Surat ul Mutafifeen

Surah: 83

Verse: 22

سورة المطففين

اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِیۡ نَعِیۡمٍ ﴿ۙ۲۲﴾

Indeed, the righteous will be in pleasure

یقیناً نیک لوگ ( بڑی ) نعمتوں میں ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, Al-Abrar (the righteous believers) will be in Delight. meaning, on the Day of Judgement they will be in eternal pleasure and gardens that contain comprehensive bounties.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ان الابرار لفی نعیم…: یہاں سے نیک لوگوں کو ملنے والی نعمتوں کا تذکرہ ہے۔ تختوں پر بیٹھے کبھی دوزخیوں کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے کہ رب تعالیٰ نے انہیں کتنی بڑی مصیبت سے بچایا ہے، کبھی جنت کی نعمتوں کا نظارہ کرتے ہوں گے اور کبھی دیدار الٰہی سے آنکھوں کو شاد کام کر رہے ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ۝ ٢٢ برَّ البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب،...  ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر : أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل . والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته . ( ب رر) البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔. نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢۔ ٢٤) نیک لوگ نہ ختم ہونے والی بڑی آسائش میں ہوں گے، مسہریوں پر بیٹھے ہوئے دوزخیوں کو دیکھتے ہوں گے، محمد آپ جنتیوں کے چہرے میں آسائش کی بشاشت پہچانیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:22) ان الابرار لفی نعیم : ان حرف تحقیق، مشبہ بالفعل ۔ الابرار : اسم ان ۔ لفی نعیم اس کی خبر۔ لام تاکید کا۔ نعیم بمعنی نعمت، راحت، عیش۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الابرار ................ نعیم (22:83) ” بیشک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے “۔ یہ نعیم حجیم کے مقابلے میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان آیات میں ابرار یعنی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا انعام و اکرام ذکر فرمایا ہے (جن کی کتاب کے بارے میں اوپر والی آیت میں فرمایا کہ وہ علیین میں ہے) ۔ ارشاد فرمایا کہ نیک بندے نعمتوں میں ہوں گے، مسہریوں پر (تكیے لگائے ہوئے) دیکھ رہے ہوں گے یعنی جنت کی نعمتیں اور وہاں کے مناظر ان کے پیش نظر ہوں گے۔ بع... ض حضرات نے اس کا یہ مطلب بتایا کہ آپس میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے اگرچہ بعد مکانی ہوگا۔ مزید فرمایا کہ اے دیکھنے والے ! تو ان کے چہروں میں نعمت کی تروتازگی پہچان لے گا۔ یعنی ان کو دیکھنے ہی سے معلوم ہوجائے گا کہ یہ حضرات اپنی نعمتوں میں خوب زیادہ خوش و خرم ہیں جیسا کہ سورة دہر میں فرمایا ﴿وَ لَقّٰىهُمْ نَضْرَةً وَّ سُرُوْرًاۚ٠٠١١﴾ (کہ اللہ تعالیٰ انہیں تروتازگی اور خوشی عطا فرمائے گا) یہ خوشی حقیقی اور اصلی ہوگی۔ اندر کی خوشی سے چہروں پر ترو تازگی ظاہر ہوگی۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” ان الابرار “ مومنین جنت کی نعمتوں میں ہوں گے تختوں پر تکیہ لگائے اللہ تعالیٰ کے انعامات کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ان کے چہروں سے نعیم جنت کی خوشی کے آثار نمایاں ہوں گے ان کے چہروں سے نعیم جنت کی خوشی کے آثار نمایاں ہوں گے اور ان کے چہرے سے نعیم جنت کی خوشی کے آثار نمایاں ہوں گے اور ان کے چہرے ترو... تازہ اور مسرت و شادمانی سے چمک رہے ہوں گے۔ انہیں خالص، سفید اور نہایت اعلی شراب پلائی جائیگی جو سربمہر ہوگی اور ان سے پہلے کسی نے اس کو ہاتھ تک نہ لگایا ہوگا اور اس کی مہر بھی کستوری کی ہوگی۔ جس شراب پر مہر لگانے کا مسالہ کستوری ہو اس سے اندازہ لگا لیں کہ وہ شراب کس قدر عمدہ اور قیمتی ہوگی۔ ” وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون “ رغبت کرنے والوں کو ایسی نعمتوں میں رغبت کرنی چاہئے اور ان کو حاصل کرنے کوشش کرنی چاہئے اور اس رحیق (شراب خالص) میں تسنیم (ایک نہایت ہی اونچے درجہ کی شراب) کی آمیزش ہوگی جس کا عرش سے چشمہ ابلتا ہوگا اور اسے صرف مقربین ہی پئیں گے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) بلا شبہ نیک لوگ بڑی آسائش و آرام میں ہوں گے۔