Surat Abas
Surah: 80
Verse: 20
سورة عبس
ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ ﴿ۙ۲۰﴾
Then He eased the way for him;
پھر اس کے لئے راستہ آسان کیا ۔
ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ ﴿ۙ۲۰﴾
Then He eased the way for him;
پھر اس کے لئے راستہ آسان کیا ۔
Then He made the path easy for him. Al-`Awfi reported from Ibn `Abbas, "Then He made his coming out of his mother's belly easy for him." This was also said by Ikrimah, Ad-Dahhak, Abu Salih, Qatadah, As-Suddi, and it was the explanation preferred by Ibn Jarir. Mujahid said, "This is similar to Allah's statement, إِنَّا هَدَيْنَـهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِراً وَإِمَّا كَفُوراً Verily, We guided him on the path, he is either grateful or ungrateful. (76:3) meaning, We explained it to him, clarified it, and made it easy for him to act upon." Al-Hasan and Ibn Zayd both said the same. This is the most correct view and Allah knows best. Concerning Allah's statement, ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ
20۔ 1 یعنی خیر اور شر کے راستے اس کے لئے واضح کردیئے، بعض کہتے ہیں اس سے مراد ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔
[١٣] اس آیت کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ماں کے پیٹ سے باہر آنا اس کے لیے آسان بنادیا۔ جب رحم مادر میں بچے کی نشوونما پوری ہوچکتی ہے تو ماں اس کو اپنے پیٹ سے باہر نکالنے کے لیے بےقرار ہوجاتی ہے اور جب تک اسے جن نہ لے اسے قرار نہیں آتا۔ راستہ تنگ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ وضع حمل کے وقت اس راستہ میں اتنی لچک پیدا کردیتا ہے کہ ماں کے لئے اس کا جننا آسان ہوجاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام ایسی قوتیں عطا کردیں اور استعداد مہیا کردی کہ وہ دنیا میں موجود وسائل و اسباب سے کام لے کر اپنی زندگی گزار سکے اور تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کے دونوں راستے سمجھا دیے۔ اس کی فطرت میں یہ تمیز رکھ دی۔ پھر انبیاء و رسل اور کتابوں کے ذریعے بھی سب کچھ سمجھا دیا، اور اسے اختیار دے دیا کہ جونسی راہ وہ چاہے اختیار کرلے۔ پھر جو راہ بھی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اسی راستے کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے اور اس کی توفیق عطا فرماتا جاتا ہے۔
ثم السبیل یسرہ : پھر اس کے لئے راستہ آسان کردیا۔ اس کے تین معانی ہوسکتے ہیں، پہلا یہ کہ ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ آسان کردیا، ورنہ ان تنگ ہڈیوں کے حصار سے نکل ہی نہ سکتا اور وہیں خود بھی مرجاتا اور ماں کی موت کا بھی باعث بنتا، دوسرا یہ کہ خیر و شر میں سے جس راستے پر چلنا چاہے ، وہی اس کے لئے آسان کردیا اور تیسرا یہ کہ صحیح راستے کی پہچان اس کے لئے آسان کردی، جس سے وہ اپنے پیدا کرنے والے پر ایمان لاسکتا ہے۔ تینوں معانی دسرت ہیں، مگر ” من نطفۃ خلقہ فقدرہ “ کی مناسبت سے پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔ (التسہیل)
ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ (then He made the way easy for him...80:20) Allah through His consummate wisdom creates man in his mother&s womb, creation after creation, within three layers of darkness [ i.e. the belly, the womb and the amniotic membrane ]. It is kept in a safe place in the belly. The mother in whose belly all this is happening is totally unaware of any of the details of this process. Thereafter, when the baby becomes perfect with all its limbs and organs, Allah made it possible that a body weighing 3 to 4 kg comes out through an extremely narrow passage, and the mother does not suffer unduly. So blessed be He Who is the best Creator!
ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ ، یعنی حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے انسان کی تخلیق بطن مادر کی تین اندھیریوں اور ایسے محفوظ مقام میں فرمائی کہ جس کے پیٹ میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس کو بھی اس کی تخلیق کی تفصیل کی کچھ خبر نہیں، پھر یہ زندہ تمام اعضاء وجوارح سے مکمل انسان جس جگہ میں بنا ہے وہاں سے اس دنیا میں آنے کا راستہ بھی باوجود تنگ ہونیکے حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہی نے آسان فرمادیا کہ چار پانچ پونڈ کا وزنی جسم صحیح سالم برآمد ہوجاتا ہے اور ماں کے وجود کو بھی اس سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچتا۔ فتبرک اللہ احسن الخلقین
ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَہٗ ٢٠ ۙ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ يسر اليُسْرُ : ضدّ العسر . قال تعالی: يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] ، وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] ، فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] وتَيَسَّرَ كذا واسْتَيْسَرَ أي تسهّل، قال : فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة/ 196] ، فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ [ المزمل/ 20] أي : تسهّل وتهيّأ، ومنه : أَيْسَرَتِ المرأةُ ، وتَيَسَّرَتْ في كذا . أي : سهَّلته وهيّأته، قال تعالی: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر/ 17] ، فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ مریم/ 97] واليُسْرَى: السّهل، وقوله : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل/ 7] ، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل/ 10] فهذا۔ وإن کان قد أعاره لفظ التَّيْسِيرِ- فهو علی حسب ما قال عزّ وجلّ : فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران/ 21] . واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] والمَيْسَرَةُ واليَسَارُ عبارةٌ عن الغنی. قال تعالی: فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ [ البقرة/ 280] واليَسَارُ أختُ الیمین، وقیل : اليِسَارُ بالکسر، واليَسَرَاتُ : القوائمُ الخِفافُ ، ومن اليُسْرِ المَيْسِرُ. ( ی س ر ) الیسر کے معنی آسانی ار سہولت کے ہیں یہ عسر کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔ اور سختی نہیں چاہتا ۔ سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْراً [ الطلاق/ 7] خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا ۔ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنا يُسْراً [ الكهف/ 88] بلکہ اس سے نرم بات کہیں گے ۔ فَالْجارِياتِ يُسْراً [ الذاریات/ 3] پھر نر می سے چلتی ہیں ۔ تیسر کذا واستیسرکے معنی آسان ہو نیکے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ [ البقرة/ 196] اگر رستے میں روک لئے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو کردو ۔ فَاقْرَؤُا ما تَيَسَّرَ مِنْهُ [ المزمل/ 20] تو جتنا آسانی سے ہو سکے پڑھ لیا کرو ۔ اسی سے الیسرت المرءۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی عورت کے سہولت سے بچہ جننے کے ہیں ۔ یسرت کذا کے معنی کسی کام آسان اور سہل کردینے کے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ [ القمر/ 17] اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ۔ فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ مریم/ 97] اے پیغمبر یہ قران تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ہے ۔ الیسری اسم بمعنی یسر قرآن پاک میں ہے : فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى[ اللیل/ 7] اس کو ہم آسان طریقے کی توفیقی دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرى [ اللیل/ 10] اسے سختی میں پہنچا ئنگے ۔ میں عسریٰ کے ساتھ تیسیر کا لفظ بطور تحکم لایا گیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذابٍ أَلِيمٍ [ آل عمران/ 21] میں عذاب کے متعلق بشارت کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن پاک میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے قبر القَبْرُ : مقرّ الميّت، ومصدر قَبَرْتُهُ : جعلته في القَبْرِ ، وأَقْبَرْتُهُ : جعلت له مکانا يُقْبَرُ فيه . نحو : أسقیته : جعلت له ما يسقی منه . قال تعالی: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس/ 21] ، قيل : معناه ألهم كيف يدفن، والْمَقْبَرَةُ والْمِقْبَرَةُ موضع الْقُبُورِ ، وجمعها : مَقَابِرُ. قال : حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر/ 2] ، كناية عن الموت . وقوله : إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات/ 9] ، إشارة إلى حال البعث . وقیل : إشارة إلى حين كشف السّرائر، فإنّ أحوال الإنسان ما دام في الدّنيا مستورة كأنّها مَقْبُورَةٌ ، فتکون القبور علی طریق الاستعارة، وقیل : معناه إذا زالت الجهالة بالموت، فكأنّ الکافر والجاهل ما دام في الدّنيا فهو مَقْبُورٌ ، فإذا مات فقد أنشر وأخرج من قبره . أي : من جهالته، وذلک حسبما روي : ( الإنسان نائم فإذا مات انتبه) «2» وإلى هذا المعنی أشار بقوله : وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر/ 22] ، أي : الذین هم في حکم الأموات . ( ق ب ر ) القبر کے معنی میت کو دفن کرنے جگہ کے ہیں اگر یہ قبرتہ ( ضرب ونصر ) کا مصدر ہو تو اس کے میت کو قبر میں دفن کر نیکے ہوتے ہیں ۔ اوراقبرتہ کے معنی کیس کیلئے قبر مہیا کرنے کے ہیں تاکہ اسے دفن کیا جائے جیسے اسقینہ کے معنی پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس/ 21] پھر اس کو موت دی ۔ پھر قبر میں دفن کرایا ۔ بعض نے اقبرہ کے معنی یہ کئے ہیں کہ اسے الہام کردیا کہ کس طرح میت کو دفن کیا جائے ۔ المقبرۃ والمقبرۃ ( قبر ستان ) جمع مقابر قرآن میں سے : ۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر/ 2] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ یہ موت سے کنایہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات/ 9] کہ جو مردے قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے ۔ میں حیات بعد الممات یعنی موت کے بعد زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دلوں کے اسرار ظاہر کردینے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب تک انسان دنیا میں رہتا ہے اس کے بھید مستور رہتے ہیں گویا قبر میں مدفون ہیں تو یہاں قبور سے مجازا دل مراد ہیں بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جب موت کی وجہ سے جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا گو یا کا فر اور جاہل جب تک دنیا میں رہتے ہیں جہالت کی قبروں میں مدفون رہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد وہ جہالت دور ہوجاتی ہے ۔ تو گویا وہ قبر جہالت سے دوبارہ زندہ کر کے نکالے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مروی ہے الانسان نائم اذا مات کہ انسان دنیامیں سویا رہتا ہے جب موت آکر دستک دیتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر/ 22] اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔ یعنی جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مردوں کے حکم میں ہیں ۔
آیت ٢٠{ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ ۔ } ” پھر آسان کردیا اس پر راستہ۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں ایسا ماحول فراہم کیا ہے اور اسے ایسی سہولیات سے نوازا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں زندگی بسر کرنا اس کے لیے بہت آسان ہوگیا ہے۔ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ماں کے پیٹ سے انسان کے دنیا میں آنے کا راستہ اللہ تعالیٰ نے آسان کردیا ہے۔ یعنی وضع حمل کا بظاہر انتہائی پیچیدہ اور مشکل مرحلہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے آسان ہوگیا ہے۔
13 That is, He created all those means and provisions in the world, which he could utilize, otherwise all the capabilities of his body and mind would have remained useless, had not the Creator provided the. means and created the possibilities on the earth to employ them. Furthermore, the Creator also gave him the opportunity to choose and adopt for himself whichever of the ways, good or evil, of gratitude or ingratitude, of obedience or disobedience, that he pleased. He opened up both the ways before him and made each way smooth and easy so that he could follow any way that he liked.
سورة عَبَس حاشیہ نمبر :13 یعنی دنیا میں وہ تمام اسباب و وسائل فراہم کیے جن سے یہ کام لے سکے ، ورنہ اس کے جسم اور ذہن کی ساری قوتیں بےکار ثابت ہوتیں اگر خالق نے ان کو استعمال کرنے کے لیے زمین پر یہ سرو سامان مہیا نہ کر دیا ہوتا اور یہ امکانات پیدا نہ کر دیے ہوتے ۔ مزید براں خالق نے اس کو یہ موقع بھی دے دیا کہ اپنے لیے خیر یا شر ، شکر یا کفر ، طاعت یا عصیان کی جو راہ بھی یہ اختیار کرنا چاہے کر سکے ، اس نے دونوں راستے اس کے سامنے کھول کر رکھ دیے اور ہر راہ اس کے لیے ہموار کر دی کہ جس پر بھی یہ چلنا چاہے چلے ۔
6: اس کی ایک تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے یہ منقول ہے کہ بچے کو ماں کے پیٹ سے باہر آنے کا راستہ اﷲ تعالیٰ نے آسان بنا دیا کہ وہ ایک تنگ جگہ سے بہ آسانی باہر آجاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ اِنسان کے دُنیا میں جینے کا راستہ آسان بنا دیا، اور اس کی ساری ضروریات دُنیا میں مہیا فرما دیں۔
(80:20) ثم السبیل یسرہ : ثم تراخی زمان کے لئے ہے۔ پھر۔ اس کے بعد ۔ السبیل فعل محذوف کا مفعول ہے لہٰذا منصوب ہے۔ تقدیر کلام یوں ہوگی :۔ ثم یسرا السبیل یسرہ : ثم تراخی وقت کے لئے ۔ پھر۔ ازاں بعد۔ السبیل۔ راستہ، راہ، سبیل اصل میں اس راہ کو کہتے ہیں جو واضح ہو اور اس میں سہولت ہو۔ امام راغب (رح) لکھتے ہیں :۔ سبیل کا استعمال ہر اس شے کے لئے ہوتا ہے جس کے ذریعے کسی شے تک پہنچا جاسکے۔ خواہ وہ شے شر ہو یا خیر۔ نیز واضح راستہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے یہ لفظ مذکر بھی استعمال ہوتا ہے اور مؤنث بھی۔ اس کا تذکیر ارشاد الٰہی ہے :۔ وان یروا سبیل الرشد لا یتخذوہ سبیلا (7:146) اور اس کی تانیث : ارشاد الٰہی ہے :۔ قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ (12:108) میں ظاہر ہے۔ یسرہ : یسر مضارع واحد مذکر غائب تیسیر (تفعیل) مصدر۔ اس نے آسان بنادیا۔ ای سہل لہ (اس کے لئے سہل کردیا) اس صورت میں ہ کا مرجع الانسان ہے اور اگر ہ کا مرجع سبیل ہے تو ترجمہ ہوگا :۔ اس نے راستہ کو آسان کردیا۔ ثم السبیل یسرہ کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں :۔ (1) ا۔ سبیل الخروج من بطن امہ۔ اپنی ماں کے پیٹ میں سے نکلنے کا راستہ (جننے کے وقت) (السیر التفاسیر) ب۔ طریق خروجہ من طبن امہ۔ (ترجمہ ایضا) (الخازن) ج۔ سبیل الخروج من بطن امہ۔ (ترجمہ ایضا) (مدارک التنزیل) (2) ا۔ العلم بطریق الحق والباطل (حق و باطل کے راستہ کا علم) ۔ (خازن) ب۔ بین لہ سبیل الخیر والشر۔ خیر اور شر کا راستہ اس کے لئے واضح کردیا۔ (مدارک التنزیل) ج۔ پیغمبر بھیج کر اور کتابیں بھیج کر اللہ نے راہ حق اور اپنے تک پہنچنے کی راہ آسان کردی تاکہ تکمیل حجت ہوجائے۔ اسی مضمون پر دلالت کر رہی ہے یہ آیت :۔ فاما من اعطی واتقی وصدق بالحسنی فسنیسرہ للیسری (92:56 7) تو جس نے (خدا کے راستہ میں مال) دیا۔ اور پرہیزگاری کی اور نیک بات کو سچ جانا ہم اس کو آسان طریقہ کی توفیق دیں گے۔ (3) وقیل یسر علی کل احد ما خلق لہ وقدر علیہ۔ اللہ نے جو چیز انسان کے لئے پیدا کی اور جس پر اس کو اختیار دیا اس پر عمل کرنا اس کے لئے آسان کردیا۔ (خازن) (4) وقیل السبیل ای الدین فی وضوحہ ویسر العمل بہ۔ اور السبیل سے مراد الدین ہے جو واضح اور سہل العمل ہے کقولہ تعالیٰ : انا ھدینہ السبیل اما شاکرا واما کفورا۔ (76:3) تحقیق ہم نے اسے راستہ بھی دکھا دیا۔ اب وہ خود شکر گزار ہو خواہ ناشکرا۔ جہاں تک نطفہ قرار پانے سے لے کر شکم مادر سے باہر نکلنے تک کے اندازوں کا تعلق ہے اس میں انسان کی ذات ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ حیوانات میں بھی تقریبا یہی عمل کار فرما ہوتا ہے اس لئے السبیل سے مراد سبیل الدین ہے یعنی دنیاوی زندگی کا وہ زمانہ جب انسان احکام شریعت کا مکلف ہوتا ہے اس مدت العمر میں راہ ہدایت کی نشان دہی خدا نے اپنے فرستادہ پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کے ذریعے واضح کردی۔ سیدھے راستہ پر چلنے والے کے لئے وہ راستہ آسان فرما دیا اور کجرو اور گمارہ کے لئے گواہی کا راستہ آسان کردیا۔ زانی کو جس طرح عورت فاحشہ کا ملنا آسان کردیا۔ بخیل کو پیٹ پر پتھر باندھ کر مال و زر جمع کرنا آسان کردیا۔ اسی طرح باخدا کو رات میں جاگنا اور تہجد پڑھنا آسان کردیا اور سخی کے لئے مال کا راہ خدا میں خرچ کرنا آسان کردیا۔ بزدل کو بھاگنا اور بہادر کو میدان جنگ میں کود پڑنا۔ پارسا کو پارسائی تو فاحشہ کو بےحیائی یہ حیات دنیا کا تمام نقشہ اس مختصر جملہ میں ختم کردیا۔ (تفسیر حقانی)
ف 7 یا۔ (خیر اور شرکاراستہ اس پر آسان کیا۔ اس لحاظ سے آیت اس آیت کے مشابہ ہے جس میں ارشاد ہے۔ وھدیناہ النجدین۔ اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھانے۔۔
ثم ................ یسرہ (20:80) ” پھر اس کے لئے راہ میسر کی “۔ زندگی کی راہ یا ہدایت کی راہ ۔ زندگی کی راہ یا ہدایت کی راہوں پر چلنے کے لئے اس کے اندر استعداد اور صلاحتیں ودیعت فرمائیں۔ اور جب زندگی کا یہ سفر ختم ہوا تو یہ انسان بھی اس انجام تک جاپہنچا جس تک تمام زندہ مخلوق کو پہنچنا ہے۔ اس انجام تک پہنچنے سے رکنا اس کے اختیار میں نہیں ہے اور اس انجام سے کوئی راہ فرار نہیں ہے۔
﴿ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗۙ٠٠٢٠﴾ (پھر اس کے نکلنے کا راستہ آسان کردیا) ماں کے رحم میں نطفہ سے خون کے لوتھڑے سے شکل و صورت بنتی ہے پھر اس میں جان ڈالی جاتی ہے یہ جاندار بچہ جس کا اچھا خاصا جسمانی وجود ہوتا ہے ایک تنگ راستہ سے باہر آجاتا ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظاہرہ ہے اسی نے اندر مادر رحم میں تخلیق فرمائی اور اسی نے باہر آنے کا راستہ بنایا اور باوجود تنگ راستہ ہونے کے بچہ کے باہر آنے میں آسانی فرما دی۔