Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 37

سورة الأنفال

لِیَمِیۡزَ اللّٰہُ الۡخَبِیۡثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجۡعَلَ الۡخَبِیۡثَ بَعۡضَہٗ عَلٰی بَعۡضٍ فَیَرۡکُمَہٗ جَمِیۡعًا فَیَجۡعَلَہٗ فِیۡ جَہَنَّمَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿٪۳۷﴾  18

[This is] so that Allah may distinguish the wicked from the good and place the wicked some of them upon others and heap them all together and put them into Hell. It is those who are the losers.

تاکہ اللہ تعالٰی ناپاک کو پاک سے الگ کردے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملادے پس ان سب کو اکٹھا ڈھیر کردے پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دے ایسے لوگ پورے خسارے میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيَمِيزَ اللّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ... In order that Allah may distinguish the wicked from the good, meaning recognize the difference between the people of happiness and the people of misery, according to Ibn Abbas, as Ali bin Abi Talhah reported from him. Allah distinguishes between those believers who obey Him and fight His disbelieving enemies and those who disobey Him. Allah said in other Ayat, مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُوْمِنِينَ عَلَى مَأ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ Allah will not leave the believers in the state in which you are now, until He distinguishes the wicked from the good. Nor will Allah disclose to you the secrets of the Ghayb (Unseen). (3:179) and, أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَـهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّـبِرِينَ Do you think that you will enter Paradise before Allah (tests) those of you who fought (in His cause) and (also) tests those who are the patient. (3:142) Therefore, the Ayah (8:37) means, `We tried you with combatant disbelievers whom We made able to spend money in fighting you,' لِيَمِيزَ اللّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىَ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعاً ... in order that Allah may distinguish the wicked from the good, and put the wicked one over another, heap them together, put in a pile on top of each other, ... فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ أُوْلَـيِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ and cast them into Hell. Those! It is they who are the losers. in this life and the Hereafter.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یہ علیحدگی یا تو آخرت میں ہوگی کہ اہل سعادت کو اہل بدبخت سے الگ کردیا جائے گا، جیسا کہ فرمایا۔ (وَامْتَا زُوا الْیَوْ مَ اَتُہاَ الْمُجْرِمُوْنَ ) (سورت یس۔ 59) ' اے گناہ گارو ! آج الگ ہوجاؤ ' یعنی نیک لوگوں سے اور مجرموں سے یعنی کافروں، مشرکوں اور نافرمانوں کو اکٹھا کرکے سب کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یا پھر اس کا تعلق دنیا سے ہے۔ یعنی کافر اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے جو مال خرچ کر رہے ہیں، ہم ان کو ایسا کرنے کا موقع دیں گے تاکہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے، کافر کو مومن سے اور منافق کو مخلص سے الگ کردے۔ اس اعتبار سے آیت کے معنی ہونگے، کفار کے ذریعے سے ہم تمہاری آزمائش کریں گے، وہ تم سے لڑیں گے اور ہم انہیں ان کے مال بھی لڑائی پر خرچ کرنے کی قدرت دیں گے تاکہ خبیث، طیب سے ممتاز ہوجائے۔ پھر وہ خبیث کو ایک دوسرے سے ملا دے گا یعنی سب کو جمع کردے گا (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] یعنی اسلام کے بتدریج غلبہ اور کفر کے بتدریج استیصال سے یہ فائدہ از خود حاصل ہوتا رہا ہے کہ معاندین اسلام مرکھپ جائیں گے یا قتل ہوجائیں گے اور باقی صرف وہ لوگ رہ جائیں گے۔ جن کے نصیب میں اسلام قبول کرنا ہوگا۔ اور معاندین کے اس گندے عنصر کو اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر اس سارے ملبے کو جہنم میں پھینک دے گا۔ ان لوگوں کا نقصان اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ جس راہ میں انہوں نے اپنا تمام وقت، تمام محنت، تمام قابلیت اور پورا سرمایہ زندگی کھپا دیا ہو اور آخر میں انہیں یہ معلوم ہو کہ یہ راہ تو ہمیں تباہی اور جہنم کی طرف لے آئی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِيَمِيْزَ اللّٰهُ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ : ناپاک کو پاک سے جدا کرنے سے مراد یا تو قیامت کے دن کفار اور مسلمانوں کو جدا جدا کرکے خبیث کفار کو تہ بہ تہ جمع کرکے جہنم میں پھینکنا ہے، یا دنیا ہی میں جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے اہل ایمان اور اہل کفر کو جدا جدا کرنے کے بعد خبیث لوگوں یعنی کفار کو تہ تیغ کرکے جہنم میں پھینکنا ہے اور یہی لوگ ہیں جو اصل خسارا اٹھانے والے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 37 describes some consequences of the events mentioned ear¬lier which, in a nutshell, are that the disbelievers used their wealth against Islam, then they were bitten by remorse and were utterly dis¬graced. This series of happenings had its own advantages which find mention in the opening sentence of this verse: لِيَمِيزَ اللَّـهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ (so that Allah separates the impure from the pure). The two words, الْخَبِيثَ (al-khabith: impure) and الطَّيِّبِ (at-tayyib : pure), stand in contrast to each other. The word, الْخَبِيثَ al-khabith, is used to refer to that which is impure, filthy and forbidden while الطَّيِّبِ at-taiyyib set against it denotes what is pure, clean, nice and lawful. At this place, the use of these two words may be referring to the impure possessions of the dis-believers, and the pure possessions of Muslim as well. Given this pro¬jection, it would mean that the enormous wealth spent by the disbe¬lievers was impure and filthy. The evil end it met was that they suffered the loss of wealth, and the loss of lives as well. As compared to them, Muslims spent very little of whatever they had in the name of wealth, but that wealth was pure and lawful. Those who spent it suc¬ceeded, not to mention the additional spoils of war that fell into their hand. After that, it was said: وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْ‌كُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾ &and (Allah) puts some of the impure on some others, and heaps them all together and puts them into Jahannam. Those are the losers - 37& The sense is that the way magnet pulls iron and amber pulls grass and in the light of new scientific discoveries, the system of the world is held together by the constant of force fields pulling things together, the case in deeds and morals is also identical. They have a pull of their own. One bad deed draws in another bad deed and a good deed draws in another good deed. Impure wealth pulls in another body of impure wealth and then this heap of impure wealth generates vestiges which are equally impure. As a result of this, Allah Ta` ala will heap all im¬pure wealth into Jahannam and those to whom it belonged would find themselves in a terrible loss. And there is a large number of commentators who take الْخَبِيثَ al-khabith and الطَّيِّبِ at-tayyib in the general sense at this place, that is, pure and im¬pure. Thus, pure would signify true believers and impure would mean the disbelievers. Given this approach, the verse would mean that through conditions mentioned above, Allah Ta` ala likes to make the pure distinct from the impure, that is, make a true believer distinct from a disbeliever and - as a consequence of which - true believers are gathered together in Jannah and the disbelievers, all of them at one place, into Jahannam.

سینتیسویں آیت میں واقعات مذکورہ کے کچھ نتائج کا بیان جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے جو اموال کفار نے اسلام کے خلاف استعمال کئے اور پھر ان کو حسرت و ندامت ہوئی اور ذلیل و خوار ہوئے اس کا فائدہ یہ ہے کہ : (آیت) لِيَمِيْزَ اللّٰهُ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۔ یعنی تاکہ اللہ تعالیٰ گندی چیز اور پاک صاف چیز میں فرق ظاہر کردیں۔ لفظ خبیث اور طیب دو متقابل لفظ ہیں۔ لفظ خبیث ناپاک، گندے اور حرام کے لئے بولا جاتا ہے اور طیب اس کے بالمقابل پاک، صاف ستھرے اور حلال کے لئے بولا جاتا ہے۔ اس جگہ ان دونوں لفظوں سے کفار کے اموال خبیثہ اور مسلمانوں کے اموال طیبہ بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہے کہ کفار نے جو مال عظیم خرچ کئے وہ مال خبیث اور ناپاک تھے اس کا برا نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ مال بھی گیا اور جانیں بھی گئی اس کے بالمقابل مسلمانوں نے بہت تھوڑا مال خرچ کیا مگر وہ مال پاک اور حلال تھا۔ ان کے خرچ کرنے والے کامیاب ہوئے اور مزید مال غنیمت بھی ہاتھ آیا اس کے بعد ارشاد فرمایا : (آیت) وَيَجْعَلَ الْخَبِيْثَ بَعْضَهٗ عَلٰي بَعْضٍ فَيَرْكُمَهٗ جَمِيْعًا فَيَجْعَلَهٗ فِيْ جَهَنَّمَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ جمع کردیتا ہے ایک خبیث کو دوسرے خبیث کے ساتھ پھر ان سب کو جمع کردے گا جہنم میں یہی لوگ خسارہ میں پڑنے والے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے کہربا گھاس کو کھینچتا ہے اور نئی سائنس کے تجربات میں ساری دنیا کا نظام ہی باہمی کشش پر قائم ہے اسی طرح اعمال و اخلاق میں بھی کشش ہے۔ ایک برا عمل دوسرے برے عمل کو اور ایک اچھا عمل دوسرے اچھے عمل کو کھینچتا ہے مال خبیث دوسرے مال خبیث کو کھینچتا ہے اور یہ پھر اموال خبیثہ آثار خبیثہ پیدا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں جتنے اموال خبیثہ ہیں سب کو جہنم میں جمع فرمادیں گے۔ اور یہ مال والے بڑے خسارہ میں پڑجائیں گے۔ اور بہت سے حضرات مفسرین نے اس جگہ خبیث اور طیب کی مراد عام قرار دی ہے یعنی پاک اور ناپاک۔ پاک سے مومن اور ناپاک سے کافر مراد ہیں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ حالات مذکورہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ پاک و ناپاک یعنی مومن و کافر میں امتیاز ہوجائے مؤمنین جنت میں اور کافر سب ایک جگہ جہنم میں جمع کردیئے جائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِيَمِيْزَ اللہُ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيْثَ بَعْضَہٗ عَلٰي بَعْضٍ فَيَرْكُمَہٗ جَمِيْعًا فَيَجْعَلَہٗ فِيْ جَہَنَّمَ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِــرُوْنَ۝ ٣٧ ۧ ميز المَيْزُ والتَّمْيِيزُ : الفصل بين المتشابهات، يقال : مَازَهُ يَمِيزُهُ مَيْزاً ، ومَيَّزَهُ تَمْيِيزاً ، قال تعالی: لِيَمِيزَ اللَّهُ [ الأنفال/ 37] ، وقرئ : لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ والتَّمْيِيزُ يقال تارة للفصل، وتارة للقوّة التي في الدّماغ، وبها تستنبط المعاني، ومنه يقال : فلان لا تمييز له، ويقال : انْمَازَ وامْتَازَ ، قال : وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس/ 59] وتَمَيَّزَ كذا مطاوعُ مَازَ. أي : انْفَصَلَ وانْقَطَعَ ، قال تعالی: تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک/ 8] . ( م ی ز ) المیر والتمیز کے معنی متشابہ اشیاء کو ایک دوسری سے الگ کرنے کے ہیں ۔ اور مازہ یمیزہ میزا ومیزاہ یمیزا دونوں ہم معنی ہیں چناچہ فرمایا ۔ لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ تاکہ خدا ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ایک قراءت میں لیمیز اللہ الخبیث ہے ۔ التمیز کے معنی الگ کرنا بھی آتے ہیں اور اس ذہنی قوت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے فلان لا تمیز لہ فلاں میں قوت تمیز نہیں ہے ۔ انما ز اور امتاز کے معنی الگ ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس/ 59] اور آج الگ ہوجاؤ اور تمیز کذا ( تفعل ) ماز کا مطاوع آتا ہے اور اس کے معنی الگ اور منقطع ہونے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک/ 8] گو یا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی ۔ خبث الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث . ( خ ب ث ) المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ ركم يقال : ( سحاب مَرْكُومٌ ) «1» أي : متراکم، والرُّكَامُ : ما يلقی بعضه علی بعض، قال تعالی: ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] ، والرُّكَامُ يوصف به الرّمل والجیش، ومُرْتَكَمُ الطّريق : جادّتُهُ التي فيها رُكْمَةٌ ، أي : أثر مُتَرَاكِمٌ. ( ر ک م ) رکم ( ن ) کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر تلے رکھنا قرآن میں ہے ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] تہ بہ تہ بادل ۔ الرکام اوپر تلے رکھی ہوئی چیزیں جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُکاماً [ النور/ 43] پھر اسے تہ بہ تہ کردیتا ہے ۔ اسی سے ریت کے ٹیلے اور لشکر کو بھی رکام کہا جاتا ہے اور مرتکم الطریق شاہراہ کو کہتے ہیں ۔ جس میں آمد رفت کے نشانات بکثرت ہوں ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧) قیامت کے دن ابوجہل اور اس کی جماعت دوزخ میں جمع کیا جائے گی تاکہ کافر مومن سے اور منافق مخلص سے اور بدکار نیکو کار سے نمایاں اور ممتاز ہوجائے تاکہ سب ناپاک آدمیوں کو ایک دوسرے سے ملا کر اور جمع کرکے دوزخ میں ڈال دے ایسے ہی لوگ انجام کے اعتبار سے گھاٹے میں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30. What can be more calamitous than a person's discovery at the end of the road that all the time, energy, ability and the very quintessence of his life which he has devoted has driven him straight to his utter ruin; that his investments far from yielding any interest or dividend will require from him the payment of a grievous penalty instead.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :30 اس سے بڑھ کر دیوالیہ پن اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان جس راہ میں اپنا تمام وقت ، تمام محنت ، تمام قابلیت ، اور پورا سرمایہ زندگی کھپا دے اس کی انتہا پر پہنچ کر اسے معلوم ہو کہ وہ اسے سیدھی تباہی کی طرف لے آئی ہے اور اس راہ میں جو کچھ اس نے کھپایا ہے اس پر کوئی سود یا منافع پانے کے بجائے اسے اُلٹا جرمانہ بھگتنا پڑے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:37) فیرکمہ۔ رکوم۔ مصدر سے مضارع واحد مذکر غائب۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ باب نصر۔ ہ ضمیر الخبیث کی طرف راجع ہے۔ الخبیث یہاں اسم جنس ہے ۔ یعنی خبیثون کا گروہ۔ خبیث لوگ۔ فیجعلہ۔ پھر ڈال دے اس جنس خبیث کو۔ اولئک۔ الفریق الخبیث۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی کافر کو مومن سے یا بدبخت کو نیک بخت سے یا شیطان کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال سے ،۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرک اور کافر فکر و عمل کے اعتبار سے گندے لوگ ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ذریعے مومنوں اور مشرکوں کے درمیان ایک امتیاز پیدا کرنا چاہتا ہے اور قیامت کے دن اسی امتیاز کی بناء پر انھیں الگ کردیا جائے گا۔ انسان جب کفر و شرک کا وطیرہ اختیار کرلیتا ہے تو وہ فکری طور پر منتشر اور عملی طور پر خبیث اور گندا ہوجاتا ہے قرآن مجید میں عقیدۂ کفر و شرک کو شجرۂ خبیثہ کہا ہے اور شرک کے مرتکب شخص کو نجس قرار دیا ہے۔ (ابراہیم : ٢٦) عربی میں گندی، پلید اور بری چیز کو خبیث کہا جاتا ہے۔ شیطان ہر قسم کی خباثت کا منبع ہے اس بنا پر اس کا دوسرا نام خبیث ہے۔ خبیث کے مقابلہ میں طیب کا لفظ آیا ہے۔ عقیدۂ توحید کو سورة ابراہیم میں شجرہ طیبہ کہا گیا ہے۔ جس کی جڑیں مضبوط اور اس کی شاخیں آسمان تک بلند ہیں۔ یہ ایسا سدا بہار درخت ہے جو ہر آن پھل دیتا ہے۔ اس عقیدہ کے تقاضے پورے کرنے والا شخص طیب ہوگا۔ جس کا معنیٰ پاک، عمدہ اور بہترین ہے۔ نبی محترم نے حلال و حرام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ طیب ہے اور وہ طیب مال کو پسند کرتا ہے گویا کہ طیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ یہاں کافر و مشرک کو خبیث اور مسلمان کو طیب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان امتیاز کرے گا۔ یہ امتیاز اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ اسلام کے نفاذ سے یہ امتیاز دنیا میں مدت تک قائم رہا لوگوں نے کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا کہ قرآن کے ماننے اور عقیدہ توحید اختیار کرنے والوں کا کیا کردار ہوتا ہے اور خدا کے باغیوں کے عقیدہ و عمل سے دنیا میں کیا غلاظت اور تعفن پیدا ہوتا ہے اسی امتیاز کی بنا پر آخرت میں مومنوں اور مشرکوں کے درمیان فرق کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جہنم میں مشرکوں اور کافروں کو ایک دوسرے کے اوپر جمع کرے گا اور یہ لوگ ہمیشہ کے لیے نقصان میں رہیں گے۔ ایک دوسرے کے اوپر جمع کرنے سے مراد جہنم کے طبقات ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جہنمیوں کو ذلیل کرنے اور سزا کے طور پر ایک دوسرے پر پھینکا جائے۔ (أَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَّا یَسْتَوُونَ )[ سورة السجدۃ : ١٨) ” کیا مومن ایسے ہی ہوتا ہے جیسے فاسق ؟ یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ “ (إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا )[ النساء : ١٤٥] ” بلاشبہ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور تو ان کے لیے کوئی مددگار نہیں پائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فرق کرتا ہے۔ ٢۔ مشرک لوگ جہنم میں اکٹھے پھینکے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : مشرک اور مومن دنیا اور آخرت میں برابر نہیں ہوسکتے : ١۔ مشرک پلید ہوتا ہے۔ ( التوبۃ : ٢٨) ٢۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ (السجدۃ : ١٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ مجرموں اور مومنوں کو برا بر نہیں رکھے گا۔ (القلم : ٣٥۔ ٣٦) ٤۔ اندھا اور بینا برابر اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرنے والے اور برے اعمال کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ (المومن : ٥٨) ٥۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہوسکتے جنتی ہی کامیاب ہیں۔ (الحشر : ٢٠) ٦۔ نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ (حٰم السجدۃ : ٣٤) ٧۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو تعمیر کرنے کو ان لوگوں کے برابرسمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں وہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہوسکتے۔ (التوبۃ : ١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ عمل کس طرح جاری ہوگا ، یہ مال جو خرچ کیا جا رہا ہے یہ باطل کی قوتوں کو مجتمع کرتا ہے اور ان کو حق پر دست درازی کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ اور حق اس کا مقابلہ کرتا ہے اور سعی و جہد کا میدان گرم ہوتا ہے۔ حق ایک تحریک کی شکل میں آگے بڑھتا ہے اور باطل کا سر پھوڑ دیتا ہے اس کشمکش اور کڑوے عمل میں ہی حق و باطل کا امتیاز ہوجاتا ہے۔ اہل حق اور اہل باطل متمیز ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اسلامی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں ، ان کے درمیان سے بھی کمزور لوگ چھٹ جاتے ہیں اور وہی لوگ رہ جاتے ہیں جو ثابت قدم ، صابر اور بہادر اور اللہ کی نصرت کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ ایسے ہی لوگ اس عظیم امانت کے اٹھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ وہ کسی فتنے اور کسی بھی مشکل کی وجہ سے اپنے موقف سے نہیں ہٹتے۔ اسی عمل سے خباثت کے پلندوں کو جمع کرکے جہنم رسید کیا جاسکتا ہے اور یہی صورت اہل باطن کے خسران کا سبب بنتی ہے۔ قرآن کریم نے یہاں خباثت کو مجسم شکل میں پیش کیا ہے گویا اس کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور اسے جہنم میں لے جا کر ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے سوا اس کے ختم کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ فَيَرْكُمَهٗ جَمِيْعًا فَيَجْعَلَهٗ فِيْ جَهَنَّمَ ۔ اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے۔ پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے۔ کسی مفہوم کو اس طرح مجسم شکل میں پیش کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ و احساس و شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا ایک منفرد اسلوب ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

لِیَمِیْزَ اللّٰہُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ یہ یُحْشَرُوْنَ سے متعلق ہے مطلب یہ ہے کہ دوزخ میں اہل کفر کا داخلہ اس لیے ہوگا کہ پاک اور ناپاک یعنی مومن اور کافر میں اللہ تعالیٰ تمیز فرما دیں۔ اہل ایمان اپنے ایمان کی وجہ سے جنت میں اور اہل کفر اپنے کفر کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے۔ (وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہٗ عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْکُمَہٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَہٗ فِیْ جَھَنَّمَ ) (تاکہ اللہ تعالیٰ خبیث کو بعض کو بعض کے ساتھ ملا دے اور اس کو اکٹھا کر کے دوزخ میں داخل فرما دے) دنیا میں تمام اہل کفر آپس میں ایک دوسرے کے مددگار تھے۔ اسلام کے خلاف اموال خرچ کرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے تھے آخرت میں بھی سب ایک جگہ جمع ہوجائیں گے۔ دنیا میں جو اسلام کی دشمنی کے لیے سوچتے اور خرچ کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے دارالعذاب میں اکٹھے ہو کر اس کی سزا بھگتیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37 تاکہ اللہ تعالیٰ ناپاک لوگوں کو پاک لوگوں سے الگ کردے پھر ناپاکوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر ان کا ڈھیر بنائے اور اس ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے یہی لوگ پورے خسارے میں ہوں گے اور یہی لوگ ہر قسم کا نقصان اٹھانے والے ہیں۔ یعی جب اہل جہنم کو جہنم کی طرف لے جائیں گے تو اہل جنت ان سے جدا ہوجائیں گے پھر سب اہل جہنم کو ملاجلاکر جہنم کے سپرد کردیا جائے گا اور اس طرح ناپاک اور پاک میں امتیاز ہوجائے گا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی آہستہ آہستہ اللہ اسلام کو غالب کرے گا اسی بیچ میں کافر اپنا زور جان اور مال کا خرچ کرلیں گے تانیک اور بد جدا ہوجاوے یعنی جن کی قسمت میں اسلام لکھا ہے وہ سب مسلمان ہوچکیں اور جن کو کفر پر مرنا ہے وہی اکٹھے دوزخ میں جاویں گے۔ 12