Surat ul Mutafifeen

Surah: 83

Verse: 3

سورة المطففين

وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ ﴿ؕ۳﴾

But if they give by measure or by weight to them, they cause loss.

اورجب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when they have to give by measure or weight to (other) men, give less than due. He says in another Ayah, وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ وَزِنُواْ بِالقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلً And give full measure when you measure, and weigh with a balance that is straight. That is good and better in the end. (17:35) Allah also says, وَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا And give full measure and full weight with justice. We burden not any person, but with that which he can bear. (6:152) and He says, وَأَقِيمُواْ الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُواْ الْمِيزَانَ And observe the weight with equity and do not make the balance deficient. (55:9) Allah destroyed the people of Shu`ayb and wiped them out because of their cheating in weights and measurements. Threatening the Mutaffifin with standing before the Lord of all that exists Then Allah says as a threat to them, أَلاَ يَظُنُّ أُولَيِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے رکھنا اور اس طرح ڈنڈی مار کر ناپ تول میں کمی کرنا، بہت بڑی اخلاقی بیماری ہے، جس کا نتیجہ دین اور آخرت میں تباہی ہے۔ ایک حدیث ہے، جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کردیا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] یعنی دوسروں کو ان کا حق کم دینے یا خود اپنے حق سے زیادہ وصول کرنے کے جرم میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا نہ روز آخرت پر ایمان ہوتا ہے اور نہ اللہ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کی جوابدہی پر۔ اگر ان کا اس محاسبہ پر ایمان ہوتا تو کبھی ایسی بدنیتی اور مفاد پرستی کے کام نہ کرتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا كَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ يُخْسِرُوْنَ۝ ٣ ۭ كَيْلُ : كيل الطعام . يقال : كِلْتُ له الطعام :إذا تولّيت ذلک له، وكِلْتُهُ الطّعام : إذا أعطیته كَيْلًا، واكْتَلْتُ عليه : أخذت منه كيلا . قال اللہ تعالی: وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین/ 1- 3] ( ک ی ل ) الکیل ( ض ) کے معنی غلہ نا پنے کے ہیں اور کلت لہ الطعا م ( صلہ لام ) کے معنی ہیں ۔ میں نے اس کے لئے غلہ ناپنے کی ذمہ داری سنبھالی اور کلت الطعام ( بدوں لام ) کے معنی ہیں میں نے اسے غلہ ناپ کردیا اور اکتلت علیہ کے معنی ہیں ۔ میں نے اس سے ناپ کرلیا قرآن میں ہے : ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذا کالُوهُمْ [ المطففین/ 1- 3] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ یا تول کردیں تو کم دیں ۔ وزن الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً [ الكهف/ 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ( و زن ) الوزن ) تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء/ 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن/ 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر/ 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣۔ ٤) اور جب دوسروں کو دیتے ہیں تو ماپ تول میں کمی کردیتے ہیں یا یہ کہ نماز، زکوٰۃ، روزہ دیگر عبادتوں میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے سخت عذاب ہے کیا ان کمی کرنے والوں کو اس چیز کا یقین نہیں کہ وہ قیامت کے دن زندہ کیے جائیں گے۔ شان نزول : وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ (الخ) امام نسائی اور ابن ماجہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ ماپ تول میں کمی کیا کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں، چناچہ اس کے بعد وہ پورا ماپ تول کر کے دینے لگے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 At several places in the Qur'an giving of short measure and weight has been condemned and measuring fully and weighing rightly has been stressed. In Surah AI-An'am, it has been enjoined: "You should use a full measure and a just balance. We charge one only with that much responsibility that one can bear." (v. 152) . In Surah Bani Isra'il it has been said: "Give full measure when you measure and weigh with even scales." (v. 35) . In Surah Ar-Rehman it has been stressed: Do not upset the balance: weigh with equity and do not give short weight." (vv. 8-9) . The people of the Prophet Shu`aib were punished for the reason that the evil of giving short measure and weight had become widespread among them and in spite of his counsel and advice they did not refrain from it.

سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :2 قرآن مجید میں جگہ جگہ ناپ تول میں کمی کرنے کی سخت مذمت اور صحیح ناپنے اور تولنے کی سخت تاکید کی گئی ہے ۔ سورہ انعام میں فرمایا انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو ، ہم کسی شخص کو اس کی مقدرت سے زیادہ کا مکلف نہیں ٹھیراتے ( آیت 152 ) ۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا جب ناپو تو پورا ناپو اور صحیح ترازو سے تولو ( آیت 35 ) ۔ سورہ رحمان میں تاکید کی گئی ہے تولنے میں زیادتی نہ کرو ، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ وزن کرو اور ترازو میں گھاٹا نہ دو ۔ ( آیات8 ۔ 9 ) ۔ قوم شعیب پر جس جرم کی وجہ سے عذاب نازل ہوا وہ یہی تھا کہ اس کے اندر ناپ تول میں کمی کرنے کا مرض عام طور پر پھیلا ہوا تھا اور حضرت شعیب کے پے در پے نصیحتوں کے باوجود یہ قوم اس جرم سے باز نہ آتی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: ان آیتوں میں اُن لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید بیان فرمائی گئی ہے جو دُوسروں سے اپنا حق وصول کرنے میں تو بڑی سرگرمی دِکھاتے ہیں، لیکن جب دُوسروں کا حق دینے کا وقت آتا ہے تو ڈنڈی مارتے ہیں۔ یہ وعید صرف ناپ تول ہی سے متعلق نہیں ہے، بلکہ ہر قسم کے حقوق کو شامل ہے، اور اس طرح ڈنڈی مارنے کو عربی میں ’’تطفیف‘‘ کہتے ہیں، اسی لئے اس سورت کا نام تطفیف ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:3) واذا کالوہم او وزنوہم یخسرون اذا ظرف زمان ہے۔ بمعنی جب۔ کالوھم او وزنوھم اصل میں کالوا لہم او وزنوا لہم تھا۔ دونوں میں حرف جار محذوف ہے۔ کانوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب کیل (باب ضرب) مصدر ناپنا۔ تولنا۔ لہم ان کے لئے۔ یعنی جب دوسروں کو تول کر یا ناپ کردیتے ہیں (ان کے لئے تولتے ہیں) او حرف عطف وزنوا ماضی جمع مذکر غائب ۔ ازن (باب ضرب) مصدر سے۔ یا ان کو وزن کرکے دیتے ہیں۔ یخسرون : مضارع جمع مذکر غائب اخسار (افعال) مصدر (تو) کمی کردیتے ہیں۔ یعنی کم دیتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 دوسرے کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے پورا تولنے اور پورا ناپنے کا حکم دیا ہے۔ مثلاً سورة اسراء میں ارشاد ہے : واوفوا الکیل اذا کلتم وزنوا بالقسطاس المستقیم ذلک خیر و احسن تاویلا اور جب تم پیمانے سے دو تو پیمانہ بھر کو دو اور جب تولو تو ٹھیک ترازرو سے تولو۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور انجام کے لحاظ سے بہتر ہے۔ “ (آیت :35) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم پر جو تباہی آئی، اس کا ایک سبب یہی تھا کہ وہ ناپنے اور تولنے میں کمی کرتی تھی۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کسی قوم نے عہد شکنی نہیں کی مگر اس پر دشمط کو مسلط کردیا گیا اور کسی قوم نے ماپنے میں کمی نہیں کی مگر اسے پیداوار کی کمی اور قحط میں مبتلا کردیا گیا۔ “ (فتح القدیر بحوالہ ابن مردویہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ گو لوگوں سے اپنا حق پورا لینا مذموم نہیں ہے مگر اس کے لانے سے مقصود خود اس پر مذمت کرنا نہیں ہے بلکہ کم دینے پر مذمت کی تاکید وتقویت ہے یعنی کم دینا گو فی نفسہ ذموم ہے، لیکن اس کے ساتھ اگر دوسروں کی اصلا رعایت نہ کی جائے تو اور زیادہ مذموم ہے بخلاف رعایت کرنے والے کے کہ اگر اس میں ایک عیب ہے تو ایک ہنر بھی ہے۔ اس لئے اول شخص کا عیب اشد ہے، اور چونکہ اصل مقصود کم دینے کی مذمت ہے اس لئے اس میں ناپ اور تول دونوں کا ذکر کیا تاکہ خوب تصریح ہوجائے کہ ناپنے میں بھی کم دیتے ہیں، تولنے میں بھی کم دیتے ہیں اور چونکہ پورا لینا فی نفسہ مدار ذم نہیں ہے اس لئے وہاں ناپ اور تول دونوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ ایک ہی کا ذکر کیا، پھر تخصیص ناپ کی شاید اس لئے ہو کہ عرب میں زیادہ دستور کیل کا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور جب لوگوں کو پیمانے سے ماپ کردیں یا تول کردیں تو کم کردیں یا گھٹا کردیں اگرچہ پوری طرح پیمانہ بھر لینا کوئی مذموم اور قابل اعتراف بات نہیں ہے مگر یہاں اس کا ذکر کرنا کم دینے کی مذمت کو موکد کرنا اور کم دینے کی برائی کی تاکید کرنا ہے۔ اگر لینے میں بھی بےپروائی اور رعایت کرتے تو شاید معاملہ برابر سرابر سمجھ لیا جاتا کہ نہ پورا دیتے ہیں نہ پورا لیتے ہیں لیکن اگر کوئی اپنا حق تو پورا لے اور دوسرے کو کم دے تو یہ امر بہت قابل مذمت ہے اور چونکہ اصل مقصد کم دینے کی مذمت کرتا ہے اس لئے کیل اور وزن دونوں کا ذکر کیا کہ ماپ میں بھی کمی کرتے ہیں اور تول میں بھی کم دیتے ہیں اور چونکہ پورا لینا عیب نہیں۔ اس لئے یستوفون میں صرف اکتیال کا ذکر فرمایا نیز اس لئے کہ اہل عرب میں کیل کا دستور زیادہ تھا جیسا کہ آج کل بھی حجاج کھجوریں کیل سے خریدتے ہیں لین دین کی چار صوررتیں ہوسکتی ہیں۔ 1 ۔ لینے اور دینے میں زیادتی کرے۔ 2 ۔ یہ کہ دونوں میں کمی کرے۔ 3 ۔ یہ کہ دیتے وقت کمی کرے اور لیتے وقت پورا لے۔ 4 ۔ یہ کہ لیتے وقت کم لے اور دیتے وقت پورا دے۔ ان چاروں صورتوں میں قرآن نے تیسری شکل کی مذمت کی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ تیسری ہی شکل ونائت کی ہے اور انتہائی قابل مذمت ہے آگے اس گناہ پر تہدید مذکور ہے۔