Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 33

سورة التوبة

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾ النصف

It is He who has sent His Messenger with guidance and the religion of truth to manifest it over all religion, although they who associate others with Allah dislike it.

اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک برا مانیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ ... It is He Who has sent His Messenger with guidance and the religion of truth. `Guidance' refers to the true narrations, beneficial faith and true religion that the Messenger came with. `religion of truth' refers to the righteous, legal deeds that bring about benefit in this life and the Hereafter. ... لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ to make it (Islam) superior over all religions, even though the idolators hate (it). It is recorded in the Sahih that the Messenger of Allah said, إِنَّ اللهَ زَوَى لِي الاَْرْضَ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَسَيَبْلُغُ مُلْكُ أُمَّتِي مَا زُوِيَ لِييِمنْهَا Allah made the eastern and western parts of the earth draw near for me (to see), and the rule of my Ummah will extend as far as I saw. Imam Ahmad recorded from Tamim Ad-Dari that he said, "I heard the Messenger of Allah saying, لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الاَْمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَلاَ يَتْرُكُ اللهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَهُ هَذَا الدِّينَ يُعِزُّ عَزِيزًا وَيُذِلُّ ذَلِيلً عِزًّا يُعِزُّ اللهُ بِهِ الاِْسْلَمَ وَذُلاًّ يُذِلُّ اللهُ بِهِ الْكُفْر This matter (Islam) will keep spreading as far as the night and day reach, until Allah will not leave a house made of mud or hair, but will make this religion enter it, while bringing might to a mighty person (a Muslim) and humiliation to a disgraced person (who rejects Islam). Might with which Allah elevates Islam (and its people) and disgrace with which Allah humiliates disbelief (and its people). Tamim Ad-Dari (who was a Christian before Islam) used to say, "I have come to know the meaning of this Hadith in my own people. Those who became Muslims among them acquired goodness, honor and might. Disgrace, humiliation and Jizyah befell those who remained disbelievers."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 دلائل وبراہین کے لحاظ سے تو یہ غلبہ ہر وقت حاصل ہے۔ تاہم مسلمانوں نے دین پر عمل کیا تو انہیں دنیاوی غلبہ بھی حاصل ہوا۔ اور اب بھی مسلمان اگر اپنے دین کے عامل بن جائیں تو ان کا غلبہ یقینی ہے، اس لئے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ حزب اللہ غالب و فاتح ہوگا۔ شرط یہی ہے کہ مسلمان حزب اللہ بن جائیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] آپ کی بعثت کا مقصد اسلام کی نظریاتی اور سیاسی بالادستی :۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے رسول اس لیے بھیجا ہے کہ ساری دنیا کو مسلمان بنا کے چھوڑے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ دنیا میں جو جو دین یا نظام ہائے زندگی رائج ہیں ان سب پر بلحاظ عقل اور دلیل و حجت اسلام کی بالادستی قائم ہوجائے۔ مثلاً دور نبوی میں یہودیت ایک دین تھا۔ عیسائیت، مجوسیت، منافقت، صائبیت، مشرکین کا دین۔ ان سب ادیان کے عقائد الگ الگ تھے۔ اور انہی عقائد کی مناسبت سے ان کا پورے کا پورا نظام زندگی ترتیب پاتا تھا۔ رسول کی بعثت کا مقصد اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ ان تمام باطل ادیان کے نظام ہائے زندگی پر اسلام کی برتری اور بالادستی قائم کر دے۔ اور عقل اور دلیل و حجت کے لحاظ سے اسلام کی یہ برتری اور بالادستی آج تک قائم ہے۔ بیرون عرب ادیان باطل کی مثالیں۔ ہندو ازم، سکھ ازم، بدھ ازم، جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ ہیں۔ ایسے سب ادیان پر اسلام کی برتری اور بالادستی کو بہ دلائل ثابت کرنا علمائے اسلام کا فریضہ ہے۔ یہ تو نظریاتی برتری ہوئی۔ اور سیاسی برتری کے لحاظ سے بھی اللہ نے اسے کئی صدیوں تک غالب رکھا۔ بعد میں جب مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط اور انتشار رونما ہوا تو مسلمانوں سے یہ نعمت چھین لی گئی۔ اور اس کا اصول یہ ہے کہ جب تک اور جہاں تک مسلمان اپنے نظام زندگی اسلامی نظریات کے مطابق ڈھالیں گے اسی حد تک مسلمانوں کو غیر مسلم اقوام پر سیاسی بالادستی اور برتری حاصل ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں بالقوۃ یہ استعداد موجود ہے کہ وہ سیاسی طور پر بھی تمام غیر مسلم اقوام اور نظریات پر غلبہ حاصل کرے۔ اگرچہ مسلمانوں کی عملی کوتاہیوں کی وجہ سے یہ استعداد بالفعل منظر عام پر نہ آسکتی ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ : اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا دین اس لیے نہیں آیا کہ وہ کسی دوسرے دین، بت پرستی، دہریت، یہودیت، عیسائیت، جمہوریت یا سوشلزم سے مغلوب ہو کر اس سے مصالحت کرکے دنیا میں زندہ رہے، بلکہ دین اسلام کا اول و آخر مقصد یہ ہے کہ وہ دوسرے تمام ادیان اور نظام ہائے زندگی کو مغلوب کرکے ساری دنیا پر غالب دین اور نظام زندگی کی حیثیت سے زندہ رہے۔ یہاں ” لِيُظْهِرَهٗ “ میں ظہور (غلبہ) سے مراد دلائل وبراہین کے ساتھ غلبہ بھی ہے اور حکمرانی کے لحاظ سے بھی۔ پہلی قسم کا غلبہ تو ہمیشہ اور دائمی ہے اور آج تک کوئی شخص قرآن کے چیلنج تین آیتوں کی سورت کا جواب لانے کی جرأت نہیں کرسکا۔ دوسری قسم کا غلبہ ایک مرتبہ ہم دور نبوت و خلافت میں دیکھ چکے ہیں اور دوبارہ مزید غلبے کی بشارتیں ضرور پوری ہو کر رہیں گی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے صحیح مومن ہونے کی شرط لگائی ہے، فرمایا : (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ آل عمران : ١٣٩ ] ” اور تم ہی غالب ہو اگر تم مومن ہو۔ “ الحمد للہ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان مختلف مقامات پر جہاد کے ساتھ اس کے آثار شروع ہوچکے ہیں۔ ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میرے لیے یہ زمین، اس کے مشرق و مغرب لپیٹ دیے گئے اور میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جو میرے لیے اس میں سے لپیٹا گیا ہے۔ “ [ مسلم، الفتن، باب ھلاک ھٰذہ الأمۃ بعضھم ببعض : ٢٨٨٩] مقداد بن اسود (رض) فرماتے ہیں کہ زمین کی پشت پر نہ کوئی اینٹ کا مکان اور نہ پشم کا (خیمہ) باقی رہے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کر دے گا، عزت والے کو عزت بخش کر اور ذلیل کو ذلت دے کر، یا تو انھیں عزت بخشے گا تو وہ اس میں داخل ہوجائیں گے، یا انھیں ذلیل کرے گا تو اس کے تحت ہوجائیں گے۔ [ مستدرک حاکم : ٤؍٤٣٠، ح : ٨٣٢٤ و صححہ ھو والذھبی ] یہ پیش گوئی ابھی پوری نہیں ہوئی، پوری ہو کر رہے گی۔ (ان شاء اللہ) جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، اس پر مسلمانوں کی ایک قوی جماعت لڑتی رہے گی، حتیٰ کہ قیامت قائم ہو۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لا تزال طائفۃ من أمتی۔۔ : ١٩٢٢ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, the same subject has been further stressed in the third verse (33) by saying that Allah Ta` ala has sent His Messenger with guidance, that is, the Qur&an, and with the Faith of Truth, that is, Islam, in order to have it prevail over all other faiths. Appearing in almost the same words, there are several other verses of the Holy Qur&an promising that the religion of Islam shall be made to prevail over all other faiths of the world. This glad tiding regarding the ascendancy of Islam is, as in Tafsir Mazhari, for most times and circumstances. In a Hadith from Sayydina Miqdad (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: No mud or mor¬tar home shall remain on the face of the earth where the word of Islam has not entered with the honor of the honored and the disgrace of the disgraced. Whoever Allah blesses with honor shall embrace Islam and whoever is to face disgrace shall not, though, accept Islam but shall become a subject of the Islamic government. This promise of Allah Ta` ala was fulfilled. For about a thousand years, the primacy of Islam remained operative throughout the world. How this Light of Allah reached its perfection during the blessed period of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the most righteous and worthy elders of the Muslim Community is a spectacle the world has already witnessed. Then, in future too, in terms of its legitimacy and truth for all times to come, the religion of Islam is a perfect religion no sensible person would elect to criticize. For this reason, this Faith of Truth, in terms of its arguments and proofs, has always been power¬ful. And, should Muslims follow this religion fully and faithfully, out-ward ascendancy, power and governance also turn out to be its inevita¬ble results. As proved by the annals of the history of Islam, whenever Muslims acted whole-heartedly in accordance with the Qur&an and Sunnah, no impediment in their way could defeat their determination and their presence was felt all over the world as a dominant force. And whenever and wherever they have reached the limits of being subjugated or oppressed, it was but the evil consequence of heedlessness to and contravention of the injunctions of Qur&an and Sunnah which came before them. As for the Religion of Truth, it stood its grounds as always, august and protected.

اس کے بعد تسیری آیت کے مضمون کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت کا سامان یعنی قرآن اور دین حق یعنی اسلام دے کر اسی لئے بھیجا ہے تاکہ اس کو دنیا کے تمام بقیہ دینوں پر غالب کردے، تقریباً انہی لفظوں کے ساتھ قرآن کریم میں متعدد آیات آئی ہیں جن میں یہ وعدہ ہے کہ دین اسلام کو تمام دنیا کے ادیان پر غالب کیا جائے گا۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ دین اسلام کو تمام دوسرے دینوں پر غالب کرنے کی خوشخبری اکثر زمانوں اور اکثر حالات کے اعتبار سے ہے جیسا کہ حضرت مقداد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ روئے زمین پر کوئی کچا پکا مکان باقی نہ رہے گا جس میں اسلام کا کلمہ داخل نہ ہوجائے، عزت داروں کی عزت کے ساتھ اور ذلیل لوگوں کی ذلت کے ساتھ جن کو اللہ تعالیٰ عزت دیں گے وہ مسلمان ہوجائیں گے اور جن کو ذلیل کرنا ہوگا وہ اسلام کو قبول تو نہ کریں گے مگر اسلامی حکومت کے تابع ہوجائیں گے، چناچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا، ایک ہزار سال کے قریب اسلام کی شان و شوکت پوری دنیا پر چھائی رہی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سلف صالحین کے عہد مبارک میں تو اس نور کی تکمیل و اتمام کا مشاہدہ ساری دنیا کر ہی چکی ہے، اور آئندہ بھی دلائل اور حقائق کے اعتبار سے ہر زمانہ میں دین اسلام ایسا مکمل دین ہے کہ کسی معقول پسند انسان کو اس پر حرف گیری کا موقع نہیں مل سکتا، اس لئے کفار کی مخالفتوں کے باوجود یہ دین حق اپنی حجت و دلیل کے اعتبار سے ہمیشہ غالب ہے، اور جب مسلمان اس دین کی پوری پیروی کریں تو ان کا ظاہری غلبہ اور حکومت و سلطنت بھی اس کے لوازم میں سے ہے، جیسا کہ تاریخ اسلام کا تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے قرآن و سنت پر پوری طرح عمل کیا تو کوئی کوہ و دریا ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکا، اور یہ پوری دنیا پر غالب آکر رہے، اور جب کبھی جہاں کہیں ان کو مغلوب یا مقہور ہونے کی نوبت آئی ہے، تو وہ قرآن و سنت کے احکام سے غفلت اور خلاف ورزی کا نتیجہ بد تھا، جو ان کے سامنے آیا، دین حق پھر بھی اپنی جگہ مظفر و منصور ہی رہا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝ ٠ ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝ ٣٣ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

بعثت نبوی کی غرض و غایت ، غلبہ اسلام کے لئے ہے قول باری ہے (ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ۔ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے) اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کہ اللہ ان کی مدد کرے گا اور ان کے دین کو تمام دوسرے ادیان پر غالب کردے گا۔ یعنی حجت و دلائل کی قوت اور غلبے کے ذریعے یہ دوسری تمام امتوں پر اس امت کو غلبہ عطا کرکے اللہ تعالیٰ دین اسلام کا پرچم بلند کردے گا۔ آیت میں جس امر کی خبر دی تھی واقعاتی دنیا میں بھی ایسا ہی پیش آیا۔ یہ امت دین اسلام کی مخالفت اور دشمن قوتوں اور قوموں پر غالب آگئی اور ان پر اسے بالادستی حاصل ہوگئی۔ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت پر دلالت موجود ہے۔ نیز یہ دلالت بھی ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ کے پاس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اس لئے کہ اس قسم کی پیشین گوئیاں اندازے لگانے والوں نیز طن و تخمین کی بنیاد پر آئندہ کی باتیں بتانے والوں اور جھوٹی خبریں دینے والوں کو میسر نہیں آسکتیں جبکہ قرآن میں کثرت سے غیب کی خبریں بتائی گئی ہیں۔ اور غیب کی خبر اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہوسکتی اس لئے قرآن مجید، اللہ کا کلام ہے اور اس میں بیان ہونے والی باتیں اللہ کی طرف سے دی ہوئی خبریں ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنا کلام صرف اپنے رسولوں پر نازل کرتا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٣) اس ذات نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن و ایمان اور دین اسلام یعنی شہادت ” اشھد ان لاالہ اللہ “۔ دے کر بھیجا تاکہ قیام قیامت تک دین اسلام کو تمام سابقہ دینوں پر غلبہ دے دے اگرچہ مشرکین اس سے کتنے ہی ناخوش ہوں،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) یہ آیت بہت واضح انداز میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی امتیازی یا تکمیلی شان کا مظہر ہے۔ جیسے کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا بنیادی مقصد تو دوسرے انبیاء ورسل کی طرح تبشیر ‘ انذار ‘ تذکیر ‘ دعوت اور تبلیغ ہے ‘ جس کا تذکرہ سورة النساء (آیت ١٦٥) میں بایں الفاظ موجود ہے : (رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ ط) لیکن اس کے علاوہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا ایک امتیازی اور خصوصی مقصد بھی ہے اور وہ ہے تکمیل رسالت ‘ یعنی دین کو بالفعل قائم اور غالب کرنا۔ اِن دو آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی اسی تکمیلی شان کا ذکر ہے۔ آیات کا یہ جوڑا بالکل اسی ترتیب سے سورة الصف (آیت ٨ اور ٩) میں بھی آیا ہے۔ ان میں سے پہلی آیت سورة الصف میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ آئی ہے : (یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِءُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ ) جبکہ دوسری آیت جوں کی توں ہے ‘ اس میں اور سورة التوبہ کی اس آیت میں بالکل کوئی فرق نہیں ہے۔ میں نے اس آیت پر چو بیس صفحات پر مشتمل ایک مقالہ لکھا تھا جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد بعثت کے عنوان سے شائع ہوتا ہے۔ اس کتاب میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے خصوصی یا امتیازی مقصد کی کلی انداز میں تکمیل یعنی دنیا میں دین کو قائم اور غالب کرنے کی جدوجہد ہم سب پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتی ہونے کی حیثیت سے فرض ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگوں نے اس فرض سے جان چھڑانے کے لیے بھی دلائل دیے ہیں کہ دین کو ہم انسانوں نے نہیں بلکہ اللہ نے غالب کرنا ہے ‘ لیکن اس کتاب کے مطالعے سے آپ پر واضح ہوگا کہ اس فرض سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :32 متن میں”الدین“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ”جنس دین“ کیا ہے ۔ دین کا لفظ ، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں ، عربی زبان میں اس نظام زندگی یا طریق زندگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے قائم کرنے والے کو سند اور مُطاع تسلیم کر کے اس کا اتباع کیا جائے ۔ پس بعثت رسول کی غرض اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اور دین حق کو وہ خدا کیطرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام طریقوں اور نظاموں پر غالب کر دے ۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظام زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے ۔ بلکہ وہ بادشاہ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آیا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظام حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے ۔ اگر کوئی دوسرا نظام زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظام زندگی رہتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو الزمر ، حاشیہ ۳ ، المومن ، حاشیہ ٤۳ – الشوریٰ حاشیہ ۲۰ )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:33) لیظھرہ۔ کہ اس کو غالب کرے ۔ ہ کی ضمیر دین کی طرف راجع ہے۔ علی الدین کلہ۔ تمام دینوں پر۔ اگر یظھرہ کی ضمیر کا مرجع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں تو علی الدین کلہ بمعنی علی اہل الادیان کلہم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام دینوں کے پیرؤوں پر غالب کریگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا دین اس لیے نہیں آیا کہ وہ دوسرے دین۔ یہودیت۔ عیسائیت، سرمایا داری ، کمیونزم، سوشلز ،۔ سے مغلوب ہو کر یا اس سے مصلحت کر کے دنیا میں زندہ رہے بلکہ دین اسلام کا اول و آخرت یہ ہے کہ وہ دوسرے ادیان اور نظام مہائے زندگی کو ختم کر کے ایک ہمہ گیر نظام زندگی کی حیثیت سے زندہ رہے۔ یہاں ظہور غلبہ سے مراد دلائل وبراہین کا غلبہ بھی ہوسکتا ہے اور سیاسی غلبہ بھی۔ پہلی قسم کا ظہور تو دائمی مگر دوسری قسم کا ظہور ایک مرتبہ تو ہم دور نبوت و خلافت میں دیکھ چکے ہیں اور دوسری بار اس وقت ہوگا جب عیسیٰ ( علیہ السلام) کا نزول اور حضرت امام مہد کا ظہور ہوگا۔ ( کبیر، ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی اسلام۔ 3۔ اتمام یعنی اثبات وتقویت بالدلائل تو اسلام کے لیے ہر زمانہ میں عام ہے اور یہی مقابل ہے اطفاء بمعنی رد کا اور تصیح تفسیر کے لیے کافی ہے اور مع اعتبار انضمام سلطنت مشروط ہے صلاح اہل دین کے ساتھ اور مع محو کال بقیہ ادیان واقع ہوگا زمانہ عیسیٰ (علیہ السلام) میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دین حق سے مراد وہ دین ہے جو آیت قتال میں دین مراد ہے : قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (٢٩) جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ اور یہ دین حق وہی ہے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے۔ جو لوگ اس دین حق کو قبول نہیں کرتے ان کے ساتھ قتال لازم ہے۔ اس آیت کی جو تاویل بھی ہم کریں یہ بات درست ہے۔ کیونکہ دین کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اللہ کی مکمل اطاعت کرے اور وہ مراسم عبادت اور قانون بھی اللہ کا تسلیم کرے۔ پورے دین میں شمولیت کا یہی اصول ہے۔ اور اس دین حق کی آخری صورت وہ ہے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیش کی ہے۔ لہذا جو شخص بھی اللہ کے دین ، اس کے مراسم عبودیت اور اس کی شریعت کو قبول نہیں کرتا ، اس پر اس بات کا اطلاق ہوگا کہ وہ دین کو قبول نہیں کرتا۔ اور اس پر آیت قتال مذکورہ کا اطلاق ہوگا لیکن آیت قتال کے انطباق کے وقت اسلام کے تحریکی اور تدریجی مراحل کو ضرور مدنظر رکھنا ہوگا کیونکہ اسلام میں ہر اقدام کے لیے وقت مقرر ہے جس کی تشریح ہم نے بار بار کی ہے۔ یہ آیت ہے یعنی هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي۔ آیت سابقہ کے مضمون کی تاکید ہے جس میں کہا گیا تھا وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ ۔ مطلب یہ تھا کہ جس نور کو اللہ تعالیٰ مکمل کرنا چاہتے ہیں وہ اسلامی نظام حیات کا قیام اور غلبہ ہے بلکہ قیام کے بعد عالم میں قائم تمام نظاموں پر اس کے غلبے کی صورت میں یہ روشنی مکمل ہوگی۔ اب دین حق کیا ہے ؟ جیسا کہ اس سے قبل ہم بار بار کہہ چکے ، دین حق ہے اللہ وحدہ پر اعتقاد رکھنا ، اللہ وحدہ کی بندگی اور پرستش کرنا ، اور اللہ کی نازل کردہ شریعت کی اطاعت کرنا اور اسے نافذ کرنا۔ اور یہ اجزا ان تمام ادیان کا حصہ تھے جو رسولان برحق نے انسانوں کے سامنے کبھی پیش کیے۔ لہذا دین حق میں وہ بت پرستانہ منحرف ادیان شامل نہیں ہیں جن کا اصلا گرچہ درست عناصر ان کی موجودہ شکل مسخ شدہ شکل ہے۔ اور وہ درحقیقت بت پرستانہ ادیان ہیں مثلاً عالمی یہودیت اور عیسائیت۔ نیز دین حق میں وہ ادیان و مذاہب بھی شامل ہیں جنہوں نے دین کی تختی تو لگا رکھی ہے لیکن در اصل ان نظاموں میں اربابا من دون اللہ کی پرستش ہوتی ہے۔ یوں کہ ان میں انسان انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور جن قوانین کو اللہ نے نازل نہیں فرمایا۔ جبکہ اللہ کا صریح حکم یہ ہے کہ اس نے اپنے رسول کو دین حق اور ہدایت دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اس دین حق کو تمام ادیان پر غالب کردے لہذا ہمارا فرض ہے کہ ہم دین کو اس کے وسیع مفہوم میں لیں تاکہ اللہ کے عہد کی وسعت ہمیں معلوم ہو۔ دین در اصل ایک نظام زندگی ہے۔ لہذا لوگ جس کسی نظام کو تسلیم کرتے ہوں ، اس کی اطاعت کرتے ہوں ، جن کے تصورات کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اور جس کی اتباع کرکے اس کی وفاداری کا دم بھرتے ہوں وہی ان کا دین ہے۔ پھر اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں بھی دین کا یہی وسیع مفہوم مراد ہے یعنی نظام زندگی۔ نظام زندگی صرف اللہ کا نظام زندگی ہے۔ اور تمام لوگوں نے اس کی اطاعت کرنی ہے۔ اور غالب بھی صرف اسی نظام کو کرنا مطلوب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ تو یہ کام کرکے دکھایا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفائے راشدین نے غلبہ دین کو قائم رکھا۔ ان ادوار میں دین حق غالب اور ممتاز رہا۔ اور تمام وہ ادیان جن میں اطاعت خالصتاً اللہ کے لیے نہ تھی ، وہ اس کے مقابلے میں لرزہ براندام تھے۔ اس کے بعد دین حق کے حاملین نے خود ہی اس دین کو چھوڑ دیا۔ آہستہ آہستہ وہ دین سے دور ہوتے گئے اور اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے خلاف صلیبی اور بت پرستانہ ادیانی کی مسلسل ریشہ دوانیوں اور کفار اور اہل کتاب کی مشترکہ کارروائیوں کے نتیجے میں اس نظام کو ختم کیا گیا۔ لیکن معرکہ سٹاپ نہیں ہوگیا۔ اللہ کا وعدہ اپنی جگہ قائم ہے۔ اللہ مومنین کو دیکھ رہا ہے۔ انتظار میں ہے۔ وہ مومنین جنہوں نے اللہ کے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں۔ انہوں نے اپنے کام کا آغاز نکتہ آغاز سے کیا ہے۔ جہاں سے حضور اکرم نے کام آغاز کیا تاھ اور دین حق کے احیاء کی یہ تحریک اب نور ربانی کی روشنی میں جادہ پیما ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ رات اور دن ختم ہونے سے پہلے ایسا ضرور ہوگا کہ لات اور عزیٰ کی پرستش کی جائے گی (یہ زمانہ جاہلیت میں دو بت تھے) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں تو یہ سمجھتی تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آیت شریفہ (ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) نازل فرمائی تو یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ (یعنی دین حق تمام دینوں پر غالب ہوگا) آپ نے فرمایا، کہ جب تک اللہ چاہے گا ایسا ہوگا (جو آیت شریفہ میں مذکور ہے) پھر اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیج دے گا۔ جس کی وجہ سے ہر اس شخص کو موت آجائے گی جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا۔ اس کے بعد صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن کے دل میں کوئی خیر نہ ہوگی لہٰذا وہ اپنے باپ دادوں کے دین کی طرف لوٹ جائیں گے۔ (رواہ مسلم ص ٣٩٤ ج ٢) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دنیا میں دو بارہ تشریف آوری کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ و یبطل الملل حتی یھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا غیر الاسلام یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تمام ملتوں کو باطل کردیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان کے زمانہ میں اسلام کے علاوہ ساری ملتوں کو ختم فرما دیں گے۔ (مسند احمد ص ٤٣٧ ج ٢) تیسری صورت اسلام کے غالب ہونے کی یہ ہے کہ مسلمان اقتدار کے اعتبار سے دوسری اقوام پر غالب ہوجاتا ہے اور یہ ہوچکا ہے کہ جب مسلمان جہاد کرتے تھے اللہ کے دین کو لے کر آگے بڑھتے تھے اور اللہ کی رضا پیش نظر تھی اس وقت بڑی بڑی حکومتیں پاش پاش ہوگئیں۔ قیصر و کسریٰ کے ملکوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔ ان میں سے جو قیدی پکڑے گئے وہ غلام باندی بنائے گئے اور مشرکین اور اہل کتاب میں بہت سے لوگوں نے جزیہ دینا منظور کرلیا اور مسلمانوں کے ماتحت رہے۔ صدیوں یورپ اور ایشیا، افریقہ کے ممالک پر مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ (اور اس وقت یہی تین براعظم دنیا میں معروف تھے) اور اب بھی مسلمانوں کی حکومتیں زمین کے بہت بڑے حصے پر قائم ہیں۔ اگر اب بھی جہاد فی سبیل اللہ کے لیے کھڑے ہوجائیں اور آپس میں اتفاق و اتحاد کرلیں کافروں سے بغض رکھیں۔ کافروں کی حکومتوں کو اپنا سہارا نہ بنائیں تو اب بھی وہی شان واپس آسکتی ہے جو پہلے تھی۔ اقتدار والے غلبہ کے اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوچکا ہے اور آئندہ پھر اس کا وقوع ہوگا انشاء اللہ حضرت مقداد (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ زمین پر مٹی سے بنا ہوا کوئی گھر یا بالوں سے تیار کیا ہوا کوئی خیمہ ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تعالیٰ اسلام کا کلمہ داخل نہ فرما دے۔ عزت والے کی عزت کے ساتھ اور ذلت والے کی ذلت کے ساتھ۔ حدیث کی روایت کرنے کے بعد حضرت مقداد (رض) نے فرمایا کہ بس تو پھر سارا دین اللہ ہی کے لیے ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٦ از مسند احمد) جن کو اللہ تعالیٰ عزت دے گا۔ انہیں کلمہء اسلام کا قبول کرنے والا بنا دے گا اور جن کو اللہ ذلیل کرے گا وہ مقتول ہوگا یا مجبور ہو کر جزیہ کرے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

33 وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دیکر بھیجا ہے تاکہ اس سچے دین کو تمام ادیانِ باطلہ پر غالب کردے خواہ مشرک کتنا ہی برا مانیں اور اگرچہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ ہدایت سے مراد قرآن اور دین سے مراد اسلام، دین کا اتمام یہی کہ سب دینوں پر غلبہ حاصل ہو اور ادیانِ باطلہ اس کے مقابلہ میں شکست کھا جائیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ دین سب سے اوپر ہے عقل کے نزدیک اور خدا کے نزدیک یعنی جو اس سے قرب ملے اور سے نہیں۔ 12