Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 31

سورة الأنفال

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا قَالُوۡا قَدۡ سَمِعۡنَا لَوۡ نَشَآءُ لَقُلۡنَا مِثۡلَ ہٰذَاۤ ۙ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۳۱﴾

And when Our verses are recited to them, they say, "We have heard. If we willed, we could say [something] like this. This is not but legends of the former peoples."

اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں ، یہ تو کچھ بھی نہیں صرف بے سند باتیں ہیں جو پہلوں سے منقول چلی آرہی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Quraysh claimed They can produce Something similar to the Qur'an Allah tells; وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ايَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَـذَا إِنْ هَـذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الاوَّلِينَ And when Our Ayat are recited to them, they say: "We have heard (the Qur'an); if we wish we can say the like of this. Allah describes the disbelief, transgression, rebellion, as well as misguided statements that the pagans of Quraysh used to utter when they heard Allah's Ayat being recited to them, قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَـذَا ("We have heard (the Qur'an); if we wish we can say the like of this)." They boasted with their words, but not with their actions. They were challenged several times to bring even one chapter like the Qur'an, and they had no way to meet this challenge. They only boasted in order to deceive themselves and those who followed their falsehood. It was said that; An-Nadr bin Al-Harith, may Allah curse him, was the one who said this, according to Sa`id bin Jubayr, As-Suddi, Ibn Jurayj and others. An-Nadr visited Persia and learned the stories of some Persian kings, such as Rustum and Isphandiyar. When he went back to Makkah, He found that the Prophet was sent from Allah and reciting the Qur'an to the people. Whenever the Prophet would leave an audience in which An-Nadr was sitting, An-Nadr began narrating to them the stories that he learned in Persia, proclaiming afterwards, "Who, by Allah, has better tales to narrate, I or Muhammad?" When Allah allowed the Muslims to capture An-Nadr in Badr, the Messenger of Allah commanded that his head be cut off before him, and that was done, all thanks are due to Allah. The meaning of, إِلاَّ أَسَاطِيرُ الاوَّلِين (. ..tales of the ancients) is that; the Prophet has plagiarized and learned books of ancient people, and this is what he narrated to people, as they claimed. This is the pure falsehood that Allah mentioned in another Ayah, وَقَالُواْ أَسَـطِيرُ الاٌّوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِىَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلً قُلْ أَنزَلَهُ الَّذِى يَعْلَمُ السِّرَّ فِى السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُوراً رَّحِيماً And they say: "Tales of the ancients, which he has written down:, and they are dictated to him morning and afternoon." Say: "It (this Qur'an) has been sent down by Him (Allah) Who knows the secret of the heavens and the earth. Truly, He is Oft-Forgiving, Most Merciful." (25:5-6) for those who repent and return to Him, He accepts repentance from them and forgives them. The Idolators ask for Allah's Judgment and Torment! Allah said, وَإِذْ قَالُواْ اللَّهُمَّ إِن كَانَ هَـذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاء أَوِ ايْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

عذاب الٰہی نہ آنے کا سبب : اللہ کے رسول اور استغفار اللہ تعالیٰ مشرکوں کے غرور و تکبر ، ان کی سرکشی اور ناحق شناسی کی ، ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی حالت بیان کرتا ہے کہ جھوٹ موت بک دیتے ہیں کہ ہاں بھئی ہم نے قرآن سن لیا ، اس میں رکھا کیا ہے ۔ ہم خود قدر ہیں ، اگر چاہیں تو اسی جیسا کلام کہدیں ۔ حالانکہ وہ کہہ نہیں سکتے ۔ اپنی عاجزی اور تہی دستی کو خوب جانتے ، لیکن زبان سے شیخی بگھارتے تھے ۔ جہاں قرآن سنا تو اس کی قدر گھٹانے کیلئے بک دیا جب کہ ان سے زبردست دعوے کے ساتھ کہا گیا کہ لاؤ اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر لاؤ تو سب عاجز ہوگئے ۔ پس یہ قول صرف جاہلوں کی خوش طبعی کیلئے کہتے تھے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ کہنے والا نصر بن حارث ملعون تھا ۔ یہ خبیث فارس کے ملک گیا تو تھا اور رستم و اسفند یار کے قصے یاد کر آیا تھا ۔ یہاں حضور کو نبوت مل چکی تھی آپ لوگوں کو کلام اللہ شریف سنا رہے ہوتے جب آپ فارغ ہوتے تو یہ اپنی مجلس جماتا اور فارس کے قصے سناتا ، پھر فخراً کہتا کہو میرا بیان اچھا ہے یا محمد کا ؟ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یہ بدر کے دن قید ہو کر لا یا گیا اور حضور کے فرمان سے آپ کے سامنے اس کی گردن ماری گئی فالحمدللہ اسے قید کرنے والے حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ تھے ۔ قبہ بن ابی معیط ، طعیمہ بن عدی ، نصر بن حارث ، یہ تینوں اسی قید میں قتل کئے گئے ۔ حضرت مقداد بنے کہا بھی کہ یا رسول اللہ میرا قیدی؟ آپ نے فرمایا یہ اللہ عزوجل کی کتاب کے بارے میں زبان درازی کرتا تھا ۔ انہوں نے بعد از قتل پھر کہا کہ حضور میں جسے باندھ کر لایا ہوں؟ آپ نے دعا کی کہ یا اللہ اپنے فضل سے مقداد کو غنی کر دے ۔ آپ خوش ہوگئے اور عرض کیا کہ حضور یہی میرا مقصد اور مقصود تھا ۔ اسی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام ہے لیکن یہ غلط ہے بدر والے دن وہ تو زندہ ہی نہ تھا بلکہ حضور کا فرمان مروی ہے کہ اگر آج یہ زندہ ہوتا اور مجھ سے ان قیدیوں کو طلب کرتا تو میں اسے دے دیتا ۔ اس لئے کہ طائف سے لوٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی اپنی پناہ میں مکہ میں لے گیا تھا ۔ یہ کفار کہتے تھے کہ قرآن میں سوائے پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیوں کے کیا دھرا ہے انہیں کو پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتا رہتا ہے ۔ حالانکہ یہ محض جھوت بات تھی جو انہوں نے گھڑ لی تھی اسی لئے ان کے اس قول کو نقل کر کے جناب باری نے فرمایا ہے کہ انہیں جواب دے کہ اسے تو آسمان و زمین کی تمام غائب باتوں کے جاننے والے نے اتارا ہے جو غفور بھی ہے اور رحیم بھی ہے ۔ توبہ کرنے والوں کی خطائیں معاف فرماتا ہے ، اپنے سامنے جھکنے والوں پر بڑے کرم کرتا ہے ۔ پھر ان کی جہالت کا کرشمہ بیان ہو رہا ہے کہ چاہئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ یا اللہ اگر یہ حق ہے تو ہمیں اس کی ہدایت دے اور اس کی اتباع کی توفیق نصیب فرما لیکن بجائے اس کے یہ دعا کرنے لگے کہ ہمیں جلد عذاب کر ۔ بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ہر چیز کا وقت مقرر ہے ورنہ اس پر بھی عذاب آ جاتا لیکن اگر تمہارا یہی حال رہا تو پھر بھی وہ دن دور نہیں اچانک ان کی بےخبری میں اپنے وقت پر آ ہی جائے گا ۔ یہ تو کہا کرتے تھے کہ ہمارا فیصلہ فیصلے کے دن سے پہلے ہی ہو جائے گا بطور مذاق عذاب کے واقع ہونے کی درخوات کرتے تھے جو کافروں پر آنے ولاا ہے ، جسے کوئی روک نہیں سکتا ، جو اس اللہ کی طرف سے ہو گا جو سیڑھیوں والا ہے ۔ اگلی امتوں کے جاہلوں کا بھی یہی وطیرہ رہا ۔ قوم شعیب نے کہا تھا کہ اے مدعی نبوت اگر تو سجا ہے تو ہم پر آسمان کو گرا دے ۔ اسی طرح ان لوگوں نے کہا ۔ ابو جہل وعیرہ نے یہ دعا کی تھی جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہ کی موجودگی اور انہی میں سے بعض کا استغفار اللہ کے عذاب کی ڈھال ہے ۔ نصر بن حارث بن کلدہ نے بھی یہی دعا کی تھی جس کا ذکر سال سائل میں ہے ان کے اسی قول کا ذکر آیت وقالو ربنا عجل لنا الخ ، میں ہے اور آیت ولقد جئتمونا فرادی الخ ، میں ہے اور آیت سال سائل الخ ، میں ہے ۔ غرض دس سے اوپر اوپر آیتیں اس بیان میں ہیں ۔ عمرو بن عاص جنگ احد میں اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے اللہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا لا یا ہوا دین حق ہے تو مجھے مریے گھورے سمیت زمین میں دھنسا دے گو اس امت کے بع وقوفوں نے یہ تمنا کی لیکن اللہ نے اس امت پر رحم فرمایا اور جواب دیا کہ ایک تو پیغمبر کی موجودگی عام عذاب سے مانع ہے دوسرے تم لوگوں کا استغفار ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ مشرک حج میں طواف کے وقت کہتے تھے لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے بس بس لیکن وہ پھر کہتے الا شریک ھو لک تملیکہ و ما ملک یعنی ہم حاضر ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ پھر کہتے ہاں وہ شریک جو خود بھی تیری ملکیت میں ہیں اور جن چیزوں کو وہ مالک ہیں ان کا بھی اصل مالک تو ہی ہے اور کہتے غفوانک غفوانک اے اللہ ہم تجھ سے استغفار کرتے ہیں اے اللہ تو ہمیں معاف فرما ۔ اسی طلب بخشش کو عذاب کے جلد نہ آنے کا سبب بتایا گیا ہے ۔ فرماتے ہیں ان میں دو سبب تھے ایک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے استغفار پس آپ تو چل دیئے اور استغفار باقی رہ گیا قرشی آپ سمیں کہا کرتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ نے ہم میں سے ہم پر بزرگ بنایا اے اللہ اگر یہ سچا ہے تو تو ہمیں عذاب کر ۔ جب ایمان لائے تو اپنے اس قول پر برا ہی نادم ہوئے اور استغفار کیا اسی کا بیان دوسری آیت میں ہے ۔ پس انبیاء کی موجودگی میں قوموں پر عذاب نہیں آتا ہاں وہ نکل جائیں پھر عذاب برس پڑتے ہیں اور چونکہ ان کی قسمت میں ایمان تھا اور بعد از ایمان وہ استغفار اہل مکہ کے لئے باعث امن و امان تھا ۔ ان دو وجہ امن میں سے ایک تو اب نہ رہا دوسرا اب بھی موجود ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھ پر دو امن میری امت کیلئے اترے ہیں ایک میری موجودگی دوسرے ان کا استغفار پس جب میں چلا جاؤ گا تو استغفار قیامت تک کیلئے ان میں چھوڑ جاؤں گا ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان نے کہا اے اللہ مجھے تیری عزت کی قسم میں تو جب تک تیرے بندوں کے جسم میں روح ہے انہیں بہکاتا رہوں گا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے بھی میری جلالت اور میری بزرگی کی قسم جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا ( مستدرک حاکم ) مسند احمد میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بندہ اللہ کے عذابوں سے امن میں رہتا ہے جب تک وہ اللہ عزوجل سے استغفار کرتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٢] نضر بن حارث کا قول کہ ہم بھی ایسا کلام لاسکتے ہیں :۔ یہ نضر بن حارث تھا جو روسائے قریش میں سے تھا اور فارس کی طرف تجارتی سفر کیا کرتا تھا وہ کہتا تھا کہ اس کلام کو ہم نے سن لیا ہے۔ اس میں سوائے قصے کہانیوں کے اور کیا رکھا ہے ہم چاہیں تو ایسا کلام لاسکتے ہیں۔ چناچہ وہ فارس سے رستم و اسفند یار کے قصے اٹھا لایا اور کہنے لگا کہ قرآن میں عاد اور ثمود کے قصے ہیں اور میرے پاس رستم و اسفند یار کے قصے ہیں۔ لیکن اس کی اس بات کو اس کے ہم مشرب کافروں نے بھی تسلیم نہ کیا۔ کیونکہ جب قرآن نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کفار کو چیلنج کیا کہ اپنے تمام ادیبوں اور شاعروں کو اکٹھا کر کے قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ تو سب نے عاجزی کا اظہار کردیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نضر بن حارث کا اپنا ادبی ذوق بھی انتہائی پست قسم کا تھا۔ قرآن کی ہدایات پر اس کی نظر پڑنا تو بڑی دور کی بات ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا قَالُوْا : ” اَسَاطِيْرُ “ یہ ” اُسْطُوْرَۃٌ، اُسْطَارَۃٌ، اُسْطِیْرَۃٌ“ کی جمع ہے، بےترتیب کہانیاں۔ (قاموس) ابن جریر نے فرمایا کہ ” سَطْرٌ“ کی جمع ” اَسْطُرٌ“ ہے اور اس کی جمع ” اَسَاطِيْرُ “ ہے۔ کفار کہتے تھے کہ یہ قرآن ہے ہی کیا، محض پہلے لوگوں کی بےترتیب فرضی کہانیاں ہیں۔ یہ انھوں نے محض جہل کی وجہ سے کہا، کیونکہ قرآن ترتیب وار تاریخ اور قصے بیان کرنے کے لیے نہیں، بلکہ نصیحت کے لیے اتارا گیا ہے، اس لیے جس مقام پر جس واقعے کے جس قدر بیان کی ضرورت تھی، بیان فرما دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر ان کا یہ اعتراض اور اس کا جواب اس مقام سے کچھ مفصل ذکر فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة فرقان (٥، ٦) ۔ لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ : یہ ان کے عجز کی دلیل ہے، اللہ تعالیٰ نے انھیں پہلے پورے قرآن، پھر اس کی دس سورتوں اور پھر صرف ایک سورت کی مثل لانے کے لیے کہا۔ وہ جواب میں کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم چاہیں تو اس جیسا ہم بھی کہہ دیں، کوئی ان سے پوچھے اگر واقعی ایسا ہی ہے تو تمہیں کس نے اس جیسا کلام لانے سے روکا ہے، تمہاری مقابلے کی غیرت کہاں گئی ؟ اس قدر لاجواب ہونے کے باوجود تم کیوں نہیں کہنا چاہتے ؟ کچھ تو زبان کھولو، صرف (اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ) کی تین آیتوں جیسی ہی سورت لے آؤ۔ معلوم ہوا تم صاف جھوٹ کہہ رہے ہو۔ دیکھیے سورة بقرہ ( ٢٣، ٢٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned in verses 31 and 32 is the absurd remark made by Nadr ibn Harith, a participant of the same meeting at Dar al-Nadwah, with its reply appearing in verse 33. Nadr ibn Harith was a businessman who used to travel to different countries where he had repeated oppor¬tunities of seeing religious books of the Jews and Christians as well as witnessing their modes of worship. When he heard about the accounts of past communities appearing in the Holy Qur&an, he said: قَد سَمِعنَا لَونَشَآءُ لَقُلنا مِثلَ ھٰذَآ اِن ھٰذآ اِلَّا اَسَاطیرُ الاَوَّلِینَ (we have heard, if we wish, we can say some-thing like this. It is nothing but the tales of the ancient - 31). Thereup¬on, some of the Companions (رض) challenged him: If you can say something like this, why would you not say it? The Qur&an had already spoken on the subject and made it the very criterion of the true and the false. The challenge of the Qur&an was beamed at the whole world. If its op¬ponents were true, let them come up with the like of even a very small Surah. In contrast, those who claimed to stake their lives and sacrifice their wealth and children for the sake of upholding their counter-assertion could not even join up their abilities together and come out even with a small Surah which could stand on its own against the Qur&an. Now, after all this, to stand up and say that we too can say something like this, if we so wished, is something no self-respecting person would venture to say. Thus, when the Companions (رض) told him that the Qur&an was nothing but the Divine word, he tried to counter the assertion by showing his own firm adherence to his incorrect faith by saying:

اکتیسویں اور بتیسویں آیتوں میں اسی دارالندوہ کے ایک شریک نضر بن حارث کی ایک بےہودہ گفتگو اور تینتیسویں آیت میں یہود و نصاری کی کتابیں اور ان کی عبادتیں دیکھنے کا بار بار اتفاق ہوتا تھا اس لئے جب اس نے قرآن کریم میں پچلھی امتوں کے حالات سنے تو کہنے لگا کہ (آیت) قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ ۙ اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ، یعنی یہ باتیں تو ہماری سنی ہوئی ہیں اگر ہم چاہیں تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں یہ تو پچھلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ اور جب بعض صحابہ نے اس کو لاجواب کیا کہ اگر تم ایسا کلام کہہ سکتے ہو تو پھر کہتے کیوں نہیں جب کہ قرآن نے حق و باطل کا فیصلہ اس پر رکھ دیا ہے اور پوری دنیا کو یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر خلاف کرنے والے سچے ہیں تو قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت ہی کی مثال پیش کریں۔ اور خلاف میں سر دھڑ کی بازی لگانے والے مال و اولاد قربان کرنے والے سب مل کر بھی ایک چھوٹی سی سورت قرآن کے مقابلہ میں پیش نہ کرسکے تو اب یہ کہنا کہ ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام کہہ سکتے ہیں ایک ایسی بات ہے جو کوئی غیرت مند آدمی نہیں کہہ سکتا۔ پھر جب نضر بن حارث سے صحابہ کرام نے اس کلام الہی کا حق ہونا بیان کیا تو اپنے غلط مذہب پر پختگی دکھلانے کے لئے کہنے لگا :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآ۝ ٠ ۙ اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۝ ٣١ تلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس/ 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ سطر السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء/ 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر : إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطراوأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ( س ط ر ) السطر والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم/ 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور/ 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام/ 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) اور جب نضر بن حارث اور اس کی جماعت کے سامنے ہمارے احکام پڑھے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ تو ہم نے سن لیا اگر ہم ارادہ کریں تو جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں، اس جیسا ہم بھی کہہ سکتے ہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ کہتے ہیں وہ تو پہلے لوگوں کی بےبنیاد باتیں ہیں۔ شان نزول : (آیت ) ” واذا تتلی علیہم ایتنا “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے حضرت سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں میں سے عقبہ بن ابی معیط، طعیمۃ بن عدی اور نضر بن حارث کو قتل کروایا اور مقداد نے نضر کو قید کیا تھا جب نضر کی گردن مارنے کا آپ نے حکم فرمایا تو مقداد نے کہا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میرا قیدی ہے، آپ نے ارشاد فرمایا اس نے اللہ کی کتاب کے بارے میں بہت زبان درازی کی ہے اور اسی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے تو انہوں نے اس آیت کو سن کر کہا کہ ہم نے یہ آیت سن لی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآلا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) ۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں یہ قول نضر بن حارث سے منسوب ہے۔ لیکن ان کی اس طرح کی باتیں صرف کہنے کی حد تک تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو بار بار یہ چیلنج دیا گیا کہ اگر تم لوگ اس قرآن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ نہیں سمجھتے تو تم بھی اسی طرح کا کلام بنا کرلے آؤ اور کسی ثالث سے فیصلہ کرا لو ‘ مگر وہ لوگ اس چیلنج کو قبول کرنے کی کبھی جرأت نہ کرسکے۔ اسی طرح پچھلی صدی تک عام مستشرقین بھی یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تورات اور انجیل سے معلومات لے کر قرآن بنایا ہے ‘ مگر آج کل چونکہ تحقیق کا دور ہے ‘ اس لیے ان کے ایسے بےت کے الزامات خود بخود ہی کم ہوگئے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣١۔ ٣٢۔ ایک شخص مشرکین مکہ میں نضر بن حارث تھا اس کو بدر کی لڑائی میں مقداد صحابی نے پکڑا تھا اور باوجود اس کے کہ بدر کے اور قیدی فدیہ لے کر چھوڑ دیے گئے مگر نضر بن حارث کو ایسی وجہ سے آنحضرت نے قتل کیا کہ وہ قرآن شریف کی شان میں ناشائستہ اور سخت الفاظ کہا کرتا تھا مجوس کے ملک کا سفر اس نضربن حارث نے اکثر کیا تھا اور رستم واسفند یار وغیرہ کی داستانیں اس کو خوب یاد تھیں۔ قرآن کے مقابلہ میں مشرکین کو وہ داستانیں سنایا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ کہو میرے قصے اچھے ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کہتا تھا چاہوں تو میں ایسا قرآن بنا سکتا ہوں اس کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آگے کی آیت میں پتھر برسنے اور عذاب کے آنے کی خواہش کا جو ذکر ہے صحیح بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ یہ خواہش ابوجہل نے کی تھی اور تفسیر ابن ابی حاتم میں سعید بن جبیر کی روایت ہے اس سے معلوم ہوتا کہ یہ خواہش بھی نضر بن حارث ہی نے کی تھی اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ گذر چکا ہے کہ ابن ابی حاتم نے صحت روایت کا زیادہ خیال رکھا ہے اس واسطے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواہش ابوجہل اور نضر بن حارث دونوں شخص نے کی تھی ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی کم عقلی جتلائی ہے کہ وہ قرآن جس میں ایک آیت بھی بنا کر یہ لوگ نہیں پیش کرسکے پھر باوجود اس کے قرآن کی شان میں ایسی کم عقلی کی باتیں ان میں کے بعضے لوگ منہ سے نکالتے تھے اور قوم کے باقی لوگ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے یہ ان لوگوں کی بڑی بےعقلی ہے۔ صحیح مسلم ابوداؤد وغیرہ میں جابر (رض) بن عبداللہ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر شخص کو اس طرح کی بددعا سے منع فرمایا ہے اس حدیث کو آخر آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ جس طرح کی بددعا ابوجہل اور نضر بن حارث نے کی تھی اس طرح کی بددعا مسلمان شخص کو کسی حال میں جائز نہیں ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:31) اساطیر۔ کہانیاں ۔ من گھڑت لکھی ہوئی باتیں۔ اسطورۃ کی جمع۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 جمہور مفسرین کے قول کے مطابق یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ ایران کا سفر کر تارہتا تھا اس لیے اس نے رستم اور اسفند یا رو غیر کی کہانیاں یاد کرلی تھیں ایک مرتبہ مکہ آیا اور قرآن سنا تو وہ بات کہنے لگا جس کا اس آیت میں مذکور ہے۔ ( کبیر۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفار کی دشمنی قرآن کی وجہ سے تھی۔ جس بنا پر کفار نے آپ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا ان کی عادت اور غلطی یہ تھی کہ وہ دل لگا کر قرآن سنتے ہی نہیں تھے اگر کسی طرح سن لیتے تو کہتے ہیں یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے مختلف قسم کے بہانے بناتے اور الزامات لگایا کرتے تھے۔ ان الزامات میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے ایسا کلام بنا کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتا ہے۔ حالانکہ اس پر کسی قسم کی وحی نازل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر انھیں یکے بعد دیگرے چیلنج دیے کہ اگر تمہیں اس بات پر شک ہے کہ اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہم نے قرآن مجید نازل نہیں کیا اور اس نے خود یہ کلام بنا لیا ہے تو تم جس، جس کو چاہو اپنے ساتھ ملا کر ایک سورة ایسی بنا لاؤ۔ لیکن وہ اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکے تھے اور قیامت تک کوئی اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکے گا۔ اس کے باوجود ہر زہ سرائی کرتے ہوئے کہتے اے محمد ! ہم نے آپ کے قرآن کو سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو ایسا کلام بنا سکتے ہیں کیونکہ یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں اور ایسے قصے کہانیاں بنانا ہمارے لیے مشکل نہیں ہے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے بندے پر جو قرآن نازل کیا ہے اس کے من جانب اللہ ہونے پر تمہیں شک ہے اور تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا جہاں کے جن و انس اور جس کو جیسے اور جب چاہو اپنے ساتھ ملا کر انفرادی یا اجتماعی طور پر ایک ہی سورة بنا کرلے آؤ۔ لیکن یاد رکھو ! اب تک نہ ہوا اور نہ قیامت تک ایسا ہو سکے گا۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات وصفات کے لحاظ سے اعلیٰ وارفع، لازوال اور بےمثال ہے اسی طرح اس کا کلام اعلیٰ ، ارفع، لازوال اور بےمثال ہے۔ قرآن مجید انسانوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے اللہ کریم کی طرف سے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا معجزہ عطا کیا گیا ہے۔ جس کی بلاغت نے قیامت تک دنیا کے سخن وروں، قانون دانوں، شاعروں اور ادیبوں کو لا جواب کردیا ہے۔ اس کے باوجود ہر دور کے کافر قرآن مجید ‘ فرقان حمید کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ لیکن بالآخر انہیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا پڑا اور کرتے رہیں گے۔ جس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں تاکہ قرآن کے طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ منکرین قرآن کس طرح اپنی نا کامی کا اعتراف کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ جب مقابلہ تمہارے بس کا روگ نہیں تو اس آگ سے بچو جس میں پتھروں اور انسانوں کو جھونکا جائے گا جو کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ (البقرۃ : ٢٤ ) فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس نے اعتراف کیا : ” بیشک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلا شبہ جن حقائق و معارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک وشبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم واعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2005 میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو سطح زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیحی مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ “ [ معارف القرآن مفتی محمد شفیع ] ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب “ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف کیا، ان کے الفاظ یہ ہیں : ” نبی اُمّی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا، اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔ “ مسٹر وڈول جس نے قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتے ہیں : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں۔ اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے، اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے۔ اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔ “ (شہادۃ الاقوام، ص ١٣) مسائل ١۔ مشرکین قرآن مجید کو غور سے نہیں سنتے۔ ٢۔ قرآن مجید کو، کافر پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں کہتے ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید کے منکر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ٤۔ قرآن مجید کا لوگوں کو قیامت تک کے لیے چیلنج ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہاں سے آگے سیاق کلام میں کفار کے افعال اور احوال بیان کیے جاتے ہیں۔ ان کے دعوے اور ان کے اعترافات کا بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کا یہ دعویٰ بھی یہاں ریکارڈ کردیا جاتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو وہ اس قسم کا کلام پیش کرسکتے ہیں جبکہ یہ قرآن ان کے زعم میں محض پرانے قصوں پر مشتمل کتاب ہے۔ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں سعید ، سدی اور ابن جریج وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ یہ بات کہنے والا نضر ابن الحارث تھا۔ ” یہ ملعون فارس کے علاقوں میں پھرتا رہا تھا۔ اس نے ملوک فارس کی تاریخ اور رستم و اسفند یار کے قصے یاد کر رکھے تھے۔ جب وہ فارس سے واپس ہوا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوگئی تھی اور آپ لوگوں کے سامنے قرآن مجید پڑھتے تھے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی مجلس سے تبلیغ کرکے اٹھتے تو وہاں نضر ابن الحارث پہنچ جاتا اور لوگوں کو یہ قصے سناتا اور کہتا تمہیں خدا کی قسم سچ کہو ہم میں سے کن اچھا قصہ گو ہے۔ میں یا محمد ؟ جب بدر کی جنگ پیش آئی تو اللہ نے اسے گرفتار کیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ میرے سامنے اس کی گردن اڑا دی جائے اور ایسا ہی ہوا۔ اسے مقداد ابن الاسود نے گرفتار کیا تھا۔ اس بارے میں ابن جریر محمد ابن بشار سے محمد ابن جعفر سے ، شعبہ سے ، ابو بشر سے ، سعید ابن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن ، عقبہ بن ابومعیط ، طعیمہ ابن عدی اور نضر ابن الحارث کی گردن اڑانے کا حکم دیا تھا۔ مقداد نے نضر کو گرفتار کیا تھا۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قتل کے احکام صادر کیے تو حضرت مقداد نے کہا ” رسول اللہ ، یہ تو میرا قیدی ہے “ اس پر حضور نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ اس پر دوبارہ حضرت مقداد نے کہا حضور یہ میرا قیدی ہے۔ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اے اللہ مقداد کو اپنے فضل سے غنی بنا دے “ اس پر حضرت مقداد نے کہا ” یہی تو میں چاہتا تھا “۔ کہتے ہیں ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے : وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ ۙ اِنْ هٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ ۔ جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھی تو کہتے تھے کہ ” ہاں سن لیا ہم نے ، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں ، یہ تو وہی پرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آ رہے ہیں “۔ قرآن کریم میں مشرکین کی اس بات کو بار بار لایا گیا ہے کہ قرآن کریم میں پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں : قالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرۃ واصلیا۔ وہ کہتے ہیں یہ پرانی کہانیاں ہیں جو اس نے لکھ لی ہیں اور یہ صبح شام اسے لکھوائی جاتی ہیں “۔ یہ ان رکاوٹوں میں سے ایک ہے جو وہ قرآن کی انقلابی تعلیمات کے مقابلے میں کھڑی کرتے تھے ، حالانکہ قرآن کریم کا خطاب فطرت انسانی سے تھا اور یہ کلمات انسانی فطرت پر ایسا اثر کرتے تھے کہ وہ جھوم اٹھتی اور لبیک کہتی ۔ جب دلوں پر یہ کلمات پڑتے تو وہ لرز اٹھتے اور اس کے مقابلے میں ٹھہر نہ سکتے۔ چناچہ اس کلام کے مقابلے میں قریش کے لیڈر اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے۔ لیکن وہ خود بھی جانتے تھے کہ یہ چالیں کارگر نہ ہوں گی۔ بہرحال انہوں نے کلام الہی میں ایک ایسی چیز تلاش کرلی جو ان کی پرانی کہانیوں کے مشابہ تھی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے جاہل عربوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اس انقلابی تحریک سے متاثر نہ ہوجائیں اور عوام جس طرح ان کبراء کی غلامی میں چلے آ رہے تھے ، بدستور چلتے رہیں۔ قریش کے لیڈر یہ بھی جانتے تھے کہ دعوت اسلامی کی حقیقت کیا ہے ، وہ عرب تھے اور قرآن کے مضامین سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا مفہوم و رماد کیا ہے ؟ اس کا مقصد یہ ہے کہ شہادت دینے والا تمام انسانوں کے اقتدار اور حاکمیت کا انکار کر رہا ہے۔ یہ اپنے آپ کو تمام انسانوں کی حاکمیت سے نکال رہا ہے اور یہ اعلان کر رہا ہے کہ آج سے وہ صرف اللہ کی بندگی اور حاکمیت میں داخل ہوگیا ہے۔ پھر وہ یہ بھی اعلان کر رہا ہے کہ آج سے نہ صرف اللہ کی بندگی اور حاکمیت میں داخل ہوگیا ہے۔ پھر وہ یہ بھی اعلان کر رہا ہے کہ آج سے وہ صرف اللہ کی بندگی اور حاکمیت میں داخل ہوگیا ہے۔ پھر وہ یہ بھی اعلان کر رہا ہے کہ آج کے بعد وہ ہر قسم کی ہدایات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اخذ کرے گا۔ اب وہ ان لوگوں سے کوئی ہدایت نہ لے گا جو بتوں کے نام پر بات کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جو لوگ یہ شہادت دے دیں وہ کلمہ پڑھتے ہی ریش کی غلامی ، ان کے اثر اور ان کے اقتدار سے کل جاتے ہیں وہ اس اجتماعی نظام کے کل پرزے بن جاتے ہیں جس کی قیادت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہے۔ یہ حضور کی قیادت و سیادت کے تابع اور مطیع ہوجاتے ہیں۔ خواہ وہ جس قبیلے کے افراد ہوں ان کا تعلق ولدیت اور معاشرت اس قبیلے سے ختم ہوجاتا ہے اور وہ جدید قیادت کے وفادار اور ذمہ دار بن جاتے ہیں جس کا نام قیادت محمدی ہے۔ یہ تھا کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا مفہوم۔ یہ مفہوم انہوں نے مکہ کی گلیوں میں چلتا پھرتا دیکھا تھا۔ وہ رات دن اس مفہوم سے خطرہ محسوس کرتے تھے۔ ان کا اجتماعی نظام ، ان کا قبائلی وجود اور ان کی قیادت و سیادت انہیں ختم ہوتی نظر آتی تھی۔ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ کا وہ کمزور ، بےمقصد اور بےاثر مفہوم کبھی بھی نہ تھا جو آج ہم اس کلمے سے سمجھتے ہیں یہ زعم رکھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ محض اس لیے کہ ہم زبان سے کلمہ شہادت کو ادا کر رہے ہیں ار بعض مراسم عبودیت بھی بجا لاتے ہیں جبکہ زمین پر اقتدار اعلیٰ اور لوگوں کی زندگیوں میں اسلامی نظام کا اتہ پتہ ہی نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے پر جاہلی قیادتیں اور جاہلیت کے پیروکار سربراہ حکمران ہیں اور اپنی مرضی سے تمام امور سر انجام دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مکہ میں نہ تو اسلام کی حکومت نہیں ور نہ وہاں شریعت نافذ تھی۔ لیکن جو لوگ کلمہ طیبہ کا اقرار کرتے تھے وہ اپنی پوری قیادت و اختیارات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں دے دیتے تھے اور ان کی وفاداریاں خود اپنے معاشرے سے کٹ کر جماعت مسلمہ کے ساتھ وابستہ ہوجاتی تھیں۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ جاہلی قیادت کا جوا اپنی گردنوں سے اتار پھینکتے تھے بلکہ یہ جاہلی اقدار سے باغی ہوجاتے تھے۔ اپنے قبیلے ، اپنے خاندان اور جاہلی قیادت سے فوراً کٹ جاتے تھے وہ کلمہ شہادت پڑھتے ہیں۔ لہذا ان لوگوں کی طرف سے کلمہ طیبہ محض خالی خولی بات ہی نہ تھی بلکہ وہ ایک مفہوم تھا اور وہ مفہوم جماعت مسلمہ کی زنگیوں میں نمودار ہوا کرتا تھا۔ یہ تھی وہ اصل بات جس سے قریش خوفزدہ تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ اسلام سیلاب کی طرح امنڈتا چلا آرہا ہے۔ اس سے قبل حنفاء کی بھی ایک جماعت تھی مشرکین کے عقائد اور اعمال سے علیحدہ رہتے تھے اور ان کی طرح عبادت بھی نہ کرتے تھے۔ اللہ کو وحدہ لا شریک سمجھتے تھے ، صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے کوئی بھی بتوں کی عبادت نہ کرتا تھا۔ یہاں تک تو جو شخص جو رویہ چاہے اختیار کرے کوئی جاہلی نظام اسے نہ چھیڑے گا کیونکہ اس قدر رویہ اہل جاہلیت کے نظام کے لیے کوئی خطرہ نہ تھا۔ یہ تو محض مخالفانہ عقائد تھے اور ایک علیحدہ طریقہ عبادت تھا لیکن صرف یہ اسلام نہیں ہے جیسا کہ بعض پاکباز اور بھلائی پسند لوگ سمجھتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ وہ اچھے مسلمان بن گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بھولے بھالے لوگ ہیں اور انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے۔ اسلام صرف درست کلمہ کی تلاوت کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک تحریک کا نام بھی ہے اور تحریک یہ کہ انسان فوراً جاہلی تصورات اور جاہلی معاشرے اور جاہلی قیادت کی گرفت سے باہر نکل آئے اور جاہلی قیادت کے قوانین و شریعت سے نکل کر اپنی پوری وفاداری کو اسلامی قیادت کے ساتھ وابستہ کردے جو کسی خطہ زمین پر اسلام کو عملاً نافذ کرنا چاہتی ہے۔ یہی وہ بات تھی جس کی وجہ سے قریش کے کبراٗ کی نیند حرام تھی اور وہ کانٹوں پر لوٹ رہے تھے۔ اور تحریک اسلامی کے خلاف قسم قسم کے حربے لے کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ان حربوں میں سے ایک حربہ یہ بھی تھا کہ قرآن کریم کے بارے میں یہ شکوک پھیلائے جائیں کہ یہ پرانی کہانیاں ہی تو ہیں اور اگر وہ چاہیں تو ایسی کہانیاں تصنیف کرسکتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل قرآن نے ان کو بار بار چیلنج دیا تھا اور وہ ایسا کوئی کلام پشی کرنے سے عاجز ہوگئے تھے۔ اساطیر کا واحد اسطورہ ہے۔ اس سے مراد وہ قصص ہیں جن کے اندر مذہبی خرافات بھی ہوں یعنی خداؤں کی کہانیاں ، پرانے لوگوں کے قصے ، اور مذہبی لیڈروں کی بہادریاں اور ایسے محیر العقول واقعات جو تخیلات پر مشتمل ہوں ، تخیل ان قصوں کا بنیادی عنصر ہوتا ہے۔ قریش قرآن کریم میں بیان کردہ اقوام سابقہ کے قصص کی نشاندہی کرکے ، ان میں سے معجزات کو لیتے اور اللہ تعالیٰ نے سابقہ زمانوں میں جھٹلانے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ واقعات لیتے اور مکہ کے غافل اور جاہل لوگوں کو یہ باور کراتے کہ تم خود پڑھو ، یہ پرانے قصے ہیں۔ یہ قصص محمد نے ان لوگوں سے اخذ کیے ہیں جو اس میدان کے باہر ہیں۔ اور مہارین سے لے کر وہ یہاں آ کر تمہارے سامنے پڑھتا ہے۔ اور یقین یہ رکھتا ہے کہ یہ اس پر وحی ہوتے ہیں۔ یوں نضر ابن الحارث خود رسول اللہ کی مجلس میں بیٹھ کر یہ باتیں کرتا یا حضور کی مجلس کے بالمقابل اپنی مجلس جماتا اور اس میں ایسی باتیں کرتا۔ اس میں اہل فارس کے پرانے تاریخی قصے بیان کرتا اور پھر لوگوں کو کہتا یہ دیکھو یہ بھی ویسے ہی قصص ہیں جیسے قرآن کریم بیان کرتا ہے۔ دیکھو ان قصوں کے بل بوتے پر وہ نبوت کا مدعی ہے اور میں یہ دعوی نہیں کرتا لیکن ہیں یہ دونوں صرف پرانے قصے۔ یہ تھی اس ملعون کی تقریر اور ضروری ہے کہ مکہ کے حلقوں میں خصوصاً ابتدائی دور میں ضرور اس کے کچھ اثرات بھی ہوں گے۔ اس ابتدائی دور میں جس میں ابھی تک قرآن کریم کے قصص اور فارس والوں کی پرانی کہانیوں کے درمیان فرق و امتیاز لوگوں کے ذہنوں میں واضح نہ ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور کے منادی نے معرکہ بدر سے قدرے پہلی یہ اعلان کروا دیا تھا کہ نضر ابن الحارث بچنے نہ پائے اور قتل کردیا جائے اور جب وہ اسیر ہو کر آیا تو آپ نے اسے قتل کرادیا اور اس سے فدیہ قبول نہ کیا جس طرح دوسرے قیدیوں سے قبول کیا تھا۔ لیکن ابتدائی حملے کے بعد مکہ میں یہ سب تدابیر بیکار ہوگئیں ، یہ اندر مخالفت جلد ہی ختم ہوگیا۔ اور لوگوں پر اس کی حقیقت کھل گئی۔ قرآن کریم کی چھا جانے والی قوت جو اسے اللہ کی جانب سے دی گئی ہے اور وہ قوت جو اس کے اندر پیش کردہ سچائی کے اندر پوشیدہ ہے وہ انسانی فطرت کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہے۔ چناچہ اس کے مقابلے میں جلد ہی اس قسم کے ہتھکنڈے فیل ہوگئے اور اس کے مقابلے میں جلد ہی میدان صاف تھا۔ اب قریش حیرانی و رپیشانی کی حالت میں اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور ہوگئے۔ پہلے تو وہ لوگوں کو دعوت موازنہ دیتے تھے۔ اب کہنے لگے لا تسمعوا لھذا القران والغو فیہ لعلکم تغلبون۔ اس قرآن کو مت سنو اور جب وہ پڑھا جا رہا ہو تو شور مچا ، شاید یہ کہ اس طرح تم غلبہ پا لو۔ لیکن ان میں نہایت ہی سرکردہ لوگ مثلاً ابوسفیان ، ابوجہل ، اور اخنس ابن شریق جیسے لوگ بھی اس حکم پر عمل نہ کرسکے اور وہ ایک دوسرے سے چھپ کر رات کو جاتے اور قرآن کی تلاوت سنتے۔ وہ رات کو تلاوت قرآن کے مقررہ وقت میں صبر نہ کرسکتے اور دوسروں سے چھپ کر پہنچ جاتے تھے۔ لیکن جب ان کا راز ایک دوسرے پر کھلا تو پھر انہوں نے کہا نہایت ہی سخت عہد کیا کہ ہر گز نہ آئیں گے ورنہ وہ قرآن کا شکار ہوجائیں گے۔ یہ بات یاد رہے کہ قرآن کے خلاف نضر ابن الحارث کی تحریک ختم نہیں ہوگئی اور نہ ہوگی اور نہ یہ کوئی آخری تحریک تھی۔ یہ تحریک بھی مختلف شکلوں میں انسانی تاریخ میں ہمیشہ رہی ہے۔ دین اسلام کے دشمنوں نے اہل اسلام کو ہمیشہ قرآن سے باز رکھنے کی سعی کی ہے۔ جب وہ اور طریقوں سے قرآن کو ختم نہ کرسکے تو انہوں نے اسے گانا شروع کردیا۔ قراٗ کرام اسے خوش الحانی سے پڑھتے ہیں اور یہ لوگ اس پر جھومتے ہیں اور انہوں نے اس کے احکام و آیا سے گنڈے اور تعویذ بنانے شروع کردیے۔ کسی نے بازو پر باندھ لیا ، کسی نے گلے میں لٹکا لیا اور کسی نے تکیے کے نیچے رک لیا۔ اور سمجھے کہ ہم تو مسلمان ہیں اور ہم نے قرآن کا حق ادا کردیا ہے اور اس طرح اس دین کا حق ادا ہوگیا ہے۔ آج صورت حالات یہ ہے کہ قرآن لوگوں کی زندگی کے لیے مصدر رشد و ہدایت نہیں ہے۔ دشمنان دین نے قرآن کے مقابلے میں بعض اور مصادر اور مراجع وضع کردیے ہیں جہاں سے لوگ ہدایات لیتے ہیں۔ یہ ان نئے مراجع سے اپنے تصورات ، اور مقاصد اخذ کرتے ہیں اور قوانین و ضوابط بھی یہ لوگ ان دوسرے مصادر سے لیتے ہیں۔ اقدار حیات اور حسن و قبح کے پیمانے بھی ان مصادر سے لیتے ہیں لیکن زبان سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ دین اسلام محترم ہے۔ قرآن محفوظ ہے اور وہ صبح و شام لوگوں پر پڑھایا جاتا ہے۔ گانے والے اسے گاتے ہیں۔ قراٗ اس کی تلاوت کرتے ہیں اس ترنم اور اس ترتیل کے بعد آخر لوگ اور کیا چاہتے ہیں ؟ رہے تصورات اور مطالب ، حسن و قبح کے پیمانے اور اقدار حیات ، اجتماع نظم اور معاشرتی طور طریقے ، قوانین و ضوابط اور اصول و دستور تو مان کے بارے میں تو مسلمانوں نے کچھ اور قرآن گھڑ رکھے ہیں اور یہ لوگ اصل قرآن کی طرف لوٹتے ہی نہیں کیا اس ہتھکنڈے اور نضر ابن الحارث کے ہتھکنڈوں میں کوئی فرق ہے ؟ ہاں جدید ہتھکنڈے جدید اسلوب میں ہیں۔ یہ اس کے مقابلے میں زیادہ پیچیدہ اور زیادہ پوشیدہ ہیں اور یہ جدید چالیں جدید پیچیدیگی زندگی میں زیادہ کامیاب ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ویسی ہی سازشیں ہیں جیسی قریش کرتے تھے یا اسلام کی طویل تاریخ میں ہوتی رہیں۔ لیکن قرآن کے بھی کیا کہنے ؟ یہ ایک عجیب کتاب ہے اس کی طویل تاریخ میں اسکے خلاف یہ کھیل اور پیچیدہ سازشیں ہوتی رہی ہیں لیکن آخر کار فتح قرآن ہی کی ہوتی ہے۔ یاد رکھو ، قآن کریم کی عجیب خصوصیات ہیں ، انسانی فطرت پر اس کی گرفت بہت ہی مضبوط ہے۔ اس کے خلاف یہود و ہنود اور انسانوں اور شیطانوں کی کوئی چال کامیاب نہیں ہوتی۔ آج اس کے خلاف جو عالمی سازشیں ہو رہی ہیں جن کا سر رشتہ عالمی یہودیت اور عالمی صیہونیت کے ہاتھ میں وہ جاری وساری ہیں اور قرآن غالب و ناصر ہے۔ یہ قرآن آج بھی اس پورے کرہ ارض پر اپنے دشمنوں کو شکست دے رہا ہے۔ یہ دشمن مجبور ہیں کہ اس کی تلاوت کو پوری دنیا میں نشر کریں۔ یہود و نصاری اور ہندو وغیرہ اسے اپنے میڈیا سے نشر کرتے ہیں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے وہ ایجنٹ حکران بھی اسے نشریات کا حصہ بناتے ہیں ، وہ ایجنٹ جو مسمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ بیشک یہ لوگ قرآن کو اپنی نشریات کا حصہ تو بناتے ہیں لیکن انہوں نے قرآن مجید کو محض قراٗت اور ترنم اور ترتیل کا ذریعہ بنا دیا ہے یا اس سے آگے اسے تعویذوں اور گنڈوں کے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ قرآن کریم کو انہوں نے مسلم فکر سے نکال دیا ہے اور اسے مسلمانوں کی فکر اور عملی راہنمائی کے مقام سے ہٹا دیا ہے مسلمانوں کی فکری اور عملی راہنمائی کے لیے ان دشمنوں نے جدید فلسفے اور نظریات گھڑ لیے ہیں لیکن یہ کتاب بدستور تمام سازشوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ یہ بدستور اپنا کام کر رہی ہے اور اس دنیا کے ہر حصے ایسے گروہ موجود ہیں جو اس کو اپنا صحیح مقام عطا کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ جدوجہد کر رہے ہیں کہ یہ کتاب رشد و ہدایت کا مرجع ہو۔ یہ گروہ ہر جگہ مصروف کار ہیں اور اللہ کی جانب سے تائید و نصر کے طلبگار اور امیدوار ہیں کہ اللہ ان کو اس کرہ ارض کا اقتدار نصیب کرے اور قرآن کریم اپنے اصل مقام کو پالے۔ ایک موقع پہلے اگر یہ کامیاب ہوچکا ہے تو انشاء اللہ دوبارہ بھی ہوکر رہے گا۔ ان شاء اللہ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کا عناد اور جھوٹا دعویٰ کہ ہم بھی قرآن جیسا کلام کہہ سکتے ہیں قبیلہ بنی عبدالدار میں سے ایک شخص نضربن الحارث تھا یہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت زیادہ دشمنی رکھتا تھا۔ مشرکین مکہ قرآن مجید سنتے تھے اور اس کے مقابلہ میں کوئی ایک آیت لانے سے عاجز تھے۔ اس کی فصاحت و بلاغت کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے جب ان کو چیلنج دیا گیا کہ اس کے مقابلہ میں ایک سورت بنا کر لاؤ تو عاجز رہ گئے۔ لیکن نضر بن الحارث نے ” کھسیانی بلی کھمبا نوچے “ کے طریقہ پر خفت مٹانے کے لیے یوں کہا کہ ” لَوْنَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَآ۔ “ (اگر ہم چاہیں تو ایسا کلام کہہ دیں) مطلب یہ تھا کہ یہ بات نہیں کہ ہم عاجز ہیں کہہ تو سکتے ہیں لیکن کہتے نہیں، ہمیں کوئی مجبوری نہیں ہے کہ مقابلہ کے لیے ہم اس جیسا کلام بنا کر لائیں اور مزید اس نے یہ بھی کہا (اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) (اور یہ جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سناتے ہیں پہلے لوگوں کی باتیں ہیں جو ان کی لکھی ہوئی ملتی ہیں) ۔ اس کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ کوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کلام نہیں ہے پہلے لوگوں کی باتیں ہیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یاد کرلی ہیں، انہیں کو سناتے رہتے ہیں۔ نضر بن الحارث کے علاوہ بعض دوسرے لوگوں نے بھی ایسی بات کہی تھی۔ جیسا کہ سورة انعام میں فرمایا۔ (حَتّآی اِذَا جَآءُوْکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ ) ان لوگوں کی یہ بات شرارت اور عناد کی وجہ سے تھی، یہ جانتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمی ہیں نہ پڑھنا جانتے ہیں اور نہ پہلے لوگوں کی کتابیں ان تک پہنچی ہیں۔ پھر بھی ایمان سے دور کفر پر جمے رہتے تھے اور یوں کہتے تھے کہ یہ پرانے لوگوں کی باتیں ہیں۔ نضر بن حارث کا عذاب کے لیے دعا کرنا : نضر بن حارث نے جب یوں کہا کہ یہ پرانے لوگوں کی باتیں سناتے ہیں تو حضرت عثمان بن مظعون (رض) نے اس سے کہا کہ تو اللہ سے ڈر ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق فرماتے ہیں اس پر اس نے کہا کہ میں بھی حق کہتا ہوں۔ حضرت عثمان نے فرمایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو لا الٰہ الا اللہ کہتے ہیں وہ کہنے لگا میں بھی لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوں، لیکن یہ بت اللہ کی بیٹیاں ہیں (العیاذ باللہ) اس کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ ہم انہیں اللہ کی بیٹیاں مانتے ہیں اس لیے ہم بھی لا الٰہ الا اللہ کہتے ہیں وہ لا الٰہ الا اللہ کا مطلب ہی نہیں سمجھا۔ پھر اس نے بار گاہ خداوندی میں یوں دعا کی کہ : ” اے اللہ اگر یہ دین جس کی دعوت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیتے ہیں حق ہے تیری طرف سے ہے تو اسے قبول نہ کرنے کی سزا میں ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا اور کوئی درد ناک عذاب بھیج دے “ اپنے خیال میں اس نے یہ بات ظاہر کرنے کے لیے کہی تھی کہ اگر دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق ہوتا تو ہم پر پتھر برس جاتے اور عذاب نازل ہوجاتا جب یہ بات نہیں ہے تو ہم حق پر ہیں۔ اس طرح کی بات یہود نے بھی کہی تھی۔ سورة مجادلہ میں ان کا قول نقل فرمایا ہے۔ (لَوْلاَ یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوْلُ ) (جو باتیں ہم کرتے ہیں ان کی وجہ سے اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا) اور اس زمانہ میں بھی بہت سے فتنہ گر ایسی باتیں کرتے ہیں اہل حق کے مقابلہ میں آجاتے ہیں اور کہتے ہیں اگر ہم جھوٹے ہیں تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آجاتا۔ عذاب آنا نہ آنا حق اور ناحق واضح ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ دلائل قرآنیہ اور دلائل عقلیہ سے حق واضح ہوتا ہے اور انہیں میں تفکر اور تدبر کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کسی کا پابند نہیں کہ جو عذاب بھیج کر فیصلہ فرمائے گو کبھی ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عذاب مانگنے والوں کی دعاء قبول فرما لیتا ہے۔ کبھی جلدی اور کبھی دیر سے عذاب نازل ہوجاتا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ (سَاَلَ سَآءِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ لِّلْکٰفِرینَ ) نضر بن حارث کے سوال پر نازل ہوئی۔ حضرت عطا نے فرمایا کہ نضر بن الحارث کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور غزوۂ بدر میں اسے قتل کردیا گیا۔ (کذافی تفسیر الجلالین و حاشیتہٖ ص ٤٧٣) حضرت انس بن مالک (رض) نے فرمایا کہ آیت بالا (اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ ) (الآیۃ) میں جو عذاب آنے کا سوال مذکور ہے یہ سوال ابو جہل نے کیا تھا۔ (چونکہ یہ سوال عمومی عذاب کا تھا اسی لیے عذاب نہیں آیا) اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں اگلی آیت (وَ مَا کَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَ اَنْتَ فِیْھِمْ وَ مَا کَان اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ) نازل فرمائی (صحیح بخاری ص ٦٧٠ ج ٢) جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اندر آپ کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل نہیں فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی قانون ہے کہ جس بستی میں اللہ کا کوئی نبی موجود ہو اس پر اس وقت تک عذاب نازل نہیں فرماتا جب تک مجرموں کے درمیان سے اپنے نبی کو نہ نکال لے۔ حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط ( علیہ السلام) کی قوموں پر جب ہی عذاب آیا جبکہ یہ حضرات بستیوں سے باہر جا چکے تھے۔ خاتم الانبیاء جو رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ آپ کسی بستی میں موجود ہوں اور وہاں عذاب آجائے یہ نہیں ہوسکتا تھا، مکہ مکرمہ میں آپ کا موجود ہونا عذاب آنے سے مانع تھا۔ جب آپ مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے اس کے دوسرے سال غزوۂ بدر میں ستر مشرکین مارے گئے جن میں ابو جہل بھی تھا اور نضربن الحارث بھی۔ حضرت ابن عباس (رض) کا ارشاد کہ استغفار سبب امان ہے : حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اہل مکہ کے لیے دو چیزیں امان کی تھیں۔ ایک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی اور دوسرے استغفار۔ جب آپ مکہ مکرمہ سے تشریف لے آئے تو ان کے پاس امان کی صرف ایک چیز رہ گئی۔ یعنی استغفار، لہٰذا اہل مکہ پر عمومی عذاب نہ آیا اور فتح مکہ کے دن چند افراد قتل کردیئے گئے۔ جو بہت زیادہ شریر تھے اور چند افراد کے علاوہ سب نے اسلام قبول کرلیا اور آئندہ کے لیے عذاب سے محفوظ ہوگئے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے دو امانیں رکھی ہیں جب تک یہ دونوں ان کے درمیان میں رہیں گے (دونوں یا ایک) تو عذاب نہیں آئے گا۔ ایک امان تو اللہ تعالیٰ نے اٹھا لی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی اور دوسری امان ان کے اندر موجود ہے یعنی استغفار کرتے رہنا۔ حضرت فضالہ بن عبید (رض) سے مروی ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندہ جب تک اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا رہے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ (معلوم ہوا کہ مختلف علاقوں میں جو عذاب آتے رہتے ہیں۔ وہاں استغفار نہ کرنے کو بھی دخل ہے) آیت بالا کی تفسیر میں جو ہم نے لکھا ہے تفسیر ابن کثیر ص ٣٠٣ تا ٣٠٥ ج ٢ سے ماخوذ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

33: یہ شکوی ہے اور اس میں ان معاندین کے مستحق عذاب ہونے کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ جب ان کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتیں تو ان میں سے بعض مثلاً نضر بن حارث جیسے لوگ بول اٹھتے، جی سن لی ہیں ہم یہ آیتیں۔ ان میں پہلے لوگوں کے قصے ہی تو مذکور ہیں اور ایسے قصے تو ہم بھی بیان کرسکتے ہیں۔ نضر بن حارث کی فارس اور حیرہ میں آمد و رفت تھی اور وہ وہاں کے لوگوں سے عجمیوں کے قصے کہانیاں سنتا رہتا تھا۔ قرآن مجید میں انبیاء (علیہم السلام) اوردیگر گذشتہ اقوام کے قصے عبرت اور موعظت کی غرض سے ذکر کیے گئے ہیں اس ظالم اور کم فہم نے قرآن مجید کو محض قصوں اور کہانیوں ہی کی کتاب سمجھ لیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

31 اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور ان کے روبرو قرآن پڑھا جاتا ہے تو کہتے ہیں بس جی ہم نے سن لیا اگر ہم چاہیں تو ہم بھی اس جیسا کہہ سکتے ہیں اور اس جیسا قرآن بناسکتے ہیں یہ تو کچھ بھی نہیں محض گزشتہ لوگوں کے بےسروپا قصے اور کہانیاں ہیں۔ یعنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں کہ بس جی ہم نے سن لیا یہ تو کوئی معجزہ نہیں ہم اگر چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام بناسکتے ہیں یہ تو بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے نقل ہوتی چلی آرہی ہیں اور پہلے لوگ بھی جنت و دوزخ اور مرکر جی اٹھنے کا ذکر کیا کرتے تھے اور پہلی ملتوں میں بھی یہ قصے سنائے جاتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہمیشہ یہ کہتے تھے اب تو دیکھ لیا یہ قصے نہ تھے وعدہ عذاب تم پر بھی آیا جیسے پہلوں پر آیا تھا۔ 12