Surat Abas

Surah: 80

Verse: 11

سورة عبس

کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾

No! Indeed, these verses are a reminder;

یہ ٹھیک نہیں قرآن تو نصیحت ( کی چیز ) ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Nay; indeed it is an admonition. meaning, this Surah, or this advice in conveying knowledge equally among people, whether they are of noble or low class. Qatadah and As-Suddi both said, كَلَّ إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ "This means the Qur'an." فَمَن شَاء ذَكَرَهُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 یعنی غریب سے یہ روگردانی اور اصحاب حیثیت کی طرف خصوصی توجہ، یہ ٹھیک نہیں۔ مطلب ہے کہ، آئندہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] یعنی قرآن کی عزت و وقعت کا انحصار ایسے مغرور اور سر پھروں کے ماننے پر نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ قرآن کی نصیحت پر عمل نہیں کرتے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔ قرآن کو ان کی کیا پروا ہوسکتی ہے اور نہ ہی آپ کو ایسے لوگوں کے پیچھے پڑنے کی ضرورت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

کلا انھا تذکرہ…:” کلا “ ہرگز نہیں ، یعنی جو ہوا سو ہوا، آئندہ ہرگز اس طرح نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ قرآن تو ایک نصیحت ہے جو ہر خاص و عام کے لئے ہے، اس میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جانی چاہیے، پھر جو چاہے نصیحت قبول کرلے، اس کا اپنا فائدہ ہے اور کوئی متکبر اگر صنیحت سن لینے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتا تو آپ کو بھی قبول کرنے والوں کو چھوڑ کر اس کے پیھچے پڑنے کی ضرورت نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 That is, "You should never do so: do not give undue importance to those who have forgotten God and become proud of their high worldly position. The teaching of Islam is not such that it should be presented solicitously before him who spurns it, nor should a man like you try to invite these arrogant people to Islam in a way as may cause them the misunderstanding that you have a selfish motive connected with them, and that your mission would succeed only if they believed, otherwise not, whereas the fact is that the Truth is as self-sufficient of them as they are of the Truth." 4 The allusion is to the Qur'an.

سورة عَبَس حاشیہ نمبر :3 یعنی ایسا ہرگز نہ کرو ۔ خدا کو بھولے ہوئے اور اپنی دنیوی وجاہت پر پھولے ہوئے لوگوں کو بے جا اہمیت نہ دو ۔ نہ اسلام کی تعلیم ایسی چیز ہے کہ جو اس سے منہ موڑے اس کے سامنے اسے بالحاح پیش کیا جائے ، اور نہ تمہاری یہ شان ہے کہ ان مغرور لوگوں کو اسلام کی طرف لانے کے لیے کسی ایسے اندازے سے کوشش کرو جس سے یہ اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ تمہاری کوئی غرض ان سے اٹکی ہوئی ہے ، یہ مان لیں گے تو تمہاری دعوت فروغ پا سکے گی ورنہ ناکام ہو جائے گی ۔ حق ان سے اتنا ہی بے نیاز ہے جتنے یہ حق سے بے نیاز ہیں ۔ سورة عَبَس حاشیہ نمبر :4 مراد ہے قرآن ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:11) کلا انھا تذکرۃ : کلا حرف ردع وزجر ہے۔ ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے آئندہ کبھی ایسا نہ کرنا۔ (نیز ملاحظہ ہو 74:32) انھا : ان حرف مشبہ بالفعل ۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب اسم ان۔ تذکرۃ اس کی خبر۔ ھا کا مرجع القرآن ہے تانیث خبر کے اعتبار سے ہے۔ بیشک قرآن ایک نصیحت ہے۔ تذکرۃ نصیحت ، یاد دہانی۔ موعظۃ، یاد کرنے کی چیز۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام :” اللہ تعالیٰ “ سے ڈرنے اور ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید کی نصیحت پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی نصیحت بہتر نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ اس میں ہدایت اور گمراہی کو پوری طرح واضح کردیا ہے۔ ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے دل میں ہدایت کی طلب پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو شخص ہدایت کا طالب نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا کیونکہ اس کا فرمان ہے جو چاہے ہدایت حاصل کرے اور جو چاہے اپنے آپ کو گمراہی کے حوالے کیے رکھے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ہدایت اور کفر کا راستہ واضح کردیا ہے۔ (الدھر : ٣) قرآن مجید نصیحت کے لیے اتارا گیا ہے، قابل تکریم اوراق پر لکھا ہوا ہے جو اعلیٰ مقام پر رکھے ہوئے ہیں اور ہر قسم کی مداخلت سے پاک ہیں۔ ان تک ان ملائکہ کی رسائی ہے جو بڑے ہی معزز اور دیانت دار ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوح محفوظ سے قرآن مجید کا وہی حصہ نقل فرما کر جبریل امین کے حوالے کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ وہ نہایت امین اور ذمہ دار ہیں لہٰذا حضرت جبریل امین (علیہ السلام) سمیت کوئی فرشتہ بھی قرآن مجید کی زیر زبر میں فرق نہیں ڈال سکتا اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ” اللہ “ عالم الغیب ہے وہ غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس فرشتے کے جسے اس نے غیب کا علم دینے کے لیے پسند کرلیا ہو۔ اس کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے تاکہ ” اللہ “ جان لے کہ ملائکہ نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور وہ ان کے پورے ماحول کا حاطہ کیے ہوئے ہے اور ” اللہ “ نے ایک ایک چیز کو شمار کر رکھا ہے۔ (الجن : ٢٦ تا ٢٨) مسائل ١۔ قرآن مجید نصیحت کے لیے اتارا گیا ہے جو نصیحت کا خواہش مند ہے اسے اس کی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے۔ ٢۔ قرآن آسمان میں اعلیٰ مقام پر ررکھا ہوا ہے اللہ کے حکم سے اس تک ان ملائکہ کی رسائی ہے جو دیانت دار اور معزز ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انھا تذکرة ................................ کرام بررة (11:80 تا 16) ” یہ تو ایک نصیحت ہے ، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں ، بلند مرتبہ ہیں ، پاکیزہ ہیں ، معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں “۔ گویا یہ دعوت ہر لحاظ سے ایک قابل قدر دعوت ہے۔ اس کے صحیفے بھی مکرم ہیں۔ بلند مرتبہ اور پاکیزہ ہیں اور عالم بالا میں ان کا انتظام اور ان کی تبلیغ ایسے ہاتھوں میں دیا گیا ہے جو نیک اور معزز ہیں۔ لہٰذا دعوت اسلامی کے ساتھ جو بھی منسلک ہے ، دور سے یا نزدیک سے ، وہ مکرم اور نیک ہے اور اس دعوت کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے ، جو اس سے منہ موڑتے ہوں اور بےپروائی برتتے ہوں۔ یہ تو صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس کی برتری اور اس کی پاکیزگی کے قائل ہیں اور جو اس سے پاکیزگی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہے معیار ، اللہ کا مقرر کردہ معیار۔ اسی میزان کے مطابق میں ہمیں لوگوں کے اور اپنے اعمال اور اپنی حیشایت کو وزن کرنا ہوگا۔ یہ اللہ کا حکم ہے ، اللہ کا کلام ہے۔ اور اس کے مقابلے میں کسی بات کا کوئی وزن ہی نہیں رہتا ، ہر فعل اور ہر حکم اس سے فروتر ہے۔ یہ حکم کہاں دیا گیا اور یہ واقعہ کہاں پیش آیا ؟ مکہ میں ، جبکہ دعوت اسلامی کا ہر طرف سے پیچھا کیا جارہا تھا ، مسلمان بہت ہی کم تعداد میں تھے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان بااثر لوگوں کی طرف کسی ذاتی مقصد کے لئے بھی متوجہ نہ تھے۔ اور اس اندھے سے لاپروائی کسی ذاتی غرض کے لئے نہ تھی۔ حضور کے پیش نظر بھی صرف اور صرف دعوت اسلامی کا مفاد تھا لیکن اس دعوت کا ترازو یہ تھا۔ اس کی قدریں دوسری تھیں اس نے تو لوگوں کے لئے قدروں کا تعین کرنا تھا ، روایات کی تخلیق کرنی تھی ۔ یہ دعوت تب ہی کامیاب ، باوقار اور مضبوط ہوسکتی جب وہ ایسے پیمانے قائم کردیتی۔ یہ فقط ایک انفرادی واقعہ نہ تھا ، یہ ایک عظیم اصول تھا۔ نہ ایک معمولی اخلاقی برتاﺅ کا معاملہ تھا ، معاملہ یہ تھا کہ ایک اصولی اور دستوری مسئلہ درپیش تھا کہ لوگ نیک وبد کے پیمانے کہاں سے اخذ کریں۔ کیا زمین کے رسم و رواج سے یا آسمانی ہدایات سے ، زمینی اور عوامی زاویوں سے یا بارگاہ رب العزت سے ، جہاں سے یہ اصول وضع ہوا ہے۔ ان اکرمکم ................ انفسکم ” تم میں سے اللہ کے نزدیک معززوہ ہے جو تم میں سے متقی ہے “۔ اس دعوت اور اس تحریک میں وہی قابل لحاظ ہے جو اللہ کے نزدیک قابل لحاظ ہے۔ اگرچہ دنیاوی اعتبار سے وہ ان عناصر سے محروم ہو جو لوگوں کے نزدیک وزن دار ہیں۔ جن مناظر کا لوگوں پر دباﺅ ہے اور جن کو دنیا والوں کے نزدیک اہم سمجھا جاتا ہے ، مثلاً نسب وحسب ، افرادی اور مالی قوت ، اور دوسری قابل لحاظ باتیں۔ اگر یہ چیزیں ایمان سے خالی ہوں اور ان کے ساتھ تقویٰ کا رنگ نہ ہو ، تو اس دعوت میں ان کا کوئی وزن نہیں ہے۔ اس تحریک کے زاویہ سے اہم بات اور سب سے مقدم بات یہ ہے کہ ایک شخص اپنے حالات ایمان اور تقویٰ کے اعتبار سے درست کام کرے۔ اس واقعہ ، انفرادی اور جزوی واقعہ کے حوالے سے ، اللہ تعالیٰ اس عظیم حقیقت اور اس عظیم اصول کو ذہن نشین کرانا چاہتا تھا اور قرآنی انداز اصلاح اور تربیت کے عین مطابق ، جس میں ایک انفرادی واقعہ سے ایک عظیم اصول نکال کر لوگوں کے ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ یہ اصول پھر دستوری قاعدہ بن جاتا ہے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت ان ہدایات اور اس عتاب سے بےحد متاثر ہوئی۔ آپ نے نہایت جوش و خروش سے ان ہدایات کو قبول کیا اور ان پر عمل کرکے اس اصول اور دستور کو اسلامی معاشرے میں نافذ کیا۔ اس نئی جماعت کی عمارت اس اصول پر استوار ہوئی کہ یہ اسلامی معاشرے کی خشت اول تھی۔ آپ کا پہلا فرض یہ قرار پایا کہ آپ اس واقعہ کو قرآن کی ایک سورت کے طور پر خود بیان کریں۔ یہ ایک عظیم بات تھی۔ یہ خدا کا رسول ہی کرسکتا تھا۔ جس پہلو سے بھی ہم اس پر غور کریں۔ انسان اپنی کمزوریوں کو چھپاتا ہے۔ یہ رسول خدا ہی تھے جنہوں نے اس عتاب الٰہی کا برملا اعلان فرمایا اور یہ اعلان بھی اس منفرد انداز میں فرمایا۔ اگر نبی کے سوا کوئی اور لیڈر ہوتا تو وہ اپنی غلطی کا احساس کرلیتا ، آئندہ احتیاط کرتا ، لیکن اللہ کے نبی کا مقام تو کچھ اور ہوتا ہے۔ منصب نبوت کے آفاق تو کچھ اور ہوتے ہیں ، بہت بلند اور بہت دور رس۔ یہ نبی ہی تھا جو نہایت ہی مشکل اور نازک حالات میں ، قریش کے ایک بااثر اور مقدر لوگوں کے سامنے اس اصول کا اعلان کردیں۔ جبکہ اس نئی دعوت کے مقابلے میں یہ بااثر لوگ اپنے مالی افرادی اور خاندانی عزت وجاہ کے سب وسائل لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ایک ایسے معاشرے میں جس میں حسب ونسب اور عزت وجاہ کے سوا کوئی اور قدر رائج نہ تھی ، اس میں بات صرف یہ ہوتی تھی۔ محمد ابن عبداللہ ابن عبدالمطلب ، ابن ہاشم اور لوگ کہتے تھے۔ لولا انزل ................................ عظیم ” یہ قرآن دو گاﺅں کے کسی عظیم شخص پر کیوں نہیں اترا “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان کے اندر صاحب نسب تھے ، لیکن رئیس نہ تھے اور وہ تو صرف جاہ واقتدار کے پجاری تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے معاشرے میں ایک نبی اور وحی الٰہی ہی اس قسم کا عظیم انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ زمین پر رہنے والا کوئی شخص اور دنیاوی ذہن سے سوچنے والا کوئی فرد ایسا انقلابی اقدام نہیں کرسکتا اور خصوصاً ایسے حالات اور ایسے وقت میں جن میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت اسلامی کا کام کررہے تھے۔ یہ آسمانی قوت اور آسمانی ہدایت ہی تھی جس نے اس معاملے کو اس انداز پر چلایا ، یہ اصول نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ذریعہ ان مشکل حالات میں نافذ کیا گیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے نافذ کیا ، نہایت جوش و خروش ، نہایت قوت اور مضبوطی کے ساتھ اس دستور کو اس نئی سوسائٹی کی بنیادوں کے اندر رکھ دیا اور یہ امت مسلمہ کی زندگی میں ایک طویل عرصہ تک قائم ودائم رہا۔ یہ دراصل انسانیت کے لئے ایک دوسرا جنم تھا۔ جس طرح ایک انسان فطرتاً پیدا ہوتا ہے ، بلکہ انسانیت کا یہ جنم دراصل زیادہ قیمتی تھا۔ اس طرح کہ انسانی سوسائٹی ، کسی سرزمین میں متعارف جاری وساری قدروں کو خیر باد کہہ دے اور ایسی قدروں کو اپنا لے جو بالکل نئی ہوں۔ آسمانوں سے نازل شدہ ہوں۔ نئے تصورات ، نئے نظریات آجائیں ، ان تصورات ، نظریات ، حالات اور عملی روابط اور رسم و رواج کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ اور لوگ ان سابقہ تصورات اور روابط کے دباﺅ سے یکلخت آزاد ہوجائیں اور ان کے اندر جدید تصورات اور جدید قدریں رچ بس جائیں۔ وہ ان کو خوب سمجھ لیں۔ سب کے سب ان کو تسلیم کریں۔ اور یہ عظیم انقلاب برپا ہوجائے۔ یہ جدید قدریں مسلم سوسائٹی کے ضمیر میں نمایاں ہوں۔ اس کے قوانین میں واضح ہوں ، تو فی الواقعہ یہ انسانوں کے لئے ایک نیا جنم تھا۔ یہ عظیم انقلاب تھا جس کے برپا کرنے کے لئے ذات محمدی کو بھی تنبیہہ اور ہدایت کی ضرورت پیش آئی اور یہ انقلاب ابتدائی دور کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک طویل عرصے تک نمایاں رہا۔ ہم جدید دور کے لوگ دراصل اس عظیم انقلاب اور انسانیت کے اس جدید جنم کو کماحقہ سمجھ نہیں پا رہے ، اس لئے کہ ہمنے اس دنیا اور اس زمین کی قدروں ، زمین کے روابط اور اس دنیا کی حیشلیت اور نظریات کو ترک کرکے اپنے آپ کو اسلام کے مطابق نہیں ڈھالا۔ ہم پر مادیت اور مادی قدروں اور دنیاوی تصورات کا اس قدر غلبہ ہے کہ ہمارے دور کے بعض جاہل جو تاریخ کا مادی فلسفہ پیش کرتے ہیں۔ یہ سمجھنے لگے ہیں ، کہ عقائد و تصورات اور اعلیٰ قدریں اور علوم وفنون دراصل مادی حالات اور مادی اور معاشی قدروں کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح تمام رسوم ورواجات اور اصول وقوانین جو اصل معاشی قدروں کی پیداوار ہوتے ہیں ، یہ لوگ بےحد جاہل ہیں اور یہ نفس انسانی کے نشیب و فراز سے بالکل ناواقف ہیں۔ بہرحال اسلام نے جو انقلاب رونما کیا وہ ایک معجزہ تھا اور انسانوں کے لئے ایک نیا جنم تھا۔ انسانیت کے اس نئے جنم کے بعد اور اس عظیم انقلاب کے بعد ، دنیا کی فضا پر یہ قدریں حاوی رہیں ، لیکن ایک عربی معاشرے میں ان کا حاوی ہونا اس قدر آسان نہ تھا ، نہ مسلمانوں کے نفوس پر ان کا حاوی ہونا کوئی سہل الحصول ٹارگٹ تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اپنے ذاتی کمالات ، پھر ارادہ الٰہی ، پھر خدا کی طرف سے ہدایات وتصرفات اور پھر قرآن کریم کی ہدایات پر گرم جوشی سے عمل پیرا ہونے کے شوق کی وجہ سے ، ان عظیم اصولوں اور قدروں کو لوگوں کے شعور اور ضمیر میں بٹھایا ، ایک پودے کی طرح ان کے دلوں میں یہ نئی اخلاقیات اور قدریں کاشت کی گئیں ، پھر ان کی سخت نگہداشت کی گئی تاکہ ان کی جڑیں مضبوط ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی سوسائٹی پر صدیاں گزر گئیں لیکن یہ قدریں اپنی جگہ جمی ہوئی ہیں حالن کہ ان صدیوں میں باد مخالف کے بڑے بڑے طوفان گزر گئے اور بیشمار عوامل ان قدروں کے خلاف کام کرتے رہے۔ اس واقعہ کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب بھی ابن ام مکتوم کی ملاقات ہوئی ، آپ ان کو ان کلمات کے ساتھ خوش آمدید کہتے۔” آئیے صاحب تمہاری وجہ سے مجھے اللہ جل شانہ نے سختی سے ٹوکا “۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اندھے فقیر کو دو بار اپنی زندگی میں مدینے کا گورنر بنایا۔ عربی معاشرے میں کسی کو رشتہ دینا ، ایک بڑا احساس مسئلہ تھا۔ اس معاملے میں جہاں لڑی کی جاتی تھی ، ان لوگوں کے لئے سخت معیار تھا ، آپ نے اپنی پھوپھی زاد زینب بنت جحش اسدیہ کو اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کے نکاح میں دلوایا تاکہ ان جاہلی قدروں پر ضرب لگائی جاسکے۔ اس سے قبل جب آپ کے مدینہ میں مواخات کا نظام قائم کیا تو اپنے چچا حمزہ کا بھائی اپنے اسی آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو بنادیا۔ اور حضرت بلال ابن رباح کو حضرت خالد ابن رویحہ الخثعمی کا بھائی بنادیا۔ حضرت زید کو غزوہ موتہ میں امیر بنایا۔ یہ اس غزوہ کے پہلے امیر تھے۔ اس کے بعد جعفر ابن ابوطالب کا نمبر تھا ، پھر عبداللہ ابن رواحہ انصاری کا۔ اس لشکر میں تین ہزار انصار اور مہاجرین تھے جن میں خالد ابن ولید بھی تھے۔ اس لشکر کو رخصت کرنے کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود نکلے۔ اس جنگ میں یہ تینوں شہید ہوگئے تھے۔ اللہ ان سے راضی ہو۔ اور آپ کے آخری احکامات میں سے یہ حکم تھا کہ آپ نے حضرت اسامہ ابن زید کو رومیوں کے ساتھ جنگ کے لئے کمانڈر مقرر کیا۔ اس لشکر میں بیشمار انصار اور مہاجرین شامل تھے۔ ان میں حضرت ابوبکر (رض) وحضرت عمر (رض) جیسے لوگ بھی تھے جو آپ کے ساتھی اور وزیرومشیر تھے اور جو آپ کے بعد خلیفہ تھے۔ نیز حضرت سعد ابن وقاص بھی تھے جو آپ کے قریبی بھی تھے اور قریش میں سے قدیم الاسلام تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت اسامہ کی امارت پر تعجب کا اظہار بھی کیا ، کیونکہ وہ بالکل کم عمر نوجوان تھے۔ حضرت ابن عمر (رض) روایت کرتے ہیں ، ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک لشکر روانہ فرمایا اور اس پر اسامہ ابن زید کو امیر مقرر فرمایا ، بعض لوگوں نے ان کی امارت پر اعتراض کیا تو آپ نے کہا اگر تم اسامہ ابن زید کی امارت میں طعن کرتے ہو تو تم نے اس سے قبل ان کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا ، خدا کی قسم ! وہ امارت کے اہل تھا اور مجھے سب لوگوں میں نہایت محبوب تھا اور یہ بھی مجھے تمام لوگوں سے محبوب ہے “۔ (شیخین اور ترمذی) اور جب سلمان فارسی (رض) کے بارے میں بعض لوگوں نے نازیبا الفاظ کہے اور عربی اور فارسی کے حوالے سے بات کی۔ اور ان باتوں سے محدود عربی قومیت کی بو آتی تھی ، تو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تصور پر بھی ایک فیصلہ کن ضرب لگائی اور فرمایا : ” سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے “۔ اور حضرت مسلمانوں کو آسمانی قدروں نے تمام گری ہوئی دنیاوی قدروں سے آگے بڑھا دیا اور وہ ایک لمحے میں آفاق سے بھی آگے بڑھ گئے اور محدود قومیت کی لکیریں مٹا دی گئیں جو عربوں کے نزدیک بہت اہم تھیں اور سلمان کو اہل بیت کا فرد قرار دیا (طبرانی وحاکم) ۔ جب حضرت ابوذر غفاری (رض) اور حضرت بلال (رض) کے درمیان تکرار ہوگئی اور حضرت ابوذر (رض) کی زبان سے یہ لفظ نکل گیا ” اے سیاہ فام عورت کے لڑکے “ تو اس پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شدیدطور پر غضب ناک ہوگئے اور اس بات کو حضرت ابوذر (رض) کے منہ پر مار دیا اور فرمایا : ” ابوذر پیمانے کو درست رکھو ، اسلام میں سفید عورت کے بیٹے کو سیاہ عورت کے بیٹے کے اوپر کوئی فضیلت نہیں ہے “۔ چناچہ آپ نے بات کو نہایت ہی ابتدائی جڑوں سے علیحدہ کردیا۔ اسلام ، اسلام ہے اور آسمانی قدروں پر مشتمل ہے اور جاہلیت ، جاہلیت ہے۔ اس کی قدریں زمینی ہیں۔ (ابن مبارک) حضرت ابوذر (رض) کے حساس دل پر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس بات کا سخت اثر ہوا ، انہوں نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی اور قسم اٹھائی کہ وہ اس وقت تک اپنی پیشانی کو اوپر نہ اٹھائیں گے جب تک بلال (رض) اسے روند نہ ڈالیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک اس بری بات کا کفارہ یہی ہے۔ جس ترازو کے مطابق حضرت بلال (رض) کو اس قدروزن حاصل ہوا تھا ، وہ آسمانی ترازو تھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے ، فرماتے ہیں ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بلال “ مجھے بتاﺅ کہ تم نے کون سا ایسا عمل کیا ہے جس پر تمہیں خدا کے ہاں بہت زیادہ اجر کی توقع ہے ؟ “ اس لئے کہ میں نے معراج کی رات ، جنت میں تمہارے جوتوں کی آواز سنی ہے “۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اسلام لانے کے بعد میں نے جب بھی مکمل پاکی اختیار کی ہے (وضو ، غسل) رات کو یا دن کو تو میں نے اس کے بعد نماز پڑھی ہے ، جس قدر اللہ نے میرے لئے مقدر کیے تھے ، بس وہ بات ہے جس سے میں امید کرتا ہوں کہ مجھے زیادہ ثواب ملے گا۔ (شیخین) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمار ابن یاسر کے بارے میں فرمایا کرتے تھے ، جب بھی انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اجازت چاہی ، ” اسے اجازت دو ، یہ پاک اور پاکباز ہے “۔ (نسائی) اور دوسری جگہ آپ نے فرمایا :” عمار سر سے پاﺅں تک ایمان سے پر ہے “۔ اور حضرت حذیفہ (رض) کے بارے میں فرمایا : ” مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں تمہارے اندر اب کتنا عرصہ رہوں گا ، لہٰذا ان دونوں کی پیروی کرو “۔ (حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کی طرف اشارہ کیا) اور عمار کے طریقے پر چلو اور تمہیں جو بات ابن مسعود نے بتائی ، اس کی تصدیق کرنا “۔ (ترمذی) حضرت ابن مسعود کی حالت تو یہ تھی کہ جو لوگ مدینہ کے رہنے والے نہ تھے ، وہ آتے تو حضرت ابن مسعود کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھرانے کا آدمی سمجھتے .... کیونکہ یہ اکثر آتے جاتے تھے اور بروقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہتے تھے۔ (شیخین وترمذی) ایک آزاد کردہ غلام جلسیب (رض) تھے ، ان کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہی رشتہ تلاش فرماتے تھے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تھے کہ انصار میں سے کوئی عورت ان کے لئے مل جائے۔ ایک لڑکی کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیغام دیا ، اس کے والدین نے انکار کردیا تو اس لڑکی نے کہا ، کیا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو رد کررہے ہو ؟ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر راضی ہیں تو مجھے اس شخص کے نکاح میں دے دو ۔ اس پر والدین راضی ہوگئے اور انہوں نے وہ لڑکی اسے نکاح کرکے دے دی۔ (احمد) یہ شخص اپنی اس شادی کے بعد جلدی پیش آنے والی کسی جنگ میں گم ہوگئے۔ حضرت ابوبرزہ اسلمی روایت فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غزوہ میں شریک ہوئے۔ اللہ نے آپ کو فتح دی اور مال غنیمت بھی ملا۔ جنگ کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم کسی کو گم پاتے ہو ، تو لوگوں نے کہا ہاں فلاں فلاں اور فلاں نہیں ہیں۔ اس کے بعد آپ نے دوبارہ دریافت فرمایا کیا تم کسی کو گم پاتے ہو ، تو لوگوں نے کہا ہاں ، فلاں ، فلاں اور فلاں نہیں ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ کوئی اور شخص گم پارے ہو تو انہوں نے کہا نہیں اور تو کوئی گم نہیں ہے تو آپ نے فرمایا ہاں میں جلیسیب کو گم پاتا ہوں۔ لوگوں نے انہیں تلاش کیا ، یہ سات مقتولین کفار کے پاس پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان سات کو قتل کردیا تھا ، جس کے بعد انہوں نے اسے شہید کردیا تھا۔ آپ ان کی لاش کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا اس نے سات قتل کردیا۔ بعد میں انہوں نے اسے شہید کردیا۔ یہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ اس کے بعد آپ نے اپنے دونوں بازوﺅں میں انہیں اٹھایا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بازوﺅں کے سوا ان کے لئے کوئی چارپائی نہ تھی۔ ان کے لئے قبر کھودی گئی اور انہیں قبر میں رکھ دیا گیا۔ راوی بےغسل کا ذکر نہیں کیا۔ (مسلم) اللہ کی ان ہدایات کے ذریعہ سے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس اسوہ حسنہ کی وجہ سے ، انسانیت کو ایک نیا جنم ملا۔ اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس میں حسن وقبح کے اصول آسمان سے لئے جاتے تھے۔ یہ معاشرہ اسی زمین پر ہوتے ہوئے بھی زمین کی گری پڑی اقدار سے آزاد تھا۔ یہ تھا اسلام کا عظیم معجزہ۔ یہ ایک عظیم معجزہ تھا اور کوئی معجزہ خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے بغیر صادر نہیں ہوسکتا۔ اس معجزے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ دین اللہ کا دین تھا اور جس ذات بابرکات نے یہ دین پیش کیا وہ اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھا۔ اور اللہ کی ایک خاص تدبیر تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آپ کے پہلے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق (رض) اس کے والی اور خلیفہ المسلمین بنے۔ اس کے بعد آپ کے دوسرے ساتھی حضرت عمر (رض) اس دین کے سربراہ بنے۔ یہ دوسرے خلیفہ دونوں میں سے اس نظام کو زیادہ سمجھنے والے تھے ، یہ زیادہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پرچلنے والے تھے اور رسول سے محبت کرنے والے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اور اطاعت کے میدان میں ان کے نقش قدم پرچلنے والے تھے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت اسامہ کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصرار کو سمجھ لیا تھا۔ اس لئے انہوں نے منصب امارت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے یہی کام کیا۔ یہ لشکر حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیار کیا تھا اور حضرت ابوبکر (رض) نے مدینہ کے باہر خود اسے الوداع کہا۔ اسامہ سوار تھے اور حضرت ابوبکر (رض) خلیفہ المسلمین ان کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت بسامہ کو حیا آگئی کہ وہ سوار ہوں اور بوڑھے خلیفہ پیدل ساتھ ساتھ جارہے ہوں۔ انہوں نے کہا : ” خلیفة المسلمین ، یا تو آپ سوار ہوں یا میں اترتا ہوں “۔ خلیفتہ المسلمین قسم اٹھاتے ہیں ” خدا کی قسم تم نہ اترو گے اور خدا کی قسم میں سوار بھی نہ ہوں گا ، کیا ہوجائے گا اگر میرے پاﺅں بھی اللہ کے راستہ میں غبار آلود ہوجائیں “۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے سوچا کہ آپ کو حضرت عمر (رض) کی ضرورت ہے کیونکہ آپ کے کاندھوں پر خلافت کا بوجھ پڑچکا ہے لیکن عمر تو جیش اسامہ کے ایک سپاہی ہیں۔ اسامہ امیر ہیں۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ اسامہ سے اجازت طلب کی جائے۔ چناچہ وہ کہتے ہیں ” اگر تم عمر (رض) کو ترک کرکے میری مدد کرسکتے ہو تو مناسب ہوگا “۔ ذرا الفاظ کو دیکھو ” اگر تم مناسب سمجھو تو حضرت عمر (رض) کو چھوڑ کر میری مدد کرو “۔ یہ ہیں وہ بلندیاں جن تک اسلام نے انسانوں کو پہنچا دیا۔ یہ معجزہ صرف اللہ کی مرضی سے ہوسکتا ہے اور ایک رسول ہی اسے سرانجام دے سکتے ہیں۔ زمانے کا پہیہ گھومتا ہے اور ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ حضرت عمر (رض) خلیفہ ہیں اور وہ حضرت عمار ابن یاسر کو کوفہ کا حاکم مقرر کرتے ہیں۔ ایک وقت یوں بھی آتا ہے کہ حضرت عمر (رض) کے دفتر کے سامنے سہیل ابن عمرو ابن الحارث ابن ہشام اور ابو سفیان کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ قریش کے سرداروں کی ایک جماعت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور علماء کہلائے۔ حضرت عمر (رض) ان سے پہلے صہیب اور بلال کو اندر بلاتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ اسلام کے سابقون الاولون اور اہل بدر میں سے تھے۔ ابوسفیان کے نتھنے مارے غصے کے پھول جاتے ہیں اور سخت جذباتی انداز میں کہتے ہیں ” میں اپنی پوری زندگی میں ایسا دن نہیں دیکھا کہ ان غلاموں کو تو اندر بلایا جاتا ہے اور ہم دروازے پر چھوڑے جاتے ہیں “۔ اس کے ساتھی جنہوں نے حقیقت اسلام کو سمجھ لیا تھا اور ان کے شعور پر اسلام چھا گیا تھا ، ان سے کہا ” اے قوم تمہارے چہروں پر جو آثار نمودار ہیں ، میں دیکھ رہا ہوں۔ اگر تمہیں غصہ آرہا ہے تو یہ غصہ اپنے نفس سے اتارو ، ان لوگوں کو بھی اسلام کی طرف بلایا گیا اور تمہیں بھی بلایا گیا۔ انہوں نے فوراً لبیک کہا اور تم نے دیر لگادی۔ تم ذرا اس وقت کا خیال کرو کہ قیامت میں ان کو بلایا جائے اور تم وہاں بھی کھڑے کے کھڑے رہو (اسلام کا اجتماعی عدل) حضرت عمر (رض) اسامہ ابن زید کے لئے عبداللہ ابن عمر سے زیادہ الاوئنس مقرر فرماتے ہیں۔ حضرت عبداللہ اس کا راز پوچھتے ہیں حضرت عمر (رض) جواب دیتے ہیں ” بیٹے ، زید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے باپ سے زیادہ محبوب تھے اور اسامہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں تم سے زیادہ محبوب تھے۔ اس لئے میں نے رسول اللہ کی محبت کو اپنی محبت پر ترجیح دے دی “۔ حضرت عمر (رض) کو معلوم تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت آسمانی پیمانوں سے ناپی جاتی ہے۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت عمار (رض) ابن یاسر کو بھیجتے ہیں کہ وہ اسلام کے عظیم کمانڈر ، فاتح اور اعلیٰ خاندان کے فرد حضرت خالد بن ولید کے خلاف بعض شکایات کی تفتیش کریں۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمار (رض) نے ان کو ان کی چادر سے باندھا اور بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کو خود ان کے عمامے سے باندھا گیا۔ یہاں تک کہ تفتیش ختم ہوگئی اور اس کے نتیجے وہ بےگناہ ثابت ہوگئے۔ اس کے بعد وہ انہیں کھولتے ہیں اور خوداپنے ہاتھ سے ان کے سر پر عمامہ باندھتے ہیں اور حضرت خالد (رض) کو اس پر کوئی غصہ نہیں آتا۔ اس لئے کہ حضرت عمار (رض) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ہیں اور ان سے پہلے اسلام لانے والے ہیں اور ان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ فرمایا وہ ان کو معلوم تھا۔ حضرت عمر (رض) ، حضرت ابوبکر (رض) کے بارے میں فرماتے تھے۔ یہ ہمارے سردار ہیں جنہوں نے ہمارے دوسرے سردار کو غلامی سے آزاد کرایا یعنی حضرت بلال کو جو امیہ ابن خلف کے مملوک تھے اور امیہ انہیں سخت اذیت دیتا تھا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے انہیں خریدا اور آزاد کردیا۔ ان کے بارے میں حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بلال (رض) ہمارے سردار ہیں۔ یہ حضرت عمر (رض) ہی تھے کہ انہوں نے فرمایا اگر ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم موجود ہوتے تو میں انہیں خلیفہ بنا دیتا۔ حضرت عمر (رض) ایک طرف تو یہ کہتے ہیں اور دوسری جانب انہوں نے حضرت عثمان (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت طلحہ (رض) اور حضرت زبیر (رض) جیسے لوگوں کو بھی خلیفہ نہ بنایا۔ بلکہ چھ آدمیوں کی شوریٰ مقرر کی کہ ان میں سے کسی ایک کو مقرر کیا جائے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت عمار (رض) اور حسن ابن علی کو اہل کوفہ کی طرف بھیجتے ہیں۔ وہ ان سے درخواست کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ ان کا جو نزاع ہوگیا ہے اس میں وہ ان کا ساتھ دیں۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں ” مجھے اچھی طرح علم ہے کہ حضرت عائشہ (رض) تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی ہیں ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، لیکن اللہ نے تمہیں اس امتحان میں ڈال دیا ہے کہ تم میری اطاعت کرتے ہو یا ان کی “۔ (بخاری) اس طرح حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں لوگ ان کی بات سنتے ہیں۔ حضرت بلال (رض) یمن کے گورنر تھے۔ ابورویحہ خشعمی یمن کے ایک قبیلے میں شادی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کی سفارش کریں۔ حضرت بلال (رض) فرماتے ہیں میں بلال ابن رباح ہوں اور یہ میرے بھائی ابو ردیحہ ہیں۔ یہ ایک ایسا شخص ہے کہ نہ اس کے اخلاق اچھے ہیں اور نہ یہ زیادہ دیندار ہے۔ تم چاہو تو اپنی لڑکی ان کے عقد میں دے دو اور نہ چاہو تو نہ دو “۔ حضرت بلال (رض) انہیں دھوکہ نہیں دیتے اور نہ اس کے معاملے میں کوئی بات چھپاتے ہیں ، اور نہ وہ اس بارے میں یہ کہتے ہیں کہ میں سفارشی ہوں۔ وہ صرف یہ بات پیش نظر رکھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہیں گے اللہ کے ہاں جوابدہ ہیں۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کس قدر شچے ہیں اور وہ یہ رشتہ دے دیتے ہیں۔ بس وہ یہ بات کافی سمجھتے ہیں کہ وہ ایک صاحب نسب عرب ہیں اور ان کی سچی سفارش حضرت بلال (رض) حبشی کررہے ہیں۔ غرض یہ عظیم حقیقت اسلامی معاشرے میں عملاً قائم ہوگئی اور اس کے بعد ایک طویل زمانے تک قائم رہی۔ باوجود اس کے بعد کے زمانوں میں مسلمانوں کے اندر زوال اور تنزل کے بیشمار عوامل پیدا ہوگئے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو ان کے ساتھ ان کے آزادذ کردہ غلام عکرمہ کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ جب عبداللہ ابن عمر کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے ساتھ ان کے غلام نافع کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ انس ابن مالک کے ساتھ ابن سیرین کا ذکر ہوتا ہے ، اور ابوہریرہ کے ساتھ ان کے غلام عبدالرحمن ابن ہرمز کا ذکر ہوتا ہے ، بصرہ میں حسن بصری ، مکہ میں مجاہد ، عطا ابن ابی رباح اور طاﺅس ابن کیسان جیسے لوگ مشہور فقہاء تھے۔ عمر ابن عبدالعزیز کے زمانے میں ، مصر میں یزید ابن ابی حبیب مفتی اعظم مقرر ہوئے۔ یہ علقمہ کے سیاہ فام آزاد کردہ غلام تھے۔ یہ تھیں آسمانی اور اسلامی قدریں جنہوں نے انسانیت کو تقویٰ کی بنیاد پر اس قدر بلند کردیا ، اگرچہ دنیا کے اندر مقبول ترین اقدار میں سے کوئی خصوصیت ان کے اندر نہ تھی۔ نہ اپنی ذات کے اعتبار سے اور نہ ان کے ماحول کے اعتبار سے۔ یہ میزان اور یہ پیمانے دنیا میں ماضی قریب تک قائم رہے۔ ماضی قریب میں پوری دنیا پر دوبارہ جاہلیت چھاگئی۔ دنیا کا ایک حصہ امریکی جاہلیت کے زیر اثر آگیا جس میں انسانوں کی قیمت ڈالر کی شکل میں متعین ہونے لگی اور نصف مشرقی دنیا کی قیادت روسی جاہلیت کو حاصل ہوگئی اور اس میں انسان کی وقعت ایک پیداواری مشین کے سوا کچھ نہ تھی۔ رہی اسلامی دنیا تو اس پر وہی جداہلیت عربی قومیت کی جاہلیت چھاگبی جس کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کے لئے اسلام دنیا میں آیا تھا اور عملاً اسلام نے اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا۔ آج عالم اسلام سے اس اعلیٰ معیار اور اعلیٰ قدر کو مٹا دیا گیا ہے اور عالم اسلام ایک ایسی جاہلیت کی تاریکیوں میں ڈوب گیا ہے ، جس کے اندر ایمان اور تقویٰ اعلیٰ قدر ہی نہیں ہے۔ ہاں عالم اسلام میں دعوت اسلامی اور احیاء اسلام کی تحریک جاری ہے۔ صرف اس تحریک پر امید ہے کہ یہ پوری دنیا کو جاہلیت سے نکال کر از سر نو آسمانی قدریں عطا کرے گی اور شاید ایک بار پھر انسانیت ایک نیا جنم لے جیسا کہ انسانیت کو آغاز اسلام کے دور میں نصیب ہوا۔ جس کی ایک جھلک اس سورت کی ابتدائی آیات میں دکھائی گئی ہے۔ یہ چند آیات ہیں لیکن نہایت ہی اہم اور سنگ میل اور فیصلہ کن ہیں۔ ایک مخصوص واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے سورت کے پہلے حصے میں اس عظیم حقیقت کو بیان کیا گیا ، اس دوسرے حصے میں ، اس انسان کے رویہ پر سخت تعجب کا اظہار کیا گیا ہے جو ایسے حقائق اور ایمان اور تقویٰ کی اس دعوت سے منہ موڑتا ہے ، اور دعوت اسلامی سے اپنے آپ کو برتر اور بالا سمجھتا ہے۔ یہ انسان اپنے اصل اور اپنی تخلیق کے حالات پر اگر غور کرتا تو ہرگز اعراض نہ کرتا۔ انسان یہ نہیں دیکھتا کہ اس پر اللہ کی کیا کیا عنایات ہیں۔ اس کی زندگی قدم قدم پر اللہ کے کنٹرول میں ہے ، دنیا اور آخرت میں یہ انسان دراصل ہر مرحلہ حیات میں اللہ کے اختیار میں ہے ، لیکن یہ اپنے خالق ، اپنے کفیل اور اپنے محاسب کے حقوق ادا نہیں کرتا اور نہ اس سے ڈرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا ﴿ كَلَّاۤ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌۚ٠٠١١ ﴾ آپ ہرگز ایسا نہ کیجیے کہ جو شخص آپ کے پاس دینی باتیں معلوم کرنے آئے اس کی طرف سے بےتوجہی کریں کیونکہ قرآن ایک نصیحت کی چیز ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے آپ کے ذمہ صرف پہنچانا ہے جو قرآن اور اس کی نصیحت قبول نہ کرے اس کا وبال اسی پر ہے، آپ پر کوئی ضرر نہیں اس کے بعد قرآن کے اوصاف بیان فرمائے کہ وہ ایسے صحیفوں میں ہے جو اللہ کے یہاں مکرم ہیں اور بلند اور مقدس ہیں، کیونکہ شیاطین وہاں تک نہیں پہنچ سکتے اور یہ صحیفے ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں جو باعزت اور نیک ہیں (فرشتے چونکہ لوح محفوظ سے قرآن مجید کو نقل کرتے ہیں اس لیے ﴿ بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍۙ٠٠١٥ كِرَامٍۭ بَرَرَةٍؕ٠٠١٦﴾ فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” کلا “ حرف ردع ہے۔ یوں تو نہیں چاہئے تھا۔ یہ بمعنی ” حقا “ ہے اور ما بعد سے متعلق ہے یعنی یقیناً ۔ یہ آیت قرآنیہ ہر ایک کے لیے عبرت و نصیحت ہیں جو بھی چاہے انہیں پڑھ سن کر ان سے نصیحت حاصل کرے۔ ” فی صحف “ اس سے مراد وہ صحیفے اور تختیاں ہیں جن پر فرشتے لوح محفوظ سے کلام اللہ کو نقل کرتے ہیں وہ صحیفے اللہ کے نزدیک قابل تکریم ہیں، قدر و منزلت میں بہت بلند اور پاکیزہ ہیں کہ فرشتوں کے سوا کسی کا ہاتھ ان کو نہیں لگا۔ وہ صحیفے ایسے فرشتوں کے ہاتھوں میں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت والے ہیں اور گناہوں سے پاک اور اللہ تعالیٰ کے نہایت فرمانبردار ہیں۔ اکثر مفسرین کے نزدیک ” سفرۃ “ سے صحابہ کرام (رض) مراد ہیں جو قرآن کی آیتوں کو صحیفوں اور تختیوں میں لکھ لیا کرتے تھے۔ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی (رح) کے فوائد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ” سفرۃ “ سے فرشتے اور کاتبان صحابہ دونوں مراد ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) ہرگز ایسا نہ کیجئے کیونکہ قرآن ایک نصیحت کی چیز ہے۔