Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 50

سورة الأنفال

وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ یَتَوَفَّی الَّذِیۡنَ کَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ ۚ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ ﴿۵۰﴾

And if you could but see when the angels take the souls of those who disbelieved... They are striking their faces and their backs and [saying], "Taste the punishment of the Burning Fire.

کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منہ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں ( اور کہتے ہیں ) تم جلنے کا عذاب چکھو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Angels smite the Disbelievers upon capturing Their Souls Allah says, وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُواْ الْمَليِكَةُ ... And if you could see when the angels take away the souls of those who disbelieve (at death); Allah says, if you witnessed the angels capturing the souls of the disbelievers, you would witness a tremendous, terrible, momentous and awful matter, ... يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ ... they smite their faces and their backs, saying to them, ... وَذُوقُواْ عَذَابَ الْحَرِيقِ "Taste the punishment of the blazing Fire." Ibn Jurayj said that Mujahid said that, وَأَدْبَارَهُمْ (and their backs), refers to their back sides, as happened on the day of Badr. Ibn Jurayj also reported from Ibn Abbas, "When the idolators faced the Muslims (in Badr), the Muslims smote their faces with swords. When they gave flight, the angels smote their rear ends." Although these Ayat are describing Badr, they are general in the case of every disbeliever. This is why Allah did not make His statement here restrictive to the disbelievers at Badr, وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُواْ الْمَليِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ ... And if you could see when the angels take away the souls of those who disbelieve (at death); they smite their faces and their backs, In Surah Al-Qital (or Muhammad) there is a similar Ayah, as well as in Surah Al-An`am, وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّـلِمُونَ فِى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَـيِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ And if you could but see when the wrongdoers are in the agonies of death, while the angels are stretching forth their hands (saying): "Deliver your souls!" (6:93) The angels stretch their hands and smite the disbelievers by Allah's command, since their souls refuse to leave their bodies, so they are taken out by force. This occurs when the angels give them the news of torment and Allah's anger. There is a Hadith narrated from Al-Bara' that; when the angel of death attends the disbeliever at the time of death, he comes to him in a terrifying and disgusting shape, saying, "Get out, O wicked soul, to fierce hot wind, boiling water and a shadow of black smoke." The disbeliever's soul then scatters throughout his body, but the angels retrieve it, just as a needle is retrieved from wet wool. In this case, veins and nerve cells will be still attached to the soul. Allah states here that angels bring news of the torment of the Fire to the disbelievers. Allah said next,

کفار کے لیے سکرات موت کا وقت بڑا شدید ہے ۔ کاش کہ تو اے پیغمبر دیکھتا کے فرشتے کس بری طرح کافروں کی روح قبض کرتے ہیں وہ اس وقت ان کے چہروں اور کمروں پر مارتے ہیں اور کہتے ہیں آگ کا عذاب اپنی بداعمالیوں کے بدلے چکھو ۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ بھی بدر کے دن کا ہے کہ سامنے سے ان کافروں کے چہروں پر تلواریں پڑتی تھیں اور جب بھاگتے تھے تو پیٹھ پر وار پڑتے تھے فرشتے انکا خوب بھرتہ بنا رہے تھے ۔ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں نے ابو جہل کی پیٹھ پر کانٹوں کے نشان دیکھے ہیں آپ نے فرمایا ہاں یہ فرشتوں کی مار کے نشان ہیں ۔ حق یہ ہے کہ یہ آیت بدر کے ساتھ مخصوص تو نہیں الفاظ عام ہیں ہر کافر کا یہی حال ہوتا ہے ۔ سورہ قتال میں بھی اس بات کا بیان ہوا ہے اور سورہ انعام کی ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ 93؀ ) 6- الانعام:93 ) میں بھی اس کا بیان مع تفسیر گذر چکا ہے ۔ چونکہ یہ نافرمان لوگ تھے ان کی موت سے بدن میں چھپتی پھرتی ہیں جنہیں فرشتے جبراً گھسیٹا جاتا ہے جس طرح کسی زندہ شخص کی کھال کو اتارا جائے اسی کے ساتھ رگیں اور پٹھے بھی آجاتے ہیں ۔ فرشتے اس سے کہتے ہیں اب جلنے کا مزہ چکھوں ۔ یہ تمہاری دینوی بد اعمالی کی سزا ہے اللہ تعالیٰ ظالم نہیں وہ تو عادل حاکم ہے ۔ برکت و بلندی ، غنا ، پاکیزگی والا بزرگ اور تعریفوں والا ہے ۔ چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے کہ میرے بندو میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے پس آپس میں کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے میرے غلاموں میں تو صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال ہی کو گھرے ہوئے ہوں بھلائی پاکر میری تعریفیں کرو اور اس کے سوا کچھ اور دیکھو تو اپنے تئیں ہی ملامت کرو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 بعض مفسرین نے اسے جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کی بابت قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کی طرف آتے تو مسلمان ان کے چہروں پر تلواریں مارتے، جس سے بچنے کے لئے وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو فرشتے ان کی دبروں پر تلواریں مارتے، لیکن یہ آیت عام ہے جو ہر کافر و مشرک کو شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے ان کے مونہوں اور پشتوں (یا دبروں یعنی چوتڑوں) پر مارتے ہیں، جس طرح سورة انعام میں بھی فرمایا : ( وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْهِمْ ) 6 ۔ الانعام :93) فرشتے ان کو مارنے کے لئے ہاتھ دراز کرتے ہیں " اور بعض کے نزدیک فرشتوں کی یہ مار قیامت والے دن جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے ہوگی اور داروغہ جہنم کہے گا " تم جلنے کا عذاب چکھو،

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٥] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ اس آیت میں روئے سخن ان کافروں کی طرف ہے جو غزوہ بدر میں مارے گئے تھے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے۔ تاہم اس کا حکم عام ہے۔ اور سب کافروں سے ایسا معاملہ پیش آسکتا ہے کہ ان کی موت کے وقت فرشتے ان کے چہروں اور پشتوں پر چوٹیں بھی لگائیں اور جہنم کے عذاب کی نوید بھی سنائیں اور کہیں کہ یہ سزا تمہیں تمہارے ہی شامت اعمال سے مل رہی ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو تمہیں سزا دینے کا کوئی شوق نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا : کفار کی زندگی کے بعض احوال بیان کرنے کے بعد ان کی موت کی حالت بیان کی ہے۔ یہ آیت یہاں اگرچہ واقعۂ بدر کے سلسلے میں آئی ہے، اس لیے بعض مفسرین نے اسے بدر کے کفار کا حال قرار دیا ہے، لیکن لفظ عام ہونے کی وجہ سے یہ ہر کافر کے مرنے کے وقت کا حال بیان کر رہی ہے۔ فرمایا کہ کافروں کی روح قبض کرتے وقت فرشتے جس طرح ان کے مونہوں اور پشتوں پر مارتے اور جس طرح جھڑکتے اور سختی کرتے ہیں، کاش آپ وہ منظر دیکھ لیں، کیونکہ سننے میں وہ بات نہیں جو دیکھنے میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة انعام (٩٣) اور سورة محمد (٢٧، ٢٨) میں یہی بات بیان فرمائی ہے اور احادیث میں کافر کی جان کنی کا منظر بہت ہی ہولناک بیان کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the first two of the verses cited above is the punish¬ment of disbelievers at the time of their death and the warnings given to them by the angels. Here, addressing the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، it has been said that had he seen the condition of the disbelievers at that time when the angels of Allah were beating their faces and backs as they extracted their souls and telling them to have a taste of the punishment of burning in the Fire, then, he would have seen some-thing awesome. Some of the leading Commentators have declared this statement to be about the particular disbelievers from among the Quraysh who had come out to confront Muslims at the site of Badr where Allah Ta` ala had sent an army of angels to help Muslims. Thus, the meaning comes to be that the Quraysh chiefs who were killed in the battle of Badr were killed at the hands of the angels who were hitting them from the front on their faces and from the rear on their backs and were killing them in this manner while giving them the dark tidings of the punishment of Hell in the Hereafter. Then, there are other Commentators who have kept the sense of this verse general in view of the generality of the words used in it. According to them, the verse means: When a disbeliever dies, the angel of death beats his face and back while taking out his soul. In some narra¬tions, it appears that they have lashes of fire and maces of iron in their hands which they use to strike at the disbeliever condemned to death. But, as this punishment is not related to this world of elements, rath¬er, is related to the universe of the grave which is known as Barzakh بَرزَخ (the post-death---pre-ressurrection state), therefore, this punishment is not generally seen optically. Therefore, the modality used to address the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was: &And only if you were to see,& you would have seen a scene full of sobering lessons. This tells us that, after death, punishment is given to disbelievers while they are in the state of Barzakh, but that phe¬nomenon is related to the universe of the Unseen کلام الغیب (` clam al-ghayb), therefore, it is not seen usually. The punishment of the grave finds mention in several other verses of the Holy Qur&an as well, while Ha¬dith narrations on this subject just abound.

خلاصہ تفسیر اور اگر آپ ( اس وقت کا واقعہ) دیکھیں ( تو عجیب واقعہ نظر آئے) جب کہ فرشتے ان ( موجودہ) کافروں کی جان قبض کرتے جاتے ہیں ( اور) ان کے منہ پر اور ان کی پشتوں پر مارتے جاتے ہیں اور یہ کہتے جاتے ہیں کہ ( ابھی کیا ہے آگے چل کر) آگ کی سزا جھیلنا ( اور) یہ عذاب ان اعمال ( کفریہ) کی وجہ سے ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں اور یہ امر ثابت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والے نہیں ( سو اللہ تعالیٰ نے بےجرم سزا نہیں دی پس) ان کی حالت ( اس بارے میں کہ کفر پر سزا یاب ہوئے) ایسی ہے جیسی فرعون والوں کی اور ان سے پہلے ( کافر) لوگوں کی حالت تھی کہ انہوں نے آیات الہیہ کا انکار کیا سو اللہ تعالیٰ نے ان کے ( ان) گناہوں پر ان کو ( عذاب میں) پکڑ لیا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی عذاب کو ہٹا سکے اور) یہ بات ( کہ بلا جرم ہم سزا نہیں دیتے) اس سبب سے ہے ( کہ ہمارا ایک قاعدہ کلیہ مقرر ہے اور بلا جرم سزا نہ دینا اسی قاعدہ کی ایک فرع ہے اور وہ قاعدہ یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ کسی ایسی نعمت کو جو کسی قوم کو عطا فرمائی ہو نہیں بدلتے جب تک کہ وہی لوگ اپنے ذاتی اعمال کو نہیں بدل ڈالتے اور یہ امر ثابت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے جاننے والے ہیں ( پس وہ تغیر قولی کو سنتے ہیں تغیر فعلی کو جانتے ہیں سو ان کفار موجودین نے اپنی یہ حالت بدلی کہ ان میں باوجود کفر کے اول ایمان لانے کی استعداد قریب تھی انکار و مخالفت کر کر کے اس کو بعید کر ڈالا پس ہم نے اپنی نعمت امہال کو جو پہلے سے ان کو حاصل تھی مبدل بدار و گیر کردیا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے بطریق مذکور نعمت قرب استعداد کو بدل ڈالا ) ۔ معارف و مسائل مذکورہ آیات میں سے پہلی دو آیتوں میں موت کے وقت کافروں کے عذاب اور فرشتوں کی تنبیہات کا ذکر ہے۔ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ اگر آپ ان کافروں کا حال اس وقت دیکھتے جبکہ اللہ کے فرشتے ان کی روح قیض کرنے کے وقت ان کے چہروں اور پشتوں پر مار رہے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ آگ میں جلنے کا عذاب چکھو۔ آپ ایک بڑا عبرتناک منظر دیکھتے۔ ائمہ تفسیر میں سے بعض حضرات نے اس کو ان کفار قریش کے متعلق قرار دیا ہے جو میدان بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ پر آئے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی امداد کے لئے فرشتوں کا لشکر بھیج دیا تھا اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ میدان بدر میں جو قریشی سردار مارے گئے ان کے مارنے میں فرشتوں کا ہاتھ تھا جو ان کے سامنے سے چہروں پر اور پیچھے سے ان کی پشتوں پر مار کر ان کو ہلاک کر رہے تھے اور ساتھ ہی آخرت میں جہنم کے عذاب کی خبر سنا رہے تھے۔ اور جن حضرات نے الفاظ آیت کے عموم کی بنا پر اس کا مضمون عام رکھا ہے ان کے مطابق معنی آیت کے یہ ہیں کہ جب کوئی کافر مرتا ہے فرشتہ موت ان کی روح قبض کرنے کے وقت ان کے چہرہ اور پشت پر مارتا ہے بعض روایات میں ہے کہ آگ کے کوڑے اور لوہے کے گرز ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جن سے وہ مرنے والے کافر کو مارتے ہیں۔ مگر چونکہ اس عذاب کا تعلق اس عالم عناصر سے نہیں بلکہ عالم قبر سے ہے جس کو برزخ کہا جاتا ہے اس لئے یہ عذاب عام طور پر آنکھوں سے نہیں دیکھا جاتا۔ اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خطاب کیا گیا اگر آپ دیکھتے تو بڑا عبرتناک منظر دیکھتے اس سے معلوم ہوا کہ موت کے بعد عالم برزخ میں کفار کو عذاب ہوتا ہے مگر اس کا تعلق عالم غیب سے ہے اس لئے عام طور پر دیکھا نہیں جاتا۔ عذاب قبر کا ذکر قرآن مجید کی دوسری آیات میں بھی آیا ہے اور روایات حدیث تو اس معاملہ میں بیشمار ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ يَتَوَفَّى الَّذِيْنَ كَفَرُوا۝ ٠ ۙ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ۝ ٠ ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ۝ ٥٠ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ وفی ( موت) وتَوْفِيَةُ الشیءِ : بذله وَافِياً ، وقد عبّر عن الموت والنوم بالتَّوَفِّي، قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] ، وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] ، وقدقیل : تَوَفِّيَ رفعةٍ واختصاص لا تَوَفِّيَ موتٍ. قال ابن عباس : تَوَفِّي موتٍ ، لأنّه أماته ثمّ أحياه اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور کبھی توفی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها[ الزمر/ 42] خدا لوگوں کی مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور آیت : ۔ يا عِيسى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرافِعُكَ إِلَيَ [ آل عمران/ 55] عیسٰی (علیہ السلام) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ توفی بمعنی موت نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے ۔ مگر حضرت ابن عباس رضہ نے توفی کے معنی موت کئے ہیں چناچہ ان کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰی (علیہ السلام) کو فوت کر کے پھر زندہ کردیا تھا ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ ضرب الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا [ الزخرف/ 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الكهف/ 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] . والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ : ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها . ( ض ر ب ) الضرب کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف/ 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف/ 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ حرق يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ، و ( لنحرقنّه) قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء :إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق ۔ ( ح ر ق ) احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٠۔ ٥١) اے محمد اگر آپ وہ منظر دیکھتے جب فرشتے بدر کے دن ان کافروں کی جانوں کو قبض کرتے جارہے تھے اور ان کے چہروں اور پشتوں پر وہ مارتے جارہے تھے اور کہتے جارہے تھے کہ یہ عذاب تمہارے اعمال شرکیہ کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ بغیر جرم کے کسی کو سزا نہیں دیتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٠۔ ٥١۔ تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کی طرف منہ کرتے تھے تو سامنے سے مسلمانوں کی تلوار پڑتی تھی اور جب پیٹھ پھیرتے تھے فرشتے پیچھے سے مارتے تھے بدر کی لڑائی میں جو مشرک مارے گئے یہ تو ان پر فرشتوں کی مار کے پڑنے کا حال ہے عام مشرکوں کا بھی یہی حال ہے کہ اللہ کے فرشتے جب ان کی روح قبض کرنے آتے ہیں تو ان کو مارتے پیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب عذاب الٰہی کا مزہ چکھو چناچہ ایک جگہ ابوداؤد اور مسند امام احمد کے حوالہ سے برائ بن عازب (رض) کی ایک صحیح حدیث اس باب میں گذر چکی ہے بھر اللہ پاک نے یہ فرمایا کہ دنیا میں جو کچھ یہ لوگ کرتے تھے یہ اسی کا عوض اور خمیازہ ہے اللہ نے کوئی ظلم ان پر نہیں کیا کیونکہ ان کی عادت ظلم کی نہیں ہے وہ ظلم سے بالکل پاک ہے صحیح مسلم میں ابوذر (رض) کی ایک حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ پاک نے ظلم کی اپنی ذات پر حرام کرلیا ہے اور تمہارے واسطے بھی اس کو حرام کردیا ہے اور لئے تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ عبداللہ بن عمر (رض) اور ابوہریرہ (رض) کی روایتیں اوپر گذر چکی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کا اترانا بہت ناپسند ہے اور اوپر کی آیتوں میں مشرکین مکہ کے اترانے کا حال بھی گذر چکا ہے ان آیتوں ‘ حدیثوں اور ابوذر (رض) کی اوپر کی حدیث کو اس آیت کے ساتھ ملانے سے آیت کی تفسیر کا یہ حاصل مطلب ہے کہ مشرکین مکہ نے لڑائی کے شروع ہونے سے پہلے اترانے کی باتیں کی تھیں اور انسان کا اترانا اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان اترانے والوں کو یہ سزادی کی اس لڑائی میں آدمی اور فرشتے دونوں ہتھیاروں کا انہیں نشانہ بنایا اس واسطے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کچھ ظلم نہیں کیا بلکہ ان لوگوں نے جیسا کیا اس کا بدلہ پایا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:50) لو تری۔ اگر تو دیکھے۔ کاش تو دیکھتا یا دیکھ سکتا۔ یتوفی۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ توفی (تفعل) مصدر وہ جان نکالتا ہے۔ یہاں الملئکۃ (جمع) کے لئے استعمال ہوا۔ وہ جان نکالتے ہیں۔ توفی۔ کے اصل معنی کسی چیز کو پورا لینا اور اس پر پورے طور پر قبضہ کرلینے کے ہیں۔ موت کے وقت بھی روح پورے طور پر قبض کرلی جاتی ہے۔ ذوقوا۔ ای ویقولون ذوقوقا۔ تم چکھو۔ ذوق سے امر ۔ جمع مذکر حاضر ۔ (باب نصر) ذو۔ تو چکھ۔ عذاب الحریق۔ جلا دینے والا عذاب۔ آگ کا عذاب۔ حرق سے بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 کفار کے احوال بیان کرنے کے بعد اب ان کی موت کی حالت بیان کی ہے ، ( کبیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بدر میں کافر جب مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے تو فرشتے ان کے منہ پر ضرب لگاتے اور جب وہ پیٹھ موڑ کر بھاگتے تو ان کی پیٹھ پر ضرب لگاتے۔ اس صورت میں الذین کفروا سے مراد وہ کفارہوں گے جو بدر کے دن قتل ہوئے۔ ( ابن کثیر، الروح ج۔ ) دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے ( اے پیغمبر کاش تو کافروں کا حال اس وقت دیکھے جب فرشتے ان کی جان نکال رہے اور انہیں آگے پیچھے چار چوٹ کی مار دے رہے ہوتے ہیں اور ( کیے جاتے ہیں) جلانے والے عذاب کا مزہ چکھو اس صورت میں یہ آیت بدر کے مقتول کافروں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام کافروں کے بارے میں عام ہوگی، جیسا کہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں یہی مضمون عمومی انداز میں بیان ہوا ہے، دیکھئے سورة انعام آیت 93) اور احادیث میں کافر کی جان کنی کی حالت کا بہت ہی ہولناک منظر پیش کیا گیا ہے۔ ( مختصرا ازابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 50 تا 54 لغات القرآن۔ یتوفی۔ موت دے گا۔ یضربون۔ ماریں گے۔ وجوہ۔ (وجہ) ۔ چہرے۔ قدمت۔ آگے بھیجا۔ ظلام۔ بہت زیادہ ظلم کرنے والا۔ العبید۔ (عبد) ۔ بندے۔ کداب۔ جیسا کہ دستور تھا۔ جیسا کہ طریقہ تھا ۔ ال اولاد۔ اخذ۔ اس نے پکڑ لیا۔ ذنوب۔ (ذنب) ۔ گناہ۔ قوی۔ مضبوط۔ طاقتور۔ لم یک۔ (لم یکن) نہیں ہے۔ مغیر۔ تبدیل کرنے والا۔ انعمھا۔ اس نے انعام کیا۔ حتی یغیروا۔ جب تک وہ بدل نہ ڈالیں۔ ما بانفسھم۔ اپنے دلوں کی کیفیت۔ حالت۔ اھلکنا۔ ہم نے ہلاک کردیا۔ اغرقنا۔ ہم نے غرق کردیا۔ تشریح : اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت سے وہ سارا عالم ہم بندوں کی نظروں سے چھپا لیا ہے جو نزع، قبر اور برزخ میں ہوتا ہے ورنہ اگر واقعی ہم اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ سکتے تو ہم میں شاید کوئی بھی کافر نہ ہوتا۔ ہمارا امتحان تو یہ ہے کہ علم الیقین کے ذریعہ حق النقی تک پہنچ جائیں۔ اگر عین الیقین کے ذریعہ پہنچتے تو امتحان کیا ہوتا۔ یہاں پر قرآن کریم ہمیں علم الیقین بخشتا ہے کہ کافر (مشرک اور منافق) جب مرنے لگتا ہے تو موت کے فرشتے اس کی پیٹھ پر، چہرے پر کو لھے پر، پاؤں پر سر پر آگ کے گزر برساتے ہیں آگ کے کوڑے اور آگ کی زنجیریں مارتے جاتے ہیں اور یہ کہتے جاتے ہیں کہ ابھی کیا ہو آگے نارسقر کا عذاب باقی ہے اور وہ تمہارا منتظر ہے۔ یہ سب کچھ تمہارے اعمال کی کمائی ہے ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ یہ آیات اور ان کا حکم عام ہے یعنی تمام ان لوگوں کے ساتھ جو کافر ہیں ایسا ہی ہوا کرتا ہے لیکن سیاق وسباق کا تعلق چونکہ غزوہ بدر سے ہے اس لئے یہ خصوصی طور پر ان کافروں سے متعلق ہے جو وہاں قتل کئے گئے ۔ ان آیات کا خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہیں ہے بلکہ تمام لوگوں سے ہے کیونکہ ان ہی کو نصیحت اور عبرت کی ضرورت ہے۔ آگے فرمایا کہ یہ عذاب چند کافروں ہی کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دائمی سنت رہی ہے کہ وہ غوروفکر کے لئے مظاہر فطرت میں ہزاروں لاکھوں چیزیں ایسی پیدا کردیتا ہے جو وحدت، رحمت، قدرت، حکمت، ربوبیت اور دالت کی طرف دل و دماغ کی دعوت دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ نصیحت کے لئے اپنی کتابوں اور نبیوں رسولوں کو بھیجتا ہے۔ پھر بھی کوئی قوم یا کوئی فرد آنکھیں بند کرلے، کانوں میں روئی ٹھونس لے، سگ دنیا بن جائے، آیات سے بغاوت کرے۔ خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے تو پھر اللہ کا عذاب آدبوچتا ہے اور پھر اس سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی ہیں رہتا۔ یہی کچھ فرعون اور آل فرعون کے ساتھ ہوچکا ہے اور اسی طرح ان سے پہلی قوموں کے ساتھ بھی اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی نعمتوں کو ٹھکرا دیا تو ان پر اللہ کا عذاب آکر رہا یہ وہ قومیں تھیں جن کو اللہ نے بڑی بڑی نعمتوں سے نوازا تھا مگر وہ صفر ان نعمت کی گناہ گار ہوئیں۔ اللہ کا اصولی ہے کہ وہ کسی قوم کو دی گئی نعمتیں اس وقت تک نہیں چھینتا جب تک وہ ان نعمتوں کی ناشکری اور ناقدری کی حد نہ کردیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین و کفار مکہ اور منافقوں کو بتا دیا ہے کہ اللہ کی یہی سنت تم پر بھی پوری ہوگی۔ آج حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم ایک عظیم نعمت کے طور پر تمہارے سامنے ہیں۔ اگر تم نے ان کی ناقدری کی تو پھر تم دنیا کی اور قوموں کی طرح برے انجام سینہ بچ سکو گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق کا انجام اور موت کے وقت اس کی سزا۔ ” تَرٰی “ کا معنی ہے بصیرت یا جسمانی آنکھوں کے ساتھ کسی چیز کو دیکھنا۔ یہاں صاحب ایمان شخص کو توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر وہ بصیرت یا بصارت کے ساتھ منافقین کی موت کا وقت دیکھ سکے تو اسے معلوم ہو کہ ان کا انجام کتنا بد ترین ہوتا ہے۔ موت کے فرشتے ان کے چہروں اور کمروں پر تھپڑ مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب جہنم کا جلا دینے والا عذاب ہمیشہ کے لیے چکھتے رہو۔ اس آیت سے پہلے منافقوں کا ذکر ہو رہا تھا لیکن ان کا انجام بیان کرتے ہوئے منافق کی بجائے کافر کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ منافق بظاہر کلمہ گو اور مسلمانوں جیسے کام کرتا ہے لیکن اصلاً وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منکر ہوتا ہے۔ اس لیے حقیقتاً وہ کافر ہوتا ہے۔ اگر اس کا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان ہو تو وہ نہ مسلمانوں کو دھوکہ دے اور نہ ہی آخرت کے بدلہ میں دنیاوی مفاد کو ترجیح دے۔ یہ سزا ان کے اپنے کردار کا نتیجہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ منافق دنیا میں اللہ کا مخلص بندہ بننے کی بجائے اپنے مفاد کے بندہ بن کر رہا۔ موت کے وقت اسے ہمدردی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضرورت تھی لیکن یہ منافقت اور دوغلے کردار کی وجہ سے موت کے نازک لمحات میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ٹھہرا اور قیامت کے دن اسے جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں پھینکا جائے گا۔ (سورۃ النساء : ١٤٥) سورة الانعام : آیت ٩٣ میں ہے کہ جب ایسے لوگوں کی جان قبض کی جاتی ہے تو موت کے فرشتے انہیں مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی جان کیوں نہیں نکالتے ہو ؟ ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے ہم قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے ہم بھی ان کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کو کرید رہے تھے آپ نے اپنا سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے ؟ پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے وہ کہتا ہے اے خبیث نفس ! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی طرف چل۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کی روح کو نکال کر جس تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح لاش سے گندی بدبو زمین پر پھیلتی ہے وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون سی ہے۔ موت کے فرشتے کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے اس کے برے نام لے کر اس کو بلاتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہوجائے “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے لیے زمین کی تہہ میں ٹھکانہ بناؤ۔ پھر اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں “ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے تو وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ تو وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے تم اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو ۔ اس کے پاس اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے۔ اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے ذلیل کیا جائے گا وہ کہتا ہے کہ تم کون ہو اس طرح کی شکل والے جو اتنی بری بات کے ساتھ آئے ہو تو وہ کہے گا میں تیرا بد عمل ہوں وہ کہے گا اے میرے رب کبھی قیامت قائم نہ کرنا۔ “ [ مسند احمد ] مسائل ١۔ منافق اور کافر کی روح قبض کرتے وقت فرشتے نہایت ہی سختی کرتے ہیں۔ ٢۔ برے لوگوں کے لیے جلانے والا عذاب ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا : ١۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (التوبۃ : ٧٠) ٢۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٠) ٣۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (الروم : ٩) ٤۔ اللہ لوگوں پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٤) ٥۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کو اپنے روبرو پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف : ٤٩) ٦۔ قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائیگا اور کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٧۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائیگا۔ یٓس : ٥٤) ٨۔ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اس کا صلہ اسی کے لیے ہے اور جو برے اعمال کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا اور تیرا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں فرمائے گا۔ (حٰم السجدۃ : ٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب اللہ اس معرکے میں ربانی قوتوں کے عمل و دخل کی ایک مثال پیش کرتا ہے۔ اس منظر میں فرشتے کام کر رہے ہیں۔ چشم بصیرت سے اس منظر کو دیکھو۔ فرشتے اس معرکے میں شریک ہیں۔ اور کفار کی پکڑ دھکڑ انہوں نے شروع کردی ہے۔ ان کی روحوں کو نہایت ہی حقارت سے قبض کر رہے ہیں اور ان کو سخت سے سخت اذیت دے رہے ہیں۔ یہ محض اس لیے کہ یہ لوگ نہایت ہی تکبر سے اتراتے ہوئے شان و شوکت سے آ رہے تھے۔ اس میں ان کو بتایا جاتا ہے کہ اس سخت اور مشکل وقت میں تمہارے ساتھ یہ سلوک تمہارے اعمال بد کی وجہ سے ہورہا ہے اور اس میں تم پر کوئی بھی ظلم نہیں ہے۔ پھر اس منظر کشی کے بعد بتایا جاتا ہے کہ جھٹلانے کی وجہ سے کفار کو جو سزا دی جاتی ہے یہ اللہ کی ایک جاری سنت ہے۔ جس طرح آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ اور یہ اس اصول کے مطابق کہ اللہ جب کسی قوم پر انعام کرتا ہے تو وہ اس وقت تک اپنے انعامات کو واپس نہیں لیتا ، جب خود ان اقوام کا رویہ بدل نہیں جاتا۔ اسی اصول کے مطابق اللہ نے فرعون اور اس سے پہلے کی اقوام کے ساتھ معاملہ کیا۔ اور آئندہ بھی جو قوم ایسی روشن اختیار کرے گی ، اللہ کا سلوک بھی ویسا ہی ہوگا۔ تفسیر آیت 50 ، 51 ۔ ان دو آیات سے مراد یوم بدر میں کام آنے والے مشرکین سے ہے۔ کیونکہ ملائکہ اس معرکے میں شریک تھے۔ جس طرح کہا گیا : فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منہم کل بنان۔ ذلک بانہم شاقوا اللہ ورسولہ و من یشاقق اللہ ورسولہ فان اللہ شدید العقاب : " پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور رسول کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت ہی سخت گیر ہے۔ اگرچہ ہمیں اس مار اور جوڑ جوڑ پر ضرب لگانے کی تفصیلی کیفیت کا علم نہیں ہے ، جس طرح نویں پارے میں اس آیت پر بحث کرتے ہوئے ہم نے کہا تھا۔ لیکن اگر ہمیں کسی مفہوم کی تفصیلی کیفیت کا علم نہ ہو یا ہماری سمجھ میں نہ آرہی ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم آیت کو اپنے ظاہری مفہوم سے پھیر دیں۔ ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ملائکہ کو حکم تھا کہ وہ ماریں ، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ملائکہ اللہ کے کسی حکم سے سرتابی ہی نہٰں کرتے۔ وہ تو وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ تو یہ دونوں آیات گویا واقعات بدر کو یاد رکھنے کی طرف اشارہ ہوگا اور یہ بتانا مقصود ہوگا کہ یہ بات بھی واقعات بدر میں شامل ہے کہ اس دن کفار کے ساتھ یہ یہ سلوک ہوا۔ لیکن یہ آیات بتا رہی ہیں کہ جب بھی کفار پر موت کا وقت آتا ہے تو فرشتے ان کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں فرشتوں کا یہ سلوک مقتولین بدر کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ اور یہ خطاب ولوتری گویا تمام اہل ایمان کے لیے ہوگا۔ اور یہ انداز کلام قرآن ہر اس مقام پر اختیار کرتا ہے جہاں لوگوں کو ایک کھلے منظر کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ جسے ہر دیکھنے والا دیکھ سکتا ہو۔ بہرحال ان دو آیات کی جو تفسیر بھی ہو اہل کفر کے قبض روح کا نظارہ نہایت ہی خوفناک ہے۔ ملائکہ ان کے اجسام سے ان کی روح کو نہایت ہی توہین آمیز انداز میں کھینچ لیتے ہیں اور اس حقارت و توہین کے ساتھ ساتھ یہ لوگ عذاب شدید میں مبتلا ہوتے ہیں۔ " کاش تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں کی روحیں قبض کر رہے تھے۔ وہ ان کے چہروں اور ان کے کو لہوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے " اب یہاں سے آگے بیانیہ انداز کے بجائے براہ راست خطاب شروع ہوتا ہے : " لو اب جلنے کی سزا بھگتو " اور انداز خطاب اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ یہ منظر آنکھوں کے سامنے آجائے ، گویا جہنم اس کی اگ اور جلنے کے عمل کے ساتھ موجود ہے اور لوگوں کو اس میں پھینکا جا رہا ہے۔ لعنت و پھٹکار بھی ہو رہی ہے۔ " یہ وہ جزاء ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیا کر رکھا تھا " اس لیے تمہیں جو سزا دی جا رہی ہے یہ عادلانہ سزا ہے۔ تم اس کے مستحق ہو اور تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے ورنہ " اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے " یہ آیت جو جہنم کئ جلانے والے عذاب کی تصویر کشی کرتی ہے ، اس کو پڑھ کر ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ آیا یہ تہدید جو ملائکہ کی طرف سے انہیں دی جا رہی ہے آیا اس عذاب کی ہے جو قیامت کے دن انہیں حساب و کتاب کے بعد دیا جائے گا یا کفار کے مجرد قبض روح کے ساتھ ہی جہنم رسید ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں ممکن ہیں اور جائز ہیں۔ اور دنوں مفہوم ان آیات سے اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ ہم اس پر کوئی بحث نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ ایک غیبی امر ہے اور اللہ نے اسے اپنے علم میں محفوظ کرلیا ہے۔ ہم پر فرض یہی ہے کہ ہم اس پر یقین کرلیں۔ ایسا ہوگا اور کوئی بات اس میں مانع نہیں ہے۔ ایسا کب ہوگا۔ مرتے وقت یا بعد الحساب تو یہ اللہ کے علم میں ہے جو علام الغیوب ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

موت کے وقت کافروں کی پٹائی ان آیات میں اول تو کافروں کے عذاب کا تذکرہ فرمایا جو انہیں موت کے وقت ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ معرکہ بدر میں جو کفار قریش مسلمانوں کے مقابلہ میں آئے تھے اور پھر جنگ میں مارے گئے جب وہ مقتول ہو رہے تھے تو فرشتے ان کو ان کے مونہوں پر اور پشتوں پر مار رہے تھے اور موت کے بعد جہنم کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر انہیں دے رہے تھے۔ مفسر ابن کثیر نے حضرت مجاہد (رح) سے یہی نقل کیا ہے اور دیگر مفسرین نے اس مضمون کو عام بتایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتوں کا کافروں کے چہروں اور پشتوں پر مارنا مقتولین بدر کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام کافروں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ سورة محمد کی آیت میں ارشاد ہے (فَکَیْفَ اِِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلآءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَہُمْ وَاَدْبَارَھُمْ ) (سو کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روح قبض کر رہے ہوں گے اور ان کے چہروں اور پشتوں پر مار رہے ہوں گے) دوسرا قول راجح معلوم ہوتا ہے جس کے عموم میں مقتولین بدر بھی آجاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53: یہ تخویف واخروی ہے۔ “ اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ” سے وہ کفار مراد ہیں جو بدر میں قتل ہوئے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

50 اور اگر آپ ان کافروں کی حالت کو اس وقت دیکھیں جب فرشتے ان کافروں کی اس طرح جان قبض کرتے ہیں کہ ان کے مونہوں پر اور ان کی پیٹھوں پر سخت مار مارتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ آتش سوزاں کا مزہ چکھو۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ عام کافر مراد ہیں ہوسکتا ہے کہ بدر میں جو کافر مرگئے ان کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے۔ آتش اور عذاب محرق کا یہ مطلب ہے کہ ابھی کیا ہے آگے جلانے والے عذاب کا مزہ چکھنا شرط کی جزا مخدوف ہے یعنی اگر آپ دیکھتے تو بڑاہی ہولناک منظر دیکھتے۔