Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 12

سورة التوبة

وَ اِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَہۡدِہِمۡ وَ طَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ فَقَاتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۙ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمَانَ لَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَنۡتَہُوۡنَ ﴿۱۲﴾

And if they break their oaths after their treaty and defame your religion, then fight the leaders of disbelief, for indeed, there are no oaths [sacred] to them; [fight them that] they might cease.

اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Oaths of the Leaders of Disbelief mean nothing to Them Allah says, وَإِن نَّكَثُواْ أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ ... But if they violate their oaths after their covenant, Allah says, if the idolators with whom you conducted peace treaties for an appointed term break أَيْمَانَهُم (their oaths), meaning, terms of their treaties, and covenants. ... وَطَعَن... ُواْ فِي دِينِكُمْ ... and attack your religion... with disapproval and criticism, it is because of this that one who curses the Messenger, peace be upon him, or attacks the religion of Islam by way of criticism and disapproval, they are to be fought. This is why Allah said afterwards, ... فَقَاتِلُواْ أَيِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لاَ أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ then fight (you) against the leaders of disbelief -- for surely, their oaths are nothing to them -- so that they may stop. so that they may refrain from the disbelief, rebellion and the transgression they indulge in. Qatadah and others said that; the leaders of disbelief were Abu Jahl, Utbah and Shaybah, Umayyah bin Khalaf, and he went on to mention several others. Al-A`mash narrated from Zayd bin Wahb from Hudhayfah; "The people of this Ayah were never fought again." A similar statement was reported from Ali bin Abi Talib, may Allah be pleased with him. However, this Ayah is general, even though the specific reason behind revealing it was the idolators of Quraysh. So this Ayah generally applies to them and others as well, Allah knows best. Al-Walid bin Muslim said that Safwan bin `Amr narrated that Abdur-Rahman bin Jubayr bin Nufayr said that when Abu Bakr sent an army to Ash-Sham, he advised them, "You will find some people with shaved heads. Therefore, strike the swords upon the parts that contain the devil, for by Allah, it is better to me to kill one of these people than to kill seventy other men. This is because Allah said, فَقَاتِلُواْ أَيِمَّةَ الْكُفْر (then fight (you) against the leaders of disbelief)." Ibn Abi Hatim collected it.   Show more

وعدہ خلاف قوم کو دندان شکن جواب دو اگر یہ مشرک اپنی قسموں کو توڑ کر وعدہ خلافی اور عہد شکنی کریں اور تمہارے دین پر اعتراض کرنے لگیں تو تم ان کے کفر کے سروں کو توڑ مروڑ دو ۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے ، دین میں عیب جوئی کرے ، اس کا ذکر اہانت کے ساتھ کرے ... اسے قتل کر دیا جائے ۔ ان کی قسمیں محض بے اعتبار ہیں ۔ یہی طریقہ ان کے کفر و عناد سے روکنے کا ہے ۔ ابو جہل ، عتبہ ، شیبہ امیہ وغیرہ یہ سب سردارن کفر تھے ۔ ایک خارجی نے حضرت سعد بن وقاص کو کہا کہ یہ کفر کے پیشواؤں میں سے ایک ہے آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے میں تو ان میں سے ہوں جنہوں نے کفر کے پیشواؤں کو قتل کیا تھا ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ اس آیت والے اس کے بعد قتل نہیں کئے گئے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ آیت عام ہے گو سبب نزول کے اعتبار سے اس سے مراد مشرکین قریش ہیں لیکن حکماً یہ انہیں اور سب کو شامل ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تمہیں ان میں کچھ لوگ ایسے ملیں گے جن کی چندھیا منڈی ہوئی ہوگی تو تم اس شیطانی بیٹھک کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دینا واللہ ان میں سے ایک کا قتل دوسرے ستر لوگوں کے قتل سے بھی مجھے زیادہ پسند ہے اسلیے کہ فرمان الٰہی ہے کفر کے اماموں کو قتل کرو ( ابن ابی حاتم )   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 ایمان، یمین کی جمع ہے جس کے معنی قسم کے ہیں۔ ائمہ امام کی جمع ہے۔ مراد پیشوا اور لیڈر ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ عہد توڑ دیں اور دین میں طعن کریں، تو ظاہری طور پر یہ قسمیں بھی کھائیں تو ان قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ کفر کے ان پیشواؤں سے لڑائی کرو، ممکن ہے اس طرح اپنے کفر سے باز آجائیں۔ اس سے...  احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا۔ البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہوگا وہ قتال کا مستحق نہیں ہوگا۔ لیکن امام مالک، امام شافعی اور دیگر علماء طعن فی الدین کو نقض عہد بھی قرار دیتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک اس میں دونوں ہی چیزیں آجاتی ہیں لہذا اس ذمی کا قتل جائز ہے اسی طرح نقض عہد کی صورت میں بھی قتل جائز ہے۔ (فتح القدیر)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] ذمیوں کی معاندانہ سرگرمیاں :۔ اس آیت کے مفہوم میں وہ کافر و مشرک قبائل بھی شامل ہیں جو اعلان برأت سے پیشتر اپنے عہد توڑتے اور دین میں طعنہ زنی کرتے رہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اعلان برأت کے بعد بظاہر اسلام لے آئے لیکن ان کے دل اسلام کی طرف ہرگز مائل نہیں تھے بلکہ وہ محض وقتی مصلحت اور مسلمانوں ... کے غلبہ کے دباؤ کے تحت اسلام لائے تھے اور کسی مناسب موقع کے منتظر تھے کہ کب وہ اسلام میں کوئی کمزوری دیکھیں تو اپنے اسلام لانے کے عہد کو توڑ دیں۔ رسول اللہ کی زندگی میں تو انہیں ایسا موقع میسر نہ آیا لیکن آپ کی وفات کے بعد فوراً انہوں نے اس عہد کو توڑ ڈال اور پھر سے مرتد ہوگئے کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام کو جو کچھ غلبہ اور شان و شوکت حاصل ہوئی ہے وہ صرف رسول اللہ کے دم قدم سے تھی۔ چناچہ آپ کی وفات کے فوراً بعد ایسے قبائل نے پوری قوت کے ساتھ بغاوت کا علم بلند کردیا اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے اس آیت کے مصداق ان کی ٹھیک ٹھیک سرکوبی کی۔ توہین رسالت کی سزا موت :۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی اسلامی حکومت میں رہنے والے اہل الذمہ دین اسلام کا تمسخر اڑائیں یا طعنہ زنی کریں تو ان کا معاہدہ ختم اور ان کی سرکوبی کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہوتا ہے اور یہ بھی کہ جو ذمی یا کوئی دوسرا شخص رسول اللہ کو گالیاں دے یا آپ کی شان میں گستاخی کی کوئی باتیں کرے وہ واجب القتل ہے کیونکہ یہ دین میں طعنہ زنی کی ایک بدترین قسم کا جرم ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ : یعنی جن لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ نہ صرف تم سے معاہدہ کر کے اسے توڑتے ہوں بلکہ تمہارے دین کا مذاق اڑاتے، اس میں طعن کرتے اور عیب نکالتے ہوں تو سمجھ لو کہ یہی ” اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ “ (کفر کے سردار) ہیں۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں، لہٰذا تم ان لوگوں کو کسی قسم ک... ا موقع دیے بغیر ان سے جنگ کرو، تاکہ تمہاری تلواروں کی کاٹ سے وہ اپنے کرتوتوں سے باز آجائیں۔ معلوم ہوا کہ دین اسلام پر طعن کرنے والا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہانت کرنے والا واجب القتل ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگرچہ تمام کفار سے جنگ کی، مگر دین میں طعن، اسلام اور مسلمانوں کی توہین اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین کرنے والوں کے قتل کا خاص اہتمام فرمایا۔ کعب بن اشرف یہودی اور ابو رافع یہودی وغیرہ کو فدائی حملوں کے ذریعے سے قتل کروانے کے واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر بد زبانوں کا خون رائگاں قرار دینا بھی اس کی مثال ہے۔ کفار کی طرف سے عہد توڑنے کے بعد اگر ان سے جنگ نہ کی جائے تو یہ مسلمانوں کی طرف سے بیحد کمزوری کا اظہار اور انتہا درجے کی ذلت اور بےغیرتی ہوگی، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عہد توڑنے والوں سے در گزر نہیں فرماتے تھے، بلکہ فوراً انھیں ان کے انجام تک پہنچاتے تھے۔ بنو قریظہ اور اہل مکہ کے عہد توڑنے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کارروائی اس کی روشن مثال ہے، مگر افسوس آج کفار کے اپنے تمام معاہدے توڑنے کے باوجود مسلمان حکام ان سے خوف زدہ اور خاموش ہیں۔ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ : اللہ تعالیٰ نے کفار کے کسی عہد و پیمان کے معتبر نہ ہونے کا جو ذکر فرمایا یہ واقعی حقیقت ہے جس کا ثبوت نصرانیوں کا اندلس سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینا ہے اور وہ سلوک بھی جو تاتاریوں نے مسلمانوں خصوصاً بغداد کے مسلمانوں کے ساتھ ٦٥٦ ھ میں کیا اور جو کچھ ہندوؤں نے پاکستان آنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا اور اب تک کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں سے کر رہے ہیں اور جو کچھ روس اور دوسری کمیونسٹ ریاستوں نے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے لیے کیا اور اب امریکہ، یورپ اور پورا عالم کفر جس طرح عراق، افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اور جھوٹے الزام گھڑ کر وہ تمام عہد جو اقوام متحدہ کے ذریعے سے کیے تھے، پس پشت ڈال کر اسلام اور مسلمانوں کو برباد کر رہا ہے، یہ سب کفار کے کسی عہد کے عہد نہ ہونے کی واضح مثالیں ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary It will be recalled that a cease-fire agreement with the Quraysh of Makkah was concluded at Hudaibiyah in the Hijrah year 6. That the Quraysh will not stick to the agreement was foretold in verse 7 of Su-rah At-Taubah: كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِ‌كِينَ عَهْدٌ (how can the Mushriks have a trea¬ty...). Then, came verses 8, 9 and 10 with the causes of their pledge breaking. And in the 11th v... erse it was announced that, despite having broken their solemn covenant, if these Mushriks become Muslims and start expressing their faith in Islam through prayers and fasting, then, Muslims are duty-bound to keep their present dealings with them free of any effects from the past. In fact, they should take them to be their brothers in faith and treat them as such. In verse 12 cited above, Muslims have been told about the course of action they should take in the event these people do break their pledge, as prophesied earlier. The actual words of the text read: وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ‌ (And if they break their oaths after they have made a covenant and speak evil of your Faith, then fight the leaders of infidelity - 12). It is worth noting that the present situation in the text demanded the use of فَقَاتِلُوھُم (faqatiluhum: then fight them). The Holy Qur&an has said: فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ‌ (then fight the leaders of infidelity) which bypasses the use of a shorter pronoun at this place. The word: أَئِمَّةَ (a&immah: leaders) is the plural of Imam. The sense is that these people by break¬ing their word of honor turned into leaders of infidelity and thus became deserving of a war against them. This statement also carries the wisdom and justification of the command to fight. Some commentators say that ` leaders of infidelity& at this place refers to the chiefs of the tribe of Quraysh in Makkah who kept on instigating people against Muslims and remained busy making war preparations. Fighting against them was particularly mentioned because these people were the real source of power the Makkans were credited with. In addition to that, since they were the ones with whom Muslims had bonds of close kinship, there was the possible apprehension that some concession could be granted in their case. Honest critical study of Islam by Protected Non-Muslim Citizens of Dar al-Islam is possible - vilification is not Some commentators have interpreted the words: (speak evil of your faith) to mean that speaking evil of the Faith of Muslims is included under contravention of pledge. A person who speaks evil of Is-lam and the Shari’ ah of Islam cannot continue to be a party to the treaty with Muslims. But, according to a consensus of Muslim jurists, it means vilification that is done to insult and belittle Islam and Muslims, openly and publicly. Honest intellectual criticism while conducting research into problems and rulings remains exempt from its purview - then, it is not supposed to be vilification in its lexical sense. Therefore, for non-Muslim citizens of Dar al-Islam, any honest in¬tellectual criticism can be allowed, but what cannot be allowed is vilifi¬cation, contempt, insult or outrage against Islam. In the same verse (12), it was said: إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ ,(in fact, they have no oaths). The sense is that these are the kind of people none of whose oaths are trustworthy - because, they are addicted to breaking their oaths and committing breaches of trust. Then, the use of the plural form of oaths here could also mean: ` when they broke their oath, they also absolved Muslims of any responsibility for their oath and pledge.& At the end of verse 12, it was said: لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ (so that they may stop). This last sentence tells us that the objective of Jihad carried out by Muslims should never be the conquest of countries like common kings or to hurt the enemy and to take vengeance as belligerent people around the world would love to do. Instead of doing anything like that, when it comes to fighting that they must, the driving objective should be compassion for the enemy, the empathy and the desire that they would stop doing what was not right.  Show more

خلاصہ تفسیر اور اگر وہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں ( عہدوں) کو توڑ ڈالیں ( جیسا کہ انکی حالت سے غالب ہے اور ( عہد توڑ کر ایمان بھی نہ لائیں بلکہ اپنے کفر پر قائم رہیں جسکا ایک اثر یہ ہے کہ) تمہارے دین ( اسلام) پر طعن ( و اعتراض) کریں تو ( اس حالت میں) تم لوگ اس قصد سے کہ یہ ( اپنے کفر سے) باز آ... جائیں، ان پیشوایان کفر سے ( خوب) لڑو ( کیونکہ اس صوت میں) انکی قسمیں ( باقی) نہیں رہیں ( یہاں تک قبل نقض پیشینگوئی ہوچکی، آگے بعد وقوع نقض کے قتال کی ترغیب ہے کہ) تم ایسے لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ( اور بنی بکر کی بمقابلہ خزاعہ کے مدد کی) اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جلا وطن کردینے کی تجویز کی، اور انہوں نے تم سے خود پہلے چھیڑ نکالی ( کہ تمہاری طرف سے وفائے عہد میں کوئی کمی نہیں ہوئی انہوں نے بیٹھے بٹھائے خود ایک شوشہ چھوڑا، پس ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو) کیا ان سے ( لڑنے میں) ڈرتے ہو ( کہ ان کے پاس جمعیت زیادہ ہے سو ( اگر یہ بات ہے تو ہرگز ان سے مت ڈرو کیونکہ) اللہ تعالیٰ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ تم ان سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو ( اور ان سے ڈرنے کا یہ مقتضا ہے کہ ان کے حکم کے خلاف مت کرو اور وہ حکم دیتے ہیں قتال کا پس) ان سے لڑو اللہ تعالیٰ ( کا وعدہ ہے کہ) ان کو تمہارے ہاتھوں سزا دے گا اور ان کو ذلیل ( و خوار) کرے گا اور تم کو ان پر غالب کرے گا اور ( ان کی اس تعذیب اور تمہاری نصرت سے) بہت سے ( ایسے) مسلمانوں کے قلوب کو شفاء دے گا اور ان کے قلوب کے غیظ ( و غضب) دور کردے گا ( جو خود تاب مقابلہ کی نہیں رکھتے اور ان کی حرکات کو دیکھ کر دل ہی دل میں گھٹتے ہیں) اور ( ان ہی کفار میں سے) جس پر ( توجہ و فضل کرنا) منظور ہوگا اللہ تعالیٰ توجہ ( بھی) فرمائے گا ( یعنی مسلمان ہونے کی توفیق دے گا، چناچہ فتح مکہ میں بعضے لڑے اور ذلیل و مقتول ہوئے اور بعضے مسلمان ہوگئے) اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے بڑی حکمت والے ہیں ( کہ علم سے ہر ایک کا انجام کہ اسلام ہے یا کفر جانتے ہیں، اور اسی لئے اپنی حکمت سے احکام مناسبہ مقرر فرماتے ہیں اور تم جو لڑنے سے جی چراتے ہو گو بعضے ہی سہی تو) کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم یوں ہی ( اسی حالت پر) چھوڑ دیئے جاؤ گے حالانکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے ( ظاہری طور پر) ان لوگوں کو تو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے ( ایسے موقع پر) جہاد کیا ہو اور اللہ و رسول اور مؤمنین کے سوا کسی کو خصوصیت کا دوست نہ بنایا ہو ( جس کے ظاہر ہونے کا اچھا ذریعہ ایسے موقع کا جہاد ہے جہاں مقابلہ اعزہ و اقاب سے ہو کہ پورا امتحان ہوجاتا ہے کہ کون اللہ کو چاہتا ہے اور کون برادری کو) اور اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے تمہارے سب کاموں کی ( پس اگر جہاد میں چستی کرو گے یا سستی کرو گے اسی کے موافق تم کو جزا دے گا۔ معارف و مسائل قریش مکہ جن سے ٦ ہجری میں بمقام حدیبیہ ایک معاہدہ التواء جنگ کا ہوا تھا ان کے متعلق سورة توبہ کی ابتدائی آیتوں میں بطور پیشگوئی کے یہ اطلاع دے دیگئی تھی کہ یہ لوگ اپنے معاہدہ پر قائم نہ رہیں گے جس کا ذکر سورة توبہ کی ساتویں آیت میں (آیت) كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ عَهْدٌ کے الفاظ میں گزر چکا ہے، اور پھر آٹھویں نویں دسویں آیتوں میں ان کی عہد شکنی کے اسباب کا بیان ہوا، گیارہویں آیت میں اس کا بیان آیا کہ عہد شکنی کے اس جرم عظیم کے بعد بھی اگر یہ لوگو مسلمان ہوجائیں اور اپنے اسلام کا اظہار نماز و روزہ کے ذریعہ کرنے لگیں تو پھر مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کے پچھلے جرائم کا کوئی اثر اپنے معاملات میں با قی نہ رکھیں، بلکہ ان کو اپنا دینی بھائی سمجھیں اور برادرانہ معاملات کریں، مذکورہ بارہویں آیت میں اس کا بیان ہے کہ پیشنگوئی کے مطابق جب یہ لوگ عہد شکنی کر ہی ڈالیں تو پھر ان کے ساتھ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اس میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ، یعنی اگر یہ لوگ اپنے معاہدہ اور قسموں کو توڑ ڈالیں اور مسلمان بھی نہ ہوں بلکہ بدستور تمہارے دین اسلام پر طعن وتشنیع کرتے رہیں تو ان کفر کے پیشواؤں کے ساتھ جنگ کرو “۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ تقاضائے مقام اس جگہ بظاہر یہ تھا کہ فقاتلوھم فرمایا جاتا یعنی ان لوگوں سے قتال کرو، قرآن کریم نے اس جگہ مختصر ضمیر استعمال کرنے کے بجائے فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ فرمایا، ائمہ امام کی جمع ہے، معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ اپنی عہد شکنی کی وجہ سے کفر کے امام اور قائد ہو کر اس کے مستحق ہوگئے کہ ان سے جنگ کی جائے، اس میں حکم قتال کی علت اور وجہ کا بھی بیان ہوگیا، اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہاں ائمة الکفر سے مراد قریش مکہ کے وہ سردار ہیں جو لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے اور جنگی تیاریوں میں لگے رہتے تھے، ان سے جنگ کرنے کو خصوصیت کے ساتھ اس لئے ذکر فرمایا کہ اہل مکہ کی اصل طاقت کا سر چشمہ یہی لوگ تھے، اس کے علاوہ مسلمانوں کی قریبی رشتہ داری بھی انہی لوگوں سے تھی، جس کی وجہ سے اس کا خطرہ ہوسکتا تھا کہ ان کے معاملہ میں کوئی رعایت برتی جائے ( مظہری) دارالاسلام میں غیر مسلم ذمیوں کو اسلام پر علمی تنقید کی تو اجازت ہے مگر طعن و تشینع کی نہیں : (آیت) طَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ کے لفظ سے بعض حضرات نے اس پر استدلال کیا ہے کہ مسلمانوں کے دین پر طعن وتشنیع کرنا عہد شکنی کرنے میں داخل ہے جو شخص اسلام اور شریعت اسلام پر طعنہ زنی کرے وہ مسلمانوں کا معاہدہ نہیں رہ سکتا، مگر باتفاق فقہاء اس سے مراد وہ طعن وتشنیع ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی اہانت اور تحقیر کے طور پر اعلانًا کی جائے، احکام و مسائل کی تحقیق میں کوئی علمی تنقید کرنا اس سے مستثنیٰ ہے اور لغت میں اس کو طعن وتشنیع کہتے بھی نہیں۔ اس لئے دارالاسلام کے غیر مسلم باشندوں کو علمی تنقید کی تو اجازت دی جاسکتی ہے، مگر اسلام پر طعنہ زنی اور تحقیر و توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اسی آیت میں فرمایا (آیت) اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ ، یعنی یہ لوگ ایسے ہیں کہ ان کی قسم کوئی قابل اعتبار قسم نہیں، کیونکہ یہ لوگ قسم توڑنے اور عہد شکنی کرنے کے عادی ہیں، اور اس جمع کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنی قسم توڑ دی تو اب مسلمانوں پر بھی ان کی قسم اور عہد کی کوئی ذمہ داری نہیں رہی۔ آخر آیت میں ہے (آیت) لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ ، تاکہ وہ باز آجائیں، اس آخری جملہ میں بتلا دیا کہ مسلمانوں کی جنگ و جہاد کا مقصد عام دنیا کے لوگوں کی طرح دشمن کو ستانا اور جوش انتقام کو فرو کرنا یا عام بادشاہوں کی طرح ملک گیری نہ ہونا چاہئے، بلکہ ان کی جنگ کا مقصد دشمنوں کی خیر خواہی اور ہمدردی اور یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ وہ لوگ اپنی غلط روش سے باز آجائیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَہْدِہِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّۃَ الْكُفْرِ۝ ٠ ۙ اِنَّہُمْ لَآ اَيْمَانَ لَہُمْ لَعَلَّہُمْ يَنْتَہُوْنَ۝ ١٢ نكث النَّكْثُ : نَكْثُ الأَكْسِيَةِ والغَزْلِ قَرِيبٌ مِنَ النَّقْضِ ، واستُعِيرَ لِنَقْضِ العَهْدِ قال تعالی: وَ... إِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة/ 12] ، إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف/ 135] والنِّكْثُ کالنِّقْضِ والنَّكِيثَةُ کالنَّقِيضَةُ ، وكلُّ خَصْلة يَنْكُثُ فيها القومُ يقال لها : نَكِيثَةٌ. قال الشاعر مَتَى يَكُ أَمْرٌ لِلنَّكِيثَةِ أَشْهَد ( ن ک ث ) النکث کے معنی کمبل یا سوت ادھیڑ نے کے ہیں اور یہ قریب قریب نقض کے ہم معنی ہے اور بطور استعارہ عہد شکنی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة/ 12] اور اگر اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ۔ إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف/ 135] تو وہ عہد توڑ ڈالتے ہیں ۔ النکث والنکثۃ ( مثل النقض والتقضۃ اور نکیثۃ ہر اس مشکل معاملہ کو کہتے ہیں جس میں لوگ عہد و پیمان توڑ ڈالیں شاعر نے کہا ( 437 ) متیٰ یک امر للنکیثۃ اشھد جب کوئی معاملہ عہد شکنی کی حد تک پہنچ جائے تو میں حاضر ہوتا ہون ۔ يَمِينُ ) قسم) في الحلف مستعار من الید اعتبارا بما يفعله المعاهد والمحالف وغیره . قال تعالی: أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] ، وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] ، وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] ، إِنَّهُمْ لا أَيْمانَ لَهُمْ [ التوبة/ 12] وقولهم : يَمِينُ اللهِ ، فإضافته إليه عزّ وجلّ هو إذا کان الحلف به . ومولی اليَمِينِ : هو من بينک وبینه معاهدة، وقولهم : ملك يَمِينِي أنفذ وأبلغ من قولهم : في يدي، ولهذا قال تعالی: مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] وقوله صلّى اللہ عليه وسلم آله : «الحجر الأسود يَمِينُ اللهِ» «1» أي : به يتوصّل إلى السّعادة المقرّبة إليه . ومن اليَمِينِ : تُنُووِلَ اليُمْنُ ، يقال : هو مَيْمُونُ النّقيبة . أي : مبارک، والمَيْمَنَةُ : ناحيةُ اليَمِينِ. الیمین بمعنی دایاں ہاتھ سے استعارہ کے طور پر لفظ یمین قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب قسم کھاتے یا عہد کرتے وقت اپنا دایاں ہاتھ دوسرے کے دائیں ہاتھ پر مارتے تھے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَمْ لَكُمْ أَيْمانٌ عَلَيْنا بالِغَةٌ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ [ القلم/ 39] یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن چلی جائیں گی ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] اور یہ لوگ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة/ 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ [ التوبة/ 12] اگر عہد کرن کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں ۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ۔ اور عربی محاورہ ویمین اللہ ( اللہ کی قسم ) میں) یمین کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے کی جاتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا اللہ کے نام کی قسم کھاتا ہے ۔ اور جب ایک شخص دوسرے سے عہدو پیمان باندھتا ہے تو وہ اس کا موالی الیمین کہلاتا ہے اور کسی چیز پر ملک اور قبضہ ظاہر کرنے کے لئے فی یدی کی نسبت ملک یمینی کا محاورہ زیادہ بلیغ ہے ۔ اسی بنا پر غلام اور لونڈیوں کے بارے میں قرآن نے اس محاورہ کی اختیار کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 33] جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں ۔ اور حدیث میں حجر اسود کی یمین اللہ کہا گیا ہے (132) کیونکہ اس کے ذریعہ قرب الہی کی سعادت حاصل کی جاتی ہے ۔ یمین سے یمن کا لفظ ماخوذ ہے جو خیروبرکت کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ھومیمون ۔ النقیبۃ وہ سعادت مند ہے اور میمنۃ کے معنی دائیں جانب بھی آتے ہیں ۔ طعن الطَّعْنُ : الضّربُ بالرّمح وبالقرن وما يجري مجراهما، وتَطَاعَنُوا، واطَّعَنُوا، واستعیر للوقیعة . قال تعالی: وَطَعْناً فِي الدِّينِ [ النساء/ 46] ، وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ [ التوبة/ 12] ( ط ع ن ) الطعن ( ف) کے معنی نیزہ ، سینگ وغیرہ کسی تیز اور نوکیلی چیز کے ساتھ زخم کرنے کے ہیں تطاعنوا واطعنوا انہوں نے ایک دوسرے کو نیزہ مارا پھر استعارہ کے طور پر کسی پر الزام لگانے یا اس کی بدگوئی کرنے کے معنی میں بھی طعن کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَطَعْناً فِي الدِّينِ [ النساء/ 46] اور دین میں طنز کی راہ سی۔ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ [ التوبة/ 12] اور تمہارے دین میں طعنے کرنے لگیں ۔ إِمام : المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء/ 71] أي : بالذي يقتدون به، الامام وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ { يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ } ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ انتهَاءُ والانتهَاءُ : الانزجار عمّا نهى عنه، قال تعالی: قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال/ 38] الانتھاء کسی ممنوع کام سے رک جانا ۔ قرآن پاک میں ہے : قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ ما قَدْ سَلَفَ [ الأنفال/ 38]( اے پیغمبر ) کفار سے کہہ دو کہ اگر وہ اپنے افعال سے باز آجائیں تو جو ہوچکا وہ انہیں معاف کردیاجائے گا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دین پر زبان درازی ناقابل برداشت ہے قول باری ہے (ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے اوپر حملے شروع کردیں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو) اس میں دلالت موجود ہے کہ معاہدہ ج کرنے والے اگر معاہد کی کسی شق ک... ی خلاف ورزی کے مترکب پاے جائیں اور ہمارے دین کے متعلق زبان درازی پر اترائیں تو وہ معاہدہ توڑنے کے مرتکب قرار پائیں گے۔ اس لئے کہ قسموں کو توڑنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں قسمیں کھائی گئی ہوں ان میں سے بعض کی خلاف ورز یکر لی جائے۔ اگر قسم نفی کی صورت میں کھائی گئی ہو، مثلاً کسی نے یہ قسم کھائی ہو کہ بخ دائیں نہ زید سے کلام کروں گا اور نہ عمرو سے اور نہ میں اس گھر میں داخل ہوں گا نہ اس گھر میں۔ “ اگر یہ شخص ان میں سے کوئی کام بھی کرلے گا و حانث ہوجائے گا اور اپنی قسم توڑ بیٹھے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جب اس کے ساتھ دین کے بارے میں زبان درازی کو بھی شام کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ غیرمسلموں کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی بقا کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے دین کے بارے میں کوئی زبان درازی نہ کریں، نیز یہ کہ ذمیوں کو مسلمانوں کے دین پر حملے کی اجازت نہیں ہے۔ شاتم رسول واجب القتل ہے یہ چیز ان فقاء کے قول کے لئے شاہد کی حیثیت رکھتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ذمیوں میں سے اگر کسی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے بارے میں سب دشتم کا اظہار کیا تو وہ نقص عہد کا مرتکب قرار پائے گا اور واجب القتل ٹھہرے گا تاہم اس مسئلے میں فقاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اسے تعزیری سزا دی جائے گی قتل نہیں کیا جائے گا۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ یہود و نصاریٰ میں سے کوئی شخص بھی اگر سب و شتم کرے گا تو اس کی گردن اڑا دی جائے گی الا یہ کہ وہ مسلمان ہوجائے۔ ولید بن مسلم نے اوزاعی اور امام مالک سے روایت کی ہے کہ جو شخص ایسا کرے گا وہ مرتد ہوجائے گا۔ اس سے توبہ کرنے کے لئے کہا جائے گا اگر توبہ کرلے گا تو اسے بہرحال سخت سزا دی جائے گی اور اگر ر توبہ نہیں کرے گا تو اس کی گردن اڑا دی جائے گی امام ماملک کا قول ہے کہ ایسے شخص کی سزا کی صورت یہ ہوگی کہ پہلے سو کوڑے لگائے جائیں گے پھر چھوڑ دیا جائے گا حتیٰ کہ جسانی طور پر صحت یاب ہوجائے اس کے بعد پھر اسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔ امام مالک نے اس بارے میں مسلمان اور ذمی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ لیث بن سعد کچا قول ہے کہ اگر کوئی مسبلمان ایسی حرکت کرے گا تو اسے نہ تو مہلت دی جائے گی، نہ توبہ کے لئے کہا جائے گا بلکہ فوراً ہی اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ یہی حکم یود و نصاری کے لئے بھی ہے۔ نقض عہد کی مثالیں امام شافعی کا قول ہے کہ کافرں سے جو صلغ کی جائے اس میں ایک شرط یہ بھی رکھی جائے اگر ان کا کوئی آدمی اللہ کی شان میں یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے بارے میں کوئی نازیبا کلمہ کہے گا یا کسی مسلمان عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرے گا یا ناح کے نام پر اس سے ہمبستری کرے گا یا کسی کو اس کے دین سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرے گا یا کسی مسلمان کی راہزنی کرے گا یا مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار کافروں یعنی اہل حرب کی مدد کرے گا تو ان تمام صورتوں میں وہ نقض کا مرتکب قرار پائے گا اور اس کی جان اور اس کے مال کی حفاظت کی اللہ اور اس کے رسول نے جو ذمہ داری اٹھائی تھی وہ ختم ہوجائے گی اور اس کی گردن اڑا دینا حلال ہوجائے گا۔ ظاہر آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب و شتم کرے گا اگر وہ معاہد ہوگا تو اس حرکت کی بنا پر نقض عہد کا مرتکب ہوگا اس لئے کہ قول باری ہے (ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر) اللہ تعالیٰ نے طعن فی الدین کو بمنزلہقسم توڑنا قرار دیا کیونکہ یہ بات تو واضح ہے کہ نقض عہد کے لئے قسم توڑنے اور دین کے بارے میں زبان درازی کرنے کی دونوں باتوں کے مجموعے کو شرط قرار دینا آیت میں مراد نہیں ہے اس لئے کہ اگر آیت میں مذکورہ لوگ اپنی قسم توڑ کر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوجاتے تو دین کے بارے میں زبان درازی نہ کرنے کے باوجود بھی وہ نقض عہد کے مرتکب قرار دیئے جاتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حلیف قبیلہ بنی خزاعہ کے خلاف بنی بکر کی امداد کرنے پر قبیلہ قریش کو نقض عہد کا مترکب قرار دیا تھا حالانکہ قریش نے یہ سب کچھ خفیہ طور پر کیا تھا اور علانیہ دین اسلام کے متعلق زبان درازی بھی نہیں کی تھی اس سے یہ ثابت ہوگئی کہ آیت کے معنی یہ ہیں ک اگر یہ لوگ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں یا دین کے بارے میں زبان درازی کریں تو کفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب و شتم دین پر حملے کی گھنائونی شکل ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو معاہدہ میں شامل کوئی شخص اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب و شتم کا اظہار کرے گا وہ نقض عہد کا مرتکب ہوگا۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر سب و شتم کرنا دین پر حملے کی ایک انتہائی گھنائونی شکل ہے۔ درج بالا مسلک کے قائلین کے استدلال کی یہ صورت ہے اس مسلک کے حق میں اس روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جو امام ابو یوسف نے حصین بن عبدالرحمن سے نقل کی ہے انہوں نے ایک شخص سے، اس شخص نے ابو عر سے کہ کسی نے ان سے کہا کہ میں نے ایک راہب کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب و شتم کرتے سنا تھا۔ یہ سن کر ابوعمر کہنے لگے کہ اگر میں سنتا تو اسے ضرور قتل کردیتا۔ ہم نے ان سے معادہ کر کے ایسی حرکت کرنے کی اجازت نہیں دی ہے لیکن سا روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں یہ بھی ممکن ہے کہ معاہدہ میں یہ شرط رکھی گئی ہو کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب و شتمکا اظہار نہیں کریں گے۔ سعید نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرا ار خبث باطن سے کام لیتے ہوئے کہا : ” السام علیک “ (تمہیں موت ہو) نعوذ باللہ ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا ” تمہیں پتہ چلا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ “ صحابہ کرام نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر وہی یہودی واپس آیا تو واپسی میں بھی یہی کلمہ کہا، آپ نے صحابہ کرام سے فرمایا۔ ” جب اہل کتاب میں سے کوئی شخص تمہیں اس طرح سلام کرے اس کے جواب میں صرف یہ کہہ دیا کرو ” علیک “۔ زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ یہودیوں کی ایک جماعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور آتے ہی “ لسام علیکم کہا۔ حضرت عائشہ (رض) فماتی ہیں میں سمجھ گئی اور جواب میں میں نے کہا و علیکم السام واللعنۃ (تم پر موت اور لعنت ہو) اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عائشہ ! سنو، اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے “ میں نے عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے بھی انہیں ” وعلیکم “ ہی کہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر کوئی مسلمان ایسی بات کہتا تو وہ مرتد ہو کر قتل کا سزاوار قرار پاتا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات پر ان یہودیوں کو قتل کردینے کا حکم نہیں دیا۔ شعبہ نے ہشام بن یزید سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی عورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بکری کا زہر آلود گوشت لے کر آئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے کھالیا، اس عورت کو پکڑ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا۔ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے قتل کردینے کا حکم نہیں دیں گے ؟ آپ نے فرمایا ” نہیں “ مسلمان شاتم رسول واجب القتل ہے حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام رویوں میں یہی نرمی ہمیشہ نظر آتی رہی۔ اہل اسلام کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دین اسلام کا کوئی مدعی اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے متعلق یہ ریہ اختیار کرے گا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور واجب القتل قرار پائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس یہودی عورت کی حرکت پر اسے واجب القتل قرار نہیں دیا اس لئے کہ اگر کوئی ذمی آپ پر سب و شتم کا اظہار کرے گا وہ بھی واجب القتل قرار نہیں پائے گا، لیکن اگر کوئی مسلمان ایسی حرکت کرے گا وہ قتل کا سزا وار ٹھہرے گا، اس معاملے میں ذمی پر عائد ہونے والا حکم مسلمان پر عائد ہونے والے حکم سے مختلف ہے قول باری (فقاتلوا المۃ الکفر) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد قریش کے رئوسا ہیں۔ قتادہ کے قول کے مطابق ابوجہل امیہ بن خلف، عتبہ بن ربیعہ اور سہیل بن عمرو مراد ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکلوانے کی سازش کی تھی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سورة براء ۃ فت مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو مکہ بھیجا تھا کہ وہ جا کر وہاں موجود تمام لوگوں کو یہ سورت پڑھ کر سنا دیں۔ یہ ٩ ھ کا واقعہ ہے اور اسی سال حضرت ابوبکر (رض) کو امیر حج بنا کر بھیجا گیا تھا۔ جبکہ ابوجہل، امیہ بن خلف اور عتبہ بن ابی ربیعہ بدر کے معرکہ میں قتل ہوگئے تھے۔ نیز سورة براء ۃ کے نزول ک وقت زوساء قریشی میں سے ایک بھی ایسا شخص باقی نہیں رہ گیا تھا جو کفر کا اظہار کرسکتا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ جن حضرات سے یہ مروی ہے کہ زیربحث آیت میں رئوساء قریش مراد ہیں ان کا یہ قول وہم ہے حقیقت نہیں ہے۔ الا یہ کہ اس سے قریش کا وہ گروہ مراد لیا جائے جس نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام کا اظہار کردیا تھا اور وہ طلقا، یعنی آزاد کہلائے تھے۔ مثلا ابو سفیان اور ان کا گروہ، ان کا دل ابھی تک کفر سے پوری طرح پاک نہیں ہوا تھا۔ اس طرح یہ لوگ آیت زیربحث میں مراد ہوسکتے ہیں۔ آیت میں وہ مشرکین مراد نہیں ہیں جن کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ کیا تھا اور انہوں نے اسلام کا اظہار بھی نہیں کیا تھا۔ ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے مل کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکلوانے کی سازش کی تھی لیکن ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنگ و قتال کے ذریعے اس گروہ کو بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آیت میں وہ لوگ مراد ہوں جن کا ہم نے ابیھ ذکر کیا ہے اور ان کے علاوہ وہ تمام روساء عرب بھی مراد ہوں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں ہمیشہ قریش کی مدد کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دے دیا کہ ایسے لوگ اگر اپنی قسمیں توڑ لیں اور تمہارے دین پر حملے شروع کردیں تو تم انہیں قتل کرو اور ان سے لڑو۔ قول باری ہے (انھم لا ایمان لھم۔ کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں) یعنی ان کی قسمیں ایسی ہیں جو درحقیقت پکی نہیں ہیں اور نہ ہی ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اس سے ان کی قسموں کے وجود کی نفی ہیں ہوتی، اس لئے پہلے ارشاد ہو چک ہے (و ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم) نیز اس پر یہ قول باری عطف ہے (الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانھم۔ کیا تم نہ لڑو گے ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری الا ایمان لھم) سے سرے سے قسموں کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ قسموں پر قائم رہنے کی نفی مراد ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ حرف لا کا اطلاق کر کے فعل کی نفی مراد لینا اور اصل کی مراد نہ لینا جائز ہے، احادیث اور کلام عرب میں اس کی مثالیں موجود ہیں جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (لا صلوۃ لجاد المسجد الا فی المسجد۔ مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے سوا اور کہیں نہیں ہوتی) یا (لیس بمومن من لا یامن جارہ بوائقہ۔ وہ شخص مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کے شر و فساد سے محفوظ نہ ہو) یا (لا وضوء لم لم یذکر اسم اللہ۔ جس نے اللہ کا نام نہیں لیا اس کا کوئی وضو نہیں) یا اسی طرح کی اور مثالیں۔ ائمہ کفر کون ہیں ؟ آیت میں کفر کے اندر امامت کا ذکر ہوا۔ اس لئے کہ امام وہ شخص ہوتا ہے جو خبر و شر میں لوگوں کا مقتداء ہوتا ہے اور لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ارشاد باری ہے۔ (وجعلنا ھم ائمۃ یدعون الی النار ہم نے انہیں مقتدا بنایا جو لوگوں کو آگ کی طرف بلاتے تھے) یہ شر کی مثال تھی۔ خیر کی مثال یہ قول باری ہے (وجعلنا ھم ائمۃ یھدون بامرنا۔ ہم نے انہیں مقتدا بنایا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے) اس طرح جو شخص خیر میں مقتدا اور امام ہوتا ہے وہ خود بھی ہدایت یافتہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی ہدایت دیتا اور ان کی رہنمائی کرتا ہے لیکن جو شخص شر میں پیشوا ہوتا ہے وہ خود بھی گمراہ ہوتا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ ایک قول ک مطابق اس آیت کا نزول ان یہودیوں کے بارے میں ہوا تھا جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بد عہدی کرتے ہوئے اپنے اس عہد و پیمان اور قسموں کو توڑڈالا تھا کہ وہ آپ کے خلاف مشرکین کی مدد نہیں کریں گے۔ انہوں نے منافقوں اور کافروں کے تعاون سے آپ کو مدینہ منورہ سے نکلوانے کی سازش بھی کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ بد عہدی اور معاہدے کی خلاف ورزی کی ابتدا انہوں نے کی ہے۔ اللہ نے ایسے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ چناچہ ارشاد ہے (و قاتلوھم یعذبھم اللہ یایدیکم۔ ان سے جنگ کرو تمہارے ہاتھوں سے انہیں سزا دلوائے گا) یہاں یہ کہنا بھی درست ہے کہ مذکورہ بالا تمام امور قول باری (و ان نکثوا ایمانھم من بعد عھدھم) پر مرتب مانے جائیں اور یہھی درست ہے کہ قول باری (الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانھم) کی رو سے انہوں نے نقض عہد کیا تھا۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اور اگر یہ مکہ والے بعدعہدی کریں اور دین اسلام پر طعن وتشنیع کریں تو آئمۃ الکفر یعنی ابوسفیان وغیرہ سے خوب لڑو کیوں کہ ان کی قسمیں باقی نہیں رہیں ممکن ہے کہ یہ بدعہدی سے باز آجائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَاِنْ نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَہُمْ مِّنْم بَعْدِ عَہْدِہِمْ وَطَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ ) (فَقَاتِلُوْٓا اَءِمَّۃَ الْکُفْرِلا اِنَّہُمْ لَآ اَیْمَانَ لَہُمْ ) یہ بہت اہم اور قابل توجہ نکتہ ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کے اندر کافر اور مشرک تو بہت تھے مگر یہاں خصوصی طور پر کفر اور شرک کے پیشواؤں سے ج... نگ کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ یہ ائمّۃ الکفر ( کفر کے امام ) قریش تھے۔ وہ کعبہ کے متولی اور تمام قبائل کے بتوں کے مجاور تھے۔ دوسری طرف سیاسی ‘ معاشرتی اور معاشی لحاظ سے مکہ کو اُمّ القریٰ کی حیثیت حاصل تھی اور وہ ان کے زیر تسلط تھا۔ اس وقت اگرچہ جزیرہ نمائے عرب میں نہ کوئی مرکزی حکومت تھی اور نہ ہی کوئی باقاعدہ مرکزی دارالحکومت تھا ‘ مگر پھر بھی اس پورے خطے کا مرکزی شہر اور معنوی صدر مقام مکہ ہی تھا ‘ اور اس مرکزی شہر اور اُمّ القریٰ میں واقع اللہ کے گھر کو قریش نے شرک کا اڈا بنایا ہوا تھا۔ اس لیے جب تک ان کو شکست دے کر مکہ کو کفر اور شرک سے پاک نہ کردیا جاتا ‘ جزیرہ نمائے عرب کے اندر دین کے غلبے کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے یہاں (فَقَاتِلُوْٓا اَءِمَّۃَ الْکُفْرِ ) کا واضح حکم دیا گیا ہے ‘ کہ جب تک کفر کے ان سرغنوں کا سر نہیں کچلاجائے گا اور شرک کے اس مرکزی اڈے کو ختم نہیں کیا جائے گا اس وقت تک سرزمین عرب میں دین کے کلی غلبے کی راہ ہموار نہیں ہوگی۔ (لَعَلَّہُمْ یَنْتَہُوْنَ ) یعنی ان پر سختی کی جائے گی تو شاید باز آجائیں گے ‘ نرمی سے یہ ماننے والے نہیں ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :15 اس جگہ سیاق و سباق خود بتا رہا ہے کہ قسم اور عہد و پیمان سے مراد کفر چھوڑ کر اسلام قبول کر لینے کا عہد ہے ۔ اس لیے کہ ان لوگوں سے اب کوئی اور معاہدہ کرنے کا تو کوئی سوال باقی ہی نہ رہا تھا ۔ پچھلے سارے معاہدے وہ توڑ چکے تھے ۔ ان کی عہد شکنیوں کی بنا پر ہی اللہ اور ... اس کے رسول کی طرف سے برأت کا اعلان اُنہیں صاف صاف سنایا جا چکا تھا ۔ یہ بھی فرما دیا گیا تھا کہ آخر ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ اور یہ فرمان بھی صادر ہو چکا تھا کہ اب انہیں صرف اسی صورت میں چھوڑا جا سکتا ہے کہ یہ کفر و شرک سے توبہ کر کے اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کی پابندی قبول کرلیں اس لیے یہ آیت مرتدین سے جنگ کے معاملہ میں بالکل صریح ہے ۔ دراصل اس میں اس فتنہ ارتداد کی طرف اشارہ ہے جو ڈیڑھ سال بعد خلافت صدیقی کی ابتداء میں برپا ہوا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر جو طرز عمل اختیار کیا وہ ٹھیک اس ہدایت کے مطابق تھا جو اس آیت میں پہلے ہی دی جا چکی تھی ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ”مرتد کی سزا اسلامی قانون میں“ ) ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11۔ پچھلی آیت کی روشنی میں قسمیں توڑنے سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوجائیں، جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد بعض قبائل مرتد ہوئے، اور حضرت صدیق اکبر (رض) نے ان سے جہاد کیا اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں سے تمہارا معاہدہ تھا اور وہ پہلے ہی عہد ت... وڑ چکے یا جن سے معاہدہ نو مہینے تک باقی ہے وہ اس دوران معاہدہ توڑیں، ان سے جہاد کرو اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آجائیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری طرف سے جنگ کا مقصد ملک گیری کے بجائے یہ ہونا چاہئے کہ تمہارا دشمن اپنے کفر اور ظلم سے باز آجائے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢۔ اس آیت میں اللہ جل شانہ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ یہ مشرک لوگ اگر اپنا عہد توڑ دیں اور تمہارے سچے دین میں نقص نکالیں اور عیب لگائیں تو ان کے سرداروں کو چن چن کر مارو اور قتل کرو کہ یہ سب فساد ان ہی کی وجہ سے ہے کیونکہ بچارے غریب لوگ کیا سر اٹھا دیں گے جب تک انہیں بڑے بڑے لوگ کچھ مدد نہ دیں حض... رت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت ابوسفیان وغیرہ قریش کے ریئسوں کے باب میں اتری ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی قوم میں منتخب لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے اور اپنے اپنے قبیلہ کے سردار مانے جاتے تھے اور انہیں لوگوں نے صلح کر کے پھر اپنے عہد کو توڑا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکا لا پھر فرمایا کہ ان لوگوں کا قول وقرار قسما قسمی کچھ معتبر نہیں ہے ورنہ یہ لوگ اس طرح کی بدعہدی کبھی نہ کرتے آخر کو یہ فرمایا کہ ان مشرکوں میں سے جو لوگ اپنا عہد توڑ دیں اور دین میں عیب نکالیں ان سے لڑنے کو اس واسطے حکم دیا گیا ہے کہ شاید اس جنگ کی وجہ سے یہ لوگ اپنی حرکت سے باز آئیں اور پھر کبھی نہ عہد توڑیں اور نہ دین میں عیب نکالیں اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے مکہ کی چڑھائی سے پہلے مثلا خالد بن ولید کی مخالفت اس کا قصہ سورت نساء میں گذر چکا ہے اب صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے مابین کی مدت میں خالد بن ولید دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور لشکر اسلام میں اللہ کے رسول نے اللہ کی تلوار انکا لقب قرار دیا چناچہ صحیح بخاری کی انس بن مالک (رض) کی روایت میں جو قصہ تفصیل سے ہے یا مثلا مکہ کی چڑھائی سے پہلے ابوسفیان کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ انہوں نے مشرکین مکہ کو طرح طرح کا لالچ دیکر صلح حدیبیہ میں خلل ڈالا اور مکہ کی چڑھائی کے وقت اسلام قبول کیا اور حنین کی لڑائی کے وقت اللہ کے حدیثوں میں اس طرح کے بہت سے قصے ہیں جو آیت کے ٹکڑے لعلھم ینتھون کی پشین گوئی کی گویا تفسیر ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:12) نکثوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ نکث مصدر۔ (باب ضرب و نصر) انہوں نے عہد کو توڑا۔ نکثیۃ۔ عہد شکنی۔ جھوٹ۔ ایسا دشوار کام جس میں لوگ عہد و پیمان کو توڑ ڈالیں۔ طعنوا۔ انہوں نے ثعن کیا۔ انہوں نے عیب نکالا۔ طعن سے جس کا اصل معنی نیزہ مارنا ہے (باب ضرب۔ نصر۔ فتح) ہر وہ چیز جو دل کو دکھ پہنچانے والی ہو اس ... کو بھی طعن کہتے ہیں۔ مثلاً عیب جوئی۔ طعنہ زنی۔ طعن۔ بمعنی نیزہ زنی اکثر باب نصر سے آتا ہے۔ اور جب اس کا تعلق طعن بالقول سے ہو تو باب فتح سے۔ یہاں مراد عیب جوئی۔ نقص بینی کے ہیں۔ ائمۃ الکفر۔ رؤس المشرکین۔ کفر کے پیشوا۔ کافروں کے لیڈر۔ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق اس سے مراد ابوسفیان بن حرب۔ الحرث بن ہشام، سہیل بن عمرو، ابو جہل وغیرہ ہیں۔ ائمۃ امام کی جمع ہے۔ لیڈر، سردار، قائد، پیشوا، سرکردہ ینتھون۔ وہ بار رہتے ہیں۔ (شاہد وہ باز آجائیں) وہ باز آجائیں۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ انتھاء (افتعال) مصدر نہی مادہ  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعن جن لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ صرف تم سے معاہدہ کر کے اسے توڑ تے ہوں بلکہ تمہارے دین کا مذاق بھی اڑاتے ہوں تو سمجھ لو کہ ایسے ہی لوگ ائمتہ الکفر، ( کفر کے سردار) ہیں ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں لہذا تم ایسے لوگوں کو کسی قسم کو موقع دیئے بغیر پر سر پیکار ہوجاؤ شاید تمہاری تلواریں ہی انہیں ا... ن کے کرتوتوں سے باز رکھ سکیں۔ معلوم ہوا کہ دین اسلام پر طعن کرنے والا اور پیغمبر ( علیہ السلام) کی اہا نت کرنے والا واجب القتل ہے۔ ( ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین دار لوگوں کی آپس میں محبت ہونی چاہیے جو لوگ عہد شکنی کریں اور دین اسلام کو طعن و تضحیک کا نشانہ بنائیں ان سے نہ صرف نفرت ہونی چاہیے بلکہ جنگ کے دوران انھیں خاص طور پر نشانہ بنانا چاہیے۔ کفار اور منافقین تائب ہونے کی بجائے عہد شکنی اور دین میں طعن وتشنیع کا سلسلہ جاری رکھی... ں۔ تو ان کی قسموں پر اعتماد کرنے کی بجائے کفر کے سرداروں کو قتل کر دو ۔ شاید اس طرح باقی ماندہ لوگ کفر و شرک کی کھلم کھلا مخالفت سے باز آجائیں۔ دین میں طعن سے مراد اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنا اور دین کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کرنا ہے۔ اس آیت میں دو باتیں بالخصوص کہی گئی ہیں۔ ائمۃ الکفر کے قتل کا حکم اور ان کے عہد کو بےحیثیت قرار دینے کی ہدایت۔ یہ اس لیے ہے کہ کفار جب اپنے آپ کو طاقتور سمجھتے ہیں۔ تو مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے عہد کی پرواہ نہیں کرتے اور جب مسلمانوں کو مضبوط تصور کرتے ہیں تو پھر عہد کی پاسداری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ جس طرح حدیبیہ کا عہد توڑنے کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ مسلمان ہم پر حملہ آور ہونے والے ہیں تو انھوں نے اپنے سربراہ ابو سفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا لیکن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھتے تھے کہ یہ صرف دفع الوقتی کی خاطر ایسا کر رہے ہیں اور بنو بکر کو بنو خزاعہ کی دیت دینے کے لیے مجبور کرنے پر تیار نہیں ہیں جس بناء پر آپ تجدید عہد کے لیے تیار نہ ہوئے اور مکہ کی طرف پیش قدمی فرمائی جب آپ نے مکہ کا کنٹرول سنبھالا تو چار پانچ آدمیوں کے سوا باقی کے لیے عام معافی کا اعلان فرمایا جن لوگوں کو اس موقع پر قتل کیا گیا ان کے بارے میں اعلان یہ تھا کہ اگر یہ لوگ کعبہ کے غلاف کے ساتھ چمٹ جائیں تو پھر بھی انھیں معاف نہ کیا جائے۔ اس کا سبب یہی تھا کہ یہ لوگ ائمۃ الکفر تھے اور اللہ اور اس کے رسول کی گستاخیاں کرنے کے ساتھ دین پر غلیظ ترین طعن وتشنیع کرتے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم جاری فرمایا کہ ان لوگوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو ۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکابر مجرمین میں سے نو آدمیوں کا خون رائیگاں قرار دے کر حکم دیا کہ اگر وہ کعبے کے پردے کے پیچھے بھی پائے جائیں تو انھیں قتل کردیا جائے ان کے نام یہ ہیں۔ (١) عبدالعزیٰ بن خطل (٢) عبداللہ سعد بن ابی سرح (٣) عکرمہ بن ابی جہل (٤) حارث بن نفیل بن وہب ( ٥) مقیس بن صبابہ (٦) ہبار بن اسود (٧، ٨) ابن خطل کی دو لونڈیاں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو گایا کرتی تھیں (٩) سارہ، جو اولاد عبدالمطلب میں سے کسی کی لونڈی تھی۔ ابن ابی سرح کا معاملہ یہ ہوا کہ اسے حضرت عثمان بن عفان (رض) نے خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لے جا کر جان بخشی کی سفارش کردی اور آپ نے ان کی جان بخشی فرماتے ہوئے اس کا اسلام قبول کرلیا۔ لیکن اس سے پہلے آپ کچھ دیر تک اس امید میں خاموش رہے کہ کوئی صحابی اٹھ کر اسے قتل کردے گا۔ کیونکہ یہ شخص اس سے پہلے بھی ایک بار اسلام قبول کرچکا تھا اور ہجرت کرکے مدینہ آیا تھا لیکن پھر مرتد ہو کر بھاگ گیا تھا تاہم اس کے بعد یہ شخص مخلص مسلمان ثابت ہوا۔ عکرمہ بن ابی جہل نے بھاگ کر یمن کی راہ لی لیکن اس کی بیوی خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہو کر اس کے لیے امان کی طالب ہوئی اور آپ نے اسے امان دے دی۔ اس کے بعد وہ عکرمہ کے پیچھے گئی اور اسے واپس لے آئی۔ اس نے اسلام قبول کیا۔ ابن خطل خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر لٹکا ہوا تھا۔ ایک صحابی نے خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہو کر اطلاع دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے قتل کر دو ۔ اس نے اسے قتل کردیا۔ مقیس بن صبابہ کو حضرت نمیلہ بن عبداللہ نے قتل کیا۔ مقیس بھی پہلے مسلمان ہوچکا تھا۔ لیکن پھر ایک انصاری کو قتل کرکے مرتد ہوگیا اور بھاگ کر مشرکین کے پاس چلا گیا تھا۔ حارث، مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت اذیت پہنچایا کرتا تھا۔ اسے حضرت علی (رض) نے قتل کیا۔ ہبار بن اسود وہی شخص ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت زینب (رض) کو ان کی ہجرت کے موقع پر ایسا کچو کا مارا جس سے وہ ہودج سے نکل کر ایک چٹان پر جا گری تھیں اور اس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ یہ شخص مکہ سے نکل بھاگا۔ بعد ازاں مسلمان ہوگیا اور اس کا اسلام اور کردار بہت اچھا رہا۔ ابن خطل کی دونوں لونڈیوں میں سے ایک قتل کی گئی۔ دوسری کے لیے امان طلب کی گئی اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔ اسی طرح سارہ کے لیے امان طلب کی گئی اور وہ بھی مسلمان ہوگئی۔ (گویا کہ نو میں سے چار قتل کیے گئے، پانچ کی جان بخشی ہوئی اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ) مسائل ١۔ جو لوگ بار بار عہد شکنی کریں ان کے عہد کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی گستاخی اور دین میں طعن کرنے والوں کو قتل کردینا چاہیے۔ ٣۔ جنگ میں کفر کے لیڈروں کو قتل کردینا چاہیے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو، ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ان آیات میں قریش مکہ کی بد عہدی اور عہد شکنی کا تذکرہ ہے اور ان سے جنگ کرنے کی ترغیب ہے۔ ان لوگوں سے ٦ ھ میں حدیبیہ کے مقام پر معاہدہ ہوا تھا۔ جس کی دس شرطوں میں سے ایک یہ شرط بھی تھی کہ دس سال تک ایک فریق دوسرے فریق پر حملہ آور نہ ہوگا اور ... نہ کوئی فریق کے حلیف پر حملہ کرے گا اور نہ کسی حملہ آور کی مدد کرے گا لیکن قریش مکہ نے معاہدہ توڑ دیا اور قبیلہ بنی خزاعہ (جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حلیف تھا) کے خلاف قریش مکہ نے قبیلہ بنی بکر کی ہتھیاروں سے اور جوانوں سے مدد کی۔ اب جبکہ انہوں نے اپنا عہد توڑ ڈالا، اور نہ صرف یہ کہ عہد توڑا بلکہ تمہارے دین کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا تو ان سے جنگ کرو۔ فَقَاتِلُوْھُمْ کی بجائے (فَقَاتِلُوْٓا اَءِمَّۃَ الْکُفْرِ ) فرمایا۔ اس سے تمام مشرکین قریش مراد ہیں جو پورے عرب کے مشرکوں کے سرغنے بنے ہوئے تھے نہ ایمان قبول کرتے تھے اور نہ دوسروں کو قبول کرنے دیتے تھے اور قبائل عرب نے انہیں اپنا مقتدیٰ بنا رکھا تھا جو اس انتظار میں تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہوں گے تو ہم بھی مسلمان ہوجائیں گے یا (اَءِمَّۃَ الْکُفْرِ ) سے قریش کے سردار مراد ہیں جیسے ابو جہل اور سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن أبی جہل اور ابو سفیان بن حرب وغیر ہم، حضرت ابن عباس (رض) نے اسی کو اختیار فرمایا۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ آیت قریش مکہ کے سرداروں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے نقض عہد بھی کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ معظمہ سے جلا وطن کرنے کا مشورہ بھی دیا جبکہ دارالندوہ میں جمع ہوئے تھے (اِنَّھُمْ لَآ اَیْمَانَ لَھُمْ ) (ان کی قسمیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں) (لَعَلَّھُمْ یَنْتَھُوْنَ ) تم ان سے جنگ کرو تاکہ یہ تمہارے دین پر طعن کرنے اور مقابلہ میں جنگ کے لیے کھڑے ہونے سے باز آجائیں اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفر سے باز آجائیں۔ (معالم التنزیل ص ٢٧٢ ج ببعض زیادۃ) قریش مکہ تو عہد توڑ چکے تھے پھر حرف شرط کے ساتھ ان کے عہد کو توڑنے کو کیوں ذکر فرمایا ؟ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نقض عہد پر قائم رہیں اور ایمان نہ لائیں تو ان سے قتال کرو۔ احقر کے ذہن پر یہ وارد ہوا ہے کہ جملہ شرطیہ لا کر آئندہ آنے والوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ قریش مکہ تو عہد توڑ ہی چکے ہیں ان کے علاوہ آئندہ بھی کافروں کی جو جماعت نقض عہد کرے اور تمہارے دین میں طعن کرے ان سے جنگ کرنا اور خاص کر کفر کے سرغنوں کو قتل کرنے کا اہتمام کرنا۔ ان لوگوں کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایسے لوگوں سے قتال کرتے رہو گے تو وہ تمہارے دین میں طعن کرنے اور جنگ کرنے کی ہمت سے باز رہیں گے۔ علامہ نسفی نے مدارک التنزیل میں لکھا ہے کہ جب کوئی ذمی دین اسلام میں علانیہ طور پر طعن کرے اس کا قتل جائز ہے کیونکہ عہد ذمہ میں یہ بات بھی ہے کہ اسلام پر طعن نہ کریں گے سو جب طعن کردیا تو اس نے اپناعہد توڑ دیا اور عہد ذمہ سے نکل گیا۔ ١ ھ  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:“ نَکَثُوْا ” کی ضمیر سے اگر بنو کنانہ اور بنو ضمرہ مراد ہوں جو عہد پر قائم تھے تو “ اِنْ ” اپنے معنی موضوع لہ پر ہوگا اور اگر اس سے عہد توڑنے والے مشرکین مراد ہوں تو “ اِن ” بمعنی “ اِذَا ” ہوگا کیونکہ اس صورت میں نقض عہد مشکوک نہیں تھا بلکہ یقیناً واقع ہوچکا تھا۔ “ اَ لَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا ... نَّکَثُوْا الخ ” دوسری توجیہ کا مؤید ہے۔ “ اَئِمَّةَ الْکُفْرِ ” اس سے مراد رؤساء کفر اور پیشوایان شرک ہیں جو اطراف مکہ کے باشندے تھے اور انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکالنے میں مشرکین مکہ کو مدد دی تھی یعنی قبل از فتح مکہ اس سے مدینہ کے یہود مراد لینا صحیح نہیں۔ “ لَا اَیْمَانَ لَھُمْ اي لا عھد لھم ” یعنی ان کے عہد و پیمان کا کوئی اعتبار نہیں ان سے وفا و عہد کی توقع بےسود ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12 اور اگر وہ لوگ اپنے عہد کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر طعن وتشنیع کریں اور تمہارے دین میں عیب لگائیں تو تم اس ارادے اور اس مقصد سے ان کفر کے سرداروں سے جنگ کرو اور لڑو کہ شاید وہ اپنی ناشائستہ حرکات سے باز آجائیں کیونکہ اس حالت میں ان کی قسمیں باقی نہیں ہیں، جیسا کہ بنی بکر نے ... قریش کی امداد سے خزاء پر حملہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ ان لوگوں نے اپنا عہد توڑ دیا اس لئے مسلمانوں کو حکم ہوا جہاد کا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اگر ثابت ہوا ہو ایک کافر عیب دیتا ہے ہمارے دین کو وہ ذمی نہ رہا۔ 12  Show more