Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 7

سورة الأنفال

وَ اِذۡ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ اَنَّہَا لَکُمۡ وَ تَوَدُّوۡنَ اَنَّ غَیۡرَ ذَاتِ الشَّوۡکَۃِ تَکُوۡنُ لَکُمۡ وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ یَقۡطَعَ دَابِرَ الۡکٰفِرِیۡنَ ۙ﴿۷﴾

[Remember, O believers], when Allah promised you one of the two groups - that it would be yours - and you wished that the unarmed one would be yours. But Allah intended to establish the truth by His words and to eliminate the disbelievers

اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ تعالٰی کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ثابت کردے اور ان کافروں کی جڑ کاٹ دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی یا تو تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے گا، جس سے تمہیں بغیر لڑائی کے وافر مال و اسباب مل جائے گا، بصورت دیگر لشکر قریش سے تمہارا مقا لہ ہوگا اور تمہیں غلبہ ہوگا اور مال غنیمت ملے گا۔ 7۔ 2 یعنی تجارتی قافلہ سے بغیر لڑے مال ہاتھ آجائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّهَا لَكُمْ : یعنی قافلے یا کفار پر فتح اور اموال غنیمت۔ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَات الشَّوْكَةِ : ” الشَّوْكَةِ “ کانٹے کو کہتے ہیں، یعنی تمہاری خواہش یہ تھی کہ کسی تکلیف اور جنگ کے بغیر حاصل ہونے والا قافلہ تمہیں مل جائے، جب کہ اللہ تعا... لیٰ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنی باتوں اور وعدوں کے مطابق حق کو سچا ثابت فرمائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ تم سے ان دو جماعتوں ( یعنی تجارتی قافلہ یا لشکر) میں سے ایک ( جماعت) کا وعدہ کر رہے تھے کہ وہ ( جماعت) تمہارے ہاتھ آجائے گی ( یعنی مغلوب ہوجائے گی۔ یہ وعدہ مسلمانوں سے بواسط رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذریعہ وحی ہوا تھا) اور تم اس...  تمنا میں تھے کہ غیر مصلح جماعت ( یعنی تجارتی قافلہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ( اس کو عملا غلبہ دے کر) ثابت کردے اور ( یہ منظور تھا کہ) ان کافروں کی بنیاد کو قطع کردے تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ( عملا) ثابت کردے اگرچہ یہ مجرم لوگ ( یعنی مغلوب ہونے والے کفار اس کو کتنا ہی) ناپسند کریں۔ اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے ( اپنی تعداد اور سامان جنگ کی قلت اور دشمن کی کثرت دیکھ کر) فریاد کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی ( اور وعدہ فرمایا) کہ تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو سلسلہ وارچلے آویں گے اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد صرف اس ( حکمت) کے لئے کی کہ ( تم کو غلبہ پانے کی) بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار آجائے ( یعنی انسان کی تسلی طبعی طور پر اسباب سامان سے ہوتی ہے اس لئے وہ بھی جمع کردیا گیا) اور ( واقع میں تو) نصرت ( اور غلبہ) صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے جو زبردست حکمت والے ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٧ ۙ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً...  ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ طَّائِفَةُ وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے شوك الشَّوْكُ : ما يدقّ ويصلب رأسه من النّبات، ويعبّر بِالشَّوْكِ والشِّكَةِ عن السّلاح والشّدّة . قال تعالی: غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ [ الأنفال/ 7] ، وسمّيت إبرة العقرب شَوْكاً تشبيها به، وشجرة شَاكَةٌ وشَائِكَةٌ ، وشَاكَنِي الشَّوْكُ : أصابني، وشَوَّكَ الفرخ : نبت عليه مثل الشّوك، وشَوَّكَ ثدي المرأة : إذا انتهد، وشَوَّكَ البعیر : طال أنيابه کا لشّوك . ( ش و ک ) الشواک کانٹا اور کبھی شوک اور شکۃ کے لفظ سے اسلحہ اور شدت مراد ہوتی ہے قرآن میں ہے ۔ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ [ الأنفال/ 7] کہ جو قافلہ بےشان شوکت ( یعنی ہتھیار ) ہے ۔ اور تشبیہ کے طور پر بچھو کے ڈنک کو بھی شوک کیا جاتا ہے اور خار دار درخت کو شجرۃ شاکۃ وشائکۃ کہہ دیتے ہیں ۔ شاکنی الشوک مجھے کانٹا چبھ گیا شوک الفرخ چوڑے نے کانٹے اور پر نکال لئے ۔ شوک ثدی المرأۃ ۔ عورت کی چھاتی ابھر آئی ۔ شول البعیر : اونٹ کے انیاب کا لمبا اور کانٹے کی طرح تیز ہونا ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ كلم الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها، ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا دابِرُ ( دبر) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، نحو : مقدم الحاجّ ، وخفوق النجم، ومن قرأ : (أدبار) فجمع . ويشتقّ منه تارة باعتبار دبر الفاعل، وتارة باعتبار دبر المفعول، فمن الأوّل قولهم : دَبَرَ فلانٌ ، وأمس الدابر، وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ [ المدثر/ 33] ، وباعتبار المفعول قولهم : دَبَرَ السهم الهدف : سقط خلفه، ودَبَرَ فلان القوم : صار خلفهم، قال تعالی: أَنَّ دابِرَ هؤُلاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ [ الحجر/ 66] ، وقال تعالی: فَقُطِعَ دابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا [ الأنعام/ 45] ، والدابر يقال للمتأخر، وللتابع، إمّا باعتبار المکان، أو باعتبار الزمان، أو باعتبار المرتبة، وأَدبرَ : أعرض وولّى دبره، اور الدبر سے مشتقات ( جیسے ( دبروادبر دابر ) کبھی باعتبار فاعل ( یعنی فعل لازم ) کے استعمال ہوتے ہیں ۔ جیسے :۔ دبر فلان ( فلاں نے بیٹھ پھیری ) امس الدابر ( کل گزشتہ ) قرآن میں ہے :۔ وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ [ المدثر/ 33] اور رات کی جب پیٹھ پھیرنے لگے ۔ اور کبھی اعتبار مفعول ( یعنی فعل متعدی ، کے جیسے دبر السھم الھدف ) تیرنشانہ سے دو سے گر پڑا) دبر فلان القوم ( یعنی وہ قوم سے پیچھے رہ گیا قرآن میں ہے :۔ فَقُطِعَ دابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا [ الأنعام/ 45] غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی ۔ أَنَّ دابِرَ هؤُلاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ [ الحجر/ 66] کہ ان لوگوں کی جڑ صبح ہوتے ہی کاٹ دی جائیگی ۔ اور دابر کے معنی متاخر یا تابع کے آتے ہیں خواہ وہ تاخر باعتبار مکان یاز مان کے ہوا اور خواہ باعتبار مرتبہ کے ۔ ادبر ۔ اعراض کرنا ۔ پشت پھیر نا كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

غزو بدر میں وعدہ خداوندی قول باری ہے واذیعدکم اللہ احدی الطائفتین انھالکم۔ یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا) اس واقعہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت کے کئی دلائل موجود ہیں ایک تو یہ کہ آپ نے لوگوں کو یہ بتادیا تھا کہ ق... افلہ قریش اور لشکر قریش میں سے ایک کے ساتھ مسلمانوں کو واسطہ پڑے گا قریش کا یہ تجارتی قافلہ واپسی کے سفر پر تھا اور اس میں پورے قریش کا سرمایہ لگا ہوا تھا اس کی حفاظت اور حمایت کے لئے قریش کا لشکر مکہ سے چل پڑا تھا پھر وہی کچھ ہوا جس کا آیت میں وعدہ کیا گیا تھا۔ قول باری ہے وتودون ان غیر ذات الشوکۃ تکون لکم۔ اور تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے) یعنی مسلمان تجارتی قافلے پر کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے اس لئے کہ اس میں مال و اسباب کی فراوانی تھی اور معرکہ آرائی کی کم سے کم گنجائش مسلمانوں کو یہ خیال اس لئے آیا تھا کہ وہ جنگ کی پوری تیاری کر کے نہیں نکلے تھے۔ انہیں یہ خیال بھی نہیں تھا کہ قریش والے ان سے پنجہ آزمائی کے لئے آدھمکیں گے۔ قول باری ہے ویریداللہ ان یحق الحق بکلماتہ ویقطح دابر الکافرین۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کافروں کی جڑ کاٹ کر رکھ دینے اور انہیں تہ تیغ کرنے کا جو عدہ فرمایا تھا اس آیت میں اس وعدے کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧۔ ٨) اور وہ وقت بھی یاد کرو، جب کہ تم سے ان جماعتوں یعنی قافلہ اور لشکر میں سے ایک کے غنیمت میں ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور تمہاری خواہش تھی کہ قافلہ تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنی مدد اور قوت سے دین اسلام کا حق ہونا ظاہر کردے، اور ان کافروں کی جڑ ہی کاٹ دے تاکہ دین اسلام...  کا مکہ مکرمہ میں نام بلند ہو، شرک اور مشرک نیست ونابود ہوجائیں، اگرچہ یہ مشرک اس چیز کو ناپسند ہی کریں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (وَاِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآءِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَکُمْ ) لشکر یا قافلے میں سے کسی ایک پر مسلمانوں کی فتح کی ضمانت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دے دی گئی تھی۔ (وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَات الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ ) تم لوگوں کی خواہش تھی کہ لشکر اور قافلے میں سے کسی ایک کے مغلوب...  ہونے کی ضمانت ہے تو پھر غیر مسلح گروہ یعنی قافلے ہی کی طرف جایا جائے ‘ کیونکہ اس میں کوئی خطرہ اور خدشہ (risk) نہیں تھا۔ قافلے کے ساتھ بمشکل پچاس یا سو آدمی تھے جبکہ اس میں پچاس ہزار دینار کی مالیت کے سازوسامان سے لدے پھندے سینکڑوں اونٹ تھے ‘ لہٰذا اس قافلے پر بڑی آسانی سے قابو پایا جاسکتا تھا اور بظاہر عقل کا تقاضا بھی یہی تھا۔ ان لوگوں کی دلیل یہ تھی کہ ہمارے پاس تو ہتھیار بھی نہیں ہیں اور سامان رسد وغیرہ بھی نا کافی ہے ‘ ہم پوری تیاری کر کے مدینے سے نکلے ہی نہیں ہیں ‘ لہٰذا یہ بہتر ہوگا کہ پہلے قافلے کی طرف جائیں ‘ اس طرح سازو سامان بھی مل جائے گا ‘ اہل قافلہ کے ہتھیار بھی ہمارے قبضے میں آجائیں گے اور اس کے بعد لشکر کا مقابلہ ہم بہتر انداز میں کرسکیں گے۔ تو گویا عقل و منطق بھی اسی رائے کے ساتھ تھی۔ (وَیُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ ) یہ وہی بات ہے جو ہم سورة الانعام (آیت ٤٥) میں پڑھ آئے ہیں : (فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ط) کہ ظالم قوم کی جڑ کاٹ دی گئی۔ یعنی اللہ کا ارادہ کچھ اور تھا۔ یہ سب کچھ دنیا کے عام قواعد و ضوابط (physical laws) کے تحت نہیں ہونے جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس دن کو یوم الفرقان بنانا چاہتا تھا۔ وہ تین سو تیرہ نہتے افراد کے ہاتھوں کیل کانٹے سے پوری طرح مسلح ایک ہزار جنگجوؤں کے لشکر کو ذلت آمیز شکست دلوا کردکھانا چاہتا تھا کہ اللہ کی تائید و نصرت کس کے ساتھ ہے اور چاہتا تھا کہ کافروں کی جڑ کاٹ کر رکھ دے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. God's promise was that the Muslims would be able to overcome whichever of the two parties they wished to attack - the trading caravan or the Quraysh army. 6. This refers to the trading caravan which had some 30 to 40 armed guards for protection.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :5 یعنی تجارتی قافلہ یا لشکر قریش ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :6 یعنی قافلہ جس کے ساتھ صرف تیس چالیس محافظ تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: اس سے مراد ابو سفیان کا قافلہ ہے اور ’’ کانٹے‘‘ سے مراد خطرہ ہے۔ قافلے میں مسلح افراد کیک تعداد کل چالیس تھی۔ لہذا اس پر حملہ کرنے میں کوئی بڑا خطرہ نہیں تھا۔ لہذا طبعی طور پر اس پر حملہ کرنا آسان تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ ٨۔ اس آیت کی تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول سے بہت اچھی طرح واضح ہوتی ہے محمد بن اسحاق حضرت عبداللہ (رض) بن عباس سے اس قصہ بدر کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ابوسفیان قریش کا بہت سا مال لیکر ملک شام سے چلا یہ خبر حضرت کو ملی آپ نے صحابہ سے کہا تم مدینہ سے باہر نکلو اگر خدا نے چاھا تو تمہیں یہ سب...  مال مل جائیگا اکثر لوگ آپ کے ساتھ ہوگئے اور بعضے رہ گئے کیونکہ لڑائی کا ارادہ تو تھا ہی نہیں جو سب کے سب نکلتے ابوسفیان نے مدینہ کے قریب پہنچ کر جاسوس بھیجے جاسوس سے جو شخص ملتا تھا اس سے حال پوچھتے چلے جاتے تھے ایک قافلہ سے معلوم ہوا کہ حضرت مع صحابہ کے تمہارے قافلہ پر آیا چاہتے ہیں یہ خبر جاسوس نے ابوسفیان سے جاکر کہی اس نے ایک شخص ضمضم بن عمر و غفاری کو اجرت دے کر قریش کی طرف بھیجا اور کہا کہ قریش کو جمع کر کے لے آؤ اور اپنا مال بچاؤ حضرت مع اپنے اصحاب کے ہر اہ روانہ ہوئے ضمضم تو ادھر روانہ ہوا اور آنحضرت صلعم جب تک وادی ذفران تک پہنچے ادھر سے قریش کی ہزار آدمیوں کی فوج آگئی آپ کو یہ خبر معلوم ہوئی آپ نے لوگوں سے مشورہ لیا حضرت ابوبکر (رض) حضرت عمر (رض) نے نیک مشورہ دیا اور بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہم تو قریش سے لڑنے کے لیے نہیں نکلے تھے آپ نے کہا کہ تم ایک ایک علیحدہ بتلاتے جاؤ قریش سے جنگ کرنے میں تمہاری کیا رائے ہے مقاد بن عمرو (رض) نے کہا کہ یارسول اللہ صلعم آپ کو جو حکم خدا نے دیا ہے وہ کیجیے ہم آپ کے ساتھ ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے جو بات کہی تھی کہ وہ اور ان کا خدا جاکر لڑیں ہم تو قوم عمالقہ سے لڑنے کو نہیں جائیں گے ان کہنے والوں میں ہم نہیں ہیں ہم کو اسی ذات کی قسم ہے جس نے تم کو رسول بنا کر بھیجا ہے اگر آپ ملک حبشہ تک جا کر مقاتلہ کرنا چاہیں تو ہم بھی وہاں تک چل کر لڑیں گے آپ نے مقداد (رض) کو دعا دی پھر آپ نے انصاری کی طرف خطاب کر کے فرمایا تمہاری کیا رائے ہے سعد بن معاذ (رض) نے کہا کہ یا حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ پر ایمان لاچکے ہیں آپ کے رسول ہونے کی تصدیق کرچکے ہیں جو کچھ آپ خدا کی طرف سے لائے ہیں اس کی گواہی دے چکے ہیں آپ سے قول وقرار مضبوطی کے ساتھ کرچکے ہیں جو کچھ آپ کو خدا کا فرمان ہے اس کے بموجب حکم دیئے اگر دریا میں گھسیں گے تو ہم بھی آپ کے ساتھ گھس پڑیں گے ہم میں سے ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا ہم اس بات سے ناخوش نہیں ہیں کہ ہم کو دشمن سے لڑنا پڑے گا ہم جنگ کے وقت صبر کرنے والوں میں ہیں اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اللہ پاک آپ کو ایسی بات دکھلاوے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں آپ بسم اللہ کر کے چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ چلو غرض کہ اللہ پاک نے ابوسفیان کے قافلے اور مشرکین مکہ کی فوج انہیں دونوں گروہ کا ذکر اس آیت میں فرمایا کہ ان دو گروہ میں سے ایک کا وعدہ میں کرچکا ہوں کہ ایک تمہارا ہے تم ان میں سے ایک پر غالب ہوجاؤ گے انہیں قتل کرو اور مال غنیمت لو وہ تمہیں دفع نہیں کرسکے گا اور جو یہ چاہتے ہو کہ نرم لقمہ تمہارے ہاتھ لگے تو ابوسفیان کا قافلہ بےلڑے بھڑے لوٹ لو یہ قافلہ بےہتھیارے ہے تو یہ بات اللہ کو پسند نہیں ہے خدا کا ارادہ تو یہ ہے کہ مشرکین کی جو فرج سامان جنگ سے درست ہے ہتھیار لگئے ہوئے ہے اس پر تمہیں فتح مند کرے اور اپنی حق بات پوری کرے اور کفار کو نسیت ونا بود کرے بہت سے لوگ قید ہوں اور بہت سامان تمہارے ہاتھ لگے حق کو غلبہ ہو جھوٹ مغلوب ہو یہ بات اچھی ہے یا وہ بات اچھی ہے جس کو تم اچھا جانتے ہو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا یہ قول مختصر طور پر طبرانی میں بھی ہے جس کی روایت علی بن ابی طلحہ کے ذریعہ سے ہے اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ جو قول عبداللہ بن عباس (رض) کا علی بن ابی طلحہ کے ذریعہ سے روایت کیا جاتا ہے وہ نہایت صحیح ہوتا ہے اس لئے آیت کو جو تفسیر عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق اوپر بیان کی گئی ہے وہ صحیح ہے علاوہ اس کے مختصر طور پر یہ قصہ صحیح بخاری ونسائی میں بھی عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے آیا ہے جس سے محمد بن اسحاق کی روایت ٢: کو پوری تقویت ہوجاتی ہے بعضے مفسروں کو یہ شبہ جو پیدا ہوا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) تو بدر کی لڑائی کے وقت موجود نہیں تھے پھر ان کی روایت اس بات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک مسلسل کیونکر شمار کی جاسکتی ہے اس شبہ کو حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں یوں رفع کردیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بدر کی لڑائی کے قصوں کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) یا حضرت عمر (رض) سے سن کر روایت کرتے ہیں چناچہ صحیح مسلم کی بعضی روایتوں میں خود حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس کی وضاحت کردی ہے کہ اصل میں یہ قصہ میں نے حضرت عمر (رض) سے سنا ہے اس طرح ایک صحابی دوسرے صحابی سے سن کر کوئی روایت کرے تو اس کو صحابی کی مرسل روایت کہتے ایسی روایت کے مقبول ہونے پر سب محدثین اور مفسرین کا اتفاق ہے ابن ماجہ کے حوالہ سے زیدبن ثابت (رض) کی معتبر روایت ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جن لوگوں کو زندگی کا دار و مدار فقط دنیا کی دولت کمانے پر ہے ان کو دنیا کا مالک ومتاع تو اسی قدر ملے گا جو ان کے تقدیر میں ہے لیکن ان کو زندگی دنیا کی سرگردانی میں بسر ہوگی اور جن لوگوں کو قصد عقبے کی بہبودی کا ہوگا وہ دین دنیا دونوں پاویں گے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ جن لوگوں کا آیتوں میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے ابوسفیان کے قافلہ کے لوٹنے کا لالچ چھوڑ کر عقبے کی بہبودی کے قصد سے دین کی لڑائی میں جو اللہ کے رسول کا ساتھ دیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا اور عقبے میں دونوں جہان میں وہ لوگ اچھے ہے دنیا میں ہر ایک کے حصہ میں پانچ ہزار کا مال آیا اور عقبے میں دین کی لڑائی کا اجر پاویں گے اسی طرح ابھی عقبے کی بہبودی کا قصد جو لوگ رکھیں گے وہ دین و دنیا دونوں پاویں گے۔ ولو کرہ المجرمون کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ کو اگرچہ اسلام کی ترقی شاق ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ارادہ میں جو اسلام کی ترقی ٹھہر چکی ہے وہ ہو کر رہے گی اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے بدر کی لڑائی کے زمانہ سے اسلام کی جو ترقی شروع ہوئی وہ ظاہر ہے :۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:7) واذ۔ جب۔ اس سے قبل اذکر محذوف ہے (یاد کرو) یعنی اذکراذ ۔۔ یاد کرو جب۔ یعدکم۔ وعد یعد (ضرب) وہ وعدہ کرتا ہے۔ مضارع واحد مذکر غائب کم ضمیر مفعول ۔ جمع مذکر حاضر۔ یہاں مضارع بمعنی ماضی استعمال ہوا ہے۔ جب اس نے تم سے (دو گروہوں میں سے ایک کا) وعدہ کیا تھا۔ احدی الطائفتین۔ دو گروہوں میں سے ایک ۔ یع... د کا مفعول ثانی ہے۔ انھا لکم۔ کہ وہ تمہارے لئے ہے۔ احدی الطائفتین کا بدل ہے۔ یہاں طائفتان (دو گروہ) سے مراد۔ ایک تو وہ قافلہ جو شام سے سامان تجارت لئے جا رہا تھا ۔ اور دوسرا وہ مسلح لشکر جو ابو سفیان کی قیادت میں مدینہ کی طرف بڑھا چلا آرہا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ تھا کہ ان دونوں میں سے ایک پر تمہیں غلبہ دیا جائے گا (جسے تم منتخب کرو گے) تودون۔ تم چاہتے ہو۔ ود سے مضارع جمع مذکر حاضر۔ باب سمع۔ مودۃ مصدر ودود صیغہ مبالغہ۔ بہت چاہنے والا۔ بہت کرنے والا۔ ثواب دینے والا۔ السوکۃ۔ کانٹا۔ مجازاً ہتھیار اور سختی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ غیر ذات الشوکۃ۔ جو قافلہ بغیر ہتھیاروں کے تھا۔ (یہاں مراد تجارتی قافلہ جو شام سے آیا تھا) ۔ یحق۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ منصوب بوجہ عمل ان احقاق مصدر۔ سچ کو سچ کر دکھائے حق کو قائم کر دے۔ حق کو ثابت کر دے۔ (باب افعال) ۔ بکلمتہ۔ بایاتہ اور بامرہ اپنی نشانیوں سے (یعنی عین لڑائی کے دوران فرشتوں کا مومنوں کی امداد کے لئے نزول اور کفار کے دلوں میں رعب کا چھا جانا۔ یا اپنے ارشاد و حکم کے ذریعہ سے۔ کہ لڑنے کا حکم دے کر باوجود کمی اسلحہ و قلت تعداد کے بانجام مسلمانوں کو فتح عطا کرنا ۔ یقطع۔ مضارع واحد مذکر غائب منصوب بوجہ عمل ان قطع مصدر۔ تاکہ کاٹ دے۔ تاکہ ہلاک کر دے ۔ (باب فتح) دابر۔ جڑ۔ بیج ۔ بنیاد۔ پچھاڑی۔ پیچھا۔ وبور سے جس کے معنی پشت پھیرنے کے ہیں۔ اسم فاعل واحد مذکر۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی قافلہ یا کفار پر فتح اور اموال غنیمت۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس غلبہ کے باوجود اس کے تمام کفار قریش ہلاک نہ ہوئے تھے قطع دابر اس لیے کہا گیا کہ اس واقعہ سے ان کی قوت بالکل فنا ہوگئی تھی کیونکہ ان کے بڑے بڑے سردار ستر قتل اور ستر قید ہوئے تھے اس طرح گویا وہ سب ہی ختم ہوگئے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

شام کے لیے ایک تجارتی قافلہ تیار کیا کہ جس کی رقم کا پیشتر حصہ مدینہ فتح کرنے پر لگانا تھا ادھر نبی محترم بھی مکہ والوں کی سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہ تھے جناب عباس اور کچھ دوسرے لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ کے حالات سے باخبر رکھتے تھے۔ آپ کو تجارتی قافلہ کی غرض وغایت کا علم ہوا تو آپ نے ا... س قافلہ پر شبخون مارنے کا فیصلہ کیا۔ حالات کی تیزرفتاری کی وجہ سے آپ نے اعلان فرمایا کہ جو لوگ بھی اس ایمر جنسی میں تیار ہوسکتے ہیں وہ ہمارے ہم رکاب ہوجائیں۔ آپ کے اس فیصلے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر اپنی طرف منسوب فرمایا ہے کہ آپ کے رب نے ہی آپ کو آپ کے گھر سے نکالا تھا۔ یہاں گھر سے مراد مدینہ طیبہ کا گھر اور شہر ہے۔ بدر مدینہ طیبہ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر دور تھا جب آپ بدر کے مقام کے قریب پہنچے تو آپ کے مخبروں نے آپ کو اطلاع دی کہ قافلہ جرنیلی راستہ چھوڑ کر ساحلی راستہ اختیار کرکے یہاں سے نکل چکا ہے۔ راستہ تبدیل کرنے سے پہلے مکی قافلہ کے سربراہ ابو سفیان نے مکہ والوں کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے پیغام بھیجا کہ فوری طور پر قافلے کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے۔ مکہ والے پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھے تھے اس لیے ابو جہل نے حفاظتی دستہ بھیجنے کے بجائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابو سفیان کا نمائندہ مکہ پہنچا تو اس نے قدیم روایت کے مطابق شدید ترین ہنگامی صورت حال کا تاثر دینے کے لیے اپنی سواری کا ناک چیر ڈالا اپنا گریبان چاک کیا اور مکہ کے شاہر اہوں میں کھڑے ہو کر دہائی دی کہ قافلہ لٹنے ہی والا ہے۔ اس پر مکہ کے ایک ہزار سورما مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگئے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قریب جا کر اپنے ساتھیوں کو تجارتی قافلے اور مکہ کے لشکر کے بارے میں بتلایا۔ اور مشورہ طلب کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ اس پر تین سو تیرہ مجاہدین فکری طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک حصہ کا خیال تھا جس قافلہ کے لیے ہم آئے تھے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ہم تھوڑے اور بےسروسامان ہیں۔ اس لیے ہمیں واپس پلٹ جانا چاہیے۔ دوسرے فریق کا نکتہ نگاہ اس کے برعکس تھا۔ اس صورت حال میں آپ نے وقفہ، وقفہ کے بعد تین چار مرتبہ صحابہ سے فرمایا : اَشِیْرُوْا عَلیٰ ہٰذَا اَیُّہَا النَّاس لوگو مجھے مشورہ دو ۔ جس پر حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) نے عرض کی کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آخر دم تک آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ لیکن آپ کا مطمع نظریہ تھا کہ انصار کے نمائندے اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ جس کی مؤرخین نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ بیعت عقبہ کے موقع پر یہ بات طے پائی تھی کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ آئیں اگر کوئی آپ پر حملہ آور ہوا تو انصار اس کا دفاع کریں گے۔ اس لیے آپ نے مناسب جانا کہ انصار بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جونہی انصار نے آپ کا نقطہ نظر جانا تو وہ تڑپ گئے۔ ان کے نمائندے سعد بن معاذ (رض) نے اٹھ کر عرض کی یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اگر آپ ہمیں سمندر میں چھلانگ لگانے کا حکم دیں تو ہمیں اس کے لیے بھی تیار پائیں گے۔ کل جب دشمن سے مقابلہ ہوگا تو ہم اس طرح اپنی جان پر کھیل جائیں گے۔ جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی پھر حضرت مقداد (رض) اٹھے اور انھوں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ آپ ہمیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح نہیں پائیں گے جنھوں نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ! آپ اور آپ کا خدا لڑیں ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ اے اللہ کے رسول ! آپ حبشہ کے دو دراز علاقہ ” برق الغماد “ تک جانا چاہیں تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان جذبات اور بھرپور تائید کے ساتھ آپ نے بدر کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ جس کی تائید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ کا گھر سے نکلنا اور بدر کی طرف روانہ ہونا۔ اللہ تعالیٰ ہی کا آپ کو حق کے ساتھ نکالنا تھا۔ حق سے مراد دین کی سربلندی کے لیے بروقت نکلنا اور صحیح فیصلہ کرنا ہے۔ حضرت مقدار (رض) کا دلیرانہ جواب : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ قَالَ الْمِقْدَادُ (رض) یَوْمَ بَدْرٍ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنَّا لَا نَقُولُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَاءِیلَ لِمُوسٰی فَاذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَا ہُنَا قَاعِدُونَ وَلَکِنْ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ فَکَأَنَّہُ سُرِّیَ عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب قول اللّٰہ اذ تستغیثون ربکم ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں حضرت مقداد (رض) نے بدر کے دن رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ہم اس طرح نہیں کہیں گے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان سے کہا تھا تم اور تمہارا پروردگار دونوں جاؤ اور لڑو۔ ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں آپ نکلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات سے خوش ہوگئے۔ “ یہاں جھگڑا کرنے سے مراد بحث و تکرار ہے۔ صحابہ (رض) کی دوسری جماعت کا خیال تھا کہ ہم سراسر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن کہہ رہا ہے کہ گویا کہ وہ موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ کیا تھا کہ دو جماعتوں میں کوئی ایک جماعت تمہارے ہاتھ لگے گی۔ یعنی تجارتی قافلہ یا مکہ کے لشکر سے مڈ بھیڑ ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ آج حق کو اپنے حکم کے ساتھ بالا کر دے اور کفار کی جڑ کاٹ دے حق و باطل کے درمیان ہمیشہ کے لیے فیصلہ اور امتیاز ہوجائے خواہ یہ بات مجرموں کے لیے کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو ثابت کرنے کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غزوۂ بدر کے لیے نکالا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنین کو مشکل وقت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ حق کو سچا ثابت کرتا ہے اگرچہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناپسند ہو۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے وعدے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ زمین میں خلیفہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ (النور : ٥٥) ٢۔ مومنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔ (المائدۃ : ٩، الفتح : ٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ مومن مرد مومن عورتوں کے ساتھ جنت کا وعدہ کرتا ہے۔ (التوبۃ : ٧٢) ٤۔ ہر مومن کے ساتھ اللہ نے اچھا وعدہ فرمایا ہے۔ (النساء : ٩٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ (ابراہیم : ٢٢) ٦۔ اے اللہ ہمیں اس جنت میں داخل فرما جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ (المومن : ٨) ٧۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ (آل عمراٰن : ٩) ٨۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یونس : ٥٥) ٩۔ اے لوگو ! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں مبتلانہ کرے۔ (فاطر : ٥) ١٠۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا ہو۔ (النساء : ١٢٢) ١١۔ اللہ نے تمہارے ساتھ اپناوعدہ سچا کر دکھایاجب تم کفار کو اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے۔ (آل عمراٰن : ١٥٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7: یہ دوسری علت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ دونوں (لشکر اور تجارتی قافہ) میں سے ایک پر تم کو ضرور فتح دوں گا تم نے ب سروسامان قافلہ پر حملہ کرنا پسند کیا مگر اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ تمہیں اس قلت عدد اور بےسروسامانی کے ساتھ مشرکین کے مضبوط لشکر سے لڑا کر دین حق کو بلند اور باطل کو سرنگوں کرے اور ... مشرکین کی جڑ ہی کاٹ ڈالے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے تم سے یہ وعدہ کررہا تھا یعنی رسول کے واسطے سے کہ دو جماعتوں میں سے ایک جماعت تمہارے قابو میں آجائے گی ، اور تمہارے ہاتھ لگ جائے گی ، یعنی یا تو لشکر سے مقابلہ ہوگا، اور وہ مغلوب ہوجائے گا یا کفار قریش کے قافلہ پر قبضہ کرلو گے اور تم یہ چاہتے تھے اور تمہاری خواہش یہ ... تھی کہ تم کو غیر مسلح اور بےکانٹے والی جماعت ہاتھ لگ جائے، یعنی قافلہ قبضہ میں آجائے جس میں مقابلہ کرنے کی طاقت ہی نہ ہو، مگر اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے احکام سے اور اپنی باتوں سے سچ کو سچ کردکھائے اور حق کو ثابت کردے اور منکرین حق کی جڑ کاٹ دے اور ان کی بنیادیں ہلا دے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں حضرت نے فرمایا قافلہ یا مدد ہمارے ہاتھ لگے گی لوگ چاہنے لگے کہ قافلہ ہاتھ لگے اور بہر ہوا یہی کہ کفر کا زور ٹوٹا۔ مطلب یہ ہے کہ قافلہ پر قبضہ کرلو گے اور اگر مقابلہ لشکر سے ہوا تو خدا تعالیٰ کی مدد تم کو میسر ہوگی۔  Show more