Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 74

سورة الأنفال

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾

But those who have believed and emigrated and fought in the cause of Allah and those who gave shelter and aided - it is they who are the believers, truly. For them is forgiveness and noble provision.

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی ۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں ، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Believers in Truth Allah says; وَالَّذِينَ امَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ اوَواْ وَّنَصَرُواْ أُولَـيِكَ هُمُ الْمُوْمِنُونَ حَقًّا لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ And those who believed, and emigrated and strove hard in the cause of Allah (Al-Jihad), as well as those who gave (them) asylum and aid -- these are the believers in truth, for them is forgiveness and a generous provision. After Allah affirmed the ruling of loyalty and protection between the believers in this life, He then mentioned their destination in the Hereafter. Allah also affirmed the faith of the believers, just as mentioned in the beginning of this Surah, and that He will reward them with forgiveness and by erasing their sins, if they have any. He also promised them honorable provisions that are abundant, pure, everlasting and eternal; provisions that never end or run out, nor will they ever cause boredom, for they are delightful and come in great varieties.

مہاجر اور انصار میں وحدت مومنوں کا دنیوی حکم ذکر فرما کر اب آخرت کا حال بیان فرما رہا ہے ان کے ایمان کی سچائی ظاہر کر رہا ہے جیسے کہ سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے انہیں بخشش ملے گی ان کے گناہ معاف ہوں گے انہیں عزت کی پاک روزی ملے گی جو برکت والی ہمیشگی والی طیب و طاہر ہوگی قسم قسم کی لذیذ عمدہ اور نہ ختم ہو نے والی ہوگی ۔ ان کی اتباع کرنے والے ایمان و عمل صالح میں ان کا ساتھ دینے والے آخرت میں بھی درجوں میں ان کے ساتھ ہی ہوں گے ۔ ( وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ١٠٠؁ ) 9- التوبہ:100 ) اور ( وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ 10۝ۧ ) 59- الحشر:10 ) ) میں ہے ۔ متفق علیہ بلکہ متواتر حدیث میں ہے کہ انسان اس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے جو کسی قوم سے محبت رکھے وہ ان میں سے ہی ہے ۔ ایک روایت میں ہے اس کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا ۔ مسند احمد کی حدیث گذر چکی ہے کہ مہاجر و انصار آپس میں ایک دوسری کے ولی ہیں فتح مکہ کے بعد مسلمان قریشی اور ثقیف کے آزاد شدہ آپس میں ایک ہیں ، قیامت تک یہ سب آپس میں ولی ہیں ۔ پھر اولو الارحام کا بیان ہوا یہاں ان سے مراد وہی قرابت دار نہیں جو علماء فرائض کے نزدیک اس نام سے یاد کئے جاتے ہیں یعنی جن کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور جو عصبہ بھی ہوں جیسے خالہ ماموں پھوپھی تو اسے نواسیاں بھانجے بھانجیاں وغیرہ ۔ بعض کا یہی خیال ہے آیت سے حجت پکڑتے ہیں اور اسے اس بارے میں صراحت والی بتاتے ہیں ۔ یہ نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے تمام قرابت داروں کو شامل ہے جیسے کہ ابن عباس مجاہد عکرمہ حسن قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ ناسخ ہے آپس کی قسموں پر وارث بننے کی اور بھائی چارے پر وارث بننے کی جو پہلے دستور تھا پس یہ علماء فرائض کے ذوی الارحام کو شامل ہوگی خاص نام کے ساتھ ۔ اور جو انہیں وارث نہیں بناتے ان کے پاس کئی دلیلیں ہیں سب سے قوی یہ حدیث ہے کہ اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دلوادیا ہے پس کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ بھی حقدار ہوتے تو ان کے بھی حصے مقرر ہو جاتے جب یہ نہیں تو وہ بھی نہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 یہ مہاجرین و انصار کے انہی دو گروہوں کا تذکرہ ہے، جو پہلے بھی گزرا ہے۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر ان کی فضیلت کے سلسلے میں ہے۔ جب کہ پہلے ان کا ذکر آپس میں ایک دوسرے کی حمایت و نصرت کی وجہ بیان کرنے کے لئے تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] مہاجرین و انصار کی فضیلت :۔ اس لیے جس آڑے وقت میں اسلام کی سربلندی کے لیے ان مہاجرین و انصار نے اپنی جان اور مال سے قربانیاں پیش کی ہیں۔ ان کا اعزاز اور ان کے درجات یقیناً ان مسلمانوں سے بلند ہوں گے اور ہونے چاہئیں جو اس وقت ایمان لائے یا ہجرت کی یا جہاد کیا۔ جبکہ اسلام پوری طرح جڑ پکڑ چکا ہے اور اس وقت اسلام لانے میں کسی خوف و خطر کی فکر تو درکنار فائدہ ہی فائدہ نظر آ رہا تھا۔ ان دونوں قسم کے مسلمانوں میں حقیقی اور راست باز مسلمان تو وہی قرار دیئے جاسکتے ہیں جنہوں نے کئی قسم کے خطرات مول لے کر اپنے گھر اور وطن کو خیر باد کہا یا پھر وہ لوگ جنہوں نے ان خستہ حال مسلمانوں کو وہاں پہنچتے ہی اپنے گلے سے لگا لیا اور اس طرح مہاجرین و انصار دونوں نے اپنے اسلام کے دعویٰ پر اپنے عمل سے مہر تصدیق ثبت کردی۔ یقیناً یہی لوگ زیادہ اجر وثواب کے مستحق ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا : اس آیت میں مسلمانوں کے پہلے دو گروہوں، یعنی مہاجرین اولین اور انصار کی تعریف فرمائی ہے، کیونکہ پہلے ان کا ذکر باہمی دوستی اور تعاون کی تاکید کے لیے تھا۔ اس آیت میں ان کی تعریف تین طرح سے کی ہے، پہلا تو یہ کہ یہ لوگ ایمان، ہجرت، جہاد اور اہل ایمان کو جگہ دینے اور نصرت کی وجہ سے پکے مومن ہیں، بخلاف ان کے جو ایمان تو لائے مگر ہجرت نہیں کی، جس کی وجہ ان کے ایمان کی خامی ہے۔ دیکھیے سورة نساء (٩٧) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان مہاجرین و انصار کے لیے (اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ) بہت بڑی سند ہے۔ دوسرا ان کے لیے عظیم مغفرت اور بخشش ہے۔ ” مَّغْفِرَةٌ“ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ تیسرا یہ کہ ان کے لیے رزق کریم ہے، اس میں جنت کی بیشمار نعمتوں کے ساتھ دنیا میں باعزت روزی کا وعدہ ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں کہ دنیا میں عزت کی روزی سے مراد مال غنیمت اور فے ہے، جو خالص ان لوگوں کا حق ہے جو سردار کے ساتھ شریک جنگ ہوں۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mentioned in the third verse (74) are words of praise for the Saha¬bah who emigrated from Makkah and for the Ansar of Madinah who helped them, as well as the attestation to their being true Muslims and the promise of forgiveness and respectable provision made to them. When it was said: أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (those are the believers in truth), the hint given was in the direction that those who did not mi¬grate were though Muslims, but their Islam was neither perfect, nor certain - because there existed the probability that they may really be hypocrites professing Islam only outwardly. After that, it was said: لَّهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ (For them there is forgiveness) - as it has been explained in sound (Sahih) Ahadith: اَلاِسلَامُ یَھدِمُ مَا کَانَ قَبلَہ (Islam demolishes what was before it) and: والھِجرَۃُ تَھدِمُ مَا کَانَ قَبلَھَا (Hijrah razes what was before it). In short, this means that the act of becoming a Muslim goes on to demolish the entire edifice of past sins. Similarly, the making of Hijrah razes all past sins.

تیسری آیت میں مکہ سے ہجرت کرنے والے صحابہ اور ان کی مدد کرنے والے انصار مدینہ کی تعریف و ثنا اور ان کے سچا مسلمان ہونے کی شہادت اور ان سے مغفرت اور باعزت روزی کا وعدہ مذکور ہے ارشاد فرمایا (آیت) اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤ ْمِنُوْنَ حَقًّا یعنی یہی لوگ سچے پکے مسلمان ہیں اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ ہجرت نہ کرنے والے حضرات بھی اگرچہ مسلمان ہیں مگر ان کا اسلام کامل بھی نہیں اور یقینی بھی نہیں کیونکہ یہ احتمال بھی ہے کہ دراصل منافق ہوں بظاہر اسلام کا دعوی رکھتے ہوں۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ۔ یعنی ان کے لئے مقرر ہے مغفرت جیسا کہ صحیح احادیث میں ہے الاسلام یھدم ما کان قبلہ والھجرة تھدم ما کان قبلہا۔ یعنی مسلمان ہوجانا پچھلے سب گناہوں کے انبار کو ڈھا دیتا ہے اسی طرح ہجرت کرنا پچھلے سب گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۝ ٠ ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝ ٧٤ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معیز یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) اور جو حضرات پہلے پہلے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور ہجرت کے زمانہ میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور شروع ہی سے اطاعت خداوندی میں جہاد کیا اور جن حضرات نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان مہاجرین کو مدینہ منورہ میں اپنے ہاں ٹھہرایا اور بدر کے دن ان کی مدد کی یہ لوگ تو صدق اور یقین کے اعتبار سے ایمان کا پورا حق ادا کرنے والے ہیں، دنیا میں ان کے گناہوں کی معافی اور جنت میں ان کے لیے بہت ہی بہترین بدلہ ہے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا) (اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ ) یہاں پر مہاجرین اور انصار کے ان دونوں گروہوں کا اکٹھے ذکر کر کے ان مؤمنین صادقین کی خصوصیات کے حوالے سے ایک حقیقی مؤمن کی تعریف (definition) کے دوسرے رخ کی جھلک دکھائی گئی ہے ‘ جبکہ اس کے پہلے حصے یا رخ کے بارے میں ہم اسی سورت کی آیت ٢ اور ٣ میں پڑھ آئے ہیں۔ لہٰذا آگے بڑھنے سے پہلے مذکورہ آیات کے مضمون کو ایک دفعہ پھر ذہن میں تازہ کرلیجئے۔ اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے (بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ ۔۔ ) ‘ یعنی کلمۂ شہادت ‘ نماز ‘ روزہ ‘ حج اور زکوٰۃ۔ یہ پانچ ارکان مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہیں ‘ لیکن حقیقی مؤمن ہونے کے لیے ان میں دو چیزوں کا مزید اضافہ ہوگا ‘ جن کا ذکر ہمیں سورة الحجرات کی آیت ١٥ میں ملتا ہے : یقین قلبی اور جہاد فی سبیل اللہ۔ یعنی ایمان میں زبان کی شہادت کے ساتھ یقین قلبیکا اضافہ ہوگا اور اعمال میں نماز ‘ روزہ ‘ حج اور زکوٰۃ کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا۔ گویا یہ سات چیزیں یا سات شرطیں پوری ہوں گی تو ایک شخص بندۂ مؤمن کہلائے گا۔ اس بندۂ مؤمن کی شخصیت کا جو نقشہ اس سورت کی آیت ٢ اور ٣ میں دیا گیا ہے اس کے مطابق اس کے دل میں یقین والا ایمان ہے ‘ اللہ کی یاد سے اس کا دل لرز اٹھتا ہے ‘ آیات قرآنی پڑھتا ہے یا سنتا ہے تو دل میں ایمان بڑھ جاتا ہے۔ وہ ہر معاملے میں اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ رکھتا ہے ‘ نماز قائم کرتا ہے ‘ زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اِن خصوصیات کے ساتھ (اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط) کی مہر لگا دی گئی اور اس مہر کے ساتھ وہاں پر (آیت ٤) مؤمن کی شخصیت کا ایک رخ یا ایک صفحہ مکمل ہوگیا۔ اب بندۂ مؤمن کی شخصیت کا دوسرا صفحہ یا رخ آیت زیر نظر میں یوں بیان ہوا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ لازمی شرط کے طور پر اس میں شامل کردیا گیا اور پھر اس پر بھی وہی مہر ثبت کی گئی ہے : (اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط) چناچہ یہ دونوں رخ مل کر بندۂ مؤمن کی تصویر مکمل ہوگئی۔ ایک شخصیت کی تصویر کے یہ دو رخ ایسے ہیں جن کو الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دو صفحے ہیں جن سے مل کر ایک ورق بنتا ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی شخصیتوں کے اندر یہ دونوں رخ ایک ساتھ پائے جاتے تھے ‘ مگر جیسے جیسے امت زوال پذیر ہوئی ‘ بندۂ مؤمن کی شخصیت کی خصوصیات کے بھی حصے بخرے کردیے گئے۔ بقول علامہ اقبالؔ : ؂ اڑائے کچھ ورق لالے نے ‘ کچھ نرگس نے ‘ کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری آج مسلمانوں کی مجموعی حالت یہ ہے کہ اگر کچھ حلقے ذکر کے لیے مخصوص ہیں تو ان کو جہاد اور فلسفۂ جہاد سے کوئی سروکار نہیں۔ دوسری طرف جہادی تحریکیں ہیں تو ان کو روحانی کیفیات سے شناسائی نہیں۔ لہٰذا آج امت کے دکھوں کے مداوا کرنے کے لیے ایسے اہل ایمان کی ضرورت ہے جن کی شخصیات میں یہ دونوں رنگ اکٹھے ایک ساتھ جلوہ گر ہوں۔ جب تک مؤمنین صادقین کی ایسی شخصیات وجود میں نہیں آئیں گی ‘ جن میں صحابہ کرام (رض) کی طرح دونوں پہلوؤں میں توازن ہو ‘ اس وقت تک مسلمان امت کی بگڑی تقدیر نہیں سنور سکتی۔ اگرچہ صحابہ کرام (رض) جیسی کیفیات کا پیدا ہونا تو آج نا ممکنات میں سے ہے ‘ لیکن کسی نہ کسی حد تک ان ہستیوں کا عکس اپنی شخصیات میں پیدا کرنے اور ایک ہی شخصیت کے اندر ان دونوں خصوصیات کا کچھ نہ کچھ توازن پیدا کرنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے۔ مثلاً ان میں سے ایک کیفیت ایک شخصیت کے اندر ٢٥ فیصد ہو اور دوسری کیفیت بھی ٢٥ فیصد کے لگ بھگ ہو تو قابل قبول ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ روحانی کیفیت تو ٧٠ فیصد ہو مگر جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ صفر ہے یا جہاد کا جذبہ تو ٨٠ فیصد ہے مگر روحانیت کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی تو ایسی شخصیت نظریاتی لحاظ سے غیر متوازن ہوگی۔ بہر حال ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت کی تکمیل کے لیے یہ دونوں رخ ناگزیر ہیں۔ ان کو اکٹھا کرنے اور ایک شخصیت میں توازن کے ساتھ جمع کرنے کی آج کے دور میں سخت ضرورت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

54: یعنی جن مسلمانوں نے ابھی ہجرت نہیں کی ہے، اگرچہ مؤمن وہ بھی ہیں، لیکن ان میں ابھی یہ کسر ہے کہ انہوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ دوسری طرف مہاجرین اور انصار میں یہ کسر نہیں ہے۔ اس لئے وہ صحیح معنیٰ میں مؤمن کہلانے کے مستحق ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٤۔ ٧٥۔ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین اور انصار اور ہجرت نہ کرنے والے مسلمان ان سب کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا جو لوگ ہجرت کر کے اور اپنا اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ میں چل آئے اور جو لوگ ان مہاجرین کے ہر طرح مددگار بنے بیشک وشبہ وہ کامل مومن ہیں ان کا عقبے کا انجام بیان کیا کہ ان کے واسطے آخرت میں بخشش ہے کیونکہ ان لوگوں نے اپنی جان اور مال سے کسی طرح دریغ نہ کیا ہر غنیمت ان کے واسطے حلال ہے اور آخرت میں جو نعمتیں ان کو ملیں گی وہ بےمشقت ہوں گی پھر اللہ پاک نے ان لوگوں کو بھی جو بعد میں ہجرت کر کے آئے انہیں مہاجرین اور انصار کے حکم میں داخل کیا کہ یہ لوگ پہلے اگرچہ مہاجرین کے ساتھ نہیں آئے مگر بعد میں تو اپنے گھر بار چھوڑ دئے مال چھوڑا کنبہ رشتہ چھوڑا محض خدا کے واسطے آئے ہیں اسلئے ان کے واسطے بھی مغفرت ہے جس طرح غنیمت میں الگ لوگوں کا حصہ ہے اسی طرح ان پچھلے مہاجرین کا بھی حصہ ہے پھر اللہ پاک نے قرابت کا ذکر فرمایا کہ جن لوگوں کے درمیان میں ناتہ رشتہ نہیں ہے ہجرت کی وجہ سے جو بھائی بندی ہوئی ہے اس سے اولے قرابت کا رشتہ ہے کیونکہ یہی باتیں لوح محفوظ کے موافق قرآن مجید میں ہیں پھر فرمایا کہ اللہ پاک ہر شے کا جاننے والا ہے اس لئے جتنے احکام اس نے لوح محفوظ کے موافق قرآن مجید میں نازل فرمائے ہیں ان میں سے کوئی بےفائدہ نہیں ہے ایک آیت میں کسی خاص سبب سے کوئی حکم ہوا اور پھر اس اسلام میں جب تک مسلمانوں کے پاس لڑائی کا سامان نہیں تھا تو مخالف لوگوں کے ایذا دینے کی حالت پر مسلمانوں کو درگذر کا حکم تھا پھر جب مسلمانوں کے پاس لڑائی کا سامان ہوگیا تو لڑائی کا حکم نازل ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ پھر جب مسلمان ابتدائے اسلام کی حالت میں ہوں تو وہی درگذر کا پہلا حکم قائم ہوجاویگا اسی طرح جب تک مہاجرین کے رشتہ دار مکہ سے مدینہ میں نہیں آئے تھے تو مہاجرین کے دینی بھائی انصار مہاجرین کے وارث قرار دئے گئے تھے پھر جب مہاجرین کے رشتہ دار مدینہ میں آگئے تو آیت اولو الا رحام نازل ہو کر اس کے موافق رشتہ داروں کی وراثت قائم ہوگئی لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی پہلی حالت کے موافق جب دیکھ کوئی مسلمان لاوارث فوت ہوا تو اس کے مسلمان بھائی اس کے مال کے حقدار قرار دئے گئے اور بیت المال میں وہ مال داخل ہو کر اس کے دینی بھائیوں کی ضرورتوں میں صرف ہوا چناچہ معتبر سند سے مسند امام احمد ابوداؤد وغیرہ میں مقدام بن بعدی کرب (رض) کی جو روایت ہے اس میں اس کا ذکر ہے ان ہی وجو ہات سے علامہ جلال الدین سیوطی (رح) نے اتقان میں اور شاہ ولی اللہ (رح) نے الفوز الکبیر میں آیت اولوالارحام سے کسی پہلے حکم کو منسوخ نہیں ٹھہرایا سورة نساء کی آیت ولکل جعلنا موالی (٤: ٣٣) کی تفسیر میں بھی یہ ناسخ منسوخ کا تذکرہ گذر چکا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 انکے مقابلے میں جو لوگ دارالاسلام قائم ہوجانے کے باوجود اس کی طرف ہجرت نہ کریں اور کافروں کی غلامی میں رہنے پر قانع ہوں ان اسلام کچا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ کہ دنیا میں عزت کی روزی سے مرادمال غنیمت اور فے ہے جو خالص ان لوگوں کو حق ہے جو سردرار کے ساتھ شریک جنگ ہوں ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کے مقابلہ میں مومنوں کا کردار اور ان کی آپس میں محبت۔ اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا وارث اور دوست قرار دیا گیا ہے۔ کفار اور جان بوجھ کر ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں سے لاتعلقی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر ان مسلمانوں کے ایمان کی تصدیق فرمائی جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت کرنے والے اور اس کفار سے تعلقات توڑتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف رہتے ہوئے مہاجروں کی ہر قسم کی امداد کرتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے ہاں پکے اور سچے مومن ہیں۔ ان کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور انھیں بہترین رزق سے نوازا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کی رضا کی خاطر ہجرت اور یہ کام کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں بھی مال واسباب سے مالا مال فرمایا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِینَۃَ فَآخَی النَّبِیُّ َ بَیْنَہُ وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ الْأَنْصَارِیّ ِ وَکَانَ سَعْدٌ ذَا غِنًی فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ أُقَاسِمُکَ مَالِی نِصْفَیْنِ وَأُزَوِّجُکَ قَالَ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِی أَہْلِکَ وَمَالِکَ دُلُّونِی عَلٰی السُّوقِ فَمَا رَجَعَ حَتَّی اسْتَفْضَلَ أَقِطًا وَسَمْنًا فَأَتَی بِہٖ أَہْلَ مَنْزِلِہِ فَمَکَثْنَا یَسِیرًا أَوْ مَا شَاء اللّٰہُ فَجَاءَ وَعَلَیْہِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَۃٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَہْیَمْ قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ مَا سُقْتَ إِلَیْہَا قَالَ نَوَاۃً مِّنْ ذَہَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ قَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ ) [ رواہ البخاری، کتاب البیوع، باب قول اللہ تعالیٰ فإذا قضیت الصلاۃ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں عبدالرحمن بن عوف (رض) مدینہ منورہ آئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ربیع انصاری (رض) اور ابن عوف (رض) کے درمیان مواخات قائم کی۔ سعد مال دار آدمی تھے۔ انھوں نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے کہا میں اپنے مال کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور آپ کے نکاح کا اہتمام کرتا ہوں عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے مال اور اہل میں برکت کرے۔ مجھے بازار کے بارے میں معلومات دیجیے وہ بازار گئے اور وہاں سے گھی اور پنیر لے کر واپس آئے۔ ہمیں مدینہ میں ٹھہرے کچھ دیر گزری تھی تو وہ آئے اور ان پر زرد رنگ کے نشانات تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے انصاری عورت سے شادی کی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے کتنا مہر ادا کیا ہے ؟ عبدالرحمن نے کہا گٹھلی کے برابر سونا یا اس کے کم و بیش سونا ادا کیا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ولیمہ کیجیے خواہ ایک بکری ہی ذبح کرو۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کرنا باعث مغفرت ہے۔ ٢۔ مسلمانوں کی مدد کرنے والوں کے لیے باعزت رزق ہے۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں کے لیے مغفرت ہے : ١۔ اللہ سے بخشش طلب کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (آل عمران : ١٣٦) ٢۔ اللہ کے راستے میں جان دینے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (آل عمران : ١٥٧) ٣۔ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (النساء : ٩٦) ٤۔ صبر کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (ہود : ١١) ٥۔ ایمان کے ساتھ صالح اعمال کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (الحج : ٥٠) ٦۔ پاکباز لوگوں کے لیے مغفرت ہے۔ (النور : ٢٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (یٰسٓ : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد قرآن کریم صریح الفاظ میں ان کو بتاتا ہے کہ حقیقی ایمان کا تحقق یوں ہوتا ہے وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ وہی سچے مومن ہیں ، بلکہ وہی مومن ہیں ، کے الفاظ پر غور کریں۔ گویا ایمان کی حقیقی صورت یہی ہے۔ اور اسی صورت میں اور اسی شکل میں حققی دین نشوونما پاتا ہے۔ دین اسلام کی حقیقت محض اعلان نظریہ سے وجود میں نہیں آتی۔ نہ مجرد عقیدے کو قبول کرلینے سے دین کی حقیقت وجود میں آجاتی ہے ، نہ صرف دین کے شعائر اور مراسم عبودیت کے بجا لانے ہی سے دین وجود میں آجاتا ہے۔ یہ دین ایک ایسا نظام حیات ہے اور وہ عملاً تب ہی وجود میں آتا ہے کہ جب وہ اجتماعی تحریکی معاشرے کی شکل میں وجود میں آئے۔ صرف عقیدے کی صورت میں اقرار سے حکماً تو دین وجود میں آجاتا ہے لیکن حقیقتاً وجود میں نہیں آتا۔ حقیقتاً تب وجود میں آتا ہے جب وہ ایک عملی تحریکی معاشرے اور اجتماعیت کی شکل اختیار کرے۔ ایسے ہی لوگ حقا مومن ہیں اور ان کے لیے مغفرت اور رزق کریم واجب ہے۔ یہاں رزق کریم کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہاں جہاد فی سبیل اللہ ، انفاق فی سبیل اللہ ، پناہ گاہ کی فراہمی اور امداد کی فراہمی اور دوسری مشکلات کا موضوع چل رہا ہے اور ان سب کاموں کے اوپر اجر و صلہ اللہ کی مغفرت ہے جو عظیم انعام اور مہمان نوازی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا : (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا) (الآیۃ) جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے مہاجرین کو ٹھکانہ دیا اور ان کی مدد کی یہ دونوں جماعتیں یعنی مہاجرین اور انصار سچے پکے مسلمان ہیں۔ اللہ کی طرف سے ان کے لیے بڑی مغفرت کا وعدہ ہے اور ان کے لیے عزت والی روزی مقرر ہے جو جنت میں ان کو نصیب ہوگی۔ اس آیت میں جہاں مہاجرین کی مدح ہے وہاں حضرات انصار کی بھی تعریف ہے اور دونوں جماعتوں کو مغفرت کی بشارت دی گئی ہے آخری آیت میں تین مضمون بیان فرمائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74: یہ مہاجرین اور انصار کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے اور ان کی کئی خوبیاں گنائی ہیں۔ مہاجرین کی ہجرت اور ان کے جنگ و قتال کو فی سبیل اللہ اور محض رضائے الٰہی کے لیے ہونے کا سر ٹیفیکیٹ عطا فرمایا اور دونوں فریق کے بارے میں “ اُوْلٓئِکَ ھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ حَقًّا ” نازل کرکے اعلان فرما دیا کہ مہاجرین وانصار نہایت سچے اور مخلص مؤمن تھے۔ “ لَھُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ ” سے ان کے مغفور الذنب اور جنتی ہونے کی تصدیق فرما دی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

74 اور جو لوگ ابتدائً مسلمان ہوئے اور ہجرت کے زمانے میں ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں انہوں نے جہاد بھی کیا اور وہ لوگ جنہوں نے مہاجرین کے رہنے اور بسنے کو جگہ دی اور انہوں نے مہاجرین کی مدد کی یہی سب لوگ حقیقی ایمان … والے ہیں ان کے لئے بڑی مغفرت اور باعزت روزی ہے۔ کچھ وہ لوگ تھے جنہوں نے اول اسلام قبول کیا اور ابتداء ہی میں ایمان لائے اور جب ہجرت کا دور شروع ہوا تو انہوں نے ہجرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ترک وطن بھی کیا ان مہاجرین اولین اور ان کی مدد کرنے والے انصار کو بشارت دی گئی ہے اور جو لوگ بعد میں ہجرت کرکے مدینہ آئے ان کا ذکر آگے آتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی سردار کے ساتھ رہنے والے مسلمان اعلیٰ ہیں گھر بیٹھنے والوں سے آخرت میں ان کو بخشش زیادہ اور دنیا میں روزی باعزت یعنی غنیمت اور نے حق ان کا ہے۔ 12 خلاصہ یہ کہ ان کے حقوق بعد کے مہاجرین سے فائق ہوں گے۔