Surat ut Tariq
Surah: 86
Verse: 4
سورة الطارق
اِنۡ کُلُّ نَفۡسٍ لَّمَّا عَلَیۡہَا حَافِظٌ ؕ﴿۴﴾
There is no soul but that it has over it a protector.
کوئی ایسا نہیں جس پر نگہبا ن فرشتہ نہ ہو ۔
اِنۡ کُلُّ نَفۡسٍ لَّمَّا عَلَیۡہَا حَافِظٌ ؕ﴿۴﴾
There is no soul but that it has over it a protector.
کوئی ایسا نہیں جس پر نگہبا ن فرشتہ نہ ہو ۔
There is no human being but has a protector over him. meaning, every soul has a guardian over it from Allah that protects it from the calamities. This is as Allah says, لَهُ مُعَقِّبَـتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ For Him, there are angels in succession, before and behind him. They guard him by the command of Allah. (13:11) How Man is created is a Proof of Allah's Ability to Return to Him Allah says, فَلْيَنظُرِ الاِْنسَانُ مِمَّ خُلِقَ
4۔ 1 یعنی ہر نفس پر اللہ کی طرف سے فرشتے مقرر ہیں جو اس کے اچھے یا برے سارے اعمال لکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ انسانوں کی حفاطت کرنے والے فرشتے ہیں۔
[٣] ہر جاندار کی حفاظت کرنے والی ہستی :۔ ان تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی قسم اٹھائی گئی ہے جو اہل زمین کو (شہاب ثاقب) جیسی بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس بات پر قسم اٹھائی گئی ہے کہ ہر انسان پر ایک نگہبان مقرر ہے جو اس کی ہر طرح سے حفاظت کرتا ہے۔ یہ نگہبان کون ہے ؟ یہ خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو زمین و آسمان کی ہر چھوٹی بڑی مخلوق کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ جس کے سنبھالنے سے ہر شے اپنی جگہ سنبھلی ہوئی ہے۔ اور جس نے ہر جاندار کو اس کی ضروریات بہم پہنچانے اور اس کی موت کے مقررہ وقت تک آفات ارضی و سماوی سے بچانے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ یہ حفاظت اکثر اوقات ایسے غیر شعوری طریقوں سے ہوتی ہے کہ انسان کو اس کا علم تک نہیں ہوتا اور جب کبھی علم ہوجاتا ہے تو انسان کی زبان سے بےساختہ ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں کہ && اس موقعہ پر اللہ نے مجھے ہاتھ دے کر بچا لیا ورنہ میرے بچے رہنے کی کوئی توقع نہ تھی && اور ایسے واقعات تقریباً ہر انسان کو اپنی زندگی میں پیش آتے ہی رہتے ہیں۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورة رعد میں فرمایا : کہ ہر انسان کے آگے پیچھے ہم نے فرشتے مقرر کردیئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں (١٣: ١١) واضح رہے کہ حفاظت کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف ہو یا اس کے فرشتوں کی طرف اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
إِن كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِظٌ (there is no human being, but there is a watcher over him....86:4). This is the subject of the oath. The particle in at the beginning of the statement is used in the sense of &no&, that is, a negative particle; and the particle lamma is used in the sense of &but/except&, that is, it is an exceptive particle in the dialect of Banu Hudhail. The verse purports to say that there is not a single person over whom there is not a watcher [ hafiz ]. The word hafiz may mean &guardian& who may watch over someone&s actions and deeds, so that the reckoning is made on that basis. The word hafiz may also be used in the sense of &one who protects from calamities&. In the first sense, the word hafiz refers to the angels who record the deeds. Here the word hafiz , although appears in the singular form, it is used in the generic sense, because there is not just a single recording angel, but there is a host of them as another verse testifies to this fact: وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ﴿١٠﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ &While [ appointed ] over you there are watchers, who are noble, the writers [ of the deeds ],[ 82: 10-11] & According to the second sense of the word, hafiz refers to the angels who have been appointed to protect man from all kinds of calamities that befall him day and night, except the calamities that Allah has decreed for him, as the following verse explicitly states: لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ &For him there are angels replacing each other, before him and behind him, who guard him under the command of Allah [ 13:11] A tradition has reported the Messenger of Allah saying that Allah has appointed three hundred and sixty angels for every believer. They protect every limb of his. Of the three hundred and sixty, seven angels alone protect man&s eye. These angels defend man from every calamity that is not decreed, like a fan chases away the flies coming to a vessel containing honey. If there are no security guards for man, the devils will snatch them away. [ Qurtubi ].
ان کل نفس لما علیھا حافظ، یہ جواب قسم ہے، اس میں شروع کا حرف ان نافیہ ہے اور حرف لما بتشدید میم بمعنے الا ہے جو قبیلہ ہذیل کے لغت میں استشناء کے معنے دیتا ہے اور معنے آخرت کے یہ ہیں کہ کوئی نفس ایسا نہیں جس ہر حافظ نہ ہو، حافظ کے معنے نگراں کے بھی آتے ہیں جو کسی کے اعمال کو نظر میں رکھے تاکہ ان کا حساب لے، اور حافظ بمعنے محافظ بھی آتا ہے جس کے معنے مصائب وآفات سے حفاظت کرنے والے کے ہیں، پہلے معنے کے اعتبار سے حافظ سے مراد فرشتہ کا تب اعمال ہے، اور یہاں اگرچہ اس کو بلفظ مفرد بمعنی جنس بیان کیا ہے مگر ان کا متعدد ہونا دوسری آیت سے ثابت ہے ان علیکم لحفظین کراما کتبین اور دوسرے معنے کے اعتبار سے وہ فرشتے مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی حفاظت کے لئے مقرر کئے ہیں وہ دن رات تمام آفات و مصائب سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں، بجزا اس مصیبت وآفت کے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کردی ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کا صراحة بیان آیا ہے لہ معقبیت من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امر اللہ، یعنی انسان کے لئے نوبت بہ نوبت آنے والے محافظ فرشتے مقرر ہیں جو اس کے آگے اور پیچھے سے اس کی حفاظت بامرالٰہی کرتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر مومن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سو ساٹھ فرشتے اس کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں جو انسان کے ہر ہر عضو کی حفاظت کرتے ہیں ان میں سے سات فرشتے صرف انسان کی آنکھ کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں، یہ فرشتے انسان سے ہر بلاومصیبت جو اس کے لئے مقدر نہیں اس طرح انسان سے دفع کرتے ہیں جیسے شہد کے برتن پر آنے والی مکھیوں کو پنکھے وغیرہ سے دفع کیا جاتا ہے۔ اور اگر انسان پر یہ حفاظتی پہرہ نہ ہو تو شیاطین اس کو اچک لیں (قرطبی)
اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْہَا حَافِظٌ ٤ ۭ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔
آیت ٤{ اِنْ کُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَیْہَا حَافِظٌ ۔ } ” کوئی جان ایسی نہیں جس پر کوئی نگہبان نہ ہو۔ “ سورة الانفطار کی ان آیات میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ آیا ہے : { وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ - کِرَامًا کَاتِبِیْنَ - یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ ۔ } ” جبکہ ہم نے تمہارے اوپر محافظ (فرشتے) مقرر کر رکھے ہیں۔ بڑے باعزت لکھنے والے ۔ وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کر رہے ہو “۔ انسان کے محافظ فرشتوں کا ذکر سورة الانعام کی اس آیت میں بھی ہے : { وَہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃًط } (آیت ٦١) ” اور وہ اپنے بندوں پر پوری طرح غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا رہتا ہے “۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ متعدد فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ ان میں سے کچھ اس کے اعمال کا ریکارڈ مرتب کرنے میں مصروف ہیں جبکہ کچھ کو اس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
1 "A Guardian": Allah Almighty Himself, Who is looking after and watching over every creature, big or small, in the earth and heavens. He it is Who has brought everything into existence, Who is maintaining and sustaining everything in its place and position, and Who has taken the responsibility to provide for every creature and to protect it from calamities till an appointed tune. On this, an oath has been sworn by the heaven and by every star and planet which appears in the darkness of the night. (Although lexically, an-najm ath-thaqib is singular, it does not imply any one star but the star in the generic sense) . The oath signifies that the existence of each of the countless stars and planets that shines in the sky at 'night, testifies to the fact that there is a Being Who has created it, illuminated it, suspended it in space, and thus is watching over it in a manner that neither it falls from its place nor collides with any other of the countless stars in their movements, nor does any other star collide with it.
سورة الطَّارِق حاشیہ نمبر :1 نگہبان سے مراد خود اللہ تعالی کی ذات ہے جو زمین و آسمان کی ہر چھوٹی بڑی مخلوق کی دیکھ بھال اور حفاظت کر رہی ہے جس کے وجود میں لانے سے ہر شے وجود میں آئی ہے جس کے باقی رکھنے سے ہر شے باقی ہے ، جس کے سنبھالنے سے ہر شے اپنی جگہ سنبھلی ہوئی ہے ، اور جس نے ہر چیز کو اس کی ضروریات بہم پہنچانے اور اسے ایک مدت مقررہ تک آفات سے بچانے کا ذمہ لے رکھا ہے ۔ اس بات پر آسمان کی اور رات کی تاریکی میں نمودار ہونے والے ہر تارے اور سیارے کی قسم کھائی گئی ہے ۔ ( النجم الثاقب کا لفظ اگرچہ لغت کے اعتبار سے واحد ہے ، لیکن مراد اس سے ایک ہی تارا نہیں ہو تا بلکہ تاروں کی جنس ہے ) ۔ یہ قسم اس معنی میں ہے کہ رات کو آسمان میں یہ بے حدو حساب تارے اور سیارے جو چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں ان میں سے ہر ایک کا وجود اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی ہے جس نے اسے بنایا ہے ، روشن کیا ہے ، فضا میں معلق رکھ چھوڑا ہے ، اور اس طرح اس کی حفاظت و نگہبانی کر رہا ہے کہ نہ وہ اپنے مقام سے گرتا ہے ، نہ بے شمار تاروں کی گردش کے دوران میں وہ کسی سے ٹکراتا ہے اور نہ کوئی دوسرا تارا اس سے ٹکراتا ہے ۔
(86:4) ان کل نفس لما علیہا حافظ : یہ جملہ جواب قسم ہے ان نافیہ ہے۔ لما استثنائیہ ہے گو شرطیہ بھی آتا ہے جیسے فلما نجکم الی البر اعرضتم (17:67) پھر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر لے جاتا ہے۔ تم منہ پھیر لیتے ہو۔ اور بطور حرف جازم بھی آتا ہے اور لم کی طرح فعل مضارع پر داخل ہوکر اس کو جزم دیتا ہے اور ماضی منفی کے معنی میں کردیتا ہے جیسے کہ ولما یدخل الایمان فی قلوبکم (49:14) اور ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اور الا بمعنی مگر کا ہم معنی ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ کوئی نفس نہیں مگر اس پر نگران (فرشتہ) مامور ہے۔
ف 1 اسی کو دوسری آیت میں فرمایا :” وان علیکم لحفظین بیشک تم پر نگہبان (فرشتے) ہیں۔ “ (نفطار :10) مراد وہ فرشتے ہیں جو ہر آن آدمی کے ساتھ رہتے ہیں اور بلائوں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں یا اس کے اعمال کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ (دیکھیے سورة رعد :11)
2۔ مطلب یہ کہ ان اعمال پر محاسبہ ہونے والا ہے اور اس قسم کو مقصود سے مناسب یہ ہے کہ جیسے آسمان پر ستارے ہر وقت محفوظ ہیں مگر ظہور ان کا خاص شب میں ہوتا ہے، اسی طرح اعمال سب نامہ اعمال میں اس وقت بھی محفوظ رہیں گے مگر ان کا ظہور خاص قیامت میں ہوگا۔
ان کل .................. حافظ (4:86) ” کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان نہ ہو “۔ جن الفاظ اور جس ترکیب میں یہ بات کہی گئی ہے وہ سخت تاکیدی اسلوب ہے۔ نفی و اثبات کہ کوئی نفس نہیں ہے مگر اس پر نگراں مقرر ہے۔ جو اس کی نگرانی بھی کرتا ہے اور اس کے اعمال کو بھی لکھتا ہے۔ اور یہ نگران اس کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اس کی تقرری اللہ کے حکم سے ہے۔ ان تمام باتوں کو نفس کی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ تمام انسانی راز تمام انسانی افکار ، انسانی نفس کے اندر ہوتے ہیں اور یہ نفس ہی سزا وجزا کا ذمہ دار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کو یونہی نہیں چھوڑ دیا گیا کہ شتر بےمہار کی طرح جہاں چاہیں گھومیں پھریں اور ان کا کوئی محافظ اور چرواہا نہ ہو ، اور ان کو زمین کی وادیوں میں بغیر نگراں کے چھوڑ دیا گیا ہو ، کہ جہاں چاہیں گھومیں اور جہاں چاہیں چریں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو ، بلکہ انسانوں کے اعمال کو بڑی دقت کے ساتھ ریکارڈ کیا جارہا ہے اور یہ ریکارڈ ہر شخص کا براہ راست تیار ہورہا ہے اور نہایت صفائی کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ آیت اس بات اور خوفناک حقیقت کو سامنے لاتی ہے کہ انسان چاہے بظاہر اکیلا ہو ، اکیلا کسی وقت نہیں ہوتا ، جب دنیا میں کوئی بھی دیکھنے والا نہ ہو تو اللہ اور اللہ کا نمائندہ دیکھ رہا ہے اور ریکارڈ کررہا ہے ، اگر کوئی دنیاوی آنکھ اسے نہیں بھی دیکھ رہی اور کسی ستارے کی چمک بھی اس تک نہیں پہنچ رہی تو اللہ کی نظریں اس پر ہیں اور اللہ کا مقرر کردہ نگران ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس طرح جس طرح نجم ثاقب کی روشنی تاریکیوں کو پھاڑ پہنچ جاتی ہے ۔ اسی طرح اللہ کی نگرانی میں بھی کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ اور اللہ کا مقرر کردہ نگران ساتھ لگا ہوا ہے۔ اس طرح جس طرح نجم ثاقب کی روشنی تاریکیوں کو پھاڑ پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ کی نگرانی میں بھی کوئی پردہ حائل نہیں ہے۔ اور اللہ کے کمالات یکساں ہیں ، وہ جس طرح آفاق میں کام کرتے ہیں اسی طرح انفس میں بھی کرتے ہیں۔ یہ چٹکی کے ذریعہ نفس انسانی کے احساس کو بیدار کرکے اسے کائنات سے جوڑ دیا گیا ، اب ایک دوسری چٹکی کے ذریعہ اللہ کی گہری تدبیر اور اٹل تقدیر کے بارے میں اس کے احساس کو بیدار کیا جاتا ہے۔ آسمانوں اور ستاروں کی قسم اٹھا کر اس گہری تدبیر کی طرف اشارہ تھا۔ اب بتایا جاتا ہے کہ انسان اور زمین اور ستاروں کی بات تو دور کی بات ہے یہ تمہارا نفس بھی کرشمہ قدرت ہے۔ خود انسان کی تخلیق ہی بتاتی ہے کہ یہ انسان شتر بےمہار نہیں ہے اور نہ خود رو ہے۔ اور نہ بےمقصد سلسلہ وجود وعدم ہے۔
(4) کہ کوئی شخص ایسا نہیں جس پر کوئی نگہبان مقرر نہ ہو۔ طارق کے معنی اصل میں کوٹنے والے کے ہیں پھر اس شخص پر بولا جانے لگا جو رات میں آکر دروازہ کھٹکھٹائے پھر کثرت استعمال کی وجہ سے ہر اس حادثے کو کہنے لگے جو رات میں پیش آئے۔ رات کے تخلیہ میں معشوق کے جو خیالات دل اور دماغ میں آتے ہیں ان کو بھی طارق کہنے لگے بہرحال ! یہاں طارق سے مراد وہ ستارہ ہے جو رات کو روشن اور بلند نظر اتٓا ہے اس سورت میں بھی مسئلہ معاد اور قیامت اور بعث کا ذکر کرنا مقصود ہے اس لئے اسی کی مناسبت سے قسمیں کھا کر فرماتے ہیں۔ قسم ہے آسمان کی اور قسم ہے طارق کی یعنی جو رات کے اندھیرے میں ظاہر ہونے والا ہے اس کی وضاحت فرمائی، اے پیغمبر آپ کو کیا معلوم ہے کہ وہ طارق کیا ہے وہ ایک روشن ستارہ ہے جو اپنے وقت مقررہ پر ظاہر ہوتا ہے کوئی شخص ایسا نہیں جس پر کوئی نگہبان مقرر نہ ہو، یعنی ہر شخص پر نگہبان موجود ہے خواہ کراماً کاتبین مراد ہیں یا وہ فرشتے مراد ہوں جو انسان کی حفاظت کرتے ہیں جیسا کہ سورة رعد میں گزر چکا ہے۔ لہ معقبت من بین یدیہ ومن خلفہ۔ یعنی حضرات نے فرمایا کہ حافظ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس ہے وہی سب کا محافظ اور سب کا نگہبان ہے۔ ان الہ کا علیکم رقیباً لفظ علی اس معنی کا موید ہے کیونکہ لفظ علی متضمن ہے تفوق اور مہمینت کو۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ ہر چیز اپنے اپنے وقت پر نمایاں ہوتی ہے اور ہر چیز اپنی اپنی جگہ محفوظ ہے لہٰذا قیامت بھی اپنے وقت پر ظاہر ہوگی اور جب قیامت کا آنا یقینی ہے تو اس پر غور وفکر کرنا چاہیے اور اس کے دلائل کو سمجھنا اور سمجھ کر وقع قیامت کا یقین کرنا چاہیے۔