Surat Abas

Surah: 80

Verse: 18

سورة عبس

مِنۡ اَیِّ شَیۡءٍ خَلَقَہٗ ﴿ؕ۱۸﴾

From what substance did He create him?

اسے اللہ نے کس چیز سے پیدا کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

من ای شیء خلفہ…: یعنی اس شخص کو تکبر اور ناشکری کس طرح زیب دیتی ہے جسے اس کے بنانے والے نے مٹی کے ایک حقیر قطرے سے پیدا فرمایا ؟ پیدا کرنے کے دوران اس کی ہر چیز کا اندازہ مقرر فرمایا کہ اتنی مدت نطفہ رہے گا، پھر علقہ، پھر مضغہ بےروح، پھر جاندار اور خبوصورت انسان بنے گا۔ پھر اس کی ہر چیز اندازے کے ساتھ بنائی، کوئی چیز بےڈھب نہیں۔ پھر ماں کے شکم ہی میں وہ سب کچھ فرشتے کو لکھوا دیا جو اس نے زندگی بھر کرنا تھا۔” فقدرہ “ میں تینوں چیزیں شامل ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word safarah may be used as the plural of safir in the sense of &envoy&. In this case, it would refer to the angels who convey the revelation, and Prophets (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and their companions who write the revelation. The ` ulama& (knowledgeable persons) of the Muslim community& are also included in this term, because they too are envoys between the Holy Prophet and the Muslim community. The messenger of Allah is reported to have said that he who recites the Qur’ an and is an expert in the art of recitation, he will be with the honorable, righteous envoys. He who is not an expert in the art of recitation, but recites it correctly with difficulty, he shall receive double reward. [ Transmitted by Shaikhain from ` A&ishah - Mazhari ]. This shows that a non-expert will receive double reward - one for recitation of Qur’ an, and the other for bearing the difficulty. This also indicates that an expert will receive countless rewards. [ Mazhari ] The preceding verses mentioned that the Qur’ an is exalted and that belief in it is incumbent. Subsequently, the rejecters of Qur’ an are cursed and they are warned against showing ingratitude towards Divine favours. That the Holy Qur&an is a great Divine blessing is understood only by the men of Divine knowledge and understanding. Further, there is the mention of those Divine favours that Allah confers on man since his inception to the end of his life. These are material and physical things that a man with basic intellect can understand. Human creation is mentioned, thus: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ مِن نُّطْفَةٍ (From which stuff did He [ Allah ] create him? From a drop of semen! ..80:18-19). First a question is raised: &0 man! Consider what Allah has created you from?& Since its reply is so obvious that there can be no other reply, the next verse itself says: &From a drop of semen!& Thus the verse draws pointed attention to the very humble beginning of man, so that it may be brought home to him that Allah having created him from such an insignificant thing as a sperm-drop, created him and proportioned him:

سابقہ آیات میں قرآن کریم کا عالیشان واجب الایمان ہونا بیان کرنے کے بعد کافر انسان جو قرآن کے منکر ہیں ان پر لعنت اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کی تنبیہ ہے اور قرآن کا منجاب اللہ ایک نعمت عظیم ہونا تو ایک معنوی چیز ہے جس کو اہل علم وفہم ہی سمجھ سکتے ہیں آگے ان انعامات الہیہ کا ذکر ہے جو انسان کی تخلیق سے آخر تک انسان پر مبذول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ مادی اور محسوس چیز ہے جسکو ادنی شعور والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں تخلیق انسانی کا ذکر فرمایا مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ 18؀ۭ مِنْ نُّطْفَةٍ پہلے تو اس میں ایک سوال کیا گیا کہ اے انسان تو غور کر تجھے اللہ نے کس چیز سے پیدا کیا ہے اور چونکہ اس کا جواب متعین ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا جواب ہو ہی نہیں سکتا، اس لئے پھر خود ہی فرمایا من نطفة یعنی انسان کو نطفہ سے پیدا کیا، پھر فرمایا خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ یعنی یہی نہیں کہ نطفہ سے ایک جاندار کا وجود بنادیا بلکہ اس کو ایک خاص اندازہ اور بڑی حکمت سے بنایا، اس کے قد و قامت اور جسامت اور شکل و صورت اور اعضا کے طول وعرض اور جوڑ بند اور آنکھ ناک کان وغیرہ کی تخلیق میں ایسا اندازہ قائم فرمایا کہ ذرا اس کے خلاف ہوجائے تو انسان کی صورت بگڑ جائے اور کام کاج مصیبت بن جائے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَہٗ۝ ١٨ ۭ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(80:18) من ای شیء خلقہ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں :۔ اللہ نے اس کا کس چیز سے بنایا۔ یہاں سے ایمان و شکر کے دواعی (اسباب مقتضی) کا بیان ہے۔ مبدأ تخلیق کا ذکر سب سے پہلے اس لئے کیا کہ تمام نعمتوں سے پہلے اسی کا درجہ (یا زمانہ) ہے۔ یہ استفہام تقریری ہے یعنی مخاطب کو آمادہ کیا گیا ہے کہ وہ اقرار کرے کہ اللہ نے اس کو نطفہ سے بنایا ہے۔ ما اکفرہ میں جو استفہام ہے اس کا بیان من ای شیء سے کیا۔ اس طرح کلام کا اثر زیادہ دل نشین ہوگیا۔ پھر نطفہ سے تخلیق کو بیان کرکے انسان کی حقارت کو ظاہر فرمایا ہے اور یہ خلقی تحقیر تکبر کے منافی ہے۔ (اس لئے انسان کا تکبر بےبنیاد اور نازیبا ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

من ................ خلقہ (18:80) ” کس چیز سے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے “۔ اس کی اصلیت تو نہایت معمولی ، متواضع اور حقیر ہے۔ اور یہ اللہ کا فضل وکرم ہی ہے جس نے اپنی تقدیر اور تدبیر سے اس جرثومے سے انسان بنایا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗؕ٠٠١٨﴾ (اسے کس چیز سے پیدا فرمایا) ﴿مِنْ نُّطْفَۃٍ﴾ (نطفہ سے پیدا فرمایا) جو حقیر اور ذلیل مادہ ہے اگر اپنی اصل کو دیکھے تو شرم سے آنکھیں نیچی ہوجائیں اور خالق کائنات جل مجدہ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہو جس نے ذلیل پانی سے ایسی اچھی جیتی جاگتی گوشت اور ہڈی اور بال اور کھال والی مورتی بنا دی۔ ﴿خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ﴾ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا پھر اس کے اعضاء کو ایک خاص انداز سے بنایا اور ترتیب سے لگایا (كما فی سورة القیامة ثم کان علقة فلق فسوی) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” من ای شیء خلقہ “ استفہام بمعنی تقریر ہے اور ” ای شیء “ سے مراد بیان تحقیر ہے یعنی نہایت حقیر چیز سے اللہ نے اس کو پیدا فرمایا ہے ” من نطفۃ “ یہ اس حقیر چیز کا بیان ہے۔ نطفہ سے اس کو رحم مادر میں پیدا کیا اور اس کی اجل، اس کے عمل، اس کے رزق اور اس کی سعادت و شقاوت کا فیصلہ کیا پھر ایام حمل گذر جانے کے بعد رحم مادر سے اس کے باہر نکلنے کا راستہ آسان فرمایا پھر اس کو موت دی اور قبر میں اتروا دیا پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ زندہ فرما لے گا۔ ” کلا “ بمعنی ” حقا “ ہے یعنی یہ بات یقینی ہے کہ انسان کافر نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہیں کی۔ حالانکہ اس کا فرض تھا کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات جلیلہ کے پیش نظر وہ اس پر ایمان لاتا اور اس کے تمام اوامرو نواہی کی تعمیل کرتا۔ ” فاقبرہ “ غالب امر کی بناء پر ارشاد فرمایا، کیونکہ مردوں کی غالب اکثریت کو قبروں ہی میں دفن کیا جاتا ہے اس لیے اس آیت سے قبر کے لیے حفر (کھودنے) کی فرضیت ثابت کرنا صحیح نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) اللہ تعالیٰ نے اس کو کس چیز سے پیدا کیا ہے۔