Surat Abas

Surah: 80

Verse: 24

سورة عبس

فَلۡیَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖۤ ﴿ۙ۲۴﴾

Then let mankind look at his food -

انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے کو دیکھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then let man look at his food? This is a call to reflect upon Allah's favor. It also contains an evidence in the vegetation's coming to life from the lifeless earth, that the bodies can be brought to life after being decayed bones and scattered dust. أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاء صَبًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 کہ اسے اللہ نے کس طرح پیدا کیا، جو اس کی زندگی کا سبب ہے اور کس طرح اس کے لئے اسباب معاش مہیا کئے تاکہ وہ ان کے ذریعے سعادت آخروی حاصل کرسکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(فلینظر الانسان…: پہلے آیت (١٧) سے (٢٢) تک ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو انسان کی پیدائش اور اس کی ذات سے تعلق رکھتی تھیں، اب ان نعمتوں کا ذکر ہے جو اس کی ذات سے تو تعلق نہیں رکھتیں مگر ان کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ فرمایا اپنی قریب ترین چیز کھانے ہی کو دیکھ لو کہ اس کی تیاری کے لئے ہم نے کائنات کی کتنی قوتوں کو مصروف کار کر رکھا ہے۔” انا صببنا المآء صباً “ میں مصدر کے ساتھ فعل کی تاکید فرمائی۔ ترجمہ میں اس تاکید کو ” خوب برسانا “ کے الفاظ سے ادا کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِہٖٓ۝ ٢٤ ۙ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤{ فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓ ۔ } ” تو انسان ذرا اپنے کھانے ہی کو دیکھ لے۔ “ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں اگر پھر بھی کسی کو شک ہو تو وہ اپنی غذا پر ہی غور کرلے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کرنے کے بعد کس کس انداز میں اس کی غذا کا انتظام کیا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 That is, let him consider the food, which he regards as an ordinary thing, how it is created. Had God not provided the means for it, it was not in the power of man himself to have created the food on the earth in any way.

سورة عَبَس حاشیہ نمبر :17 یعنی جس خوراک کو وہ ایک معمولی چیز سمجھتا ہے ، اس پر ذرا غور کرے کہ یہ آخر پیدا کیسے ہوتی ہے ۔ اگر خدا نے اس کے اسباب فراہم نہ کیے ہوتے تو کیا انسان کے بس میں یہ تھا کہ زمین پر یہ غذا وہ خود پیدا کر لیتا ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(80:24) فلینظر الانسان الی طعامہ (قرآن مجید کا اسلوب بیان یہ ہے کہ کسی مقصد کے لئے دلائل انفسی کے بعد دلائل آفاقی بیان فرمایا کرتا ہے تاکہ دل میں زیادہ اثر پیدا کرے۔ یہاں غرور انسان کا ابطال کیا تھا اور زیادہ تر مقصود اپنی قدرت کاملہ کا اظہار تھا کہ جس میں کسی کو بھی شرکت نہیں جس سے رد شرک اور اثبات توحید ظاہر و عیاں تھا۔ اور اس مقصود کے اثبات سے یہ مطلوب تھا کہ وہی خدائے قادر وحدہ لاشریک انسان کو مارنے کے بعد بھی دوبارہ زندہ کرسکتا ہے اور اس کے اعمال نیک و بد کی جزا و سزا بھی دے سکتا ہے۔ اس مقصود کے اثبات کے لئے پہلے پہلے وہ دلائل بیان فرمائے تھے کہ جن سے خود انسان کی پیدائش اور اس کے حالات کا تعلق تھا۔ اب بیرونی دلائل بیان فرماتا ہے۔ فقال : فلینظر الانسان الی طعامہ کہ آدمی اپنے کھانے کی طرف نظر کرے کہ ہم نے اس کو کس طرح پیدا کیا ہے۔ (تفسیر حقانی) آیت کا کلام سابق کے مفہوم پر عطف ہے یعنی انسان کو اول آغاز خلقت سے آخر حیات تک اپنے اوپر غور کرنا چاہیے۔ پھر اپنی غذا کو دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اس کی غذا کا کیسے بندوبست کیا اور کس طرح اس کو لطف اندوز ہونے کا موقع دیا۔ فلینظر : ف فاعطہ لینظر امر واحد مذکر غائب نظر (باب نصر) مصدر سے چاہیے کہ وہ دیکھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

۔10 یعنی اپنے اس کھانے پر جس کے سہارے وہ زندہ رہتا ہے شاید اس پر غور کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ادا کرنے کے لئے تیار ہوجائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انسان کی خوراک سے قیامت کا ثبوت۔ اس سے پہلے انسان کو اس کی تخلیق کے مختلف مراحل کا ذکر فرما کر قیامت کے دن اٹھائے جانے کا ثبوت مہیا فرمایا۔ اب انسان کو اس کی خوراک کے حوالے سے سمجھایا جارہا ہے کہ اے انسان ! تجھے اپنے کھانے پینے پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تیری خوراک کا کس طرح بندوبست کرتا ہے ؟ ارشاد ہوا کہ یقیناً ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور ہم نے زمین کو پھاڑا، پھر ہم نے اس میں اناج اگایا، اناج میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں، گنجان اور لہلاتے ہوئے باغ، ہر قسم کے پھل اور چارہ پیدا کیا، انہیں تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ انسان کو اس کی اور چوپاؤں کی خور اک کا حوالہ دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ اے قیامت کا انکار کرنے والو ! دیکھو اور غور کرو ! کہ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو اس سے کون نکالتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا اس دانے کو کوئی نکالنے اور اگانے والا نہیں ہے۔ وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، اس کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کرسکتا۔ بارش کی وجہ سے زمین میں نم پیدا ہوا اور اس نَم کی وجہ سے زمین میں پڑا ہوا بیج پھول پڑا اور ہر دانہ اپنی اصلیت کی بنیاد پر زمین سے شگوفے یا تنے کی شکل میں نکل پڑتا ہے ان میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں اور مختلف قسم کے باغات ہیں، ان میں کچھ درخت اور پودے پھل دار ہوتے ہیں اور کچھ چارے کے کام آتے ہیں۔ دانے کے زمین سے نکلنے اور اگنے کے اصول کی بنیاد پر ہی انسان کی زندگی کو قیاس کرنا چاہیے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دانہ زمین میں پرورش پاتا اور نکلتا ہے اور انسان رحم مادر میں پرورش پاتا اور اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تخلیق کا عمل تو ایک جیسا ہے۔ فرق یہ ہے کہ جاندار چیزوں کے علاوہ ہر چیز مٹی کے ساتھ بالآخر مٹی ہوجاتی ہے لیکن ہر جاندار کو قیامت کے دن اٹھایا جانا ہے پھر جانداروں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جنوں اور انسانوں کو قیامت کے دن اٹھاکر اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا اور حساب و کتاب کے بعد نیک لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا اور مجرموں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا اور باقی جاندار چیزوں کا معاملہ محشر کے میدان میں نپٹا کر انہیں ختم کردیا جائے گا۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ ) (رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ انسان اپنے کھانے پر غور کرے تو اپنے رب کو پہچان جائے گا اور قیامت پر یقین کر جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین سے پانی کے ذریعے بیج نکالتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی چوپاؤں کے لیے چارہ پیدا کرنے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مختلف قسم کے پھل، سبزیاں اور اناج پیدا کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں پھلوں اور سبزیوں کا ذکر : ١۔ اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو بےآب وگیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے قریب ٹھہرایا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں لوگوں کے دل ان کی طرف مائل فرما دے اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔ (ابراہیم : ٣٧) ٢۔ ” اللہ “ نے پانی کے ذریعے پھلوں سے رزق عطا فرمایا : (البقرۃ : ٢٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برکت والا پانی نازل فرما کر اس کے ذریعے بہت سے باغات سرسبز و شاداب کر دئیے۔ ( ق : ٩) ٤۔ ” اللہ “ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے مختلف انواع کے پھل پیدا فرمائے۔ (فاطر : ٢٧) ٥۔ ” اللہ “ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٦۔ ” اللہ “ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩، یٰس : ٣٤) ٧۔ ” اللہ “ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٨۔ ” اللہ “ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جو ذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ہے قصہ انسان اور اس کے مویشیوں کی خوراک کا ، جس کی تیاری کے تمام مراحل مختصر ، یہاں بیان کردیئے گئے ہیں۔ انسان کو چاہئے کہ وہ ان پر غور کرے۔ کیا ان انتظامات میں خود اس کا اپنا بھی کوئی دخل ہے۔ کیا یہ سب کچھ اس کی تدبیر سے ہورہا ہے۔ جس ذات باری نے اسے پیدا کیا اور اس دنیا اور زمین پر لاکر کھڑا کردیا۔ یہ وہی ذات ہے جس نے یہ تمام انتظامات کیے۔ فلینظر ................ طعامہ (24:80) ” پھر ذرا انسان اپنی خوراک کو دیکھے “۔ یہ نظام خوراک براہ راست اس کے ساتھ متعلق ہے ، اس کے قریب ہے ، اس کے ساتھ لازم وملزوم ہے ، اسے چاہئے کہ وہ اس حاضر وموجود اور لازم ومکرر نظام پر غور کرے۔ اس کا قصہ اور اس کی کہانی کس قدر عجیب ہے اور کس قدر آسان ہے۔ یہ کام چونکہ بسہولت ہوتا رہتا ہے اس لئے اس کے اندر جو عجائب و کمالات ہیں وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت یہ نظام رزق بھی ایسا ہی معجزہ ہے جس طرح انسان کی تخلیق ایک معجزہ ہے۔ جس طرح تخلیق میں ہر مرحلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح اس نظام رزق کا ہر مرحلہ بھی اللہ کے دست قدرت میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان آیات میں اللہ تعالیٰ شانہ نے انسان کو غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے کھانے کی چیزوں میں غور کرے، یہ چیزیں زمین سے نکلتی ہیں۔ ان میں غلے بھی ہیں اور پھل بھی، انگور بھی ہیں اور زیتون بھی، کھجوریں بھی ہیں اور سبزیاں ترکاریاں بھی، نیز فواکہ بھی ہیں جنہیں بطور تفکہ کھاتے ہیں اور گھاس پھوس بھی ہے جو جانوروں کا چارہ بن جاتا ہے، جن درختوں پر پھل آتے ہیں وہ صرف یہی نہیں کہ اکا دُكا کوئی درخت کہیں نکل آیا بلکہ ان کے باغ ہیں جن میں بڑے بڑے درخت ہیں، ان میں خوب کثرت سے پھل پیدا ہوتے ہیں، لفظ حدائق حدیقہ کی جمع ہے جس باغ کی چار دیواری بنا دی گئی ہو وہ حدیقہ ہے اور جس کی چار دیواری نہ ہو وہ باغ تو ہے حدیقہ نہیں اور عنبا کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں عظاما شجرھا یعنی ان کے درخت بڑے بڑے ہوتے ہیں اس میں تن آور ہونا پھیلنا شاختوں کا گنجان ہونا سب داخل ہیں۔ کھیتیاں ہوں یا باغ ان کا ظاہری سبب اللہ نے یہ بنایا کہ اللہ تعالیٰ شانہ زمین پر پانی برساتا ہے وہ پانی زمین کے اندر جاتا ہے جو بیج گٹھلی کے ابھرنے کا سبب بن جاتا ہے اور پودے نکلتے ہیں۔ اسی کو فرمایا : ﴿اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّاۙ٠٠٢٥ ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّاۙ٠٠٢٦﴾ (ہم نے خوب اچھی طرح پانی برسایا پھر ہم نے زمین کو عجیب طریقہ پر پھاڑ دیا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” فلینظر الانسان “ یہ ثبوت قیامت پر عقلی دلیل ہے۔ ” قضبا “ ترکاریاں۔ ” غلبا “ گنجان۔ ” ابا “ گھاس۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے کھانے پینے کی اشیاء کو دیکھئے کس طرح ہم نے ان کو پیدا کیا ہے ہم نے آسمان سے مینہ برسایا، پھر زمین کو شق کردیا اور اس میں غلے انگور، ترکاریاں، زیتون، کھجوریں، ہر قسم کے گنجان باغات، میوہ جات اور گھاس پیدا کی۔ یہ تمام چیزیں تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے لیے سامان زندگی ہیں۔ یہ سارے انعامات کس نے عطاء کیے ہیں ذرا غور تو کرو اور بتاؤ جو مردہ زمین کو زندہ کر کے اس میں انواع و اقسام نبات پیدا کرسکتا ہے کیا وہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ضرور کرسکتا ہے اور کرے گا اور جب وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا اس دن لوگوں کا جو حال ہوگا اس کی کیفیت بھی سن لو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) سو آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے کھانے اور اپنی خوراک پر غور کرے اور نگاہ فکر ڈالے۔