Surat ul Mutafifeen

Surah: 83

Verse: 31

سورة المطففين

وَ اِذَا انۡقَلَبُوۡۤا اِلٰۤی اَہۡلِہِمُ انۡقَلَبُوۡا فَکِہِیۡنَ ﴿۳۱﴾۫ ۖ

And when they returned to their people, they would return jesting.

اور جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And when they returned to their own people, they would return jesting. meaning, when these criminals turn back, or return to their homes, they go back pleased. This means that whatever they request, they find it. Yet, with this, they still are not grateful for Allah's favor upon them. Rather they busy themselves with despising and envying the believers. وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُ... وا إِنَّ هَوُلاَإء لَضَالُّونَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یعنی اہل ایمان کا ذکر کر کے خوش ہوتے اور دل لگیاں کرتے۔ دوسرا مطلب یہ کہ جب اپنے گھروں میں لو ٹتے تو وہاں خوشحالی اور فراغت ان کا استقبال کرتی اور جو چاہتے وہ انہیں مل جاتا، اس کے باوجود انہوں نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ اہل ایمان کی تحقیر کی اور ان پر حسد کرنے میں ہی مشغول رہے (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(واذا انقلبوا الی اھلھم…:” فکھین “” فکۃ “ کی جمع بروزن ” فرح “ ہے، ہنسنے ہنسانے کے لئے باتیں بنانے والے، خوش گپیاں کرنے والے، یعنی گھر واپس آتے ہوئے بھی اہل ایمان کو موضوع بنا کر خوب باتیں بناتے خوش گپیاں کرتے تھے اور انہیں گمراہ قرار دیتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَہْلِہِمُ انْقَلَبُوْا فَكِہِيْنَ۝ ٣١ انقلاب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ( ق...  ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں الانقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں فكه الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/ 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] ، والفُكَاهَةُ : حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل : تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] . ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 That is, they returned home rejoicing, thinking that they had made fun of such and such a Muslim, had passed evil remarks against him and subjected him to ridicule among the people.

سورة الْمُطَفِّفِيْن حاشیہ نمبر :12 یعنی یہ سوچتے ہوئے پلٹتے تھے کہ آج تو مزا آ گیا ہے ، میں نے فلاں مسلمان کا مذاق اڑا کر اور اس پر آوازے اور پھبیاں کس کر خوب لطف اٹھایا اور لوگوں میں بھی اس کی اچھی گت بنی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(83:31) واذا انقلبوا الی اہلہم انقلبوا فکھین : یہ کفار مکہ کی تیسری شرارت تھی جو وہ مسلمانوں کے معاملہ میں کرتے تھے۔ واؤ عاطفہ ہے۔ اذا ظرفیہ ہے بمعنی جب، جب شرط کے معنوں میں بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں واذا انقلبوا الیٰ اہلہم جملہ شرط ہوگا اور دوسرا جملہ جواب شرط۔ انقلبوا ماضی جمع مذکر غائب انقلا... ب (انفعال) مصدر۔ وہ لوٹے۔ وہ پھرے۔ اہلہم مضاف مضاف الیہ۔ اہل : والا۔ والے۔ وہ سب لوگ اہل کہلاتے ہیں۔ جن کو مذہب یا نسب یا ان دونوں کے علاوہ اور کسی قسم کا کوئی رشتہ یا تعلق ہو مثلاً ایک گھر یا ایک ہی شہر میں رہنا۔ بسنا ، یا کسی مخصوص صنعت یا پیشہ میں شریک ہونا۔ غرض کسی خاص صفت سے متصف ہونا ایک سلسلہ میں منسلک کردے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ اہلہم ان کے گھر والے۔ فکہین فکۃ کی جمع۔ باتیں بناتے ہوئے۔ اتراتے ہوئے ، مذاق اڑاتے ہوئے۔ الفکاہۃ خوش طبعی کی باتیں۔ خوش گپیاں فکھین انقلبوا کی ضمیر فاعل سے حال ہے۔ اور جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹتے تو خوش گپیاں مارتے ، مزے اڑاتے جاتے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

‘4 یعنی مسلمانوں پر پھبتیاں کستے ہوئے۔5” جو محمد (ﷺ) کی باتوں میں آگئے اور اسی لئے انہوں نے آخرت کی موہوم امید پر اپنی دنیا تج دی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مطلب یہ کہ غیبت و حضور ہر حالت میں مومنوں کی تحقیر و استہزاء کا مشغلہ رہتا ہے۔ البتہ حضور میں اشارے چلا کرتے اور غیبت میں صراحة برائیاں کرتے، حالانکہ مسلمانوں کی تحقیر و استہزاء کی بجائے کفار کو اپنی فکر کرنا چاہئے تھا، انہوں نے ایک تو اہل حق کے ساتھ استہزاء کیا پھر اپنی اصلاح سے بےفکر رہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا ................ اھلھم (31:83) ” اور جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے “۔ یعنی مومنین کو ایذائیں دے کر اور ان کا مذاف اڑا کر جب وہ تھک جاتے تو اپنے گھروں کی طرف انقلبوا فکھین (31:83) ” تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے “۔ وہ اپنی ان حرکات پر خوش ہوتے ، اور نہایت مزے سے اتراتے ہوئے ج... اتے ، اور اپنی ان گھٹیا حرکات اور شرارتوں پر ان کو سخت مسرت ہوتی۔ حالانکہ اگر ان کا ضمیر زندہ ہوتا تو ان کو ملامت کرتا ، اور ان کو اپنے ان افعال پر ندامت ہوتی ، ان کو بالکل احساس نہ ہوتا کہ وہ کس قدر حقیر حرکت کررہے اور کس قدر گنداطرز عمل ہے ان کا۔ قلب ونظر کے مسخ ہونے اور ضمیر کے مرجانے کی یہ آخری حد ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) اور جب یہ کافر اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتے۔ تو وہاں بھی ان مسلمانوں کا تذکرہ کے مزے لیتے تھے یعنی ان مجرموں کا طریقہ دل آزاری صرف گلیوں اور بازاروں ہی میں نہ تھا بلکہ گھروں میں بھی فقرائے مسلمین کا تذکرہ کرکے مزے لیتے تھے اور دل لگیاں کرتے تھے مطلب یہ کہ دل آزاری کا یہ سلسلہ حاضر اور غائب دونو... ں حالتوں میں جاری تھا۔  Show more