تعارف سورة عبس سورة نمبر 80 کل رکوع 1 آیات 42 الفاظ و کلمات 130 حروف 533 مقام نزول مکہ مکرمہ تعارف۔ ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں عقبہ، شیبہ، ابوجہل، امیہ ابن خلف اور ابی ابن خلف جیسے بڑے بڑے قریشی سردار بیٹھے ہوئے تھے جنہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرما رہے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دلی خواہش اور تمنا تھی کہ قریش کے سردار اسلام قبول کرلیں تو سارے عرب میں دین کا چرچا عام ہوجائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان فرما رہے تھے کہ اچانک ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) آگئے انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اس وقت رنگ محفل کیا ہے۔ عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ہدایت دیجیے اور سیدھا راستہ دکھا دیجیے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی کسی آیت کا مطلب پوچھ رہے تھے۔ بہر حال نابینا ہونے کی وجہ سے انہیں معلوم نہ تھا کہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال پوچھنا مناسب تھا یا نہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شفقت سے فرمایا کہ میں ابھی بتا دیتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر سے سردران قریش سے خطاب شروع کردیا۔ کچھ دیر کے بعد نابینا صحابی (رض) نے پھر اپنے سوال کو دہرایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی یہ بات ناگوار گزری اور آپ کی پیشانی پر کچھ بل پڑگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بےرخی اختیار کی۔ سرداران قریش تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے اتھ کر چلے گئے اور کچھ انتظار کرکے حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم (رض) بھی واپس گھر لوٹ گئے اسی وقت حضرت جبرئیل وحی لے کر آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سورة عبس کی آیات پہنچائیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے چہرے پر بل پڑگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نابینا کی طرف توجہ نہ کی جو بڑے شوق اور تڑپ کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا معلوم ہے کہ اگر آپ اس کو نصیحت فرمادیتے تو وہ اس پر دھیان دیتا اور اس سے نفع حاصل کرتا ؟ جو شخص آپ کی باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف جھکے چلے جارہے ہیں حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی الزام نہیں ہے لیکن وہ شخص جو خود آپ کے پاس دوڑ کر اور لپک کر آرہا ہے اور وہ اپنے دل میں اللہ کا خوف بھی رکھتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی طرف سے بےرخی اختیار کررہے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اللہ کا کلام ( قرآن مجید) تو سراسر نصیحت ہی نصیحت ہے۔ جس کا دل چہاے وہ قبول کرلے۔ جو ایسے صحیفوں میں موجود ہے جو قابل احترام، بلند مرتبہ، پاکیزہ اور مقدس ہین۔ معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں۔ وہ کیسے بدنصیب لوگ ہیں اور اپنے آپ کو تباہی میں ڈال رہے ہیں جو اس سچائی کا انکار کرکے ناشکری کرر ہے ہیں۔ کبھی انسان نے اس بات پر غور کیا ہے کہ اللہ نے اس کو کس چیز سے پیدا کیا ہے ۔ ایک منی کے قطرے سے۔ اس نے اس آدمی کی تقدیر مقرر کی پھر اس کے لیے زندگی کے راستوں کو آسان کیا۔ اسی نے زندگی کے بعد اس کو موت سے ہم کنار کیا اور قبر میں پہنچاد یا۔ پھر جب چاہے گا وہ اسے دوبارہ زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرے گا۔ یہ کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ وہ اپنے اس فرض کو ادا نہیں کرتا جس کا اللہ نے اس کو حکم دیا تھا۔ حالانکہ اگر وہ غور کرے تو اس کو معلوم ہوگا کہ اللہ نے اس کو کتنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ کبھی انسان نے اپنی اس خوراک پر غور کیا جسے وہ کھتا ہے فرمایا کہ ہم نے پہلے تو خوب بارشیں برسائیں پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا پھر اس کے اندر غلہ، انگور، ترکاریاں، زیتون، کھجوریں، گھنے باغات، طرح طرح کے لذیذ اور مزیدارپھل پید اکیے اور اسی سے جانوروں کی غذا چارہ کو پیدا کیا تاکہ تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کی زندگی کا سامان میسر آجائے۔ لیکن یہ سب چیزیں اس وقت تک تمہارے پاس رہیں گی جب تک کانوں کو بہرا کردینے والی ہیبت ناک آواز (صور) نہیں آجاتی۔ جب وہ آواز بلند ہوگی یعنی صور پھونکا جائے گا وہ دن بھی عجیب ہوگا۔ اس دن آدمی اپنے بھائی، اپنے ماں باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد تک چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوگا اور اس وقت ہر شخص پر ایسی وحشت طاری ہوگی کہ اسے اپنے سوا کسی دوسرے کا ہوش تک نہ رہے گا یعنی کوئی کسی کو نہ پوچھے گا۔ اس دن کچھ چہرے تو ایسے ہوں گے جو چمک دمک رہے ہوں گے، ان کے چہرے شگفتہ اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر خاک اڑ رہی ہوگی اور غم کے مارے ان کے چہرے اداس اور تاریک ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے کفر اور ناشکری میں حد سے آگے بڑھ گئے ہوں گے۔
سورة عبس کا تعارف یہ سورت بھی اپنے نام سے شروع ہوتی ہے مکہ میں نازل ہوئی ایک رکوع پر محیط ہے جس کی بتالیس آیات ہیں۔ اس کی ابتدا ایک مخصوص واقعہ سے کی گئی جس کا ذکر اس کی تفسیر میں کردیا گیا ہے اس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر نصیحت سے منہ پھیرلے اس پر زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں اس شخص پر محنت کرنی چاہیے جو نصیحت حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بتلایا ہے کہ قرآن مجید ایسے صحیفوں میں درج ہے جو بڑے ہی محترم اور پاکیزہ ہیں ان تک دیانت دار ملائکہ کی رسائی ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات میں ایک مرکزی عنوان یہ ہے کہ انسان نے بالآخر مرنا ہے اور مر کر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی پیدائش اور خوراک پر غور کرنا چاہیے کہ جس طرح انسان عدم سے وجود میں آتا ہے اور بارش سے زمین نرم ہوتی ہے پھر اس سے مختلف قسم کے پھل اور اناج پیدا ہوتے ہیں اسی طرح ہی انسان کو قیامت کے دن زمین سے نکال لیا جائے گا۔ اس دن کی ابتداء ایسے دھماکے سے ہوگی جس کی آواز لوگوں کے کانوں کو بہرہ کر دے گی۔ لوگوں کی حالت یہ ہوگی آدمی اپنے بھائی، اپنی والدہ، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگ جائے گا ہر کوئی اپنی فکر میں ہوگا کوئی دوسرے کا خیال نہیں کرے گا اس دن نیک لوگوں کے چہرے ہشاش بشاش اور خوش وخرم ہوں گے اور مجرموں کے چہروں پر نحوست اور ذلت چھائی ہوگی۔
سورة عبس ایک نظر میں اس سورت کے پیراگراف قوی اور واضح ہیں اور اس میں بعض اہم حقائق بیان ہوئے ہیں ، جن کے گہرے اثرات ہیں۔ اس کی فضا ، اس کے مناظر اور اشارات نہایت گہرے ہیں ، ایک طرف عقل وخرد کے تاروں کو چھیڑ کر شعور میں ارتعاش پیدا کیا گیا ہے اور دوسری جانب کانوں میں نہایت ہی میٹھا نغمہ گونجتا ہے۔ پہلے پیرے میں سیرت النبوی کے مخصوص واقعہ پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے بعض اکابر کے ساتھ محو گفتگو تھے ، ان کے سامنے اسلام کی تشریح فرما رہے تھے کہ ایک غریب اور نابینا شخص آگئے جن کا نام عبداللہ ابن ام مکتوم تھا۔ ظاہر ہے کہ ان کو نابینا ہونے کی وجہ سے معلوم نہ تھا کہ آپ کی مجلس میں کون بیٹھا ہے اور آپ کس اہم کام میں مصروف ہیں۔ انہوں نے آتے ہی مطالبہ کردیا کہ اللہ نے آپ کو جو کچھ سکھایا ہے ، اس سے کچھ ان کو تعلیم دے دیں۔ ان کی اس مداخلت کو حضور نے ناپسند فرمایا۔ آپ کے چہرہ مبارک پر ناگواری کے آثار نمودار ہوگئے اور آپ نے چہرہ پھیرلیا۔ چناچہ اس سورت کے آغاز میں وحی الٰہی کے ذریعہ آپ کو سخت عتاب آیا۔ اس عتاب کے ذریعہ یہ قرار دیا گیا کہ اسلامی تحریک میں فیصلہ کن قدریں کیا ہیں اور اس دعوت کی حقیقت کیا ہے اور اس دعوت کا مزاج اور اخلاقیات کیا ہیں ؟ عبس وتولی…………کرام بررة (1:80 تا 16) ” ترش رو ہوا اور بےرخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمہیں کیا خبر ، شاید وہ سدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لئے نافع ہو ، جو شخص بےپروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو ، حالانکہ اگر بےرخی برتتے ہو۔ ہرگز نہیں ، یہ تو ایک نصیحت ہے ، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں ، بلند مرتبہ ہیں ، پاکیزہ ہیں ، معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں “۔ دوسرے پیراگراف میں بتایا گیا ہے کہ انسان ہمیشہ رب کا انکار کرتا ہے اور کھلے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس پیرگراف میں اس کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ وہ ذرا اپنے وجود اور مراحل حیات پر غور کرے کہ وہ کس طرح پیدا ہوا ، کس سے پیدا ہوا اور رب تعالیٰ نے اس کی زندگی کے لئے کیا کیا سہولیات فراہم کیں ؟ اور کس طرح اسکی موت ہوتی ہے اور پھر کس طرح اسے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ لیکن ان عبرت آموز حقیقتوں کے باوجود انسان احکام الٰہیہ میں تقصیرات کرتا ہے۔ قتل الانسان……………. ما امرہ (17:80 تا 23) ” قتل ہو انسان ، کیسا ناشکرا ہے یہ۔ کس چیز سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے ؟ نطفہ کی ایک بوند سے۔ اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی ، پھر اس کے لئے راہ آسان کی ، پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے وہ اسے دوبارہ اٹھا کھڑا کردے۔ ہرگز نہیں ، اس نے وہ فرض ادا نہیں کیا جس کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا “۔ تیسرے پیرے میں انسان کو اس اہم چیز کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو اس دنیا میں انسان کے لئے بہت اہم ہے یعنی انسان اور اس کے مویشیوں اور دوسرے حیوانات کی خوراک ، پھر اس خوراک کی فراہمی کے لئے اللہ نے جو تدابیر اور انتظامات فرمائے ہیں اور ان انتظامات کے اندر ایسے ہی متعین اندازے اور قدریں رکھی ہیں جس طرح اس کی تخلیق کے اندر متعین قدریں تھیں۔ فلینظر……………. ولانعامکم (24:80 تا 32) ” پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھئے۔ ہم نے خوب پانی لنڈھایا ، پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا ، پھر اس کے اندر اگائے غلے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے باغ اور طرح طرح کے پھل اور چارے تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کے لئے سامان زیست کے طور پر “۔ آخری پیرے میں شور قیامت کا ذکر ہے۔ یہ ایک ہولناک شور وشغب ہوگا۔ الصاخہ کے لفظ اور معنی دونوں خوفناک ہیں ، اس قدر کہ انسان صرف اس شور وشغب کی طرف متوجہ ہوگا اور تمام دوسرے امور اس کی نظروں سے اوجھل ہوں گے ، ذہن و شعور کے علاوہ انسان کا چہرہ بھی متاثر ہوگا۔ فاذا جآء ت…………الفجرة (33:80 تا 42) ” آخر کار جب وہ کان بہرے کردینے والی آواز بلند ہوگی…. اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔ کچھ چہرے اس روز دمک رہے ہوں گے ، ہشاش بشاش اور خوش وخرم ہوں گے۔ اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اڑرہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی۔ یہی کافر وفاجر لوگ ہوں گے “۔ اس سورت کی آیات اور پیروں کو اس طرح جھلکیوں کے انداز میں پیش کرنا بےحد اثر آفریں ہے۔ انسانی احساس پر اس کے گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ صرف پڑھتے ہی یہ جھلکیاں دل کا وہ حال کردیتی ہیں کہ اس کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اب ہم ان پیروں کی تفسیر تفصیلات سے لیں گے اور بعض ایسے نکات بھی بیان کریں گے جو سرسری نظر میں معلوم نہیں ہوتے۔