Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 24

سورة الانشقاق

فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۲۴﴾

So give them tidings of a painful punishment,

انہیں المناک عذابوں کی خوشخبری سنا دو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So, announce to them a painful torment. meaning, `inform them, O Muhammad, that Allah has prepared for them a painful torment.' Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(الا الذین امنوا و عملوا الصلحت…:” غیر ممنون “ ” من یمن “ (ن) (قطع کرنا) سے اسم مفعلو ہے، کہا جاتا ہے :” مننت الحبل “” میں نے رسی کاٹ دی۔ “ یعنی ایسا اجر جو کبھی قطع نہیں کیا جائے گا۔ مراد جنت ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، جس کی کوئی نعمت نہ کم ہوگی اور نہ ختم ہوگی۔ یہ سورت مسلمانوں کو اہل مکہ کی ایذا رسانی پر صبر و استقامت کی تلقین کے لئے نازل ہوئی۔ اس مقصد کے لئے پہلی امتوں کے مسلمانوں کو پیش آنے والے شدید ترین امتحان اور اس پر ان کے صبر و ثبات اور انہیں ستانے والوں کے انجام بد کا تذکرہ فرمایا، تاکہ ان کے حالات سن کر انہیں تسلی ہو اور یقین ہوجائے کہ جس طرح اصحاب الاخدود مارے گئے اسی طرح وہ لوگ بھی مارے جائیں گے۔ جواب مسلمانوں کو امتحان میں ڈال رہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۝ ٢٤ ۙ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْاِنْشِقَاق حاشیہ نمبر :13 دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے سینوں میں کفر اور عناد اور عداوت حق اور برے ارادوں اور فاسد نیتوں کی جو گندگی انہوں نے بھر رکھی ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:24) فبشرھم بذاب الیم ف سببیہ ہے تکذیب سبب بشارت سے۔ عذاب سے ڈرانے کی بجائے عذاب کی خوشخبری دینے کا حکم استہزاء دیا ہے (بمعنی ان کے حق میں یہی بشارت ہے) ۔ بشر فعل امر واحد مذکر حاضر تبشیر (تفعیل) مصدر۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع تکذیب کرنے والے ہیں۔ تو ان کو بشارت (خوشخبری) دیدے۔ عذاب الیم موصوف صفت دردناک عذاب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فبشرھم ............ الیم (24:84) ” لہٰذا ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دو “۔ کیا ہی بری خوشخبری ہے جس میں کوئی مسرت نہیں ، جس کو پانے والا پسند ہی نہیں کرتا۔ نہ ایسی خوشخبری کا کوئی انتظار کرتا ہے۔ اور اہل ایمان جو تکذیب نہیں کرتے۔ ان کے لئے کیا کیا تیاریاں ہیں ؟ جو عمل صالح کے ذریعہ قیامت کی تیاریاں کرتے ہیں تو اسے تکذیب کرنے والوں کے انجام سے مستثنیٰ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” فبشرھم “ یہ مشرکین کے لیے تخویف اخروی ہے۔ ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔ کفر و انکار کی ان کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔ ” الا الذین امنوا “ استثناء متصل ہے اور مطلب یہ ہے کہ کفار میں سے جو ایمان لے آئیں گے وہ عذاب سے بچ جائیں گے یا استثناء منقطع ہے۔ مطلب یہ ہے لیکن مومنوں کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا اور نہ کم ہوگا۔ سورة انشقاق ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) سو اے پیغمبر آپ ان کو ایک دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے اور خوشخبری سنا دیجئے یعنی ان کے اعمال کفریہ اور ان کی منکرانہ روش کی بنا پر ان کو دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے لفظ بشر تحکم کے طور پر استعمال کیا گیا ہے