Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 24

سورة الأنفال

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ وَ اَنَّہٗۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۲۴﴾

O you who have believed, respond to Allah and to the Messenger when he calls you to that which gives you life. And know that Allah intervenes between a man and his heart and that to Him you will be gathered.

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور بلاشبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to answer and obey Allah and His Messenger Allah commands; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ ... O you who believe! Answer Allah and (His) Messenger when he (the Messenger) calls you to that which will give you life, Al-Bukhari said, "( اسْتَجِيبُواْ Answer), obey, ( لِمَا يُحْيِيكُمْ that which will give you life) that which will make your affairs good." Al-Bukhari went on to narrate that Abu Sa`id bin Al-Mu`alla said, "I was praying when the Prophet passed by and called me, but I did not answer him until I finished the prayer. He said, مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ What prevented you from answering me? Has not Allah said: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ (O you who believe! Answer Allah and (His) Messenger when he calls you to that which will give you life).' He then said: لاَأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرانِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُج I will teach you the greatest Surah in the Qur'an before I leave. When he was about to leave, I mentioned what he said to me. He said, الْحَمْدُ للَّهِ رَبِّ الْعَـلَمِينَ All the praises and thanks are to Allah, the Lord of all that exists... (1:1-6) هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي Surely, it is the seven oft-repeated verses."' Muhammad bin Ishaq narrated that Muhammad bin Jafar bin Az-Zubayr said that Urwah bin Az-Zubayr explained this Ayah, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ (O you who believe! Answer Allah and (His) Messenger when he calls you to that which will give you life), "Answer when called to war (Jihad) with which Allah gives you might after meekness, and strength after weakness, and shields you from the enemy who oppressed you." Allah comes in between a Person and His Heart Allah said, ... وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ ... and know that Allah comes in between a person and his heart. Ibn Abbas commented, "Allah prevents the believer from disbelief and the disbeliever from faith." Al-Hakim recorded this in his Mustadrak and said, "It is Sahih and they did not record it." Similar was said by Mujahid, Sa`id, Ikrimah, Ad-Dahhak, Abu Salih Atiyyah, Muqatil bin Hayyan and As-Suddi. In another report from Mujahid, he commented; يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ (...comes in between a person and his heart). "Leaves him without comprehension," As-Suddi said, "Prevents one self from his own heart, so he will neither believe nor disbelieve except by His leave." There are several Hadiths that conform with the meaning of this Ayah. For instance, Imam Ahmad recorded that Anas bin Malik said, "The Prophet used to often say these words, يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِك O You Who changes the hearts, make my heart firm on Your religion. We said, `O Allah's Messenger! We believed in you and in what you brought us. Are you afraid for us?' He said, نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوبَ بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ تَعَالَى يُقَلِّبُهَا Yes, for the hearts are between two of Allah's Fingers, He changes them (as He wills)." This is the same narration recorded by At-Tirmidhi in the Book of Qadar in his Jami (Sunan), and he said, "Hasan." Imam Ahmad recorded that An-Nawwas bin Sam`an Al-Kilabi said that he heard the Prophet saying, مَا مِنْ قَلْبٍ إِلاَّ وَهُوَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ رَبِّ الْعَالَمِينَ إِذَا شَاءَ أَنْ يُقِيمَهُ أَقَامَهُ وَإِذَا شَاءَ أَنْ يُزِيغَهُ أَزَاغَه Every heart is between two of the Fingers of the Most Beneficent (Allah), Lord of all that exists, if He wills, He makes it straight, and if He wills, He makes it stray. And he said: يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِك O You Who changes the hearts! keep my heart firm on Your religion! And he would say; وَالْمِيزَانُ بِيَدِ الرَّحْمنِ يَخْفِضُهُ وَيَرْفَعُه The Balance is in the Hand of Ar-Rahman, He raises and lowers it. This was also recorded by An-Nasa'i and Ibn Majah. ... وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ And verily to Him you shall (all) be gathered.

دل رب کی انگلیوں میں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے استجیبوا معنی میں اجیبوا کے ہے لما بحییکم معنی بما بصلحکم کے ہے یعنی اللہ اور اس کا رسول تمہیں جب آواز دے تم جواب دو اور مان لو کیونکہ اس کے فرمان کے ماننے میں ہی تمہاری مصلحت ہے ۔ حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نماز میں تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے ۔ مجھے آواز دی ، میں آپ کے پاس نہ آیا ۔ جب نماز پڑھ چکا تو حاضر خدمت ہو ا ۔ آپ نے فرمایا تجھے کس نے روکا تھا کہ تو میرے پاس چلا آئے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ اے ایمان والو اللہ اور اللہ کا رسول تمہیں جب آواز دیں تم قبول کر لیا کرو کیونکہ اسی میں تمہاری زندگی ہے ۔ سنیں اس مسجد سے نکلنے سے پہلے ہی میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورت سکھاؤں گا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے جانے کا ارادہ کیا تو میں نے آپ کو آپ کا وعدہ یاد دلایا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ہے اور آپ نے وہ سورت فاتحہ بتلائی اور فرمایا سات آیتیں دوہرائی ہوئی یہی ہیں ۔ اس حدیث کا پورا پورا بیان سورہ فاتحہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔ زندگی ، آخرت میں جات ، عذاب سے بچاؤ اور چھٹکارا قرآن کی تعلیم ، حق کو تسلیم کرنے اور اسلام لانے اور جہاد میں ہے ۔ ان ہی چیزوں کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے ۔ اللہ انسان اور اس کے دل میں حائل ہے ۔ یعنی مومن میں اور کفر میں کافر میں اور ایمان میں ۔ یہ معنی ایک مرفوع حدیث میں بھی ہیں لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ قول ابن عباس کا ہے مرفوع حدیث نہیں ۔ مجاہد کہتے ہیں یعنی اسے اس حال میں چھوڑنا ہے کہ وہ کسی چیز کو سمجھتا نہیں ۔ سدی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر نہ ایمان لا سکے نہ کفر کر سکے ۔ قتادہ کہتے ہیں یہ آیت مثل آیت ( وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ 16؀ ) 50-ق:16 ) کے ہے یعنی بندے کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہم ہیں ۔ اس آیت کے مناسب حدیثیں بھی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ تو ہم نے عرض کی یارسول اللہ ہم آپ پر اور آپ پر اتری ہوئی وحی پر ایمان لا چکے ہیں کیا پھر بھی آپ کو ہماری نسبت خطرہ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان دل ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کا تغیر و تبدل کرتا رہتا ہے ۔ ترمذی میں بھی یہ روایت کتاب القدر میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور یہ دعا پڑھا کرتے تھے دعا ( با مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک ) اے دلوں کے پھیر نے والے میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رکھ ۔ مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں ہر دل اللہ تعالیٰ رب العالمیں کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب سیدھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے اور جب ٹیڑھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے ، آپ کی دعا تھی کہ اے مقلب القلوب اللہ میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ، فرماتے ہیں میزان رب رحمان کے ہاتھ میں ہے ، جھکاتا ہے اور اونچی کرتا ہے ، مسند کی اور حدیث میں ہے کہ آپ کی اس دعا کو اکثر سن کر حضرت مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ سے پوچھا کہ بکثرت اس دعا کے کرنے کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا انسان کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب چاہتا ہے ٹیڑھا کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے سیدھا کر دیتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ کی اس دعا کو بکثرت سن کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے پوچھا کہ کیا دل پلٹ جاتے ہیں؟ آپ نے یہی جواب دیا ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا پروردگار ہے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہدایت کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت و نعمت عطا فرمائے وہ بڑی ہی بخشش کرنے والا اور بہت انعاموں والا یہ ۔ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں میں نے حضور سے پھر درخواست کی کہ کیا آپ مجھے میرے لئے بھی کوئی دعا سکھائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ دعا مانگا کرو دعا ( اللھم رب النبی محمد اغفرلی ذنبی و اذھب غیظ قلبی و اجرنی من مضلات الفتن ما احییتنی ) یعنی اے اللہ اسے محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار میرے گناہ معاف فرما میرے دل کی سختی دور کر دے مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بجا لے جب تک بھی تو مجھے زندہ رکھ ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمام انسانوں کے دل ایک ہی دل کی طرح اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔ جس طرح چاہتا ہے انہیں الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے پھر آپ نے دعا کی کہ اے دلوں کے پھیر نے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر لے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 لِمَا یُحْیِیْکُمْ ایسی چیزوں کی طرف جس سے تمہیں زندگی ملے۔ بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے کہ اس میں تمہاری زندگی کا سروسامان ہے۔ بعض نے قرآن کے اوامرو نواہی اور احکام شرعیہ مراد لئے ہیں، جن میں جہاد بھی آجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مانو، اور اس پر عمل کرو، اسی میں تمہاری زندگی ہے۔ 24۔ 2 یعنی موت وارد کرکے، جس کا مزہ ہر نفس کو چکھنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قبل اس کے کہ تمہیں موت آجائے، اللہ اور رسول کی بات مان لو اور اس پر عمل کرو۔ بعض نے کہا کہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے جس طرح قریب ہے اس میں اسے بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ امام ابن جریر نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور جب چاہتا ان کے اور انکے دلوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ حتی کہ انسان اسکی مشیت کے بغیر کسی چیز کو پا نہیں سکتا۔ بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق قراردیا ہے کہ مسلمان دشمن کی کثرت سے خوف زدہ تھے تو اللہ تعالیٰ نے دلوں کے درمیان حائل ہو کر مسلمانوں کے دلوں میں موجود خوف کو امن سے بدل دیا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت کے یہ سارے ہی مفہوم مراد ہوسکتے ہیں (فتح القدیر) امام ابن جریر کے بیان کردہ مفہوم کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں دین پر ثابت قدمی کی دعائیں کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بنی آدم کے دل ایک دل کی طرح رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں انہیں جس طرح چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا پڑھی۔ اللہم مصرف القلوب صرف قلوبنا الی طاعتک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔ بعض روایات میں ثبت قلبی علی دینک کے الفاظ ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ کی زندگی بخش دعوت :۔ یعنی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعوتی پیغام ایسا ہے جس سے تمہیں دنیا میں بھی عزت و اطمینان کی زندگی نصیب ہوگی اور آخرت میں بھی نعمتوں سے بھرپور ابدی زندگی حاصل ہوگی، اس کے مفہوم کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ ذہن میں رکھئے کہ یہ سورت غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی۔ جب کہ مسلمانوں کی ایک ریاست قائم ہوچکی تھی اور وہ آزادانہ زندگی گزار رہے تھے اور غزوہ بدر میں فتح نے انہیں ایک مساوی قوم کا درجہ دے دیا تھا اور وہ آپس میں نہایت پیار، محبت اور بھائی بھائی بن کر رہ رہے تھے۔ اب اس کے مقابلہ میں دور جاہلیت کے معاشرہ کو سامنے لائیے جب کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے مدینہ میں جنگ بعاث نے اور مکہ میں حرب فجار نے گھروں کے گھروں کا صفایا کردیا تھا۔ قبائلی جنگیں کسی طرح ختم ہونے کو نہ آتی تھیں اور تم لوگ ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور شراب کے دور چلتے تھے۔ کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں رہی تھی اور لوگوں پر ان کا جینا حرام ہوچکا تھا۔ پھر اللہ اور اس کے رسول نے تمہیں وہ تعلیم دی کہ تمہاری زندگی کا رخ ہی موڑ دیا اور اب تم امن چین سے زندگی گزار رہے ہو۔ لہذا تمہیں فوراً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا چاہیے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے پر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ اسی میں تمہاری زندگی کا راز مضمر ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ کتنے ہی ضروری کام مثلاً فریضہ نماز میں بھی مشغول ہو تو اسے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے پر نماز چھوڑ کر فوراً حاضر ہونا چاہیے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ رسول کے بلانے پر فورا حاضر ہونا :۔ ابو سعیدبن معلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ میرے سامنے سے گزرے اور مجھے بلایا۔ میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو مجھے فرمایا :& تم میرے بلانے پر فوراً کیوں نہ آئے ؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ 24؀) 8 ۔ الانفال :24) & پھر آپ نے فرمایا : & میں جانے سے پہلے تمہیں قرآن کی بڑی سورت بتلاؤں گا۔ & جب آپ جانے لگے تو میں نے آپ کو یہ بات یاد دلائی تو آپ نے فرمایا & وہ سورت (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) الفاتحه |"1) ہے۔ اس میں سات آیتیں ہیں جو (ہر نماز میں) مکرر پڑھی جاتی ہیں۔ & (بخاری، کتاب التفسیر) اور حدیث جریج سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کے بلانے پر انسان کو نفلی نماز توڑ کر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔ [ ٢٤] اللہ کے آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب دل کو شیطانی وساوس سے بچانے کی کوشش :۔ یعنی اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے اتنا قریب ہے کہ وہ اس کے راز، ارادوں اور نیت تک کو جانتا ہے اور یہ دل ہی خیر و شر کا منبع ہے۔ لہذا مسلمان کو اللہ کے رسول کی اطاعت میں دیر نہ کرنی چاہیے۔ ورنہ ممکن ہے کہ بعد میں کوئی اور خیال پیدا ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا تو قانون ہی یہ ہے کہ انسان جیسا ارادہ یا نیت کرتا ہے۔ اللہ اس کے دل کو اسی طرح کی راہیں سجھانے لگتا ہے لہذا حتی الامکان دل کو شیطانی وساوس کی آماجگاہ بننے سے بچانا چاہیے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ بلاتاخیر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اللّٰھُمَّ ثَبِّتْ قُلُوْبُنَا عَلٰی دِیْنِکَ یا الفاظ یہ ہوتے تھے۔ یا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبُنَا عَلٰی دِیْنِکَ

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ :” اَجَابَ یُجِیْبُ “ کا معنی قبول کرنا ہے اور ” اسْتَجِيْبُوْا “ باب استفعال ” اِسْتَجَابَ یَسْتَجِیْبُ “ سے ہے، جس میں عموماً طلب ہوتی ہے، یہاں طلب کا معنی نہیں ہوسکتا، لہٰذا سین اور تاء کے اضافے سے معنی میں زیادتی مراد ہوگی، اس لیے ” خوشی سے قبول کرو “ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر خوشی سے لبیک کہنا تم پر لازم ہے۔ اِذَا دَعَاكُمْ : ” جب وہ تمہیں دعوت دے “ کا مطلب یہ ہے کہ فوراً قبول کرو، دیر نہ کرو۔ ابی بن کعب (رض) نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بلایا، وہ نماز پوری کرکے آئے تو آپ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا : ” تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ “ انھوں نے کہا : ” آئندہ میں ان شاء اللہ ایسا نہیں کروں گا۔ “ [ ترمذی، فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب : ٢٨٧٥ ] صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں ابوسعید بن معلی (رض) کو نماز پڑھتے ہوئے بلانا اور اسی وقت نہ آنے پر یہی تلقین فرمانا موجود ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( یأیھا الذین اٰمنوا استجیبوا۔۔ ) : ٤٦٤٧ ] لِمَا يُحْيِيْكُمْ : ” اس چیز کے لیے جو تمہیں زندگی بخشتی ہے “ اس سے متعلق علمائے سلف کے مختلف اقوال ہیں، بعض نے اسلام و ایمان اور بعض نے قرآن، لیکن اکثر نے اس سے جہاد مراد لیا ہے، کیونکہ جہاد دنیا اور آخرت میں زندگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، خصوصاً اس لیے کہ شروع سورت سے یہی بات چلی آرہی ہے، آیت : (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ )[ البقرۃ : ٢٤٣ ] سے مراد بھی جہاد کی ترغیب ہے۔ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے : ” جب تم عینہ (حیلے سے سود کی ایک قسم) کے ساتھ بیع کرو گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے اور کاشت کاری پر خوش ہوجاؤ گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی بڑی ذلت مسلط کرے گا جسے دور نہیں کرے گا، حتیٰ کہ تم اپنے دین (جہاد) کی طرف لوٹ آؤ۔ “ [ أبوداوٗد، البیوع، باب فی النہی عن العینۃ : ٣٤٦٢۔ السلسۃ الصحیحۃ : ١١ ] وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ : یعنی حق واضح ہوجانے کے بعد بھی اگر کوئی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم نہ مانے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو یہ سزا ملتی ہے کہ وہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اسے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق نہیں ملتی، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ) [ الصف : ٥ ] ” جب وہ خود ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ “ آیت کے یہ معنی ابن عباس (رض) اور جمہو رمفسرین نے بیان فرمائے ہیں۔ سورة انعام کی آیت (١٠٩، ١١٠) میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے، جنگ تبوک میں کعب بن مالک (رض) فوری طور پر نہ نکل سکے تو بعد میں جانے کی توفیق ہی نہیں ملی، یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے صدق اور انابت کی وجہ سے انھیں توبہ کی توفیق دی اور قرآن میں ان کا ذکر خیر فرمایا۔ شاہ عبد القادر (رض) اس آیت کی تشریح یہ فرماتے ہیں : ” حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو، شاید اس وقت دل ایسا نہ رہے، دل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ “ (موضح) بعض مفسرین نے اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ اللہ کے حائل ہونے سے مراد موت ہے، یعنی موت آنے سے پہلے اطاعت بجا لاؤ، اس کے بعد (وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ) (اور جان لو کہ یہ یقینی حقیقت ہے کہ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) کے جملے سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ دونوں معنی ہی مراد ہوسکتے ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تضاد نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the fifth verse (24), believers have been addressed once again. Commanded to obey Allah and His Messenger in a particular manner, they have been told that the thing to which Allah and His Messenger invite you is something which brings no benefit to Allah and His Messenger per se. Instead of that, all Divine injunctions have been prescribed for nothing but their own benefit. So, said in the manner pointed to above, was: اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّ‌سُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (respond to Allah and the Messenger when He calls you to what gives you life). What is the &life& mentioned in this verse? Since several probabil¬ities exist in its interpretation, learned commentators have taken different interpretive positions. According to Suddiyy, that life-giving thing is &Imān (faith) because the disbeliever is dead. Qatadah said: That is Qur&an in which lies all life and success of both the worlds, Dunya and &Akhirah. Mujahid said: That is truth. Ibn Ishaq said: It means Jihad through which Allah Ta` ala conferred honour on Muslims. All these probabilities mentioned here are sound as they are. There is no contradiction in them. The larger sense is that ‘Imān, Qur&an or the following of truth are things which put life into the heart and the life of the heart is nothing but that everything which becomes a barrier between the Creator and the created, barriers like inertia and desire, should be removed from the way of truth leaving it free from whatever obstructions there are in order that the heart is filled with the light of insight into the Creator. Based on a narration from Sayyidna Abu Hurairah (رض) Tirmidhi and Al-Nasa&i have reported that on a certain day, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) sent for Sayyidna Ubayy ibn Ka&b (رض) ، who was busy with his Salah at that time. However, he completed his Salah sooner than he would have normally done and presented himself before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He asked: &Why did you come so late despite that I called you?& Sayyidna Ubayy ibn Ka&b (رض) submitted his excuse: &I was in the state of Salah.& He said: &Did you not hear what Allah Ta` ala has said in: اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّ‌سُولِ إِذَا دَعَاكُمْ (Respond to Allah and the Messenger when He calls you)?& Sayyidna Ubayy ibn Ka&b (رض) so, said: &I shall obey it from now on. If you call me, even when I am making my Salah, I shall present myself before you immediately.& It is on the basis of this Hadith that some Muslim jurists have said that anything done during Salah in obedience to the command of the Messenger of Allah would not be taken as interference in Salah. However, there are other jurists who say that Salah would though be terminated due to doings contrary to the standard rules governing Salah and it would have to be offered later as qada قَضَا (replaced for the missed or terminated Salah). But, the proper thing to do is that should the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) call someone, even if he is in the state of Salah, then, he should terminate his Salah and obey the call. As for this form of obedience, it is exclusive to the Rasul of Allah. But, there are other occasions when one may apprehend the danger of serious loss coming to someone, then, at that time too, Salah should be terminated and amends be made later by offering qada&. For example, if a person in the state of Salah sees that a blind man is about to reach and fall in a well or ditch, then, he should immediately terminate his Salah and go to save the handicapped man. At the end of the verse, it was said: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْ‌ءِ وَقَلْبِهِ (and be sure that Allah intervenes between man and his heart). This sentence can have two meanings, and both vibrate with great wisdom and good counsel, something one should always remember and live by. One possible sense of the sentence is: When you are blessed with the opportunity of doing something good, or staying safe from sin, then, go ahead and do it immediately - make no delay and take the lease of time so granted to be a blessing, because there are occasions when Divine decree becomes an intervening factor between man and his intention and he cannot succeed in doing what he intends to do. May be, a sickness overtakes, or death itself does, or some preoccupation emerges out of nowhere and one just does not get the time to do that good or avoid that sin. Therefore, human beings should welcome the leave granted in terms of the years of life and access to time and refuse to put off until tomorrow what must be done today - for, who knows what is going to happen tomorrow? من نمی گویم زیان کن یا بفکر سود باش ای زفرصت بےخیر در ھرچہ باشی زود باش I do not say that you run into some loss or go for your gain Whatever be your option, 0 man unaware of time, be quick! The second possible meaning emerges from the indication given by the sentence that Allah Ta` ala is very near to His servant. In fact, in another verse of the Qur&an (Qf, 50:16): نَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِ‌يدِ Allah Ta` ala says that He is close to man, much closer than his jugular vein. Thus, the sense is that the heart of man is, in a special way, at the discretionary disposal of Allah Ta` ala all the time. When He wills to keep a servant of His protected from evils, He puts a barrier between his heart and sins, and when misfortune is fated for someone, the barrier is placed between his heart and any possible good deeds by him. Therefore, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) used to include the following prayer frequently when he prayed: یَا مُنقَلِّبَ القُلُبِ ثَبِّت قَلبِی عَلٰی دِینِکَ 0 reverser of hearts! Keep my heart firm on the Faith chosen by You. The ultimate outcome of this too is no other but that one should not delay doing what must be done in obedience to the injunctions of Allah and His Rasul, rather, one should take the lease of time given to him as a God-given opportunity and just go ahead and do it, for no one knows whether or not the surge and urge of this good deed remains active later on.

پانچویں آیت میں پھر اہل ایمان کو خطاب کرکے اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل و اطاعت کا حکم ایک خاص انداز سے دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں جس چیز کی دعوت دیتے ہیں اس میں اللہ اور رسول کا اپنا کوئی فائدہ مضمر نہیں بلکہ سب احکام تمہارے ہی فائدہ کیلئے دیئے گئے ہیں ارشاد فرمایا (آیت) اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ، یعنی بات مانو اللہ کی اور رسول کی جب کہ رسول تم کو ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لئے زندگی بخش ہے۔ وہ حیات جس کا ذکر اس آیت میں ہے کیا ہے اس میں کئی احتمال ہیں اس لئے علماء تفسیر نے مختلف قول اختیار کئے ہیں۔ سدی نے کہا کہ وہ حیات بخش چیز ایمان ہے کیونکہ کافر مردہ ہے۔ قتادہ نے فرمایا کہ وہ قرآن ہے جس میں دنیا و آخرت کی زندگی اور فلاح مضمر ہے۔ مجاہد نے فرمایا کہ وہ حق ہے۔ ابن اسحاق نے فرمایا کہ مراد اس سے جہاد ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عزت بخشی۔ اور یہ سب احتمالات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں اور مراد یہ ہے کہ ایمان یا قرآن یا اتباع حق وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کا دل زندہ ہوتا ہے اور دل کی زندگی یہ ہے کہ بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو غفلت و شہوت وغیرہ کے حجابات حائل ہیں وہ راہ سے ہٹ جائیں اور حجابات کی ظلمت دور ہو کر نور معرفت دل میں جگہ کرلے۔ ترمذی اور نسائی نے بروایت حضرت ابوہریرہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز ابی بن کعب کو بلایا۔ ابی بن کعب نماز پڑھ رہے تھے جلدی جلدی نماز پوری کرکے حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا کہ میرے پکارنے پر آنے میں دیر کیوں لگائی۔ ابی بن کعب نے عرض کیا کہ میں نماز میں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا (آیت) اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ۔ ابی بن کعب نے عرض کیا کہ آئندہ اس کی اطاعت کروں گا اگر بحالت نماز بھی آپ بلائیں گے فورا حاضر ہوجاؤں گا۔ اس حدیث کی بنا پر بعض فقہاء نے فرمایا کہ حکم رسول کی اطاعت سے نماز میں جو کام بھی کریں اس سے نماز میں خلل نہیں ہوتا، اور بعض نے فرمایا کہ اگرچہ خلاف نماز افعال سے نماز قطع ہوجائے گی اور اس کی بعد میں قضا کرنا پڑے گی لیکن کرنا یہی چاہئے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو بلائیں اور وہ نماز میں بھی ہو تو نماز کو قطع کرکے تعمیل حکم کرے۔ یہ صورت تو صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے لیکن دوسرے ایسے کام جن میں تاخیر کرنے سے کسی شدید نقصان کا خطرہ ہو اس وقت بھی نماز قطع کردینا اور پھر قضا کرلینا چاہئے، جیسے کوئی نمازی یہ دیکھے کہ نابینا آدمی کنویں یا گڑھے کے قریب پہنچ کر گرا چاہتا ہے تو فورا نماز توڑ کر اس کو بچانا چاہئے۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ، یعنی یہ بات سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان۔ اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں میں عظیم حکمت و موعظت پائی جاتی ہے جو ہر انسان کو ہر وقت یاد رکھنی چاہئے۔ ایک معنی تو یہ ہوسکتے ہیں کہ جب کسی نیک کام کے کرنے یا گناہ سے بچنے کا موقع آئے تو اس کو فورا کر گزرو۔ دیر نہ کرو اور اس فرصت وقت کو غنیمت سمجھو کیونکہ بعض اوقات آدمی کے ارادہ کے درمیان قضاء الہی حائل ہوجاتی ہے وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کوئی بیماری پیش آجائے یا موت آجائے یا کوئی ایسا مشغلہ پیش آجائے کہ اس کام کی فرصت نہ ملے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ فرصت عمر اور فرصت وقت کو غنیمت سمجھ کر آج کا کام کل پر نہ ڈالے کیونکہ معلوم نہیں کل کیا ہونا ہے من نمی گویم زیان کن یا بفکر سود باش ای زفرصت بیخبر در ہرچہ باشی زود باش اور دوسرا مطلب اس جملہ کا یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے نہایت قریب ہونا بتلایا گیا جیسے دوسری آیت میں وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ ، میں اللہ تعالیٰ کا انسان کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہونے کا بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کا قلب ہر وقت حق تعالیٰ کے خاص تصرف میں ہے جب وہ کسی بندے کی برائیوں سے حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے قلب اور گناہوں کے درمیان آڑ کردیتے ہیں اور جب کسی کی بدبختی مقدر ہوتی ہے تو اس کے دل اور نیک کاموں کے درمیان آڑ کردی جاتی ہے اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعاؤں میں اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، یعنی اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت اور قائم رکھئے۔ حاصل اس کا بھی وہی ہے کہ اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل میں دیر نہ لگاؤ اور فرصت وقت کو غنیمت جان کر فورا کر گزرو معلوم نہیں کہ پھر دل میں نیکی کا یہ جذبہ اور امنگ باقی رہتی ہے یا نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ۝ ٠ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَيْہِ تُحْشَــرُوْنَ۝ ٢٤ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ( ج و ب ) الجوب الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ حشر الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي : «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال : حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) اے جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے کو بجا لایا کرو، جب کہ وہ تمہاری عزت و شرافت اور قتال سے زندگی بخش چیز کی طرف تمہیں بلایا کریں۔ اے مسلمانوں کی جماعت اللہ تعالیٰ مومن اور اس کے قلب کے درمیان محافظ بن جاتا ہے، اس طرح کہ قلب مومن کو ایمان کے اوپر محفوظ رکھتا ہے کہ اس سے کفر سرزد نہیں ہوتا، اور کافر کے دل کو کفر ہی پر قائم رکھتا ہے کہ اسے ایمان کی دولت نصیب ہی نہیں ہوتی اور بیشک روز قیامت تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے وہ تمہارے اعمال کا تمہیں بدلہ دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج) ۔ تم جنگ کے لیے جاتے ہوئے سمجھ رہے ہو کہ یہ موت کا گھاٹ ہے ‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ تو اصل اور ابدی زندگی کا دروازہ ہے۔ جیسا کہ سورة البقرۃ میں شہداء کے بارے میں فرمایا گیا : (وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ) ۔ چناچہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز کی طرف تمہیں بلا رہے ہیں ‘ حقیقی زندگی وہی ہے۔ اس کے مقابلے میں اس دعوت سے اعراض کر کے زندگی بسر کرنا گویا حیوانوں کی سی زندگی ہے ‘ جس کے بارے میں ہم سورة الاعراف میں پڑھ چکے ہیں : (اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ط) (الاعراف : ١٧٩) ۔ (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ ) اور جان رکھو کہ اللہ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجایا کرتا ہے یعنی اگر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پکار سنی اَن سنی کردی جائے اور ان کے احکامات سے بےنیازی کو وطیرہ بنا لیا جائے تو اللہ تعالیٰ خود ایسے بندے اور ہدایت کے درمیان آڑ بن جاتا ہے ‘ جس سے آئندہ وہ ہدایت کی ہر بات سننے اور سمجھنے سے معذور ہوجاتا ہے۔ اسی مضمون کو سورة البقرۃ کی آیت ٧ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ ط) کہ ان کے دلوں اور ان کی سماعت پر اللہ نے مہر کردی ہے۔ جبکہ سورة الانعام کی آیت ١١٠ میں اس اصول کو سخت ترین الفاظ میں اس طرح واضح کیا گیا ہے : (وَنُقَلِّبُ اَفْءِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) یعنی حق کے پوری طرح واضح ہو کر سامنے آجانے پر بھی جو لوگ فوری طور پر اسے مانتے نہیں اور اس سے پہلوتہی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے دل الٹ دیے جاتے ہیں اور ان کی بصارت پلٹ دی جاتی ہے۔ چناچہ یہ بہت حساس اور خوف کھانے والا معاملہ ہے۔ دین کا کوئی مطالبہ کسی کے سامنے آئے ‘ اللہ کا کوئی حکم اس تک پہنچ جائے اور اس کا دل اس پر گواہی بھی دے دے کہ ہاں یہ بات درست ہے ‘ پھر اگر وہ اس سے اعراض کرے گا ‘ کنی کترائے گا ‘ تو اس کی سزا اسے اس دنیا میں یوں بھی مل سکتی ہے کہ حق کو پہچاننے کی صلاحیت ہی اس سے سلب کرلی جاتی ہے ‘ دل اور سماعت پر مہر لگ جاتی ہے ‘ آنکھوں پر پردے پڑجاتے ہیں ‘ ہدایت اور اس کے درمیان آڑ کردی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا اٹل قانون ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19. The most effective means of preventing man from failing prey to hypocrisy is to implant two ideas in his mind. First, that he will have to face the reckoning and judgement of God Who knows what is in the deep recesses of his heart. Even man's intentions and desires, the purposes which he seeks to achieve, the ideas that he seeks to keep hidden in his heart, are all well known to God. Second, that ultimately every man will be mustered to God; that He is so powerful that none can escape His judgement. The deeper the roots of these convictions. the further is man removed from hypocrisy. Hence, while admonishing Muslims against hypocrisy, the Qur'an frequently resorts to emphasizing these two articles oi belief.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :19 نفاق کی روش سے انسان کو بچانے کے لیے اگر کوئی سب سے زیادہ موثر تدبیر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ عقیدے انسان کے ذہن نشین ہوجائیں ۔ ایک یہ کہ معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جو دلوں کے حال تک جانتا ہے اور ایسا رازدان ہے کہ آدمی اپنے دل میں جو نیتیں ، جو خواہشیں ، جو اغراض و مقاصد اور جو خیالات چھپا کر رکھتا ہے وہ بھی اس پر عیاں ہیں ۔ دوسرے یہ کہ جانا بہرحال خدا کے سامنے ہے ۔ اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے ۔ یہ وہ عقیدے ہیں کہ جتنے زیادہ پختہ ہوں گے اتنا ہی انسان نفاق سے دور رہے گا ۔ اسی لیے منافقت کے خلاف وعظ و نصیحت کے سلسلہ میں قرآن ان دو عقیدوں کا ذکر بار بار کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: اس مختصر جملے میں بڑی عظیم حقیقت بیان فرمائی گئی ہے۔ اول تو اسلام کی دعوت اور اس کے احکام ایسے ہیں کہ اگر ان پر تمام اِنسان پوری طرح عمل کرنے لگیں تواسی دُنیا میں وہ پر سکون زندگی کی ضمانت دیتے ہیں۔ عبادات کے علاوہ جو روحانی سکون کا بہترین ذریعہ ہیں، اسلام کے تمام معاشرتی، معاشی اور سیاسی احکام دُنیا کو نہایت خوشگوار زندگی فراہم کرسکتے ہیں، دوسری طرف زندگی تو اصل میں آخرت کی ابدی زندگی ہے، اور اس کی خوشگواری تمام تر اسلامی احکام کی پیروی پر موقوف ہے۔ لہٰذا اگر کسی کو اسلام کا کوئی حکم مشکل بھی محسوس ہو تو اسے یہ سوچنا چاہئے کہ میری خوشگوار زندگی کا دارومدار اس پر ہے، جس طرح اِنسان زندگی کے خاطر بڑے سے بڑے اور مشکل آپریشن کو منظور کرلیتا ہے، اسی طری شریعت کا ہر وہ حکم جس میں محنت یا مشقت معلوم ہوتی ہو، یا نفسانی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہو، اس کو بھی خندہ پیشانی سے منظور کرنا چاہئے، کیونکہ اس کی حقیقی زندگی کا دارومدار اس پر ہے۔ 14: اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں حق کی طلب ہوتی ہے، اگر اس کے دل میں کبھی گناہ کا تقاضا پیدا ہو، اور وہ طالب حق کی طرح اﷲ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے مدد مانگے تو اﷲ تعالیٰ اس کے اور گناہ کے درمیان آڑ بن جاتے ہیں، اور وہ گناہ کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے، اور اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو اسے توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے دل میں حق کی طلب نہ ہو، اور وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کرتا ہو تو اگر کبھی اس کے دل میں نیک خیال آبھی جائے اور وہ اسے ٹلا تا چلا جائے تو اسے نیکی کی توفیق نہیں ملتی، کچھ نہ کچھ اسباب ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ اس کے دل میں جو خیال آیا تھا، وہ کمزور پڑجاتا ہے، اس پر عمل کا موقع نہیں ملتا۔ اسی لئے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جس کسی نیکی کا خیال آئے تو اسے فوراً کر گذرنا چاہئے، ٹلانا خطرناک ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ اس آیت میں اللہ پاک نے اہل ایمان کو خطاب کر کے فرمایا کہ خدا اور اس کے رسول کی بات مانو جب تمہیں رسول ایسی بات کے واسطے بلائے جس میں تمہاری زندگی ہے تو تمہیں سننا چاہئے اور ہر حال میں رسول کی اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ رسول کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ کی مرضی و نامرضی کی ہر ایک بات تم لوگوں کو انہیں رسول کے ذریعہ سے پہنچتی ہے شروع آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے اپنا اور اپنے رسول دونوں کا نام لے کریوں فرمایا اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور رسول کا “ اور پھر فرمایا جس وقت بلاوے تم کو ایک کام پر رسول یہاں اپنے نام کو اس لئے شریک نہیں فرمایا کہ امت کو اللہ تعالیٰ کا ہر ایک حکم رسول کی معرفت پہنچتا ہے اس واسطے اللہ کے رسول کا کسی دینی کام پر لوگوں کو بلانا وہ عین اللہ کا بلانا ہے صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت جابر (رض) کی ایک بڑی حدی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوتے میں اللہ کے فرشتے زمین پر آئے ہیں اور پھر ان فرشتوں نے اللہ کے رسول کی ہدایت کا حال سمجھا کر آخر کو یہ کہنا ہے کہ اللہ کے رسول کی فرمانبرداری عین اللہ تعالیٰ کی فرمابرداری اور ان کی نافرمانی عین اللہ تعالیٰ کی نافرمائی ہے یہ حدیث آیت کو گویا ایسی تفسیر ہے جس کو اللہ کے فرشتوں کو تفسیر کہا جاسکتا ہے صحیح مسلم میں ابوسعید (رض) خدری کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنتی لوگوں سے اللہ کے فرشتے پکار پکار کر کہیں گے کہ اے جنتی لوگو اب تم ہمیشہ ایسے عیش و آرام میں رہو گے کہ دنیا کی طرح یہاں جنت میں تمہیں موت کو تکلیف کبھی پیش نہ آویگی آیت میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصیحت کے سننے کو زندگی کا سبب جو فرمایا اس کی تفسیر اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس نصیحت کے سننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو ہیمشہ کی زندگی عقبے میں ملنے والی ہے اس واسطے اس نصیحت کو زندگی کا سبب فرمایا ترمذی میں ابی بن کعب (رض) کی ایک حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک روز مسجد میں آئے ابی بن کعب (رض) نماز پڑھ رہے تھے آپ نے ان کو پکارا انہوں نے جلدی سی نماز پوری کی اور آپ کے پاس آئے آپ نے فرمایا تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو نے جواب بھی نہیں دیا کہا میں نماز پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا کہ تجھے نہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا کہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو جب وہ بلاوے اور آپ نے یہ آیت پڑھی اسی طرح کی حدیث صحیح بخاری میں ابوسعید بن معلے (رض) سی روایت کی گئی ہے اس حدیث سے اس بات پر دلیل لی گئی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پکارنے کا جواب دینا نماز کے اندر بھی ضرور ہے لیکن یہ بات اللہ کے رسول کے لئے خاص تھی اب کسی کے بلانے پر نماز کی نیت نہیں توڑ سکتے لما یحییکم کی تفسیر میں قتادہ کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن مجید ہے کیونکہ اس میں حیات ابدی اور نعمت ہے اور سدی کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایمان ہے کیونکہ اسی ایمان کی وجہ سے مومن کا دل زندہ رہتا ہے اور کافر کا دل اسی ایمان کے نہ ہونے سے مردہ :۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی فرمانبرداری کی تاکید فرمائی اور فرمایا تھا کہ بعضے لوگ ایسے ہیں کہ رسول کی ہدایت ان کے دل پر بالکل اثر نہیں کرتی اور جانوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ جانوروں کو اپنے نیک وبد کی تمیز اور سمجھ ہے ان کو اتنی بھی سمجھ نہیں اب اس آیت میں فرمایا کہ مسلمان کا دل رسول کی نصیحت سے کسی نیک بات کی طرف مائل ہوا اور اسی نصیحت سے کافروں اور منافقوں کے دل کو کچھ اثر نہ ہوا اور وہ جانوروں سے بدتر بنے رہیں تو اس کا کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جان لینا چاہئے کہ جس اللہ نے انسان کو انسان کے دل کو پیدا کیا ہے اور اسی دل کے ارادہ پر انسان کی آنکھ ہاتھ پیر سب چلتے ہیں وہ دل کا ارادہ بھی اللہ کے ہی قبضہ قدرت میں ہے وہ جیسے انسان کی نیت دیکھتا ہے فورا ادھر انسان کے دل کو پھیر دیتا ہے اس لئے نیک کام کی طرف مائل ہونا پھر اس نیک کام پر آخر عمر تک قائم رہنا اسی طرح برے کام کی طرف مائل ہونا پھر آخر عمر تک اس برے کام پر قائم رہنا سب اللہ کے ہاتھ ہے مسلم ترمذی مسند امام احمد بن حنبل میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے دلوں کے پھیرنے و ہے میرے دل کو دین پر قائم رکھ صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت کیا آپ کو دلوں کے پھرجانے کا خوف ہے آپ نے فرمایا کہ ہاں دنیا بھر کے انسانوں کا۔ اس پر کی حدیث گذر چکی ہے کہ حو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے نتیجہ کے طور پر لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اسی طرح مسلم کہ حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث بھی ایک جگہ گذر چکی ہے کہ ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان رہتا ہے فرشتہ اس شخص کو ہمیشہ نیک کام کی رغبت دلاتا رہتا ہے اور شیطان بدکام کی ان حدیثوں کو آیت تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیثوں کو ملا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ جو لوگ علم آلہی میں بد ٹھہر چکے ہیں وہ اپنے ساتھ کے شیاطین کا کہا مان کر ہمیشہ برے کاموں کی طرف اپنی دلی ارادہ کو مائل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی کو کسی کام پر مجبور کرنا نہیں چاہتا اس لئے کہ اس طرح کی مجبوری انتظام الٰیآ کے برخلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلی ارادہ کو نہیں روکتا اسی طرح جو لوگ علم آلہی میں نیک ٹھہر چکے ہیں وہ اپنے ساتھ کے فرشتے کا کہنا مان کر ہمیشہ نیک کاموں کی طرف اپنے دلی ارادہ کو مائل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے دل میں نیک کاموں کی توفیق پیدا کردیتا ہے اسی واسطے آخر آیت میں فرمایا کہ قیامت کے دن نیک وبدسب کو اللہ کے روبرو کھڑا ہونا پڑیگاتا کہ شیاطینوں کے کہنا ماننے والوں کو سزادی جاوے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:24) استجیبوا۔ تم حکم مانو۔ تم قبول کرو۔ استجابۃ (استفعال) سے امر جمع مذکر حاضر ۔ دعاکم۔ دعا ماضی واحد مذکر غائب یہاں بھی ضمیر واحد آئی ہے جس طرح 8:20 میں عنہ میں آئی ہے۔ لما یحییکم۔ ای الی شیء الذی یحیکم۔ ایسے امر کی طرف جو تمہارے مردہ دلوں کو اور روحوں کو حیات نو بخشتی ہے۔ یحول۔ حول سے باب نصر مضارع واحد مذکر غائب۔ اللہ آڑ بن جاتا ہے۔ اللہ حائل ہوجاتا ہے۔ قلبہ۔ ای اھوانہ۔ اس کے ارادے۔ اس کی خواہشات۔ یعنی اس کے دلی ارادوں اور خواہشات کی تکمیل اس کے اپنے بس کی بات نہیں بلکہ یہ خداوند تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہنا تم پر لازم ہے لما یحییکم ( ) وہ کام جو تمہیں زندگی بخشتا ہے۔ ) میں علمائے سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ بعض نے ایمان واسلام اور بعض نے قرآن لیکن اکثر نے اس سے جہاد مرد لیا ہے کیونکہ جہاد دنیا و آخرت میں زندگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور پھر سیاق کلام کے مناسب بھی یہی ہے لیکن اگر اس سے مراد حق وصواب لیا جائے تو قرآن ایمان جہاد اور برو طاعت کے جملہ امور کر یہ لفظ شامل ہوجاتا ہے مو لانا علامہ لکھتے ہیں اس آیت سے تقلید ناجائز کی جڑ کٹ گئی جب اللہ کا حکم یہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا مانو تو کیونکہ یہ درست ہوسکتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی موجودگی میں دوسرے مجتہد یا امام کی بات پر عمل کیا جائے، دوسرے ائمہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفش بر دار جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا نہ ماننا اپنے آپ کو تباہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے، ( مختصر از وحیدی)4 یعنی حق وا ضح ہوجا نے کے بعد بھی اگر کوئی اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہا نہ مانے تو اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی یہ سزا ملتی ہے کہ ہو انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق ملتی جسیے فرمایا فلما زاغوا ارراع اللہ قلو بھم یعنی وہ خود ٹٹرھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ ( صف 5) آیت کے یہ معنی حضرت ابن عباس (رض) ارجمہور مفسرین نے بیان فرمائے ہیں ( ابن کثیر) ابن قیم (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ٰٗ آدمی کے دل کے قریب ہے اس لیے وہ انسان کے دل کے حالات سے خوب واقف ہے اسے خوب معلوم ہے کہ تم اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر اخلاص سے لبیک کہہ رہے ہو یا کسی دوسرے جذنہ سے۔ مطلب یہ ہے کہ دلوں میں اخلاص پیدا کرو، ( الفوائد) شاہ صاحب (رح) اس آیت کی تشریح یہ فرماتے ہیں حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو شاید اس وقت دل ایسا نہ رہے دل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ( از مو ضح) امام رازی فرماتے ہیں اللہ کا حائل ہونا موت سے کہنا یہ ہے کہ یعنی موت آنے سے قبل نیکی اور اطاعت بجالا وؤ۔ ، اس کے بعد اونہ الیہ تحشرون کے جملہ سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ ( رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ حدیث ترمذی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابھی بن کعب کو پکارا اور وہ نماز میں تھے تو ان کے عذر پر آپ نے ان کو یہ آیت یاد دلائی معلوم ہوتا ہے کہ استجیبوا اپنے عموم سے اس سورت کو بھی شامل ہے کہ جب رسول اللہ کسی کو پکاریں تو جواب دینا واجب ہے اور اپنے اطلاق سے اس صورت کو بھی شامل ہے کہ یہ شخص نماز میں مشغول ہو تو نماز ہی میں جواب دینا واجب ہے۔ 5۔ دو طریق سے ایک طریق یہ کہ مومن کے قلب میں سب طاعت کی برکت سے کفر و معصیت کو نہیں آنے دیتا دوسرا طریق یہ کہ کافر کے قلب میں مخالفت کی نحوست سے ایمان اطاعت کو نہیں آنے دینا اس سے معلوم ہوا کہ اطاعت کی مداومت بڑی نافع چیز ہے اور مخالفت کی مواظبت بڑی مضر چیز ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب دو بارہ اہل ایمان کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہیں۔ کیونکہ رسول کی پکار پر لبیک کہنا تمہارے لیے مفید ہے اور اگر تم نے انکار کیا تو یہ تمہارے برا ہوگا۔ اس دعوت میں ان عقائد و تصورات کو پیش کیا گیا ہے جن سے دل و دماغ زندگی سے بھر جاتے ہیں اور تمام خرافات اور جہالتوں سے پاک و صاف ہوجاتے ہیں۔ اوہام اور افسانوں سے نجات پاتے ہیں اور ظاہری اسباب اور طبیعی قوانین کی جکڑ بندیوں سے بھی نجات پاتے ہیں اور غیر اللہ کی بندگی اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے انسان کو نجات دلاتے ہیں۔ یہ دعوت تمہارے سامنے ایک ایسا قانونی نظام پیش کرتی ہے جو اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس قانونی نظام میں انسانیت کی آزادی اور انسانیت کے احترام کے وہ اصول پیش کیے گئے ہیں جو من جانب اللہ ہیں۔ اس کے اجتماعی نظام میں تمام انسان صف واحد میں کھڑے ہیں۔ بالکل مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس نظام میں کسی فرد کی حکوت نہیں ہے ، کسی طبقے کی حکومت کا تصور نہیں ہے۔ کسی نسل کی حکومت کا تصور نہیں ہے۔ کسی قوم کی حکومت کا تصور نہیں ہے ، بلکہ اس نظام میں تمام لوگ آزاد اور باہم مساوی ہیں اور سب کے سب صرف قانون رب العالمین کے پابند ہیں۔ یہ دوات انہیں ایک ایسے نظام حیات کی طرف بلاتی ہے ، ایک ایسے نظام فکر کی طرف بلاتی ہے اور ایک ایسے نظام تصورات کی طرف بلاتی ہے کہ وہ انہیں ماسوائے ضوابط فطرت کے ہر قسم کی جکڑ بندیوں سے رہا کرتی ہے۔ یہ ضوابط فطرت وہی قوانین و ضوابط ہیں جسے خالق فطرت نے منظم کیا ہے۔ یہ خالق اپنی مخلوقات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ قواعد و ضوابط انسان کی تخلیقی قوتوں کو باہم ٹکر اور مقابلے سے بچاتے ہیں اور یہ تخلیقی قوتوں کو ضائع بھی نہیں کرتے اور ان کا قلع قمع بھی نہیں کرتے اور نہ ان پر کوئی منفی پابندیاں لگاتے ہیں۔ یہ دعوت تمہیں قوت ، عزت اور سربلندی کی دعوت دیتی ہے اور انہیں یہ سکھاتی ہے کہ وہ اپنے عقائد ، اپنے نظام کو مضبوط کریں۔ اپنے رب اور اپنے دین پر پورا بھروسہ کریں۔ اس دعوت کو لے کر اٹھیں اور دنیا کے تمام انسانوں کو یہ آزادی عطا کردیں۔ تمام لوگوں کو خود ان جیسے انسانوں کی غلامی سے آزادی عطا کردیں کیونکہ تمام دنیا میں انسانوں کو باغیوں اور سرکشوں نے غلام بنا رکھا ہے۔ یہ دعوت انہیں جہاد فی سبیل اللہ کی طرف بلاتی ہے تاکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نظام قائم کیا جاسکے۔ لووں کی زندگیاں اس نظام کے مطابق استوار کی جاسکیں۔ اور دنیا سے اقتدار اعلیٰ کے ان نام نہاد مدعیوں کے اقتدار کو ختم کیا جاسکے۔ جن لوگوں نے اللہ کے حق حاکمیت اور منصب مقتدر اعلیٰ کو اپن لیے خاص کر رکھا ہے یہاں تک کہ وہ اس کرہ ارض پر اللہ کے امر اور اقتدار کو تسلیم کرلیں اور یہ جہاد اس وقت تک جاری رہے جب تک دین صرف اللہ کا رئج نہ ہوجائے۔ اگر اس جہاد کے عمل میں ان کی جان بھی چلی جائے تو انہیں شہید کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ یہ ہے اجماعلی تعارف اس دعوت کا جو حضور اکرم دے رہے ہیں اس لیے یہ دعوت ہر مفہوم اور ہر پہلو کے اعتبار سے زندگی عطا کرنے کی دعوت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ کوئی خفیہ عقیدہ نہیں ہے۔ یہ ایک عملی نظام ہے اور اس نظام کے سائے میں در اصل انسانیت زندگی اور ترقی حاصل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں یہ کہا گیا کہ رسول کی دعوت در اصل تمہیں زندہ کرنے کی دعوت ہے۔ اور یہ ہر میدان میں اور ہر پہلو سے کسی بھی سوسائٹی کو زندہ جاوید کرنے والی ہے۔ قرآن کریم اس عظیم حقیقت کو چند الفاظ میں سمو دیتا ہے۔ ذرا دوبارہ غور کیجیے : يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے تو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اس کی دعوت پر اس طرح لبیک کہو کہ اس کو بطیب خاطر قبول کرو اور مطیع فرمان بندے بنو۔ اللہ تعالیٰ اگرچہ تمہیں مجبور کرکے راہ ہدایت پر ڈال سکتا تھا مگر اس نے اس طرح نہیں کیا۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ۔ اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے۔ وہ قادر مطلق ہے اور اس کی قدرت نہایت ہی خوفناک قدرت ہے۔ خود انسان اور اس کے دل و دماغ کے درمیان بھی وہ حائل ہوجاتا ہے اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ اس پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اس کی راہ روک دیتا ہے اور جس طرف چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے۔ جس طرح چاہتا ہے اس کے رخ کو پھیر دیتا ہے۔ جس شخص کے پہلو میں دل ہوتا ہے اسے اس پر کوئی دسترس حاصل نہیں ہوتی۔ فی الواقعہ یہ ایک خوفناک قدرت ہے اور قرآن کریم اس کا نقشہ کیسے الفاظ میں کھینچتا ہے۔ انسانی طرز تعبیر فی الواقعہ اس قسم کی حسی ، لفظی اور معنوی اور موثر تعبیر سے بالکل عاجز ہے۔ یہ خوفناک تصویر ایک مسلمان کی دائمی بیداری کی ضامن ہے۔ مومن بروقت چوکنا رہتا ہے۔ محتاط رہتا ہے اور اپنے دل کی دھڑکن ، اس کے میلانات اور اس کے رجحانات کو قابو میں رکھتا ہے۔ وہ ہر قسم کے وسوسے اور ہر برے رجحان کو قابو میں رکھتا ہے تاکہ اس سے لغزش نہ ہوجائے۔ وہ ہر وقت اپنی راہ پر نظر رکھتا ہے کہ اس راہ میں کس کس جگہ ٹھوکر لگنے کا خطرہ ہے۔ کہاں کہاں وسوسے اور پر کشش مقامات ہیں ، اس لیے کہ ایک مومن اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھتا ہے کہ کسی بھی غفلت کے وقت ، کسی معمولی سی لغزش کے ذریعے ، کسی بھی اقدام کی وجہ سے وہ بھٹک نہ جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول خدا ہونے کے باوجود یہ دعا اکثر اوقات پڑھا کرتے تھے۔ یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے ، میرے دل کو اپنے دین پر جما دے۔ اگر رسول اللہ کا حال یہ تھا تو پھر ہم لوگوں کا کیا حال ہوگا جو نہ رسول ہیں اور نہ معصوم ہیں۔ یہ وہ منظر ہے جس سے دل اٹھتے ہیں اور جب ایک مومن اپنے آپ کو قرآنی آیات کا مخاطب پاتا ہے تو اس کا پورا جسم لرز اٹھتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کے پہلو میں اس کا دل بھی اس کا نہیں ہے ، اللہ کے قبضے میں ہے تو پھر اس کی کیا حیثیت ہے ؟ آیت پر ذرا دو بار غور فرمائیں : يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب کہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے تو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے اس آیت کو پیش کرکے اللہ تعالیٰ ان کو یہ کہتے ہیں کہ اللہ اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ وہ تمہیں بیک کہنے پر مجبور کردیں۔ تم قہراً اس دعوت کو ماننے پر مجبور کیے جاسکتے ہو ، اگر وہ چاہے ، لیکن اللہ تمہیں یہ اعزاز دینا چاہتا ہے کہ تم مطیع فرمان ہو کر اور اپنے ارادے اور اختیار سے اس دعوت کو قبول کرلو۔ تاکہ اس پر تمہیں اجر وثواب ملے اور تمہاری انسانیت کا مقام ایک مجبور کی سطح سے بلند ہوجائے۔ تم انسانیت کے ارفع مقام تک پہنچ جاؤ اور اپنے اختیار سے ہدایت پا لینے والی مخلوق میں داخل ہوجاؤ۔ ایک فہیم اور مدبر مخلوق بن جاؤ، اور اپنے مقصد و ارادے اور علم و معرفت سے اس راہ پر چل نکلو۔ کیونکہ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ” اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤگے “۔ تمہارے دل اس کے ہاتھ میں ہیں۔ تم نے اٹھ کر حشر کے میدان میں کھڑا ہونا ہے۔ اس کے سوا تمہارے لیے اور کوئی راہ نہیں ہے۔ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں لیکن اس صورت حالات کے باوجود اللہ تم کو دعوت دیتا ہے کہ تم آزادانہ طور پر اس راہ پر چلو ، مقہور اور مجبور بندے کی صورت میں نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25: تیسرا قانون جنگ “ لِمَا ” میں لام بمعنی “ اِلیٰ ” ہے اور یہ “ دعا کم ” کے متعلق ہے۔ “ مَا یُحْیِیْکُمْ ” سے جہاد مراد ہے کیونکہ جہاد دنیا اور آخرت کی پاکیزہ اور پرسکون زندگی کا باعث ہے دنیا میں ترک جہاد سے مسلمان کافروں سے غلوب ہو کر مقتول ہوجائیں گے۔ لیکن جہاد کی صورت میں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو غلبہ عطا کرے گا اور دنیا میں اپنی تہذیب و ثقافت اور شان و شوکت کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ “ لانهم رفضوھا (مجاھدة الکفار) لغلبوھم و قتلوھم کما فی قوله تعالیٰ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوة ” (ابو السعود ج 4 ص 532) ۔ یا لام اپنے اصل پر ہے اور “ اِسْتَجِیبُوْا ” کے متعلق ہے اور “ مَا يُحْيِیْکُمْ ” سے قرآن مجید کے تمام اوامرو نواہی مراد ہیں۔ کیونکہ ان پر عمل کرنا حیات ابدیہ اور انعامات سرمدیہ کا موجب ہے۔ “ و قال مجاھد والجمھور المعنی استجیبوا للطاعة وما تضمنه القران من اوامر ونواھی ففیه الحیوة الابدیة والنعمة السرمدیة ” (قرطبی ج 7 ص 389) ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور ان کے احکام بجا لاؤ کیونکہ اس سے حیات ابدی و دائمی حاصل ہوگی۔ 26: اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اپنی زندگی کا شعار بنا لوگے تو اللہ تعالیٰ اپنی توفیق وتائید سے تمہارے ایمان کی حفاظت فرمائے گا اور تمہیں اس پر استقامات عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے بندہ اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجانے سے یہی مراد ہے۔ “ وَاَنَّهٗ ” یہ “ اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ ” پر معطوف ہے اور “ اِعْلَمُوْا ” کے تحت داخل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24 اے ایمان لانے والو ! تم اللہ اور رسول کا حکم بجالایا کرو جب تم کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے کام کی دعوت دیا کریں اور پکارا کریں جو کام تم کو زندگی بخشنے والا اور تم کو زندہ رکھنے والا ہو اور یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے اور اس کے دل کے مابین حائل ہوجایا کرتا ہے اور آڑ بن جایا کرتا ہے اور یہ بات بھی یاد رکھو کہ تم سب کو خدا کے حضور میں جمع ہونا ہے۔ یعنی اللہ اور رسول کا حکم بجالائو جب رسول تمہیں زندگی بخشنے والے کام کی طرف بلایا کرے اور پکارا کرے جیسے جہاد وغیرہ کی طرف تو امتثال امر میں جلدی کیا کرو آدمی اور اس کے دل کے مابین آڑ بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ مومن کے قلب میں طاعت کی برکت سے کفر نہیں جانے دیتا اور کافر کے قلب میں اس کی شقادت کے باعث ایمان نہیں داخل ہونے دیتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی حکم بجالانے میں دیر نہ کرو شاید اس وقت دل ایسا نہ رہے دل اللہ کے ہاتھ ہے اور اللہ اول کسی کے دل کو روکتا نہیں اور مہر نہیں کرتا جب بندہ کاہلی کرے تو اس کی جزا میں روک دیتا ہے یا ضد کرے حق پرستی نہ کرے تو مہر کردیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کبھی شقادت و بدبختی کی مختلف حالتوں میں سے یہ بھی ایک حالت ہوتی ہے کہ حضرت حق تعالیٰ کسی بدنصیب کے لئے خود ٓڑ بن جائیں اور نیکی کی توفیق ہی سلب کرلیں۔ اعاذنا اللہ اسی لئے استجابت کا حکم دیا کہ بھلے کام میں تاخیر نہ کرو اور غفلت سے کام نہ لو مبادا قلب کی حالت بدل جائے۔ آخر میں جواب دہی اور حضور الٰہی میں پیشی کا یقین دلایا تاکہ اس دن کے خیال سے غافل نہ ہوں اور سستی اور کاہلی سے بچیں۔