Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 48

سورة الأنفال

وَ اِذۡ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الۡیَوۡمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیۡ جَارٌ لَّکُمۡ ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیۡہِ وَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکُمۡ اِنِّیۡۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوۡنَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ ؕ وَ اللّٰہُ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿٪۴۸﴾  2

And [remember] when Satan made their deeds pleasing to them and said, "No one can overcome you today from among the people, and indeed, I am your protector." But when the two armies sighted each other, he turned on his heels and said, "Indeed, I am disassociated from you. Indeed, I see what you do not see; indeed I fear Allah . And Allah is severe in penalty."

جبکہ ان کے اعمال کو شیطان انہیں زینت دار دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ لوگوںمیں سے کوئی بھی آج تم پر غالب نہیں آسکتا میں خود بھی تمہاراحمایتی ہوں لیکن جب دونوں جماعتیں نمودار ہوئیں تو اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا میں تو تم سے بری ہوں ۔ میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لاَ غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ... And (remember) when Shaytan made their (evil) deeds seem fair to them and said, "No one of mankind can overcome you today and verily, I am your neighbor." Shaytan, may Allah curse him, made the idolators' purpose for marching seem fair to them. He made them think that no other people could defeat them that day. He also ruled out the possibility that their enemies, the tribe of Bani Bakr, would attack Makkah, saying, "I am your neighbor." Shaytan appeared to them in the shape of Suraqah bin Malik bin Ju`shum, the chief of Bani Mudlij, so that, as Allah described them, يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمْ الشَّيْطَـنُ إِلاَّ غُرُوراً He (Shaytan) makes promises to them, and arouses in them false desires; and Shaytan's promises are nothing but deceptions. (4:120) ... فَلَمَّا تَرَاءتِ الْفِيَتَانِ نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ ... But when the two forces came in sight of each other, he ran away and said: "Verily, I have nothing to do with you. Ibn Jurayj said that Ibn Abbas commented on this Ayah, "On the day of Badr, Shaytan, as well as, his flag holder and soldiers, accompanied the idolators. He whispered to the hearts of the idolators, `None can defeat you today! I am your neighbor.' When they met the Muslims and Shaytan witnessed the angels coming to their aid, نَكَصَ عَلَى عَقِبَيْهِ (he ran away), he went away in flight while proclaiming, إِنِّي أَرَى مَا لاَ تَرَوْنَ (Verily, I see what you see not)." Ali bin Abi Talhah said, that Ibn Abbas said about this Ayah, لااَ غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ (No one of mankind can overcome you today and verily, I am your neighbor), "Shaytan, as well as, his devil army and flag holders, came on the day of Badr in the shape of a Suraqah bin Malik bin Ju`shum, man from Bani Mudlij, Shaytan said to idolators, `None will defeat you this day, and I will help you.' When the two armies stood face to face, the Messenger of Allah took a handful of sand and threw it at the faces of the idolators, causing them to retreat. Jibril, peace be upon him, came towards Shaytan, but when Shaytan, while holding the hand of a Mushrik man, saw him, he withdrew his hand and ran away with his soldiers. That man asked him, `O Suraqah! You claimed that you are our neighbor!' He said, ... إِنِّي أَرَى مَا لاَ تَرَوْنَ إِنِّيَ أَخَافُ اللّهَ وَاللّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ Verily, I see what you see not. Verily, I fear Allah for Allah is severe in punishment. Shaytan said this when he saw the angels." The Position of the Hypocrites in Badr Allah said next,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 مشرکین جب مکہ سے روانہ ہوئے تو انہیں اپنے حریف قبیلے بنی بکر بن کنانہ سے اندیشہ تھا کہ وہ پیچھے سے انہیں نقصان نہ پہنچائے چناچہ شیطان سراقہ بن مالک کی صورت بنا کر آیا، جو بنی بکر بن کنانہ کے ایک سردار تھے، اور انہیں نہ صرف فتح و غلبہ کی بشارت دی بلکہ اپنی حمایت کا بھی پورا یقین دلایا۔ لیکن جب ملائکہ کی صورت میں امداد الٰہی اسے نظر آئی تو ایڑیوں کے بل بھاگ کھڑا ہوا۔ 48۔ 2 اللہ کا خوف تو اس کے دل میں کیا ہونا تھا ؟ تاہم اسے یقین ہوگیا تھا کہ مسلمانوں کو اللہ کی خاص مدد حاصل ہے مشرکین ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ 48۔ 3 ممکن ہے یہ شیطان کے کلام کا حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے جملہ مستانفہ ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] جنگ بدر میں سراقہ بن مالک کا موجود ہونا اور کافروں کی حوصلہ افزائی :۔ قریش اور بنو کنانہ کی آپس میں دشمنی تھی اور انہیں یہ خطرہ تھا کہ بنو کنانہ کہیں مسلمانوں کی حمایت کر کے ہمارے لیے خطرہ یا شکست کا باعث نہ بن جائیں۔ ان کے اس خدشہ کو مٹانے کے لیے شیطان خود بنو کنانہ کے رئیس سراقہ بن مالک کی شکل میں کافروں کے لشکر میں آموجود ہوا اور ابو جہل سے کہنے لگا کہ ہماری طرف سے تم لوگ بالکل مطمئن رہو۔ اس معاملہ میں ہم لوگ تمہاری حمایت کریں گے اور مل کر مسلمانوں کا استیصال کریں گے۔ ویسے بھی تم لوگوں کی فتح یقینی ہے۔ تمہاری اتنی بڑی جمعیت کے سامنے ان تھوڑے سے مسلمانوں کی کیا حیثیت ہے۔ پھر جب میدان کار زار گرم ہوا اور اس نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے اترتے دیکھ لیے اور یہ اندازہ کرلیا کہ اب مشرکین کی شکست یقینی ہے تو وہاں سے کھسکنے لگا۔ اس وقت ابو جہل نے کہا : عین مشکل کے وقت اب کہاں جاتے ہو ؟ کہنے لگا جو کچھ مجھے نظر آ رہا ہے وہ تم نہیں دیکھ سکتے۔ یہ کہہ کر چلتا بنا۔ اس وقت بھی شیطان لعین نے اپنے ساتھیوں کو یہ نہ بتلایا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس کے مطابق تمہاری ہلاکت ہونے والی ہے۔ لہذا تم بروقت اس کا تدارک سوچ لو۔ بلکہ انہیں دغا دے کر واپس چلا گیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ : ” جَارٌ“ کا معنی یہاں مجیر، معین، ناصر یعنی حمایتی و مدد گار ہے۔ ” نَكَصَ “ الٹے پاؤں پیچھے ہٹا۔ شیطان کے ان کے لیے ان کے اعمال کو مزین کرنے، انھیں ان کے غالب ہونے اور اپنی حمایت کا یقین دلانے کی تفسیر بعض مفسرین، مثلاً طبری، ابن کثیر اور قرطبی (رح) نے ابن عباس (رض) سے نقل فرمائی ہے کہ قریش اور بنو کنانہ کی باہم دشمنی تھی اور انھیں ان کی طرف سے خطرہ تھا کہ وہ پیچھے سے ہم پر حملہ نہ کردیں۔ شیطان نے ان کے سردار سراقہ بن مالک بن جعشم کی شکل میں آکر ان کی طرف سے قریش کو بےفکر ہوجانے کا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا اور اپنے لشکر کو بھی لے کر آیا، مگر بدر میں جب مسلمانوں کے ساتھ جبریل (علیہ السلام) اور فرشتوں کو دیکھا تو الٹے پاؤں یہ الفاظ کہتا ہوا بھاگ گیا جن کا قرآن مجید میں ذکر ہے۔ بعض مفسرین مثلاً صاحب المنار نے یہ تفسیر کی ہے کہ شیطان انسانی شکل میں نہیں آیا بلکہ یہ تمام باتیں بطور وسوسہ اس نے ان کے دلوں میں ڈالیں کہ میں تمہارا حمایتی ہوں، یعنی جن بتوں اور خداؤں کو تم پوجتے ہو وہ ہر طرح سے تمہاری حمایت اور مدد کریں گے اور اس وقت تم اتنی تعداد اور قوت میں ہو کہ تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ وہ اپنے بتوں اور خداؤں کے بھروسے پر جو درحقیقت شیطان پر بھروسا تھا اور اپنی قوت کے زعم میں شیطان کے ڈالے ہوئے وسوسے پر اپنی فتح کا یقین کر بیٹھے، مگر بدر کے میدان میں لڑائی شروع ہونے کے بعد انھیں مسلمان دگنے نظر آنے لگے تو شیطان کے سارے دلائے ہوئے وسوسے اور یقین باطل ہوگئے۔ سید رشید رضا نے شیطان کے انسانی صورت میں آنے کی روایات کی صحت میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ روایات ابن عباس (رض) سے مروی ہیں جو اس وقت پانچ برس کے تھے، انھوں نے کسی اور ہی سے سنی ہوں گی، مگر صحابہ کی مرسلات بھی قبول ہوتی ہیں، کیونکہ انھوں نے کسی نہ کسی صحابی ہی سے سنی ہوتی ہیں جو سب معتبر ہیں۔ ابن کثیر کی تخریج ” ہدایۃ المستنیر “ میں لکھا ہے کہ ابن کثیر نے ان آیات کے تحت ابن عباس (رض) سے کئی روایات ذکر کی ہیں جن میں سے کوئی بھی ضعف سے خالی نہیں، مگر ان کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان واقعات کا اصل ضرور ہے، اس لیے انھیں بیان کرنے میں کوئی مانع نہیں اور ” الاستیعاب فی بیان الأسباب “ میں سلیم الہلالی اور محمد بن موسیٰ نے لکھا ہے کہ ابن عباس (رض) کی ( یہاں مذکور) روایت حسن ہے، اس میں دو علتیں بیان کی گئی ہیں مگر ان کی کچھ حیثیت نہیں۔ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی کوئی وضاحت صحیح حدیث میں نہیں آئی اور یہ معاملہ غیب سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اگرچہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ شیطان نے واقعی انسانی وجود میں آ کر انھیں یہ کہا یا محض دل میں غرور پیدا کر کے انھیں دھوکا دیا، مگر قرآن کے الفاظ ” وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ “ اور ” نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْهِ “ سے یہی راجح نظر آتا ہے کہ وہ ظالم انسانی شکل میں آیا تھا اور شیطان کا بعض اوقات انسانی شکل میں آنا کچھ بعید نہیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز میں حملہ آور ہوا تو آپ نے پکڑ کر اس کا گلا گھونٹا، مگر پھر سلیمان (علیہ السلام) کی دعا یاد کر کے اسے چھوڑ دیا۔ [ بخاری، الصلاۃ، باب الأسیر أو الغریم یربط فی المسجد : ٤٦١ ] ابوہریرہ (رض) کو بھی تین دن نظر آتا رہا اور وہ گرفتار کر کے اسے چھوڑ دیتے رہے، اس لیے اس اہم موقع پر خود اس کا آنا کوئی بعید نہیں ہے۔ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ : یعنی مجھے وہ فرشتے نظر آ رہے ہیں جو تمہیں نظر نہیں آ رہے۔ اِنِّىْٓ اَخَاف اللّٰهَ : ابلیس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے اس دن تک مہلت دی جو اللہ کے علم میں ہے۔ دیکھیے سورة حجر (٣٧، ٣٨) اور سورة ص (٨٠، ٨١) قیامت تک وعدہ نہیں فرمایا اس لیے ہوسکتا ہے کہ ابلیس نے فرشتوں کو دیکھ کر یہ سمجھا ہو کہ میری مہلت کی مدت ختم ہوچکی ہے، اس لیے اس نے اللہ سے ڈرنے کا ذکر کیا، ورنہ وہ ظالم کب اللہ سے ڈرتا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Since its beginning, Surah al-Anfal has been dealing with the actual events and attending circumstances of the battle of Badr along with subsequent lessons learnt and related injunctions given. One such event from here relates to the Shaitan who misled the disbelievers of Makkah, exhorted them to go to battle against Muslims and then he disengaged, and left them all by themselves right there in the middle of the battlefield. This event has been mentioned at the beginning of verse 48. Did this deception of the Shaitan take the form of scruples put into the hearts of the Quraysh? Or, did the Shaitan come to them in human form and talked to the Quraysh face to face? Both probabilities exist here. But, the words of the Qur&an seem to support the second eventu¬ality - that the Shaitan misled them by appearing in a human form before them. According to a narration of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) reported by Imam ibn Jarir, when the army of the Quraysh of Makkah marched out from the city, they were terribly worried about a possible danger from their neighbouring tribe of Banu Bakr, also an enemy. They apprehended that once they went out to confront Mus¬lims, this tribe hostile to them may find an opportunity to attack their homes and hurt their women and children there. No doubt, they had demonstrated their readiness to respond to the plaintive appeal for help made by Aba Sufyan, the leader of their trade caravan, but they were dragging their feet because of this danger. In this perplexing sit¬uation, all of a sudden, the Shaitan appeared in the form and guise of Suraqah ibn Malik holding a flag in his hand and flanked by a regi¬ment of tough fighting men. Suraqah ibn Malik was a big chief who controlled the tribal area from where that danger of attack was expected. He stepped forward and addressed the army of Quraysh young men through which he misled them in two ways. First, he said: لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ (None of the people is to overpower you today - 48). By this, he meant that he had a good idea of the strength of their adversary and he could also see their own physical and numerical superiority, there-fore, he assured them that they should stop worrying, march ahead and prevail, for no one is going to prevail against them. Then, he said: إِنِّي جَارٌ‌ لَّكُمْ (I am a protector for you - 48). By saying this, he was referring to their apprehensions against the tribe of Banu Bakr who might attack their homes and families in Makkah during their absence. Here, he was taking the responsibility that nothing of this sort was going to happen as he was their supporter and caretaker. The Quraysh of Makkah already knew about Suraqah ibn Malik being a known and influential personality of the area. Hearing this assurance from him, they became emotionally stable. They dismissed the threat from the tribe of Banu Bakr from their hearts and became all set to go and confront Muslims. Thus, by employing this dual deception, the Shaitan drove these peo¬ple to their killing field and what he did for himself is described by the Holy Qur&an in the following words: فَلَمَّا تَرَ‌اءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ (So, when the two groups [ the disbelievers of Makkah and Muslims ] saw each other [ at Badr ], he turned back on his heels - 48). Since a force of Shaitans had also assembled in support of the disbe¬lievers of Makkah at the battle of Badr, therefore, Allah Ta` ala sent a force of angels under the command of Jibra&il and Mika&il (علیہما السلام) to meet their challenge. According to a narration of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) reported by Imam Ibn Jarir and others, when the Shaitan who was commanding his force in the human guise of Suraqah ibn Malik at that time saw Arch angel Jibra&il (علیہ السلام) and the force of angels with him, he lost his nerves. At that time, he was standing hand in hand with a Qu¬rayshi warrior, Harith ibn Hisham. All of a sudden, he tried to free his hand clasped into the hand of Harith. When Harith asked him as to why he was doing that, he whacked his chest with a blow and threw him down. Now unchecked, he bolted out from the battlefield. Harith - under the impression that he was Suraqah - shouted at him: 0 Sura¬qah, chief of Arabia, you had said that you will support us and here you are doing this to us in the middle of a battle! The Shaitan - in the guise of Suraqah - replied: إِنِّي بَرِ‌يءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَ‌ىٰ مَا لَا تَرَ‌وْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ (I have noth¬ing to do with you. I am seeing what you do not see. I am scared of Al¬lah - 48). Thus, he disengaged himself from the earlier compact because he was seeing a force of angels and parted ways with the disbelievers on the plea that he feared Allah. When the Shaitan saw the force of angels, he virtually saw trouble for him as he knew their power. As for his statement that he was scared of Allah, says Tafsir authority Qatadah, this was a lie forged by him. Had he feared Allah, why would he disobey Him? But, other Commentators have suggested that his fear is justified in its own place because he is fully aware of the perfect power of Allah Ta` ala and that He is severe at punishment. Therefore, there is no reason for not fear¬ing. However, bland fear without faith and obedience is useless. Abu Jahl, when he noticed signs of weakness showing up in his army because of the withdrawal of Suraqah and his force, he tried to avert the awkward situation by appealing that they should not feel be¬ing affected by the sudden retreat of Suraqah for he had a secret un¬derstanding with Muhammad to do that. In short, after the retreat of the Shaitan, what was due to happen to them did. It was on their return to Makkah that one of them met Suraqah ibn Malik. This person scolded Suraqah telling him that he was responsible for their defeat in the battle of Badr and certainly for all the losses that followed in its wake because he had broken the backs of their fighting men by retreating from the action on the battlefield. Suraqah said: I never went with you, nor did I ever take part in anything you were do¬ing there. In fact, I heard of your defeat only after you had reached Makkah. After having reported all these narrations in his Tafsir, Imam Ibn Kathir said: It is the customary practice of Shaitan, the accursed, that he would cause man to become involved with evil and then leave him off in the middle of it. The Qur&an has mentioned this habit of the Shaitan repeatedly. One such verse says: كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ‌ فَلَمَّا كَفَرَ‌ قَالَ إِنِّي بَرِ‌يءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَ‌بَّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦﴾ It is like the Shaitan when he tells man: |"Disbelieve.|" Then, after he becomes a disbeliever, he says: |"I have nothing to do with you. I am scared of Allah, the Lord of all the worlds|". (59:16)

خلاصہ تفسیر اور اس وقت کا ان سے ذکر کیجئے جب کہ شیطان نے ان (کفار) کو (بذریعہ وسوسہ) انکے اعمال ( کفریہ عداوت و مخالفت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( خوشنما کرکے دکھلائے ( کہ انہوں نے ان باتوں کو اچھا سمجھا) اور ( وسوسہ سے بڑھ کر یہ کیا کہ بالمشافہ ان سے) کہا کہ ( تم کو وہ قوت و شوکت ہے کہ تمہارے مخالف) لوگوں میں سے آج کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور میں تمہارا حامی ہوں ( نہ بیرونی دشمنوں سے ڈرو اور نہ اندرونی دشمنوں سے اندیشہ کرو) پھر جب دونوں جماعتیں ( کفار و مسلیمن کی) ایک دوسرے کے بالمقابل ہوئیں (اور اس نے ملائکہ کا نزول دیکھا) تو وہ الٹے پاؤں بھاگا اور یہ کہا کہ میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ( میں حامی وامی کچھ نہیں بنتا کیونکہ) میں ان چیزوں کو دیکھ رہا ہوں جو تم کو نظر نہیں آتیں ( مراد فرشتے ہیں) میں تو خدا سے ڈرتا ہوں ( کبھی کسی فرشتہ سے دنیا ہی میں میری خبر لوا دے) اللہ تعالیٰ سکت سزا دینے والے ہیں۔ اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب منافقین ( مدینہ والوں میں سے) اور جن کے دلوں میں ( شک کی) بیماری تھی (مکہ والوں میں سے مسلمانوں کا بےسرو سامانی کے ساتھ مقابلہ کفار میں آجانا دیکھ کر) یوں کہتے تھے کہ ان ( مسلمان) لوگوں کو ان کے دین نے بھول میں ڈال رکھا ہے ( کہ اپنے دین کے حق ہونے کے بھروسے ایسے خطرہ میں آپڑے۔ اللہ جواب دیتے ہیں) اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو ( وہ اکثر غالب ہی آتا ہے کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ زبردست ہیں ( اس لئے اپنے اوپر بھروسہ کرنے والے کو غالب کردیتے ہیں کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ زبردست ہیں ( اس لئے اپنے اوپر بھروسہ کرنے والے کو غالب کردیتے ہیں اور احیانًا ایسا شخص مغلوب ہوجائے تو اس میں کچھ مصلحت ہوتی ہے کیونکہ) وہ حکمت والے ( بھی) ہیں ( غرض ظاہری سامان و بےسامانی پر مدار نہیں قادر کوئی اور ہی ہے ) ۔ معارف و مسائل سورة انفال میں شروع سے غزوہ بدر میں پیش آنے والے واقعات اور حالات کا اور ان سے حاصل ہونی والی نصائح اور عبرتوں کا اور متعلقہ احکام کا بیان چل رہا ہے۔ اسی میں ایک واقعہ قریش مکہ کو شیطان کے فریب دے کر مسلمانوں کے مقابلہ پر ابھارنے اور پھر عین میدان جنگ میں ساتھ چھوڑ کر الگ ہوجانے کا ہے جو آیات مذکورہ کے شروع میں مذکورہ ہے۔ شیطان کا یہ فریب قریش کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کی صورت سے تھا یا انسانی شکل میں آکر روبرو گفتگو سے۔ اس میں دونوں احتمال ہیں مگر الفاظ قرآن سے زیادہ تر تائید دوسری ہی صورت کی ہوتی ہے کہ بشکل انسانی سامنے آکر فریب دیا۔ امام ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ جب قریش مکہ کا لشکر مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے مکہ سے نکلا تو ان کے دلوں پر ایک خطرہ اس کا سوار تھا کہ ہمارے قریب میں قبیلہ بنو بکر بھی ہمارا دشمن ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم مسلمانوں کے مقابلہ پر جائیں اور یہ دشمن قبیلہ موقع پا کر ہمارے گھروں اور عورتوں، بچوں پر چھاپہ مار دے۔ امیر قافلہ ابو سفیان کی گھبرائی ہوئی فریاد پر تیار ہو کر نکل تو کھڑے ہوئے مگر یہ خطرہ ان کے لئے زنجیر پا بنا ہوا تھا کہ اچانک شیطان سراقہ بن مالک کی صورت میں اس طرح سامنے آیا کہ اس کے ہاتھ میں جھنڈا اور اس کے ساتھ ایک دستہ بہادر فوج کا ہے۔ سراقہ بن مالک اس علاقہ اور قبیلہ کا بڑا سردار تھا جن سے حملہ کا خطرہ تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر قریشی جوانوں کے لشکر سے خطاب کیا اور دو طرح سے فریب میں مبتلا کیا۔ اول یہ کہ (آیت) لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ ، یعنی آج تمام لوگوں میں تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں۔ مطلب یہ تھا کہ مجھے تمہارے مقابل فریق کی قوت کا بھی اندازہ ہے اور تمہاری قوت و کثرت کو بھی دیکھ رہا ہوں اس لئے تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم بےفکر ہو کر آگے بڑھو تمہیں غالب رہو گے کوئی تمہارے مقابلہ پر غالب آنے والا نہیں۔ دوسرے یہ کہ (آیت) اِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ ، یعنی تمہیں جو بنی بکر وغیرہ سے خطرہ لگا ہوا ہے کہ وہ تمہارے پیچھے مکہ پر چڑھ دوڑیں گے۔ اس کی میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ ایسا نہ ہوگا میں تمہارا حامی ہوں۔ قریش مکہ سراقہ بن مالک اور اس کی بڑی شخصیت اور اثر و رسوخ سے پہلے سے واقف تھے اس کی بات سن کر ان کے دل جم گئے اور قبیلہ بنی بکر کے خطرہ سے بےفکر ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے آمادہ ہوگئے۔ اس دو گونہ فریب سے شیطان نے ان لوگوں کو اپنے مقتل کی طرف ہانک دیا (آیت) فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْهِ ۔ جب مشرکین مکہ اور مسلمانوں کی دونوں جماعتیں ( مقام بدر میں) آمنے سامنے ہوئیں تو شیطان پچھلے پاؤں لوٹ گیا۔ غزوہ بدر میں چونکہ مشرکین مکہ کی پیٹھ پر ایک شیطانی لشکر بھی آگیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلہ میں فرشتوں کا لشکر جبرئیل و میکائیل کی قیادت میں بھیج دیا۔ امام ابن جریر وغیرہ نے بروایت ابن عباس نقل کیا ہے کہ شیطان نے جو اس وقت بشکل انسانی سراقہ بن مالک کی صورت میں اپنے شیطانی لشکر کی قیادت کر رہا تھا، جب جبریل امین اور ان کے ساتھ فرشتوں کا لشکر دیکھا تو گھبرا اٹھا اس وقت اس کا ہاتھ ایک قریشی جوان حارث بن ہشام کے ہاتھ میں تھا فورا اس سے اپنا ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہا۔ حارث نے ٹوکا کہ یہ کیا کرتے ہو تو اس کے سینہ پر مار کر حارث کو گرا دیا۔ اور اپنے شیطانی لشکر کو لے کر بھاگ پڑا۔ حارث نے اس کو سراقہ سمجھتے ہوئے کہا کہ اے عرب کے سردار سراقہ تو نے تو یہ کہا تھا کہ میں تمہارا حامی اور مددگار ہوں اور عین میدان جنگ میں یہ حرکت کر رہے ہو۔ تو شیطان نے بشکل سراقہ جواب دیا (آیت) اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَاف اللّٰهَ ۔ یعنی میں تمہارے معاہدہ سے بری ہوتا ہوں کیونکہ میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تمہاری آنکھیں نہیں دیکھتیں مراد فرشتوں کا لشکر تھا۔ اور یہ کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس لئے تمہارا ساتھ چھوڑتا ہوں۔ شیطان نے فرشتوں کا لشکر دیکھا تو ان کی قوت سے وہ واقف تھا سمجھ گیا کہ اب اپنی خیر نہیں اور یہ جو کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ امام تفسیر قتادہ نے کہا کہ یہ اس نے جھوٹ بولا اگر وہ خدا سے ڈرا کرتا تو نافرمانی کیوں کرتا۔ مگر اکثر حضرات نے فرمایا کہ ڈرنا بھی اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور عذاب شدید کو پوری طرح جانتا ہے اس لئے نہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں البتہ نرا خوف بغیر ایمان و اطاعت کے کوئی فائدہ نہیں رکھتا۔ ابو جہل نے جب سراقہ اور اس کے لشکر کی پسپائی سے اپنے لشکر کی ہمت کو ٹوٹتے دیکھا تو بات بنائی اور کہا کہ سراقہ کے بھاگ جانے سے تم متاثر نہ ہو اس نے تو خفیہ طور پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سازش کر رکھی تھی شیطان کی پسپائی کے بعد ان کا جو حشر ہونا تھا ہوگیا۔ پھر جب یہ لوگ مکہ واپس آئے اور ان میں سے کسی کی ملاقات سراقہ بن مالک کے ساتھ ہوئی تو اس نے سراقہ کو ملامت کی کہ جنگ بدر میں ہماری شکست اور سارے نقصان کی ذمہ داری تجھ پر ہے تو نے عین میدان جنگ میں پسپا ہو کر ہمارے جوانوں کی ہمت توڑ دی۔ اس نے کہا کہ میں نہ تمہارے ساتھ گیا نہ تمہارے کسی کام میں شریک ہوا۔ میں نے تو تمہاری شکست کی خبر بھی تمہارے مکہ پہنچنے کے بعد سنی۔ یہ سب روایات امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ شیطان لعین کی یہ عام عادت ہے کہ انسان کو برائی میں مبتلا کرکے عین موقع پر الگ ہوجاتا ہے قرآن کریم نے اس کی یہ عادت بار بار بیان فرمائی ہے، ایک آیت میں ہے (آیت) كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكَ اِنِّىْٓ اَخَاف اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ آیت متذکرہ کے اس واقعہ سے چند فوائد حاصل ہوئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ زَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىْ جَارٌ لَّكُمْ۝ ٠ ۚ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْہِ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّىْٓ اَرٰي مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللہَ۝ ٠ ۭ وَاللہُ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝ ٤٨ ۧ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ جار الجار : من يقرب مسکنه منك، وهو من الأسماء المتضایفة، فإنّ الجار لا يكون جارا لغیره إلا وذلک الغیر جار له قال تعالی: وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجارِ الْجُنُبِ [ النساء/ 36] ، ويقال : استجرته فأجارني، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِنِّي جارٌ لَكُمْ [ الأنفال/ 48] ، وقال عزّ وجلّ : وَهُوَ يُجِيرُ وَلا يُجارُ عَلَيْهِ [ المؤمنون/ 88] ، وقد تصوّر من الجار معنی القرب، فقیل لمن يقرب من غيره :، قال تعالی: لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا [ الأحزاب/ 60] ، وقال تعالی: وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُتَجاوِراتٌ [ الرعد/ 4] ( ج و ر ) الجارو ( پڑسی ۔ ہمسایہ ہر وہ شخص جس کی سکونت گاہ دوسرے کے قرب میں ہو وہ اس کا جار کہلاتا ہے یہ ، ، اسماء متضا یفہ ، ، یعنی ان الفاظ سے ہے جو ایک دوسرے کے تقابل سے اپنے معنی دیتے ہیں جیسا کہ اخ اور صدیق کے معنی دیتے ہیں جیسا کہ اخ اور صداقت دونوں جانب سے ہوتی ہے ) کیونکہ کسی کا پڑوسی ہونا اسی وقت متصور ہوسکتا ہے جب دوسرا بھی اسکا پڑسی ہو ۔ چونکہ ہمسائے کا حق عقلا اور شرعا بہت بڑا حق سمجھا گیا ہے اس بنا پر ہر وہ شخص جس کا حق بڑا ہو یا وہ کسی دوسرے کے حق بڑا خیال کرتا ہو اسے اس کا ، ، جار ، ، کہہ دیتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى وَالْجارِ الْجُنُبِ [ النساء/ 36] اور رشتہ دار ہمسایہ اور اجنبی ہمسایوں ۔ میں نے اس سے پناہ طلب کی چناچہ اس نے مجھے پناہ دے دی ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَإِنِّي جارٌ لَكُمْ [ الأنفال/ 48] اور میں تمہارا حامی اور مدد گارہوں میں جار اسی معنی پر محمول ہے نیز فرمایا : ۔ وَهُوَ يُجِيرُ وَلا يُجارُ عَلَيْهِ [ المؤمنون/ 88] اور وہ پناہ دیتا ہے اور اسکے بالمقابل کوئی پناہ نہیں دے سکتا ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ فِئَةُ ( جماعت) والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی: إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔ نكص النُّكُوصُ : الإِحْجَامُ عن الشیء . قال تعالی: نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] . ( ن ک ص ) النکوص ( ن ض ) کسی چیز سے پیچھے ہٹنا ۔ قرآن پاک میں ہے : نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] تو پسپاہوکر چل دیا ۔ عقب العَقِبُ : مؤخّر الرّجل، وقیل : عَقْبٌ ، وجمعه : أعقاب، وروي : «ويل للأعقاب من النّار» واستعیر العَقِبُ للولد وولد الولد . قال تعالی: وَجَعَلَها كَلِمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف/ 28] ، وعَقِبِ الشّهر، من قولهم : جاء في عقب الشّهر، أي : آخره، وجاء في عَقِبِه : إذا بقیت منه بقيّة، ورجع علی عَقِبِه : إذا انثنی راجعا، وانقلب علی عقبيه، نحو رجع علی حافرته ونحو : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وقولهم : رجع عوده علی بدئه قال : وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام/ 71] ، انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران/ 144] ، وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] ، فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون/ 66] ( ع ق ب ) ب والعقب پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اعقاب ہے حدیث میں ہے ویلمَةً باقِيَةً فِي عَقِبِهِ [ الزخرف/ 28] وضو میں خشک رہنے والی ایڑیوں کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عقب کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے ۔ جاء فی عقب الشھر مہنے کے آخری دنوں میں آیا ۔ رجع علٰی عقیبہ الٹے پاؤں واپس لوٹا ۔ انقلب علٰی عقیبہ وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا جیسے : ۔ رجع علٰی ھافرتہ کا محاورہ ہے اور جیسا کہ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے لوٹ گئے ۔ نیز کہا جاتا ہے ۔ رجع عودہ علٰی بدئہ یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ ایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَنُرَدُّ عَلى أَعْقابِنا [ الأنعام/ 71] تو کیا ہم الٹے پاؤں پھرجائیں ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائیگا ۔ ونَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] تو پسپا ہوکر چل دیا ۔ فَكُنْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ تَنْكِصُونَ [ المؤمنون/ 66] اور تم الٹے پاؤں پھر پھرجاتے تھے ۔ عقبہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا اس کا جانشین ہوا جیسا کہ دبرہ اقفاہ کا محاورہ ہے ۔ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] . اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص/ 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر/ 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل/ 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج/ 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) اور ابلیس نے ان کے لڑائی کے لیے نکلنے کا وانھیں خوشنما کرکے دکھلایا اور یہ وسوسہ اور خیال دل میں ڈالا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) تم پر غالب آنے والے نہیں اور میں تمہاری مدد کروں گا۔ پھر جب مسلمانوں کی جماعتیں اور کافروں کی جماعتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئیں اور ابلیس نے حضرت جبرائیل امین کو فرشتوں کے ساتھ دیکھا تو واپس بھاگا اور کافروں سے کہنے لگا کہ میرا تم سے اور تمہارے قتال سے کوئی تعلق نہیں، میں جبرائیل امین (علیہ السلام) کو دیکھ رہا ہوں اور تم نہیں دیکھتے، شیطان کو اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اس کو پکڑ کر سب لوگوں کو اس کی صورت سے آشنا نہ کردیں کہ پھر دنیا میں اس کی کوئی اطاعت ہی نہ کرے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (وَاِذْ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لاَ غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ ) یعنی ان کے دلوں میں شیطان نے متکبرانہ خیالات پیدا کردیے تھے اور انہیں خوش فہمی میں مبتلا کردیا تھا کہ تمہارا یہ سازوسامان ‘ یہ اسلحہ ‘ یہ اتنا بڑا لشکر ‘ یہ سب کچھ غیر معمولی اور انہونی صورت حال ہے۔ عرب کی تاریخ میں اس طرح کے مواقع بہت کم ملتے ہیں۔ کس میں ہمت ہے کہ آج اس لشکر کے سامنے ٹھہر سکے اور کس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ آج تمہارے اوپر غلبہ پا سکے ؟ (وَاِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ ج) (فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِءَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ ) (وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْکُمْ اِنِّیْٓ اَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ ) چونکہ ابلیس (عزازیل) کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے ‘ لہٰذا ناری مخلوق ہونے کی وجہ سے اس نے فرشتوں کو نازل ہوتے دیکھ لیا اور یہ کہتے ہوئے الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا کہ میں تو یہاں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: شیطان کی طرف سے یہ یقین دہانی اس طرح بھی ہوسکتی ہے کہ اس نے مشرکین کے دل میں یہ خیال ڈالا ہو، لیکن اگلے جملے میں جو واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے اس سے ظاہر یہی ہے کہ اس نے کسی انسانی شکل میں آکر مشرکین کو اکسایا تھا ؛ چنانچہ حافظ ابن جریر (رح) وغیرہ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جب مشرکین مکہ جنگ کے ارادے سے روانہ ہونے لگے تو انہیں یہ خطرہ لاحق ہوا کہ انکے پیچھے ان کے گھروں پر قبیلہ بکر کے لوگ حملہ نہ کردیں جن سے ان کی پرانی دشمنی چلی آتی تھی، اس موقع پر شیطان اس قبیلے کے ایک سردار سراقہ کے روپ میں ان کے سامنے آیا اور اس نے اطمینان دلایا کہ تمہارے لشکر کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کوئی تم پر غالب نہیں آسکے گا، اور دوسرے یہ کہ تم ہمارے قبیلے کی طرف سے بے فکر رہو میں خود تمہارا محافظ ہوں، اور تمہارے ساتھ چلوں گا، مشرکین مکہ اس کی بات پر مطمئن ہوگئے، لیکن جب بدر کے میدان میں فرشتوں کا لشکر سامنے آیا تو شیطان جو سراقہ کی شکل میں ان کے ساتھ تھا یہ کہہ کر بھاگ کھڑا ہوا کہ میں تمہاری کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتا اور مجھے وہ فوج نظر آرہی ہے جو تم نہیں دیکھ سکتے، بعد میں جب مشرکین کا لشکر شکست کھاکر مکہ مکرمہ لوٹا توانہوں نے سراقہ سے شکایت کی کہ تم نے ہمیں بڑا دھوکہ دیا، سراقہ نے جواب میں کہا کہ مجھے تو اس قصے کا ذرا بھی پتہ نہیں اور نہ میں نے ایسی کوئی بات کہی تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٨۔ طبرانی ‘ مغازی محمد بن اسحاق اور تفسیر ابن ابی حاتم میں شان نزول اس آیت کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے جو کچھ بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے اپنے تجارتی قافلہ کی مدد کی غرض سے مکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تو بہ سبب اس کے کہ مشرکین مکہ سے اور قبیلہ بنی بکر سے مدت سے عداوت تھی اس لئے مشرکین مکہ کے جی میں یہ خیال گذرا کہ ایسا نہ ہو آج پچھلی عداوت کے سبب سے قبیلہ بنی بکر بھی ہماری مخالفت پر کھڑا ہوجاوے اس صورت میں لشکر اسلام اور قبیلہ بنی بکر دو لشکروں سے ہم کو مقابلہ کرنا پڑے اس خیال سے مشرکین مکہ سے نکلنے میں ذرا پس وپشل کر رہے تھے شیطان نے اتنے میں کیا دھوکا دیا کہ بنی کنانہ قبیلے کے سردار سراقہ ابن مالک کی صورت میں مشرکین کے پاس آیا اور کہا کہ میں تمہارا حامی اور مددگار ہوں کوئی قبیلہ بنی بکر وغیرہ تم پر چڑھ کر نہ آسکے گا اور آج تمہارا وہ جماؤ اور زور ہے کہ تم پر دنا میں کوئی آج کے روز غالب نہیں آسکتا یہ کہہ کر اپنے ان ساتھیوں کو لے کر جو ظاہر میں بنی کنانہ کے قبیلہ کے لوگ دکھلائی دیتے تھے اور حقیقت میں وہ شیاطین تھے شیطان بدر کے مقام تک مشرکوں کے لشکر کے ساتھ رہا جب لڑائی کے وقت ملائکہ اس کو مسلمانوں کے لشکر کی طرف نظر آئے اس وقت بےتحاشہ یہ کہتا ہوا بھاگا کہ میں وہ دیکھتا ہوں جو تم کو نظر نہیں آتا بدر کی لڑائی کے بعد جب سراقہ بن مالک سے لوگوں نے اس کے بھاگنے کا قصہ بیان کیا اس نے قسمیں کھائیں کہ میں ہرگز بدر نہیں گیا نہ مجھ کو اس لڑائی کی خبر ہے پھر پھیچے ان لوگوں کو اسلام لانے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ شیطان تھا اس قصے کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر طرح سے بہکانے کے غرض سے شیطان آدمی کے تمام جسم میں اس طرح دوڑتا پھرتا ہے جس طرح ہر شخص کے جسم میں خون دوڑتا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی شخص نماز کے لئے اٹھنے کا قصد کرتا ہے تو شیطان اس شخص کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ ابھی بہت رات ہے نماز کا وقت دور ہے اس لئے ابھی سوجانا چاہئے معتبر سند سے ترمذی مستدرک حاکم وغیرہ میں حارث اشعری (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان کے بہکاوے سے بچنے کے لئے یاد الٰہی ایسی چیز ہے جیسے کسی زبردست دشمن کے حملے سے بچنے کے لئے کوئی قلعہ ان حدیثوں کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیثوں کو ملانے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ آزمائش کے طور پر اللہ تعالیٰ نے شیطان کو بہت بڑا قابو انسان کے پہکانے کا دیا ہے جس قابو کے سبب سے وہ طرح طرح کے دھوکے انسان کو دیتا ہے مثلا اس نے سراقہ بن مالک کا بھیس بدل کر اہل مکہ کو دھوکہ دے دیا اور نماز کے لئے اٹھنے والے شخص کو یوں بہکا دیا کہ ابھی بہت رات ہے ٹھہر کر اٹھنا چاہئے اسی طرح اس کے بہکانے کی ہزاروں صورتیں ہیں چناچہ حافظ عبدالرحمن ابن جرزی (رح) نے اس باب میں تلبیس ابلیس ایک بہت بڑی کتاب تصنیف کی ہے غرض دھوکے کی صورتوں کو اصلی صورتوں کے ڈھنگ پر لا کر جو انسان کو شیطان بہکاتا ہے اسی کو واذزین لہم الشیطان اعمالھم فرمایا ہے اس موذی کے پھندے سے بچنے کا وہی علاج ہے جس کا ذکر حارث اشعری (رح) کی صحیح حدیث میں ہے کہ یاد الٰہی سے بڑھ کر کوئی علاج اس پھندے سے بچنے کا اسی طرح دنیا میں نہیں ہے جس طرح دشمن کے حملے سے بچنے کے لئے کسی مقبوط قلعہ کی پناہ کے سوا اور کوئی علاج نہیں اب یاد الٰہی کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ ہے کہ جب یہ موزی بہکانے کا قصد کرے اسی وقت ایماندار شخص کو چاہیے کہ اس موزی کو اپنا قدیمی دشمن سمجھ کر کسی طرح کی یاد الٰہی میں مشغول ہوجاوے جس سے یہ موذی بھاگ جاوے گا اور اس کو بہکانے کا موقع نہ ملے گا دوسری صورت یہ ہے کہ اگر اتفاق سے کوئی شخص اس موذی کے پھندے میں پھنس کر کوئی گناہ کر بیٹھے تو ایسے شخص کو فورا ابو سعید (رض) خدری کی اس صحیح حدیث کے موافق عمل کرنا چاہئے جو مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ایک جگہ گذر چکی ہے حاصل مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ جب شیطان ملعون ٹھہرایا تو اس نے اللہ تعالیٰ کے جاہ و جلال کی قسم کھاکر یہ کہا کہ جہاں تک اس سے ہو سکے گا یہ بنی آدم کے بہکانے میں کوتاہی نہ کرے گا اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر یہ فرمایا کہ بنی آدم میں سے جو گناہ گار شخص کسی طرح کے گناہ کے بعد خالص دل سے توبہ و استغفار کریگا تو میں بھی اس کے ہر طرح کے گناہوں کے معاف کردینے میں کبھی دریغ نہ کروں گا آیت کے ٹکڑے انی اخاف اللہ واللہ شدید العقاب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سخت ہونا معلوم ہے اور اس ملعون کو اس عذاب کا خوف بھی ہے لیکن اس سبب سے کہ وہ ملعون علم الٰہی میں گمراہ ٹھہر چکا ہے اس کے اس خوف نے اسے اس ازلی گمراہی سے نہیں بچایا بنی آدم میں سے جو لوگ ازلی گمراہ ٹھہر چکے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے کہ عقبے کے خوف کی کوئی نصیحت ان کے دل پر کچھ اثر نہیں کرتی :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:48) جار پڑوسی۔ ہمسایہ۔ مجازا حمایتی۔ مددگار۔ رفیق۔ تراءت وہ سامنے ہوئی۔ وہ روبرو ہوئی۔ وہ دیکھنے لگی۔ تراء ی (تفاعل) سے ماضی واحد مؤنث غائب۔ تراء ی۔ ایک دوسرے کے باہم اس طرح مقابل اور قریب ہونا کہ یہ اس کو اور وہ اس کو دیکھ سکے۔ رای۔ مادہ ۔ مہموز العین و ناقص یائی۔ رأی یری رأیا و رؤیۃ۔ اس کا امر رہے۔ تراءت الفئتین ای تلافی الفریقان۔ جب دونوں فریق بالمقابل ہوئے۔ نکص۔ نکص و نکوص۔ مصدر۔ (باب ضرب و نصر) الٹے پاؤں بھاگنا۔ بددل ہونا۔ نکص وہ الٹے پاؤں بھاگا۔ نکص کے اصل معنی ہیں جس کام کے درپے ہو اس سے لوٹ جانا۔ پلٹ جانا۔ عقبیہ۔ اس کی دونوں ایڑیاں۔ عقب۔ واحد ۔ اعقاب جمع۔ شدید العقاب۔ سخت سزا دینے والا۔ واللہ شدید العقاب۔ یہ جملہ شیطان کا کلام بھی ہوسکتا ہے جو کہ قال انی بری منکم سے شروع ہوا تھا۔ یا یہ جمسلہ مستانفہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی ان کے ذہنوں یہ غرور بھر دیا، فالقول مجاز عن الو سو ستہ ابن جریر (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ قریش اور بنو کنانہ میں سخت دشمنی تھی جب قریش مسلمانوں سے مقابلہ کے لیے نکلے تو انہیں ڈرہوا کہ کہیں پیچھے سے بنو کنا ہم پر حملہ نہ کردیں اس وقت شیطان بنو کنانہ کے ایک سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں ان کے ساتھ شریک ہوگیا اور اپنے ساتھ ایک جھنڈا اور شیطا نوں کا ایک لشکر بھی لے آیا۔ اسی وقت قریش سے اس نے وہ بات کہی جو اس آیت میں مذکور ہے ( ابن کثیر) واضح رہے کہ شیطان کا انسانی شکل میں آنان مستبعدا نہیں فالقول علی مضاۃ ا حقیقی۔ 7 یعنی سب کچھ بھول گیا اور بھاگ نکلا۔7 یعنی مجھے وہ فرشتے نظر آنے لگے ہیں جو مسلمانوں کی مدد کے لیے آئے ہیں اور تمہیں نظر نہیں آرہے،8 صرف اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے یہ بہانہ بنایا ورنہ اس مردود کو اللہ تعالیٰ کا ڈر کہاں تھا َ ؟ ( از وحیدی) حدیث میں ہے کہ عرنہ کے دن جب شیطان اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور بڑے بڑے گناہوں کی اس کی طرف سے معافی کو دیکھتا ہے تو اس کی ذات کی انتہا نہیں رہتی لیکن بدر کے دن جب اس نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ فرشتوں کی صفو کی تر تیب دے رہے ہیں تو عرفہ کے دن سے بھی زیادہ ذلیل نظر آنے لگا۔ ( مو طہ )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 48 تا 49 لغات القرآن۔ زین۔ خوبصورت بنا دیا۔ لاغالب۔ کوئی غالب نہ آسکے گا۔ جار۔ پڑوسی۔ ترءت۔ دیکھا۔ نکص۔ الٹا پھر گیا۔ عقبیہ۔ (عقبین۔ عقب) ۔ ایڑیاں۔ انی بریء۔ بیشک میں الگ ہوں۔ میرا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انی اری۔ بیشک میں دیکھ رہا ہوں۔ لا ترون۔ تم نہیں دیکھ رہے ہو۔ غر۔ دھوکے میں ڈال دیا۔ ھولاء۔ ان لوگوں کو۔ تشریح : ان آیات میں اہل ایمان کو شیطان کی چال بازویں سے ہوشیار رہنے کے لئے فرمایا جا رہا ہے کیونکہ شیطان سو بھیس بدل کر ایمان والوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے۔ مفسرین نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر جب کفار کا یہ لشکر مدینہ کیطرف بڑھ رہا تھ تو راستے میں بنو کنانہ تھے جن سے قریش کی ہمیشہ سے دشمنی چلی آرہی تھی اور ان کو اس بات کا خوف تھا کہ بنو کنانہ کہیں قریشیوں کا راستہ نہ روک لیں اور کسی طرح کی مزاحمت نہ کریں۔ شیطان جو یہ چاہتا تھا کہ اپنے ماننے والوں کو ذلیل و رسوا کرا دے بنوکنانہ کے سردار سراقہ اب مالک کے بھیس میں شیطان نے ابوجہل سے یہ کہا کہ گم گھبرائو نہیں اس موقع پر میرا قبیلہ تمہارے ساتھ بھرپور تعاونکرے گا ت میں بنو کنانہ سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ اس کا میں ذمہ لیتا ہوں تم میری پناہ میں ہو۔ آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ ابوجہل اور قبیلہ قریش اس یقین دہانی پر مطمئن ہو کر آگے بڑھ گئے اور اہل ایمان کو مٹانے کے لئے اور شیر بن گئے۔ جب کفار نے مسلمانوں سے شکست کھالی اور وہ واپس آرہی تھے تو مکہ واپس جا کر انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹی تسلیاں دے کر سراقہ ابن مالک نے مروا دیا۔ جب یہ اطلاع اس کے پاس پہنچی تو اس نے قسم کھا کر کہا کہ مجھ تو اتنی خبرنہ تھی کہ تم جنگ کے ارادے سے کب مکہ سے نکلے ہو۔ ہاں جب تم شکست کھا کر واپس آئے تب مجھے پوری صورتحال کا علم ہوا۔ ابو جہل نے کہا کہ کیا تم فلاں فلاں دن نہیں آئے تھے اور اپنے تعاون کا یقین نہیں دلایا تھا۔ وہ حیران ہو کر قسمیں کھاتا رہا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شیان سراقہ کی شکل بنا کر آیا تھا۔ اس بات کو اللہ نے ان آیات میں فرمایا کہ شیطان مختلف انداز سے لوگوں کو بہکاتا اور ان کو شرمندہ ہونے پر مجبور کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ : (1) شیطان کفارو مشرکین اور منافقین کو ان کے اعمال ان کی نگاہوں میں خوش نما بنا کر دکھاتا ہے تاکہ لوگ اس سے دھوکہ کھا جائیں۔ (2) وہ انکو اس بات پر اکساتا اور ورغلاتا ہے کہ آج تمہارے برابر کوئی نہیں ہے۔ (3) انسانی روپ میں اپنی بھرپور مدد کا یقین دلاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ شیطان کے اس فریب سے صرف اہل ایمان ہی بچتے ہیں لیکن وہ لوگ جو کفر و شرک کی راہوں پر چل پڑتے ہیں وہ شیطان کے جھانسے میں بہت جلدآجاتے ہیں۔ شیطان نے کہا کہ میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ہو اور میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ اللہ سے اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہے پھر نافرمانی کیوں کرتا ہے جواباً عرض ہے کہ دنیا میں بیشمار کفار ومشرکین ایسے ہیں جو ٹھیک خطرے اور مصیبت کے وقت اللہ کو یاد کرنے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ خطرہ ٹل جاتا ہے تو پھر وہ پہلے کی طرح گناہوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ چونکہ نر اخوف بدون ایمان کے مقبول نہیں اس لیے شیطان کا خدا سے ڈرنا اگر واقعی بھی ہو تو کچھ محل اشکال نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بدر کے دن شیطان کا کردار۔ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا، فخر و غرور اور نمود و نمائش کا مظاہرہ کرنا شیطانی کام ہے۔ شیطان ان کاموں کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ اللہ کے راستے کو اختیار کرنا، عاجزی اپنانا اور فخر و غرور، ریاکاری سے اجتناب کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کا نتیجہ ہے اس کے مقابلے میں فخر و غرور، نمود و نمائش اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں رکاوٹ بننا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ شیطان برائی پر پکا رکھنے کے لیے رواج، خاندانی روایات اور برائی کو خوبصورت بنا کر فیشن کے طور پر دکھاتا ہے۔ اکثر اوقات شیطان انسانوں کے ذریعے ایسے کاموں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کبھی خود بھی کسی آدمی کی شکل میں آکر برائی کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جس کا برائی کرنے والے کو علم نہیں ہوتا ایسی ہی صورت حال بدر کے میدان میں پیش آئی۔ پہلے تو شیطان نے مشرکین مکہ میں ایسا ماحول پیدا کیا کہ وہ یہ سمجھتے ہوئے میدان بدر کی طرف بڑھے کہ آج ہمارے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ لیکن مسلمانوں کا کٹ مرنے کا جذبہ دیکھا تو پھر سوچنے پر مجبور ہوئے۔ قریب تھا کہ وہ جنگ سے پسپائی اختیار کرتے لیکن اس حالت میں شیطان سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں آیا اور اس نے آکر کہا کہ مسلمانوں کے خلاف ڈٹ جاؤ۔ میرا قبیلہ بھی تمہاری مدد کے لیے پہنچنے والا ہے۔ لیکن جب دونوں جماعتوں نے صف بندی کی اور مسلمانوں کی حمایت میں ملائکہ قطار اندر قطار اترنا شروع ہوئے تو شیطان گھبرا کر پیچھے مڑا اور یہ کہتے ہوئے کفار کے لشکر سے نکل گیا کہ میرا تمہارے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں تم نہیں دیکھتے۔ مجھے رب ذوالجلال سے ڈر لگ رہا ہے۔ کیونکہ جب وہ پکڑنے پر آتا ہے تو اس کی پکڑ بڑی شدید ہوا کرتی ہے۔ (الرحیق المختوم) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کبھی کبھی شیطان بھی رب ذوالجلال سے ڈرتا ہے حالانکہ اسے شیطنت کے لیے قیامت تک مہلت دی گئی ہے۔ مسائل ١۔ شیطان لوگوں کے لیے برے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ ٢۔ شیطان کے وسوسے اور خیالات دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ٣۔ کبھی کبھار شیطان انسان کی شکل اختیار کرکے لوگوں میں گمراہی پھیلاتا ہے۔ ٤۔ کبھی شیطان بھی اللہ تعالیٰ سے ڈر جاتا ہے۔ تفسیر القرآن شیطان کن لوگوں کے اعمال خوبصورت بناتا ہے : ١۔ اکثر مشرکین کے لئے قتل اولاد کا عمل مزین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٢۔ قوم عاد وثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٣۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (الانعام : ١٠٩) ٤۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٥۔ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل : ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے بارے میں متعدد روایات منقول ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی روایت بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کا درجہ نہیں رکھتی۔ صرف ایک حدیث ہے جو امام مالک نے موطا میں نقل کی ہے۔ احمد روایت کرتے ہیں ، عبدالمالک ابن عبدالعزیز سے ، ابن الماجشون سے ، مالک سے ، ابراہیم ابن ابو عبلہ سے ، طلحہ ابن عبیداللہ ابن کریز سے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابلیس یوم عرفہ میں جس قدر چھوٹا سا ، حقیر سا غضبناک ہوتا ہے۔ اس قدر عام حالات میں نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ دیکھتا ہے کہ اس دن رحمت نازل ہوتی ہے۔ اللہ گناہوں کو معاف فرماتے ہیں۔ ہاں یوم بدر کے دن بھی وہ ایسا ہی تھا۔ صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ حضور بدر کے دن اس نے کیا دیکھا تھا کہ ایسا تھا۔ اس نے اس دن دیکھا کہ حضرت جبرائیل ملائکہ کو تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ حدیث مرسل بھی ہے اور اس میں عبدالمالک ابن عبد العزیز الماجشون راوی ہے جو ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ جو آثار ہیں وہ حضرت ابن عباس سے ہیں اور ان سے یہ روایات بذریعہ علی ابن ابو طلحہ اور بذریعہ ابن جریج نقل ہیں۔ یا عروہ ابن زبیر بذریعہ ابن اسحاق ، قتادہ سے بذریعہ سعید ابن جبیر ، حسن اور محمد ابن کعب سے ان سب کو ابن جریر طبری نے روایت کیا ہے۔ مثنی سے ، عبداللہ ابن صالح سے ، معاویہ سے ، علی بن ابو طلحہ سے ، حضرت ابن عباس سے کہتے ہیں کہ ابلیس یوم بدر میں شیاطین کا ایک لشکر لے کر آیا۔ اس کے پاس جھنڈآ بھی تھا۔ یہ شخص بنی مدلج کے ایک شخص کی شکل میں تھا۔ خود شیطان سراقہ بن مالک ابن جعشم کی شکل میں تھا شیطان نے مشرکین سے کہا : " آج تم پر کوئی غآلب نہ ہوگا اور میں تمہارا پڑوسی ہوں " جب لوگوں نے صف آرائی کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مٹی کی ایک مٹھی لی۔ اور اسے مشرکین کے چہروں پر مارا۔ ان کو شکست ہوئی۔ حضرت جبرئیل ابلیس کی طرف متوجہ ہوئے تو اسکا ہاتھ مشرکین میں سے ایک شخص کے ہاتھ میں تھا تو اس نے اپنا ہاتھ اس مشرک سے چھڑایا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا ، اس کے ساتھ بھی بھاگے۔ ایک شخص نے کہا : اے سراقہ ! تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم ہمارے پڑوسی ہو۔ تو اس نے جواب دیا : " کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں تم نہیں دیکھتے۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والے ہیں " یہ اس نے اس وقت کہا جب اس نے فرشتوں کو دیکھا۔ ابن حمید سے ، سلمہ سے ، ابن اسحاق سے ، یزید ابن رومان سے ، عروہ ابن الزبیر سے ، کہتے ہیں کہ جب قریش جمع ہو کر نکلنے لگے تو میں نے ان کے اور بنی بکر کے درمیان معاملات کا ذکر کیا ، یعنی جنگ کا۔ قریب تھا کہ وہ واپس ہوجائیں ، ہمیں اس وقت ابلیس سراقہ ابن مالک ، ابن جعشم المدلجی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ یہ شخص کنانہ کے شرفاء میں سے تاھ۔ اس نے کہا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں۔ اگر کنانہ تمہارے پیچھے کچھ اقدام کریں تو تم اسے پسند نہ کروگے۔ اس پر وہ بڑی تیزی سے نکلے۔ بشر ابن معاذ سے ، یزید سے ، سعید سے ، قتادہ سے۔ کہتے ہیں کہ آیت و اذ زین لہم الشیطن اعمالہم۔ سے واللہ شدید العقاب تک کی تفسیر میں یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ شیطان نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل نازل ہو رہے ہیں اور آپ کے ساتھ اور فرشتے ہیں۔ اس اللہ کے دشمن کو یہ یقین ہوگیا کہ فرشتوں کے مقابلے میں وہ تو کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ تو اس نے کہا " میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے ، میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں " یہ الفاظ اس دشمن خدا نے جھوٹ بولے ہیں۔ اس کے دل میں خدا کا خوف نہیں ہے لیکن اس کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ وہ مقابلہ نہیں کرسکتا اور اللہ کے اس دشمن کی عات ہے کہ وہ اپنے پیرو کاروں کی قیادت کرتا ہے لیکن جب حق و باطل کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو یہ اپنے ساتھیون کو بری طرح چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور ان سے اپنی براءت کا اعلان کرتا ہے۔ فی ظلال القرآن میں ہم نے جو منہاج اختیار کیا ہے اس کے مطابق ہم ان غیبی امور کے سات تعرض نہیں کرتے جن کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی کیونکہ غیبی امور کا تعلق اعتقادات سے ہوتا ہے اور اعتقادی امور کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن سے ثابت ہو یا سنت نبوی سے ثابت ہوں لیکن ہمارا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ ہم ہر غیبی امر کا انکار کردیں اسلیے کہ یہ غیبی ہے۔ یہاں قرآن کریم کی آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ شیطان نے مشرکین کے اعمال کو ان کے لیے مزین بنا دیا تھا۔ شیطان نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف لشکر کشی کریں اور یہ کہ وہ ان کی امداد کرے گا۔ اور بعدہ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو یہ شیطان الٹے پاؤں بھاگا اور کہا کہ میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نے نہیں دیکھا۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ اس طرح شیطان نے ان کو ذلیل کیا اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ تاکہ وہ اپنے انجام تک خود پہنچیں اور اس نے ان کے ساتھ جو عہد کیا اس کو پورا نہ کیا۔ اب یہ کیفیت کیسی ہے کہ شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے مزین کیا اور کس طرح اس نے باور کرایا کہ آج مشرکین کے خلاف کوئی غالب و برتر نہیں ہے اور کس طرح اس نے امداد کا وعدہ کیا اور کس طرح وہ بھاگا۔ یہ سب تفصیلات قرآن میں نہیں ہیں۔ یعنی ان واقعات کی تفصیلی کیفیت کے بارے میں ہم جزم کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے اس لیے کہ شیطان اور اس کی سرگرمیاں سب کی سب غیبی امور سے متعلق ہیں۔ اور ہم اس کے بارے میں کوئی جزمی اور یقینی بات نہیں کہہ سکے جب تک کوئی صریح نص نہ ہو۔ نص قرآن میں حادثہ اور واقعہ کا ذکر تو ہے لیکن تفصیلی کیفیات یہاں مذکور نہیں ہیں۔ یہاں آکر ہمارا اجتہاد ختم ہوجاتا ہے۔ ہم اس معاملہ میں جناب محمد عبدہ کے مکتب فکر کی رائے کو اختیار نہیں کرتے جو اس قسم کے تمام غیبی امور کے سلسلے میں ایک متعین انداز تاویل اختیار کرتے ہیں کہ ان غیبی جہانوں میں وہ ہر قسم کے حسی اعمال کا انکار کرتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں شیخ رشید رضا یہ فرماتے ہیں : و اذ زین لھم الشیطن اعمالھم " اے پیغمبر مومنین کو یہ بات یاد دلائیں کہ شیطان نے اپنے وسوسوں کے ذریعہ ان مشرکین کے سامنے ان کے اعمال کو خوشنما بنا دیا تھا۔ اور ان کے دلوں میں یہ جذبات ڈال دیے تھے کہ وہ یہ کہتے تھے کہ آج ان پر کوئی غالب نہیں ہے۔ محمد کے ضعیف و ناتواں متبعین بھی اور عربوں کے دوسرے قبائل بھی اس لیے کہ تم تعداد اور سازوسامان میں ان سے زیادہ ہو اور تمہارے فوجی ان سے زیادہ جنگجو ہیں اور ان حالات کے ساتھ ساتھ میں تمہارا مدگار ہوں۔ بیضاوی نے کہا ہے کہ اس نے ان کے وہم میں یہ بات ڈال دی کہ وہ جو اس کی اطاعت کرتے ہیں تو یہ ان کا مددگار ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ یہ دعا کرتے تھے " اے اللہ ان دو گروہوں میں سے جو زیادہ ہدایت پر ہو ، اس کی مدد کر اور ان دو ادیان میں سے جو دین زیادہ حق پر ہو اس کی امداد کر "۔ فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰي عَقِبَيْهِ ۔ یعنی جب دونوں لشکر ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور حالات کو سمجھنے لگے۔ اس سے پہلے کہ لوگ ایک دوسرے پر وار کریں اور قبل اس کے کہ میدان کارزار گرم ہو ، شیطان بھاگ گیا اور الٹے پاؤں لوٹا یعنی پیچھے کی طرف اور جن مفسرین نے تری کا معنی یہ کیا کہ جب لوگ میدان کارزار میں ٹکرا گئے تو ان کی مراد غلط ہے۔ معنی یہ ہوا کہ شیطان اب ان کے لیے ان کے اعمال کی تزئین بند کردیتا ہے اور اب انہیں ورغلانا ترک کردیتا ہے۔ اب یہ کلام ایک قسم کی تمثیل ہے اور اس میں شیطان کی وسوسہ اندازی کو آنے والے شخص سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس وسوسہ اندازی کو ترک کرنے کے فعل کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی جو پیچھے کی طرف الٹے پاؤں پھرتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کردیا کہ اس کی جانب سے ان لوگوں کے ساتھ اپنے تعلق کی براءت کا ذکر کردیا اور ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ وَقَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ ۔ یعنی اس نے اعلان کردیا کہ وہ ان سے بری الذمہ ہے۔ اور جب اس نے دیکھا کہ فرشتے مسلمانوں کی امداد کر رہے ہیں ، وہ مایوس ہوگیا۔ واللہ شدید العقاب۔ یہ شیطان کا قول بھی ہوسکتا ہے اور جملہ مستانفہ بھی ہوسکتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کی فوجیں مشرکین کی صفوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور ان کے دلوں میں وسوسے ڈال رہی تھیں یعنی ان کے ارواح سے مل کر ان کو دھوکہ دے رہی تھیں اور دوسری جانب سے فرشتے مسلمانوں کی صفوں میں پھیلے ہوئے تھے اور یہ مسلمانوں کی پاک روحوں میں وہ ڈالتے تھے کہ جس سے ان کے دل مضبوط ہوتے تھے اور اللہ کی جانب سے ان کو نصرت کا جو وعدہ تھا ، اس پر ان کا یقین اور مضبوط ہوجاتا تھا۔ یہ رجحان کہ ملائکہ کے افعال اور ان کا حصہ اس جنگ میں صرف یہی تھا کہ وہ مسلمانوں کو روحانی امداد دیتے تھے۔ مصنف دوسری جگہ صراحت سے یہ اظہار کرتے ہیں کہ یوم بدر میں فرشتوں نے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یہ ایک غلط رجحان ہے کیونکہ قرآن مجید میں دوسری جگہ آتا ہے۔ فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منھم کل بنان۔ " پس تم ان کی گردنوں پر مارو اور ان کے ہر جوڑ پر ضرب لگاؤ " شیطان کے افعال کی ایسی تشریح کہ وہ محض روحانی اتصال ہو یہ معنی محمد عبدہ کہ مکتب فکر کی اہم خصوصیت ہے۔ ایسی ہی تاویل وہ ابابیل سے متعلق بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دراصل چیچک کے جراثیم تھے اور یہ استاد محمد عبدہ کی تفسیر پارہ عم میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان آیات کی تاویل میں یہ بہت ہی مبالغہ ہے اور اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہاں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو الفاظ کی ظاہری تفسیر کو ناممکن بناتی ہو۔ ہاں ہم صرف اسی قدر کہہ سکتے ہیں کہ ان آیات میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ان واقعات کی تفصیلی کیفیت کو ظاہر کرتی ہو اور یہی طریق کار ہم نے اختیار کیا ہے۔ غرض اس طرف شیطان ان مشرکین کو دھوکہ دے رہا تھا جو اتراتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے تھے اور اپنی پوزیشن لوگوں کو دکھاتے آ رہے تھے اور ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکیں ، شیطان ان کو لشکر کشی پر آمادہ کر رہا تھا۔ اور پھر عین موقعہ میں ان کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ دوسری جانب مدینہ کے منافقین اور مریض لوگ دل ہی دل میں خوش تھے اور کہتے تھے کہ یہ لشکر تباہی کے راستے پر چل نکلا ہے۔ مشرکین کی عظیم قوت سے اس کا مقابلہ ٹھہرا ہے۔ جبکہ یہ لوگ قلیل تعداد میں ہیں اور ان کی تیار بھی کوئی نہیں ہے۔ یہ لوگ امور کو صرف ظاہری طور پر دیکھتے تھے۔ اور بظاہر یہ بات نظر آتی تھی کہ اہل ایمان نے اپنے آپ کو بڑی تباہی سے دوچار کردیا تھا یہ لوگ اپنے نئے دین کی وجہ سے دھوکے میں تھے اور انہیں اپنی نصرت کا پورا پورا یقین تھا۔ یہ تھے منافقین کے خیالات۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین کو شیطان کا جنگ کے لیے پھسلانا پھر بدر کے میدان کا رزار سے بھاگ جانا شیطان ملعون ہمیشہ سے انسان کا دشمن ہے وہ چاہتا ہے کہ کافر کفر پر جمے رہیں اور اہل اسلام سے جنگ کرتے رہیں اس کی خواہش ہے کہ کفر پھیلے اور اسلام کی اشاعت نہ ہو، جیسے وہ قریش مکہ کے اس مشورے میں شیخ نجدی کی صورت بنا کر شریک ہوگیا تھا جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کرنے یا شہر بدر کرنے کے مشورے کر رہے تھے اسی طرح سے وہ غزوۂ بدر کے موقعہ پر بھی آموجود ہوا۔ اول تو وہ مکہ معظمہ ہی میں اس وقت مشرکین کے پاس پہنچا جب وہ بدر کے لیے روانہ ہونے کا مشورہ کر رہے تھے اور ساتھ ہی انہیں بنی بکر کی دشمنی کا بھی خیال ہو رہا تھا کہ ممکن ہے وہ حملہ کردیں اس لیے روانہ ہونے میں کچھ جھجک رہے تھے۔ اس موقعہ پر ابلیس سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں پہنچ گیا (یہ سراقہ بنی کنانہ کے سرداروں میں سے تھے جو بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) ابلیس نے قریش مکہ سے کہا کہ تم لوگ ہرگز اپنے ارادہ سے باز نہ آؤ بلکہ چلے چلو میں تمہارا حامی اور مددگار ہوں۔ آج تم پر کوئی غلبہ پانے والا نہیں ہے۔ یہ تو مکہ میں ہوا پھر وہ بدر میں بھی موجود ہوگیا۔ جب مسلمانوں اور کافروں کی صفیں مقابلے کے لیے ترتیب دی گئیں تو یہاں بھی وہ مشرکین کی صف میں اسی سراقہ والی صورت میں موجود تھا اور حارث بن ہشام کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے موجود ہیں تو وہ ہاتھ چھڑا کر بھاگنے لگا حارث نے کہا کہ تو جنگ سے پہلے ہی بھاگ رہا ہے۔ اس پر اس نے حارث کے سینہ میں دھپ مارا اور الٹے پاؤں چلا گیا اور اس نے یوں کہا کہ میں تم سے بیزار ہوں میرا تمہارا کوئی تعلق نہیں میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔ یہ تو اس وقت کی بات ہوئی پھر جب قریش شکست کھا کر مکہ معظمہ پہنچے تو یوں کہنا شروع کیا کہ ہمیں سراقہ نے شکست دی۔ سراقہ کو یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا کہ تم لوگ میرے بارے میں ایسا کہتے ہو اللہ کی قسم مجھے تو تمہارے جانے ہی کی خبر نہیں ہوئی، مجھے تو تمہاری شکست کی خبر پہنچی ہے۔ ان لوگوں نے کہا کیا تو فلاں دن ہمارے پاس نہیں آیا تھا ؟ اس نے قسم کھا کر کہا مجھے تو اس کی بالکل خبر نہیں، پھر سراقہ اور دوسرے لوگ مسلمان ہوگئے تو پتہ چلا کہ یہ شیطان کی حرکت تھی۔ (معالم التنزیل ص ٥٥٢ ج ٢، روح المعانی ص ١٥ ج ١٠) شیطان نے یہ جو کہا کہ (اِنِّیْٓ اَخَاف اللّٰہَ ) (میں اللہ سے ڈرتا ہوں) اس کا مطلب حضرت عطاء نے یہ بتایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ دیگر ہلاک ہونے والوں کے ساتھ مجھے ہلاک نہ کر دے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے تمہارے بارے میں ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہلاک نہ فرما دے۔ ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ اللہ سخت عقاب والا ہے۔ تم لوگوں پر عذاب آنے ہی والا ہے۔ میں کیوں تمہارے ساتھ شریک رہوں۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ابلیس کا کلام (اِنِّیْٓ اَخَاف اللّٰہَ ) پر ختم ہوگیا اور (وَاللّٰہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) جملہ مستانفہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کے لیے یہاں بھی سخت عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ ابلیس اس موقعہ پر جو بھاگ گیا تو وہ اور اس کے ساتھی یہ نہ سمجھیں کہ عذاب سے بچ گئے آخرت کا عذاب تو لازمی ہی ہے جو شدید ہے۔ قال اللہ تبارک و تعالیٰ (لاََمْلاََنَّ جَہَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51: یہ چوتھی علت ہے۔ جنگ بدر کی اہمیت کو ابلیس نے بھی محسوس کرلیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اگر فتح مسلمانوں کی ہوئی تو عرب سے کفر و شرک کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس لیے مشرکین کی تائید وحمایت کے لیے وہ بھی ایک عرب سردار سراقہ بن مالک کنانی کی صورت میں شیاطین کی فوج لے کر میدان جنگ میں آ نمودار ہوا۔ اور آتے ہی کہا اب میں کمک لے کر تمہاری پشت پناہی کیلئے آگیا ہوں۔ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ مشرکین یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ لیکن جب اس نے فرشتوں کے جتھے دیکھے اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو مع شیاطین میدان سے بھاگ نکلا۔ اس وقت وہ حارث بن ہشام کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ جب بھاگا تو حارث نے کہا کی اس حالت میں ہمیں چھوڑے جا رہا ہے تو اس نے جواب دیا میں تمہاری امداد سے دستبردار ہوتا ہوں کیونکہ مجھے وہ کچھ نظر آرہا ہے جسے تم نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ کا عذاب جو تم پر فرشتوں کے ہاتھوں نازل ہونے والا ہے جس سے تم بیخبر ہو میں اس سے ڈر رہا ہوں۔ ابلیس کے بشکل سراقہ میدان چھوڑنے سے مشرکین کی ہمتیں پست ہوگئیں اور وہ مات کھا گئے۔ (روح، خازن وغیرہ) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

48 اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس وقت کو یاد دلائیے جب کہ شیطان نے ان کافروں کو ان کے اعمال مزین اور خوش نما کرکے دکھائے اور ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا اور کہا کہ آج بدر کے دن ان مخالف مسلمان لوگوں میں سے کوئی بھی تم پر غالب آنے والا اور غلبہ پانے والا نہیں ہے اور میں تمہارا حمایتی اور تم کو پناہ دینے والا ہوں پھر جب دونوں جماعتیں اور کفار و مسلمانوں کی دونوں فوجیں بالمقابل ہوئیں تو وہ شیطان اپنی ایڑیوں کے بل الٹا پھرا اور الٹا بھاگا اور کہنے لگا میں تم سے بری الذمہ ہوں اور میں تمہارے ساتھ نہیں کیونکہ میں ان چیزوں کو دیکھ رہا ہوں جو تم کو نظر نہیں آتیں۔ میں وہ چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے میں خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔ یعنی شیطان نے پہلے ہمت بندھائی جب فرشتوں کو دیکھا تو بھاگا کہ کہیں دنیا ہی میں فرشتوں کے ہاتھوں گزند نہ پہنچ جائے۔ انی اخاف اللہ کہا۔ لیکن بغیر ایمان کا ڈر نافع نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب کافر جمع ہوکر نکلے لڑائی پر راہ میں ایک شخص ملا بوڑھا کہا میں بھی مسلمانوں کا دشمن ہوں تمہاری رفاقت کو آیا ہودں اور جنگ کا بڑا ماہر ہوں پھر جب لڑائی ہونے لگی ابو جہل سے ہاتھ چھڑا کر بھاگا وہ شخص نہ پہلے کسی نے دیکھا نہ پیچھے دیکھا وہ شیطان تھا جب اس نے جبرئیل اور میکائیل دیکھے فرشتوں کی طرف تب بھاگا۔ 12