Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 38

سورة الأنفال

قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ ۚ وَ اِنۡ یَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۳۸﴾

Say to those who have disbelieved [that] if they cease, what has previously occurred will be forgiven for them. But if they return [to hostility] - then the precedent of the former [rebellious] peoples has already taken place.

آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دئے جائیں گے اور اگر اپنی وہی عادت رکھیں گے تو ( کفار ) سابقین کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Encouraging the Disbelievers to seek Allah's Forgiveness, warning Them against Disbelief Allah commands His Prophet Muhammad, قُل لِلَّذِينَ كَفَرُواْ إِن يَنتَهُواْ ... Say to those who have disbelieved, if they cease... the disbelief, defiance and stubbornness they indulge in, and embrace Islam, obedience and repentance. ... يُغَفَرْ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ ... their past will be forgiven. along with their sins and errors. It is recorded in the Sahih Al-Bukhari that Abu Wa'il said that Ibn Mas'ud said that the Messenger of Allah said, مَنْ أَحْسَنَ فِي الاِْسْلَمِ لَمْ يُوَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَمَنْ أَسَاءَ فِي الاِْسْلَمِ أُخِذَ بِالاَْوَّلِ وَالاْخِر He who becomes good in his Islam, will not be punished for what he has committed during Jahiliyyah (before Islam). He who becomes bad in his Islam, will face a punishment for his previous and latter deeds. It is also recorded in the Sahih that the Messenger of Allah said, الاِْسْلَمُ يَجُبُّ مَا قَبْلَهُ وَالتَّوْبَةُ تَجُبُّ مَا كَانَ قَبْلَهَا "Islam erases what occurred before it, and repentance erases what occurs before it." Allah said, ... وَإِنْ يَعُودُواْ ... But if they return, and remain on their ways, ... فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الاَوَّلِينِ then the examples of those (punished) before them have already preceded. meaning, Our way with the nations of old is that when they disbelieve and rebel, We send down to them immediate torment and punishment. The Order to fight to eradicate Shirk and Kufr Allah said,

فتنے کے اختتام تک جہاد جاری رکھو کافروں سے کہدے کہ اگر وہ اپنے کفر سے اور ضد سے باز آ جائین ، اسلام اور اطاعت قبول کر لین ، رب کی طرف جھک جائیں تو ان سے جو ہو چکا ہے سب معاف کر دیا جائے گا ، کفر بھی ، خطا بھی گناہ بھی ۔ حدیث میں ہے جو شخص اسلام لا کر نیکیاں کرے وہ اپنے جاہلیت کے اعمال پر پکڑا نہ جائے گا اور اسلام میں بھی پھر برائیاں کرے تو الگی پجھلی تمام خطاؤں پر اس کی پکڑ ہو گی اور حدیث میں ہے اسلام سے پہلے کے سب گناہ معاف ہیں توبہ بھی اپنے سے پہلے کے گناہ کو مٹا دیتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ نہ مانین اور اپنے کفر پر قائم رہیں تو وہ اگلوں کی ہالت دیکھ لیں کہ ہم نے انہیں ان کے کفر کی وجہ سے کیسا غارت کیا ؟ ابھی بدری کفار کا حشر بھی ان کے سامنے ہے ۔ جب تک فتنہ باقی ہے تم جنگ جاری رکھو ۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آیت ( وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ Ḍ۝ ) 49- الحجرات:9 ) ، کو پیش نظر رکھ کر آپ اس وقت کی باہمی جنگ میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا تم لوگوں کا یہ طعنہ اس سے بہت ہلکا ہے کہ میں کسی مومن کو قتل کر کے جہنمی بن جاؤں جیسے فرمان الٰہی ہے ومن یقتل مومنا متعمدا الخ ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ فتنہ باقی ہو تب تک لڑائی جاری رکھو ۔ آپ نے فرمایا یہی ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا ۔ اس وقت مسلمان کم تھے ، انہیں کافر گرفتار کر لیتے تھے اور دین میں فتنے ڈالتے تھے یا تو قتل کر ڈالتے تھے یا قید کر لیتے تھے ۔ جب مسلمان بڑھ گئے وہ فتنہ جاتا رہا ۔ اس نے جب دیکھا کہ آپ مانتے نہیں تو کہا اچھا حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا حضرت عثمان کو اللہ نے معاف فرمایا لیکن تمہیں اللہ کی وہ معافی بری معلوم ہوتی ہے ۔ حضرت علی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے داماد تھے ، یہ ہیں آپ کی صاحبزادی ، یہ کہتے ہوئے ان کے مکان کی طرف اشارہ کیا ۔ ابن عمر ایک مرتبہ لوگوں کے پاس آئے تو کسی نے کہا کہ اس فتنے کے وقت کی لڑائی کی نسبت جناب کا کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا جانتے بھی ہو فتنے سے کیا مراد ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کافروں سے جنگ کرتے تھے ، اس وقت ان کا زور تھا ، ان میں جانا فتنہ تھا ، تمہاری تو یہ ملکی لڑائیاں ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت ابن زبیر کے زمانے میں دو شخص حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے آپ حضرت عمر کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ۔ آپ کیوں میدان جنگ میں نہیں اترے؟ فرمایا اس لئے کہ اللہ نے ہر مومن کا خون حرام کر دیا ہے انہوں نے کہا کیا فتنے کے باقی رہنے تک لڑنا اللہ کا حکم نہیں؟ آپ نے فرمایا ہے اور ہم نے اسے نبھایا بھی یہاں تک کہ فتنہ دور ہو گیا اور دین سب اللہ ہی کا ہو گیا ، اب تم اپنی اس باہمی جنگ سے فتنہ کھڑا کرنا اور غیر اللہ کے دین کے لئے ہو جانا جاہتے ہو ۔ ذوالسطبین حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے میں ہرگز اس شخص سے جنگ نہ کروں گا جو لا الہ الہ اللہ کا قائل ہو ۔ حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اس کی تائید کی اور فرمایا میں بھی یہی کہتا ہوں تو ان پر بھی یہی آیت پیش کی گئی اور یہی جواب آپ نے بھی دیا ۔ بقول ابن عباس وعیرہ فتنہ سے مراد شرک ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی کمزوری ایسی نہ رہے کہ کوئی انہیں ان کے سچے دین سے مرتد کرنے کی طاقت رکھے ۔ دین سب اللہ کا ہو جائے یعنی توحید نکھر جائے لا الہ الا اللہ کا کلمہ زبانوں پر چڑھ جائے شرک اور معبود ان باطل کی پرستش اٹھ جائے ۔ تمہارے دین کے ساتھ کفر باقی نہ رہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ لا الہ اللہ کہہ لیں جب وہ اسے کہہ لیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے ہاں حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے بخاری مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کیلئے ، ایک شخص غیرت کیلئے ، ایک شخص ریا کاری کیلئے لڑائی کر رہا ہے تو اللہ کی راہ میں ان میں سے کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی غرض سے جہاد کرے وہ اللہ کی راہ میں ہے ۔ پھر فرمایا کہ اگر تمہارے جہاد کی وجہ سے یہ اپنے کفر سے باز آ جائیں تو تم ان سے لڑائی موقوف کر دو ان کے دلوں کا حال سپرد رب کر دو ۔ اللہ ان کے اعمال کا دیکھنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝ ) 9- التوبہ:5 ) ، یعنی اگر یہ توبہ کرلیں اور نمازی اور زکوٰۃ دیین والے بن جائیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ، ان کے راستے نہ روکو ، اور آیت میں ہے کہ اس صورت میں وہ تمہارے دینی بھأای ہیں اور آیت میں ہے کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں تو زیادتی کا بدلہ تو صرف ظالموں کے لئے ہی ہے ۔ ایک صحیح رویت میں ہے کہ حضرت اسامہ ایک شخص پر تلوار لے کر چڑھ گئے جب وہ زد میں آ گیا اور دیکھا کہ تلوار چلا جاہتی ہے تو اس نے جلدی سے لا الہ الا اللہ کہدیا لیکن اس کے سر پر تلوار پڑ گئی اور وہ قتل ہو گیا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا بیان ہوا تو آپ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تو نے اسے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ تو لا الہ الا اللہ کے ساتھ قیامت کے دن کیا کرے گا ؟ حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ تو اس نے صرف اپنے بچاؤ کیلئے کہا تھا ۔ آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ بتا کون ہو گا جو قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کا مقابلہ کرے ۔ بار بار آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا ؟ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی باز نہ رہیں تمہاری مخالفت اور تم سے لڑائی نہ چھوڑیں تو تم یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا موالا ، تمہارا مالک ، تمہارا مددگار اور ناصر ہے ۔ وہ تمہیں ان پر غالب کرے گا ۔ وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے ۔ ابن جریری ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حضرت عروہ سے کچھ باتیں دریافت کی تھیں جس کے جواب میں آپ نے انہیں لکھا سلام علیک کے بعد میں آپ کیس امنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ بعد حمد و صلوۃ کے آپ کا خط ملا آپ نے ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت مجھ سے سوال کیا ہے میں آپ کو اس واقعہ کی خبر لکھتا ہوں ۔ اللہ ہی کی مدد پر خیر کرنا اور شر سے روکنا موقوف ہے مکہ شریف سے آپ کے تشریف لے جانے کا واقعہ یوں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کو نبوت دی ، سبحان اللہ کیسے اچھے پیشوا بہترین رہنما تھے ، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ہمیں جنت میں آپ کی زیارت نصیب فرمائے ہمیں آپ ہی کے دین پر زندہ رکھے اسی پر موت دے اور اسی پر قیامت کے دن کھڑا کرے ، آمیں ۔ جب آپ نے اپنی قوم کو ہدایت اور نور کی طرف دعوت دی جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا تھا تو شروع شروع تو انہیں کچھ زیادہ برا نہی معلوم ہوا بلکہ قریب تھا کہ آپ کی باتین سننے لگیں مگر جب ان کے معوبد ان باطل کا ذکر آیا اس وقت وہ بگڑے بیٹھے ، آپ کی باتوں کا برا ماننے لگے ، آپ پر سختی کرنے لگے ، اسی زمانے میں طائف کے چند قریشی مال لے کر پہنچے وہ بھی ان کے شریک حال ہوگئے ، اب آپ کی باتوں کے ماننے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانے لگے جس کی وجہ سے عام لوگ آپ کے اس آنے جانے سے ہٹ گئے بجز ان چند ہستیوں کے جو اللہ کی حفاظت میں تھیں یہی حالت ایک عرصے تک رہی جب تک کہ مسلمانوں کی تعداد کی کمی زیادتی کی حد تک نہیں پہنچی تھی ۔ پھر سرداران کفر نے آپ میں مشورہ کیا کہ جتنے لوگ ایمان لا چکے ہیں ان پر اور زیادہ سختی کی جائے جو جس کا رشتہ دار اور قریبی ہو وہ اسے ہر طرح تنگ کرے تاکہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں اب فتنہ بڑھ گیا اور بعض لوگ ان کی سزاؤں کی تاب نہ لا کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے ۔ کھرے اور ثابت قدم لوگ دین حق پر اس مصیبت کے زمانے میں بھی جمے رہے اور اللہ نے انہیں مضبوط کر دیا اور محفوظ رکھ لیا ۔ آخر جب تکلیفیں حد سے گذر نے لگین تو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی ۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی ایک نیک آدمی تھا اس کی سلطنت ظلم و زیادتی سے خالی تھی ہر طرف اس کی تعریفیں ہو رہی تھیں ۔ یہ جگہ قریش کی تجارتی منڈی تھی جہاں ان کے تاجر رہا کرتے تھے اور بےخوف و خطر بڑی بڑی تجارتیں کیا کرتے تھے ۔ پس جو لوگ یہاں مکہ شریف میں کافروں کے ہاتھوں بہت تنگ آ گئے تھے اور اب مصیبت جھیلنے کے قابل نہیں رہے تھے اور ہر وقت انہیں اپنے دین کے اپنے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خطرہ لگا رہتا تھا وہ سب حبشہ چلے گئے ۔ لیکن خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہیں ٹھہرے رہے ۔ اس پر بھی جب کئی سال گذر گئے تو یہاں اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی تعداد خاصی ہو گئی اسلام پھیل گیا اور شریف اور سردار لوگ بھی اسلامی جھنڈے تلے آ گئے یہ دیکھ کر کفر کو اپنی دشمنی کا جوش ٹھنڈا کرنا پڑا ۔ وہ ظلم و زیادتی سے بالکل تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ رک گئے ۔ پس وہ فتنہ جس کے زلزلوں نے صحابہ کو وطن چھوڑ نے اور حبشہ جانے پر مجبور کیا تھا اس کے کچ ھدب جانے کی خبروں نے مہاجرین حبشہ کو پھر آمادہ کیا کہ وہ مکے شریف واپس چلے آئیں ۔ چنانچہ وہ بھی تھوڑے بہت آ گئے اسی اثناء میں مدینہ شریف کے چند انصار ملسمان ہوگئے ۔ ان کی وجہ سے مدینہ شریف میں بھی اشاعت اسلام ہونے لگی ۔ ان کا مکہ شریف آنا جانا شروع ہوا اس سے مکہ والے کچھ بگڑے اور بپھر کر ارادہ کر لیا کہ دوبارہ سخت سختی کریں چنانچہ دوسری مرتبہ پھر فتنہ شروع ہوا ۔ ہجرت حبش پر پہلے فتنے نے آمادہ کیا واپسی پر پھر فتنہ پھیلا ۔ اب ستر بزرگ سردار ان مدینہ یہاں آئے اور مسلمان ہو کر آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ موسم حج کے موقعہ پر یہ آئے تھے ۔ قبہ میں انہوں نے بیعت کی ، عہدو پیمان ، قول و قرر ہوئے کہ ہم آپ کے اور آپ ہمارے ۔ اگر کوئی بھی آپ کا آدمی ہمارے ہاں آ جائے تو ہم اس کے امن و امان کے ذمے دار ہیں خود آپ اگر تشریف لائیں تو ہم جان مال سے آپ کے ساتھ ہیں ۔ اس چیز نے قریش کو اور بھڑکا دیا اور انہوں نے ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو اور ستانا شروع کر دیا ۔ ان کی سزائیں بڑھا دیں اور خون کے پیاسے ہوگئے ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جائیں یہ تھا آخری اور انتہائی فتنہ جس نے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہی نکالا بلکہ خود اللہ کے محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکے کو خالی کر گئے ۔ یہی ہے وہ جسے اللہ فرماتا ہے ان سے جہاد جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے اور سارا دین اللہ کا ہی ہو جائے ۔ الحمد اللہ نویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 باز آجانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی ہے ' جس نے اسلام قبول کرکے نیکی کا راستہ اپنالیا، اس سے اس کے ان گناہوں کی باز پرس نہیں ہوگی جو اس نے جاہلیت میں کئے ہونگے اور جس نے اسلام لاکر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلے پچھلے سب عملوں کا مواخذہ ہوگا ' (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں ہے۔ اسلام ماقبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ 38۔ 2 یعنی اگر وہ اپنے کفر وعناد پر قائم رہے تو جلد یا بدیر عذاب الہی کے مورد بن کر رہیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] یعنی غزوہ بدر میں شکست فاش سے دو چار ہونے کے بعد اگر اب بھی یہ کافر اپنی معاندانہ سرگرمیوں سے باز آجائیں تو ان کی سابقہ خطائیں معاف ہوسکتی ہیں اور اگر باز نہیں آتے تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو غزوہ بدر میں ان کے پیشروؤں کا ہوچکا ہے (سنۃ الاولین) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کافر قوم پر بھی اسی طرح اللہ کا عذاب آئے گا۔ جس طرح سابقہ سرکش اقوام پر آتا رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَهُوْا : ” نَھٰی یَنْھَی “ منع کرنا اور ” اِنْتَھَی یَنْتَھِیْ “ باز آجانا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ عذاب کی ان تمام وعیدوں کے باوجود امید کا دروازہ کھلا ہے۔ چناچہ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ان منکروں سے کہہ دیں کہ اب بھی اگر وہ عناد اور کفر سے باز آجائیں، اسلام میں داخل ہوجائیں اور ایک اللہ کی عبادت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اختیار کرلیں تو ان کے پہلے قصور معاف کردیے جائیں گے۔ عمرو بن العاص (رض) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو اسلام کی طرف مائل کیا تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : ” اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیے کہ میں بیعت کروں۔ “ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا، آپ نے فرمایا : ” عمرو ! تمہیں کیا ہوا ؟ “ میں نے عرض کیا : ” میں ایک شرط کرنا چاہتا ہوں ؟ “ فرمایا : ” کس چیز کی شرط کرنا چاہتے ہو ؟ “ میں نے کہا : ” یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ “ آپ نے فرمایا : ” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے گناہ گرا دیتا ہے اور ہجرت اپنے سے پہلے گناہ گرا دیتی ہے اور حج اپنے سے پہلے گناہ گرا دیتا ہے۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب کون الإیمان یہدم ما قبلہ : ١٢١ ] باز آجانے میں یہ بھی شامل ہے کہ اسلام لا کر اپنی حالت بھی بدلیں۔ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : ” یارسول اللہ ! کیا ہم نے جو کچھ جاہلیت میں کیا اس پر ہمارا مؤاخذہ ہوگا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو اسلام میں اچھے عمل کرے گا تو اس سے جاہلیت میں کیے ہوئے اعمال کا مؤاخذہ نہیں ہوگا اور جس نے اسلام میں برے عمل کیے وہ پہلے اور پچھلے اعمال کے ساتھ پکڑا جائے گا۔ “ [ بخاری، استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالہم، باب إثم من أشرک۔۔ : ٦٩٢١ ] وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ : یعنی اگر پھر اسلام کو اکھیڑنے اور مسلمانوں کی طاقت ختم کرنے کا منصوبہ بنائیں تو جس طرح پہلے لوگ تباہ و برباد ہوئے، جنھوں نے انبیاء کو ستایا اور ان سے جنگ کی اسی طرح یہ بھی تباہ و برباد ہوں گے اور اس سے پہلے جنگ بدر میں ان کا جو حشر ہوا اب بھی وہی ہوگا۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Appearing once again in verse 38, there is a patronizing address to disbelievers - which carries the elements of persuasion and warning both. The part of persuasion is that should they repent from their shocking deeds even then, and come forward to believe, then, all their past sins shall be forgiven. If they failed to desist even then, the warn¬ing part tells them that they better understand that Allah Ta` ala would not have to think about making some new law for them. The law is already there. It has been in force in the case of disbelievers of earlier times. The same law would come into force against them too - that they were destroyed in the present world and became deserving of the punishment of the Hereafter.

اڑتیسویں آیت میں کفار کے لئے پھر ایک مربیانہ خطاب ہے جس میں ترغیب بھی ہے اور ترہیب بھی۔ ترغیب اس کی ہے کہ اگر وہ ان تمام افعال شنیعہ کے بعد اب بھی توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو پچھلے سب گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور ترہیب یہ کہ اگر وہ اب بھی باز نہ آئے تو سمجھ لیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کو کوئی نیا قانون بنانا یا سوچنا نہیں پڑتا۔ پہلے زمانہ کے کافروں کے لئے جو قانون جاری ہوچکا ہے وہ ہی ان پر بھی جاری ہوگا کہ دنیا میں ہلاک و برباد ہوئے اور آخرت میں عذاب کے مستحق ہوئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَہُوْا يُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ۝ ٠ ۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُـنَّۃُ الْاَوَّلِيْنَ۝ ٣٨ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ سلف السَّلَفُ : المتقدّم، قال تعالی: فَجَعَلْناهُمْ سَلَفاً وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ [ الزخرف/ 56] ، أي : معتبرا متقدّما، وقال تعالی: فَلَهُ ما سَلَفَ [ البقرة/ 275] ، أي : يتجافی عمّا تقدّم من ذنبه، وکذا قوله : وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ [ النساء/ 23] ، أي : ما تقدّم من فعلکم، فذلک متجافی عنه، فالاستثناء عن الإثم لا عن جواز الفعل، ولفلان سَلَفٌ كريم، أي : آباء متقدّمون، جمعه أَسْلَافٌ ، وسُلُوفٌ. والسَّالِفَةُ صفحة العنق، والسَّلَفُ : ما قدّم من الثّمن علی المبیع، والسَّالِفَةُ والسُّلَافُ : المتقدّمون في حرب، أو سفر، وسُلَافَةُ الخمر : ما بقي من العصیر، والسُّلْفَةُ : ما يقدّم من الطعام علی القری، يقال : سَلِّفُوا ضيفكم ولهّنوه ( س ل ف ) السلف کے معنی متقدم یعنی پہلے گزر جانے والا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ فَجَعَلْناهُمْ سَلَفاً وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ [ الزخرف/ 56] ان کو گئے گزرے کردیا اور پچھلوں کے لئے عبرت بنا دیا ۔ فَلَهُ ما سَلَفَ [ البقرة/ 275] تو جو پہلے ہوچکا وہ اسکا ۔ یعنی اس کے پہلے گناہ کو معاف کردیا جائے گا ۔ اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی ۔ اس طرح آیت إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ [ النساء/ 23] مگر ( جاہلیت میں ) جو ہوچکا ( سو ہوچکا ) میں ما سلف سے مراد یہ ہے کہ جو گناہ اس سے قبل ہوچکے ہیں وہ معاف کردیے جائیں گے ۔ تو یہاں استثناء جواز فعل سے نہیں ہے کہ جو نکاح پہلے ہوچکے ہیں وہ جائز اور مباح ہیں بلکہ یہاں استثناء گناہ سے ہے یعنی اس سے قبل جو نکاح ہوچکے ہیں ان کا گناہ معاف کردیا جائیگا اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اور لفلان سلف کریم کے معنی ہیں اس کے آباؤ اجداد کریم تھے ۔ سلف کی جمع اسلاف اور سلوف آتی ہے ۔ اور کسی چیز کی پیشگی قیمت ادا کرنے کو بھی سلف کہا جاتا ہے ۔ السالفۃ گردن کے کنارے کو کہتے ہیں اور لڑائی میں ہراول دستہ یا سفر میں قافلہ سے آگے جانے والے لوگوں کو سالفۃ اور سلاف کہا جاتا ہے ۔ سلافۃ الخمر باقی ماندہ عصیرہ ۔ السلفۃ ( ناشتہ ) یعنی وہ طعام جو مہمانی سے پہلے مہمان کو پیش کیا جائے ۔ محاورہ ہے ۔ سَلِّفُوا ضيفكم ولهّنوه : اپنے مہمان کو نکل کھلاؤ ۔ ( س ل ق ) السلق قہر و غلبہ کے ساتھ دست یا زبان درازی کرنا کے ہیں اور اسی سے تسلق علی الحائط ہے جس کے معنی دیوار پھاندنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب/ 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں گے ۔ محاورہ ہے : سَلَقَ امرأته : اپنی عورت کو زبردستی لٹا کر اس کے ساتھ جماع کیا ۔ (235) ( وإن شئت سلقناک ... وإن شئت علی أربع ) چاہو تو چت لیٹ جاؤ اور چاہو تو پٹ لیٹو ۔ اور سلق کے معنی شلیتے کے ایک حلقے کو دوسرے میں داخل کرنے کے ہیں اور میدہ کی روٹی کو سلیقۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع سلائق آتی ہے اور سلیقۃ بمعنی طبیعت بھی آتا ہے اور سلق کے معنی ہموار اور عمدہ زمین کے ہیں ۔ مضی المُضِيُّ والمَضَاءُ : النّفاذ، ويقال ذلک في الأعيان والأحداث . قال تعالی: وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] ، فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] . ( م ض ی ) المضی والمضاء کسی چیز کا گذر جانا اور چلے جانا یہ اعیان واحد اث دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف/ 8] اور اگلے لوگوں کی مثال گذر گئی ۔ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال/ 38] رو اگلے لوگوں کی سنت گذر چکی ہے ( وہی ان کے حق میں برقی جائے گی ۔ سنن وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ : طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» . سنن تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح/ 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر/ 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ابوسفیان اور اس کی جماعت سے کہہ دیجیے کہ اگر یہ کفر وشرک اور بتوں کی عبادت اور آپ کے ساتھ لڑائی کرنے سے رک جائیں تو ان کے پہلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے اور اگر یہ آپ کے ساتھ لڑائی اور دشمنی باقی رکھیں گے تو پہلے کافروں کے بارے میں قانون نافذ ہوچکا ہے کہ اولیاء اللہ کی بدر کے دن اعداء اللہ کے مقابلہ میں مدد کی گئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفََ ج) ۔ یعنی اب بھی موقع ہے کہ ایمان لے آؤ تو تمہاری پہلی تمام خطائیں معاف کردی جائیں گی۔ (وَاِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ ) ۔ انہیں سب معلوم ہے کہ جن قوموں نے اپنے رسولوں کا انکار کیا تھا ان کا کیا انجام ہو اتھا۔ سورة الانفال سے پہلے مکی قرآن تو پورے کا پورا نازل ہوچکا تھا ‘ سورة الانعام اور سورة الاعراف بھی نازل ہوچکی تھیں۔ لہٰذا قوم نوح ( علیہ السلام) ‘ قوم ہود ( علیہ السلام) ‘ قوم صالح ( علیہ السلام) ‘ قوم شعیب ( علیہ السلام) اور قوم لوط ( علیہ السلام) کے عبرتناک انجام کی تفصیلات سب کو معلوم ہوچکی تھیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

22: اس آیت نے یہ اصول بتا دیا ہے کہ جب کوئی شخص ایمان لے آئے تو کفر کی حالت میں اس نے جتنے بھی گناہ کئے ہوں وہ سب معاف ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ پچھلی نمازوں، روزوں اور دوسری عبادتوں کی قضا بھی اس کے ذمے لازم نہیں ہوتی۔ 23: اس سے ان کافروں کی بھی اشارہ ہے جو جنگ بدر میں مارے گئے اور ان پچھلی امتوں کی طرف بھی جن پر عذاب نازل ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا انجام تمہارے سامنے گذر چکا ہے۔ اگر تم اپنی ضد سے باز نہ آئے تو ویسا ہی انجام تمہارا بھی ہوسکتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٨۔ ٤٠۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم فرمایا کہ ابو سفیان وغیرہ کفار سے یہ بات کہہ دو اگر تم لوگ کفر سے اور ارادہ قتل مومنین سے باز رہ کر دائرہ اسلام میں آجاؤ گے تو تمہارے جتنے گناہ ہیں وہ سب بخش دئے جائیں گے مسند امام احمد اور مسلم میں عمر وبن عاص (رض) کی ایک حدیث ہے جس میں عمر بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ جب خدا نے میرے دل میں اسلام کا ارادہ ڈالا تو میں حضرت کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے بیعت کرنے کو ہاتھ بڑھایا جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا آپ نے فرمایا یہ کیا بات ہے میں نے کہا کہ ایک شرط ہے آپ نے اس شرط کا حال دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ پہلے آپ میرے لئے استغفار کریں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کیا تو نہیں جانتا ہے کہ اسلام ان گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو اسلام سے پہلے ہوچکے ہوں اور ہجرت اور حج کو بھی فرمایا کہ یہ بھی پچھلے گناہوں کو مٹانے والے ہیں غرض کہ آیت اور اس حدیث دونوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام ماقبل کے گناہوں کو بالکل نسیت ونابود کردیتا ہے اس لئے یہ حدیث آیت کے ٹکڑے یغفرلھم ماقد سلف کی گویا تفسیر ہے پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دو کہ اگر تم لوگ اپنے اسی کفر و نفاق پر جمے رہو گے اور اللہ کے رسول کی مخالفت کئے جاؤ گے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے کارخانہ قدرت میں قاعدہ یوں ہی جاری رہا ہے کہ وہ اپنے انبیا اور مومنین کی مدد کرتا ہے اور کفار کو ہلاک کردیتا ہے مطلب یہ ہے کہ اگر یہ بدر کی لڑائی میں کے بچے ہوئے مشرک لوگ اپنے شرک سے باز نہ آئے تو وہی انجام ان کا ہوگا جو ان کے ساتھیوں کا ہوا بدر کی لڑائی کا انجام انس (رض) بن مالک کی صحیح بخاری ومسلم کی روایتوں کے حوالہ سے اور گذر چکا ہے پھر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ آپ اور مومنین ان کفار سے جنگ کریں یہاں تک کہ شرک باقی نہ رہے فتنہ کی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے شرک کی فرمائی ہے اور بعضے سلف نے یہ کہا ہے کہ فتنہ باقی نہ رہے گا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو کفار فتنہ میں ڈالتے تھے جو مسلمان ہوتا تھا اس سے بڑائی سے پیش آتے اور ابتداء میں طرح طرح کی تکلیف پہنچایا کرتے تھے پھر فرمایا کہ خالص دین خدا کا ہوجائے ویکون الدین کلہ للہ کی یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا ہے صحیحین میں ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحابہ نے پوچھا کوئی شخص اپنی شجاعت ظاہر کرنے کو لڑاتا ہے اور کوئی مال غنیمت کے خیال سے اور کوئی اپنی شہرت حاصل کرنے کی غرض سے لڑاتا ہے تو ان میں کون فی سبیل اللہ مقاتلہ کرتا ہے آپ نے جواب دیا کہ جو شخص محض اس واسطے لڑاتا ہے کہ اللہ کے توحید کا رواج بڑھے اور خدا ہی کا بول بالا ہو وہ فی سبیل اللہ جنگ کرتا ہے یہ حدیث آیت کے ٹکڑے وقاتلوھم کی گویا تفسیر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی لڑائی سوائے دین کی مدد کے اور کسی دنیا کے خیال سے نہ ہونی چاہیے پھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ اگر یہ کفار اس لڑائی سے خالف ہوئے اور ایمان لے آئے اور کفر سے باز رہے تو تمہیں تو ان کے دلوں کی خبر نہیں ہے مگر ان سے کہہ دو کہ خدا تمہارے اعمال سے پوری واقفیت رکھتا ہے وہ تمہارے عمل دیکھ رہا ہے تم سے درگذر کرے گا اور اگر پھر یہ لوگ اسی کفر پر جمے رہے اور لڑائی پر مستعد ہوئے تو یہ بات جان لیویں کہ خدا انہیں کبھی فتحیاب نہیں کرے گا وہ تو ہمیشہ تمہارے ہی ساتھ تمہاری مدد کرتا رہے گا اور ہر وقت تمہیں کو غلبہ دیتا رہے گا اس سے بڑھ کر کوئی حمایتی نہیں ہے اور نہ اس سے زیادہ کوئی مددگار ہے ابن جریر نے اپنی تفسیر میں فتنہ کے متعلق وہ ایک روایت نقل کی ہے جس کی سند صحیح ہے جش میں یہ ہے کہ عبدالملک بن مروان نے عروہ کے پاس ایک خط لکھ کر چند باتیں دریافت کی تھیں یہ پوچھا تھا کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیونکر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرکے گئے تھے اس کے جواب میں عروہ نے جو کچھ لکھا ہے اس کو ابن جریر نے مفصل بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے جب حضرت کو رسول بنا کر دنیا میں بھیجا اور آپ نے اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلایا تو پہلے یہ لوگ آپ سے اتنا نہیں بھاگتے تھے اور جو کچھ حضرت صلعم فرماتے تھے اس کو سنا کرتے تھے مگر جب ان کے بتوں کا ذکر آیا اور بتوں کی پوجا سے ان کو منع کیا گیا تو یہ لوگ دشمنی کرنے لگے اور جو شخص اسلام میں داخل ہوتا تھا اس پر جبر کرتے اور فتنہ برپا کرتے تھے جب مسلمانوں کو تکلیف ہونے لگی تو آپ نے ان کو ملک حبشہ میں چلے جانے کا حکم دے دیا حبشہ کا بادشاہ نجاشی تھا کسی کے دین کے ساتھ مخالفت نہیں کرتا تھا پھر جب اہل مکہ میں سے کچھ زبردست لوگ بھی ایمان لائے تو یہ کفار کچھ ڈھیلے پڑگئے یہ بات ان مسلمانوں کو جو حبشہ میں چلے گئے تھے معلوم ہوئی تو واپس آگئے غرض کہ یہ پہلا فتنہ تھا پھر جب مدینہ کے کچھ لوگ مسلمان ہوئے اور مدینہ سے مکہ حضرت کے پاس جانے آنے لگے تو قریش کے دل میں پھر جوش پیدا ہوا اور فتنہ پر آمادہ ہوئے پھر حج کا زمانہ آیا تو مدینہ کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے جو مسلمان ہوگئے اور اللہ کے رسول سے ان لوگوں نے یہ عہدو پیمان کیا کہ اگر آپ مدینہ میں چلیں تو جس طرح ہم اپنے بال بچوں اور اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں اسی طرح آپ کی حفاظت کریں گے اور ہر طرح سے آپ کو مدد دینے پر آمادہ رہیں گے اس وقت آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دے دیا کہ چلو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں بودوباش اختیار کریں یہ دوسرا فتنہ تھا جو اہل مکہ نے بر پا کیا تھا اسی فتنہ کے وقت یہ آیت اتری کہ ان لوگوں سے جنگ کرو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے یہ عروہ بن زبیر مشہور تابیعوں میں ہیں صحاح کی سب کتابوں میں ان کی روایتیں ہیں عبدالملک بن مروان خلفاء بنی امیہ میں کے ایک خلیفہ ہیں ان کے ہی زمانہ میں عبداللہ بن زبیر (رض) شہید ہوئے اور حجاج نے ان کے ہی زمانہ میں کعبہ کی پہلی عمارت کو توڑ کر یہ جدید عمارت بنائی جو اب تک موجود ہے ریشمی کپڑے کا کعبہ کا غلاف بھی انہیں عبدالملک کے زمانہ سے شروع ہوا ٢٦ ہجری میں ان عبدالملک کی پیدائش ہے اور ٧٣ ہجری سے خلافت اور ٨٦ ہجری میں وفات ہے صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس میں بعضے صحابہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ اسلام لانے سے پہلے آدمی جو گناہ کرچکا اب اسلام لانے کے بعد ان گناہوں کا کچھ وبال تو اس آدمی کے ذمہ باقی نہ رہے گا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جو شخص ظاہر و باطن میں ہر طرح خالص دل سے اسلام لاویگا اس پر تو اسلام سے پہلے کے گناہوں کا کچھ وبال نہ رہے گا کیونکہ اسلام پچھلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ہاں جو شخص فقط ظاہر میں اسلام لے آویگا اور باطن میں منافقوں کی سی دغابازی اس کے دل میں باقی رہے گی تو ایسے جھوٹے اسلام سے اسلام کے پہلے گناہ معاف نہ ہوں گے بلکہ ایسے شخص کو اگلے پچھلے سب گناہوں کا مؤاخذہ بھگتنا پڑیگا۔ اس حدیث کو آیت کے ٹکڑے ان ینتہوا یغفرلھم ماقد سلف کی تفسرا میں بڑا دخل ہے۔ کیونکہ آیت کے ٹکڑے اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ اسلام میں پہلے کے گناہوں کی معافی کے لئے خالص دل کا اسلام ضروری ہے اوپرے دل کا اسلام اس معافی کے لئے کافی نہیں :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:38) یغفر۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ مضارع مجزوم بوجہ جواب شرط۔ معاف کردیا جائے گا۔ یعودوا۔ جمع مذکر غائب مضارع مجزوم بوجہ جواب شرط۔ عود مصدر۔ باب نصر۔ اگر وہ لوٹے۔ اگر انہوں نے دوبارہ لڑائی کی۔ اگر انہوں نے پہلی کرتوتیں دہرائیں۔ فقد مضت ستۃ الاولین۔ تو پہلے (نافرمانوں) کے ساتھ ہمارا طریقہ عمل گزر چکا ہے یعنی ماضی میں جب بھی نبیوں کی امتوں نے ان کی نافرمانی کی تو جو سلوک ہم نے ان کے ساتھ کیا تھا وہ تاریخ میں موجود ہے اور یہ جانتے ہی ہیں۔ مکافات عمل کا وہی قانون ان پر بھی لاگو کیا جائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی کفر سے بھی تائب ہو کر اسلام میں داخل ہوجائیں اور اطاعت وانابت اختیار کرلیں تو ان کے اگلے قصو یعنی کفر سمیت تمام گناہ ماسوا حقوق العباد کے معاف کردیئے گے، حدیث میں ہے الا سلما یحبت ماقبلہ والتوبتہ بحب ما قبلھا کہ اسلام لانے سے پہلے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور سچی تو بہ سے بھی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حضرت عمر بن عاص کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو اسلام کی طرف مائل کیا تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خد مت میں حاضر ہو کر عرض کی ہاتھ پھلائے کے میں بیعت کرو لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ پھیلا تو میں نے عرض کی کہ ایک شرط کرنا چاہتا ہوں ج فرمایا، کیا شرط کرنا چاہتے ہو میں نے عرض کیا یہ کہ میرے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغفرت کی دعا فرمائیں کہ میرے پہلے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں۔ فرمایا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام لانے سے پہلے کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اسی طرح ہجرت کرنے سے بھی پہلے تمام گناہ معاہوجاتے ہیں۔ ( ابن کثیر، مسلم)7 یعنی اگر اسلام کو اکھیڑ نے اور مسلمانوں کی طاقت ختم کرنے کا پروگرام بنائیں تو جس طرح پہلے لوگ تباہ و برباد ہوئے جنہوں نے انبیا کو ستا یا اور ان سے جنگ کی، اسی طرح یہ بھی تباہ وبر باد ہوں گے یا جس طرح جنگ بدر میں حشر ہوا ہے وہی اب ان ہوگا۔ ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٨ تا ٤١ اسرار و معارف مکر اللہ کے کرم کی تو انتہا نہیں آپ کفار سے بھی کہد دیجئے کہ اگر وہ اب بھی باز آجائیں تو جو ہوچکا اللہ کریم وہ معارف کردیں گے کافر اگر اللہ کا دین قبول کرلے تو سلام می داخل ہونا گذشتہ تمام جرائم کو مٹا دیتا ہے مگر اسلام کا داخلہ یہ ہے کہ کفر کو چھوڑ بھی دے یہ اسلام نہ ہوگا کہ کہہ دے آپ کی بات قبول کرتا ہوں اور پھر بتوں کو سجدے بھی کرتا رہے لہٰذا فرمایا کہ وہ باز آجائیں کفر اور اس کے کردارواعمال کو چھوڑدیں تو اگر کافربازآکر بچ سکتا ہے ۔ توبہ تو مومن کی توبہ تو بدرجہ اولی قبول ہوتی ہے مگر حقیقی تو بہ یہی ہے کہ کردار کی اصلاح کی جائے اور گناہ کو ترک کرکے اللہ سے مغفرت طلب کی جائے لیکن اگر عملی زندگی یاکردار وہی سابقہ رہے تو پہلے لوگوں کو جو نتائج بھگتنے پڑے وہ قانون قدرت لی وضاحت کے لیے کافی ہیں اگر کفار اپنی عادات سے رکنے والے نہیں تو مومن کو بھی مقابلہ سے ہٹ جانا زیب نہیں دیتا بلکہ اگر وہ قتل و غارت سے دین حق اور دینداروں کو مٹاناچا ہیں تو مومنین بھی کے مقابل قتال جاری رکھیں تا وقت کہ انکی شوکت ٹوٹ جاتے اور اللہ کے دین کو غلبہ نصیب ہو۔ جہاد کا حکم علمائے تفسیر نے یہاں لکھا کہ جہاد ہمیشہ کے لیے فرض ہے اگر کفار قتال کریں ۔ یا مسلمانوں کو ایذادیں تو مقابلہ بھی قتال سے اور میدان میں ہوگا اسی طرح تحریر وتقریرہر میدان میں مومن پہ اللہ کے دین کی نصرت فرض ہے اور کفار سے مقابلہ ضروری اور ہر میدان میں اسلام کو غالب رکھنے کی کوشش مسلمانوں پہ ہمیشہ فرض ہے چہ جائیکہ یہ خود کفار سے مرعوب ہو کر شکل و صورت رہائش خوراک اور علمی وفکر ی میدان میں اسے اپنا لیں کہ جو محض کفار کی تقلید ہو تو یہ سب حرام ہے ہاں جدید علوم کو مسلمان معاشرے کے غلبہ کے لیے حاصل کرنا اور ہر میدان میں خواہ وہ تحقیق کا ہو یا اسلام کی مخالفت سے رک جائیں تو محض انہیں تنگ کرنا مسلمانوں کا نہ تو مقصد ہے نہ شیوئہ اسلام اور اگر وہ اس طرح کوئی منافقانہ روش اپنانا چاہتے ہیں تو اللہ کریم ان کے کردار سے واقف ہے یعنی انسان کو یا مسلمان کو تو دھوکادیاجا سکتا ہے مگر وہ اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔ لہٰذا اگر وہ بظاہر امن کی کوشش کرتے رہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دے کر تباہ کرنا چاہیں اور اپنے صلح ناموں سے پھرجائیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں کہ مسلمانوں کو یہ پختہ یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ ان کا مدد گار ہے اور ان کی مددوحفاظت کرنے والا ہے اور بہترین مددگار اور معاون اللہ ہی تو ہے اگر کفار سازشیں بھی کریں انکے پاس اسباب وغیرہ بھی ہوں بیشک ہوا کریں مسلمان اللہ کے بھروسے پر جس میدان میں قدم رکھیں گے اللہ کی مدد ساتھ ہوگی جو کامیابی کی ضمانت ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی دنیا میں ہلاک اور آخرت میں عذاب۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کو جہنم کی وارننگ دینے کے بعد ایک دفعہ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انھیں نصیحت کرنے کا ارشاد ہوا ہے۔ اے رسول ! کفار کو پوری سوز مندی کے ساتھ سمجھائیں کہ یہ لوگ اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں تو ان کے تمام جرائم اور گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ اگر یہ کفر و شرک کی روش پر قائم رہیں تو انھیں اپنے سے پہلے مجرموں کے انجام کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے کمال شفقت کا اظہار کرتے ہوئے کفار کو ایک دفعہ پھر سمجھانے کا ارشاد فرمایا کہ اے رسول ! ان کو پھر سمجھاؤ کہ جو کچھ تم کرچکے سو کرچکے۔ اگر اب بھی کفر و شرک سے باز آجاؤ تو نہ صرف تمہارے ماضی پر کوئی عقوبت نہیں ہوگی بلکہ تمہارا رب اتنا رحیم و کریم ہے کہ وہ تمہاری ماضی کی تمام غلطیوں کو معاف کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس قدر حلیم و غفور ہے جو شخص بھی سچے دل کے ساتھ توبہ کرتا ہے نہ صرف اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے بلکہ اس کی سیئات کو حسنات میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ لوگ بار بار موقع دینے کے باوجود اپنا فکر و عمل نہیں بدلتے تو انھیں فرمائیے کہ تمہارا انجام تم سے پہلے لوگوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے۔ (عن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ ابْسُطْ یَمِینَکَ فَلْأُبَایِعْکَ فَبَسَطَ یَمِینَہٗ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَلَا أَجَلَّ فِی عَیْنِی مِنْہُ وَمَا کُنْتُ أُطِیقُ أَنْ أَمْلَأَ عَیْنَیَّ مِنْہُ إِجْلَالًا لَہُ وَلَوْ سُءِلْتُ أَنْ أَصِفَہُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّی لَمْ أَکُنْ أَمْلَأُ عَیْنَیَّ مِنْہُ وَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ وَلِینَا أَشْیَاءَ مَا أَدْرِی مَا حَالِی فیہَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِی نَاءِحَۃٌ وَلَا نَارٌ) [ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ وانذر عشیرتک الاقربین ] ” حضرت عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ جب آپ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا تب آپ پوچھتے ہیں اے عمرو ! کیا ہوا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ وہ کونسی شرط ہے ؟ میں نے عرض کی کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تو نہیں جانتا یقیناً اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اسی طرح ہجرت سے پہلے کے بھی گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔ اور یقیناً حج سے بھی سابقہ غلطیاں معاف ہوجاتی ہیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہ تھا۔ اور نہ ہی میری آنکھ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کسی کا جلال تھا۔ میں انہیں اس جلال کی وجہ سے آنکھ بھر کے نہیں دیکھ سکا۔ اگر مجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی وصف بیان کروں تو اس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے آپ کو کبھی آنکھ بھر کے ہی نہیں دیکھا۔ اگر میں اس حال میں فوت ہوگیا تو میں امید کرتا ہوں کہ میں اہل جنت میں سے ہوں گا۔ پھر اللہ مجھے جنت میں ولی مقرر کر دے تو میں نہیں جانتا وہاں کس حال میں ہوں گا تو جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی اور آگ نہ لے کے آنا۔ “ (إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّءَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَان اللّٰہُ غَفُورًارَّحِیمًا)[ سورة الفرقان : ٧٠] ” ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ “ مسائل ١۔ خدا کے منکروں کو بار بار سمجھانا چاہیے۔ ٢۔ توبہ کرنے اور کفر و شرک سے باز آنے والے کے اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔ ٣۔ خدا کے باغیوں کو اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام یاد رکھنا چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب بات فیصلہ کن نکتے تک آپہنچتی ہے اور اہل کفر کا انجام طے کردیا جاتا ہے ، اور گندگی کے ڈھیر کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ متعین کردیا جاتا ہے۔ اب بات کا رخ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھرتا ہے کہ اہل کفر کو آخری تنبیہ کردو ، اور اہل ایمان کو بھی حکم دے دیا جاتا ہے کہ تمہارے لیے جو راہ اور طریقہ کار متعین کردیا گیا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ جہاد و قتال ہی اسلام کا واحد راستہ ہے۔ اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اس کرہ ارض سے ہر قسم کا فتنہ و فساد ختم نہیں ہوجاتا ، اور دین خالص غالب نہیں ہوجاتا۔ اور تحریک اسلامی مطمئن اور مامون نہیں ہوجاتی۔ اسی صورت میں اللہ تحریک کا حامی و ناصر ہوگا اور لوگوں میں سے کوئی بھی بذریعہ جنگ یا بذریعہ سازش تحریک کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ لہذا تمہارے لیے اب بھی موقع ہے کہ تم اپنے آپ کو اس انجام بد سے بچا لو ، اور اسلام کے خلاف اکٹھ نہ کرو اور اس میں اپنے اموال تجارت کو جھونکنے سے بچا لو ، توبہ کا دروازہ اب بھی تمہارے سامنے ہے اور کھلا ہے۔ اللہ کی راہ کی طرف واپس آجاؤ۔ اللہ تمہاری تمام کو تاہیاں معاف کردے گا۔ اور اگر اس تنبیہ کے بعد پھر یہ لوگ وہی رویہ اختیار کریں تو سنت الہیہ لازما اپنی راہ لے گی۔ وہی ان کا انجام ہوگا جو اس راہ پر چلنے والوں کا زمانہ قدیم سے ہوتا چلا آ رہا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے دوستوں کو غلبہ اور اقتدار اعلی نصیب ہوتا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اب اے اہل کفر تم ایک فیصلہ کن دو را ہے پر کھڑے ہو۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ اب (اگلی آیت میں) اہل کفر کے ساتھ ہم کلامی ختم کرکے اہل ایمان کو اسلامی انقلاب کا طریقہ کار بتلایا جاتا ہے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کو اسلام کی ترغیب اور کفر پر جمے رہنے کی وعید اس آیت میں ترغیب بھی ہے اور ترہیب بھی۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ کافروں سے فرما دیں کہ اب تک جو تم کفر پر جمے رہے اور اسلام کی دعوت کو روکنے کے لیے تدبیریں کرتے رہے اور اس بارے میں جنگ کرتے رہے ان سب سے اگر تائب ہوجاؤ یعنی اسلام قبول کر لوتو وہ سب کچھ معاف کردیا جائے گا جو اب تک گزر چکا ہے۔ حضرت عمرو بن عاص (رض) بھی اسلام کے بڑے دشمنوں میں سے تھے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس شرط پر آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوتا ہوں کہ میری مغفرت کردی جائے آپ نے فرمایا اے عمرو ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان سب چیزوں کو ختم کردیتا ہے جو اس سے پہلے تھیں اور بلاشبہ ہجرت ان سب گناہوں کو ختم کردیتی ہے جو اس سے پہلے تھے اور بلاشبہ حج ان سب گناہوں کو ختم کردیتا ہے جو اس سے پہلے تھے۔ (رواہ مسلم ص ٧٦ ج ١) شراح حدیث نے لکھا ہے کہ ہجرت اور حج سے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور حقوق العباد معاف نہیں ہوتے، یہ بات دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ کرم ہے کہ کوئی شخص کیسا ہی دشمن اسلام ہو جب بھی اسلام قبول کرے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ پھر فرمایا (وَ اِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ ) اور اگر کافر اپنے کفر پر جمے رہے تو ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ پہلے لوگوں کو انکار اور عناد کی وجہ سے جو سزائیں ملی ہیں مقتول اور مغلوب ہوئے ہیں وہی سزائیں ان کو بھی ملیں گی اور آخرت کا عذاب دائمی تو ہر کافر کے لیے بہر حال ہے ہی، صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں : فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ فِیْ نَصْرِ اللّٰہِ اَنْبِیَآءِہٖ وَ اَوْلِیَاءِ ہٖ وَ اِھْلَاکِ اَعْدَاءِہٖ (ماضی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے انبیاء اور اولیاء کی مدد اور دشمنوں کو ہلاک کرنے کا اصول واضح ہوچکا ہے) یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ تکوینی قانون چلا آ رہا ہے کہ اپنے انبیاء و اولیاء کی مدد فرمائی اور اپنے دشمنوں کو ہلاک فرمایا۔ اگر تم کفر سے باز نہ آئے تو اسی تکوینی قانون کے مطابق تمہارا بھی انجام ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ ابو سفیان اور اس کے ہمنواؤں سے فرما دیں کہ اگر وہ شرک چھوڑ دیں، اسلام قبول کرلیں اور عداوت پیغمبر سے باز آجائیں تو ان کے تمام گذشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔ اور اگر وہ باز نہ آئیں بلکہ دوبارہ پیغمبر (علیہ السلام) سے برسر پیکار ہوجائیں تو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ اور اس کا دستور قدیم یہ ہے کہ وہ آخر کار ہمیشہ اپنے پیغمبروں اور ان کے متبعین کی مدد کرتا اور ان کے دشمنوں کو مقہور و مخذول کرتا ہے۔ “ اي عادة اللہ تعالیٰ الجارية فی الذین تخربوا علی الانبیاء علیھم السلام من نصر المومنین علیھم و خذلانھم و تدمیرھم ” (روح ج 9 ص 306) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

38 اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان لوگوں سے جنہوں نے دین حق کے انکار کا شیوہ اختیار کررکھا ہے کہہ دیجئے کہ اگر وہ اپنے طرز عمل سے باز آجائیں یعنی دین حق کی مخالفت ترک کرکے اسلام کو قبول کرلیں تو جو گناہ ان سے قبل از اسلام صادر ہوچکے ہیں وہ تمام گناہ ان کے معاف کردیئے جائیں گے اور اگر انہوں نے وہی اپنی جاحدانہ اور جارحانہ روش رکھی تو اگلے لوگوں کی راہ پڑچکی ہے اور پہلوں کا طریقہ جاری ہوچکا ہے۔ یعنی اگر معاندانہ سرگرمیاں بند کردی جائیں اور اسلام قبول کرلیں تو پہلے تمام گناہ معاف اور اگر مخالفانہ سرگرمیاں جاری رہیں اور پھر انہی باتوں کا ارتکاب کیا گیا تو تم سے اگلے لوگوں کی جو راہ پڑچکی ہے اور سابقہ کافروں پر جو قانون جاری ہوچکا ہے وہ تم پر بھی لاگو ہوگا۔ یعنی دنیا میں ہلاک و مغلوب ہونا اور آخرت میں عذاب۔