Surat ul Infitaar

Surah: 82

Verse: 5

سورة الإنفطار

عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ وَ اَخَّرَتۡ ؕ﴿۵﴾

A soul will [then] know what it has put forth and kept back.

۔ ( اس وقت ) ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے ( یعنی اگلے پچھلے اعمال ) کو معلوم کر لے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A person will know what he has sent forward and left behind. meaning, when this happens then this will occur. Mankind should not forget about Allah. Allah says, يَا أَيُّهَا الاْاِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ دنیا میں اس نے پہلی عمر میں کون کون سے کام کیے تھے۔ اور بعد میں کون کون سے اور اعمالناموں میں یہ سب باتیں ترتیب وار درج ہوں گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان کے وہ کون کون سے کام تھے جو اس نے اپنی زندگی میں سرانجام دیئے تھے۔ یہ ماقدّمت ہے اور ایسے کون کون سے کام تھے جن کا ثواب یا عذاب اس کی موت کے بعد بھی اس کے اعمال نامہ میں درج ہوتا رہا۔ یہ ما اخّرت ہے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے اسلام میں کسی نیک کام کی طرح ڈالی اس کے لیے اس کے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا ثواب کچھ کم ہو اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی۔ اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بار کچھ کم ہو۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ باب الحث علی الصدقۃ۔۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(علمت نفس ما قدمت و اخرت :) جو اچھے یا برے اعمال موت سے پہلے کئے، یا جو اچھے یا برے طریقے پیچھے چھوڑ گیا، جن کے ثواب و عذاب کا سلسلہ اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہا، وہ سب سامنے آجائیں گے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جو عمل شروع عمر میں کئے اور جو آخر عمر میں کئے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَ‌تْ (...then one will know what he sent ahead and what he left behind....82:5) In the preceding verses [ 1-4] of the Surah, Allah depicts the scene of the Day of Judgment that when the sky splits, the stars fall, the seas are poured forth [ i.e. the fresh and salt water bodies will merge to form one mass of water ] and the graves are overturned [ i.e. corpses will emerge from their graves ], every soul shall come to know what it had sent ahead and what it had left behind. The phrase &what he sent ahead& means the good or evil act which he has done in his life; and the phrase &what he left behind& means what he failed to do or refrained from doing. It is also possible that &what he sent ahead& refers to the acts he has done himself, and &what he left behind& refers to the acts one has not done himself, but he has laid down a custom in the society. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: |"If anyone establishes a good tradition in Islam, he will have a reward for it and the equivalent of the rewards of those who act upon it after him, without theirs being diminished in any respect; but he who establishes a bad custom in Islam will bear the responsibility of it and the responsibility of those who act upon it after him, without theirs being diminished in any respect.|" This subject was dealt with earlier under the following verse: يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ &Man will be informed of what he sent ahead and what he left behind. [ 75:13] &

معارف ومسائل (آیت) عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ ، یعنی جب قیامت کے وہ حالات پیش آچکیں گے جن کا ذکر شروع سورت میں کیا گیا ہے، آسمان کا پھٹنا، ستاروں کا جھڑجانا، سب شوروشیریں دریاؤں کا ایک ہوجانا، قبروں سے مردوں کا اٹھنا اس وقت ہر انسان جان لیگا کہ اسنے کیا آگے بھیجا، کیا پیچھے چھوڑا، آگے بھیجنے سے مراد اس پر عمل کرلینا ہے اور پیچھے چھوڑنے سے مراد ترک عمل ہے تو قیامت کے دن ہر شخص جان لیگا کہ اسنے نیک وبد کیا کیا عمل کرلئے اور نیکی یا بدی میں سے کیا چھوڑ دی تھی اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ آگے بھیجے ہوئے اعمال سے مراد وہ معمل ہوں جو اسنے خود کئے، خواہ نیک ہوں یا بد اور پیچھے چھوڑنے سے مراد وہ عمل ہوں جن کو اس نے خود تو نہیں کیا لیکن اس کی رسم دنیا میں ڈال گئے، اگر وہ نیک کام ہیں تو ان کا ثواب ان کو ملتا رہے گا اور برے ہیں تو اس کی برائی اس کے اعمال نامے میں لکھی جاتی رہے گی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جس شخص نے اسلام میں کوئی اچھی سنت اور طریقہ جاری کرایا اس کا ثواب ہمیشہ اس کو ملتا رہیگا، اور جس نے کوئی بری رسم اور گناہ کا کام دنیا میں جاری کردیا تو جبتک لوگ اس برے کام میں مبتلا ہوں گے اس کا گناہ اس شخص کے لئے بھی لکھا جاتا رہے گا۔ یہ مضمون پہلے بھی آیت ینبوا لانسان یومذ بما قدم واخر کے تحت میں گزرچکا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ۝ ٥ ۭ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔ أخر ( تاخیر) والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة/ 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح/ 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم/ 44] ( اخ ر ) اخر التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ { بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ } ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ { مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ } ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ { إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ } ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ { رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ } ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥۔ ٦) اے کافر ! مثلا کلاہ بن اسید تجھ کو کس چیز نے تیرے ایسے رب کریم کے ساتھ کفر کرنے پر آمادہ کر رکھا ہے جس نے تجھ کو نطفہ سے پیدا کیا اور پھر تیری ماں کے پیٹ میں تیرے اعضاء کو درست کیا اور پھر معتدل القامت بنایا، پھر جس صورت میں چاہا تجھ کو پیدا کردیا یا یہ اچھی بری صورت میں بنا دیا اور اگر وہ چاہتا تو بندر اور سور کی شکل میں بنا دیتا مگر تم جزا و سزا کے دن ہی کو جھٹلاتے ہو اور ہم نے تمہارے اوپر تمہاری نگرانی اور تمہارے اعمال لکھنے کے لیے فرشتے مقرر کر رکھے ہیں وہ اللہ کے ہاں معزز اور تمہارے تمام اقوال و افعال سے باخبر ہیں۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ (الخ) ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے اس آیت کریمہ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت ابی بن خلف کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَاَخَّرَتْ ۔ } ” (اُس وقت) ہر جان ‘ جان لے گی کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔ “ اس دن ہر شخص کو واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ اس نے کیا کیا اچھے یا برے اعمال آگے بھیجے تھے اور ان کے آثار و نتائج کی شکل میں کیا کچھ وہ اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آیا تھا۔ اس مضمون کی وضاحت قبل ازیں سورة القیامہ کی آیت ١٣ کے تحت بھی کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کو بتادیا جائے گا کہ اس نے کس شے کو آگے کیا تھا اور کس شے کو پیچھے رکھا تھا۔ یعنی دنیا اور آخرت میں سے اس نے کس کو مقدم رکھا تھا اور کس کو موخر کیا تھا۔ آیت کے اس مفہوم سے واضح ہوتا ہے کہ قیامت کے دن کسی انسان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار کلی طور پر اس ” طرزِعمل “ پر ہے جو وہ اپنی زندگی میں دنیا اور آخرت کے بارے میں اختیار کرتا ہے۔ یعنی انسان کا ایک طرزعمل یہ ہوسکتا ہے کہ میرا اصل مطلوب و مقصود تو آخرت ہے ‘ دنیا کا کیا ہے جو مل گیا وہی غنیمت ہے اور اگر کبھی نہ بھی ملے تب بھی کوئی بات نہیں۔ دوسرا ممکنہ رویہ یہ ہے کہ میرا اصل مقصود تو دنیا ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ اگر آخرت بھی مل جائے تو اچھا ہے ‘ چاہے وہ کسی کی سفارش سے مل جائے یا کسی اور حیلے سے۔ لیکن میری پہلی ترجیح (Ist priority) بہرحال دنیا اور اس کا مال و متاع ہے ‘ اور زندگی میں میری ساری تگ و دو اسی کے لیے ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 The words ma qaddamat wa akhkharat can have several meanings and all are implied here: (1) Ma qaddamat is the good or evil act which man has sent forward, and ma akhkharat is what he refrained from doing. Thus, these Arabic words correspond to the acts of commission and omission in one's life. (2) Ma qaddainat is what one did earlier and ma akhkharat what one did later; i.e. the whole life-work of man will appear before him date-wise and in proper sequence (3) Whatever good and evil deeds a man did in his life is ma qaddamat and whatever effects and influences of his acts he left behind for human society is ma akhkharat.

سورة الْاِنْفِطَار حاشیہ نمبر :3 اصل الفاظ ہیں ما قدمت و اخرت ۔ ان الفاظ کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی یہاں مراد ہے: ( 1 ) جو اچھا یا برا عمل آدمی نے کر کے آگے بھیج دیا وہ ما قدمت ہے اور جس کے کرنے سے وہ باز رہا وہ ما اخرت ۔ اس لحاظ سے یہ الفاظ تقریباً انگریزی زبان کے الفاظ Commission اور Omission کے ہم معنی ہیں ۔ ( 2 ) جو کچھ پہلے کیا وہ ما قدمت ہے اور جو کچھ بعد میں کیا وہ ما اخرت ، یعنی آدمی کا پورا نامہ اعمال ترتیب وار اور تاریخ وار اس کے سامنے آ جائے گا ۔ ( 3 ) جو اچھے اور برے اعمال آدمی نے اپنی زندگی میں کیے وہ ما قدمت ہیں اور ان اعمال کے جو آثار و نتائج وہ انسانی معاشرے میں اپنے پیچھے چھوڑ گیا وہ ما اخرت ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: ’’جو آگے بھیجا‘‘ سے مراد وہ اعمال ہیں جو کسی شخص نے دُنیا میں کرکے انہیں آخرت کے لئے آگے بھیج دیا، یعنی اُنہیں آخرت کا ذخیرہ بنالیا، اور ’’جو پیچھے چھوڑا‘‘ سے مراد وہ اعمال ہیں جو اُسے کرنے چاہیں تھے، لیکن اُس نے نہیں کئے اور دُنیا میں چھوڑ آیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(82:5) علمت نفس ما قدمت واخرت یہ جملہ بائے شرطیہ مذکورہ آیت نمبر 1 تا 4 کا جواب شرط ہے۔ ما موصولہ ہے قدمت ماضی صیغہ واحد مؤنث غائب تقدیم (تفعیل) مصدر سے جو اس نے آگے بھیجا۔ اخرت ماضی واحد مؤنث غائب تاخیر (تفعیل) مصدر سے (جو) اس نے پیچھے چھوڑا۔ صاحب تفہیم القرآن اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔ ان الفاظ کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں اور وہ سب ہی یہاں مراد ہیں۔ (1) جو اچھا یا برا عمل آدمی نے کرکے آگے بھیج دیا۔ وہ ما قدمت ہے اور جس کے کرنے سے وہ باز رہا وہ ما اخرت ہے۔ (2) جو کچھ پہلے کیا وہ ما قدمت ہے اور جو کچھ بعد میں کیا وہ ما اخرت ہے یعنی آدمی کا پورا نامہ اعمال ترتیب وار و تاریخ وار اس کے سامنے آجائے گا۔ (3) جو اچھے یا برے اعمال آدمی نے اپنی زندگی میں کئے وہ ماقدمت ہیں اور ان اعمال کے جو آثارہ و نتائج وہ انسانی معاشرے میں اپنے پیچھے چھوڑ گیا وہ ما اخرت ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی جس کے ثواب یا عذاب کا سلسلہ اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہا دوسرا مطل بیہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس کام کو بھی جان لیگا جو اس نے پہلے شروع عمر میں کیا اور اس کام کو بھی جان لیگا جو اس نے بعد میں آخری عمر میں کیا تیسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ اس فریضہ کو بھی جان لے گا جو اس نے آگے بھیجا (یعنی اسے توشہ آخرت بنایا) اور اس فریضہ کو بھی جان لیگا جو اس نے موخر کیا (یعنی اسے بچا نہ لایا) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

علمت .................... واخرت (5:82) ” اس وقت ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہوجائے گا “۔ یعنی جو پہلے کیا اور جو بعد میں کیا ، یا یہ کہ جو اس نے دنیا میں کیا اور جو اچھے اور برے آثار دنیا میں چھوڑے یا جو دنیا میں عیش کیا اور جو آخرت کے لئے ذخیرہ کیا۔ مطلب یہ ہے کہ ان عظیم حادثات اور انقلابات کے بعد ہر شخص اگلا پچھلا جان لے گا۔ یہ حادثات میں ہر حادثہ ہی خوفناک ہوگا۔ قرآن کریم کا مخصوص انداز کلام ملاحظہ کیجئے۔ کہا جاتا ہے۔ علمت نفس ” نفس یہ جان لے گا “۔ نفس سے یہاں مراد ہر نفس ہے لیکن ” ہر “ کو حذف کرنا بات کو نہایت نفیس اور خوبصورت بنا دیتا ہے۔ بات یہاں آکر ختم نہیں ہوجاتی کہ ہر ایک شخص اپنے تمام اعمال کا پورا پورا علم حاصل کرلے گا۔ بلکہ اس علم کے انسان پر شدید اثرات ہوں گے۔ جس طرح کہا جاتا ہے اچھا تمہیں معلوم ہوجائے گا۔ اگرچہ آیت میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ کیا اثرات ہوں گے نفس پر۔ لیکن یہ ان عظیم کائناتی حادثات سے بھی سخت ہوں گے۔ انداز کلام سے اس مفہوم کا انعکاس ہوتا ہے۔ یہ تھا ایک ایسا مطلع جس نے انسانی احساس و شعور اور عقل وخرد کو یوں بیدار کردیا۔ اب اگلے پیرے میں انسان کی موجودہ حالت پر ایک تبصرہ آتا ہے کہ یہ انسان کس قدر غافل اور لاپرواہ ہے ، یہاں انداز عتاب نہایت ہمدردانہ ہے اور اس عتاب میں سرزنش اور جھڑکی کا پہلو درپردہ ہے۔ اور بظاہر بات اللہ کی عنایات پر تدبر کی گئی ہے۔ خصوصاً انسان کی موجودہ ، متوازن اور خوبصورت اور معتدل شکل و صورت میں پیدائش کو مدنظررکھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ بات تھی کہ انسان کو موجودہ معتدل اور متوازن شکل و صورت اور جسم کے اعضاء سے فرو تر شکل دے دیتا لیکن اللہ نے اسے ایسی صورت دی کہ جو تکنیکی اور خوبصورتی دونوں اعتار سے بےمثال ہے۔ کیا انسان پر لازم نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں پر غور کرے اور شکر ادا کرے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اس وقت ہر شخص ان اعمال کو جان لے گا جو اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے یعنی جو بھلے اور برے کام کئے یا نہیں کئے شروع میں کئے یا آخر عمر میں کئے کوئی اچھی رسم جاری کرگیا یا کوئی بری رسم قائم کر گیا یا وہ مال جو اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کر گیا اور وہ مال جو پیچھے چھوڑ گیا۔ بہرحال علماء کے کئی اقوال ہیں اور اس آیت کے معنی کئی طرح بیان کئے گئے ہیں۔ وہ اولاد بھی مراد ہوسکتی ہے جو ماں باپ کے سامنے مرگئی اور وہ اولاد بھی جو پیچھے چھوڑ گئے قبروں سے نکلتے ہی اجمالی طور پر ہر شخص کو اپنا حال معلوم ہوجائے گا البتہ تفصیلی حال اس وقت معلوم ہوگا جب نامہ اعمال ہاتھ میں دیئے جائیں گے آگے انسان کو ہوشیار کرنے کی غرض سے خطاب فرماتے ہیں۔