Commentary It will be recalled that a cease-fire agreement with the Quraysh of Makkah was concluded at Hudaibiyah in the Hijrah year 6. That the Quraysh will not stick to the agreement was foretold in verse 7 of Su-rah At-Taubah: كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ (how can the Mushriks have a trea¬ty...). Then, came verses 8, 9 and 10 with the causes of their pledge breaking. And in the 11th v... erse it was announced that, despite having broken their solemn covenant, if these Mushriks become Muslims and start expressing their faith in Islam through prayers and fasting, then, Muslims are duty-bound to keep their present dealings with them free of any effects from the past. In fact, they should take them to be their brothers in faith and treat them as such. In verse 12 cited above, Muslims have been told about the course of action they should take in the event these people do break their pledge, as prophesied earlier. The actual words of the text read: وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ (And if they break their oaths after they have made a covenant and speak evil of your Faith, then fight the leaders of infidelity - 12). It is worth noting that the present situation in the text demanded the use of فَقَاتِلُوھُم (faqatiluhum: then fight them). The Holy Qur&an has said: فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ (then fight the leaders of infidelity) which bypasses the use of a shorter pronoun at this place. The word: أَئِمَّةَ (a&immah: leaders) is the plural of Imam. The sense is that these people by break¬ing their word of honor turned into leaders of infidelity and thus became deserving of a war against them. This statement also carries the wisdom and justification of the command to fight. Some commentators say that ` leaders of infidelity& at this place refers to the chiefs of the tribe of Quraysh in Makkah who kept on instigating people against Muslims and remained busy making war preparations. Fighting against them was particularly mentioned because these people were the real source of power the Makkans were credited with. In addition to that, since they were the ones with whom Muslims had bonds of close kinship, there was the possible apprehension that some concession could be granted in their case. Honest critical study of Islam by Protected Non-Muslim Citizens of Dar al-Islam is possible - vilification is not Some commentators have interpreted the words: (speak evil of your faith) to mean that speaking evil of the Faith of Muslims is included under contravention of pledge. A person who speaks evil of Is-lam and the Shari’ ah of Islam cannot continue to be a party to the treaty with Muslims. But, according to a consensus of Muslim jurists, it means vilification that is done to insult and belittle Islam and Muslims, openly and publicly. Honest intellectual criticism while conducting research into problems and rulings remains exempt from its purview - then, it is not supposed to be vilification in its lexical sense. Therefore, for non-Muslim citizens of Dar al-Islam, any honest in¬tellectual criticism can be allowed, but what cannot be allowed is vilifi¬cation, contempt, insult or outrage against Islam. In the same verse (12), it was said: إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ ,(in fact, they have no oaths). The sense is that these are the kind of people none of whose oaths are trustworthy - because, they are addicted to breaking their oaths and committing breaches of trust. Then, the use of the plural form of oaths here could also mean: ` when they broke their oath, they also absolved Muslims of any responsibility for their oath and pledge.& At the end of verse 12, it was said: لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ (so that they may stop). This last sentence tells us that the objective of Jihad carried out by Muslims should never be the conquest of countries like common kings or to hurt the enemy and to take vengeance as belligerent people around the world would love to do. Instead of doing anything like that, when it comes to fighting that they must, the driving objective should be compassion for the enemy, the empathy and the desire that they would stop doing what was not right. Show more
خلاصہ تفسیر اور اگر وہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں ( عہدوں) کو توڑ ڈالیں ( جیسا کہ انکی حالت سے غالب ہے اور ( عہد توڑ کر ایمان بھی نہ لائیں بلکہ اپنے کفر پر قائم رہیں جسکا ایک اثر یہ ہے کہ) تمہارے دین ( اسلام) پر طعن ( و اعتراض) کریں تو ( اس حالت میں) تم لوگ اس قصد سے کہ یہ ( اپنے کفر سے) باز آ... جائیں، ان پیشوایان کفر سے ( خوب) لڑو ( کیونکہ اس صوت میں) انکی قسمیں ( باقی) نہیں رہیں ( یہاں تک قبل نقض پیشینگوئی ہوچکی، آگے بعد وقوع نقض کے قتال کی ترغیب ہے کہ) تم ایسے لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ( اور بنی بکر کی بمقابلہ خزاعہ کے مدد کی) اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جلا وطن کردینے کی تجویز کی، اور انہوں نے تم سے خود پہلے چھیڑ نکالی ( کہ تمہاری طرف سے وفائے عہد میں کوئی کمی نہیں ہوئی انہوں نے بیٹھے بٹھائے خود ایک شوشہ چھوڑا، پس ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو) کیا ان سے ( لڑنے میں) ڈرتے ہو ( کہ ان کے پاس جمعیت زیادہ ہے سو ( اگر یہ بات ہے تو ہرگز ان سے مت ڈرو کیونکہ) اللہ تعالیٰ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ تم ان سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو ( اور ان سے ڈرنے کا یہ مقتضا ہے کہ ان کے حکم کے خلاف مت کرو اور وہ حکم دیتے ہیں قتال کا پس) ان سے لڑو اللہ تعالیٰ ( کا وعدہ ہے کہ) ان کو تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور ان کو ذلیل ( و خوار) کرے گا اور تم کو ان پر غالب کرے گا اور ( ان کی اس تعذیب اور تمہاری نصرت سے) بہت سے ( ایسے) مسلمانوں کے قلوب کو شفاء دے گا اور ان کے قلوب کے غیظ ( و غضب) دور کردے گا ( جو خود تاب مقابلہ کی نہیں رکھتے اور ان کی حرکات کو دیکھ کر دل ہی دل میں گھٹتے ہیں) اور ( ان ہی کفار میں سے) جس پر ( توجہ و فضل کرنا) منظور ہوگا اللہ تعالیٰ توجہ ( بھی) فرمائے گا ( یعنی مسلمان ہونے کی توفیق دے گا، چناچہ فتح مکہ میں بعضے لڑے اور ذلیل و مقتول ہوئے اور بعضے مسلمان ہوگئے) اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں ( کہ علم سے ہر ایک کا انجام کہ اسلام ہے یا کفر جانتے ہیں، اور اسی لئے اپنی حکمت سے احکام مناسبہ مقرر فرماتے ہیں اور تم جو لڑنے سے جی چراتے ہو گو بعضے ہی سہی تو) کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم یوں ہی ( اسی حالت پر) چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے ( ظاہری طور پر) ان لوگوں کو تو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے ( ایسے موقع پر) جہاد کیا ہو اور اللہ و رسول اور مؤمنین کے سوا کسی کو خصوصیت کا دوست نہ بنایا ہو ( جس کے ظاہر ہونے کا اچھا ذریعہ ایسے موقع کا جہاد ہے جہاں مقابلہ اعزہ و اقاب سے ہو کہ پورا امتحان ہوجاتا ہے کہ کون اللہ کو چاہتا ہے اور کون برادری کو) اور اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے تمہارے سب کاموں کی ( پس اگر جہاد میں چستی کرو گے یا سستی کرو گے اسی کے موافق تم کو جزا دے گا۔ معارف و مسائل قریش مکہ جن سے ٦ ہجری میں بمقام حدیبیہ ایک معاہدہ التواء جنگ کا ہوا تھا ان کے متعلق سورة توبہ کی ابتدائی آیتوں میں بطور پیشگوئی کے یہ اطلاع دے دیگئی تھی کہ یہ لوگ اپنے معاہدہ پر قائم نہ رہیں گے جس کا ذکر سورة توبہ کی ساتویں آیت میں (آیت) كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ کے الفاظ میں گزر چکا ہے، اور پھر آٹھویں نویں دسویں آیتوں میں ان کی عہد شکنی کے اسباب کا بیان ہوا، گیارہویں آیت میں اس کا بیان آیا کہ عہد شکنی کے اس جرم عظیم کے بعد بھی اگر یہ لوگو مسلمان ہوجائیں اور اپنے اسلام کا اظہار نماز و روزہ کے ذریعہ کرنے لگیں تو پھر مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کے پچھلے جرائم کا کوئی اثر اپنے معاملات میں با قی نہ رکھیں، بلکہ ان کو اپنا دینی بھائی سمجھیں اور برادرانہ معاملات کریں، مذکورہ بارہویں آیت میں اس کا بیان ہے کہ پیشنگوئی کے مطابق جب یہ لوگ عہد شکنی کر ہی ڈالیں تو پھر ان کے ساتھ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اس میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ، یعنی اگر یہ لوگ اپنے معاہدہ اور قسموں کو توڑ ڈالیں اور مسلمان بھی نہ ہوں بلکہ بدستور تمہارے دین اسلام پر طعن وتشنیع کرتے رہیں تو ان کفر کے پیشواؤں کے ساتھ جنگ کرو “۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ تقاضائے مقام اس جگہ بظاہر یہ تھا کہ فقاتلوھم فرمایا جاتا یعنی ان لوگوں سے قتال کرو، قرآن کریم نے اس جگہ مختصر ضمیر استعمال کرنے کے بجائے فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ فرمایا، ائمہ امام کی جمع ہے، معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ اپنی عہد شکنی کی وجہ سے کفر کے امام اور قائد ہو کر اس کے مستحق ہوگئے کہ ان سے جنگ کی جائے، اس میں حکم قتال کی علت اور وجہ کا بھی بیان ہوگیا، اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہاں ائمة الکفر سے مراد قریش مکہ کے وہ سردار ہیں جو لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے اور جنگی تیاریوں میں لگے رہتے تھے، ان سے جنگ کرنے کو خصوصیت کے ساتھ اس لئے ذکر فرمایا کہ اہل مکہ کی اصل طاقت کا سر چشمہ یہی لوگ تھے، اس کے علاوہ مسلمانوں کی قریبی رشتہ داری بھی انہی لوگوں سے تھی، جس کی وجہ سے اس کا خطرہ ہوسکتا تھا کہ ان کے معاملہ میں کوئی رعایت برتی جائے ( مظہری) دارالاسلام میں غیر مسلم ذمیوں کو اسلام پر علمی تنقید کی تو اجازت ہے مگر طعن و تشینع کی نہیں : (آیت) طَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ کے لفظ سے بعض حضرات نے اس پر استدلال کیا ہے کہ مسلمانوں کے دین پر طعن وتشنیع کرنا عہد شکنی کرنے میں داخل ہے جو شخص اسلام اور شریعت اسلام پر طعنہ زنی کرے وہ مسلمانوں کا معاہدہ نہیں رہ سکتا، مگر باتفاق فقہاء اس سے مراد وہ طعن وتشنیع ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی اہانت اور تحقیر کے طور پر اعلانًا کی جائے، احکام و مسائل کی تحقیق میں کوئی علمی تنقید کرنا اس سے مستثنیٰ ہے اور لغت میں اس کو طعن وتشنیع کہتے بھی نہیں۔ اس لئے دارالاسلام کے غیر مسلم باشندوں کو علمی تنقید کی تو اجازت دی جاسکتی ہے، مگر اسلام پر طعنہ زنی اور تحقیر و توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اسی آیت میں فرمایا (آیت) اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ ، یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کی قسم کوئی قابل اعتبار قسم نہیں، کیونکہ یہ لوگ قسم توڑنے اور عہد شکنی کرنے کے عادی ہیں، اور اس جمع کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنی قسم توڑ دی تو اب مسلمانوں پر بھی ان کی قسم اور عہد کی کوئی ذمہ داری نہیں رہی۔ آخر آیت میں ہے (آیت) لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ ، تاکہ وہ باز آجائیں، اس آخری جملہ میں بتلا دیا کہ مسلمانوں کی جنگ و جہاد کا مقصد عام دنیا کے لوگوں کی طرح دشمن کو ستانا اور جوش انتقام کو فرو کرنا یا عام بادشاہوں کی طرح ملک گیری نہ ہونا چاہئے، بلکہ ان کی جنگ کا مقصد دشمنوں کی خیر خواہی اور ہمدردی اور یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ وہ لوگ اپنی غلط روش سے باز آجائیں۔ Show more