Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 11

سورة التوبة

فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ ؕ وَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۱﴾

But if they repent, establish prayer, and give zakah, then they are your brothers in religion; and We detail the verses for a people who know.

اب بھی اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکٰوۃ دیتے رہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں ۔ ہم تو جاننے والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But if they repent, perform the Salah and give the Zakah, then they are your brethren in religion. (In this way) We explain the Ayat in detail for a people who know.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 نماز، توحید و رسالت کے اقرار کے بعد، اسلام کا سب سے اہم رکن ہے اللہ کا حق ہے، اس میں اللہ کی عبادت کے مختلف پہلو ہیں۔ اس میں دست بستہ قیام ہے، رکوع و سجود ہے، دعا و مناجات ہے، اللہ کی عظمت و جلالت کا اور اپنی عاجزی و بےکسی کا اظہار ہے۔ عبادت کی یہ ساری صورتیں اور قسمیں صرف اللہ کے لئے خاص ہیں، نماز کے بعد دوسرا اہم فریضہ زکٰوۃ ہے، جس میں عبادتی پہلو کے ساتھ ساتھ خقوق العباد بھی شامل ہیں، زکٰوۃ سے معاشرے کے اور زکٰوہ دینے والے کے قبیلے کے ضرورت مند، مفلس نادار اور معذور و محتاج لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لئے حدیث میں بھی شہادت کے بعد ان ہی دو چیزوں کو نمایاں کر کے بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ' فرمایا ' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں (صحیح بخاری) ۔۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے ومن لم یزک فلا صلٰوۃ لہ (حوالہ مذکورہ) جس نے زکوٰۃ نہیں دی اس کی نماز بھی نہیں۔ "

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] اسلامی ریاست میں حقوق شہریت کی شرائط :۔ اسی سورة کی آیت نمبر ٥ میں فرمایا تھا کہ اگر مشرک لوگ توبہ کرلیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ یعنی اب ان کے اموال اور ان کی جانیں تمہارے ہاتھوں سے محفوظ ہوگئیں اور اس آیت میں فرمایا کہ اگر وہ تینوں شرائط پوری کرلیں تو صرف یہی نہیں کہ ان کے جان و مال محفوظ ہوجائیں گے بلکہ وہ اسلامی برادری کا ایک فرد بن جائیں گے اور انہیں وہ تمام تمدنی، معاشرتی، قانونی اور معاشی حقوق اسی طرح حاصل ہوجائیں گے جس طرح دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ : یعنی ایمانی اخوت، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورة حجرات (١٠) میں کیا ہے : (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ )” مومن تو سب بھائی ہی ہیں “ وہ ان تین چیزوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ان تین چیزوں سے انھیں اسلامی معاشرے میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یہ جو فرمایا بھائی ہیں حکم شرع میں، اس میں سمجھ لیں کہ جو شخص قرائن سے معلوم ہو کہ ظاہر میں مسلمان ہے اور دل سے یقین نہیں رکھتا تو چاہے اسے حکم ظاہری میں مسلمان گنیں، مگر معتمد اور دوست نہ پکڑیں۔ “ (موضح) یہ بات پہلے بھی گزری ہے یہاں مزید تاکید ہوگئی کہ نماز اور زکوٰۃ کا محض اقرار ہی اخوت دینی کے لیے کافی نہیں بلکہ عملاً ان کی ادائیگی امت مسلمہ میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے اور مسلمان حاکم پر لازم ہے کہ ان کی عدم ادائیگی پر باز پرس کرے اور سزا دے اور اگر وہ ان کی ادائیگی سے انکار یا انھیں مذاق کریں تو ابوبکر (رض) کی طرح انھیں مرتد قرار دے کر ان سے جنگ کی جائے۔ وَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نافرمانی کا انجام سمجھتے اور اس کا خوف اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگ ہیں جو اس کی آیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

At the end of verse 11, the text stresses upon the need to abide by given injunctions, regarding those covered under a treaty and those who have repented, by saying: وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (And We elaborate the verses for people who understand).

آخر آیت میں معاہدین اور تائبین سے متعلقہ احکام مذکورہ کی پابندی کی تاکید کرنے کیلئے ارشاد فرمایا (آیت) وَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ، یعنی ہم سمجہدار لوگوں کے لئے احکام کو خوب تفصیل سے بیان کرتے ہیں “۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ۝ ٠ ۭ وَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝ ١١ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ظاہری اعمال کی بنا پر برتائو ہوگا دل میں چاہے کچھ ہو قول باری ہے (فان تابوا و اقاموا الصلوۃ و اتوالزکوۃ فاخوانکم فی الدین) پس اگر اب یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں) یہ قول باری اس پر دلالت کرتا ہے ک جو شخص ہمارے سامنے ایمان کا اظہار کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے ہم پر دین کے اندر اس کے ساتھ دوستی اور موالات کا برتائو لازم ہے۔ ہم اس کے ظاہر پر انحصار کریں گے خواہ وہ دل میں دین کے خلاف اعتقاد کیوں نہ رکھتا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) اگر یہ لوگ کفر سے باز آئیں اور توبہ کرکے ایمان باللہ کے قائل ہوجائیں اور پانچویں نمازوں اور ادائیگی زکوٰۃ کے پابند ہوجائیں تو پھر یہ لوگ تمہارے دینی بھائی ہوں گے۔ ہم سمجھدار اور یقین رکھنے والوں کے لیے قرآن حکیم میں اوامرو نواہی کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ ط) اللہ نے ان کے لیے اب بھی توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ اب بھی اگر وہ اسلام قبول کرلیں اور شعار دینی کو اپنا لیں تو وہ تمہاری دینی برادری میں شامل ہوسکتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :14 یہاں پھر یہ تصریح کی گئی ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے بغیر محض توبہ کر لینے سے وہ تمہارے دینی بھائی نہیں بن جائیں گے ۔ اور یہ جو فرمایا گیا کہ اگر ایسا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شرائط پوری کرنے کا نتیجہ صرف یہی نہ ہوگا کہ تمہارے لیے ان پر ہاتھ اٹھانا اور ان کے جان و مال سے تعرض کرنا حرام ہو جائے گا ۔ بلکہ مزید برآں اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اسلامی سوسائٹی میں ان کو برابر کے حقوق حاصل ہو جائیں گے ۔ معاشرتی ، تمدنی اور قانونی حیثیت سے وہ تمام دوسرے مسلمانوں کی طرح ہوں گے ۔ کوئی فرق و امتیاز ان کی ترقی کی راہ میں حائل نہ ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یہاں یہ واضح کردیا گیا کہ اگر کوئی شخص سچے دل سے توبہ کرلے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ اس سے بھائیوں کا سا سلوک کریں اور جو تکلیفیں اس نے اسلام لانے سے پہلے پہنچائی ہیں۔ ان کو بھلا دیں، کیونکہ اسلام اپنے سے پہلے کے تمام گناہوں اور زیادتیوں کو مٹا دیتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 انہیں اسلامی معاشرہ میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ حضرت شاہ صا حب لکھتے ہیں یہ جو فرمایا کہ بھائی ہیں حکم شرع ہیں۔ اس میں سمجھ لیں کہ جو شخص قرائم سے معلوم ہو کہ ظاہر میں ج مسلمان ہے اور سل سے یقین نہیں رکھتا تو چاہے اسے حکم سے ظاہری میں مسلمان گنیں مگر معتمد اور دوست نہ پکڑیں، ) مو ضح)2 سمجھ دار لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا انجام سمجھتے اور اپنے دلوں میں اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اس کی بیان کردہ آیات سے صحیح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ( وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ان کی عہد شکنی پر اصلا نظر نہ ہوگی خواہ انہوں نے کچھ ہی کیا اسلام لانے سے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اسلام کی وسعت ظرفی اور عفو درگزر کی بےمثال پالیسی۔ اسلام ہی ایسا دین ہے جس نے انسانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بار بار توبہ کا موقع فراہم فرمایا ہے اور یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ کوئی فرد یا قوم جب بھی اپنے جرائم سے سچی توبہ کرلے تو انھیں صرف اللہ تعالیٰ ہی معاف نہیں کرتا ہے بلکہ حکم ہے کہ مسلمان بھی اسے معاف کردیں۔ مکہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات آپ کے اعزاء و اقرباء اور صحابہ کرام (رض) پر مشرکین نے مظالم کی انتہا کی مگر جب بھی ان میں سے کوئی تائب ہو کر حلقہ اسلام میں داخل ہوا تو نہ صرف اسے معاف کردیا گیا بلکہ مسلمانوں کی طرف سے ایسی محبت کا اظہار ہوا کہ جس سے کل کا ظالم آج اسلام اور مسلمانوں پر جان نچھاور کرنا اپنے لیے دو جہانوں کی سعادت سمجھنے لگا۔ بدر، احد، احزاب اور دوسرے مواقعوں پر مسلمانوں کے خلاف تلواریں سونتنے والے جب بھی حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تو انھیں پورا، پورا اعزاز دیا گیا اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوگی جنھوں نے احد کے موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت حمزہ (رض) کا مثلہ کیا تھا۔ آپ نے انھیں بھی معاف فرما دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے مسلمانوں کا جنگ و قتال کبھی بھی اپنی ذات کے لیے نہیں رہا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ کافر کے لیے صرف کلمہ پڑھنا کافی نہیں۔ بلکہ کلمہ کے اقرار کے بعد نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی یاد رہے نماز حقوق اللہ ادا کرنے کی ضمانت ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد کی ترجمان ہے۔ جو شخص ان کا خیال رکھے گا اس کے لیے رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا آسان ہوجائے گا جہاں تک کہ اسلام میں توبہ کرنے کا تعلق ہے یہ تو حالت جنگ اور حالت نزع میں بھی قبول ہوجاتی ہے۔ (عَنْ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ (رض) یَقُولُ بَعَثَنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی الْحُرَقَۃِ فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ فَہَزَمْنَاہُمْ وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْہُمْ فَلَمَّا غَشِینَاہُ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَکَفَّ الْأَنْصَارِیُّ فَطَعَنْتُہٗ بِرُمْحِی حَتّٰی قَتَلْتُہٗ فَلَمَّا قَدِمْنَا بَلَغَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا أُسَامَۃُ أَقَتَلْتَہُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ قُلْتُ کَانَ مُتَعَوِّذًا فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِکَ الْیَوْمِ ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب بعث النبی اسامۃ ] ” حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حرقہ کی طرف بھیجا۔ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور انھیں شکست سے دو چار کیا۔ میں اور ایک انصاری نے دشمن کے ایک آدمی پر غلبہ پایا تو اس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا۔ انصاری نے یہ سنتے ہی اپنے ہاتھوں کو روک لیا مگر میں نے اسے اپنا نیزا مارا یہاں تک کہ اسے قتل کر ڈالا۔ جب ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے سامنے تفصیل بیان کی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اسامہ کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ میں نے عرض کی کہ وہ تو مجھ سے بچنے کے لیے ایسا کر رہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے الفاظ بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے سوچا کاش میں نے آج سے پہلے اسلام قبول نہ کیا ہوتا۔ “ (یعنی مسلمان ہوتے ہوئے مجھے یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ) (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الجنائز، باب فی التلقین ] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کا آخری کلام لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ “ مسائل ١۔ توبہ کرنے سے شرک و کفر بھی معاف ہوجاتا ہے۔ ٢۔ ایمان لانے کے بعد نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ایمان لانے کا عملی ثبوت ہے۔ ٣۔ دین باہمی اخوت کے لیے مضبوط ترین رشتہ ہے۔ تفسیر بالقرآن مسلمانوں کے باہمی تعلقات : ١۔ مومن آپس میں بھائی ہیں اگر وہ جھگڑپڑیں تو ان میں صلح کروادو۔ (الحجرات : ١٠) ٢۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی آپس میں بڑے رحمدل اور کفار پر بڑے سخت ہیں۔ (الفتح : ٢٩) ٣۔ اے ایمان والو ! اگر تم مرتد ہو جاؤتو اللہ ایسی قوم لے آئے گا جو آپس میں محبت کرنے والے ہوں۔ (المائدۃ : ٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

11 ۔ 12:۔ اب تفصیلاً بتایا جاتا ہے کہ ان حالات میں اہل ایمان مشرین کے حوالے سے کیا طرز عمل اختیار کریں۔ ۔۔۔ مسلمانوں کا مقابلہ ایسے دشمنوں سے ہے جو ہر وقت تاک میں بیٹھا ہے اور وہ مسلمانوں پر بےرحم وار کرنے کے لیے محض اس لیے رکے ہوئے ہوتے ہیں کہ اندر وار کرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ یہ وجہ نہیں ہوتی کہ وہ کسی عہد و پیمان کا لحاظ کرنے والے ہوتے ہیں یا کسی ذمہ داری کا احساس کرنے والے ہوتے ہیں یا ان پر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت و مذمت کا کوئی اثر ہوتا ہے ، نہ وہ کسی رشتہ داری یا تعلق کا خیال رکھتے ہیں۔ دین اور لادینی کی کشمکش کی یہ ایک طویل تاریخ ہے اور یہ تاریخ اسی راہ پر چلتی رہی ہے۔ اس شاہراہ سے اگر کوئی انحراف ہوا ہے تو وہ محض عارضی اسباب کی وجہ سے اور جلدی تاریخ اپنے اسی خط پر رکتی ہے جو مقرر و مرسوم رہا ہے۔ ایک تو ہمارے سامنے یہ عملی تاریخ ہے ، دوسرے یہ کہ اسلام نظام حیات کے اہداف کی نوعیت ہے کہ اس کے پیش نطر لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر صرف اللہ کی غلامی میں دینا ہے ، جبکہ اسلامی نظام حیات کے مقابلے میں تمام جاہلی نظام ہائے حیات کے اہداف یہ ہیں کہ لوگ لوگوں کے غلام رہیں۔ ایسے حالات میں اسلامی نظام حیات کا تحریکی عمل دنیا کو اس طرح خطاب کرتا ہے۔ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ ۭوَنُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : " پس اگر ہی توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں " وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ۙ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ : " اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے کرنے شروع کردیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ (پھر تلوار ہی کے زور سے) وہ باز آئیں گے " پھر صورت یہ ہوگی کہ یا تو وہ اس دین میں داخل ہوجائیں گے جس میں مسلمان داخل ہوئے ہیں اور سابقہ گناہوں سے تائب ہوجائیں گے اور شرک اور ظلم کو چھوڑ دیں گے۔ تو مسلمان ان کے شرک اور ظلم سے صرف نظر کردیں گے۔ اور ان کے درمیان نظریاتی تعلق قائم ہوجائے گا۔ اور یہ جدید مسلمان بھی قدیم مسلمانوں کے بھائی بن جائیں گے اور ان کا تمام ماضی بھلا دیا جائے گا۔ تاریخ سے بھی اور دلوں سے بھی۔ اور یہ کہا کہ و نفصل الایت لقوم یعلمون۔ یعنی ان احکام کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں اور ان کی حکمت تک وہی لوگ رسائی حاصل کرسکتے ہیں جو اہل علم ہوں۔ یا پھر یہ صورت ہوگی کہ وہ دین اسلام سے روگردانی کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے اس کا عہد کیا تھا۔ اور دین اسلام پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں تو یہ کفر کے علمبردار ہوں گے۔ اور ان کے دلوں میں نہ ایمان ہوگا نہ ان کے عہد و پیمان کا کوئی اعتبار ہوگا۔ اور اب ہمارے لیے ماسوائے اس کے کہ ان کے ساتھ جنگ شروع کردیں اور کوئی راستہ ہی نہ ہوگا۔ شاید بزور تلوار یہ باز آجائیں۔ اس سے پہلے ہم کہہ آئے ہیں کہ اسلامی کیمپ کی قوت اور اس کا جنگی غلبہ بعض اوقات لوگوں کو اس بات پر مائل کردیتا ہے کہ وہ سچائی کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجائیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ حق غالب ہے لہذا وہ اسے قبول کرلیتے ہیں اور ان کا استدلال یہ ہوتا ہے چونکہ یہ نظام غالب ہے لہذا برحق ہے۔ اور یہ کہ اس کی پشت پر قوت الہیہ ہے اور یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آخر کار اللہ اور اس کے رسولوں نے غالب ہونا ہے۔ اس طرح یہ لوگ ذہنا قائل ہو کر ہدایت کو قبول کرلیں گے اور توبہ کرلیں گے۔ یہ نہ ہوگا کہ جنگ کی وجہ سے ان کا دین زبردستی تبدیل کردیا جائے گا۔ بلکہ وہ اس طرح مطمئن ہوجائیں گے کیونکہ دین اسلام کامیاب شکل میں ان کے سامنے چل رہا ہوگا اور بسا اوقات کسی بات کا عملی تجربہ ایسے ہی نتائج پیدا کرتا ہے۔ ۔۔۔۔ اب ہم یہاں اس نکتے کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس پالیسی کا دائرہ عمل کیا ہے ؟ تاریخ کے کس دور میں یہ پالیسی رو بعمل تھی ، کس خاندان میں کس معاشرے میں اسے چلایا گیا۔ آیا یہ پالیسی آغاز اسلام کے زمانے میں جزیرۃ العرب کے باشندوں کے ساتھ مخصوص تھی یا کہ اس کا دائرہ عمل اور میدان نفاذ تاریخ میں اور کسی زمان و مکان میں بھی ہوا ہے۔ ابتدا میں تو یہ آیات جب نازل ہوئی تھیں تو ان کا نفاذ جزیرۃ العرب میں اسلام اور شرک کی کشمکش کے آخری دور میں ہوا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان احکام کا اطلاق پہلے پہل اسی صورت حالات پر ہوا تھا۔ اور ان آیات میں مشرکین سے مراد وہی مشرکین ہیں جن سے حضور کو واسطہ تھا۔ یہ بات تو بالکل برحق ہے کہ تاریخی پس منظر تو یہی تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہی ان آیات کا آخری دائرہ تھا اور یہ آیات اسی تک محدود ہیں ؟ یہاں مناسب ہے کہ ہم مسلمانوں کے حوالے سے مشرکین کے موقف اور طرز عمل کا تاریخی جائزہ لیں ، تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ ان آیات میں جس پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے اس کے اغراض و مقاصد اور حدود کیا ہیں اور ان کا دائرہ کہاں تک وسیع ہے۔ ہمیں چاہئے کہ تاریخ کے اوراق الٹ کر ذرا دیکھیں۔ جہاں تک جزیرۃ عربیہ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں فی ظلال القرآن کے اسی حصے میں کافی مواد موجود ہے۔ سیرت کے واقعات مشہور ہیں۔ مکہ میں مشرکین نے دین اسلام کے ساتھ جو سلوک کیا پھر مدینہ طیبہ کی اسلامی حکومت کے خلاف وہ جو کچھ کرتا رہے۔ ایمان لانے والوں پر انہوں نے جس قدر مظالم ڈھائے جن کا تفصیلی تذکرہ ان نصوص کے اندر مفصل آگیا ہے۔ یہ بات بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام اور شرک کی کشمکش اس قدر طویل اور شدید نہیں رہی ہے جس قدر اسلام اور اہل کتاب یہود و نصاری کے درمیان یہ کشمکش شدید رہی ہے۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ پر ہے کہ مشرکین نے بھی اسلام کے خلاف ہمیشہ وہی موقف اختیار کیا جس کی تصویر ان آیات میں کھینچی گئی ہے : كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً ۭ يُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَتَاْبٰي قُلُوْبُهُمْ ۚ وَاَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَ. اِشْتَرَوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭاِنَّهُمْ سَاۗءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ. لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُعْتَدُوْنَ ۔ مگر ان کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا ؟ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کرلی۔ پھر اللہ کے راستے میں سد راہ بن کر کھڑے ہوگئے۔ بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔ کسی مومن کے معاملہ نہ یہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کی ذمہ داری کا۔ اور زیادہ ہمیشہ انہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ مشرکین اور اہل کتاب کی طرف سے مسلمانوں کے مقابلے میں یہ دائمی اور طے شدہ موقف رہا ہے۔ اہل کتاب نے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا تذکرہ ہم اس سورت کے دوسرے سبق کے ضمن میں کریں گے اور جہاں تک مشرکین کا تعلق ہے تو وہ مسلمانوں کے مقابلے میں پوری اسلامی تاریخ میں اسی پالیسی پر گامزن رہے۔ اگر ہم اس بات پر غور کریں کہ اسلام حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے شروع نہیں ہوا بلکہ دعوت اسلامی کا خاتمہ آپ پر ہوا ہے اور پوری انسانی تاریخ میں مشرکین کا موقف دین رب العالمین کے مقابلے میں ایک ہی رہا ہے تو پوری اسلامی تاریخ کے ڈانڈے ، باہم مل جائیں گے۔ اور اس طرح یہ موقف اچھی طرح سمجھ میں آجائے گا اور یہ اسی طرح ایک حقیقت کی طرح ثابت ہوگا جس طرح ان نصوص میں اسے بیان کیا گیا ہے اور پوری اسلامی اور انسانی تاریخ اس پر گواہ ہوگی۔ مشرکین نے حضرت نوح ، حضرت ھود ، حضرت صالح ، حضرت ابراہیم ، حضرت شعیب ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ علیہم صلوۃ اللہ کے خلاف کیا کارروائیاں کیں ، پھر ان کی امتوں کے ساتھ کیا سلوک وہ کرتے رہے ، اپنے اپنے ادوار میں ، پھر آخر کار مشرکین نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا سلوک کیا ، اور آپ کے بعد اہل ایمان کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کیا ، حقیقت یہ کہ انہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے کسی رشتہ داری ، اور کسی معاہدے کی کوئی پروا نہیں کی۔ جب بھی انہیں موقعہ ملا اور جب بھی انہوں نے قوت پکڑی انہوں نے دین رب العالمین کے مامن پر حملہ کیا۔ مشرین نے تاتاریوں کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف دوسری بار حملہ کیا تھا۔ اس کے حالات و واقعات کو ذرا ذہن میں رکھیے اور آج چودہ سو سال کے بعد تک بھی وہ مسلمانوں کے خلاف کیا کچھ نہیں کر رہے اور زمین کے کس حصے میں نہیں کر رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے حوالے سے کسی رشتے اور کسی معاہدے کا کوئی پاس نہیں رکھتے۔ اور یہ آیات الہیہ دائمی حقیقت سے پردہ کشائی کرتی ہیں۔ جب بت پرستوں نے بغداد پر غلبہ حاصل کیا تو اس وقت جو المیہ پیش آیا تاریخ کی کتابوں میں اس کی بعض جھلکیاں قلم بند ہوچکی ہیں۔ ہم تاریخ ابو الفداء سے کچھ جھلکیاں دیتے ہیں۔ ابو الفداء نے البدایہ والنہایہ میں 656 ھ کے واقعات میں لکھا ہے : " یہ لوگ اس شہر (بغداد) پر ٹوٹ پڑے جس قدر بچوں ، عورتوں اور مردوں ، بوڑھوں اور معمر افراد کو وہ قتل کرسکتے تھے انہوں نے قتل کیے۔ بہت سے لوگ ڈر کے مارے کنوؤں میں چھپ گئے ، جھاڑیوں میں پناہ گزین ہوگئے ، گندے تالابوں میں۔ یہ لوگ ایک عرصے تک ان جگہوں میں پوشیدہ رہے اور ظاہر نہ ہوئے۔ بعض لوگ دکانوں میں اپنے آپ کو بند کرلیتے تھے ، دروازے بند کردیتے ، تاتاری دروازے توڑتے یا آگ لگا دیتے اور اندر داخل ہوتے ، یہ لوگ چھتوں پر چڑھ جاتے چناچہ مکان کی سطح پر یہ لوگ ان کو قتل کردیتے اور ان کا خون پر نالوں سے بہہ کر گلیوں میں بہتا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مساجد ، مدارس اور سراؤں میں لوگوں کا قتل عام جاری رہا اور ماسوائے اہل ذمہ یہودیوں اور عیسائیوں کے اور کوئی شخص زندہ نہ رہا یا وہ لوگ زندہ رہے جنہوں نے تاتاریوں کی پناہ لے لی یا وہ لوگ زندہ رہے جنہوں نے ابن علقمی وزیر کے ہاں پناہ لی جو رافضی تھا ، بعض تاجروں کو بھی بھاری رشوتوں کے عوض امان مل گئی تھی۔ اس طرح وہ اور ان کی دولت بچ گئی تھی اور اس حادثے کے بعد وہ بغداد جو شہروں کا سرتاج تھا اس طرح ہوگیا کہ گویا وہ ایک ویرانہ ہے ، چند لوگ اس میں رہ گئے۔ وہ بھی حالت خوف میں۔ بھوک اور ذلت اور افلاس میں ڈوبا ہوا۔ " اس واقعہ میں بغداد میں جو مسلمان تہہ تیغ کیے گئے ان کی صحیح تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا کہ آٹھ لاکھ انسان قتل ہوئے۔ بعض نے یہ تعداد دس لاکھ بتائی ہے اور بعض نے اسے بیس لاکھ بتایا ہے۔ انا اللہ وان الیہ راجعون۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ تاتاری بغداد میں محرم کے آخری دنوں میں داخل ہوئے۔ یہ لوگ پورے چالیس دنوں تک لوگوں کو تہہ تیغ کرتے رہے۔ خلیفہ معتصم امیر المومنین کو بروز منگل 14 صفر قتل کیا گیا۔ یہ سولہ سال کے تھے۔ پھر ان کے دوسرے بیٹے ابوالفضل عبدالرحمن کو قتل کیا گیا۔ یہ تیرہ سال کے تھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے مبارک اور تین بیٹوں فاطمہ ، خدیجہ اور مریم کو قیدی بنا لیا گیا "۔ " دار الخلافہ کے استاذ محی الدین یوسف ابن شیخ الفرج ابن الجوزی کو بھی قتل کیا گیا۔ یہ وزیر کے دشمن تھے۔ ان کے تین بچوں کو بھی قتل کیا گیا جن کے نام عبدالرحمن عبدالکریم اور عبداللہ تھے۔ اور حکومت کے اکابرین کو ایک ایک کرکے قتل کیا گیا۔ جن میں دو یدار صیغر مجاہد الدین ایبک ، شہاب الدین سلیمان شاہ اور اہل سنت کے اکابرین اور شہر کے معززین شامل تھے۔ ان لوگوں کا طریقہ واردات یہ تھا کہ یہ لوگ دار الخلافت سے لوگوں کو ان کے اہل و عیال کے ساتھ بلاتے۔ ان کے ساتھ ان کے بچے اور عورتیں بھی ہوتیں۔ اے مقبرہ خلال کی طرف لے جا جا جاتا۔ المنظرہ کی جانب اور انہیں اس طرح ذبح کیا جاتا جس طرح بکری کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کی لڑکیوں اور لونڈیوں سے جسے وہ پسند کرتے اسے قیدی بنا لیتے۔ خلیفہ کے مودب اور شیخ الشیوخ صدر الدین علی ابن النیار کو بھی قتل کیا گیا۔ خطباء ائمہ اور حافظین قرآن سب کو قتل کردیا گیا۔ " جب نوشہ دیوار ہوا اور چالیس دن پورے ہوگئے تو بغداد مکمل تباہی سے دو چار ہوچکا تھا۔ پورے شہر میں خال خال لوگ نظر آتے تھے۔ راستوں میں کشتوں کے پشتے لگے ہوئے تھے۔ اس پر بارش ہوگئی۔ لوگوں کے اجسام پھول گئے۔ پورا شہر بدبو اور تعفن میں ڈوب گیا۔ ہوا بدل گئی اور علاقے میں شدید وبا پھیل گئی اور خلق کثیر لقمہ اجل بن گئی۔ پورے علاقے کے عوام وبا اور قحط میں گرفتار ہوگئے۔ تلوار اور طاعون کے ذریعے راہ عدم کو روانہ ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ " اور جب چالیس دنوں کے بعد بغداد میں امان کا اعلان ہوا اور لوگ تہ خانوں ، کمین گاہوں اور قبرستانوں سے نکلے تو وہ ایسے تھے جس طرح مردے قبروں سے نکل آئے ہوں۔ وہ ایک دوسرے کو پہچان نہ سکے یہاں تک کہ باپ نے بیٹوں کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ بھائی بھائی کو پہچان نہ سکا۔ لوگوں میں شدید وبا پھیل گئی اور اس طرح وہ بھی اس راہ پر چل بسے جس پر مقتولین گئے تھے " وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک تاریخی واقعہ کی صورت حالات تھی کہ جب مشرکین مسلمانوں پر غالب آگئے تو انہوں نے کسی رشتہ داری اور کسی معاہدے کا کوئی خیال نہ رکھا اور کسی ذمہ داری کا کوئی ثبوت نہ دیا۔ تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ ماضی بعید کی ایک تاریخی صورت حالات تھی اور اس کا ارتکاب مشرکین میں سے صرف تاتاریوں نے کیا۔ اور ان کا خاصہ تھا ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جدید دور کے واقات بھی اپنے خدوخال کے لحاظ سے اس سے مکتلف نہیں ہیں۔ جب تشکیل پاکستان کے وقت مسلمانوں کا علاقہ ہند سے علیحدہ ہو تو اس وقت کے دلدوز واقعات کسی طرح بھی تباہی بغداد کے واقعات سے کم نہ تھے۔ اس موعہ پر آٹھ ملین مسلمانوں نے ہجرت کی۔ ہندستان کے اطراف و اکناف میں وہاں بسنے والے مسلمانوں پر حملے کیے گئے۔ اس لیے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ وہ پاکستان کی طرف ہجرت کر جائیں۔ ان میں سے صرف تین ملین لوگ پاکستان پہنچ سکے اور باقی پانچ ملین کو راستے ہی میں تہہ تیغ کردیا گیا۔ ان پناہ گیروں اور راہ گیر پر حکومت ہند کو معلوم ہندو دستوں نے حملے کیے اور یہ دستے حکومت ہند کے اکابرین کے زیر نگرانی یہ قتل عام کرتے رہے۔ ہجرت کے اس پورے راستے میں ان مسلمانوں کو مویشیوں کی طرح ذبح کیا گیا اور ان کے جسموں کو کھلے پرندوں کے لیے چھوڑ دیا گیا جبکہ قتل کے بعد ان پر بدترین تشدد کیا گیا اور ان لوگوں پر جو مظالم ڈھائے وہ تاتاریوں سے کسی طرح بھی کم نہ تھے۔ اس سے بڑھ کر مظالم اس وقت ہوئے جب ایک ریل گاری پر ہوئے جو ہندوستان سے مسلمان مہاجر ملازمین کو لے کر پاکستان جا رہی تھی۔ یہ لیاقت نہرو معاہدے کے تحت ان ملازمین کو لے جا رہی تھی جنہوں نے پاکستان جانا پسند کیا تھا۔ اس گاڑی پر پچاس ہزار افراد سوار تھے۔ اور جب یہ گاڑی بعض حدود (پنجاب کے علاقے) تک پہنچی تو تجربہ کار ہندوسکھ دستے اس پر حملہ آور ہوئے اور جب وہ پاکستان پہنچی تو اس کے اندر لاشوں اور کٹے ہوئے اعضاء کے سوا کچھ نہ تھا۔ اللہ نے کیا خوب کہا ہے کیف و ان یظھروا علیکم لا یرقبوا فیکم الا ولا ذمہ " یہ کیسے ہوسکتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جب غالب ہوجائیں تو وہ تمہارے بارے میں کسی رشتہ داری اور ذمہ داری کا کوئی لحاظ نہ رکھیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق اور مختلف صورتوں میں یہ قتل عام ہوتا ہی رہتا ہے۔ اس زمانے میں فسادات پنجاب اس کی واضح مثال تھے۔ " اس کے بعد تاتاریوں کے خلفاء نے کمیونسٹ روس اور کمیونسٹ چین میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا انہوں نے ان علاقوں میں صرف پچیس سال کے عرصے میں 26 ملین مسلمانوں کو نیست و نابود کیا۔ گویا وہ ایک سال میں روس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرتے رہے۔ اور یہ عمل ابھی تک جای ہے۔ اور مظالم و تشدد کے وہ واقعات اس کے علاوہ ہیں جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں چین میں اس قسم کے واقعات رونما ہوئے جن کے سامنے تاتاریوں کے مظالم بھی ماند پڑجاتے ہیں۔ مسلمانوں کے ایک لیڈر کو پکڑ کر لایا گیا۔ شارع عام پر ایک گڑھا کھودا گیا اور مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ انسانی غلاظت کو ٹوکریوں میں لے کر آئیں۔ ان علاقوں میں یہ رواج ہے کہ کھاد بنانے کے لیے لوگوں سے غلاظت اور کوڑا کرکٹ جمع کرایا جاتا ہے اور اس کے بدلے ان کو روٹی دی جاتی ہے تاکہ اس سے کھاد تیار کی جاسکے۔ غرض ان لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ یہ غلاظت اس مسلم لیڈر پر پھینکیں۔ یہ عمل تین تک جاری رہا یہاں تک کہ اس طرح اس کی موت واقع ہوگئی۔ کمیونسٹ یوگوسلاویہ میں بھی مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا اور جب دوسری عالمی جنگ کے بعد وہاں کمیونسٹ نظام جاری ہوا تو کئی ملین مسلمانوں کو نیست و نابود کردیا گیا۔ یہاں تک کہ بعض مقامات پر مسلمان مردوں اور عورتوں کو قیمہ بنانے کے کارخانوں میں پھینکا گیا تاکہ دوسری جانب سے ہڈیا اور گوشت بر آمد ہو اور یہ عمل ابھی تک جاری ہے۔ یوگو سلاویہ میں جو کچھ ہو رہا ہے ، مسلمانوں کے خلاف تمام اشتراکی ممالک میں یہ عمل رات دن جاری ہے۔ ابھی تک اور اس دور جدید میں یہ ہو رہا ہے۔ اور اس سے باری تعالیٰ کے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے كَيْفَ وَاِنْ يَّظْهَرُوْا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً : " یہ کیسے ہوسکتا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جب غالب ہوجائیں تو وہ تمہارے بارے میں کسی رشتہ داری اور ذمہ داری کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے۔ جزیرۃ العرب میں یہ نہ تو کوئی وقتی صورت حالات تھی اور نہ عارضی۔ نہ بغداد میں یہ کوئی وقت حادثہ یا حالت تھی۔ یہ ایک دائمی اور مستقل طرز عمل ہے۔ جب بھی اہل شرک کسی مومن پر قابو پائیں ایسا مومن جو صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرتا ہو تو ان کا طرز عمل اس مومن کے ساتھ یہی ہوتا ہے ، ہر جگہ اور ہر زمانے میں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ ) کہ لوگ اگر کفر سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو پھر تمہارے دینی بھائی ہوں گے (ان سے لڑنے کا کوئی موقع نہیں) (وَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ) (اور ہم ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں اپنی آیات تفصیل سے بیان کرتے ہیں) تاکہ فکر سے کام لیں اور ہر بات کو سمجھیں اور احکام خداوندی کے پابند رہیں۔ فائدہ : آیات بالا میں جو کافروں اور مشرکوں کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ ” اگر تم پر غالب ہوجائیں تو کسی رشتہ داری کا معاہدہ کا لحاظ نہ کریں گے وہ تمہیں زبانی باتوں سے راضی رکھتے ہیں اور ان کے دل انکاری ہیں “۔ ہمیشہ سے کافروں اور مشرکوں کا یہی حال رہا ہے اور اب بھی ہے کہ مسلمانوں کے قتل و قتال سے بچنے کے لیے اور ان کے جذبہ جہاد کو ٹھنڈا کرنے کے لیے قومیت، وطنیت اور یک جہتی کی بنیاد پر اتحاد اور اتفاق کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور معاہدات بھی کرلیتے ہیں لیکن اگر کبھی ان کو اپنا موقعہ لگ جائے تو ہر طرح کے تعلقات توڑ کر سارے معاہدوں کی پاسداری چھوڑ کر مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیتے ہیں۔ یہی حال ان فرقوں کا ہے جو فرقے اسلام کے نام لیوا ہیں لیکن اسلامی عقائد سے منحرف ہونے کی وجہ سے مسلمان نہیں بلکہ ان فرقوں کی بنیاد ہی اسلام اور مسلمان کی کمر میں خنجر گھونپنے پر ہے یہ لوگ اسلام کے نام پر مسلمانوں کی دشمنی میں کوئی کسر نہیں رکھتے۔ جب بھی موقعہ لگتا ہے مسلمانوں کے قتل و خون سے باز نہیں آتے۔ صدہا سال سے یہی ہو رہا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 لہٰذا اب اگر یہ لوگ اپنے اس کافرانہ رویہ سے توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو یہ لوگ دین کے اعتبار سے تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم سمجھ دار لوگوں کیلئے اپنے احکام خوف مفصل بیان کرتے ہیں۔ یعنی پہلی خطائیں معاف ہوجائیں گی اور اسلامی برادری میں شامل ہوجائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ جو فرمایا بھائی ہیں حکم شریعت میں اس سے سمجھ لیں کہ جو شخص قرائن سے معلوم ہو کہ ظاہری مسلمان سے دل سے یقین نہیں رکھتا اس کو حکم ظاہری میں مسلمان گنیں اور معتمد اور دوست نہ پکڑیں۔ 12