔ یہ طویل مناظر اور بیشمار تخیلاتی تصاویر ہمارے سامنے نہایت ہی محدود اور مختصر الفاظ کے ذریعہ پیش کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت ہی محدود وقت میں ، محدود الفاظ کے ذریعہ جب یہ مناظر پردہ تخیل پر گزرتے ہیں تو فکر ونظر پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ عقل وخرد کی تاروں پر مضراب اپنا کام نہایت تیزی اور تسلسل کے ساتھ کررہا ہے۔ یہ سب تصورات ایک اثباتی استفہام کے انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک طاقتور ہاتھ ، نہایت ہی غفلت میں سوئے ہوئے لوگوں کو جگارہا ہے۔ جو ان کے قلب ونظر کو اللہ کی اس گوناگوں مخلوقات کے مشاہدے کی طرف متوجہ کررہا ہے۔ اور یہ دعوت دے رہا ہے کہ اس نظام کے پیچھے کام کرنے والی قوت مدبرہ پر ذرا غور کرو کہ کس طرح ہر چیز کو اس نے ایک مقدار کے مطابق رکھا ہوا ہے۔ کس طرح یہ کائنات پیدا کی گئی ہے ، پیدا ہورہی ہے۔ کیا کوئی عقل یہ سوچ سکتی ہے کہ یہ مخلوقات یونہی چھوڑ دی جائے گی اور کوئی حساب و کتاب نہ ہوگا بلکہ حساب و کتاب ہوگا اور یہ جب واقعہ ہوگا تو یہ وقت کی عظیم خبر ہوگی اور اس کی شہ سرخی لگے گی۔ مگر افسوس کہ اس عظیم حقیقت کے بارے میں بہ لوگ اختلاف رائے رکھتے ہیں ۔ اس سفر کے کئی مراحل ہیں ، پہلا مرحلہ اس زمین کے مطالعے کا ہے۔ الم نجعل .................... اوتادا (7:78) ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا ، اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا “۔ مہاد کے معنی ہیں سیروسیاحت کے لئے تیار کردہ۔ نیز گہوارے کی طرح نرم۔ دونوں مفہوم لفظ مہاد سے نکلتے ہیں اور باہم قریب ہیں۔ انسان علم ومعرفت کے جس مقام پر بھی ہو اور تہذیب و تمدن کے جس مرحلے میں بھی ہو ، وہ اس حقیقت کو سمجھتا ہے کہ زمین اس کے لئے گہوارہ ہے بطور حقیقت واقعہ اس چیز کو سمجھنے کے لئے کسی بڑی مقدار علم کی ضرورت نہیں۔ پہاڑوں کا میخ کی طرح مضبوطی سے جما ہوا ہونا بھی انسان کو ہمیشہ نظر آتا ہے۔ اگرچہ وہ پتھر کے دور میں ہو یا زمانہ حال کی علمی ترقی کے دور کا ہو ، یہ حقائق محسوسات ہیں۔ معمولی توجہ سے دریافت ہوسکتے ہیں۔ البتہ جس حقیقت کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے وہ پتھر کے دور کے انسان کے ابتدائی احساسات سے ذرا گہری ہے۔ انسان نے جوں جوں علم ومعرفت میں ترقی کی ، وہ اس کائنات کے حقائق کی گہرائیوں تک جاپہنچا۔ اور یہ حقائق انسان کی نفسیات پرچھاتے رہے۔ اور انسان نے اس بات کا ادراک کرلیا کہ اس کائنات کی پشت پر ایک گہری حکمت اور تدبیر کام کررہی ہے۔ اور اس کے اندر ایک پیچیدہ ٹیکنالوجی رکھ دی گئی ہے اور تمام مخلوقات اور موجودات باہم مربوط اور معاون ہیں۔ اور ایک دوسرے کی ضروریات پوری کررہے ہیں۔ اور یہ کہ اس زمین کو خصوصاً انسانی زندگی کے لئے ممدومعاون اور گہوارہ بنایا گیا ہے۔ اور یہ انسان اس کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور اس کے اور ان کائناتی قوتوں کے درمیان ایک قسم کی مفاہمت ہے۔ زمین کو خصوصیت کے ساتھ انسانی حیات کے لئے گہوارہ بنایا گیا ہے ، اور یہ ایک ایسا ثبوت ہے جس کی حقانیت میں شک نہیں کیا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ دیکھنے والا عقل وخرد سے بےبہرہ نہ ہو اور وہ اس ظاہری کائنات کی پشت پر بھی جھانک کر دیکھ سکتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اس زمین میں جو قوتیں پیدا کی ہیں ، اگر ان کی نسبت ترکیب کے اندر معمولی ردوبدل بھی کردیا جائے ، اور زمین کے ظروف واحوال وہ نہ رہیں جو ہیں ، یا اگر زمین کی تخلیق کے اندر ملحوظ عناصر کے درمیان میں سے کسی ایک عنصر ہی کو غائب کرکے اس مرکب کی نسبتوں کے اندر ذرا سا بھی اختلال واقع ہوجائے تو زمین جس کو انسان کے لئے گہوارہ بنایا گیا ہے ، انسان کے لئے موت کا کنواں بن جائے اور اس کے اندر سے وہ صفت مفقود ہوجائے جس کی طرف قرآن یہاں اشارہ کررہا ہے۔ قرآن نے تو اس بات کی طرف یہاں مجمل اشارہ فرمایا ہے۔ تفصیلات انسان پر چھوڑ دی ہیں تاکہ انسان اپنی عقل وخرد اور علم و تجربہ کے مطابق تفصیلات کا مطالعہ کرے۔ اور اللہ نے پہاڑوں کو زمین کے اندر میخوں کی طرح گاڑدیا۔ ہر انسان ایک سرسری نظر سے اس بات کو ظاہراً پاتا ہے کہ پہاڑ زمین کے اندر میخوں کی طرح گاڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح جس طرح خیمے کی میخیں ہوتی ہیں ، اور پہاڑ خیموں کی طرح نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی حقیقت کیا ہے ، تو قرآن سے ہم یہ پاتے ہیں اور اس بات کا ادراک کرتے ہیں کہ یہ زمین کو مضبوط کرنے اور اس کا توازن قائم کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لئے ازحد ضروری ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پہاڑ اس لئے قائم کیے گئے ہوں تاکہ زمین پر سمندروں کی گہرائیوں اور پہاڑوں کی بلندیوں کی وجہ سے ایک توازن قائم ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی وجہ سے زمین کے اندرونی سکیڑ اور سطحی سکیڑ کے درمیان توازن قائم کیا گیا ہو۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان پہاڑوں کی وجہ سے زمین کے بعض حساس مقامات پر زلزلوں اور آتش فشانیوں کو روکا گیا ہو ، اور ان وجوہات کے علاوہ بعض دوسری نامعلوم وجوہات کے ناطے پہاڑوں کو میخیں کہا گیا ہو۔ جن کا ابھی تک انسان کو علم ہی نہ ہوا ہو ، کیونکہ قرآن نے کئی نامعلوم حقائق کی طرف اشارات اور واضح اشارات کیے تھے اور انسانوں نے ان کا ایک نہایت ہی محدود حصہ صدیوں بعد معلوم کیا ہے۔ دوسرا سفر دراصل انسانی نفسیات کی وادیوں میں ہے۔ نفس انسانی کے بعض پہلوﺅں کو لیا گیا ہے۔
4:۔ ” اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ “۔ دنیوی نعمتوں کا بیان ہے۔ دنیوی تکلیفوں کا ذکر مقایسۃً ترک کردیا گیا ہے۔ ” مِہَادًا “ فراش، بستر۔ ” اَوْتَاد “ وتد کی جمع ہے یعنی میخیں۔ جس طرح میخوں سے کسی چیز کو محکم کردیا جاتا ہے اسی طرح پہاڑوں سے زمین کو بوجھل کر کے مستحکم کردیا گیا ہے تاکہ وہ ہل جل کر باسیوں کے لیے تشویش اور ابتری کا باعث نہ بنے۔ ” اَزْوَاجًا “ یعنی نر و مادہ۔ ” سُبَاتًا “ ترک اعمال سے راحت و آرام کا باعث۔ ” لِبَاسًا “ پردہ اور ستر۔ رات ان چیزوں کی پردہ پوشی کرتی ہے جن کو آدمی ظاہر کرنا پسند نہیں کرتا۔ ” مَعَاشًا “ ظرف زمان۔ روزی کمانے کا وقت۔ ” سَبْعًا شِدَادًا “ شدیدۃ کی جمع مضبوط اور محکم۔ ساتوں آسمان نہایت مضبوط اور مستحکم ہیں نہ گر سکتے ہیں نہ ان میں ٹوٹ پھوٹ کا اندیشہ ہے الا اذا جاء وعد اللہ۔ ” سِرَاجًا وَّھَّاجًا “ روشن اور جگمگاتا چراغ جس میں روشنی بھی ہے اور حرارت بھی۔ مراد سورج ہے۔ ” اَلْمُعْصِراتِ “ وہ بادل جو برسنے ہی والے ہوں۔ ” ثَجَّاجًا “ بکثرت بہنے والا۔ ” اَلْفَافًا “ گنجان۔ یہ استفہام انکاری ہے۔ یہ اسلوب زیادہ مؤثر ہے کیونکہ اس میں مخاطب کی طرف سے اقرار و اعتراف کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جس طرح ہم نے تم کو دنیا میں یہ نعمتیں عطا کی ہیں اور مصائب بھی ہماری طرف سے آتے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی ہم مومنوں کو انعامت دیں گے اور نافرمانوں کو عذاب کا مزہ چکھائیں گے ان دنیوی انعامات کی فراوانی سے ہماری قدرت کاملہ کا اندازہ لگالو تو کیا دوبارہ زندہ کرنا ہمارے لیے اس سے زیادہ مشکل ہے ؟۔ لما انکروا البعث قیل لھم الم یخلق من اضیف الیہ البعث ھذہ الخلائق العجیبۃ فلم تنکرون قدرتہ علی البعث وما ھو الاکتراع کہذہ الاختراعات (مدارک) ۔