Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 6

سورة الأنفال

یُجَادِلُوۡنَکَ فِی الۡحَقِّ بَعۡدَ مَا تَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوۡنَ اِلَی الۡمَوۡتِ وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ ؕ﴿۶﴾

Arguing with you concerning the truth after it had become clear, as if they were being driven toward death while they were looking on.

وہ اس حق کے بارے میں اس کے بعد کہ اس کا ظہور ہوگیا تھا آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکنے کے لئے جاتا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Disputing with you concerning the truth after it was made manifest, as if they were being driven to death, while they were looking (at it). يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ (Disputing with you concerning the truth after it was made manifest), Some have commented, "(Allah says:) they ask and argue with you about Al-Anfal just as they argued with you when you went out for the battle of Badr, saying, `You marched with us to confiscate the caravan. You did not inform us that there will be fighting and that we should prepare for it."' وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللّهُ إِحْدَى الطَّايِفَتِيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللّهُ أَن يُحِقَّ الحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی یہ بات ظاہر ہوگئی تھی کہ قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے اور اب لشکر قریش ہی سامنے ہے جس سے لڑائی ناگزیر ہے۔ 6۔ 2 یہ بےسروسامانی کی حالت میں لڑنے کی وجہ سے بعض مسلمانوں کی جو کیفیت تھی اس کا اظہار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ : حق سے مراد کفار کا قافلہ نکل جانے کے بعد کفار سے ہر صورت لڑائی ہے، جس کا انجام فتح اور غنائم ہوگا۔ مختصراً واقعہ یہ ہے کہ سن ٢ ھ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی کہ کفار قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرکردگی میں شام سے مکہ جا رہا ہے اور مدینہ کے قریب کے راستے پر پہنچ چکا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کی مختصر سی جمعیت جو تین سو سے کچھ اوپر تھی، لے کر قافلے کے تعاقب کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ ابوسفیان کو آپ کے نکلنے کی اطلاع ہوگئی، اس نے ایک تیز رفتار سوار کے ذریعے سے مکہ اطلاع بھیج دی اور خود احتیاطاً اصل راستہ چھوڑ کر ساحلی راستہ اختیار کرلیا۔ مکہ میں جب یہ خبر پہنچی تو ابوجہل ایک بڑا مسلح لشکر لے کر قافلے کی حفاظت کے لیے روانہ ہوگیا اور آ کر بدر میں ڈیرے ڈال دیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو آپ نے مسلمانوں کے سامنے ساری صورت حال رکھ دی کہ ایک طرف تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف قریش کا لشکر ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ تمہیں دونوں میں سے ایک ضرور ملے گا۔ اس پر بعض صحابہ کو تردد ہوا، وہ چاہتے تھے کہ لشکر کے بجائے قافلے کا تعاقب کیا جائے۔ اس وقت ابوبکر، عمر، سعد بن معاذ اور مقداد بن اسود (رض) نے اطاعت کی تقریریں کیں، مقداد (رض) نے کہا کہ آپ ہمیں موسیٰ ( (علیہ السلام) ) کے ساتھیوں جیسا نہیں پائیں گے، جنھوں نے کہا کہ جا تو اور تیرا رب لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ! ! تب آپ بدر کی طرف روانہ ہوئے اور اس وقت بعض صحابہ نے لشکر سے نہ لڑنے کا مشورہ دیا تھا، اسے ” يُجَادِلُوْنَكَ “ (وہ تجھ سے جھگڑتے تھے) سے تعبیر کیا ہے۔ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ : یعنی سمجھتے تھے کہ اتنے بڑے لشکر سے لڑنا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Then, the same event has been alluded to in the second verse (6): يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنظُرُ‌ونَ (they were disputing with you about the truth after it became clear, as if they were being driven to a death being seen by them). Though the noble Companions had not disobeyed any command given to them - in fact, what they had done was a certain expression of their weakness and lack of courage as part of their response when consulted. But, even such expression of personal opinion coming from the Companions of the Messengers of Allah when juxtaposed with the high station they were blessed with was unwelcome in the sight of Allah Ta` ala. Therefore, it was set forth in words which spell out displeasure.

اور اسی واقعی کا بیان دوسری آیت میں ہے (آیت) يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ ، یعنی یہ لوگ آپ سے حق کے معاملہ میں مجادلہ اور اختلاف کرتے ہیں گو یا ان کو موت کی طرف کھینچا جارہا ہے جس کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ صحابہ کرام نے اگرچہ کوئی عدول حکمی نہ کی تھی بلکہ مشورہ کے جواب میں اپنے ضعف اور پست ہمتی کا اظہار کیا تھا۔ مگر رسول کے ساتھیوں سے ایسی رائے کا اظہار بھی ان کے مقام بلند کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسند تھا اس لئے ناراضی کے الفاظ سے اس کو بیان فرمایا گیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَ۝ ٦ ۭ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ ساق سَوْقُ الإبل : جلبها وطردها، يقال : سُقْتُهُ فَانْسَاقَ ، والسَّيِّقَةُ : ما يُسَاقُ من الدّوابّ. وسُقْتُ المهر إلى المرأة، وذلک أنّ مهورهم کانت الإبل، وقوله : إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] ، نحو قوله : وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] ، وقوله : سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : ملك يَسُوقُهُ ، وآخر يشهد عليه وله، وقیل : هو کقوله : كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] ، وقوله : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] ، قيل : عني التفاف الساقین عند خروج الروح . وقیل : التفافهما عند ما يلفّان في الکفن، وقیل : هو أن يموت فلا تحملانه بعد أن کانتا تقلّانه، وقیل : أراد التفاف البليّة بالبليّة نحو قوله تعالی: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] ، من قولهم : کشفت الحرب عن ساقها، وقال بعضهم في قوله : يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] :إنه إشارة إلى شدّة «2» ، وهو أن يموت الولد في بطن الناقة فيدخل المذمّر يده في رحمها فيأخذ بساقه فيخرجه ميّتا، قال : فهذا هو الکشف عن الساق، فجعل لكلّ أمر فظیع . وقوله : فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] ، قيل : هو جمع ساق نحو : لابة ولوب، وقارة وقور، وعلی هذا : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] ، ورجل أَسْوَقُ ، وامرأة سَوْقَاءُ بيّنة السّوق، أي : عظیمة السّاق، والسُّوقُ : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ ( س و ق) سوق الابل کے معنی اونٹ کو سنکانے اور چلانے کے ہیں یہ سفقتہ ( ن) کا مصدر ہے اور انسان ( انفعال ) کے معنی ہنکانے کے بعد چل پڑنے کے ہیں ان جانوروں کو جو ہنکائے جاتے ہیں سیقۃ کہا جاتا ہے ۔ اور عورت کو مہر ادا کرنے کے لئے سقت المھر الی المرءۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب حق مہر میں وعام طور پر ) اونٹ دیا کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] میں امساق سے معنی پروردگار کی طرف چلنا کے ہیں جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] میں ہے یعنی تمہیں اپنے پروردگار کے پاس پہچنا ہے اور آیت سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا اور ایک ( اس کے عملوں کی ) گواہی دینے والا ۔ میں سابق سے وہ فرشتہ مراد ہے جو اسے چلا کر حساب کے لئے پیش کرے گا اور دوسرا فرشتہ شہید بطور گواہ کے اس کے ساتھ ہوگا جو اسکے حق میں یا سکے خلاف گواہی گا بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کیطرف دھکیلے جاتے ہیں کے ہم معنی ہے اور آیت : ۔ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] اور پنڈلی لپٹ جائے گی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبض روح کے وقت پنڈلیوں کا لپٹنا مراد لیا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان لپٹنے سے مراد موت ہے کہ زندگی میں وہ اس کے بوجھ کو اٹھا کر چلتی تھیں لیکن موت کے بعد وہ اس بار کی متحمل نہیں ہوسکیں گی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک شدت کا دوسری شدت سے لپٹنا مراد ہے اسی طرح آیت : ۔ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائیگا ۔ میں پنڈلی سے کپرا ا اٹھانا صعوبت حال سے کنایہ ہے اور یہ کشفت الحرب عن ساقھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی لڑائی کے سخت ہوجانے ہیں ۔ بعض نے اس کی اصل یہ بیان کی ہے کہ جب اونٹنی کے پیٹ میں بچہ مرجاتا ہے تو مزمر ( جنوانے والا ) اس کے رحم کے اندر ہاتھ ڈالتا ہے : ۔ اور اسے پنڈلیوں سے پکڑ کر ذور سے باہر نکالتا ہے ۔ اور یہ کشف عن الناق کے اصل معنی ہیں پھر ہر ہولناک امر کے متعلق یہ محاورہ استعمال ہوناے لگا ہے تو یہاں بھی شدت حال سے کنایہ ہے اور آیت : ۔ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سوق ساق کی جمع ہے جیسے لابۃ کی جمع لوب اور فارۃ کی جمع فور آتی ہے ۔ اور اسی طرح آیت : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ میں بھی سوق صیغہ جمع ہے اور رجل اسوق کر معنی بڑی پنڈلیوں والے آدمی کے ہیں اسکی مؤنث سوقاء آتی ہے اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ السویق کے معنی ستو کے ہیں کیونکہ وہ بغیر جائے حلق سے نیچے اتر جاتے ہیں ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (یُجَادِلُوْنَکَ فِی الْْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ ) یہ آیت میرے نزدیک دوسری مشاورت کے بارے میں ہے جو مقام صفراء پر منعقد ہوئی تھی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے قریش کے تجارتی قافلے کا پیچھا کرنے کے ارادے سے نکلے تھے ‘ اور یہ بظاہر اسی طرح کی ایک مہم تھی جس طرح کی آٹھ مہمات اس علاقے میں پہلے بھی بھیجی جا چکی تھیں۔ اس وقت تک لشکر قریش کے بارے میں نہ کوئی اطلاع تھی اور نہ ہی ایسا کوئی گمان تھا۔ لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے نکل کر صفراء کے مقام پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ذرائع سے بھی لشکر قریش کی مکہ سے روانگی کی اطلاع مل گئی اور اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بارے میں مطلع فرما دیا۔ چناچہ جس طرح حضرت طالوت نے راستے میں اپنے لشکر کی آزمائش کی تھی کہ دریا کو عبور کرتے ہوئے جو شخص سیر ہو کر پانی پیے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں رہے گا اور اس طرح مخلص ساتھیوں کا خلوص ظاہر ہوگیا ‘ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ کے حکم سے سارا معاملہ مسلمانوں کے سامنے مشاورت کے لیے رکھ دیا اور ان کو واضح طور پر بتادیا کہ مکہ سے ابوجہل ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل لشکر جرار لے کر روانہ ہوچکا ہے۔ (کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَہُمْ یَنْظُرُوْنَ ) ظاہر بات ہے یہ کیفیت تو پکے منافقین ہی کی ہوسکتی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4. When the people in question were required to fight, they were disinclined to do so for they felt that they were being driven to death and destruction. Their condition is somewhat similar for they are now required not to contend about spoils of war and wait for God's command as to how the spoils of war should be distributed. This verse could also mean that if Muslims obeyed God and followed the Prophet (peace be on him) rather than their own desires, they would witness as good a result as they witnessed on the occasion of the Battle of Badr. On this occasion too many were reluctant to take on the Quraysh and considered it nothing short of suicide (see verse 6). But when they obeyed the command of God and His Prophet (peace be on him), it proved to be a source of life and survival. Incidentally, this statement in the Qur'in implicitly negates reports usually mentioned in the works of Sirah and Maghazi and which suggest that the Prophet (peace be on him) and his Companions had initially set out from Madina in order to raid the trading caravan of the Quraysh, and that it was only when they came to know that the Quraysh army was advancing to provide protection to the trading caravan that the Muslims were faced with the option of either attacking the caravan or the Quraysh army. The Qur'anic version is quite contrary. Accordingly, from the moment when the Prophet (peace be on him) set out from his house, he was intent upon a decisive battlewith the Quraysh. In addition, the decision as to whether the Muslims should confront the trading caravan or the army was taken at the very beginning rather than later on. It is also evident that even though it was quite clear that it was essential to confront the Quraysh army, a group of Muslims tried to avoid it and kept pleading for their viewpoint. Even when a firm decision had been taken that the Muslims would attack the Quraysh army rather than the caravan, this group set out for the encounter with the view that they were being driven to death and destruction. (See verses 5-8. Cf. al-Waqidi. vol. 1, pp. 19-21; Ibn Sa'd, vol. 2. pp. 11-14 - Ed.)

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :4 یعنی جس طرح اس وقت یہ لوگ خطرے کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے ، حالانکہ حق کا مطالبہ اس وقت یہی تھا کہ خطرے کے منہ میں چلے جائیں ، اسی طرح آج انہیں مال غنیمت ہاتھ سےچھوڑنا ناگوار ہو رہا ہے ، حالانکہ حق کا مطالبہ یہی ہے کہ وہ اسے چھوڑیں اور حکم کا انتظار کریں ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اللہ کی اطاعت کرو گے اور اپنے نفس کی خواہش کے بجائے رسول کا کہا مانو گے تو ویسا ہی اچھا نتیجہ دیکھو گے جیسا ابھی جنگ بدر کے موقع پر دیکھ چکے ہو کہ تمہیں لشکر قریش کے مقابلہ پر جانا سخت ناگوار تھا اور اسے تم ہلاکت کا پیغام سمجھ رہے تھے لیکن جب تم نے حکم خدا و رسول کی تعمیل کی تو یہی خطرناک کام تمہارے لیے زندگی کا پیغام ثابت ہوا ۔ قرآن کا یہ ارشاد ضمناً ان روایات کی بھی تردید کر رہا ہے جو جنگ بدر کے سلسلے میں عموماً کتب سیرت و مغازی میں نقل کی جاتی ہیں ، یعنی یہ کہ ابتداءً نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین قافلے کو لوُٹنے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے تھے ۔ پھر چند منزل آگے جا کر جب معلوم ہوا کہ قریش کا لشکر قافلہ کی حفاظت کے لیے آرہا ہے تب یہ مشورہ کیا گیا کہ قافلے پر حملہ کیا جائے یا لشکر کا مقابلہ؟ اس بیان کے برعکس قرآن یہ بتا رہا ہے کہ جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلے تھے اسی وقت یہ امرِ حق آپ کے پیش نظر تھا کہ قریش کے لشکر سے فیصلہ کن مقابلہ کیا جائے ۔ اور یہ مشاورت بھی اسی وقت ہوئی تھی کہ قافلے اور لشکر میں کس کو حملہ کے لیے منتخب کیا جائے ۔ اور باوجودیکہ مومنین پر یہ حقیقت واضح ہوچکی تھی کہ لشکر ہی سے نمٹنا ضروری ہے ، پھر بھی ان میں سے ایک گروہ اس سے بچنے کے لیے حجت کرتا رہا ۔ اور بالآخر جب آخری رائے یہ قرار پا گئی کہ لشکر ہی کی طرف چلنا چاہیے تو یہ گروہ مدینہ سے یہ خیال کرتا ہوا چلا کہ ہم سیدھے موت کے منہ میں ہانکے جا رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦۔ آیت کے اوپر کے ٹکڑے میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بغیر حکم خدا کے کوئی کام نہیں کرتے ہیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوسفیان کے قافلہ کے پیچھے نکالے تھے اور مومنین بھی آپ کے ساتھ تھے سامان جنگ کسی کے پاس مہیا نہ تھا کیونکہ یہ لوگ تیس آدمیوں کے قافلہ کو لوٹنے کے ارادہ سے آئے تھے لیکن جب یہ قافلہ ہاتھ سے نکل گیا اور مشرکین مکہ کی ہزارہا آدمیوں کی فوج مقام بدر پر پہنچ گئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اب ان سے لڑائی چاہئے اس بات کو لوگوں نے سخت سمجھا اور کہنے لگے کہ اگر پہلے سے ہم کو لڑائی کا ارادہ معلوم ہوتا تو ہم سامان جنگ سے درست ہو کر آتے مگر بعد میں ان کو معلوم ہوگیا کہ حضرت کا حکم ٹھیک تھا آپ جو کام کرتے ہیں خدا کے حکم سے کرتے ہیں اسی کو اللہ پاک نے آیت کے اس ٹکڑے میں بیان فرمایا کہ یہ لوگ تم سے حق بات میں جھگڑتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دیدہ دانستہ موت کے منہ میں جھونکے جاتے ہیں حالانکہ ان پر حق بات ظاہر ہوگئی ہے کہ رسول کا حکم بغیر حکم خدا کے نہیں ہوتا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے انس (رض) بن مالک کی حدیث جو اوپر گذری ہے حدیث آیت کے اس ٹکڑے کی بھی گویا تفسیر ہے کیونکہ جس حدیث کے موافق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس لڑائی کا انجام جتلایا تھا اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس انجام کا ذکر صحابہ سے بھی کردیا تھا اسی واسطے فرمایا یجا دلونک فی الحق بعد ما تبین جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جتلانے سے جس لڑائی کا سچا انجام اللہ کے رسول نے ان لوگوں کو جتلا دیا تھا تو پھر لڑائی کے شروع کرنے میں ان لوگوں نے اللہ کے رسول سے ناحق کا جھگڑا کیا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:6) یجادلونک فی الحق بعد ماتبین۔ اس (تصادم) کو حق بجانب سمجھتے ہوئے بھی وہ آپ سے چوں و چرا کر رہے تھے (حق ظاہر ہوجانے کے بعد بھی وہ آپ سے مجادلہ کر رہے تھے) کانما یساقون الی الموت وہم ینظرون۔ (وہ یوں محسوس کر رہے تھے) گویا وہ موت کو سامنے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی اس کے منہ میں (علی الرغم) ہانکے جارہے تھے۔ (اس آیۃ پر انفال کے حکم اور کفار کے خلاف قتال کے حکم کا موازنہ ختم ہوا۔ ازاں بعد جنگ بدر کے واقعات کی تفصیل ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی انہیں یہ معلوم تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو حکم دیتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو اھد ی الطا ئفتین کا وعدہ کیا ہے وہ سچا ہے لیکن پھر یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑ کرو ہے ہیں، ابن کثیر) بعض صحابہ (رض) نے جو اس وقت لشکر سے نہ لڑنے کا مشہورہ دیا تھا اس کی مجادلہ سے تعبیر فرمایا ہے۔7 یعنی سمجھتے ہیں کہ اتنے بڑے مسلح لشکر سے لڑنا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) وہ لوگ جو آپ کے نکلنے کو ناپسند کرتے تھے اس امر حق کے ظاہر ہوجانے کے باوجود آپ سے اس حق بات میں اس طرح جھگڑا کررہے تھے جیسے وہ اپنی آنکھوں دیکھتے موت کی طرف ہنکائے جارہے ہیں ۔ یعنی پیغمبر کی زبانی یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ بدر میں جا کر جہاد کرنا اسلام اور مسلمانوں کے لیے مفید ہوگا، پھر بھی وہ لوگ جو قریش سے نبرد آزماد ہونے کو مناسب نہیں سمجھتے تھے پیغمبر کو یہی سمجھانے کی کوشش کررہے تھے کہ قریش سے مقابلہ نہ کیا جائے اور ان کی حالت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بدر کی طرف جانے کو ایسا سمجھ رہے ہیں جیسا کہ کوئی موت کی جانب ہنکارہا ہو ، اور موت بھی سامنے نظر آرہی ہو۔ بہرحال بدر کے موقعہ پر مسلمانوں میں دو خیالات کے لوگ تھے ان میں ایک گروہ کی طرف اشارہ فرمایا ہو یہ چاہتا تھا کہ اس وقت جہاد کرنا مناسب نہیں کیونکہ سامان کی قلت ہے اور مسلمانوں کی تعداد بھی کم ہے وہ پیغمبر کو یہ مشورہ دیتے تھے۔