Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 4

سورة الأنفال

اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ مَغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ۚ﴿۴﴾

Those are the believers, truly. For them are degrees [of high position] with their Lord and forgiveness and noble provision.

سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے لئے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أُوْلَـيِكَ هُمُ الْمُوْمِنُونَ حَقًّا ... It is they who are the believers in truth. means, those who have these qualities are the believers with true faith. The Fruits of Perfect Faith Allah said, ... لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ ... For them are grades of dignity with their Lord, meaning, they have different grades, ranks and status in Paradise, هُمْ دَرَجَـتٌ عِندَ اللَّهِ واللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ They are in varying grades with Allah, and Allah is All-Seer of what they do. (3:163) Next, Allah said, ... وَمَغْفِرَةٌ ... and forgiveness, therefore, Allah will forgive them their sins and reward them for their good deeds. ... وَرِزْقٌ كَرِيمٌ a generous provision (Paradise). In the Two Sahihs, it is recorded that the Messenger of Allah said, إِنَّ أَهْلَ عِلِّيِّينَ لَيَرَاهُمْ مَنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ كَمَا تَرَوْنَ الْكَوْكَبَ الْغَابِرَ فِي أُفُقٍ مِنْ افَاقِ السَّمَاء The residents of Illiyyin (in Paradise) are seen from those below them, just as you see the distant planet in the horizon of the sky. They said, "O Allah's Messenger! They are the grades of the Prophets that none except them would attain." The Prophet said, بَلَى وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لِرِجَالٌ امَنُوا بِاللهِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِين Rather, by He in Whose Hand is my soul! They are for men who have faith in Allah and believed in the Messengers. In a Hadith recorded by Imam Ahmad and the collectors of Sunan, Abu Atiyyah said that Ibn Abu Sa`id said that the Messenger of Allah said, إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَتَرَاءَونَ أَهْلَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَى كَمَا تَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الْغَابِرَ فِي أُفُقِ السَّمَاءِ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ مِنْهُمْ وَأَنْعَمَا Residents of Paradise see the residents of the highest grades just as you see the distant planet in the horizon of the sky. Verily, Abu Bakr and Umar are among them (in the highest grades), and how excellent they are.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] سچے مومنوں کا درجہ :۔ جن ایمان داروں میں یہ پانچ علامات پائی جاتی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ نے پکے سچے مومن قرار دیا ہے۔ ایسے ہی مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند درجات بھی ہوں گے، بخشش بھی اور عزت کی روزی بھی۔ اب دیکھئے پہلی آیت میں جن تین علامات کا ذکر کیا گیا ہے وہ قلبی عبادت سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر درمیان میں آجانے سے دلوں کا دہل جانا اللہ تعالیٰ کی آیات سے ایمان میں اضافہ ہوجانا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا اور نماز بدنی عبادت ہے اور انفاق فی سبیل اللہ مالی عبادت ہے۔ اب بعض علماء نے ان میں یہ نسبت قائم کی ہے کہ قلبی عبادات کے عوض درجات میں بلندی ہوگی اور بدنی عبادات کے عوض مغفرت ہوگی اور مالی عبادات کے عوض عزت کی روزی ملے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After describing these five virtues of the model believer, it was said: أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا Those are the believers in reality) - that is, they are the same, outwardly and inwardly, they say what is there in their heart, otherwise, there are those who say: اَشھَدُ اَنَّ لا إله إلا اللہ و اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ رَّسُولُ اَلله (I testify that there is no god worthy of worship but Allah and I testify that Muhammad is the Messenger of Allah) which is only verbal as far as it goes. Their hearts do not throb with belief in the Oneness of Allah, nor do they have the passion for obedience to His prophet. What they do contradicts what they say. There is a hint in the verse which points out that every truth has its reality and unless you get to that reality, you cannot arrive at the truth. Someone asked the famous Hasan al-Basri (رح) : &0 Abu Said, are you a believer?& He said: &Brother, there are two kinds of &Iman (faith). If you are asking whether or not I am a believer in Allah Ta` ala and His angels, Books and Messengers, and in Paradise and Hell, and in the accounting and retribution of the Last Day, then, my answer is: Of course, I am a believer. And if you are asking whether or not I am the perfect believer mentioned in the verses of Surah Al-Anfal, then, I just do not know whether or not I am one of those. The verses of Surah Al-Anfal referred to here are the same verses the discussion of which is before you right now. After having described the attributes and marks of true believers in the verses cited above, it was said: لَّهُمْ دَرَ‌جَاتٌ عِندَ رَ‌بِّهِمْ وَمَغْفِرَ‌ةٌ وَرِ‌زْقٌ كَرِ‌يمٌ (For them there are high ranks with their Lord, and forgiveness, and digni¬fied provision). Promised here are three things: (1) high ranks, (2) forgiveness and (3) dignified provision. According to Tafsir Al-Bahr Al-Muhit, the attributes of true Muslims mentioned in the previous verses are of three kinds: (1) Those which relate to one&s heart, the inward human dimension, such as, belief in Allah, fear of Allah and trust in Allah. (2) Those which relate to physical deeds, such as, Salah etc., and (3) Those which relate to one&s wealth, such as, spending in the way of Allah. Counter-poised against these three kinds, three rewards have been mentioned. High ranks have been set against inward and spiritual attributes; forgiveness has been placed against deeds which are related to outward human physique, like Salah and Sawm. Salah, as in Hadith, becomes the Kaffarah (expiation) of sins. Finally, &dignified provision& has been set against spending in the way of Allah, that is, one would get what is much better and much more than what one has spent in the mortal life.

مرد مومن کی یہ پانچ صفات بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤ ْمِنُوْنَ حَقًّا، یعنی ایسے ہی لوگ سچے مومن ہیں جن کا ظاہر و باطن یکساں اور زبان اور دل متفق ہیں ورنہ جن میں یہ صفات نہیں وہ زبان سے تو اشھد ان لآ الہ الا اللہ واشھد ان محمد الرسول اللہ کہتے ہیں مگر ان کے دلوں میں نہ توحید کا رنگ نہ اطاعت رسول کا۔ ان کے اعمال ان کے اقوال کی تردید کرتے ہیں۔ اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہر حق کی ایک حقیقت ہوتی ہے جب وہ حاصل نہ ہو حق حاصل نہیں ہوتا۔ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ سے پوچھا کہ اے ابو سعید کیا آپ مومن ہیں تو آپ نے فرمایا کہ بھائی ایمان دو قسم کے ہیں۔ تمہارے سوال کا مطلب اگر یہ ہے کہ میں اللہ تعالے اور اس کے فرشتوں، کتابوں اور رسولوں پر اور جنت دوزخ اور قیامت اور حساب کتاب پر ایمان رکھتا ہوں تو جواب یہ ہے کہ بیشک میں مومن ہوں۔ اور اگر تمہارے سوال کا مطلب یہ ہے کہ میں وہ مومن کامل ہوں جس کا ذکر سورة انفال کی آیات میں ہے تو مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں ان میں داخل ہوں یا نہیں۔ سورة انفال کی آیات سے وہی آیات مراد ہیں جو ابھی آپ نے سنی ہیں۔ آیات مذکورہ میں سچے مومن کی صفات و علامات بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۔ اس میں سچے مومنین کے لئے تین چیزوں کا وعدہ فرمایا۔ ایک درجات عالیہ دوسرے مغفرت، تیسرے رزق عمدہ۔ تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس سے پہلی آیات میں سچے مومنین کی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ تین قسم کی ہیں، ایک وہ جن کا تعلق قلب اور باطن کے ساتھ ہے جیسے ایمان۔ خوف خدا۔ توکل علی اللہ، دوسرے وہ جن کا تعلق جسمانی اعمال سے ہے جیسے نماز وغیرہ۔ تیسرے وہ جن کا تعلق انسان کے مال سے ہے جیسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ ان تینوں قسموں کے بالمقابل تین انعاموں کا ذکر آیا ہے۔ درجات عالیہ قلبی اور باطنی صفات کے مقابلہ میں اور مغفرت ان اعمال کے مقابلہ میں جو انسان کے ظاہر بدن سے متعلق ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ نماز گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے اور رزق کریم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بالمقابل آیا ہے کہ جو کچھ خرچ کیا اس سے بہت بہتر اور بہت زیادہ اس کو آخرت میں ملے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۝ ٠ ۭ لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝ ٤ ۚ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ درج الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] ( د ر ج ) الدرجۃ : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدیاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزعلہ رفیع یعنی بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے میزز یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) بس کامل اور سچے ایمان والے یہی لوگ ہیں، ان کے لیے آخرت میں بڑے بڑے درجاتا اور دنیا میں ان کے گناہوں کی معافی ہے اور جنت میں ان کے لیے بہترین ثواب ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط) ۔ یہاں پر ایک مؤمن کی تعریف (definition) کا پہلا حصہ بیان ہوا ہے ‘ جب کہ اس کا دوسرا اور تکمیلی حصہ اس سورت کی آیت ٧٤ میں بیان ہوگا ‘ یعنی آخری سے پہلی (second last) آیت میں۔ اس آیت میں بھی یہی الفاظ (اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط) ایک دفعہ پھر آئیں گے۔ ایمان کے ان حقائق کو تقسیم کر کے سورت کے آغاز اور اختتام پر اس طرح رکھا گیا ہے جیسے ساری سورت اس مضمون کی گود میں آگئی ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3. Even the best and the most devoted believers are liable to commit lapses. As long as man is man, it is impossible for his record to be filled exclusively with righteousness of the highest order and to be free from all lapses, shortcomings and weaknesses. Out of His infinite mercy, however, God overlooks man's shortcomings as long as he fulfils the basic duties incumbent upon him as God's servant, and favours him with a reward far greater than that warranted by his good works. Had it been a rule that man would be judged strictly on the basis of his deeds, that he would be punished for every evil deed and rewarded for every good deed, no man, howsoever righteous, would have escaped punishment.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :3 قصور بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر اہل ایمان سے بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں ، اور جب تک انسان انسان ہے یہ محال ہے کہ اس کا نامہ اعمال سراسر معیاری کارناموں ہی پر مشتمل ہو اور لغزش ، کوتاہی ، خامی سے بالکل خالی رہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے یہ بھی ایک بڑی رحمت ہے کہ جب انسان بندگی کی لازمی شرائط پوری کردیتا ہے تو اللہ اس کی کوتاہیوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور اس کی خدمات جس صلے کی مستحق ہوتی ہیں اس سے کچھ زیادہ صلہ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے ۔ ورنہ اگر قاعدہ یہ مقرر کیا جاتا کہ ہر قصور کی سزا اور ہر خدمت کی جزا الگ الگ دی جائے تو کوئی بڑے سے بڑا صالح بھی سزا سے نہ بچ سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی جنت کے میوے اور کھانے5 یہاں غزوہ بدر کے لیے روانگی کے واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو 2 ھ میں پیش آیا، مختصر واقعہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی کہ قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان سر کردگی میں شام سے مکہ جارہا ہے اور مدینہ کے راستہ پر پہنچ چکا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو مختصر سی جمعیت جو تین سو سے کچھ اوپر تھی لے کر قافلہ کے تعاقب کے لیے نکل کھڑے ہوئے ابو سفیان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کی اطلاع ہوگئی، اس نے ایک تیز رفتار سوار کے ذریعہ مکہ اطلاع بھیج دی اور خود احتیاط اصل رستہ چھوڑ کر ساحلی اختیار کرلیا۔ مکہ میں جب یہ خبر پہنچتی تو ابو جہل ایک بڑا مسلح لشکر لے کر قافلہ کی حفاظت کے لے روانہ ہوگیا اور آکر بدر میں ڈیرے ڈال دیئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کی سامنے ساری صو رتحال رکھ دی کہ ایک طرف تجارتی فافلہ ہے اور دوسری طرف قریش کا لشکر ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ تمہیں دونوں میں سے ایک ضرور ملے گا۔ اس پر بعض صحابہ (رض) کو تردو ہوا۔ وہ جاہتے تھے کہ لشکر کی بجائے قافلہ کا تعاقب کیا جائے اس وقت حضرت ابو بر (رض) ، حضرت عمر (رض) حضرت مقداد (رض) اور حضرت سعد بن معاذ نے اطاعت کی تقریریں کیں، تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کی طرف صحابہ (رض) کی کراہت مدینہ سے نکلنے کے وقت نہ تھی جیسا کہ بظاہر آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے لیکن مجموعی واقعہ کی ایک قرار دیکر اس کر اہب کو خروج سے متسل کردیا ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وھم کارھون حال مقدرہ ہو۔ پس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح اس وقت مدینے سے نکلنے سے ہچکچا نا اور خطرے کا سامنا کرنے سے گھبرانا صحیح ثابت نہ وہوا اور بدر کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے فتح دی اور مال غنیمت ہاتھ لگا اسی طرح آج بھی انہیں مال غنیمت کی تقسیم میں ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے جو حصہ ملے اسے قبول کرلینا چاہیے اس کا نتیجہ ان کے حق میں بہتر رہے گا ( کبیر، ابن کثیر) شاہ صا حب بھی لکھتے ہیں یعنی غنیمت یہ جھگڑا بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ نکلتے وقت عقل کی تد بیر کرنے لگے اور آخر کار صلاح وہی ٹھہری جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو ہر کام میں یہی اختیار کرو کہ حکم پر برداری میں اپنی عقل کو دخل نہ دو ، ( مو ضح

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انفال کے بارے چند بنیادی احکام کے بعد غزوۂ بدر کی چند تفصیلات کہ غنیمتیں کیوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ رسول محترم اور آپ کے عظیم رفقاء نے مکہ میں تیرہ سال بےپناہ مصائب و آلام کا سامنا کیا بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے مکہ والوں نے آخر وقت تک آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خیر و سلامتی کے ساتھ آپ کو مدینہ طیبہ پہنچا دیا۔ یہاں پہنچ کر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں میں مواخات قائم فرمائی اور یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ کے نام سے ایک معاہدہ کیا۔ جس میں فریقین کے حلیف قبیلے بھی شامل تھے۔ عبداللہ بن ابی جسے آپ کی آمد سے پہلے اہل مدینہ نے اپنا سربراہ بنانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ آپ کی تشریف آوری کی وجہ سے اس منصب سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ اس نے آپ کی شخصیت اور منصوبہ بندی سے مرعوب ہو کر بظاہر کلمہ پڑھا۔ منافقت کا لبادہ پہن کر مدینہ کے یہودیوں اور مکہ والوں کے ساتھ ساز باز کا منصوبہ بنایا جس بنا پر مکہ والوں کو مدینہ کے بارے میں پل پل کی خبر دیا کرتا تھا۔ عقیدے کا اختلاف اور رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اہل مکہ سے بچ نکلنا اور مدینہ میں آپ کی منصوبہ بندی کو اہل مکہ کس طرح برداشت کرسکتے تھے اس لیے انھوں نے خفیہ طور پر مدینہ پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا جس کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت تھی اسی خاطر انھوں نے

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مذکورہ صفات والے سچے مومن ہیں : آخر میں فرمایا (اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ مَغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ) (یہ لوگ سچے مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات ہیں اور مغفرت ہے اور رزق کریم ہے) اس میں اول تو یہ فرمایا کہ جن حضرات کا اوپر ذکر ہوا یہی سچے مومن ہیں پھر ان کے لیے درجات اور مغفرت اور رزق کریم کی بشارت دی، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ تین انعام مذکورہ بالا تین قسم کے اوصاف کے مقابل ہیں ایمان باللہ اور اللہ کے ذکر کے وقت ہیبت سے سہم جانا اور اس کی آیات سن کر ایمان کا بڑھ جانا اور اس کی ذات پر بھروسہ کرنا، یہ امور قلب یعنی دل سے متعلق ہیں اس کا انعام درجات عالیہ رفیعہ کی صورت میں ملے گا اوراقامۃ الصلاۃ میں تمام بدنی عبادات آگئیں۔ ان کے مقابلہ میں مغفرت کا انعام ہے۔ (عموماً عبادات بدنیہ کے ذریعہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے) اور وجوہ خیر میں مال خرچ کرنے کے مقابلہ میں رزق کا وعدہ فرمایا، قال صاحب الروح (ص ١٢٩ ج ٩) و ربما یقال فی وجہ ذکر ھذہ الاشیاء الثلاثۃ علی ھذا الوجہ ان الدرجات فی مقابلۃ الاوصاف الثلاثۃ اعنی الوجل والاخلاص و التوکل و یستأنس لہ بالجمع و المغفرۃ فی مقابلۃ اقامۃ الصلوۃ و یستأنس لہ بما ورد فی غیر ماخَیْرَان الصلوٰۃ مکفرات لما بینھا من الخطایا و انھا تنقی الشخص من الذنوب کما ینقی الماء من الدنس، و الرزق الکریم بمقابلۃ الانفاق ١ ھ (صاحب روح المعانی فرماتے ہیں اس ترتیب سے ان تین چیزوں کے ذکر کی وجہ بعض دفعہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جنت کے درجات تو تین اوصاف یعنی خوف، اخلاص اور توکل کے بدلہ میں اور اطمینان و مغفرت نماز قائم کرنے کے بدلے میں ہے اور کئی احادیث میں ہے کہ نمازیں ایک دوسرے کے درمیانی وقت کی کوتاہیوں کے لیے کفارہ ہیں اور یہ آدمی کو گناہوں سے اس طرح پاک صاف کردیتی ہیں جیسے پانی میل کو صاف کردیتا ہے اور رزق کریم انفاق کے بدلہ میں ملے گا) ۔ درجات جنت کی وسعت : حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنت میں سو درجے ہیں اور ان درجات کے درمیان آپس میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ ان میں فردوس سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ اسی سے جنت کی چاروں نہریں جاری ہیں اور اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے سو جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو۔ (رواہ الترمذی کمافی المشکوٰۃ ص ٤٩٦) حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنت میں سو درجات ہیں اگر سارے جہان ان میں سے ایک درجہ میں جمع ہوجائیں تو اس ایک درجہ میں سب سما جائیں۔ (مشکوٰۃ لمصابیح ص ٤٩٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) یہی لوگ سچے ایمان والے اور حقیقی اہل ایمان ہیں ان کے رب کے ہاں ان کے لیے بڑے بڑے درجے ہیں اور ان کے رب کے پاس ان کے لیے مغفرت و بخشش اور باعزت روزی یعنی مال غنیمت کی تقسیم پر جھگڑے کا اندیشہ تھا اسلیے دین کا خلاصہ اور مسلمانوں کو اخلاق سکھایا مثلا دین کے احکام کی دو قسمیں ہیں حقوق اللہ ، اور حقوق العباد، اصلحوا، سے حقوق العباد کو سمجھایا حقوق اللہ میں مالی حق کا ذکر، ینفقون، میں اور بدنی کا ذکر ، یقیمون الصلوۃ مال غنیمت کی زیادہ فکر نہ کرو اور اس کی وجہ سے آپس میں دست و گریبان نہ ہو، بلکہ اعتقاد اور اعمال اور اخلاق کی اصلاح کرو یہی چیز اللہ کے نزدیک مقبول اور موجب درجات ہیں۔