Surat ul Ghashiya

Surah: 88

Verse: 16

سورة الغاشية

وَّ زَرَابِیُّ مَبۡثُوۡثَۃٌ ﴿ؕ۱۶﴾

And carpets spread around.

اور مخملی مسندیں پھیلی پڑی ہونگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And Zarabi, spread out (Mabthuthah). Ibn Abbas said, "Az-Zarabi are carpets." This was also said by Ad-Dahhak and others. Here the word Mabthuthah means placed here and there for whoever would like to sit upon them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّزَرَابِيُّ مَبْثُوْثَۃٌ۝ ١٦ ۭ زرابيّ : جمع زربيّة، اسم جامد لنوع من البسط والطنافس، وقیل جمع زربيّ بضمّ الزاي وکسرها۔ كما في القاموس۔ وتشدید الیاء، وقیل بتثلیث الزاي فيهما .. وزنه فعلیل أو فعلیلة، وزن زرابيّ فعالیل بفتح الفاء . زرب الزَّرَابِي : جمع زُرْبٍ ، وهو ضرب من الثیاب محبّر منسوب إلى موضع وعلی طریق التشبيه والاستعارة قال : وَزَرابِيُّ مَبْثُوثَةٌ [ الغاشية/ 16] ، والزَّرْبُ ، والزَّرِيبَةُ : موضع الغنم، وقترة الرّامي ( ز ر ب ) الزرابی یہ زرب کی جمع ہے جو ایک عمدہ قسم کا کپڑا ہے اور ایک مقام کی طرف منسوب ہے ۔ پھر تشبیہ واستعارہ کے طورپر زرابی بمعنی فرش کے بھی آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَزَرابِيُّ مَبْثُوثَةٌ [ الغاشية/ 16] اور بچھائے ہوئے فرش ۔ اور زرب وزریبۃ بکریوں کے باڑہ اور تیر انداز کے چھپنے کی جگہ کو بھی کہتے ہیں ۔ ( مبثوثة) ، مؤنّث مبثوث، اسم مفعول من الثلاثيّ بثّ ، وزنه مفعول .

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦{ وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ ۔ } ” اور مخمل کے نہالچے جگہ جگہ پھیلے ہوئے۔ “ اگلی چار آیات قرآن مجید کی ان آیات میں سے ہیں جو بقول علامہ اقبال شعوری مشاہدے پر زور دیتی ہیں کہ چیزوں کو دیکھو ‘ ان پر غور کرو اور اپنی عقل اور منطق کے مطابق ان سے نتائج اخذ کرو۔ ظاہر ہے عقل ‘ شعور اور حواس کی صلاحیتیں انسان کو اسی لیے دی گئی ہیں کہ اپنی زندگی میں وہ ان سے کام لے : { وَلاَ تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً ۔ } (بنی اسرائیل) ” اور مت پیچھے پڑو اس چیز کے جس کے بارے میں تمہیں علم نہیں۔ یقینا سماعت ‘ بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں بازپرس کی جائے گی “۔ واضح رہے کہ علم کے میدان میں یہ سائنٹیفک رجحان قرآن مجید نے متعارف کرایا ہے۔ مطلب یہ کہ انسان ہرچیز کو پہلے عقل کی کسوٹی پر پرکھے اور پھر کوئی رائے قائم کرے۔ عقل سے ماوراء صرف الہامی علم ہے۔ اس لیے وحی کی سند کے بغیر انسان کوئی ایسی بات تسلیم نہ کرے جس کے پیچھے کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ ہو۔ قرآن مجید کا عطا کردہ یہی وہ اندازِ فکر ہے جس نے ہر قسم کی توہم پرستی کی جڑکاٹ کر رکھ دی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(88:16) وزرابی مبثوثۃ : زرابی۔ مخمل کے نہالچے۔ زرب کی جمع ہے۔ ایک قسم کا عمدہ کپڑا ہے اور ایک موضع کی طرف منسوب ہے تشبیہ اور استعارہ کے طور پر بمعنی فرش کے بھی آتا ہے۔ قاموس میں ہے زرابی قالچے اور فرش ہیں۔ یا ہر وہ چیز جو بچھائی جائے۔ بث (باب نصر، ضرب) مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ واحد مؤنث پھیلانا۔ غبار اڑانا۔ مبثوثۃ پھیلا ہوا۔ بکھرا ہوا۔ لمبے چوڑے بچھے ہوئے فرش۔ اصل میں بث کے معنی ہیں کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا۔ جیسے بث الریح التراب۔ ہوانے خاک اڑائی یا فکانت ھباء منبثا (56:6) پھر وہ منتشر ذرات کی طرح اڑنے لگیں۔ یا کالفراش المبثوث (101:4) منتشر پتنگوں کی طرح۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ تاکہ جہاں چاہیں آرام کرلیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بھی نہ پڑے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وزرابی مبثوثة (16:88) ” اور نفیس فرش بچھے ہوئے ہوں گے “۔ وہ فرش جو پشم دار ہو ، یہ جگہ جگہ زینت اور آرام کے لئے بچھے ہوں گے۔ یہ وہ سہولیات ہیں جن کی نظیر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں اور یہاں ان اصطلاحات میں جنت کی سہولیات کا ذکر ہمارے سمجھانے کے لئے ہے لیکن وہاں سہولیات کیسی ہوں گی ، اس کا تعلق وہاں استعمال کرنے سے ہے۔ یہ وہی لوگ بتاسکیں گے جن کی قسمت میں جنت لکھی ہے۔ یہ بحث فضول ہے کہ ہم یہاں جنت کی سہولیات کی نوعیت اور کیفیت کا ذکر کریں یا قیامت کے عذاب کی کیفیات کا ذکر کریں اس لئے کہ اشیاء اور مدکارت کی نوعیت کا اظہار اس طرح ہوسکتا ہے کہ ان کے بارے میں انسانی ادراک مکمل ہو ، اہل زمین کی قوت مدرکہ اس زمینی حواس کے محدود دائرے میں کام کرتی ہے۔ جب یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو ان کی قوت مدرکہ پر سے تمام حدود وقیود اٹھ جائیں گے اور وہاں ان کی روح اور احساس اور ادراک سب بہت ترقی کریں گے۔ جس طرح وہاں قوت مدرکہ ترقی کرلے گی ، اس طرح وہاں الفاظ کے معانی بھی وسیع تر ہوجائیں گے اور وہاں ہمارے ذوق وشوق اور فہم وادراک کا عالم ہی اور ہوگا لہٰذا اس کی کیفیت یہاں ہم قلم بند نہیں کرسکتے۔ ہم یہاں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہذہن میں لذت ، عیش کوشی اور مٹھاس اور ذوق کا اعلیٰ ترین تصوریوں ہوگا اور یہ ہم اپنے تجربے کے مطابق ہی کہہ سکتے ہیں۔ اصل حقیقت ہمارے علم میں تب آئے گی جب اللہ جل شانہ ہمیں وہاں یہ اعزاز بخش دے گا۔ یہاں آکر عالم آخرت کا مطالعاتی سفر ختم ہوتا ہے اور ہم اس ظاہری کائنات کی طرف لوٹتے ہیں جو ہمارے سامنے کھڑی ہے اور جس کے اندر قادر مطلق کی تدبیر ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ جس میں اللہ کی صنعت ممتاز ہے ، جس میں اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں ممتاز نظر آتی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زندگی کے بعد اس سے ایک برتر زندگی ہے ، اس زمین سے ایک برتر ترجہان ہے اور اس موت پر ہی خاتمہ نہیں ہے بلکہ لوگوں کا انجام کچھ اور ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) اور مخملی چھوٹی چھوٹی مسندیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ یعنی جو لوگ مومن تھے اور نیک عمل کیا کرتے تھے ان کے چہروں پر تروتازگی اور رونق ہوگی اور ان کے اعمال کا جو ثواب اور اجر ان کو ملے گا اس کی وجہ سے خوش اور راضی ہوں گے ان دو جملوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اجمالی حالت اور ان کے ثواب کا ذکر فرمایا اس کے بعد دارالثواب اور جنت کا ذکر کیا یہ لوگ بہشت بریں میں ہوں گے وہ جنت بہت بلند ہوگی عنی یا تو عمارت بہت بلند ہوگی یا یہ مطلب کہ وہ مرتبے کے اعتبار سے بہت بلند ہے اس جنت میں کوئی لغو اور بیہودہ بات نہیں سنیں گے۔ لغو سے مراد یا تو کذب بہتان اور کفر ہے یا گالی گلوچ مراد ہے غرض یہ کہ جنت میں کوئی ایسی بات نہیں سنیں گے اس میں چشمے جاری ہوں گے بعض نے کہا کوئی خاص چشمہ جاری ہوگا۔ بعض نے کہا جنس مراد لے کر چشمے ترجمہ کیا ہے چونکہ جنت میں بہت سے چشمے ہیں اس لئے ہم نے جنس کو اختیار کرلیا ہے۔ اس جنت میں اونچے اور بلند تخت ہوں گے یہاں بھی ہوسکتا ہے کہ مرتبے کے اعتبار سے بلندی ہو اور یا تخت اونچے اور بلند ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ جب جنتی تخت پرچڑھنے کا ارادہ کریں گے تو وہ تخت نیچے ہوجائیں گے اور بیٹھنے کے بعد پھر بلند ہوجائیں گے آب خورے رکھے ہوئے ہوں گے جب جنتی چاہیں تو اٹھا کر پی لیں اور ان کو نیچے اترنا نہ پڑے۔ بعض نے کہا ان میں شراب طہور ہوگی ایک قطار میں رکھے ہوں گے بعض نے کہا چشموں کے کنارے پر رکھے ہوئے ہوں گے تکیے لگے ہوئے یعنی بڑے تکیے جن سے کمر لگا کر بیٹھا جاتا ہے۔ نمارق نمارقہ کی جمع ہے زرابی زربی یا زریبۃ کی جمع ہے نرم بچھونے کو اور مخمل کی چھوٹی مسند کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ زرابی پھیلے ہوئے ہوں گے جس پر بیٹھیں گے یا یہ جب آپس میں ایک دوسرے کے ہاں ملاقات کی غرض سے جائیں گے تو اس زربی پر آرام سے بیٹھیں گے جنت کی نعمتوں کے سلسلے میں ابن قیم کی کتاب حاوی الارواح الی بلا والا فراح اہل علم کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ اب آگے عام آخرت کے لئے چند چیزوں کا بیان ہے جن سے ظاہر کرنا مقصود ہے کہ جو اللہ تعالیٰ ایسی چیزیں پیدا کرسکتا ہے کیا وہ دوبارہ انسان کو نہیں پیدا کرسکتا۔ نیز یہ کہ جنت کے تخت کس طرح بیٹھنے کے وقت نیچے اور بیٹھنے کے بعد اونچے ہوسکتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔