Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 52

سورة الأنفال

کَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ۙ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوۡبِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۵۲﴾

[Theirs is] like the custom of the people of Pharaoh and of those before them. They disbelieved in the signs of Allah , so Allah seized them for their sins. Indeed, Allah is Powerful and severe in penalty.

مثل فرعونیوں کے حال کے اور ان سے اگلوں کے کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں سے کفر کیا پس اللہ نے ان کے گناہوں کے باعث انہیں پکڑ لیا اللہ تعالٰی یقیناً قوت والا اور سخت عذاب والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says, كَدَأْبِ الِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ كَفَرُواْ بِأيَاتِ اللّهِ ... Similar to the behavior of the people of Fir`awn, and of those before them -- they rejected the Ayat of Allah, Allah says, `The behavior of these rebellious disbelievers against what I sent you with, O Muhammad, is similar to the behavior of earlier disbelieving nations. So We behaved with them according to Our Da'b, that is, Our behavior (or custom) and way, as We did with them with what We often do and decide concerning their likes, the denying people of Fir`awn and the earlier nations who rejected the Messengers and disbelieved in Our Ayat,' ... فَأَخَذَهُمُ اللّهُ بِذُنُوبِهِمْ ... so Allah punished them for their sins. Because of their sins, Allah destroyed them ... إِنَّ اللّهَ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ Verily, Allah is All-Strong, severe in punishment. none can resist Him or escape His grasp. ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ وَأَنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

کفار اللہ کے ازلی دشمن ہیں ان کافروں نے بھی تیرے ساتھ وہی کیا جو ان سے پہلے کافروں نے اپنے نبیوں کے ساتھ کیا تھا پس ہم نے بھی ان کے ساتھ وہی کیا جو ہم نے ان سے گذشتہ لوگوں کے ساتھ کیا تھا جو ان ہی جیسے تھے ۔ مثلا فرعونی اور ان سے پہلے کے لوگ جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو نہ مانا جس کے باعث اللہ کی پکڑ ان پر آئی ۔ تمام قوتیں اللہ ہی کی ہیں اور اس کے عذاب بھی بڑے بھاری ہیں کوئی نہیں جو اس پر غالب آسکے کوئی نہیں جو اس سے بھاگ سکے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 دَأبً کے معنی ہیں عادت۔ کاف تشبیہ کے لئے ہے۔ یعنی ان مشرکین کی عادت یا حال، اللہ کے پیغمبروں کے جھٹلانے میں، اسی طرح ہے۔ جس طرح فرعون اور اس سے قبل دیگر منکرین کی عادت یا حال تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] یعنی آل فرعون اور قوم عاد، ثمود اور نوح وغیرہ میں اور ان مشرکین مکہ میں کوئی فرق نہیں۔ انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے تھے اور یہ لوگ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔ لہذا جیسے انہیں اپنے گناہوں کی پاداش میں عذاب سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ اسی طرح انہیں بھی عذاب بدر سے دو چار ہونا پڑا اور آگے ہونا پڑے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی سزا دینے کی پوری طاقت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : یہاں مبتدا محذوف ہے ” دَأْبُھُمْ کَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۔۔ “ یعنی ان کا حال اللہ کی آیات کو جھٹلانے اور اس کے نتیجے میں عذاب میں مبتلا ہونے میں آل فرعون اور ان سے پہلے کفار کی طرح ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The third verse (52) tells us that the punishment of Allah visiting these criminals is not something totally unprecedented. In fact, it is nothing but the customary practice of Allah that He would give reason and understanding to His servants so that they could act as guided. Then, all around them, they have countless things they can think about and go on to know Allah Ta` ala and recognize His great power, and then do not stoop to the level of taking the weak ones from among His creation as His partners, associates or equals and, after that, He sends His Books and Messengers for additional warning. When the Messengers of Allah come, they leave no stone unturned in making people understand the message. They even go to the outer limits of demonstrating the manifestations of the inalienable subduing power of Allah Ta` ala in the form of miracles. Now, if a person or a people were to close their eyes to all these things, give no ear to any of these Divine warnings, then, for such people, there is the inevitable practice of Allah Ta` ala: That they are visited by punishment in this world too, and that they are subjected to the everlasting punishment of the Hereafter as well. It was said: كَدَأْبِ آلِ فِرْ‌عَوْنَ ۙ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ & (Their way is) like the way of the people of Pharaoh and of those before them - 52.& The Arabic word: دَأْبِ (da&b) used in the text means habit or way. Thus, the sense is that the world already knows the customary practice of Allah Ta` ala vis-a-vis the haughty and the contumacious like Pharaoh and his peo¬ple and has seen its manifestation when Pharaoh was made to drown in the sea with all his power and people, and similar was the fate of those before him, the people of ` Ad and Thamud, who were hit by many kinds of punishment which eliminated them totally. Then, it was said: كَفَرُ‌وا (52) which means when these people belied the verses and signs of Allah Ta` ala, He seized them with His punishment because of their sins. After that, the verse ends with the statement: إِنَّ اللَّـهَ (52) which gives the reason why it happened the way it did - that Allah Ta` ala is Strong. No one claiming any kind of strength and valour can, on that basis alone, get away from His punishment. And then, certainly very severe is the punishment which comes from Allah Ta` ala Himself.

تیسری آیت میں بتلایا گیا کہ ان مجرموں پر اللہ تعالیٰ کا یہ عذاب کوئی انوکھی چیز نہیں بلکہ عادة اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے ان کو عقل و فہم دیتے ہیں۔ گرد و پیش میں ان کے لئے بیشمار ایسی چیزیں موجود ہوتی ہیں جن میں غور و فکر کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت و عظمت کو پہچانیں اور عاجز مخلوق کو اس کا شریک نہ بنائیں پھر مزید تنبیہ کے لئے اپنی کتابیں اور رسول بھیجتے ہیں۔ اللہ کے رسول ان کے افہام و تفہیم میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی قوت قاہرہ کے مظاہر بھی بشکل معجزات دکھلاتے ہیں۔ جب کوئی فرد یا قوم ان سب چیزوں سے بالکل آنکھیں بند کرلے اور خدائی تنبہیات میں سے کسی پر کان نہ دھرے تو پھر عادت اللہ تعالیٰ کی ایسے لوگوں کے بارے میں یہی ہے کہ دنیا میں بھی ان پر عذاب آتا ہے اور آخرت کے دائمی عذاب میں بھی گرفتار ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا (آیت) كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۔ داب کے معنی عادت کے ہیں مطلب یہ ہے کہ جیسے اٰلِ فِرْعَوْنَ اور ان سے پہلے کافروں سرکشوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی عادت دنیا کو معلوم ہوچکی ہے کہ فرعون کو اس کے سارے حشم و خدم سمیت دریا میں غرق کردیا اور ان سے پہلے عاد وثمود کی قوموں کو مختلف قسم کے عذابوں سے ہلاک کردیا۔ (آیت) كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ ۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں اور نشانیوں کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے عذاب میں پکڑ لیا۔ (آیت) اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قوی ہے کوئی قوت و شجاعت والا اپنی قوت کے بل پر اس کے عذاب سے نہیں چھوٹ سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کی سزا بھی بڑی سخت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۝ ٠ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ ٠ ۭ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ فَاَخَذَہُمُ اللہُ بِذُنُوْبِہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ قَوِيٌّ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۝ ٥٢ دأب الدَّأْب : إدامة السّير، دَأَبَ في السّير دَأْباً. قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] ، والدّأب : العادة المستمرّة دائما علی حالة، قال تعالی: كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ، أي : کعادتهم التي يستمرّون عليها . ( د ء ب ) الداب کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ داب السیر دابا ۔ وہ مسلسل چلا ۔ قرآن میں ہے وَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم/ 33] اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں ( دن رات ) ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ نیز داب کا لفظ عادۃ مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران/ 11] ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی انکی اسی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں ۔ آل الآل : مقلوب من الأهل ، ويصغّر علی أهيل إلا أنّه خصّ بالإضافة إلى الأعلام الناطقین دون النکرات، ودون الأزمنة والأمكنة، يقال : آل فلان، ولا يقال : آل رجل ولا آل زمان کذا، أو موضع کذا، ولا يقال : آل الخیاط بل يضاف إلى الأشرف الأفضل، يقال : آل اللہ وآل السلطان . والأهل يضاف إلى الكل، يقال : أهل اللہ وأهل الخیاط، كما يقال : أهل زمن کذا وبلد کذا . وقیل : هو في الأصل اسم الشخص، ويصغّر أُوَيْلًا، ويستعمل فيمن يختص بالإنسان اختصاصا ذاتیا إمّا بقرابة قریبة، أو بموالاة، قال اللہ عزّ وجل : وَآلَ إِبْراهِيمَ وَآلَ عِمْرانَ [ آل عمران/ 33] ، وقال : أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ [ غافر/ 46] . قيل : وآل النبي عليه الصلاة والسلام أقاربه، وقیل : المختصون به من حيث العلم، وذلک أنّ أهل الدین ضربان : - ضرب متخصص بالعلم المتقن والعمل المحکم فيقال لهم : آل النبي وأمته . - وضرب يختصون بالعلم علی سبیل التقلید، يقال لهم : أمة محمد عليه الصلاة والسلام، ولا يقال لهم آله، فكلّ آل للنبيّ أمته ولیس کل أمة له آله . وقیل لجعفر الصادق رضي اللہ عنه : الناس يقولون : المسلمون کلهم آل النبي صلّى اللہ عليه وسلم، فقال : کذبوا وصدقوا، فقیل له : ما معنی ذلك ؟ فقال : کذبوا في أنّ الأمّة کا فتهم آله، وصدقوا في أنهم إذا قاموا بشرائط شریعته آله . وقوله تعالی: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ [ غافر/ 28] أي : من المختصین به وبشریعته، وجعله منهم من حيث النسب أو المسکن، لا من حيث تقدیر القوم أنه علی شریعتهم . ( ا و ل ) الآل ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل اصل میں اہل ہے کیونکہ اسکی تصغیر اھیل آتی ہے مگر اس کی اضافت ناطقین انسان میں سے ہمیشہ علم کی طرف ہوتی ہے کسی اسم نکرہ یا زمانہ یا مکان کی طرف اس کی اضافت جائز نہیں ہے اس لئے آل فلاں ( علم ) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل رجل ، آل زمان کذا وآل مکان کذا بولنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کیطرف مضاف ہوگا اس لئے آل الخیاط بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ آل اللہ یا آل السلطان کہا جائیگا ۔ مگر اھل کا لفظ مذکورہ بالا میں سے ہر ایک کی طرف مضاف ہوکر آجاتا ہے ۔ چناچہ جس طرح اہل زمن کذا وبلد کذا بولا جاتا ہے اسی طرح اہل اللہ واہل الخیاط بھی کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ، ، آل ، ، دراصل بمعنی شخص ہے اس کی تصغیر اویل آتی ہے اور یہ اس شخص کے متعلق استعمال ہوگا جس کو دوسرے کے ساتھ ذاتی تعلق ہو مگر قریبی رشتہ داری یا تعلق والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ { وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ } ( سورة آل عمران 33) خاندان ابراہیم اور خاندان عمران ۔ { أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ } ( سورة غافر 46) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو ۔ آل النبی ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل النبی سے آنحضرت کے رشتہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں علم ومعرفت کے اعتبار سے آنحضرت کے ساتھ خصوصی تعلق حاصل ہو ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اہل دین دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جو علم وعمل کے اعتبار سے راسخ اور محکم ہوتے ہیں ان کو آل النبی اور امتہ بھی کہہ سکتے ہیں دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا سراسر تقلیدی ہوتا ہے ان کو امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں کہہ سکتے اس سے معلوم ہوا کہ امت اور آل میں عموم وخصوص کی نسبت ہے یعنی ہر آل نبی اسکی امت میں داخل ہے مگر ہر امتی آل نبی نہیں ہوسکتا۔ امام جعفر صادق سے کسی نے دریافت کیا کہ لوگ تمام مسلمانوں کو آل نبی میں داخل سمجھتے ہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا یہ صحیح بھی ہے اور غلط تو اس لئے کہ تمام امت آل نبی میں داخل نہیں ہے اور صحیح اسلئے کہ وہ شریعت کے کماحقہ پابند ہوجائیں تو انہیں آل النبی کہا جاسکتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ } ( سورة غافر 28) اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص ۔ ۔۔۔ کہئے ۔ میں اس مرد مومن کے آل فرعون سے ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ( بظاہر ) تو اس کے خصوص اہل کاروں اور فرعون شریعت کے ماننے والوں سے تھا اور مسکن فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ قوی القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] ( ق وو ) القوۃ یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسعما ل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة/ 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ شدید والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، ( ش دد ) الشد اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر/ 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم/ 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٢) اور ان کی حالت ایسی ہے جیسی فرعون کی جماعت کی اور ان سے پہلوں کی جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کی تکذیب کی یا یہ کہ جیسا فرعون اور اس کی قوم اور ان سے پہلے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور اس کے رسولوں کا انکار کیا، اسی طرح مکہ کے کافروں نے بھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کو جھٹلایا اور ان کے جھٹلانے پر اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑ لیا کیوں کہ جب وہ پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ سخت ہوتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ (کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ لا والَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ط) ۔ آل فرعون سے پہلے قوم شعیب ( علیہ السلام) تھی ‘ قوم شعیب ( علیہ السلام) سے پہلے قوم لوط ( علیہ السلام) ‘ ان سے پہلے قوم ثمود ‘ ان سے پہلے قوم عاد اور ان سے پہلے قوم نوح ( علیہ السلام) ۔ ان ساری قوموں کے انجام کے بارے میں ہم سورة الاعراف میں پڑھ چکے ہیں۔ (کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاَخَذَہُمُ اللّٰہُ بِذُنُوْبِہِمْ ط) (اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) یقیناً اللہ قوی ہے اور سزا دینے میں سخت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٢۔ اللہ پاک نے کفار بدر کے عذاب کے ذکر فرمانے کے بعد مشرکوں کو پہلی امتوں کا عذاب یاد دلا کر فرمایا کہ ان مشرکین مکہ کو جو ہم نے ان کی گمراہی اللہ کے آیتوں اور اس کے رسول کے جھٹلانے کے سب سے بدر کی لڑائی میں ہلاک کردیا یہ کوئی نئی بات نہ تھی بلکہ ہمیشہ سے یہی عادت الٰہی ہے کہ جو قومیں ان سے پہلے گذریں جو کفر کرتی گئیں اور انہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا پھر فورا اس خطا پر اللہ نے انہیں پکڑلیا اللہ پاک بہت یہی قوی ہے اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا ہے اور اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے اس سے کوئی بھاگ بھی نہیں سکتا ہے معتبر سند سے مستدرک حاکم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مشرکین مکہ کے بڑوں میں ایک شخص عمر وبن لحی تھا پہلے پہل اس نے ملت ابراہیمی کو بدل کر مکہ میں بت پرستی پھیلائی اور جب سے پشت درپشت مکہ میں بت پرستی چلی آتی ہے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کو ملا کر یہ مطلب ہوا کہ مشرکین مکہ کی کئی پشت سے مکہ میں بت پرستی چلی آتی تھی اس لئے وہ لوگ اس کو ایک قدیمی بات سمجھتے تھے اور اس کی حمایت میں قرآن اور اللہ کے رسول کو جھٹلانا ایک معمولی بات جانتے تھے حاصل یہ ہے کہ جس طرح ایک تاریخی ثبوت کے طور پر یہ لوگ عمر وبن لحی کے زمانے سے بت پرستی کی قدامت نکالتے تھے اور اس کے مقابلہ میں شریعت الٰہی کو ایک جدید چیز جان کر اسے جھٹلاتے تھے اسی طرح تاریخی ثبوت سے اللہ تعالیٰ نے بدر کی لڑائی سے بچے ہوئے مشرکوں کو اس آیت میں قائل کیا اور فرمایا کہ عمر وبن لحی کا زمانہ توکل کی بات ہے پہلے صاحب شریعت نبی نوح (علیہ السلام) کے زمانہ سے اگرچہ یہ بت پرستی کی بلا چلی آتی ہے لیکن کسی زمانہ میں اس کی قدامت کو اللہ تعالیٰ نے قائم نہیں رکھا بلکہ نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر فرعون کے زمانہ تک جس جس قوم میں یہ شرک کا جرم پھیلا اللہ تعالیٰ نے اس جرم کی سزا میں ان سب قوموں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کردیا اس بدر کی لڑائی میں بھی ان مشرکین مکہ کے بڑے بڑے سرکشوں نے قتل اور قید کی ذلت جو اٹھائی وہ بھی پہلے کے موافق اسی جرم کی سزا تھی۔ اس لڑائی میں اس جرم کے جو مجرم ذلت سے بچ گئے ہیں ان میں سے جو لوگ اس جرم سے آئندہ باز آئے وہ تو ذلت سے بچ جاویں گے اور جو اس جرم میں گرفتار رہے ان کے نصیب میں آخر کو یہی ذلت لکھی ہے اللہ سچا ہے اور اس کا کلام سچا ہے فتح مکہ تک مشرکین مکہ میں سے جو لوگ شرک چھوڑ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے وہ ذلت سے بچ گئے اور جو اپنی قدیمی حالت پر رہے انہوں نے نہات ذلت سے آخر کو اپنی بستی اہل اسلام کے قبضہ میں دے دی اور سوا شرک کے چھوڑنے اور اسلام قبول کرنے کے ان کو اور کچھ بن نہ آیا اس سے بڑھ کر مشرکین مکہ کی اور کیا ذلت ہوسکتی ہے کہ مکہ اور اطراف مکہ میں ان کے تین ٣٦٠ سو ساٹھ بت جو رکھے تھے جن کو یہ مشرک لوگ اپنا معبود جانتے تھے فتح مکہ کے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ میں لکڑی مار مار کر ان بتوں کو گرا دیا اور کوئی مشرک اپنے ان معبودوں کی کچھ حمایت نہ کرسکا صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود (رض) اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں ان بتوں کے گرانے کا پورا قصہ ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:52) کداب۔ ک حرف تشبیہ داب کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں جیسے داب فی السیر۔ وہ مسلسل چلا۔ اور قرآن حکیم میں ہے : وسخر الشمس والقمر دائبین (14:33) اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا رکھا ہے کہ دونوں دن رات ایک دستور پر چل رہے ہیں۔ داب۔ عادت مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ آیۃ ہذا ۔ ونیز آیہ (3:11) یعنی آل فرعون کی سی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں۔ کذاب ال فرعون۔ ای داب ھؤلاء مثل داب آل فرعون۔ ان کی عادت مستمرہ بھی وہی ہے جو آل عمران کی تھی۔ اور وہ عادت مستمرہ کیا تھی۔ کفروا بایت اللہ۔ اللہ تعالٰٰ کی آیات کا انکار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ ان کے مقابلہ میں کوئی ایسی قوت نہیں رکھتا کہ ان کے عذاب کو ہٹاسکے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین مکہ کا انجام : جس طرح فرعون اور اس کے ساتھی تکبر اور غرور کی وجہ سے دنیا میں ذلیل اور آخرت میں اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوئے اسی طرح مشرکین مکہ دنیا میں خوار ہوئے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة مزمل میں اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف ایسا رسول بھیجا ہے جس طرح کا رسول فرعون کے پاس بھیجا تھا۔ اس اعتبار سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی قوم کے انکار اور کردار میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اسی بنا پر بدر کے واقعات، اہل مکہ اور منافقین کا کردار اور انجام بیان کرنے کے دوران فرعون اور آل فرعون کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے۔ جس طرح فرعون اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا مسلسل انکار کرکے اپنے انجام کو پہنچا اسی طرح ابو جہل اور اس کے ساتھی (اَنَا وَلَا غَیْرِیْ ) کا دعویٰ کرتے ہوئے اللہ کی آیات کے منکرٹھہرے اور رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کا متواتر انکار کرتے رہے۔ جس طرح فرعون اور اس کے ساتھی موسیٰ (علیہ السلام) کے تعاقب میں اندھے ہوئے تھے اسی طرح ابو جہل اور اس کے ساتھی اپنے غرور وتکبر اور طاقت کے زعم میں اندھے ہو کر بدر کی طرف نکلے تھے۔ چناچہ ان کا انجام بھی آل فرعون کی طرح دنیا نے دیکھا فرعون نے ڈبکیاں لیتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لانے کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ابو جہل نے مرتے وقت بھی یہ کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ مجھے مارنے والے قریشی جوانوں کے بجائے انصار کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں گویا کہ یہ آخری وقت فرعون سے بڑھ کر فرعون نکلا اس لیے اس کی لاش کو بدر کے ویران کنویں میں ڈالتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ یہ میری امت کا فرعون تھا۔ ( البدایہ والنھایہ) جس طرح آل فرعون اپنے گناہوں کی وجہ سے پکڑے گئے اسی طرح ابو جہل اور اس کی ساتھی اپنے جرائم کی بنا پر اللہ کی گرفت میں آئے۔ اللہ تعالیٰ سخت ترین گرفت کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کیے ہوئے اپنے انعام کو نہیں بدلتاجب وہ قوم اپنی بدکردار کے ذریعے اسے بدل نہ دے اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور کام کو جاننے والا ہے۔ مسائل ١۔ آل فرعون اور مشرکین کا کردار اور انجام ایک جیسا ہوا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب دیتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کی شدید گرفت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے : ١۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ (المائدۃ : ٩٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں کو سخت ترین عذاب سے دو چار کرے گا۔ (آل عمران : ٥٦) ٣۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ (آل عمران : ٤) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں کے لیے شدید عذاب ہے۔ (الانفال : ١٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بدر کے حالات پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد اب سیاق کلام ایک قاعدہ کلیہ کے بیان کی طرف منتقل ہوجاتا ہے یہ واقعہ اور یہ منظر اسی کلیہ کا ایک جزئیہ ہے۔ یہ کہ اہل کفر کو نہایت ہی توہین آمیز انداز میں گرفت میں لینا ایک جاری وساری سنت ہے اور اس میں کوئی تبدیلی کبھی بھی نہیں ہوتی۔ یہ سلوک اس وقت سے جاری ہے جب سے اللہ نے حق و باطل کی کشمکش کو اس جہاں میں چلایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں ہے کہ لوگوں کو سمندر کی لہروں کے حوالے کردے یا ان کو اتفاقات زمانہ کے سپرد کردے اور وہ کسی اصول اور ضابطے کے پابند نہ ہوں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو اپنے ضابطہ قضا و قدر کا پابند کیا ہے۔ مشرکین کو یوم بدر میں جو حالات پیش آئے یا آئندہ بھی وہ جن حالات سے دو چار ہوں گے۔ وہ اللہ اور اس کے نظآم قضا و قدر کے مطابق ہیں۔ اور اسی نظام کے مطابق فرعون اور اس سے پہلے کے اہل کفر کے ساتھ ہوا۔ " انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اللہ نے ان کے گناہوں پر ان کو پکڑ لیا " اور انہوں نے اللہ کی پکڑ میں اپنی کوئی مدافعت نہ کرسکی اور نہ وہ اس عذاب سے بچ سکے ، اس لیے کہ " بیشک اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے " اللہ نے ان لوگوں پر انعامات کی بارش کی۔ ان پر فضل و کرم کرکے انہیں بہت کچھ دیا۔ زمین پر ان کا اقتدار قائم کیا اور وہ اس اقتدار کے وارث بنے ، لیکن اللہ یہ سب چیزیں جسے بھی دیتا ہے وہ برائے امتحان دیتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ یہ لوگ شکر کرتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے شکر نہ کیا بلکہ ناشکری کا مظاہر کیا بلکہ انہوں نے بغاوت و سرکشی کا رویہ اختیار کیا۔ ان انعامات اور قوتوں کی وجہ سے وہ جبار وقہار بن گئے۔ اور فسق و فجور میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو طاغوتی قوت کی شکل دے دی۔ ان کے پاس اللہ کی آیات و معجزات آئے تو انہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا۔ لہذا اب وہ اس بات کے مستحق ہوگئے کہ انہیں اس قانون کے تحت پکڑا جائے جو اس کائنات کے لیے سنت جاریہ ہے کہ جب اللہ کی آیات کسی تک پہنچ جاتی ہیں اور لوگ ان کی تکذیب کرتے ہیں تو اللہ انہیں پکڑتا ہے اور ان کو پیش کرکے رکھ دیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ) ان مجرموں پر جو اللہ کی طرف سے عذاب آیا یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے اپنی آیات بھیجتا ہے۔ یہ آیات آفاقیہ بھی ہوتی ہیں اور آیات انفسیہ بھی ہوتی ہیں اور آیات صحفیہ بھی جو اللہ کے کتابوں اور صحیفوں میں موجود ہوتی ہیں۔ بندے اگر غور و فکر سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کو پہچانیں اور اس کے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لائیں اور احکام الٰہیہ کو بجا لائیں تو ایمان قبول کرنے کی طرف ذہن چلے، مجرمین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ اللہ کی آیات کے منکر ہوئے اس کے نبیوں کو جھٹلایا اور توحید سے انحراف کیا شرک میں مبتلا ہوئے لہٰذا دنیا میں بھی اپنے گناہوں کی وجہ سے سزا یاب ہوئے اور آخرت میں بھی کافروں کے لیے سخت عذاب ہے۔ سابقہ امتوں نے آیات الٰہیہ کو جھٹلایا جس کی وجہ سے ہلاک ہوئیں : پھر بطور مثال کے فرمایا (کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ) (الآیۃ) (جیسا کہ فرعون اور ان لوگوں کی حالت تھی جو ان سے پہلے تھے) اس میں یہ بتایا ہے کہ جیسے آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کے ساتھ معاملہ ہوا اسی طرح اس زمانہ کے مجرمین کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔ اللہ کے دین پر نہ آئیں گے اللہ کے نبیوں اور اس کی کتابوں کو جھٹلائیں گے تو یہ بھی مستحق عذاب ہوں گے پھر ایک قاعدہ کلیہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ) (کسی قوم کو اللہ نے جو نعمت عطا فرمائی اس نعمت کو اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہی لوگ اپنے ذاتی اعمال کو نہ بد لیں) جب لوگ خود بد ل جاتے ہیں۔ کفر و شرک اختیار کرتے ہیں نا فرمانیوں پر تل جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی نعمت چھین لیتا ہے۔ جب لوگ ایمان کو چھوڑ دیں اچھے اعمال کو ترک کردیں برے اعمال میں لگ جائیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت میں بھی تغیر آجاتا ہے۔ یہ نعمت چھین لی جاتی ہے اور بندے نقمت اور عذاب میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ پھر فرمایا (وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ) (اور بلاشبہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے) سب کے اقوال کو سنتا ہے سب کے احوال کو جانتا ہے۔ کسی میں کیسا ہی کوئی تغیر فعلی یا قولی ہوجائے وہ سب سے باخبر ہے۔ اس کے بعد مکرر آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کا تذکرہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ انہوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا لہٰذا ہم نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54: تخویف دنیوی ہے اور یہ مبتداء محذوف کی خبر ہے “ اي دابھم کداب اٰل فرعون ” یعنی ان مقتولین بدر کا حال قوم فرعون اور اس سے پہلے کی سرکش قوموں مثلا قوم نوح قوم عاد، قوم ثمود وغیرہ کی طرح ہے۔ “ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ ” یہ ان کے حال کی تفسیر ہے۔ انہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا تو اللہ نے ان کو پکڑ لیا۔ اسی طرح مشرکین قریش کو بھی جنگ بدر میں ان کے کفر وعناد ہی کی سزا دی گئی۔ “ عادة ھؤلاء الکفار فی کفرھم کعادة کفار اٰل فرعون فی کفرھم فجوزي ھؤلاء بالقتل والاسر یوم بدر کما جو زي ال فرعون بالاغراق ”(خازن ج 3 ص 35) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

52 ان کی حالت کفر پر سزا ملنے میں ایسی ہے جیسے فرعون والوں کو اور ان سے پہلے لوگوں کی حالت کہ انہوں نے آیات الٰہی سے انکار کیا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا اور ان کی گرفت فرمائی یقیناً اللہ تعالیٰ بڑی قوت کا مالک سخت سزا دینے والا ہے۔ یعنی آل فرعون اور ان سے پہلے کفار کا جو حال ہوا وہی ان کا ہوا کیونکہ گناہوں میں یہ تمام مشترک تھے عذاب میں بھی مشترک ہوئے اور جو ان کا حال ہوا وہی ان کا حال کیا گیا۔