Surat ul Fajar
Surah: 89
Verse: 27
سورة الفجر
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾
[To the righteous it will be said], "O reassured soul,
اے اطمینان والی روح ۔
یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾
[To the righteous it will be said], "O reassured soul,
اے اطمینان والی روح ۔
[١٩] نفس مطمئنہ کیا ہے ؟ اس کی وضاحت کے لیے سورة القیامۃ کی آیت نمبر ٢ کا حاشیہ نمبر ٢ ملاحظہ فرمائیے۔
یایھا النفس المطمینۃ :” النفس المطمئنۃ “ اطمینان والی جان، جسے اللہ، اس کے رسول اور ان کے احکام کے حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، بلکہ پوری تسلی ہے۔
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ( O contented soul...89:27). Here the soul of the believer is referred to as nafs mutma&innah &the contented soul&. The word mutma&innah literally means &calm&. It refers to the soul that is &peaceful and tranquil& as a result of remembrance and obedience of Allah. When he abandons it, he feels restless. This is probably the same soul as is made pure, through spiritual exercises and discipline, from the evil traits and bad conduct. Obedience of Allah and His remembrance becomes his predisposition. Shari&ah becomes his nature. ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ (come back to your Lord....89:28). The words &come back& indicate that his first place was with his Lord, and now he is commanded to go back to Him. This confirms the narration that the souls of the believers, together with their Book of Deeds, will be in ` illiyin. ` Illiyin is a place on the seventh heaven in the shade of the Throne of the Most-Merciful Lord. This is the original resting-place of all human souls, from where they are brought out and put into human body. After death, the souls are returned to that place.
یایتھا النفس المطمئنة، یہاں مومن کی روح کو نفس مطمئنہ کے لقب سے خطاب کیا گیا ہے۔ مطمئنہ کے لفظی معنے ساکنہ کے ہیں۔ مراد وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے سکون وقرار پاتا ہے اسکے ترک سے بےچینی محسوس کرتا ہے اور یہ وہی نفس ہوسکتا ہے جو ریاضات ومجاہدات کرکے اپنی بری عادات اور اخلاق ذیلہ کو دور کرچکا ہو۔ اطاعت حق اور ذکر اللہ اس کا مزاج اور شریعت اس کی طبیعت بن جاتی ہے اس کو خطاب کرکے فرمایا گیا ارجعی الی ربک یعنی لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف، لوٹنے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا مقام بھی اب کے پاس تھا اب وہیں واپس جانیکا حکم ہورہا ہے، اس سے اس روایت کی تقویت ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ مومنین کی ارواح انکے اعمالناموں کے ساتھ علیین میں رہیں گی اور علیین ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے سایہ میں کوئی مقام ہے۔ کل ارواح انسان کا اصلی مسقرد وہی ہے وہیں سے روح لا کر انسان کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور پھر موت کے بعد وہیں واپس جاتی ہے۔
يٰٓاَيَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّۃُ ٢٧ نفس الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . ( ن ف س ) النفس کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام/ 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة/ 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة/ 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔ طمن الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] ( ط م ن ) الطمانینۃ والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔
(30-27) اے عذاب سے اطمینان والی توحید خداوندی کی تصدیق کرنے والی، نعمت خداوندی پر شکر کرنے والی، مصیبتوں پر صبر کرنے والی، قضاء الہی پر راضی ہونے، عطا خداوندی پر قناعت کرنے والی، روح تو ان نعمتوں کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے تیار کر رکھی ہیں، یا اپنے جسم کی طرف جا اس طرح سے کہ تو ثواب خداوندی سے خوش اور اللہ تعالیٰ تیری توحید سے خوش ہو اور پھر ادھر چل کر تو میرے خاص بندوں اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ شان نزول یَا ایَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّهُ الخ ابن ابی حاتم نے بریدہ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت حمزہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور جبیر عن الضحاک کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بئر رومہ کو کون خریدتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے تاکہ اس سے شیریں پانی لیا جاسکے، چناچہ حضرت عثمان (رض) نے اس کو خرید لیا، آپ نے ان سے فرمایا کیا اچھا ہو کہ تم اس کے پانی کو لوگوں کے لیے وقف کردو۔ انہوں نے فرمایا بہت اچھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان (رض) کی فضیلت میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔
آیت ٢٧{ یٰٓــاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ } ” اے نفس ِمطمئنہ ! “ ّ جو اس امتحانی زندگی میں مطمئن ہو کر یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کی بندگی میں لگا رہا اور اس کے دین کے ساتھ چمٹارہا۔
18 "Peaceful .. satisfied soul": the man who believed in Allah, the One, as his Lord and Sustainer, and adopted the Way of Life brought by the Prophets as his way of life, with full satisfaction of the heart, and without the least doubt about it, who acknowledged as absolute truth whatever creed and command he received from Allah and His Messenger, who withheld himself from whatever he was forbidden by Allah's Religion, not unwillingly but with perfect conviction that it was really an evil thing, who offered without sacrifice whatever sacrifice was required to be offered for the sake of the truth. who endured with full peace of mind whatever difficulties, troubles and hardships he met on this way and who felt no remorse on being deprived of the gains and benefits and pleasures in the world which seemed to accrue to those who followed other ways but remained fully satisfied that adherence to true Faith had safeguarded him against those errors. This very state has been described at another place in the Qur'an as sharh Badr. (Al-An'am 125)
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :18 نفس مطمئن سے مراد وہ انسان ہے جس نے کسی شک و شبہ کے بغیر پورے اطمینان اور ٹھنڈے دل کے ساتھ اللہ وحدہ لا شریک کو اپنا رب اور انبیاء کے لائے ہوئے دین حق کو اپنا دین قرار دیا ، جو عقیدہ اور جو حکم بھی اللہ اور اس کے رسول سے ملا اسے سراسر حق مانا ، جس چیز سے بھی اللہ کے دین نے منع کیا اس سے بادل ناخواستہ نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ رک گیا کہ فی الواقع وہ بری چیز ہے ، جس قربانی کی بھی حق پرستی کی راہ میں ضرورت پیش آئی بے دریغ اسے پیش کر دیا ، جن مشکلات اور تکالیف اور مصائب سے بھی اس راہ میں سابقہ در پیش ہوا انہیں پورے سکون قلب کے ساتھ برداشت کیا ، اور دوسرے راستوں پر چلنے والوں کو دنیا میں جو فوائد اور منافع اور لذائذ حاصل ہوتے نظر آ رہے تھے ان سے محروم رہ جانے پر اسے کوئی حسرت لاحق نہ ہوئی بلکہ وہ اس بات پر پوری طرح مطمئن رہا کہ دین حق کی پیروی نے اسے ان گندگیوں سے محفوظ رکھا ہے ۔ اسی کیفیت کو دوسری جگہ قرآن میں شرح صدر سے تعبیر کیا گیا ہے ( الانعام ، آیت 125 ) ۔
9: یہ قرآنِ کریم کے اصل لفظ ’’نفس مطمئنہ‘‘ کا ترجمہ ہے۔ اس سے مراد اِنسان کا وہ دِل ہے جو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرتے کرتے بالکل سکون پا گیا ہو، اور نافرمانی سے محفوط ہوگیا ہو۔
(89:27) یایھا النفس المطمئنۃ : اس جگہ یقال محذوف ہے، یہ جملہ مستانفہ ہے۔ گویا ایک فرضی سوال کا جواب ہے۔ سوال پیدا ہوسکتا تھا۔ کہ کافر کی حالت تو مندرجہ بالا آیات سے واضح ہوگئی۔ مگر مومن کی کیا حالت ہوگی ؟ جواب ہے کہ اس سے کہا جائیگا یایتھا ۔۔ (تفسیر مظہری) ۔ یاء حرف نداء ہے ای (مذکر) ایۃ (مؤنث) بمعنی اے۔ بحالت ندا۔ منادی معرف باللام کو حرف ندا سے ملاتا ہے۔ ھا حرف تنبیہ ہے جو ای اور ایۃ اور ان کے بعد کے اسم معرف باللام کے درمیان فصل کے لئے مستعمل ہوتا ہے۔ مذکر صیغہ کی صورت میں اس کی شکل یایھا الرجل ہوگی اور مؤنث کی صورت میں یایتھا النفس (آیت زیر مطالعہ) ہوگی ! نفس جی۔ شخص، (مؤنث آتا ہے) موصوف ہے۔ المطمئنۃ : اطمینان (افعیلال) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث قطعی سکون پانے والا۔ طمانیت اور اطمینان ۔ وہ سکون اور ٹھہراؤ جو مشقت اور کوفت کے بعد حاصل ہو ایمان کے بعد ایک مرتبہ سکون قلب کا آتا ہے جس کے حصول کے بعد کوئی شبہ اور وسوسہ ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس کو صوفیاء کی اصطلاح کے مطابق اگر عین الیقین کا درجہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ علماء نے اس کے کئی معانی بیان کئے ہیں :۔ (1) اللہ کے رب ہونے کا یقین رکھنے والا۔ (مجاہد) (2) ایمان اور یقین رکھنے والا۔ (حسن بصری) (3) اللہ کے حکم پر راضی۔ (عطیہ) (4) اللہ کے عذاب سے محفوظ۔ (کلبی) (5) اللہ کی یاد سے سکون پانے والا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے :۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (13:28) اور سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں۔ یایتھا النفس المطمئنۃ : اے نفس مطمئنہ۔
7۔ قرینہ مقام سے یہ خطاب یا ایتھا النفس الخ، قیامت کے روز معلوم ہوتا ہے، اور بعض روایات میں جو آیا ہے کہ مرنے کے وقت مومن سے کہا جاتا ہے وہاں تفسیر آیت کی مقصود نہیں نہ وقت موت کی تخصیص ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کے مقابلے میں نیک لوگوں کا اجر اور مقام۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان کی ہیں۔ ١۔ نفس مطمئنہّ : ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفس لوّامہ : گناہ پر ملامت کرنے والا (القیامہ : ٢) ٣۔ نفس امّارہ : گناہ پر ابھارنے والا (یوسف : ٥٣) یہ انسان کے دل کی تین حالتیں ہیں نفس مطمئنہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے باقی انسانوں کے نفس کی دو کیفیتیں ہوتی ہیں۔ (١) نفسِ امّارہ اور نفس لوّامہ۔ ان کے درمیان مقابلہ رہتا ہے اگر نفس لوّامہ جیت جائے تو انسان کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے اور اگر نفس امّارہ غالب آجائے تو آدمی برائی کا مرتکب ہوتا ہے۔ قیامت کے دن ایک طرف مجرموں کو جکڑا جارہا ہوگا اور دوسری طرف ہر نیک کے لیے یہ اعلان ہوگا کہ اے میرے نیک بندے ! اپنے رب کے حضور راضی خوشی حاضرہوجا اور میرے بندوں میں شامل ہو کر میری جنت میں داخل ہوجا۔ ” جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب ” اللہ “ ہے اور اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، اور نہ غم کرو، بلکہ اس جنت کے بارے میں خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی ساتھی ہوں گے، وہاں جو چاہو گے تمہیں ملے گا اور جس چیز کی تمنا کرو گے اسے پاؤ گے اس ” رب “ کی طرف سے یہ مہمان نوازی ہے جو غفور ورحیم ہے۔ “ (حمٓ السجدۃ : ٣٠ تا ٣٢) ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہم انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے اے خبیث نفس ! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح زمین سے کسی لاش کی بدبو پھوٹتی ہے۔ فرشتے اس کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں وہ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون ہے۔ ملائکہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کے برے نام لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہوجائے۔ (الاعراف : ٤٠) “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا لکھو۔ اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرند اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں گی۔ “ (الحج : ٣١) اس کے بعد اس کی روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تم میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو ۔ اس کے پاس اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے حسب وعدہ ذلیل کیا جائے وہ پوچھتا ہے تو اتنی ڈراؤنی شکل والا کون ہے جو اتنی بری بات کہہ رہا ہے وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں مردہ کہے گا اے میرے رب قیامت کبھی قائم نہ کرنا۔ “ (مسند احمد : مسند البراء بن عازب، قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) مسائل ١۔ رب کریم قیامت کے دن نیک لوگوں کو اپنے حضور بلائے گا اور وہ اپنے رب کے پاس راضی خوشی ہوں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو فرمائے گا کہ میرے بندوں میں شامل ہوجاؤ اور میرے جنت میں داخل ہوجاؤ۔
یایتھا ........................................ جنتی کس قدر پر محبت ، مکمل یگانگت اور قرب کا ماحول ہے ! اے نفس مطمنتہ کس قدر روحانیت اور کس قدر تکریم اور عزت افزائی ہے۔ اس پکار میں۔ یایھا ................ المطمئنة (27:89) ” اے نفس مطمئن “۔ جبکہ دوسری طرف بےمثال پکڑ دھکڑ شروع ہے ، بےمثال اور ناقابل تصور عذاب دیا جارہا ہے ، شدید ماحول ہے ، اس شدید ماحول میں ، یہ نرم اور پر محبت پکار ! ارجعی الی ربک (28:89) ” چل اپنے رب کی طرف “۔ چل اپنے اصل سرچشمے کی طرف ، اپنے اصل گہوارے کی طرف ، جو زمین کے اندر دوڑ رہا ہے ، لوٹ اب اپنے رب کی طرف ، تمہارے اور رب کے درمیان ایک خاص تعلق ہے ، ایک خاص نسبت ہے ، ایک خاص شناسائی ہے۔ راضیة مرضیة (28:89) ” تو بھی خوش ہے اور اللہ بھی تجھ سے خوش ہے “۔ ماحول پر اس خوشگوار اعلان سے محبت ورضا کے فیوض طاری ہوجاتے ہیں۔ “ فادخلی فی عبادی (29:89) ” میرے بندوں میں داخل ہوجا “۔ جو میرے قریب ومختار بندے ہیں اور تو بھی یہ قرب پالے۔ وادخلی جنتی (30:89) ” اور میری جنت میں داخل ہوجا ! “۔ میری حمایت میں اور میری رحمت میں۔ ان آیات میں جو محبت و شفقت ہے ، آغاز ہی سے ان میں جنت کی بادنیم محسوس ہوتی ہے۔ یایھا النفس المطمئنة (27:89) ” اے نفس مطمئن “۔ کے الفاظ ہی سے یہ ہوا چلنا شروع ہوتی ہے۔ یہ کون سانفس ہے جو مطمئن ہے ؟ جو رب مطمئن ہے ، جو راہ حق پر مطمئن ہے اور گامزن ہے ، اس راہ پر اسے جو کچھ پیش آئے اس پر مطمئن ہے ، جو امیری میں بھی مطمئن ہے اور غریبی میں بھی۔ وہ دولت یقین سے مطمئن ہے ، اس لئے اپنی راہ نہیں چھوڑتا۔ نہ راستے پر تھک ہار کر رکتا ہے ، جو اس دنیا میں بھی مطمئن ہے اور قیامت کی ہولناکیوں میں بھی مطمئن ہے۔ ان آیات میں جو پکار ہے ان کی فضا خوشنودی ، رضا اور طمانیت پر اللہ کی برکات وفیوض سے بھر پور ہے۔ الفاظ کا ترنم ، معانی کا قرب وسکینت سے بھر پور ہونا اس پکار کی فضا ہے۔ یہ جنت کی فضا ہے۔ اور یہ فضا ان آیات کے الفاظ ومعانی سے چھلکتی اور ٹپکتی ہے۔ اور اس پر خدائے رحمن ورحیم کی تجلیات کا پرتو ہے۔
13:۔ ” یا ایتہا النفس “ یہ بشارت اخرویہ ہے۔ کافروں کا حال بیان کرنے کے بعد مومنوں کا حال بیان فرمایا کہ مومن سے کہا جائیگا اے نفس مطمئنہ ! جو رذایل اخلاق سے پاک ہوچکا ہے اپنے پروردگار کی طرف واپس آ اس حال میں کہ تو اپنے رب کی ربوبیت پر راضی ہے اور تیرا رب تجھ پر راضی ہے اس لیے تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میرے جنت میں داخل ہوجا۔ فائدہ : اس سورت کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ اس میں تین چیزوں کا بیان ہے۔ اول مرض، دوم سب مرض، اور سوم علاج مرض۔ ” فاما الانسان اذا ما ابتلہ “ تا ” فیقول ربی اھانن “ بیان مرض ہے۔ ” کلا بل لا تکرمون الیتیم “ تا ” وتحبون المال حبا جما “ سبب مرض کا بیان ہے۔ باقی سب علاج مرض کا بیان ہے۔ سورة الفجر ختم ہوئی