Surat Abas

Surah: 80

Verse: 19

سورة عبس

مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ؕ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ﴿ۙ۱۹﴾

From a sperm-drop He created him and destined for him;

۔ ( اسے ) ایک نطفہ سے پھر اندازہ پر رکھا اس کو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

From what thing did He create him From a Nutfah He created him, and then set him in due proportion. meaning, He decreed his life span, his sustenance, his deeds, and whether he would be miserable or happy. ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی جس کی پیدائش ایسے حقیر قطرہ آب سے ہوئی ہے، کیا اسے تکبر زیب دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] وہ اگر یہ سوچتا کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا۔ کس جگہ وہ پرورش پاکر نطفہ سے بچہ بنا پھر کس بےبسی کی حالت میں ماں کے پیٹ سے باہر نکلا تو اسے ہرگز یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ اپنے خالق کے منہ کو آئے اور اس کا کلام سن کر اس کا انکار کردے ؟ پھر جب وہ ماں کے پیٹ میں نشوونما پا رہا تھا تو اس کی تقدیر طے کردی گئی۔ اس کی عمر کتنی ہوگی ؟ وہ کہاں مرے گا اور کہاں دفن ہوگا ؟ وہ تنگدست رہے گا یا خوشحال ہوگا۔ اسے ایمان میسر آئے گا یا نہیں ؟ وہ کفر کی حالت میں مرے گا یا ایمان کی حالت میں۔ یہ سب تفصیلات تو رحم مادر میں ہی طے کردی تھیں اور اس مقررہ تقدیر کے آگے وہ بالکل بےبس ہے لیکن ان باتوں کے باوجود وہ اللہ کے مقابلہ میں اکڑتا اور کفر کرتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خَلَقَهُ فَقَدَّرَ‌هُ (He created him, and designed him in due proportion..80:19). In other words, He has made him with a special design and with great wisdom. His stature, body-structure, his face, his length and breadth of the limbs, his joints, his eyes, nose and ears are all well-proportioned in their creation. If any limb or organ loses its proportion, man&s face will go awry, and every activity will become a problem. The word qaddara is derived from taqdir which is also used in the sense of &predestination&. Taking the word in this sense, the verse may also mean here that when man is under creation in his mother&s womb, Allah predetermines four things for him: his life span, his sustenance, his deeds and whether he would be miserable or happy [ as in the hadith of Ibn Mas’ ud (رض) recorded by Shaikhain ].

اور لفظ قدرہ سے یہاں یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ انسان جس وقت بطن مادر میں زیر تخلیق ہوتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ اس کی چار چیزوں کی مقدار لکھ دیتے ہیں وہ یہ کہ وہ کیا کیا اور کیسے کیسے عمل کریگا، اس کی عمر کتنی ہوگی، اس کو رزق کتنا ملے گا، اور انجام کار سعید ونیک بخث ہوگا یا شقی بدبخث (کمافی حدیث ابن مسعود عندالشیخین)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مِنْ نُّطْفَۃٍ۝ ٠ ۭ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ۝ ١٩ ۙ نطف النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به . ( ن ط ف ) النطفۃ ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔ قَدْرُ والتَّقْدِيرُ والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال : قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ. يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه، فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين : أحدهما : بإعطاء القدرة . والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان : ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات . فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى [ الأعلی/ 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال، القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی/ 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ/ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج/ 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید/ 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ مِنْ نُّطْفَۃٍط } ” ایک بوند سے۔ “ { خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ۔ } ” اس نے اسے پیدا کیا اور اس کا ایک اندازہ مقرر کردیا۔ “ ” اندازے “ سے مراد یہاں ہر انسان کا ” شاکلہ “ ہے ‘ جس کا ذکر سورة بنی اسرائیل کی آیت ٨٤ میں آیا ہے۔ انسان کا شاکلہ دراصل اس کی فطری یا جبلی خصوصیات اور اس کے ماحول کے اس کی شخصیت پر مرتب ہونے والے اثرات کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے۔ یعنی ہر انسان کی وہ شخصیت جو اسے پیدائشی طور پر جینز (genes) کی صورت میں اپنے والدین کی طرف سے ملتی ہے ‘ عملی زندگی میں آکر اپنے ماحول کے مخصوص اثرات کی وجہ سے ایک خاص ” قالب “ میں ڈھل جاتی ہے۔ انسانی شخصیت کے اسی قالب کو اس انسان کا شاکلہ کہا جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تشریح آیت ٨٤ ‘ سورة بنی اسرائیل)

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 That is, let him first consider out of what he was created, where he was nourished and developed, by what way he came into the world, and from what helpless state he began his life in the world. Why dces he forget his such beginning and becomes involved in conceit and haughtiness and why does he feel so puffed up as to resist his Creator and stand before Him as an adversary? (The same theme has been expressed in Ya Sin 77-78 above) . 12 That is, he was yet developing and taking shape in his mother's womb when his destiny was set for him. It was determined what would be his sex, his colour, his size; the extent and volume of his body, the extent to which his limbs would be sound or unsound, his appearance and voice, the degree of Physical strength and mental endowments, what would be the land, the family, the conditions and environments in which he would take birth, develop and be moulded into a specific person, what would be the hereditary influences and effects of the surroundings and the role and impact of his own self in the make-up of his personality, the part he would play in his life of the world, and how long he would be allowed to function on the earth. He cannot swerve even a hair-breadth from his destiny, nor can effect the slightest alteration in it. Then, how strange is his daring and stubbornness! He commits disbelief of the Creator before Whose destiny he is so helpless and powerless!

سورة عَبَس حاشیہ نمبر :11 یعنی پہلے تو ذرا یہ اپنی حقیقت پر غور کرے کہ کس چیز سے یہ وجود میں آیا ؟ کس جگہ اس نے پرورش پائی؟ کس راستے سے یہ دنیا میں آیا ؟ اور کس بے بسی کی حالت سے دنیا میں اس کی زندگی کی ابتدا ہوئی؟ اپنی اس اصل کو بھول کر یہ ہمچو ما دیگرے نیست کی غلط فہمی میں کیسے مبتلا ہو جاتا ہے اور کہاں سے اس کے دماغ میں یہ ہوا بھرتی ہے کہ اپنے خالق کے منہ آئے؟ ( یہی بات سورہ یسین ، آیات 77 ۔ 78 میں فرمائی گئی ہے ) ۔ سورة عَبَس حاشیہ نمبر :12 یعنی یہ ابھی ماں کے پیٹ ہی میں بن رہا تھا کہ اس کی تقدیر طے کر دی گئی ۔ اس کی جنس کیا ہو گی ۔ اس کا رنگ کیا ہو گا ۔ اس کا قد کتنا ہو گا ۔ اس کی جسامت کیسی اور کس قدر ہو گی ۔ اس کے اعضاء کس حد تک صحیح و سالم اور کس حد تک ناقص ہوں گے ۔ اس کی شکل وصورت اور آواز کیسی ہو گی ۔ اس کے جسم کی طاقت کتنی ہو گی ۔ اس کے ذہن کی صلاحیتیں کیا ہوں گی ۔ کس سر زمین ، کس خاندان ، کن حالات اور کس ماحول میں یہ پیدا ہو گا ، پرورش اور تربیت پائے گا اور کیا بن کر اٹھے گا ۔ اس کی شخصیت کی تعمیر میں مورثی اثرات ، ماحول کے اثرات اور اس کی اپنی خودی کا کیا اور کتنا اثر ہو گا ۔ کیا کردار یہ دنیا کی زندگی میں ادا کرے گا ، اور کتنا وقت اسے زمین پر کام کرنے کے لیے دیا جائے گا ۔ اس تقدیر سے یہ بال برابر بھی ہٹ نہیں سکتا ، نہ اس میں ذرہ برابر رد و بدل کر سکتا ہے ۔ پھر کیسی عجیب ہے اس کی یہ جرات کہ جس خالق کی بنائی ہوئی تقدیر کے آگے یہ اتنا بے بس ہے اس کے مقابلہ میں کفر کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: یعنی ماں کے پیٹ میں اُس کے ایسے اعضا اور ایسی صورت بنائی جو حیرت انگیز توازن کی حامل ہے۔ نیز اس کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس کی تقدیر طے فرمائی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(80:19) من نفطۃ : من ای شیء خلقہ (آیت سابقہ) کے استفہام کا جواب ہے یعنی انسان کی قطرہ منی سے پیدا کیا۔ خلقہ فقدرہ۔ ہ ضمیر واحد مزکر غائب الانسان کے لئے ہے۔ قدر ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب تقدیر (تفعیل) مصدر۔ جس کا معنی ہے :۔ سوچ کر ، سمجھ کر، غور کرکے اندازہ کرنا۔ ہر پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر چیز کا اندازہ کرنا۔ ترجمہ ہوگا :۔ اللہ نے اسے پیدا کیا۔ پھر اس کو ہر چیز اندازہ سے بنائی پھر اس کی تقدیر مقرر کی۔ صاحب تفہیم القرآن یوں تشریح فرماتے ہیں۔ یہ ابھی ماں کے پیٹ میں بن ہی رہا تھا کہ اس کی تقدیر طے کردی گئی۔ اس کی جنس کیا ہوگی۔ اس کا رنگ کیا ہوگا ؟ اس کا قد کتنا ہوگا۔ اس کی جسامت کیسی اور کس قدر ہوگی۔ اس کے اعضاء کس حد تک صحیح و سالم اور کس حد تک ناقص ہوں گے اس کی شکل و صورت کیسی ہوگی اور آواز کیسی ہوگی۔ اس کے جسم کی طاقت کتنی ہوگی اس کے ذہن کی صلاحیتیں کیسی ہونگی ، کس سرزمین ، کس خاندان، کن حالات اور کس ماحول میں پیدا ہوگا۔ پرورش اور تربیت پائے گا اور کیا بن کر اٹھے گا۔ اس کی شخصیت کی تعمیر میں موروثی اثرات، ماحول کے اثرات اور اس کی اپنی خودی کا کیا کرنے کے لئے دیا جائیگا اس تقدیر سے یہ بال برابر بھی ہٹ نہیں سکتا۔ نہ اس میں ذرہ برابر ردوبدل کرسکتا ہے۔ پھر یہ کیسی اس کی جراءت ہے کہ جس خالق کی بنائی ہوئی تقدیر کے آگے یہ اتنا بےبس ہے اس کے مقابلے میں کفر کرتا ہے۔ (تفہیم القرآن جلد ششم آیت 19 حاشیہ 12) علامہ پانی پتی لکھتے ہیں :۔ اول اس (انسان) کو ماں کے رحم کے اندر نیست سے ہست کیا۔ اس کے بعد اس کے لئے ایک اندازہ مقرر کیا۔ یعنی اللہ کے حخم سے مؤکل فرشتوں نے اس کے لئے چار باتیں لکھ دیں :۔ (1) مقدار عمل۔ (2) مدر زندگی۔ (3) رزق۔ (4) شقی یا سعید ہونا۔ جیسا کہ ہم سورة المرسلت میں حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت کردہ نقل کرچکے ہیں ۔ اور مسلم و بخاری اس کے ناقل ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفسیر مظہری سورة المرسلت کی آیات 20 تا 32) بعض اہل تفسیر نے اس آیت کی تشریح اس طرح کی ہے کہ تقدیر سے اعضاء و شکل بنانا مراد ہے یا حالت نطفہ سے تکمیل تخلیق تک جتنے احوال جنین پر گزرتے ہیں وہ مراد ہیں۔ ہماری تشریح ان اقوال سے اولیٰ ہے۔ حدیث مذکورہ تفسیر مظہری میں یوں منقول ہے :۔ حضرت ابن مسعود کی روایت ہے کہ :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔ تم میں ہر ایک کا تخلیقی قوام ماں کے پیٹ کے اندر چالیس روز تک (بصورت) نطفہ رہتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں بستہ خون رہتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں بصورت لوتھڑا رہتا ہے پھر اللہ اس کے پاس فرشتہ کو چار باتوں کے لئے بھیجتا ہے۔ فرشتہ اس کا (آئندہ) عمل اور مدت زندگی اور رزق اور شقی یا سعید ہونا لکھتا ہے پھر اس میں جان پھونکتا ہے۔ پس قسم ہے خدا کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ تم میں سے بعض لوگ جنت والوں کا کام کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ لکھا ہوا غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کا عمل کرتے ہیں اور دوزخ میں چلے جاتے ہیں۔ ” بخاری، مسلم، نافع، کسائی کے علاوہ دوسروں نے فقدرنا پڑھا ہے :۔ فقدرنا فنعم القدرون (77:23) سورة المرسلت) یعنی ہم اس کو ہست کرنے، نیست کرنے کے علاوہ پیدا کرنے پر قادر ہیں “۔ تفسیر مظہری 77:23)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہاں قدر، بمعنی ” صلح “ ہے یعنی اس کے ہاتھ پائوں، کان ناک اور دوسرے اعضاء درست ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

من نطفة ................ فقدرہ (19:80) ” نطفہ کی ایک بوند سے۔ اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی “۔ یعنی ایک ایسے نطفے سے جس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور اس اصل جرثومے سے جس کے اندر کوئی قوت نہیں ، وہ خود نہ آسکتا تھا ، یہ تو خالق تھا جس نے اس کا آنا مقدر کیا۔ پھر اس کی صنعت اور تخلیق میں مضبوطی پیدا کی۔ پھر اسے ایک تندرست و توانا مخلوق بنایا اور اسے تمام مخلوقات پر ترجیح دی اور مکرم بنایا ، اور اس حقیر جرثومے کو اس زمین پر مختار ٹھہرایا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) پیدا کیا ایک قط رہے اور بوند سے یعنی نطفہ سے بنایا اس کو پھر اس کی ہر ایک چیز کا ایک خاص انداز مقرر کیا۔