Surat ut Tariq

Surah: 86

Verse: 6

سورة الطارق

خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍ ۙ﴿۶﴾

He was created from a fluid, ejected,

وہ ایک اچھلتے پانی سے پیدا کیا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He is created from a water gushing forth. meaning, the sexual fluid that comes out bursting forth from the man and the woman. Thus, the child is produced from both of them by the permission of Allah. Due to this Allah says, يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَايِبِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ ﴿٦﴾ يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ (He is created of a spouting water that comes out from between the loins and the chest-bones...86:6, 7). The general body of commentators have explained that the spouting water (sperm) comes out from the loins of men and the chest-bones of women. However, the research of embryological science on the subject shows that the seminal fluid comes out from every part of human body, and every part of the foetus is made of the seminal fluid that has come out from that part of the man&s and woman&s body. The brain, of course, plays the greatest role in this matter. Thus experience shows that people who indulge in excessive cohabitation mostly suffer from weakness of mental weakness. The embryologists have at the same time discovered that the seminal fluid separates from all parts of the body, and through the spinal cord, collects in the testes and from there it spouts. If these findings have any value, it is not far-fetched to reconcile them with the explanation of some of the commentators. Embryologists agree that the brain plays the most important role in the preparation of seminal fluid. The representative of the brain is the spinal cord that has come into the backbone from the brain, up to the loins and the testes. Some of its branches have come into the chest-bones. It is likely that the seminal fluid coming from the chest-bones into the woman&s seminal fluid and the seminal fluid coming from the loins into a man&s seminal fluid have a greater role to play. (Baidawi) If we analyse the verse of the Qur&an carefully, we notice that it does not specify &man or woman&. It merely says &He is created of spouting water that comes out from between the loins and the chest-bones.& This may simply signify that the seminal fluid comes out from the entire body of both men and women. The expression &the entire body& is understood from the mention of the principal organs of front and back. The front part of the body is chest and the back part of the body is the loin. These are the principal parts of the body. The expression, &the spouting water that comes out from between the loins and the chest-bones& may mean &comes out from the entire body&.

خلق من ماء عافق، یعنی انسان پیدا کیا گیا ہے ایک اچھلنے والے پانی سے جو نکلتا ہے پشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے۔ عام طور سے حضرات مفسرین نے اس کا یہ مفہوم قرار دیا ہے کہ نطفہ مرد کی پشت اور عورت کے سینہ سے نکلتا ہے مگر اعضائے انسانی کے ماہر اطبا کی تحقیق اور تجربہ یہ ہے کہ نطفہ درحقیقت انسان کے ہر ہر عضو سے نکلتا ہے اور بچے کا ہر عضو اس جز نطفہ سے بنتا ہے جو مرد و عورت کے اسی عضو سے نکلا ہے۔ البتہ دماغ کو اس معاملے میں سب سے زیادہ دخل ہے اسی لئے مشاہدہ ہوتا ہے کہ جماع کی کثرت کرنے والے اکثر صعف دماغ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ انکی تحقیق یہ بھی ہے کہ نطفہ تمام اعضا سے منفصل ہو کر نخاع کے ذریعہ خصیتین میں جمع ہوتا اور پھر وہاں سے نکلتا ہے۔ اگر یہ تحقیق صحیح ہے تو حضرات مفسرین نے جو نطفہ کا خروج مرد کی پشت اور عورت کے سینے کے متعلق قرار دیا ہے اس کی توجیہ بھی کچھ بعید نہیں کیونکہ اس پر اطبا کا اتفاق ہے کہ نطفہ کی تولید میں سب سے بڑا دخل دماغ کو ہے اور دماغ کا خلیفہ و قائم مقام نخاع ہے جو ریڑھ کی ہڈی کے اندر دماغ سے پشت اور پھر خصیتین تک آیا ہوا ہے، اسی کے کچھ شعبے سینے کی ہڈیوں میں آئے ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ عورت کے نطفہ میں سینے کی ہڈیوں سے آنیوالے نطفہ کا اور مرد کے نطفہ میں پشت سے آنیوالے نطفہ کا دخل زیادہ ہو (ذکرہ البیضاوی) اور اگر قرآن کریم کے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں، صرف اتنا ہے کہ نطفہ پشت اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ اس کا یہ مطلب بےتکلف ہوسکتا ہے کہ نطفہ مرد و عورت دونوں کے سارے بدن سے نکلتا ہے اور سارے بدن کی تعبیر آگے پیچھے کے اہم اعضاء سے کردی گئی سامنے کے حصہ میں سینہ اور پیچھے کے حصہ میں پشت سب سے اہم عضا ہیں۔ ان دونوں کے اندر سے نکلنے کا مطلب یہ لیا جائے کہ سارے بدن سے نکلتا ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں لکھا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ۝ ٦ ۙ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے دفق قال تعالی: ماءٍ دافِقٍ [ الطارق/ 6] : سائل بسرعة . ومنه استعیر : جاء وا دُفْقَةً ، وبعیر أَدْفَقُ : سریع، ومَشَى الدِّفِقَّى، أي : يتصبّب في عدوه کتصبّب الماء المتدفّق، ومشوا دفقا . ( د ف ق ) الدفق ( مصدر ن ) کے معنی سرعت کے ساتھ بہنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ ماءٍ دافِقٍ [ الطارق/ 6]( اچھل کر تیزی سے گرنے والے والے پانی سے اسی سے بطور استعارہ ( وہ یکبارگی آگئے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور تیز رفتار اونٹ کو بعیر اوفق کہتے ہیں ۔ مشی الدفقیٰ اس طرح تیز رفتاری سے چلا جیسے زور سے بہنے والا پانی اچھل کر گرتا ہے اور بہتا ہوا چلا جاتا ہے ۔ مشوا دفقا ۔ وہ تیز چلے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(86:6) خلق من ماء دافق۔ جملہ مستانفہ ہے۔ سوال مقدر کا جواب ہے۔ دافق ماء کی صفت ہے۔ دفق (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ کودنے والا۔ اچھلنے والا۔ پانی کی طرف دفق کی نسبت مجازی ہے۔ دافق اسم مفعول بھی ہوسکتا ہے (اچھل کر نکالا گیا) جیسے کہ عیشۃ راضیۃ (101:7) میں راضیۃ (پسند کرنے والی) بمعنی مرضیۃ (پسندیدہ) ہے۔ جب دافق کا معنی یکدم بہنا۔ سرعت کے ساتھ بہنا۔ اچھل کر تیزی سے گرنا۔ لئے جائیں تو دافق کی نسبت ماء کی طرف حقیقی ہوگی۔ ترجمہ ہوگا :۔ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) وہ ایک اچھلٹے ہوئے پانی سے بنایا ہے۔