Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 2

سورة الأنفال

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾

The believers are only those who, when Allah is mentioned, their hearts become fearful, and when His verses are recited to them, it increases them in faith; and upon their Lord they rely -

بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالٰی کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالٰی کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Qualities of the Faithful and Truthful Believers Allah says; إِنَّمَا الْمُوْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ايَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ The believers are only those who, when Allah is mentioned, feel a fear in their hearts and when His Ayat are recited unto them, they increase their faith; and they put their trust in their Lord; Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said about the Ayah, إِنَّمَا الْمُوْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (The believers are only those who, when Allah is mentioned, feel a fear in their hearts), "None of Allah's remembrance enters the hearts of the hypocrites upon performing what He has ordained. They neither believe in any of Allah's Ayat nor trust (in Allah) nor pray if they are alone nor pay the Zakah due on their wealth. Allah stated that they are not believers. He then described the believers by saying, إِنَّمَا الْمُوْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (The believers are only those who, when Allah is mentioned, feel a fear in their hearts) and they perform what He has ordained, وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ايَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا (and when His Ayat are recited unto them, they increase their faith) and conviction, وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (and they put their trust in their Lord), having hope in none except Him." Mujahid commented on, وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (their hearts Wajilat), "Their hearts become afraid and fearful." Similar was said by As-Suddi and several others. The quality of a true believer is that when Allah is mentioned, he feels a fear in his heart, and thus implements His orders and abstains from His prohibitions. Allah said in a similar Ayah, وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَـحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ And those who, when they have committed Fahishah (immoral sin) or wronged themselves with evil, remember Allah and ask forgiveness for their sins; -- and none can forgive sins but Allah -- and do not persist in what (wrong) they have done, while they know. (3:135) and, وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِىَ الْمَأْوَى But as for him who feared standing before his Lord, and restrained himself from vain desires. Verily, Paradise will be his abode. (79:40-41) Sufyan Ath-Thawri narrated that As-Suddi commented, إِنَّمَا الْمُوْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (The believers are only those who, when Allah is mentioned, feel a fear in their hearts), "A man might be thinking of committing injustice or a sin. But he abstains when he is told, `Have Taqwa of Allah', and his heart becomes fearful."' Faith increases when the Qur'an is recited Allah's statement, ... وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ايَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا ... And when His Ayat are recited unto them, they increase their faith; is similar to His statement, وَإِذَا مَأ أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـذِهِ إِيمَـناً فَأَمَّا الَّذِينَ ءامَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَـناً وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ And whenever there comes down a Surah, some of them (hypocrites) say: "Which of you has had his faith increased by it!" As for those who believe, it has increased their faith, and they rejoice. (9:124) Al-Bukhari and other scholars relied on this Ayah (8:2) and those similar, as evidence that faith increases and varies in strength from heart to heart. This is also the view of the majority of the scholars of Islam, prompting some scholars, such as Ash-Shafi`i, Ahmad bin Hanbal and Abu Ubayd to declare that this is the consensus of the Ummah, as we mentioned in the beginning of the explanation of Sahih Al-Bukhari. All the thanks and praises are due to Allah. The Reality of Tawakkul Allah said, ... وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ And they put their trust in their Lord. Therefore, the believers hope in none except Allah, direct their dedication to Him alone, seek refuge with Him alone, invoke Him alone for their various needs and supplicate to Him alone. They know that whatever He wills, occurs and that whatever He does not will never occurs, that He alone is the One Who has the decision in His kingdom, without partners; none can avert the decision of Allah and He is swift in reckoning. Hence the statement of Sa`id bin Jubayr, "Tawakkul of Allah is the essence of faith. Deeds of Faithful Believers Allah said next, الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ

ایمان سے خالی لوگ اور حقیقت ایمان ابن عباس فرماتے ہیں منافقوں کے دل میں نہ فریضے کی ادائیگی کے وقت ذکر اللہ ہوتا ہے نہ کسی اور وقت پر ۔ نہ ان کے دلوں میں ایمان کا نور ہوتا ہے نہ اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے ۔ نہ تنہائی میں نمازی رہتے ہیں نہ اپنے مال کی زکوٰۃ دیتے ہیں ، ایسے لوگ ایمان سے خالی ہوتے ہیں ، لیکن ایماندار ان کے برعکس ہوتے ہیں ۔ ان کے دل یاد خالق سے کپکپاتے رہتے ہیں فرائض ادا کرتے ہیں آیات الٰہی سن کر ایمان چمک اٹھتے ہیں تصدیق میں بڑھ جاتے ہیں رب کے سوا کسی پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ کی یاد سے تھر تھراتے رہتے ہیں اللہ کا ڈر ان میں سمایا ہوا ہوتا ہے اسی وجہ سے نہ تو حکم کا خلاف کرتے ہیں نہ منع کئے ہوئے کام کو کرتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ ان سے اگر کوئی برائی سرزد ہو بھی جاتی ہے تو یاد اللہ کرتے ہیں پھر اپنے گناہ سے استغفار کرتے ہیں حقیقت میں سوائے اللہ کے کوئی گناہوں کا بخشنے والا بھی نہیں ۔ یہ لوگ باوجود علم کے کسی گناہ پر اصرار نہیں کرتے ۔ اور آیتوں میں ہے آیت ( واما من خاف مقام ربہ الخ ) ، جو شخص اپنے رب کے پاس کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشوں سے روکا اس کا ٹھکانا جنت ہے ۔ سدی فرماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے جی میں ظلم کرنے کی یا گناہ کرنے کی آتی ہے لیکن اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر جا وہیں ان کا دل کانپنے لگتا ہے ، ام درداء فرماتی ہیں کہ دل اللہ کے خوف سے حرکت کرنے لگتے ہیں ایسے وقت انسان کو اللہ عزوجل سے دعا مانگنی چاہئے ۔ ایمانی حالت بھی ان کی روز بروز زیادتی میں رہتی ہے ادھر قرآنی آیات سنیں اور ایمان بڑھا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ جب کوئی سورت اترتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا ؟ بات یہ ہے کہ ایمان والوں کے ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ خوش ہو جاتے ہیں ، اس آیت سے اور اس جیسی اور آیتوں سے حضرت امام الائمہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ ایمان کی زیادتی سے مراد ہے کہ دلوں میں ایمان کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے یہی مذہب جمہور امت کا ہے بلکہ کئی ایک نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جیسے شافعی ، احمد بن حنبل ، ابو عبیدہ وغیرہ جیسے کہ ہم نے شرح بخاری کے شروع میں پوری طرح بیان کر دیا ہے ۔ والحمد اللہ ۔ ان کا بھروسہ صرف اپنے رب پر ہوتا ہے نہ اس کے سوا کسی سے وہ امید رکھیں نہ اس کے سوا کوئی ان کا مقصود ، نہ اس کے سوا کسی سے وہ پناہ چاہیں نہ اس کے سوا کسی سے مرادیں مانگیں نہ کسی اور کی طرف جھکیں وہ جانتے ہیں کہ قدرتوں والا وہی ہے جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا ہرگز نہیں ہوتا تمام ملک میں اسی کا حکم چلتا ہے ملک صرف وہی ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں نہ اس کے کسی حکم کو کوئی ٹال سکے وہ جلد ہی حساب لینے والا ہے ، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں اللہ پر توکل کرنا ہی پورا ایمان ہے ۔ ان مومنوں کے ایمان اور اعتقاد کی حالت بیان فرما کر اب ان کے اعمال کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ نمازوں کے پابند ہوتے ہیں ۔ وقت کی ، وضو کی ، رکوع کی ، سجدے کی ، کامل پاکیزگی کی ، قرآن کی تلاوت ، تشہد ، درود ، سب چیزوں کی حفاظت و نگرانی کرتے ہیں ۔ اللہ کے اس حق کی ادائیگی کے ساتھ ہی بندوں کے حق بھی نہیں بھولتے ۔ واجب خرچ یعنی زکوٰۃ مستحب خرچ یعنی للہ فی اللہ خیرات برابر دیتے ہیں چونکہ تمام مخلوق اللہ کی عیال ہے اس لئے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کی مخلوق کی سب سے زیادہ خدمت کرے اللہ کے دیئے ہوئے کو اللہ کی راہ میں دیتے رہو یہ مال تمہارے پاس اللہ کی امانت ہے بہت جلد تم اسے چھوڑ کر رخصت ہونے والے ہو ، پھر فرماتا ہے کہ جن میں یہ اوصاف ہوں وہ سچے مومن ہیں طبرانی میں ہے کہ حارث بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گذرے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تمہاری صبح کس حال میں ہوئی؟ انہوں نے جواب دیا کہ سچے مومن ہونے کی حالت میں ۔ آپ نے فرمایا کہ سمجھ لو کہ کیا کہہ رہے ہو؟ ہر چیز کی حقیقت ہوا کرتی ہے ۔ جانتے ہو حقیقت ایمان کیا ہے؟ جواب دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنی خواہشیں دنیا سے الگ کرلیں راتیں یاد اللہ میں جاگ کر دن اللہ کی راہ میں بھوکے پیاسے رہ کر گذراتا ہوں ۔ گویا میں اللہ کے عرش کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھتا رہتا ہوں اور گویا کہ میں اہل جنت کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ آپس میں ہنسی خوشی ایک دوسرے سے مل جل رہے ہیں اور گویا کہ میں اہل دوزخ کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ دوزخ میں جل بھن رہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا حارثہ تو نے حقیقت جان لی پس اس حال پر ہمیشہ قائم رہنا ۔ تین مرتبہ یہی فرمایا پس آیت میں بالکل محاورہ عرب کے مطابق ہے جیسے وہ کہا کرتے ہیں کہ گو فلاں قوم میں سردار بہت سے ہیں لیکن صحیح معنی میں سردار فلاں ہے یا فلاں قبیلے میں تاجر بہت ہیں لیکن صحیح طور پر تاجر فلاں ہے ۔ فلاں لوگوں میں شاعر ہیں لیکن سچا شاعر فلاں ہے ۔ ان کے مرتبے اللہ کے ہاں بڑے بڑے ہیں اللہ ان کے اعمال دیکھ رہا ہے وہ ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے گا ان کی نیکیوں کی قدردانی کرے گا ۔ گویہ درجے اونچے نیچے ہوں گے لیکن کسی بلند مرتبہ شخص کے دل میں یہ خیال نہ ہوگا کہ میں فلاں سے اعلیٰ ہوں اور نہ کسی ادنیٰ درجے والوں کو یہ خیال ہوگا کہ میں فلاں سے کم ہوں ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ علیین والوں کو نیچے کے درجے کے لوگ اس طرح دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے ستاروں کو دیکھتے ہو ۔ صحابہ نے پوچھا یہ مرتبے تو انبیاء کے ہونگے؟ کوئی اور تو اس مرتبے پر نہ پہنچ سکے گا ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ لوگ بھی جو اللہ پر ایمان لائیں اور رسولوں کو سچ جانیں ۔ اہل سنن کی حدیث میں ہے کہ اہل جنت بلند درجہ جنتیوں کو ایسے دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے کناروں کے چمکیلے ستاروں کو دیکھا کرتے ہو یقیناً ابو بکر اور عمر انہی میں ہیں اور بہت اچھے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 ان آیات میں اہل ایمان کی 4 صفات بیان کی گئی ہیں 1، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ صرف اللہ کی یعنی قرآن کی۔ 2۔ اللہ کا ذکر سن کر، اللہ کی جلالت و عظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ 3۔ تلاوت قرآن سے ایمانوں میں اضافہ ہوتا ہے (جس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے) 4۔ اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی اسباب سے اعراض و گریز بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے، لیکن اسباب ظاہری کو ہی نہیں سب کچھ ہی نہیں سمجھ لیتے بلکہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اصل کار فرما مشیت الٰہی ہی ہے، اس لئے جب تک اللہ کی مشیت بھی نہیں ہوگی، یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں کرسکیں گے اور اس یقین اعتماد کی بنیاد پر پھر وہ اللہ کی مدد و اعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہوتے۔ آگے ان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے اور ان صفات کے حاملین کے لئے اللہ کی طرف سے سچے مومن ہونے کا سرٹیفیکیٹ اور مغفرت و رحمت الٰہی اور رزق کریم کی نوید ہے جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شمار فرمالے) جنگ بدر کا پس منظر۔ جنگ بدر جو 2 ہجری میں ہوئی کافروں کیساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی۔ علاوہ ازیں یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی نیز بےسروسامانی کیوجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مختصرا اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ ابو سفیان کی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سر کردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سامال و اسباب ہجرت کیوجہ سے مکہ رہ گیا تھا یا کافروں نے چھین لیا تھا نیز کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا بھی مقتضائے وقت تھا۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابو سفیان کو بھی اس امر کی اطلاع مل گئی۔ چناچہ انہوں نے ایک تو اپنا راستہ تبدیل کرلیا۔ دوسرے مکہ اطلاع بھجوادی جس کی بنا پر ابو جہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس صورت حال کا علم ہوا تو صحابہ کرام کے سامنے معاملہ رکھ دیا اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر) میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہوگی۔ تاہم پھر بھی لڑائی میں بعض صحابہ نے تردد کا اظہار اور تجارتی قافلے کے تعاقب کا مشورہ دیا، جب کہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] سچے مومن کی علامات :۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں مومنوں کی چند علامات ذکر کر کے بتلایا ہے کہ مومن ہونے کا وہی دعویٰ کرسکتے ہیں جن میں یہ علامات پائی جاتی ہوں، سرفہرست یہ ہے کہ جب ان کے تنازعات کے درمیان اللہ کا ذکر یا اس کا حکم آجائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور وہ اس کی نافرمانی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ دوسری علامت یہ ہے کہ جب ان پر اللہ کے احکام بیان کئے جائیں تو وہ بسر و چشم اس کی اطاعت کرتے ہیں جس سے ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان ایک ہی حالت پر نہیں رہتا بلکہ اللہ کی فرمانبرداری سے اس میں اضافہ اور اس کی نافرمانی سے اس میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے اور تیسری علامت یہ ہے کہ جس کام کا انہیں حکم دیا جاتا ہے وہ اس کے جملہ اسباب تو اختیار کرتے ہیں مگر ان کا بھروسہ ان اسباب پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ اپنی پوری کوششوں کے بعد وہ اس کے انجام اور نتیجہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ : اوپر فرمایا کہ اطاعت ہے تو ایمان ہے، اب ان آیات میں ایمان والوں کی چند صفات بیان فرمائیں۔ سرفہرست یہ ہے کہ جب ان کے تنازعات کے درمیان اللہ کا ذکر یا اس کا حکم آجائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور وہ اس کی نافرمانی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ دوسری علامت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے احکام بیان کیے جائیں تو وہ انھیں سچے دل سے مانتے ہوئے ان کی اطاعت کرتے ہیں، جس سے ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان ایک ہی حالت پر نہیں رہتا بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ دلائل کو دیکھ کر یقین و تصدیق میں بھی اور اعمال کی کمی بیشی کے لحاظ سے بھی۔ تیسری علامت یہ ہے کہ جس کام کا انھیں حکم دیا جاتا ہے وہ اس کے تمام ذرائع اور اسباب تو اختیار کرتے اور اپنی کوشش پوری کرتے ہیں، مگر ان کا بھروسا ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے، اپنی تیاری یا اسباب پر نہیں۔ اپنی پوری کوششوں کے بعد وہ اس کے انجام کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں۔ ان کی چوتھی علامت یہ ہے کہ وہ نماز کو اس کے پورے حقوق اور آداب کے ساتھ ہمیشہ ادا کرتے ہیں اور پانچویں علامت یہ ہے کہ اپنے اموال میں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں، جن لوگوں میں یہ پانچ علامات پائی جائیں اللہ تعالیٰ نے صرف انھی کو ” الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا “ یعنی پکے سچے مومن قرار دیا ہے، ایسے ہی مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجات بھی ہوں گے، بڑی بخشش بھی اور باعزت روزی بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Particular Attributes of the Believer Described in the verses cited above are particular attributes which should be the hallmark of every believer. The hint given here is that every believer should keep checking on his or her physical and spiri¬tual condition and assess if these attributes are present in his or her person. If they are, this calls for being grateful to Allah that He blessed His servant with the attributes of true believers. And should it be that none of these attributes is present there, or is weak or feeble despite being present, then, one must either start being concerned about acquiring them or making them stronger than what they are. The First Attribute: The Fear of Allah The first attribute described here is: الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (those whose hearts are filled with fear when { the name of} Allah is mentioned -2). It means that their hearts are soaked in and brimming with the realization of Allah&s greatness and their love for Him. This state of the heart demands that there be an attending aura of awe and fear around it. This has been mentioned in another verse of the Qur&an as a state which deserves glad tidings for all people of love: وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِين الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ‌ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (that is, give glad tidings to those humble and soft people whose hearts are filled with fear when (the name of) Allah is mentioned - Al-Hajj, 22:34). In both these verses, identified there is a very special pre-requisite of the mention, thought and remembrance of Allah (Dhikr) which is awe and fear. Then, in yet another verse, also enumerated there is a particular property of Dhikrullah, that is: أَلَا بِذِكْرِ‌ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (Listen! Hearts find peace through the remembrance of Allah - Al-Ra` d, 13:28). This tells us that the fear and awe mentioned in this verse are not contrary to the peace and tranquility of the heart. For instance, the fear of a beast or enemy disturbs one&s peace of heart. But, the fear which is generated in the heart as a result of the Dhikr of Allah is totally different from that. Therefore, the word used here is not the exact counterpart of &fear.& It has been called: وجل (wajal) which does not mean fear (khawf) in the absolute sense. Instead, it is the awe, a respectful feeling of fear which emerges in the heart because of the majesty of the most exalted. Some commentators have said that, at this place, the mention and remembrance of Allah means that a person was intending to commit some sin, but when he happened to think of Allah, it made him scared of His punishment as a result of which he turned away from that sin - under this situation, such a fear would mean nothing but the fear of punishment. (A1-Bahr Al-Muhit) The Second Attribute: Increase in in The second attribute of the believer has been identified by saying: &and when His verses are recited before him, they increase them in faith.& What is the meaning of increase in faith? A meaning upon which all scholars, commentators and Hadith experts agree is that &Iman or faith does increase in strength, quality and light. It is also confirmed by experiment and observation that good deeds give strength and stability to the state of one&s faith. The heart is so laid open to the acceptance of truth that good deeds become one&s natural habit; if he leaves them, he feels the pinch; and he develops in himself a natural distaste for sin to the limit that he does not go even near them. This is the great station of &Iman, of faith which has been identi¬fied in Hadith by the term: The sweetness of &Iman: و اذا حلت الحلاوۃ قلبا نشطت فی العبادۃ الاعضاء When the sweetness of &Iman settles down in someone&s heart All parts of his body start relishing its taste in acts of worship! In short, the verse puts the second attribute of a perfect believer as: &When the |"Ayat of Allah Ta` ala are recited& - his faith should become more pronounced in polish and progress, as well as in the desire to do good deeds. This also helps us realize that the way Muslims at large recite and listen to the Qur&an - paying no heed to the due etiquette and reverence of the Qur&an nor having any idea of the greatness of Allah Ta` ala - produces a recitation which is not what is desired, and certainly not what could be expected to generate the best of results, even if that too may not be devoid of thawab (reward). The Third Attribute : Trust in Allah The third attribute of a believer identified here is that he or she should place their trust in Allah. The Arabic word: Tawakkul means trust. The sense is that the believer should have total trust in Allah, One and Pure, free of all conceivable associations and ascriptions, not simply theoretically, but in deeds too, and in all states and conditions of one&s life as well. In a sound Hadith, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: This does not mean that one should abandon material causes and means when it comes to taking care of one&s legitimate needs. The point is that one should not consider material means and instruments as sufficient for real success, instead of which, one should do his best, subject to his ability and courage, to assemble and utilize necessary material means. It is only after that one should entrust his matter with Allah Ta` ala believing that He is the One who has created all means and He is certainly the One who makes means to bear fruits. What would come to be has to be what He wills. In another Hadith, he said: اجملوا فی الطلب و توکلوا علیہ . It means: Make a moderate effort to procure what you need through material means, and then place your trust in Him. In other words, do not let your heart and mind get bogged down with nothing but material ways and means.

خلاصہ تفسیر (بس) ایمان والے تو وہی لوگ ہوتے ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر آتا ہے تو (اس کی عظمت کے استحضار سے) ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ (مضبوط) کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں (اور) جو کہ نماز کی اقامت کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں (بس) سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لئے بڑے بڑے درجے ان کے رب کے پاس اور (ان کے لئے) مغفرت ہے اور عزت کی روزی۔ معارف و مسائل مؤ من کی مخصوص صفات : آیات مذکورہ میں ان مخصوص صفات کا بیان ہے جو ہر مومن میں ہونا چاہئے۔ اس میں اشارہ ہے کہ ہر مومن اپنی ظاہر اور باطنی کیفیات اور صفات کا جائزہ لیتا رہے اگر یہ صفات اس میں موجود ہیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرے کہ اس نے اس کو مؤمنین کی صفات عطا فرمادی۔ اور اگر ان میں سے کوئی صفت موجود نہیں یا ہے مگر ضعیف و کمزور ہے تو اس کے حاصل کرنے یا قوی کرنے کی فکر میں لگ جائے۔ پہلی صفت خوف خدا : پہلی صفت یہ بیان فرمائی (آیت) الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ ، یعنی جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل سہم جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت ان کے دلوں میں رچی اور بھری ہوئی ہے جس کا ایک تقاضا ہیبت و خوف ہے قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اس کا ذکر کرکے اہل محبت کو بشارت دی گئی ہے (آیت) وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ ، الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ ، یعنی خوشخبری دے دیجئے ان متواضع نرم خو لوگوں کو جن کے دل ڈر جاتے ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے۔ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد کے ایک خاص تقاضا کا ذکر ہے، یعنی ہیبت اور خوف اور دوسری آیت میں ذکر اللہ کی یہ خاصیت بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ اس سے دل مطمئن ہوجاتے ہیں (آیت) اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ ۔ یعنی اللہ ہی کی یاد سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں جس خوف وہیبت کا ذکر ہے وہ دل کے سکون و اطمینان کے خلاف نہیں جیسے کسی درندے یا دشمن کا خوف قلب کے سکون کو برباد کردیتا ہے ذکر اللہ کے ساتھ دل میں پیدا ہونے والا خوف اس سے بالکل مختلف ہے اور اسی لئے یہاں لفظ خوف استعمال نہیں فرمایا وَجِلَ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے جس کا ترجمہ مطلق خوف نہیں بلکہ وہ ہیبت ہے جو بڑوں کی جلالت شان کے سبب دل میں پیدا ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس جگہ اللہ کے ذکر اور یاد سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی گناہ کے ارتکاب کا ارادہ کر رہا تھا اسی حال میں اس کو اللہ تعالیٰ کی یاد آگئی تو وہ اللہ کے عذاب سے ڈر گیا۔ اور گناہ سے باز آگیا۔ اس صررت میں خوف سے مراد خوف عذاب ہی ہوگا۔ (بحر محیط) دوسری صفت ایمان میں ترقی : مؤ من کی دوسری صفت یہ بتلائی کہ جب اس کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ ایمان بڑھنے کے ایسے معنی جن پر سب علماء مفسرین و محدثین کا اتفاق ہے یہ ہیں کہ ایمان کی قوت و کیفیت اور نور ایمان میں ترقی ہوجاتی ہے۔ اور تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اعمال صالحہ سے ایمان میں قوت اور ایسا شرح صدر پیدا ہوجاتا ہے کہ اعمال صالحہ اس کی عادت طبعی بن جاتے ہیں جس کے چھوڑنے سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اور گناہ سے اس کو طبعی نفرت پیدا ہوجاتی ہے کہ ان کے پاس نہیں جاتا۔ ایمان کے اسی مقام کو حدیث میں حلاوت ایمان کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے جس کو کسی نے اس طرح نظم کیا ہے : واذاحلت الحلاوة قلبا نشطت فی العبادة الاعضاء یعنی جب کسی دل میں حلاوت ایمان جگہ پکڑ لیتی ہے تو اس کے ہاتھ پیر اور سب اعضاء عبادت میں راحت و لذت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس لئے خلاصہ آیت کے مضمون کا یہ ہوا کہ مومن کامل کی یہ صفت ہونی چاہئے کہ جب اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جائیں تو اس کے ایمان میں جلاء و ترقی ہو اور اعمال صالحہ کی طرف رغبت بڑھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس طرح عام مسلمان قرآن پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں کہ نہ قرآن کے ادب و احترام کا کوئی اہتمام ہے نہ اللہ جل شانہ کی عظمت پر نظر ہے ایسی تلاوت مقصود اور اعلی نتائج پیدا کرنے والی نہیں گو ثواب سے وہ بھی خالی نہ ہو۔ تیسری صفت اللہ پر توکل : تیسری صفت مومن کی یہ بیان فرمائی کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرے۔ توکل کے معنی اعتماد اور بھروسہ کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام اعمال و احوال میں اس کا مکمل اعتماد اور بھروسہ صرف ذات واحد حق تعالیٰ پر ہو۔ صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ اپنی ضروریات کے لئے مادی اسباب اور تدابیر کو ترک کرکے بیٹھ جائے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ مادی اسباب و آلات کو اصل کامیابی کے لئے کافی نہ سمجھے بلکہ بقدر قدرت و ہمت مادی اسباب اور تدبیر کو فراہم کرنے اور استعمال کرنے کے بعد معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے اور سمجھے کہ اسباب بھی اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور ان اسباب کے ثمرات بھی وہی پیدا کرتے ہیں۔ ہوگا وہی جو وہ چاہیں گے۔ ایک حدیث میں فرمایا اجملوا فی الطلب وتوکلوا علیہ۔ یعنی رزق اور اپنی حاجات کے حاصل کرنے کے لئے متوسط درجہ کی طلب اور مادی اسباب کے ذریعہ کوشش کرلو پھر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرو۔ اپنے دل دماغ کو صرف مادی تدبیروں اور اسباب ہی میں نہ الجھا رکھو۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝ ٢ ۚ ۖ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ وجل الوَجَل : استشعار الخوف . يقال : وَجِلَ يَوْجَلُ وَجَلًا، فهو وَجِلٌ. قال تعالی: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ [ الأنفال/ 2] ، إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر/ 52- 53] ، وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ [ المؤمنون/ 60] . ( و ج ل ) الوجل کے معنی دل ہی دل میں خوف محسوس کرنے کے ہیں اور یہ باب وجل یوجل کا مصدر ہے جس کے معیج ڈر نے یا گھبرا نے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ [ الأنفال/ 2] مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو انکے دل ڈر جاتے ہیں ۔ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر/ 52- 53] انہوں نے کہا ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے ۔ یہ وجل کی جمع ہے جس کے معی ہیں ڈر نے ولا ۔ قالُوا لا تَوْجَلْ [ الحجر/ 52- 53]( مہمانوں نے ) کہا کہ ڈر یئے نہیں ۔ وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ [ المؤمنون/ 60] اور ان کے دل ڈر تے رہتے ہیں ۔ تلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس/ 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢) کیوں کہ جب اہل ایمان کو تو اللہ کی جانب سے جب کسی چیز مثلا صلح وغیرہ کا حکم دیا جاتا ہے تو ان کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا ہے۔ اور جب ان کو آیات الہی پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ ان کے یقین اور ایمان کو اور پکا کردیتی ہیں، وہ حضرات غنیمتوں پر انحصار نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2. A man's faith grows as he is able to confirm and submit to the command of God which he comes across. This is especially so where he submits to commands which go against his own personal predilections. A man's faith attains great heights if instead of trying to twist and distort the commands of God and the Prophet (peace he on him), he develops the habit of accepting and submitting to all the commands of God and the Prophet (peace be on him); if he strives to shape his conduct to the teachings which go against his personal opinions and conceptions, which are contrary to his habits, interests and convenience, which are not in consonance with his loyalties and friendships. For if he hesitates to respond positively to God's command, his faith is diminished. One thus learns that faith is not a static, immobile object. Nor is every, act of belief, or unbelief, of the same quality. An act of belief may be better or worse than another act of belief. Likewise, an act of unbelief may differ in quality from another act of unbelief. For both belief and unbelief, are capable of growth and decline. All this concerns the essence of belief and unbelief. However, when belief and unbelief are mentioned as a basis for membership of the Muslim community or in connection with legal rights and responsibilities as necessary corollaries of that membership, a clear line of demarcation has to be drawn between those who believe and those who do not. In this respect the determination of who is a believer and who is not will depend on the basic minimum of belief regardless of quality of belief. In an Islamic society all those who believe will be entitled to the same legal rights and will be required to fulfil the same duties regardless of the differences in the quality of their faith. Likewise, all unbelievers - regardless of the differences in the quality of their unbelief - will be placed in the category of unbelievers disregarding the question whether their unbelief is of an ordinary quality or an extremely serious one.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :2 یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الہٰی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیق کر کے سر اطاعت جھکا دے ، آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف ، اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمان خدا و رسول کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کرلے تو اس سے آدمی کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہوجاتی ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے ، اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی ایک مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا ، اور اگر اس نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا ۔ نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشوونما کی صلاحیت ہے ۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے ۔ اور اس طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقاء بھی ہو سکتا ہے اور تنزل بھی ۔ البتہ فقہی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و واجبات یکساں ہوں گے خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو ۔ اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں ذمی یا حربی یا معاہد و مسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢۔ ٤۔ اللہ پاک نے تخصیص کے ساتھ پانچ صفتیں اس آیت میں بیان فرمائیں کہ کامل مومن وہی ہے جس میں یہ صفتیں پائی جاویں۔ پہلی صفت یہ بیان کی کہ جب اس کے سامنے خدا کا ذکر آوے تو دل میں اس کے ڈر پیدا ہو کیونکہ کامل مومن وہی ہے جو خدا سے ڈرتا ہو دوسری جگہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ مومنوں کے دل خدا کے ذکر سے اطیمنان پاتے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا کہ مومن کے دل میں خدا کے ذکر سے خوف پیدا ہوتا ہے ان دونوں آیتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے کیونکہ خوف خدا کا عذاب سن کر اور اس کا جلال وہیبت یاد کر کے ہونے لگتا ہے اور اطیمنان اس کی رحمتیں اور اوصاف سن کر ہوتا ہے علماء سلف نے لکھا ہے کو خوف کی دو قسمیں ہیں ایک وہ خوف ہے جو عقبے کے عذاب کے خیال سے پیدا ہوتا ہے اور دوسرا وہ خوف ہے جو محض دبدبہ و شوکت سے ہوتا ہے جس کو رعب و دہشت کہتے ہیں بادشاہوں کے دربار میں ایسا ہوا کرتا ہے کہ جو گناہ گار ہیں وہ یوں ڈرتے ہیں کہ ہم پر عذاب ہوگا اور جو مقرب وخاص لوگ ہیں وہ دبدبہ و جلال میں آکر رعب کھاتے ہیں تو اللہ پاک کی بھی یہی حالت ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کون بادشاہ ہوسکتا ہے سارے لوگ اسی کی محتاج ہیں دوسری صفت یہ بیان کی کہ جب خدا کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان اور زیادہ ہوجاتا ہے آیتوں کے سننے سے جس قدر ان کی صدافت زیادہ ہوتی جاتی ہے اسی قدر ان کا ایمان بڑھتا جاتا ہے بخاری (رح) امام شافعی (رح) واحمد (رح) اور اکثر علماء اس کے قائل میں کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے کیونکہ جس کے پاس خدا کی وحدانیت کی دلیلیں اور نیک خصلتیں زیادہ ہوں گی اسی قدر اس کا یقین زیادہ ہوگا اور شک رفع ہوگا۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایمان کی کچھ اوپر ستر شاخیں ہیں افضل شاخ کلمہ طیبہ یعنی لا الہ الا اللہ ہے اور ادنے رستہ سے تکلیف کی چیزوں کا ہٹا دینا جیسے کانٹے پتھر جو رشتہ میں آمد ورفت کی جگہ ہوں پھر فرمایا ایک شاخ ایمان کی حیا بھی ٢ ؎ ہے تیسری صفت اللہ پاک نے مومنوں کی یہ بیان کی کہ وہ ہر کام میں خدا ہی پر بھروسہ کرتے ہیں اس کے سوا کسی سے کسی بات کی امید نہیں رکھتے اسی کی پناہ پکڑتے ہیں دوسروں سے کوئی غرض اور واسطہ نہیں رکھتے یہ تینوں اوصاف مومنوں کے نہایت ہی خوبی کے ساتھ اللہ پاک نے بالتر تیب بیان فرمائے پہلے تو یہ بیان کیا کہ جب خدا کا ذکر ہوتا ہے تو وہ ڈرتے ہیں ذکر کے بعد فرمانبرداری کی بیان کیا کہ جب خدا کی آیتیں سنتے ہیں ان کے ایمان زیادہ ہوتے جاتے ہیں جیسے جیسے ان پر احکام اترتے جاتے ہیں وہ اس کو مانتے چلے جاتے ہیں پھر یہ بیان کیا اس کے سوا اور کسی سے غرض نہیں رکھتے ہیں کسی کو اپنی حاجتوں میں اس کا شریک نہیں ٹھہراتے ہیں۔ یہ تینوں صفتیں باطن کے لحاظ سے بیان کی گئی تھیں اس کے بعد چوتھی اور پانچویں صفت جو ظاہر کی تھی اس کو بیان فرمایا کہ جو لوگ نماز قائم کرتے ہیں کل شرائط اور امور نماز کے مثل وضو وغیرہ غرض جتنے حدود و ارکان نماز میں ہیں سب کو ادا کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے ان کو دیا ہے اس میں سے موقعہ اور محل پر خدا کی اطاعت میں خرچ کرتے نماز اور صدقہ ایسی اطاعات ہیں اس لئے اللہ پاک نے انہی دونوں کو خاص کر بیان فرمایا نماز میں فرض اور نفلی نماز سب داخل ہے اسی طرح صدقہ میں زکوٰۃ اور نفلی صدقہ سب داخل ہے پھر اللہ پاک نے ان لوگوں کی تعریف بیان کی جن میں یہ پانچوں صفتیں پائی جاتی ہیں اس لئے فرمایا کہ یہی لوگ ایمان دار ہیں اور بچے مومن ہیں حق سے مراد یہ ہے کہ ان کے ایمان میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کفر سے وہ لوگ بری ہیں ایمان داری میں خالص اور صاد ہیں ان کے لئے جنت میں درجے ہیں ضحاک کا قول یہ ہے کہ مراد درجات سے یہ ہے کہ جنت والے بعضے بعضوں سے اوپر درجوں میں ہوں گے جو اوپر کے درجوں میں ہوں گے انہیں معلوم ہوگا کہ ان کا درجہ بلند ہے اور جو نیچے کے درجہ میں ہوں گے انہیں نہیں معلوم ہوگا کہ ان سے بھی کوئی بلند درجہ میں ہے معتبر سند سے ترمذی میں عبادہ بن الصامت (رض) اور معاذبن جبل (رض) سے روایات ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں سود اور کجے ہیں ہر درجہ کے درمیان میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان میں ہے فردوس سب درجوں میں بڑا درجہ ہے یہیں سے جنت کے پانی کے دودھ کی اور شراب کی اور شہد کی چاروں نہریں نکلی ہیں اور اسی کے اوپر عرش ہے جب تم لوگ جنت کا سوال کرو تو خدا سے فردوس کا سوال کرو۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:2) وجلت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ وجل مصدر (باب سمع) ڈرجاتے ہیں (ان کے بل) موجل نشیبی گڑھا۔ خوف کی جگہ تلیت ماضٰ مجہول ۔ واحد مؤنث غائب۔ تلاوت کیجاتی ہیں۔ پڑھی جاتی ہیں (آیات اسکی) ۔ زادتھم۔ تو وہ زیادہ کردیتی ہیں ان کو ۔ وہ بڑھا دیتی ہیں ان کو۔ ایمانا بحیثیت ایمان کے یعنی ان کے ایمان کو اور بڑھا دیتی ہیں۔ ان کا ایمان اور قوی ہوجاتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اوپر بیان فرمایا کہ ایمان اطاعت کو مستلزم ہے۔ اب اس آیت میں اموف طاعت کی تفصیل فرمادی ہے توکل کا مفہوم یہ ہے کہ ظاہری اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اصل اعتماد اور بھروسہ اللہ تعالیٰ کے باعث جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت نازل ہوگی اس کے ساتھ تمہارا یمان کے اعتبار سے بھی جیسا کہ حدیث شعب ایمان میں ہے اور دلائل کی کثرت اور قوت سے بھی جیسا کہ حدیث میں ہے لو و زن ایمان ابی بکر بیاھل الارض لور جع، کہ حضرت ابوبکر (رض) کا ایمان کا ایمان تمام اہل زمین کے ایمان سے بھاری ہے اہل حدیث کا یہی مسلک ہے ( کذافی ابن کثیر، کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انفال کے بارے میں ابتدائی حکم دینے کے بعد مومن کی صفات کا بیان اور اس کا صلہ۔ پہلی آیت میں ایک سوال کا جواب دینے کے بعد مسلمانوں کو جامع ہدایات دی گئی ہیں جس پر عمل پیرا ہونے سے مسلمان میں یہ اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں جن سے وہ پکا مومن بن جاتا ہے۔ درجات بلند ہونے کے ساتھ مومن کو اللہ کی طرف سے اس کی بخشش اور بہترین رزق کی گارنٹی حاصل ہوتی ہے۔ صحابہ کرام ] نے مال غنیمت کی تقسیم کا حکم سنتے ہی ایک ایک چیز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کی اور دل و جان سے اس پر راضی ہوگئے۔ اس پر ان کی تعریف کرتے ہوئے مزید تاکید کی گئی ہے کہ مومن تو وہ ہیں کہ جن کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو تو ان کے دل موم سے زیادہ نرم ہوجاتے ہیں۔ اور جب ان کے سامنے اس کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور وہ عسر اور یسر میں اپنے رب پر توکل کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کر رکھا ہے اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی لوگ پکے اور سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں۔ اگر ان سے کوئی گناہ سرزدہو جائے تو اللہ تعالیٰ انھیں اپنے کرم سے معاف کردیتے ہیں۔ ان کے لیے نہایت ہی عمدہ رزق تیار کیا گیا ہے یعنی جنت کی نعمتوں کے ساتھ دنیا میں رزق کی فراخی نصیب ہوگی۔ صحابہ کرام ] اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم سمجھ کر مال غنیمت کی تقسیم پر راضی ہوئے اس پر انھیں رزق کریم کی خوشخبری دی گئی۔ جس کے صلہ میں وہ دنیا میں کثیر مال و اسباب کے مالک ہوئے اور قیامت کے دن انھیں جنت کی نعمتوں سے مالا مال کیا جائے گا جو مسلمان بھی ان اوصاف کا حامل ہوگا اللہ تعالیٰ اسے ان نعمتوں کے ساتھ سرفراز فرمائے گا۔ ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے احکام اور زبانی جسمانی ذکر ہے۔ مسائل ١۔ مومن کی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی آیات سن کر اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٢۔ مومنوں کو ہر حال میں اپنے رب پر توکل کرنا چاہیے۔ ٣۔ مسلمان کو نماز کا اہتمام اور زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ ٤۔ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے درجات، بخشش اور عمدہ رزق ملے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رزق کریم : ١۔ مومنوں کے لیے رب کے پاس درجات، بخشش اور رزق کریم ہے۔ (الانفال : ٤) ٢۔ نیک اعمال کرنے والوں کا بدلہ بخشش اور رزق کریم ہے۔ (سبا : ٤) ٣۔ ایمان دار نیک اعمال کرنے والوں کے لیے بخشش اور رزق کریم ہے۔ (الحج : ٥٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے دوہرا اجر اور رزق کریم تیار کر رکھا ہے۔ (الاحزاب : ٣١) ٥۔ یہ لوگ مبرا ہیں ان کی باتوں (بہتان طرازی) سے ان کے لیے بخشش اور رزق کریم ہے۔ (النور : ٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(سورۃ کے تعارف کا تیسرا حصہ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمار ابن یاسر اور عبداللہ ابن مسعود کو بھیجا تاکہ وہ دشمن کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ انہوں نے دشمن کی قیام گاہ کے گرد چکر لگایا اور واپس آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ رپورٹ دی کہ دشمن بہت پریشان حال ہے اور یہ کہ بارش ان پر خوب برس رہی ہے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنویں پر اترے تو آپ کے لیے ایک چبوترہ بنایا گیا ، کھجور کی شاخوں سے اور حضرت سعد ابن معاذ اپنی تلوار سونت کر اس کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میدان جنگ میں گشت کیا۔ اور آپ نے اپنے ساتھیوں کو قریش کے سرداروں میں سے ایک ایک کی قتل گاہ بتائی۔ آپ فرماتے یہاں فلان قتل ہوگا ، یہاں فلاں قتل ہوگا ، یہ سب قتل ہوئے اور ان میں سے کوئی بھی حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقرر کردہ جگہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کی صفوں کو درست کیا اور اپنے چبوترے کی طرف لوٹے۔ آپ کے ساتھ صرف حضرت ابوبکر تھے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں ، قریش ساری رات سفر کرتے رہے اور صبح کے وقت مقابلے پر آگئے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو دیکھا تو آپ نے اس ٹیلے سے منہ پھیر کر اپنا چہرہ وادی کی طرف موڑ دیا اور اس وقت آپ نے یہ دعا فرمائی " اے اللہ یہ ہے قبیلہ قریش جو نہایت ہی کبر و غرور کے ساتھ بڑھتا چلا آ رہا ہے اور یہ تیری دشمنی میں آیا ہے ، اور تیرے رسول کی تکذیب کر رہا ہے۔ آج میں تیری اس امداد کا طلبگار ہوں جس کا تونے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ اے اللہ کل انہیں پیس کر رکھ دیجیے "۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہہ رہے تھے۔ آپ کی نظر عتبہ ابن ربیعہ پر پری جو سرخ اونٹ پر سوار تھے۔ وہ قریش کے ساتھ تھے۔ آپ نے فرمایا اگر اہل قریش میں سے کسی کے ہاں کوئی بھلائی ہوسکتی ہے تو صرف سرخ اونٹ والے سوار کے ہاں ہوسکتی ہے۔ حفاف ابن ایما ابن رحضہ الغفاری نے یا اس کے باپ ایما نے اہل قریش کو اپنے بیٹے کے ہاتھ کچھ مویشی برائے ذبح بھیجے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا کہ اگر تم چاہو تو ہم تمہیں اسلحہ اور افراد کی امداد بھی دے سکتے ہیں۔ قریش نے اس کے بیٹے کے ذریعے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تونے صلہ رحمی کا حق ادا کردیا ہے۔ اور تم پر جو حق تھا وہ تم نے ادا کردیا ہے اور کہا خدا کی قسم اگر ہم انسانوں سے لڑنے نکلے ہیں تو انسانوں کے مقابلے میں ہم اپنے اندر کوئی کمزوری محسوس نہیں کرتے۔ اور اگر ہماری یہ جنگ خدا کے خلاف ہے جس طرح محمد سمجھتے ہیں تو خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی طاقت نہیں ہے۔ جب لوگ اپنی منزل پر اترے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تیار کردہ حوض پر کچھ لوگ پانی لینے آئے۔ ان میں حکیم ابن حزام بھی تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : " انہیں پانی پینے دو "۔ غرض اس حوض سے جس نے بھی پانی پیا۔ وہ مارا گیا ماسوائے حکیم ابن حزام کے ، یہ بعد میں مسلمان ہوگئے اور بہت اچھے مسلمان بنے اور جب حلف اٹھاتے اور بہت تاکید کرتے تو کہتے اس خدا کی قسم جس نے مجھے بدر کے دن نجات دی۔ ابن اسحاق کہتے ہیں : مجھے ابو اسحاق ابن یسار جمحی انصار کے دوسرے اکابر نے بتایا کہ جب اہل قریش نے اطمینان سے پڑاؤ کرلیا تو انہوں نے عمر ابن وہب جمحی کو بھیجا کہ وہ اصحاب محمد کا اندازہ لگا کر بتائیں کہ اسلامی لشکر کی کوئی خفیہ فوج بھی ہے یا کوئی امدادی فوج ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ دو بار وادی میں دور تک گیا۔ اسے کچھ نظر نہ آیا اور واپس آ کر رپوٹ دی کہ مجھے کچھ سراغ نہیں ملا۔ لیکن اے اہل قریش میں ایک ایسی مصیبت دیکھ رہا ہوں جس میں بہت لوگوں کی موت ہے۔ یثرت کے ترشح میں موت واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ ہمارا مقابلہ ایسی قوم سے ہے جن کا دفاع اور جن کا قلعہ صرف ان کی تلواریں ہیں۔ خدا کی قسم میں یہ نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کوئی شخص مارا جائے گا الا یہ کہ وہ ہم سے ایک آدمی کو قتل کردے۔ اگر وہ اپنی تعداد جتنے لوگ بھی ہم سے مار لیں تو ہمارے لیے زندہ رہنے میں کوئی مزہ نہ ہوگا۔ اس لیے مناسب ہے کہ آپ لوتگ اس جنگ کے بارے میں سوچ لیں۔ جب حکیم ابن حزام نے یہ باتیں سنیں تو وہ لوگوں میں گھوما اور اس نے سب سے پہلے عتبہ بن ربیعہ سے ملاقات کی۔ اس نے کہا : " اے ابو الولید ! تم قریش کے معمر بزرگ اور سردار ہو اس میں تمہاری بات بھی چلتی ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ تمہاری ایک بھلائی کو قوم قیامت تک یاد رکھے "۔ اس نے کہا " حکیم وہ کیا بھلائی ہے "۔ حکیم نے کہا بھلائی یہ ہے کہ تم لوگوں کو لے کر واپس ہوجاؤ۔ اور تمہارے حلیف عمرو ابن الحضرمی کا معاملہ تمہارے اوپر عائد ہو۔ اس نے جواب دیا مجھے یہ منظور ہے۔ تم اس پر میرے گواہ ہو۔ وہ میرا حلیف ہیے ، اس لیے اس کی دیت میرے ذمہ ہوگی۔ (یعنی اس کے بھائی کی دیت جو مسلمانوں کے ہاتھوں عبداللہ ابن جحش کے سریہ میں مارا گیا تھا) ۔ نیز مسلمانوں نے اس سے جو مال لیا تھا وہ بھی میرے ذمہ ہے۔ لیکن مناسب ہے کہ تم حنطیہ کے بیٹے کے پاس جاؤ کیونکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کے اندر اختلافات پیدا ہوجائیں گے۔ اس سے ان کی مراد ابوجہل سے تھی۔ اس کے بعد عتبہ ابن ربیعہ نے ایک تقریر کی۔ " اے اہل قریش خدا کی قسم تم محمد اور اصحاب محمد سے کیا لوگے ، اگر تم نے انہیں قتل کردیا تو تم سے کوئی شخص پسند نہ کرے گا کہ وہ مقتول کو دیکھے اس لیے کہ اس کا مقتول یا اس کا چچا زاد ہوگا یا خالہ زاد ہوگا یا اس کے خاندان میں سے کوئی ہوگا۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ تم لوگ لوٹ جاؤ اور محمد اور تمام عربوں کو مقابلہ کرنے دو ، اگر عربوں نے اسے قتل کردیا تو تمہاری مراد پوری ہوئی اور اگر اس کے سوا کوئی اور صورت حال ہو تو تم اسے اس حال میں ملوگے کہ تم نے اس کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا ہوگا۔ اس تقریر کے بعد میں ابوجہل کے پاس آیا۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی زرہ تھیلے سے نکالی ہوئی ہے اور اسے وہ تیار کر رہا ہے۔ میں نے اسے کہا اے ابوالحکم مجھے عتبہ نے آپ کے پاس یہ تجاویز دے کر بھیجا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ محمد اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے ہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ خدا کی قسم ہم ہر گز واپس نہ ہوں گے ، جب تک کہ اللہ ہمارے اور محمد کے درمیان فیصلہ نہیں کردیتا اور عتبہ جو باتیں کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دیکھ لیا ہے کہ محمد اور اس کے ساتھی جانور ذبح کرکے کھا کر رہے اور ان میں ان کے بیٹے ابوحذیفہ بھی ہیں جو مسلمان ہوگئے اور عتبہ کو ڈر ہے کہ لشکر قریش کے ہاتھوں وہ قتل نہ ہوجائیں۔ اس کے بعد اس نے عامر الحضرمی کو یہ پیغام بھیجا کہ دیکھو عتبہ تمہارا حلیف ہے اور وہ لوگوں کو لے کر واپس جانا چاہتا ہے حالانکہ تم نے اپنے شکار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ، اس لیے آپ انہیں اور اپنے عہد کا واسطہ دلائیں اور لوگوں کو یاد دلائیں کہ تمہارے بھائی قتل ہوچکے ہیں۔ اس پر عامر الحضرمی اٹھا اور اپنے آپ کو ننگا کرکے چلایا " اے عمر ، اب جنگ شروع ہوگئی اور لوگوں کے درمیان معرکہ تیز ہونے لگا ، اور انہوں نے جس فتنے کا فیصلہ کر رکھا تھا اس پر پر عزم ہوگئے اور لوگوں کے ذہنوں سے وہ بات نکل گئی جس کی طرف عتبہ لوگوں کو بلا رہے تھے۔ جب عتبہ کو معلوم ہوا کہ ابوجہل یہ باتیں کرتا ہے تو اس نے کہا کہ عنقریب اس کے چوتروں کی زردی کو معلوم ہوجائے گا کہ کس کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ میرے یا اس کے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اسود بن عبدالاسد مخزومی ایک نہایت ہی جری اور بد مزاج شخص تھے۔ انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم میں ان کے حوض سے پانی پیوں گا یا اسے منہدم کردوں گا اور یا اس حوض کے پاس قتل ہوجاؤں گا۔ جب وہ نکلا تو حمزہ ابن عبدالمطلب اس کی طرف بڑھے۔ جب حضرت حمزہ نے اس پر وار کیا تو اس کی ایک ٹانگ کو اڑا دیا۔ یہ اس وقت حوض کے قریب تھے۔ وہ پشت کی جانب پر گر پڑے اور اس کی ٹانگ سے خون کے فوارے اپنے ساتھیوں کی جانب چھوٹ رہے تھے لیکن وہ پیٹ کے بل حوض کی طرف بڑھا اور حوض میں گھس گیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس نے اپنی قسم پوری کردی ہے ، لیکن حضرت حمزہ نے اس کا پیچھا کیا اور ایک ہی وار کرکے اسے حوض کے اندر قتل کردیا۔ اس کے بعد عتبہ ابن ربیعہ نکلے ، اس کے ساتھ اس کے بھائی شیبہ اور بیٹا ولید ابن عتبہ بھی تھے۔ جب یہ لوگ اپنی صف سے جدا ہوئے تو انہوں نے دعوت مبارزت دی۔ ان کے مقابلے میں انصار میں سے تین نوجوان آگے بڑھے جن کے نام عوف ، معوذ بسران حارث جن کی والدہ عفرا تھی اور ایک شخص دوسرا تھا۔ یعنی عبداللہ ابن رواحہ۔ عتبہ کے گروپ نے کہا کہ تم کون ہو ؟ تو انہوں نے کہا ہم انصاری ہیں۔ اس پر عتبہ نے کہا کہ ہمیں تم سے کوئی کام نہیں ہے۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ عتبہ نے ان انصاری حضرات سے کہا کہ تم ہمارے معزز ہم پلہ ہو لیکن ہمارا مقصد اپنے بھائیوں سے لڑنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے آواز دی اے محمد تم ہمارے مقابلے میں ہماری قوم کے ہم پلہ لوگوں کو سامنے لاؤ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عبیدہ ابن الحارث ، حمزہ اور علی تم نکلو۔ جب یہ لوگ نکلے اور عتبہ گروپ کے قریب گئے تو انہوں نے یہی سوال کیا تم کون ہو ؟ عبیدہ نے کہا میں عبیدہ ہوں ، حمزہ نے کہا میں حمزہ ہوں۔ اور علی کہا میں علی ہوں۔ اس پر انہوں نے کہا ہاں تم معزز ہم پلہ ہو۔ عبیدہ نے جو سن رسیدہ تھے عتبہ ابن ربیعہ کو دعوت مبارزت دی اور حمزہ نے شیبہ ابن ربیعہ کو اور حضرت علی ، نے ولید بن عتبہ کو۔ حمزہ نے تو شیبہ کو ایک وار ہی میں ختم کردیا۔ اور علی نے ولید کو ایک ہی وار میں قتل کردیا۔ عبیدہ اور عتبہ کے درمیان دو دو وار ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو ایسا زخمی کردیا کہ جگہ سے حرکت ممکن نہ رہی۔ لیکن حضرت اور حضرت حمزہ عتبہ کی طرف لوٹے اور اس کا کام تمام کرکے اپنے ساتھی کو اٹھا کر اپنے کیمپ میں لے گئے۔ اب لوگ آگے بڑھے اور جنگ شروع ہوگئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اس وقت تک حملہ نہ کریں جب تک آپ انہیں حکم نہ دیں۔ اور اگر وہ لوگ حملہ آور ہوں تو نیزوں کے ذریعہ مدافعت کریں۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفیں درست کیں اور آپ اپنے چبوترے کی طرف لوٹ گئے۔ آپ اندر گئے اور اس وقت آپ کے ساتھ صرف ابوبکر تھے اور کوئی نہ تھا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کو پکار رہے تھے اور وہ وعدہ یاد دلا رہے تھے جو آپ کے ساتھ نصرت کے بارے میں ہوا تھا۔ اور باتوں کے علاوہ آپ نے اس پکار کے موقعہ پر یہ باتیں کہیں۔ " اے اللہ ! اگر یہ مٹھی بھر لوگ آج قتل ہوگئے تو تیری بندگی کبھی نہ ہوگی " حضرت ابوبکر فرما رہے تھے۔ آپ اپنی دعا کو کم کردیں۔ اللہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے۔ امتاع الاسماع مصنفہ مقریزی میں ہے کہ عبداللہ ابن روحہ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ حضور میں آپ یہ مشورہ دیتا ہوں حالانکہ آپ کو کسی مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہ اللہ کو اس کے وعدوں کی یاد دہانی کی ضرورت نہیں ہے۔ تو آپ نے فرمایا ابن رواحہ ، کیا میں اللہ تعالیٰ کو وعدہ یاد نہ دلاؤں۔ اللہ تو وعدہ پورا کرنے والے ہیں ، کبھی خلاف نہیں کرتے۔ ابن اسحاق نے کہا ، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چبوترے میں تھے تو آپ کو قدرے اونگھ نے آ لیا۔ جب آپ جاگے تو فرمایا : ابوبکر مبارک ہو ، اللہ کی مدد اگئی۔ یہ ہیں جبرئیل اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے چلے آ رہے ہیں اور اس کی دونوں جانب غبار اٹھ رہا ہے۔ حضرت عمر (رض) کے آزاد کردہ غلام مہجع کو ایک تیر لگا اور وہ شہید ہوگیا۔ یہ مسلمانوں میں سے پہلا مقتول تھا۔ اس کے بعد حارثہ ابن سراقہ نے بنی عدی ابن نجار کے ایک شخص کو تیر مارا اور اسے ہلاک کردیا۔ یہ شخص حوض سے پانی پی رہے تھے۔ تیر اس شخص کی گردن میں لگا اور وہ شہید ہوگیا۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چبوترے سے نکلے اور آپ نے لوگوں کو جنگ کرنے پر اکسایا۔ آپ نے فرمایا : " خدا کی قسم آج جو شخص بھی صبر ، تحمل سے فی سبیل اللہ لڑا اور وہ آگے ہی بڑھتا رہا اور پیٹھ نہ پھیری وہ لازماً جنت میں دخل ہوگا " ایک شخڑ عمر ابن الہمام بنی سلمہ کے بھائی تھے جو اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ بات سنی اور کہا بہت خوب ! حضور کیا میرے اور جنت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے کہ یہ لوگ مجھے قتل کردیں ؟ اس کے بعد اس نے وہ کھجوریں پھینک دیں۔ تلوار لی اور خوب لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ ابن اسحاق نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص عوف ابن الحارث نے جو " عفرا " کا بیٹآ تھا ، نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ اللہ اپنے بندے کے کس فعل پر ہنس دیتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ اس بات سے ہنس پڑتا ہے کہ ایک شخص کے جسم پر زرہ بھی نہ ہو اور وہ تلوار لے کر دشمن کی صفوں میں گھس جائے۔ چناچہ اس نے جو زرہ پہنی ہوئی تھی اسے اتار پھینکا۔ اس کے بعد تلوار لی اور دشمن کی صفوں میں گھس گیا اور اس قدر لڑا کہ شہید ہوا۔ ابن اسحاق نے زہری سے ایک روایت نقل کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جب لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو ابوجہل نے کہا ، اے اللہ ہم سے جو قطع رحمی کرنے والا ہو اور ایسے کام کرنے والا ایسے کام کرنے والا ہو جو معروف نہ ہو تو کل اسے شکست دے دے ، چناچہ اس کی دعا قبول ہوئی۔ ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مٹھی ریت لی اور اسے قریش کی طرف پھینکا اور فرمایا شاہت الوجوہ اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ زور لگاؤ اور اس کے بعد مخالفین کو شکست ہوئی اور قریش کے سرداروں میں سے اکثر مارے گئے اور باقی گرفتار ہوئے۔ جب لوگوں نے قتل سے ہاتھ کھینچ لیے اور لوگوں کو گرفتار کرنے لگے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ سعد ابن معاذ کے چہرے پر کراہت کے آثار نظر آتے ہیں کیونکہ لوگ مخالفین کو قتل کرنے کے بجائے گرفتار کر رہے تھے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں مخاطب کر کے کہا " خدا کی قسم اور شاید تم لوگوں کی اس حرکت کو ناپسند کرتے ہو " اس نے کہا ہاں جناب میں اسے ناپسند کرتا ہوں۔ یہ پہلا معرکہ ہے جس میں کفر و اسلام کا تصادم ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معرکے میں دشمن کا پوری طرح کچل دینا ہمارے لیے اس سے بہتر تھا کہ ہم انہیں گرفتار کرتے۔ ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس کی ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو یہ حکم دیا تھا کہ بنی ہاشم میں سے بعض لوگ مجبوراً اس لشکر میں آئے ہیں اور وہ ہمارے خلاف لڑنا نہیں چاہتے۔ اس لیے تم میں سے جو شخص بنی ہاشم میں سے کسی کے سامنے آئے تو انہیں قتل نہ کرے۔ اور جو شخص ابوالبختری ابن ہشام ابن الحارث ابن اسد کو پائے اسے بھی قتل نہ کرے۔ اور جو شخص عباس ابن عبدالمطلب کو پائے اسے بھی قتل نہ کرے۔ کیونکہ حضرت عباس مجبورا لشکر کے ساتھ آگئے ہیں۔ اس پر ابوحذیفہ ابن عتبہ ابن ربیعہ نے کہا (یہ مسلمان تھے) " کیا ہم اپنے باپوں ، بھائیوں اور بیٹوں اور خاندان کو قتل کریں اور عباس کو چھور دیں۔ خدا کی قسم اگر وہ مجھے ملا تو اسے مزہ چکھاؤں گا "۔ تو یہ بات حضر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ گئی تو آپ نے حضرت عمر بن الخطاب سے کہا " اے ابو حفص (اور یہ پہلا دن تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس کنیت کے ساتھ خطاب فرمایا " کیا رسول اللہ کے چچا کے چہرے کو تلوار سے مارا جائے گا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا رسول خدا مجھے اجاز دیجیے کہ میں اس کی گردن کو اڑا دوں۔ خدا کی قسم یہ منافق ہے۔ اس گفتگو کے بعد ابوحذیفہ کہا کرتے تھے کہ اس وقت میں نے جو بات کی میں آج تک اس سے ڈرتا ہوں اور میں ہمیشہ اس سے ڈرتا رہوں گا۔ الا یہ کہ شہادت پا کر میں اس کا کفارہ ادا کروں۔ بعد میں ابوحذیفہ مرتدین کے ساتھ جنگ میں یوم الیمامہ میں شہید ہوئے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضور نے ابوالبختری کے قتل سے اس لیے روکا تھا کہ جب آپ مکہ میں تھے تو وہ لوگوں کو آپ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے روکتا تھا۔ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جو آپ کے لیے موجب اذیت ہوتی۔ اور قریش نے بنی ہاشم کے ساتھ بائیکاٹ کا جو معاہدہ لکھا تھا اس کے توڑنے والوں میں وہ بھی تھا۔ لیکن اس دن وہ اس لیے مارا گیا کہ اس نے قیدی بننے سے انکار کردیا۔ ابن اسحاق نے یحی ابن عباد سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے کہا کہ امیہ ابن خلف میرا دوست تھا۔ اور میرا نام جاہلیت میں عبد عمرو تھا۔ میں نے جب اسلام قبول کیا تو نام عبدالرحمن رکھ لیا۔ اس وقت ہم مکہ میں تھے۔ امیہ مجھے کہتا عبد عمرو تونے اپنے اس نام کو چھوڑ دیا جس کے ساتھ تمہارے باپ نے تجھے موسوم کیا تھا۔ میں کہتا ہاں۔ اس نے کہا میں رحمن کو نہیں جانتا اس لیے تم میرے لیے آپس کا کوئی نام تجویز کردو تاکہ میں تمہیں اس کے ساتھ پکاروں۔ اس لیے کہ تم پہلے نام کے ساتھ پکارنے کا جواب نہیں دیتے اور میں دوسرا نام نہیں لیتا جسے میں جانتا نہیں ہوں۔ جب وہ مجھے عبد عمرو کہتا ، میں جواب نہ دیتا۔ میں نے اسے کہا کہ تم ہی کوئی نام رکھ دو ، چناچہ اس نے میرا نام عبد الالہ رکھ دیا۔ اور جب ہم ملتے تو وہ مجھے عبدالالہ کہتا اور ہم باتیں کرتے۔ بدر کے دن میں نے دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے علی ابن امیہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور میں بعض زرہیں اٹھا کر جا رہا ہوں جو میں نے جنگ کے بعد لوٹ لی تھیں۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو اس نے کہا اے عبد عمرو ، تو میں نے جواب نہ دیا۔ اس پر اس نے کہا اے عبدالالہ تو میں نے کہا ہاں۔ کیا تمہیں ہمارے اندر کوئی دلچسپی ہے۔ میں سمجھتا ہوں میں تمہارے لیے ان زر ہوں سے زیادہ مفید رہوں گا جو تونے اٹھا رکھی ہیں۔ میں نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے کہ کہ میں نے زرہیں پھینک دیں۔ اور ان دونوں کو میں نے ہاتھ سے پکڑ لیا اور دونوں کو قیدی بنا لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایسا دن کبھی نہیں دیکھا۔ کیا تمہیں دودھ کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی مجھے جس نے قیدی بنایا تو میں اسے دودھ دینے والی اونٹنیاں فدیہ میں دوں گا۔ میں انہیں لے کر کیمپ میں چلا گیا۔ ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ عبدالرحمن ابن عوف نے بتایا کہ مجھے امیہ ابن خلف نے کہا ، اس وقت میں اس کے اور اس کے بیٹے کے درمیان تھا اور میں نے دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ عبد الالہ ، تم میں سے وہ شخص کون تھا جس نے اپنے سینے پر شتر مرغ کے پر لگا رکھے تھے ؟ کہتے ہیں ، میں نے کہا کہ وہ حمزہ ابن عبدالمطلب ہے۔ اس نے کہا کہ اس شخص نے ہمارے خلاف سخت کارہائے نمایاں کیے۔ عبدالرحمن کہتے ہیں ، کدا کی قسم میں ان لوگوں کو لے کر جا رہا تھا کہ اچانک اسے حضرت بلال نے میرے ساتھ دیکھ لیا اور یہ وہی شخص تھا جو حضرت بلال کو اذیت دیتا تھا اور مکہ میں اسے ترک اسلام پر مجبور کیا کرتا تھا۔ وہ اسے مکہ کے ریگستان کی طرف لے جاتا۔ جب یہ ریت گرم ہوتی ، تو یہ شخص انہیں الٹے لیٹاتا اور اس کے بعد ان کے سینے پر بڑا پتھر رکھ دیتا اور اس کے بعد کہتا کہ تم اسی طرح پڑے رہوگے الا یہ کہ تم دین محمد کو چھوڑ نہ دو ۔ اور بلال کہتے جاتے۔ احد احد۔ کہتے ہیں جب اسے بلال نے دیکھا وہ چلایا ، یہ تو رئیس الکفار امیہ ابن خلف ہے۔ اگر یہ بچ نکلا تو میں نے نجات نہ پائی۔ میں نے کہا کہ بلال تم میرے اسیر کے ساتھ یہ کرتے ہو۔ اس نے پھر کہا اگر یہ نجات پا گیا تو گویا مجھے نجات نہ ملی۔ میں نے پھر سختی سے کہا " اے کالی کے بیٹے تم سنتے نہیں ، اس نے پھر کہا اگر یہ نجات پا گیا تو میں مرا۔ کہتے ہیں اس کے بعد بلال نہایت ہی بلند آواز سے پکارا۔ اے اللہ کے انصار یہ ہے رئیس الکفار امیہ ابن خلف۔ اگر یہ بچ نکلا تو میں مر گیا۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے ہمیں گھیر لیا۔ لیکن میں ان دونوں سے لوگوں کو روکتا ہی رہا۔ پیچھے سے ایک آدمی آیا اور اس نے اس کے بیٹے پر وار کیا اور وہ گر گیا۔ اس کے بعد امیہ ابن خلف نے ایک چیخ نکالی۔ اس پر میں نے کہ جان بچاؤ تاکہ میں بھی بچ جاؤں خدا کی قسم اب میں کچھ نہیں کرسکتا۔ کہتے ہیں کہ لوگوں نے اپر تلواروں سے پے در پے وار کیے اور ان سے فارغ ہوگئے۔ عبدالرحمن کہا کرتے تھے۔ اللہ بلال پر رحم کرے کہ میری زرہیں بھی گئیں اور میرے قیدیوں کو بھی قتل کرکے اس نے مجھے دکھ پہنچایا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دشمن سے فارغ ہوئے تو حکم دیا گیا کہ مقتولوں میں سے ابوجہل کو تلاش کیا جائے۔ اور جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ معاذ ابن عمرو ابن الجموح بنی سلمہ کے بھائی نے کہا کہ میں نے لوگوں سے سنا کہ ابوجہل تک پہنچنا بہت مشکل ہے اور وہ اس وقت ایک درخت کی اوٹ میں تھا۔ جب میں نے یہ سنا تو میں نے ارادہ کرلیا کہ میں یہ کام کروں گا۔ میں اس کی طرف بڑھا۔ جب میرے لیے ممکن ہوا تو میں نے اس پر حملہ کردیا۔ میں نے اس پر ایک ایسا وار کیا کہ میں نے اس کے پاؤں کو نصف پنڈلی کے ساتھ اڑا دیا۔ جب اس کا پاؤں اڑا تو مجھے ایسا لگا جس طرح گٹھلی توڑنے والے پتھر کے نیچے سے گٹھلی اڑتی ہے۔ اس وار کے بعد اس کے بیٹے عکرمہ نے مجھے مارا اور میرے کاندھے پر ایسی چوٹ آئی کہ میرا بازو کٹ گیا اور وہ ایک جانب سے میرے پہلو میں چمڑے کے ساتھ لٹک رہا تھا۔ اب لڑائی میں جلدی اور تیزی آگئی۔ میں نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور پورا دن لڑتا رہا۔ اور یہ ہاتھ میری پشت کے ساتھ لٹکا رہا۔ جب اس نے مجھے بہت تنگ کیا تو میں اس پر اپنا پاؤں رکھا اور اسے کاٹ کر پھینک دیا۔ اس کے بعد معوذ ابن عفرا ابوجہل تک جا پہنچا اور اس وقت اس کی ٹانگ کٹی ہوئی تھی۔ اس نے اسے اس قدر زخمی کردیا کہ وہ اب حرکت کے قابل نہ رہا۔ اور معوذ لڑتا رہا یہاں تک کہ وہ قتل ہوگیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن مسعود ابوجہل تک جا پہنچا۔ یہ اس وقت ہوا جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ ابوجہل کو مردوں میں تلاش کیا جائے۔ تلاش کرنے والوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا تھا کہ اسے تلاش کرو۔ اگر اسے پہچاننے میں دقت ہو ، تو اس کے گھٹنے پر ایک زخم ہے اسے دیکھو اس لیے کہ میں اور وہ دونوں ایک دن عبداللہ ابن جدعان کی دعوت میں شریک تھے اور اس وقت ہم دونوں لڑکپن میں تے۔ اژدھام میں ، میں نے اسے دھ کہ دیا اور اگرچہ میں اس کے مقابلے میں دبلا پتلا تھا ، وہ گھٹنوں کے بل گرا۔ اس کا ایک گھٹنا اس قدر زخمی ہوا کہ زخم کے اثرات زائل نہ ہوئے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے اس اس حال میں تلاش کرلیا کہ وہ زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔ میں نے اپنا پاؤں اس کی گردن پر رکھا۔ اس نے مکہ میں ایک بار میرے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ مجھے مارا تھا اور مکہ لگائے تھے۔ اس کے بعد میں نے اسے کہا : اللہ کے دشمن تم نے جان لیا کہ آج اللہ نے تجھے ذلیل کیا ہے ؟ " مجھے کیوں ذلیل کیا ہے ؟ " اس نے کہا ، کیا تم نے مجھے سے کسی بڑے آدمی کو بھی قتل کردیا ہے۔ اس نے کہا یہ تو بتاؤ آج کی جنگ کس نے جیتی ؟ میں نے جواب دیا اللہ اور رسول اللہ نے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بنی مخزوم کے بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ ابن مسعود نے کہا کہ اس نے مجھے یہ کہا کہ اے چرواہے ، تم ایک عظیم آدمی کی گردن پر سوار ہو ، جس پر سوار ہونا کوئی آسان کام نہ تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے اس کی گردن کو تن سے جدا کیا اور لا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں ڈال دیا اور کہا اے رسول خدا یہ رہا خدا کے دشمن کا سر۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ابن ہشام کہتے ہیں کہ مجھے مقامی کے ماہرین اہل علم نے بتایا کہ حضرت عمر ابن لخطاب نے سعید ابن العاص کو ایک مرتبہ یہ کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تجھے میرے بارے میں غلط فہمی ہے کہ شاید میں نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے۔ اگر میں نے اسے قتل کیا ہوتا تو میں اس کے قل کی ہرگز معذرت نہ کرتا۔ لیکن میں نے اپنے ماموں عاص ابن ہشام ابن المغیرہ کو قتل کیا تھا۔ رہا تمہارا باپ تو میں جنگ میں اس کے پاس سے گزرا تا۔ اس طرح لڑ رہا تھا جس طرح ایک بیل جنگ کے وقت اپنے سینگوں کے ساتھ زمین کو چیرتا ہے۔ تو میں اس سے ایک طرف ہوگیا اور مجھ سے آگے بڑھ کر اس کے چچا زاد نے اس کا رخ کیا اور اسے قتل کردیا۔ ابن اسحاق ، یزید ابن رومان ، عروہ ابن الزبیر کے واسطے سے حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں ، جب حضور نے حکم دیا کہ مقتولین کو ایک گڑے میں پھینکا جائے تو ایک گڑھا کھود کر سب کو اس میں پھینک دیا گیا ، ماسوائے امیہ ابن خلف کے کیونکہ وہ اپنی زرہ کے اندر پھول گیا تھا اور زوہ کو بھر دیا تھا ، لوگ اس کے پاس گئے اور اسے حرکت دی تو اس کا گوشت اپنی جگہ چھوڑ گیا۔ لوگوں نے اسے اسی جگہ چھوڑ دیا اور اس کے اوپر مٹی ڈال دی۔ جب تمام مقتولین کو گڑھے میں ڈال دیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گڑھے کے دہانے پر کھڑے ہوئے اور کہا : " اے گڑھے والو ، کیا تم نے وہ انجام دیکھ لیا جو تم سے تمہارے رب نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے تو وہ انجام دیکھ لیا جو مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا تھا پوری طرح۔ کہتے ہیں کہ اصحاب رسول نے آپ سے سوال کیا : " کہ آپ تو مردوں سے بات کر رہے ہیں " آپ کہا " حقیقت یہ ہے کہ وہ اب جانتے ہیں کہ ان سے ان کے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ سچ تھا " حضرت عائشہ کہتی ہیں لوگ کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا : در حقیقت میں نے جو کہا وہ سنتے ہیں " حالانکہ حضور نے فرمایا تھا : " در اصل وہ جانتے ہیں کہ رب کا وعدہ سچا تھا "۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ انہیں گڑھے میں پھینک دیا جائے تو عتبہ ابن ربیعہ کو گڑھے کی طرف کھینچا گیا تو حضور نے ان کی طرف دیکھا (یہ بات مجھ تک پہنچی ہے) کہ ابوحذیفہ ابن عتبہ نہایت ہی غمگین ہیں اور ان کا رنگ بدل گیا ہے تو آپ نے فرمایا : ابو حذیفہ ، شاید تمہارے باپ کی وجہ سے تم پر اثر ہوگیا ہے۔ یا جو الفاظ حضور نے کہے۔ ابوحذیفہ نے کہا " حضور خدا کی قسم ! ایسا نہیں ہے۔ مجھے اپنے باپ کے بارے میں کوئی شک نہیں اور نہ اس کے قتل کے بارے میں شک ہے ، لیکن میں جانتا تھا کہ میرا باپ بڑا مدبر ، بردبار اور صاحب علم آدمی تھا۔ اور میری دلی خواہش تھی کہ اللہ اسے اسلام کی طرف ہدایت دے۔ جب میں نے دیکھا کہ اس کی یہ حالت ہے اور مجھے جب یہ خیال آیا کہ یہ تو کفر کی حالت میں دیا سے چلا گیا اور میری آرزو پوری نہ ہوئی تو اس وجہ سے مجھے یہ دکھ ہوا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے باپ کے لیے دعائے خیر فرمائی اور اس کے لیے بھی بہت اچھے کلمات کہے۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر گاہ میں جو کچھ تھا ، اسے یکجا کرنے کا حکم دیا۔ تمام مال غنیمت یکجا کردیا گیا۔ اس کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ جن لوگوں نے مال جمع کیا تھا ، انہوں نے کہا کہ اس پر پورا ہمارا حق ہے کیونکہ ہم نے جمع کیا ہے اور جو لوگ دشمن کو مار رہے تھے اور اس کا تعاقب کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ اگر ہم نہ ہوتے تو تم کہا جمع کرتے۔ ہم نے دشمن کو مشغول رکھا ، اور تم نے مال جمع کیا۔ اور جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت پر مامور تھے انہوں نے کہا ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دشمن کے حملے سے بچایا ہے۔ لہذا تمہارے مقابلے میں ہمارا حق زیادہ ہے ، ہم نے یہ سامان اس وقت دیکھ لیا تھا ، مگر آپ کا محافظ کوئی نہ تھا۔ ہم اس بات سے ڈر گئے کہ اگر ہم چلے گئے تو دشمن آپ پر حملہ نہ کردے۔ لہذا ہم حفاظت میں رہے۔ چناچہ تم لوگ ہم سے زیادہ مستحق نہیں ہو۔ ابن اسحاق کہتے کہ عبدالرحمن ابن الحارث وغیرہ نے سلیمان ، مکحول اور ابو امامہ باہلی سے روایت کی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبادہ بن الصامت سے انفال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ سورة ہم اصحاب بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس وقت ہمارے درمیان انفال کے بارے میں اختلافات ہوگئے تھے اور اس کے بارے میں ہماری اخلاقی حالت اچھی نہ رہی تھی تو اس وجہ سے اللہ نے انفال کو ہم سے لے کر اسے رسول اللہ کے اختیار میں دے دیا ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے درمیان مساویانہ تقسیم کردی۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بنی عبدالدار کے بھائی نبیہ ابن وہب نے بتایا کہ حضور جب قیدیوں کی طرف لوٹے تو آپ نے انہیں اپنے ساتھیوں کے درمیان تقسیم کردیا۔ اور آپ نے ان کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے تو ابو عزیر ابن ہاشم ، مصعب ابن عمیر کے سگے بھائی تھے اور قیدی تھے۔ ابو عزیر نے بتایا کہ ایک انصاری مجھے گرفتار کر رہے تھے اور مصعب ابن عمیر میرے بھائی آگئے تو انہوں نے انصاری سے کہا کہ اسے خوب باندھیے کیونکہ ان کی والدہ مالدار خاتون ہیں وہ اس کا خوب فدیہ دیں گی۔ کہتے ہیں کہ جب میدان جنگ سے مجھے لے کر آئے تو میں انصاریوں کے پاس تھا۔ جب کھانے کا وقت ہوتا تو وہ لوگ مجھے روٹی دیتے اور خود کھجوروں پر اکتفاء کرتے کہ انہیں حضور نے ہمارے بارے میں وصیت کی تھی کہ حسن سلوک کرو ، ان میں سے جس کے ہاتھ بھی روٹی آتی وہ مجھے دے دیتا۔ میں شرمندہ ہو کر انہیں واپس کرتا مگر وہ مجھے دوبارہ واپس کردیتے اور اسے ہاتھ بھی نہ لگاتے۔ ابن ہشام کہتے ہیں ابو عزیر بدر کے دن مشرکین کے علم بردار تھے۔ اور یہ علم انہیں نضر ابن الحارث کے بعد ملا تھا۔ جب ان کے بارے میں ، اس کے گرفتار کرنے والے ابوالیسیر کو مصعب ابن عمیر نے وہ بات کہی (جو اوپر مذکور ہے) تو ابو عزیر نے کہا اے بھائی ، تم میرے بارے میں یہ سفارش کرتے ہو ، تو مصعب نے کہا کہ یہ انصاری تم سے پہلے میرا بھائی ہے۔ اس پر اس کی ماں نے معلوم کیا کہ کسی قریش کا زیادہ سے زیادہ فدیہ کیا رہا ہے ؟ تو اسے بتایا گیا کہ چار ہزار درہم تو اس نے چار ہزار درہم بھیجے اور اس کا فدیہ دیا۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ اس کے بعد قریش نے اسیروں کا تاوان بھیجا۔ ۔۔۔۔ یہ تھا غزوہ بدر کا واقعاتی نقشہ ، ہم نے بقدر استطاعت اسے مختصراً بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ سورة انفال اسی غزوہ پر بطور تبصرہ نازل ہوئی۔ اسی میں اس غزوہ کے ظاہری واقعات پر بھی تبصرہ ہے۔ اس کے تاریخی پس منظر کا بھی ذکر ہے۔ اور یہ تمام تبصرے قرآن کے منفرد اور معجزانہ انداز بیان میں ہیں جن کی تفصیلات ہم آئندہ تشریح آیات کے درمیان بیان کریں گے۔ یہاں ہم نے صرف اس سورة کے مضامین کے اساسی خدوخال مختصراً دے دئیے ہیں۔ یہ سورة کس لائن پر جا رہی ہے ؟ اس کے اندر ایک مضمون اس کی پوری طرح وضاحت کرتا ہے۔ ابن اسحاق نے حضرت عبادہ ابن الصامت سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہ سورة بدری لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب ہم مال غنیمت کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور اس سلسلے میں ہمارے اخلاق بھی خراب ہوئے تو اللہ نے انفال کا اختیار ہمارے ہاتھ سے لے لیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیا اور آپ نے انفال کو مساویانہ اصول کے مطابق تقسیم کردیا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اس سورة کا آغاز کس طرح ہوا اور اس کی لائن کیا ہے۔ لوگوں نے اس واقعہ میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کے بارے میں اختلاف کیا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے انسانی تاریخ میں قیامت تک فرقان قرار دیا تھا۔ اللہ کو مطلوب یہ تھا کہ ان کو اور ان کے بعد آنے والوں کو بعض اہم تعلیمات دیں۔ یہی تعلیم یہاں پوری طرح انہیں دی گئی اور یہ تعلیم اللہ نے جس تدبیر اور نظام قضا و قدر کے مطابق دی ، ہر اقدام ایسا نظر آتا ہے جس کے پیچھے کوئی اصلاحی تدبیر ہے۔ اس لیے کہ جنگ بدر اور اس کے نتیجے میں جو عظیم فیصلے ہوئے اس کے بارے میں خود مسلمانوں کی منصوبہ بندی کو کوئی دخل نہ تھا۔ نہ انہوں نے جنگ بدر کے معمولی اموال غنیمت کے متعلق کوئی اپنی تدبیر کی تھی اور نہ اس جنگ کے عظیم نتائج انہوں نے سوچے تھے۔ یہ سب کام اللہ تعالیٰ کی منشا اور تدبیر کے ذریعے ہوئے۔ اس واقعہ میں اللہ نے مسلمانوں کو خوب ازمایا اور یہ اس کا فضل و کرم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ لوگ اپنے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ وہ یہ سوچتے تھے کہ قافلے کو لوٹ لیں۔ مگر اللہ نے ان کے لیے قافلے کے مقابلے میں ایک مسلح لشکر لا کھڑا کردیا۔ دونوں میں کس قدر فرق ہے تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ خود ان کی اپنی سوچ کس قدر موثر ہے اور ان کے بارے میں اللہ کی تدبیر کس قدر دور رس حکمت کی حامل ہے۔ اور دونوں کے اندر کس قدر فرق ہے۔ سورة کا آغاز اس طرح ہے کہ انفال کے بارے میں عوام کی جانب سے ایک سوال ہے اور اللہ کی طرف سے مختصر جواب ہے کہ یہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول اللہ کا ہے۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ وہ خدا سے ڈریں اور باہم تعلقات کو درست کریں۔ جس طرح حضرت عبادہ ابن الصامت نے کہا کہ ہمارے اخلاق پر اثر پڑگیا تھا۔ اسے دور کردیں اور اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کریں۔ کیونکہ سمع و اطاعت ایمان کا مقتضا ہے۔ سورة کے آغاز میں اہل ایمان کے لیے ایک نہایت ہی موثر تصویر کشی کی گئی ہے۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأنْفَالِ قُلِ الأنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (١)إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (٢) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (٣) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (٤) اے پیغمبر لوگ تم سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ، کہہ دو کہ یہ غنیمتیں اللہ اور اس کے رسول کی ہیں ، پس اللہ سے ڈرو اور آپ سکے باہم تعلقات ٹھیک رکھو۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ مومت تو وہ ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور جب ان پر آیات الہی کی تلاوت ہوتی ہے تو ان کے ایمان کو زیادہ کردیتی ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں اور مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔ (الانفال ، آیات 1 تا 4) اس کے بعد بدر کے معاملے کو یاد دلایا جاتا ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے لیے کیا سوچتے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے سوچ رہا تھا اور وہ زمین پر دنیاوی معیار کے مطابق جو کچھ دیکھ رہے تھے اور اللہ کا نظام تقدیر جو کچھ کر رہا تھا :۔ كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ (٥) يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُونَ (٦) وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ (٧) لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ (٨) جیسا کہ تمہارے رب نے تجھے حق کے ساتھ اپنے گھر سے نکال دیا اور مومنوں کے ایک گروہ کو یہ ناگوار تھا۔ وہ حق بات کے سلسلے میں تم سے جھگڑ رہے تھے۔ حالانکہ واضح ہوچکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور وہ موت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جب اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک گروہ تمہارے ہاتھ آجائے گا۔ اور تم چاہ رہے تھے کہ کمزور گروہ تمہارے ہاتھ آئے لیکن اللہ چاہتا تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ثابت کردے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق کو حق اور باطل کو باطل کر دکھائے خواہ مجرموں کو ناگوار ہی کیوں نہ لگے۔ (بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کے اوصاف کا بیان ان آیات میں اہل ایمان کے چند اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل خوف زدہ ہوجاتے ہیں : اول : یہ فرمایا کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل خوف زدہ ہوجاتے ہیں، ان کے دلوں پر اللہ کی عظمت ایسی چھائی ہوئی ہے کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ہیبت اور خوف کی وجہ سے ان کے دل ڈر جاتے ہیں، مومن بندہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رہتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا رہتا ہے تو اللہ کی یاد سے اس کے دل کو اطمینان ہوتا ہے اور جب اس کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کی وجہ سے اس کے دل میں خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ ہی خوف تو ہے کہ جب وہ کسی ظلم یا گناہ کا ارادہ کرے اور اس سے کہہ دیا جائے کہ اللہ سے ڈر تو وہیں ٹھٹھک کر رہ جاتا ہے اور گناہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا، بر خلاف اہل کفر اور اہل نفاق کے کہ ان کے دل میں ایمان نہیں، اللہ کی عظمت بھی نہیں، ہیبت بھی نہیں، لہٰذا وہ بغیر کسی پس و پیش کے گناہ کرلیتے ہیں۔ اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اہل ایمان کا ایمان بڑھ جاتا ہے دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں یعنی ان کو سنائی جاتی ہیں تو ان کے سننے سے ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے یعنی نور ایمان میں ترقی ہوجاتی ہے اور اعمال صالحہ کی طرف اور زیادہ توجہ ہوجاتی ہے اور ایمان و یقین کی وجہ سے اعمال صالحہ کی طرف طبیعت خود بخود چلنے لگتی ہے اور گناہوں سے نفرت ہوجاتی ہے۔ تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے رب پر تو کل کرتے ہیں، تو کل اہل ایمان کی بہت بڑی فضیلت ہے اور بہت بڑی منقبت ہے، اپنے سب کاموں میں اللہ پر بھروسہ کرنا اور اسباب ظاہرہ اختیار کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ ہی پر نظر رکھنا اور یہ یقین کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہی رزاق ہے اور قاضی الحاجات ہے اور ہم اس کے ہر فیصلے پر اس کی قضاء و قدر پر راضی ہیں یہ اہل ایمان کی عظیم صفت ہے قرآن مجید میں جگہ جگہ تو کل کا حکم دیا ہے اور اصحاب تو کل کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ سورة آل عمران میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (بلاشبہ اللہ تو کل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے) سورة قلم میں فرمایا (قُلْ ھُوَ الرَّحْمٰنُ اٰمَنَّا بِہٖ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْنَا فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ ھُوَ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ ) (آپ فرما دیجیے کہ وہ رحمن ہے ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس پر تو کل کیا تو عنقریب جان لو گے کہ کون ہے کھلی گمراہی میں) سورة طلاق میں فرمایا (وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ) (اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے سو اللہ اس کے لیے کافی ہے) ۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4: یہاں سے لے کر “ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ ” تک ان مؤمنین کاملین کے لیے بشارت اخروی ہے۔ جن میں صفات ذیل موجود ہوں۔ جو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہیں، اللہ کی آیتیں سن کر ان کے ایمان میں پختگی پیدا ہو، وہ ہر کام میں اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوں نماز قائم کرتے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) بس حقیقی اہل ایمان تو وہی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے اور جب ان کے روبرو اللہ کا نام لیاجاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور ان کے قلوب خائف ہوجاتے ہیں اور جب اللہ کی آییتں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور خدا کی آیتیں ان پر تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو مضبوط کردیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار ہی پر توکل کرتے ہیں۔