Surat Abas
Surah: 80
Verse: 15
سورة عبس
بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾
[Carried] by the hands of messenger-angels,
ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے ۔
بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾
[Carried] by the hands of messenger-angels,
ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہے ۔
In the hands of ambassadors (Safarah), Ibn Abbas, Mujahid, Ad-Dahhak, and Ibn Zayd, all said, "These are the angels." Al-Bukhari said, "Safarah (ambassadors) refers to the angels. They travel around rectifying matters between themselves. The angels when they descend with the revelation of Allah, bringing it like the ambassador who rectifies matters between people." Allah said, كِرَامٍ بَرَرَةٍ
15۔ 1 یعنی اللہ اور رسول کے درمیان ایلچی کا کام کرتے ہیں۔ یہ قرآن سفیروں کے ہاتھوں میں ہے جو اسے لوح محفوظ سے نقل کرتے ہیں۔
[٩] سَفَرَۃٍ : سافِر کی جمع ہے اور السِّفر اس کتاب کو کہتے ہیں جو حقائق کو بےنقاب کرتی ہو اور اسفار بمعنی تورات کی شرح و تفاسیر اور سافر وہ شخص ہے جو ایسی تحریر کرتا یا لکھتا ہو اور اس لفظ کا اطلاق الہامی تحریر لکھنے والے فرشتوں اور انسانوں پر ہوتا ہے۔ نیز نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں پر بھی۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کو لکھنے والے نہایت معزز اور بزرگ فرشتے ہیں۔ اسی کے موافق وحی نازل ہوتی ہے اور یہاں بھی اوراق میں لکھنے اور جمع کرنے والے دنیا کے بزرگ ترین، پاکباز، نیکو کار اور فرشتہ سیرت انسان ہیں۔ جنہوں نے اس قرآن کو ہر قسم کی کمی بیشی یا تحریف و تبدیل سے پاک رکھا ہے۔ گویا قرآن جیسی عظیم الشان کتاب اس بات سے بدرجہا بلند ہے کہ اسے متکبر کافروں کے سامنے پیش کرکے ان سے یہ خواہش کی جائے کہ اسے شرف قبولیت عطاکرو کیونکہ قرآن ان کا محتاج نہیں وہ اس کے محتاج ہیں۔
(١) بایدی سفرۃ…:” سفرۃ “” سافر “ کی جمع ہے، لکھنے والا۔” سفر “ کتاب، اس کی جمع ” اسفار “ ہے، جیسا کہ فرمایا :(کمثل الحمار یحمل اسفاراً (الحجمۃ : ٥)”(بےعمل یہود کی مثال) گدھے کی طرح ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو۔ “ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید لکھنے والوں کی تعریف فرمائی ہے، خواہ وہ فرشتے ہوں یا کاتبین وحی، صحابہ ہوں یا دوسرے، فرمایا یہ لوگ اللہ کے ہاں بہت عزت والے اور نہایت نیک ہیں۔ اس طرح کتابت کے علاوہ اس کا پڑھنا پڑھانا بھی سب سے بہتر اور نیک ہونے کی دلیل ہے، عثمان (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ) (بخاری، فضائل القرآن، باب خیر کم من تعلم…: ٥٠٢٨)” تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ “ (٢)” سفرۃ “ ” سفارۃ “ (سفارت) سے بھی مشتق ہوسکتا ہے، تو اس سے مراد فرشتے ہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے درمیانس فیر کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان کے پاس وحی الٰہی لے کر آتے ہیں۔
بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ (in the hands of those scribes who are honourable, righteous. [ 80:15-16] ) The word safarah, with fathah [=a+a ] on the first two letters, may be the plural of safir which means a &scribe&. In this case, it would refer to the recording angels, or to the Prophets (علیہم السلام) and those of their aides who write down the revelation. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and Mujahid (رح) hold this view.
ۙبِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ 15ۙكِرَامٍۢ بَرَرَة۔ بفتحتین سافر کی جمع بھی ہوسکتی ہے جس کے معنی کاتب کے ہیں، اس صورت میں اس سے مراد فرشتے، کرام کاتبین یا انبیا (علیہم السلام) اور ان کی وحی کو لکھنے والے حضرات ہوں گے۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد سے یہی تفسیر منقول ہے۔ اور لفظ سفرہ، سفیر بمعنے قاصد کی جمع بھی ہوسکتے ہے، اس صورت میں اس سے مراد ملائیکہ اور انبیا (علیہم السلام) اور وحی کی کتابت کرنے والے حضرات صحابہ ہوں گے، اور علمائے امت بھی اس میں داخل ہیں، کیونکہ وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت کے درمیان سفیر اور قاصد ہیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور وہ قرات میں بھی ماہر ہے تو وہ سفرہ کرام ابرار کے ساتھ ہے اور جو شخص ماہر نہیں مگر تکلف کے ساتھ مشقت اٹھا کر قرات صحیح کرلیتا ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے (رواہ ایشخان عن عائشہ۔ مظہری) اس سے معلوم ہوا کہ غیر ماہر کو دواجر ملتے ہیں ایک قرارت قرآن کا دوسرا مشقت اٹھانے کا۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ماہر کو بیشمار اجر ملیں گے (مظہری)
بِاَيْدِيْ سَفَرَۃٍ ١٥ ۙ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ سفر السَّفْرُ : كشف الغطاء، ويختصّ ذلک بالأعيان، نحو : سَفَرَ العمامة عن الرّأس، والخمار عن الوجه، وسَفْرُ البیتِ : كَنْسُهُ بِالْمِسْفَرِ ، أي : المکنس، وذلک إزالة السَّفِيرِ عنه، وهو التّراب الذي يكنس منه، والإِسْفارُ يختصّ باللّون، نحو : وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] ، أي : أشرق لونه، قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] ، و «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» »من قولهم : أَسْفَرْتُ ، أي : دخلت فيه، نحو : أصبحت، وسَفَرَ الرّجل فهو سَافِرٌ ، والجمع السَّفْرُ ، نحو : ركب . وسَافَرَ خصّ بالمفاعلة اعتبارا بأنّ الإنسان قد سَفَرَ عن المکان، والمکان سفر عنه، ومن لفظ السَّفْرِ اشتقّ السُّفْرَةُ لطعام السَّفَرِ ، ولما يوضع فيه . قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] ، والسِّفْرُ : الکتاب الذي يُسْفِرُ عن الحقائق، وجمعه أَسْفَارٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة/ 5] ، وخصّ لفظ الأسفار في هذا المکان تنبيها أنّ التّوراة۔ وإن کانت تحقّق ما فيها۔ فالجاهل لا يكاد يستبینها کالحمار الحامل لها، وقوله تعالی: بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15- 16] ، فهم الملائكة الموصوفون بقوله : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، والسَّفَرَةُ : جمع سَافِرٍ ، ککاتب وکتبة، والسَّفِيرُ : الرّسول بين القوم يكشف ويزيل ما بينهم من الوحشة، فهو فعیل في معنی فاعل، والسِّفَارَةُ : الرّسالة، فالرّسول، والملائكة، والکتب، مشترکة في كونها سَافِرَةٌ عن القوم ما استبهم عليهم، والسَّفِيرُ : فيما يكنس في معنی المفعول، والسِّفَارُ في قول الشاعر : 235- وما السّفار قبّح السّفار «1» فقیل : هو حدیدة تجعل في أنف البعیر، فإن لم يكن في ذلک حجّة غير هذا البیت، فالبیت يحتمل أن يكون مصدر سَافَرْتُ «2» . ( س ف ر ) السفر اصل میں اس کے معنی کشف غطاء یعنی پردہ اٹھانے کے ہیں اور یہ اعیان کے ساتھ مخصوص ہے جیسے سفر العمامۃ عن الراس اس نے سر سے عمامہ اتارا دیا ۔ سعر عن الوجہ چہرہ کھولا اور سفر البیت کے معنی گھر میں جھاڑو دینے اور کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے ہیں اور جھاڑو کو مسفرۃ اور اس گرد و غبار کو سفیر کہا جاتا ہے جو جھاڑو دے کر دور کی جاتی ہے ۔ الاسفار ( افعال ) یہ الوان کے ساتھ مختص ہے یعنی کسی رنگ کے ظاہر ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] اور قسم ہے صبح کی جب روشن ہو ۔ اور فرمایا : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے ۔ اور حدیث «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» صبح خوب روشن ہونے کے بعد نماز پڑھا کرو تو زیادہ ثواب ملے گا ۔ میں اسفروا اسفرت کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روشنی میں داخل ہونے کے ہیں جیسے اصبحت ( میں صبح میں داخل ہوا ) سفر الرجل اس نے سفر کیا اور سافر ( مسافر ) کی جمع سفر آتی ہے جیسے راکب کی جمع رکب رد علی ہذا القیاس ) اور سافر کے معنی ہیں اس نے سفر کیا یہ خاص کر باب مفاعلۃ سے آتا ہے گویا اس میں جانبین یعنی وطن اور آدمی کے ایک دوسرے سے دور ہونے کے معنی کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ اور سفر سے ہی سفرۃ کا لفظ مشتق ہے جس کے معنی طعام سفر یا توشہ دان ہیں جس میں سفری کھانا رکھا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو ۔ السفر اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں حقائق کا بیان ہو گویا وہ حقائق کو بےنقاب کرتی ہے اس کی جمع اسفار آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة/ 5] کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوئی ہوں ۔ یہاں ممثل بہ میں خصوصیت کے ساتھ اسفار کا لفظ ذکر کرنے سے اس بات پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ تورات اگر چہ اپنے مضامین کو محقق طور پر بیان کرتی ہے لیکن جاہل ( یہود ) پھر بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے ۔ لہذا ان کی مثال بعینہ اس گدھے کی سی ہے جو علم و حکمت کے پشتارے اٹھائے ہوئے ہو اور آیت بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15- 16] ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار نیکو کار ہیں ۔ میں سفرۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جنہیں دوسری جگہ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر لکھنے والے کہا ہے اور یہ سافر کی جمع ہے جیسے کاتب کی جمع کتبۃ السفیر ۔ اس فرستادہ کو کہا جاتا ہے جو مرسل کی غرض کو مرسل الیہ پر کھولتا اور فریقین سے منافرت کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ فعیل بمعنی فاعل سے ہے اور سفارۃ بمعنی رسالت آتا ہے پیغمبر فرشتے اور سماوی ) کتابیں لوگوں پر حقائق کی کشادگی کرنے میں باہم شریک ہیں ( اس نے ان سب کو سفیر کہہ سکتے ہیں ۔ اور سفیر ( فعیل ) بمعنی مفعول ہو تو اس کے معنی کوڑا کرکٹ کے ہوتے ہیں جو جھاڑ دے کر صاف کردیا جاتا ہے ۔ اور شاعر کے قول ۔ ( 229 ) وما السّفار قبّح السّفار میں بعض نے سفار کے معنی اس لوہے کے لئے ہیں جو اونٹ کی ناک میں ڈالا جاتا ہے اور اس معنی پر اگر اس شعر کے علاوہ اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہ سافرت ( مفاعلہ ) کا مصدر بھی ہوسکتا ہے
سورة عَبَس حاشیہ نمبر :6 ان سے مراد وہ فرشتے ہیں جو قرآن کے ان صحیفوں کو اللہ تعالی کی براہ راست ہدایت کے مطابق لکھ رہےہیں ، ان کی حفاظت کر رہے تھے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک انہیں جوں کا توں پہنچا رہے تھے ۔ ان کی تعریف میں دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ ایک کرام ، یعنی معزز ۔ دوسرے بار ، یعنی نیک ۔ پہلے لفظ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ اتنے ذی عزت ہیں کہ جو امانت ان کے سپرد کی گئی ہے اس میں ذرہ برابر خیانت کا صدور بھی ان جیسی بلند پایہ ہستیوں سے ہونا ممکن نہیں ہے ۔ اور دوسرا لفظ یہ بتانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ ان صحیفوں کو لکھنے ، ان کی حفاظت کرنے اور رسول تک ان کو پہنچانے کی جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے اس کا حق وہ پوری دیانت کے ساتھ انجام دیتے ہیں ۔
(80:15) بایدی سفرۃ : ای ھذہ کنبۃ ینسخرنھا من اللوح المحفوظ (السیر التفاسیر) یہ وہ تحریر ہے جسے لوح محفوظ سے نقل کیا ایسے کاتبوں کے ہاتھوں نے جو بڑے بزرگ اور نیکوکار ہیں۔ (ضیاء القرآن) بایدی جار مجرور۔ ایدی سفرۃ مضاف مجاف الیہ، کاتبوں کے ہاتھوں سے سفرۃ جمع سافر کی۔ جیسے کتبۃ جمع ہے کاتب کی۔ سفرۃ ، سفر (باب ضرب) مصدر سے بمعنی لکھنا۔ اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ اسی مناسبت سے کتاب کو سفر کہتے ہیں۔ جس کی جمع اسفار ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :۔ کمثل الحمار یحمل اسفارا (62:5) مثل اس گدھے کے جو اٹھائے پھرتا ہے کتابیں۔ ابن عباس اور مجاہد کا قول ہے کہ :۔ سفرۃ سے مراد ہیں اعمال لکھنے والے فرشتے، یا انبیاء یا وحی کو لکھنے والے لوگ۔ دوسرے علماء کا قول ہے کہ :۔ سفرۃ سفیر کی جمع ہے سفیر وہ درمیانہ آدمی جو قوم میں باہمی صلح کرانے کے درپے ہوتا ہے۔ یہاں مراد ہیں فرشتے اور انسانوں میں اللہ کے پیغمبر۔ علامہ پانی پتی فرماتے ہیں :۔ کہ وحی کے کاتب اور علمائے امت بھی اسی طرح کے سفیر ہیں۔ رسول اور امت کے درمیان ان میں سے ہر ایک سفیر ہے۔