Surat ul Fajar
Surah: 89
Verse: 30
سورة الفجر
وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿۳۰﴾٪ 14
And enter My Paradise."
اور میری جنت میں چلی جا ۔
وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿۳۰﴾٪ 14
And enter My Paradise."
اور میری جنت میں چلی جا ۔
And enter My Paradise! This will be said to it at the time of death and on the Day of Judgement. This is like the angels giving glad tiding to the believer at his time of death and when he rises from his grave. Likewise is this statement here. Ibn Abi Hatim recorded from Ibn `Abbas concerning Allah's statement, يأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَيِنَّةُ ارْجِعِى إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً O tranquil soul! Come back to your Lord, well-pleased and well-pleasing! He said, "This Ayah was revealed while Abu Bakr was sitting (with the Prophet ). So he said, `O Messenger of Allah! There is nothing better than this!' The Prophet then replied, أَمَا إِنَّهُ سَيُقَالُ لَكَ هَذَا This will indeed be said to you. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Fajr, and all praise and blessings are due to Allah.
وَادْخُلِي جَنَّتِي (and enter My Paradise 89:30]. In this verse, Paradise is attributed to Allah, and Allah said &My Paradise&. This is a great honour, and indicates that Paradise will not only have all sorts of eternal comfort, but above all it is a place of Allah&s pleasure. The preceding verses describe the reward of the believers in such a manner that on behalf of Allah, the angels will address their souls honourably and in a befitting manner, as in the verses. It is not clear when they will be addressed. Some commentators say that they will be addressed on the Day of Reckoning after the reckoning is over. The context of the verses confirms this. The punishment of the unbelievers was described above. That will take place in the Hereafter after the Judgment has been passed. It is obvious that the believers will be addressed at the same time. Other scholars indicate that the believers will be addressed in this world at the time of death. Many authentic traditions bear testimony to the veracity of this view. Ibn Kathir, on the other hand, reconciles the apparently conflicting statements thus: Allah will address the soul of the believers twice with these words. Once at the time of death, and again on the Day of Judgment. Sayyidna ` Ubadah Ibn Samit&s narration cited earlier supports the view that the address will be at the time of death. In a lengthy narration of Sayyidna Abu Hurairah, recorded in Musnad of Ahmad, Nasa&i and Ibn Majah, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"When death approaches a believer, the angels of mercy bring to him a piece of white silk and say: اخرجی راضیۃ مرضیّۃ الی روح اللہ وریحانہ &Come out [ from this body ], well-pleased and well-pleasing, to Divine mercy and to the eternal comforts of Paradise& [ to the end of narration.] |" Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) says that one day he recited the verse يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (0 contented soul) in the presence of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، Abu Bakr (رض) who was present in the assembly, said: |"0 Allah&s Messenger, what a fine address and honour!|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Behold, the angel will address you thus after your death.|" A Few Strange Incidents Said Ibn Jubair رضی اللہ تعالیٰ عنہ reports that Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) passed away in Ta&if. After the funeral was prepared, a strange bird, the like of which was never seen before, came and entered the body, but no one saw it coming out of it. When it was lowered into the grave for burial, an invisible voice was heard reciting from the side of the grave: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ Everyone looked around, but could not find anyone. Another incident is recorded by Hafiz Tabarani in his book Kitab-ul-` Aja&ib. He narrates with his chain of authorities, an incident about Fattan Ibn Razin Abi Hashim that once they were imprisoned in a Roman city. They were presented before their king. The king was an infidel. He coerced them to adopt his religion, and threatened them that if anyone refuses to comply with his command, he would be beheaded. They were a few people. Three of them feared for their lives, adopted his religion and thus became apostates. The fourth person refused to adopt the king&s religion. He was beheaded and his head was thrown into a nearby river. When it was thrown, the head went to the bottom of the river. Later, it emerged from the water and came to the surface. Then it looked at the other three persons, and calling each one of them by name, recited: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ﴿٢٧﴾ ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً ﴿٢٨﴾ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي ﴿٢٩﴾ وَادْخُلِي جَنَّتِي ﴿٣٠﴾ |"0 contented. soul, [ 27] come back to your Lord, well-pleased, well-pleasing [ 28] So, enter among My (special) servants, [ 29] and enter Paradise.|"[ 30] After that it dived back into the water. This was an unusual incident which everyone witnessed and heard. When the Christians of that place witnessed this, almost all of them embraced Islam which shook up the king&s throne. The three persons who had become apostates reverted to Islam. Caliph Abu Ja&far Mansur had them all released from their [ enemy&s ] prison. Al-hamdulillah The Commentary on Surah Al-Fajr Ends here
وادخلی جنتی، اس میں جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرکے میری جنت فرمایا جو بڑا اعزازو اکرام ہے اور اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جنت میں صرف یہی نہیں کہ ہر طرف کی راحتیں جمع ہیں اور دائمی ہیں بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا مقام ہے۔ آیات مذکورہ میں مومنین کی جزا وثواب کو اس طرح ذکر کیا گیا کہ ان کی ارواح کو حق تعالیٰ کی طرف سے بواسطہ ملائک اعزازو اکرام کے ساتھ خطاب کیا جائے گا جو ان آیات میں مذکور ہے۔ یہ خطاب کس وقت ہوگا اس میں بعض ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ قیامت میں حساب کتاب کے بعد یہ خطاب ہوگا اور سباق آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ اوپر جو عذاب کفار کا بیان ہوا ہے وہ آخرت میں قیامت کے بعد ہی ہوگا اس سے ظاہر ہے کہ مومنین کا یہ خطاب بھی اسی وقت ہو۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ خطاب مومنین کی موت کے وقت دنیا ہی میں ہوتا ہے بہت سی صحیح احادیث اس پر شاہد ہیں۔ اسی لئے ابن کثیر (رح) نے فرمایا کہ ظاہر یہ ہے کہ دونوں وقتوں میں یہ خطاب ارواح مومنین کو ہوگا موت کے وقت بھی، پھر قیامت میں بھی۔ وہ احادیث جن سے اس خطاب کا بوقت موت ہونا معلوم ہوتا ہے ایک تو وہی حدیث عبادہ ابن صامت ہے جو اوپر گزرچکی ہے اور ایک طویل حدیث حضرت ابوہریرہ کی مسند احمد، نسائی، ابن ماجہ میں ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑا سامنے کرکے اس کی روح کو خطاب کرتے ہیں اخرجی راضیة مرضیة الی روح اللہ وریحانہ، یعنی اس بدن سے نکلو اس حادلت میں کہ تم اللہ سے راضی ہو اور اللہ تم سے راضی اور یہ نکلنا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جنت کی دائمی راحتوں کی طرف ہوگا۔ الحدیث، اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے ایک روز یہ آیت یایتھا النفس المطمئنة آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پڑھی تو صدیق اکبر جو مجلس میں موجود تھے کہنے لگا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کتنا اچھا خطاب اور اکرام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سن لو فرشتہ موت کے بعد آپ کو یہ خطاب کریگا (ابن کثیر) چند واقعات عجیبہ حضرت سعید بن جبیر (رح) نے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کا طائف میں انتقال ہوا، جنازہ تیار ہونے کے بعد ایک عجیب و غریب پرندہ جس کی مثال پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھی آیا اور جنازہ کی نعش میں داخل ہوگیا پھر کسی نے اس کو نکلتے ہوئے نہیں دیکھا جس وقت نعش قبر میں رکھی جانے لگی تو قبر کے کنارے ایک غیبی آواز نے یہ آیت پڑھی یایتھا النفس المطمئنة سب نے تلاش کیا کون پڑھ رہا ہے کسی کو معلوم نہ ہوگا (ابن کثیر) اور امام حافظ طبرانی نے کتاب العجائب میں اپنی سند سے فتان بن رزین ابی ہاشم سے ان کا اپنا واقعہ نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہمیں بلا دروم میں قید کرلیا گیا اور وہاں کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا اس کافر بادشاہ نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اس کا دین اختیار کریں، اور جو اس سے انکار کرے گا اس کی گردن مادی جائے گی ہم چند آدمی تھے ان میں سے تین آدمی جان کے خوف سے مرتد ہوگئے بادشاہ کا دین اختیار کرلیا۔ چوتھا آدمی پیش ہوا اس نے کفر کرنے اور اس کے دین کو اختیار کرنے سے انکار کیا، اس کی گردن کاٹ کر سر کو ایک قریبی نہر میں ڈال دیا گیا، اس وقت تو وہ سر پانی کی تہ میں چلا گیا، اسکے بعد پانی کی سطح پر ابھرا اور ان لوگوں کی طرف دیکھ کر انکے نام لے کر آواز دی کہ فلانے فلانے اور پھر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یایتھا النفس المطمنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة فادخلی فی عبدی وادخلی جنتی، اس کے بعد پھر پانی میں غوطہ لگا دیا۔ یہ عجیب واقعہ سب حاضرین نے دیکھا اور سنا، اور وہاں کے نصاریٰ یہ دیکھ کر تقریباً سب مسلمان ہوگئے اور بادشاہ کا تخت ہل گیا، یہ تین آدمی جو مرتد ہوگئے تھے یہ سب پھر مسلمان ہوگئے اور پھر خلیفہ ابو، جعفر منصور نے ہم سب کو ان کی قید سے رہا کرایا (ابن کثیر) الحمد اللہ کہ تفسیر سورة والجفر آج ١٢ شعبان ١٩٣١ میں تمام ہوئی، جبکہ اس ناکارہ گنہگار کی عمر کا چھیترواں سال ختم اور ستترواں شروع ہو رہا ہے۔ یوں نصف صدی سے زیادہ حق تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت کی غفلتوں گناہوں میں برباد کرنے پر حسرت وافوس جتنا بھی ہو کم ہی ہے مگر قدم قدم پر حق تعالیٰ شانہ کے انعامات کے بارش اور اپنی کتاب کی اس ناچیز خدمت کو قریب الختم پہنچا دینے کا احسان عظیم عفو وکرم ہی کی امید دلایا رہا ہے۔ یامن لاتضرہ الذنوب ولا تنقصہ المغفرة ھب لی مالا ینقصک واغفرلی ملا یضرک واجعلنی من الذین یقال لھم یایتھا النفس المطمنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة فادخلی فی عبادی وادخلی
وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ ٣٠ ۧ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔
آیت ٣٠{ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۔ } ” اور داخل ہو جائو میری جنت میں ! “ چناچہ اس نَفسِ مُطمَئنّہسے کہا جائے گا کہ آئو ! میرے ان انعام یافتہ بندوں کی صف میں شامل ہو جائو۔ ایسے خوش قسمت لوگوں کے مراتب کی بلندی کے تصور اور اپنی تہی دامنی کے احساس کے پیش نظر ہمارا ان کی معیت کے لیے دعا مانگنا اگرچہ ” چھوٹا منہ بڑی بات “ کے زمرے میں آتا ہے مگر پھر بھی دل سے بےاختیار دعا نکلتی ہے : اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ۔۔۔۔ آمین !
(89:30) وادخلی جنتی۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ اور میری جنت میں داخل ہوجا۔
ف 9 یہی بشارت مومن کو وفات کے وقت بھی دی جاتی ہے۔ (ابن کثیر)
(30) اور میری بہشت میں جاداخل ہو یہ خطاب خود حق تعالیٰ فرماتے ہیں یا فرشتے حاضر ہوکر کہتے ہیں نفس امارہ اور لوامہ کا ذکر سورة یوسف اور سو رہ قیامت میں گزر چکا ہے، یہاں نفس مطمئنہ سے مراد وہ شخص ہے جس کو امر حق پر پختہ یقین تھا اور جس کی گردن اللہ کی اطاعت اور اس کے امر کے سامنے جھکی رہتی تھی یا ذکر الٰہی سے اس کا قلب مطمئن تھا ایمان پر ثابت تھا اور اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا تھا۔ بہرحال اے نفس مطمئنہ اپنے پروردگار کے قرب اور اس کے جوار رحمت میں چل اور اگر یہ خطاب مرتے وقت ہو جیسا کہ علماء نے فرمایا تو مطلب یہ ہے کہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل دراں حالیکہ وہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی ، علماء فرماتے ہیں تین احتمال مرتے وقت یہ خطاب ہوتا ہے یا قبروں سے نکلتے یا میدان حشر میں حساب سے فارغ ہونے کے بعد وہ تیری طاعت و فرمانبرداری سے خوش اور تو اس کی بیکراں شفقت ورحمت سے خوش۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں نفس مطمئنہ وہ شخص ہے جو قضائے الٰہی پر راضی رہتا تھا اس کو یہ خطاب ہوگاحق تعالیٰ کا یہ خطاب ایسا ہی ہے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب فرمایا تھا پھر میرے مخصوص بندوں کی جماعت میں داخل ہو جیسا کہ پیغمبروں کی دعا میں آتا ہے۔ وادخلنی برحمتک فی عبادل الصلحین۔ یہ بھی بڑی مہربانی ہے کہ انسان کو اس کے احباب کے ساتھ جمع کردیا جائے اور میری جنت میں داخل ہوجا۔ کہتے ہیں حضرت حمزہ ابن عبد المطلب (رض) یا حبیب بن عدی الانصاری یا حضرت عثمان (رض) کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا یہ آیت صدیق اکبر (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ آیت میں تینوں احتمال ہیں لیکن زیادہ مناسب مرنے کے وقت یہ خطاب معلوم ہوتا ہے اور زیادہ اقرب یہ ہے کہ تینوں موقع پر یعنی مرتے وقت قبروں سے نکلتے وقت اور حساب سے فارغ ہونے کے بعد اس خطاب سے نوازا جائے گا۔ واللہ اعلم تم تفسیر سورہو الفجر