Surat un Naziaat
Surah: 79
Verse: 29
سورة النازعات
وَ اَغۡطَشَ لَیۡلَہَا وَ اَخۡرَجَ ضُحٰہَا ﴿۪۲۹﴾
And He darkened its night and extracted its brightness.
اسکی رات کو تاریک بنایا اور اسکے دن کو نکالا ۔
وَ اَغۡطَشَ لَیۡلَہَا وَ اَخۡرَجَ ضُحٰہَا ﴿۪۲۹﴾
And He darkened its night and extracted its brightness.
اسکی رات کو تاریک بنایا اور اسکے دن کو نکالا ۔
Its night He covers and He brings out its forenoon. meaning, He made its night dark and extremely black, and its day bright, luminous, shining and clear. Ibn Abbas said, "He did Aghtasha of its night means that He made it dark." Mujahid, `Ikrimah, Sa`id bin Jubayr and a large group have said this as well. In reference to Allah's statement, وَأَخْرَجَ ضُحَـهَا And He brings out its forenoon. meaning, He illuminated its day. Then Allah says, وَالاْاَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا
[٢١] لیل ونہار :۔ یعنی اس آسمان میں سورج پیدا کیا ہے۔ جب تک وہ اہل زمین کے سامنے رہتا ہے تو یہ ان کے لیے دھوپ کا وقت اور دن ہوتا ہے اور جب وہ غروب ہوجاتا ہے اور چھپا رہتا ہے تو یہ ان کے لیے رات کا وقت ہوتا ہے۔
وَاَغْطَشَ لَيْلَہَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىہَا ٢٩ ۠ غْطَشَ قال تعالی: أَغْطَشَ لَيْلَها[ النازعات/ 29] ، أي : جعله مظلما، وأصله من الْأَغْطَشُ ، وهو الذي في عينه شبه عمش، ومنه قيل : فلاة غَطْشَى: لا يهتدی فيها، والتَّغَاطُشُ : التّعامي عن الشیء . ( غ ط ش ) أَغْطَشَ لَيْلَها[ النازعات/ 29] اور اس نے رات کو تاریک بنایا ۔ یہ اصل میں رجل اغطش سے ہے جس کے معنی کمزور نظر اور چندھے آدمی کے ہیں ۔ فلاۃ غطشی اس صحرا کو کہتے ہیں جس میں راستہ نہ ملتا ہو ۔ التغاطش کسی چیز سے آنکھیں بند کرلینا ۔ غفلت ۔ برتنا ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ ضحی الضُّحَى: انبساطُ الشمس وامتداد النهار، وسمّي الوقت به . قال اللہ عزّ وجل : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس/ 1] ، إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات/ 46] ، وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی/ 1- 2] ، وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات/ 29] ، وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى [ طه/ 59] ، وضَحَى يَضْحَى: تَعَرَّضَ للشمس . قال : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] ، أي : لك أن تتصوّن من حرّ الشمس، وتَضَحَّى: أَكَلَ ضُحًى، کقولک : تغدّى، والضَّحَاءُ والغداءُ لطعامهما، وضَاحِيَةُ كلِّ شيءٍ : ناحیتُهُ البارزةُ ، وقیل للسماء : الضَّوَاحِي ولیلة إِضْحِيَانَةٌ ، وضَحْيَاءُ : مُضيئةٌ إضاءةَ الضُّحَى. والأُضْحِيَّةُ جمعُها أَضَاحِي وقیل : ضَحِيَّةٌ وضَحَايَا، وأَضْحَاةٌ وأَضْحًى، وتسمیتها بذلک في الشّرع لقوله عليه السلام : «من ذبح قبل صلاتنا هذه فليُعِدْ» ( ض ح و ) الضحی ٰ ۔ کے اصل معنی دہوپ پھیل جانے اور دن چڑھ آنے کے ہیں پھر اس وقت کو بھی ضحی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس/ 1] سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات/ 46] ایک شام یا صبح وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی/ 1- 2] آفتاب کی روشنی کی قسم اور رات کی تاریکی کی جب چھاجائے ۔ وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات/ 29] اور اسکی روشنی نکالی ۔ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى[ طه/ 59] اور یہ لوگ ( اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہوجائیں ۔ ضحی یضحیٰ شمسی یعنی دھوپ کے سامنے آنا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ۔ یعنی نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاؤ گے ۔ تضحی ضحی کے وقت کھانا کھانا جیسے تغدیٰ ( دوپہر کا کھانا کھانا ) اور اس طعام کو جو ضحی اور دوپہر کے وقت کھایا جائے اسے ضحاء اور غداء کہا جاتا ہے ۔ اور ضاحیۃ کے معنی کسی چیز کی کھلی جانب کے ہیں اس لئے آسمان کو الضواحی کہا جاتا ہے لیلۃ اضحیانۃ وضحیاء روشن رات ( جس میں شروع سے آخر تک چاندنی رہے ) اضحیۃ کی جمع اضاحی اور ضحیۃ کی ضحایا اور اضحاۃ کی جمع اضحیٰ آتی ہے اور ان سب کے معنی قربانی کے ہیں ( اور شرقا قربانی بھی چونکہ نماز عید کے بعد چاشت کے وقت دی جاتی ہے اس لئے اسے اضحیۃ کہاجاتا ہے حدیث میں ہے (9) من ذبح قبل صلوتنا ھذہ فلیعد کہ جس نے نما زعید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کردیا وہ دوبارہ قربانی دے ۔
15 The night and the day have been attributed to the heaven, for the night falls when the sun of the heavens sets and the day dawns when it rises. The word "cover" has been used for the night in the sense that after the sun has set the darkness of the night so spreads over the earth as though it has covered it from above by a curtain.
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :15 رات اور دن کو آسمان کی طرف منسوب کیا گیا ہے ، کیونکہ آسمان کا سورج غروب ہونے سے ہی رات آتی ہے اور اسی کے طلوع ہونے سے دن نکلتا ہے ۔ رات کے لیے ڈھانکنے کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے سورج غروب ہونے کے بعد رات کی تاریکی اس طرح زمین پر چھا جاتی ہے جیسے اوپر سے اس پر پردہ ڈال کر ڈھانک دیا گیا ہو ۔
(79:29) واغطش لیلہا واخرج ضحھا : اغطش ماضی واحد مذکر غائب۔ اغطاش (افعال) مصدر سے جس کے معنی تاریک ہونا اور تاریک کرنا کے ہیں۔ ضحی کے معنی دھوپ کے پھیلنے اور دن کے چڑھنے کے ہیں۔ نیز وقت چاشت کو ضحی کہتے ہیں۔ وہ وقت جب دھوپ چڑھ جائے۔ ترجمہ ہوگا :۔ اس نے تاریک کیا اس کی رات کو اور ظاہر کیا اس کے دن کو۔ ھا ہر دو جگہ آسمان کے لئے ہے۔ رات کی سیاہی اور سن کے اجالے کو آسمان کی طرف منسوب کیا کیونکہ اس کا تعلق آدتاب کے طلوع اور غروب سے ہے جو اجران سماویہ میں سے ہے۔
ف 15 رات اور دن کو آسمان کی طرف منسوب کیا گیا کیونکہ دونوں کا تعلق سورج کے طلوع و غروب سے ہے۔
7۔ رات اور دن کو آسمان کی طرف اس لئے منسوب کیا کہ رات اور دن آفتاب کے طلوع اور غروب سے ہوتے ہیں اور آفتاب آسمان میں ہے۔
واغطش ............ ضحھا (29:79) ” اور اس کی رات ڈھانکی اور اس کا دن نکالا “۔ اس انداز تعبیر میں لفظاً اور معنی شدت اور ترنم ہے۔ اور یہ انداز تعبیر اس سورت کی شدت اور قوت کے عین مطابق ہے۔ واغطش لیلھا (29:79) ” کے معنی ہیں رات کو سیاہ اور تاریک بنادیا۔ اور اخرج ضحھا (29:79) ” کے معنی ہیں ، دن کو روشن کیا۔ تاریکی اور روشنی کے لئے یہاں قرآن نے جو الفاظ چنے ہیں وہ سیاق کلام کے لئے بہت موزوں ہیں۔ روشنی اور تاریکی کا پے درپے آنا اور جانا ، رات کی تاریکی اور چاشت کی روشنی ہر شخص کا دیکھا ہوا منظر ہے۔ ہر دل اس سے متاثر ہوتا ہے۔ انسان بعض اوقات زیادہ مانوس ہونے کی وجہ سے گردش لیل ونہار سے وہ تاثر نہیں لیتا جو قرآن یہاں بیان کرتا ہے ، لیکن قرآن مجید کا یہ کمال ہے کہ وہ انسانی احساسات کو تیز کرتا ہے اور انسان بھولے بسرے نغمے گانے لگتا ہے اور یہ سب کچھ انسان کو بالکل جدید لگتا ہے۔ گویا ہر دن ایک نیا دن طلوع ہوتا ہے۔ کل وہ شعور اور وہ تاثر نہ تھا جو آج قرآن کو پڑھ کر انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ ان حقائق کے حوالے سے قرآن انسانی احساسات کو بیدار کرتا ہے اور جوں جوں کائنات کے ان مناظر اور حقائق کے بارے میں انسانی علم وسیع ہوتا ہے ، انسان کے تاثرات ، اس کی حیرانگی اور اس کی دہشت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
(29) اور اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو ظاہر کیا اور کھول نکالی اس کی دھوپ۔ منکرین بعث کو مخاطب کرکے فرمایا تمہارا دوبارہ پیدا کرنا زیادہ سخت اور مشکل ہے یا آسمانوں کا بنانا زیادہ مشکل ہے یعنی فی نفسہ اور فی حدذاتہ ان دونوں باتوں میں کونسی بات زیادہ مشکل ہے ۔ اگرچہ قدرت کے نزدیک کچھ بھی مشکل نہیں مگر تم بتائو فی نفسہ کون سب بات زیادہ سخت ہے اگر آسمانوں کا بنانا اور ان کی درستی اور ان کا نظام زیادہ مشکل ہے تو پھر جو یہ کام کرسکتا ہے اس کو تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ سورة یٰسین میں فرمایا اولیس الذی خلق السموت والارض بقادر علی ان یخلق مثلھم۔ اور سورة مومن میں فرمایا لخلق السموت والارض اکبر من خلق الناس۔ پھر آسمان کی ساخت اور اس کی بناوٹ کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد ہوا اس کی بلندی یعنی اسکی چھت کا بلندی کو تلینچہ کہا کرتے ہیں، یعنی تلینچہ بہت بلند کیا اور پھر اس کو درست اوصاف کیا کہ ان میں کوئی شگاف ہے نہ کوئی بال پڑا ہوا ہے نہ دراڑ پڑی ہوئی ہے۔ پھر ان کا نظام ایسا بنایا کہ دن اس کا سورج کی روشنی سے منور ہوتا ہے اور رات اس کی سورج غروب ہوجانے سے تاریک اور ٹھنڈی ہوتی ہے اور اس تمام نظام کے مقابلہ میں انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا پھر بعث بعدالموت کا یقین کیوں نہیں کرتے آگے زمین کا ذکر فرمایا۔