Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 54

سورة التوبة

وَ مَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ بِرَسُوۡلِہٖ وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ہُمۡ کُسَالٰی وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ ﴿۵۴﴾

And what prevents their expenditures from being accepted from them but that they have disbelieved in Allah and in His Messenger and that they come not to prayer except while they are lazy and that they do not spend except while they are unwilling.

کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ ... And nothing prevents their contributions from being accepted from them, Allah mentions the reason behind not accepting their charity from them, ... إِلاَّ أَنَّهُمْ كَفَرُواْ بِاللّهِ وَبِرَسُولِهِ ... except that they disbelieved in Allah and in His Messenger. and the deeds are accepted if they are preceded with faith, ...  ... وَلاَ يَأْتُونَ الصَّلَةَ إِلاَّ وَهُمْ كُسَالَى ... and that they came not to the Salah except in a lazy state. Therefore, they neither have good intention nor eagerness to perform the acts (of faith), ... وَلاَ يُنفِقُونَ إِلاَّ وَهُمْ كَارِهُونَ and that they offer not contributions but unwillingly. The Truthful, to whom the Truth was revealed, Muhammad, peace be upon him, said that; Allah does not stop giving rewards until you (believers) stop performing good deeds, and that Allah is Tayyib (Good and Pure) and only accepts what is Tayyib. This is why Allah does not accept charity or good deeds from the people described in these Ayat, because He only accepts it from those who have Taqwa.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 اس میں ان کے صدقات کے عدم قبول کی تین دلیلیں بیان کی گئی ہیں، ایک ان کا کفر مفسق۔ دوسرا، کاہلی سے نماز پڑھنا، اس لئے وہ نماز پر نہ ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے ترک کی سزا سے انہیں کوئی خوف ہے، کیونکہ رضا اور خوف، یہ بھی ایمان کی علامت ہے جس سے محروم ہیں۔ اور تیسرا کراہت سے خرچ کرنا ا... ور جس کام میں دل کی رضا نہ ہو وہ قبول کس طرح ہوسکتا ہے ؟ بہرحال یہ تینوں وجوہات ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک وجہ بھی عمل کی نامقبولیت کے لئے کافی ہے۔ مذکورہ یہ کہ تینوں وجوہات جہاں جمع ہوجائیں تو اس عمل کے مردود بارگاہ الٰہی ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٨] صدقہ قبول نہ ہونے کی وجہ :۔ مشرکوں سے اعلان براءت اور ان سے اس علاقہ کے انخلاء کے دوران اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اگر وہ ایمان لے آئیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ یعنی اگر یہ تین باتیں پائی جائیں تو انہیں مسلمان سمجھا جائے گا اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپر... د۔ ان تینوں باتوں میں بھی یہ منافق اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔ وہ اللہ اور رسول کے وعدوں کا یقین نہیں کرتے تھے۔ لہذا ان کا اللہ اور رسول پر ایمان مشکوک ہوگیا اور یہ انکار کے مترادف ہے۔ نماز کو آتے ہیں تو طبیعت ایسی گرانبار اور سست ہوتی ہے جیسے کوئی بیگار کاٹنے جا رہے ہوں اور اگر صدقہ ادا کرنا پڑے تو ایسے جیسے کوئی تاوان یا جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا ہو۔ پھر ایسے لوگوں کے صدقات کیوں قبول کیے جائیں۔ نیز ایسے صدقات کا ان کو آخرت میں بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا البتہ نقصان ضرور ہوسکتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ : اس آیت میں ان کے صدقات قبول نہ ہونے کے تین اسباب بیان فرمائے ہیں، ایک یہ کہ ان کے دل اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سے خالی ہیں، بلکہ وہ دونوں کے منکر ہیں اور ان کا کفر ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ایمان کی بدنی شہادت نماز ہے، وہ ... بھی یہ لوگ خوشی اور نشاط سے نہیں بلکہ مارے باندھے سستی سے صرف اپنے ایمان کے دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں، ان کا سستی سے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کے سامنے ہوئے تو پڑھ لی اکیلے ہوئے تو چھوڑ دی۔ دیکھیے سورة نساء (١٤٢) تیسرا مالی عبادت بھی خوش دلی سے نہیں بلکہ مجبوراً جرمانہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٦٤) اب ان کا خرچ کیا ہوا مال اللہ تعالیٰ کی جناب میں کیسے قبول ہو ؟ پکے مومن تو اپنے مال کی پاکیزگی اور سکون قلب کے حصول کے لیے زکوٰۃ دیتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ ) [ التوبۃ : ١٠٣ ] ” ان کے مالوں سے صدقہ لے، اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا اور ان کے لیے دعا کر، بیشک تیری دعا ان کے لیے باعث سکون ہے۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the previous verses were bad morals and bad deeds of the hypocrites. The same subject continues in the verses quoted above. As for the statement in verse 55 -- where it has been declared that the wealth and children of hypocrites should not be taken as a blessing for them as these are, in fact, a form of punishment from Al¬lah -- it has a reason. Is it not that love for and...  engrossment in worldly life becomes a punishment right here in this world? One starts with desires to acquire worldly wealth, then goes through a series of hard work to establish the necessary channels, day in and day out, sacrific¬ing sleep, comfort and family life. After that, if one succeeds, come the concerns of increasing and retaining it - a round the clock punishment indeed. A serious loss or sickness could become unwelcome cans of worries, and if one happens to get everything one wants, the vicious circle continues either through apprehensions of decreasing wealth or cravings of increasing it further. There is just no respite anytime. Finally, these things go out of one&s hands. This may happen at the time of death, or much earlier. Whenever it does, despair takes over. What is this, if not punishment? Man surrounds himself with articles of comfort and calls it comfort. Real comfort, the peace and comfort of the heart is something man has yet to find. But, in the meantime, man has to rely on material means and things for satisfaction, not realizing that these agents will keep snatching away his share of peace in this world and will also become the prelude to the punishment in the world to come. Can Sadaqah be given to a disbeliever? The last two verses show that the hypocrites used to receive a share from properties available as Sadaqat (plural of Sadaqah, mean¬ing a donation through which one seeks reward with Allah Ta` ala, usually referred to as alms or charity). But, when they did not get these as they wished, they became angry and started accusing and cursing. If, at this place, Sadaqat are taken in their general sense - which in¬cludes all Sadaqat, necessary (wajib) and voluntary (nafl) - then, there is no problem, because non-Muslims can be given out of the voluntary Sadaqat. This is permissible on the basis of the consensus of Muslim Ummah and stands proved from Sunnah. However, even if Sadaqat at this place mean what is obligatory, like Zakah and ` Ushr, then, we should remember that the hypocrites were given a share from it on the basis that they claimed to be Muslims. Since they claimed to believe in all the necessary articles of faith and their kufr was hidden in their hearts, with no conclusive proof in their apparent claims they were treated as Muslims to the extent of this worldly life and Allah Ta` ala had, in His wisdom, given the orders that the hypocrites should be treated as Muslims. (Bayan a1-Qur&an) Signs of Hypocrites and Warning for Muslims In verse 54, two signs of hypocrites have been given: (1) they come to the Sa ل ah lazily and listlessly, and (2) that they spend in the way of Allah unwillingly. Muslims have been warned here that sloth in Salah and being sour at heart while spending in the way of Allah, that is, Zakah and Sada¬qah, are signs of nifaq (hypocrisy). All Muslims should make conscious effort to stay safe from these signs.  Show more

معارف و مسائل سابقہ آیات میں منافقین کی بداخلاقی اور بد اعمالی کا ذکر تھا، مذکورہ تمام آیات میں بھی یہی مضمون ہے : (آیت) اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا، میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ منافقین کے مال و اولاد ان کے لئے نعمت نہیں عذاب ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کی محنت میں انہماک انسان ... کیلئے اس دنیا ہی میں ایک عذاب و مصیبت بن جاتا ہے، اول مال دنیا کے حاصل کرنے کی تمناؤں اور پھر تدبیروں میں کیسی کیسی محنت، مشقت اور کوفت جسمانی اور روحانی اٹھانی پڑتی ہے، نہ دن کا چین نہ رات کی نیند، نہ اپنے تن بدن کی خبر، نہ اہل و عیال ہی میں دل بہلانے کی فرصت، پھر اگر ذرا سا نقصان ہوگیا یا کوئی بیماری پیش آگئی تو غمون کا پہاڑ آپڑا، اور اگر ساری چیزیں اتفاق سے طبیعت اور خواہش کے مطابق حاصل بھی ہوجائیں تو اس کے گھٹ جانے کا اندیشہ اور بڑھاتے چلے جانے کی فکر کسی وقت چین نہیں لینے دیتی۔ پھر جب آخرکار یہ چیزیں موت کے وقت یا پہلے ہی اس کے ہاتھ سے جاتی ہیں تو اس پر حسرت و یاس مسلط ہوجاتی ہے یہ سب عذاب ہی عذاب ہے جس کو بیوقوف انسان جس نے سامان راحت کا نام راحت رکھ لیا ہے، اور حقیقی راحت ہی کو راحت سمجھ کر اس پر مگن رہتا ہے، جو حقیقت میں اس کیلئے دنیا کے چین و آرام کا بھی دشمن ہے اور آخرت کے عذاب کا مقدمہ بھی۔ کیا صدقات کا مال کافر کو دیا جاسکتا ہے : آخری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اموال صدقات میں سے منافقین کو بھی حصہ ملا کرتا تھا، مگر وہ خواہش کے مطابق نہ ملنے پر ناراض ہوجاتے اور طعن وتشنیع کرنے لگتے تھے، یہاں اگر صدقات سے مراد عام معنی لئے جائیں جس میں صدقات واجبہ اور نافلہ سب شامل ہیں، تو کوئی اشکال ہی نہیں کیونکہ نفلی صدقات میں سے غیر مسلموں کو دینا باتفاق امت جائز اور سنت سے ثابت ہے، اور اگر صدقات سے مراد اس جگہ صدقات فرض، زکوٰة عشر وغیرہ ہی ہوں، تو منافقین کو اس میں سے حصہ دینا اس بناء پر تھا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، اور ظاہری کوئی حجت ان کے کفر پر قائم نہ ہوئی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے بمصلحت حکم یہی دے رکھا تھا کہ منافقین کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے جو مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا تھا ‘ ( بیان القرآن ملخصاً ) (آیت) لَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ كُسَالٰى، اس آیت میں منافقین کی دو علامتیں بتلائی گئی میں، ایک یہ کہ نماز کو آویں تو سستی کاہلی اور ہارے جی سے آویں دوسرے اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو ناگواری کے ساتھ خرچ کریں۔ اس میں مسلمانوں کو بھی اس پر تنبیہ ہے کہ نماز میں سستی کاہلی اور زکوٰة صدقات سے دلی ناگواری پیدا ہونا علامت نفاق ہے، مسلمانوں کو کوشش کرکے ان علامات سے بچنا چاہئے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا مَنَعَہُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ اِلَّآ اَنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَہُمْ كٰرِہُوْنَ۝ ٥٤ منع المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ...  الْماعُونَ [ الماعون/ 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق/ 25] ، ويقال في الحماية، ومنه : مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] أي : ما حملک ؟ وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟ يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل : مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ. ( م ن ع ) المنع ۔ یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون/ 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق / 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معی محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء/ 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة/ 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف/ 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ كسل الْكَسَلُ : التثاقل عمّا لا ينبغي التثاقل عنه، ولأجل ذلک صار مذموما . يقال : كَسِلَ فهو كَسِلٌ وكَسْلَانُ وجمعه : كُسَالَى وكَسَالَى، قال تعالی: وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] وقیل : فلان لا يَكْسَلُهُ الْمَكَاسِلُ وفحل كَسِلٌ: يَكْسَلُ عن الضّراب، وامرأة مِكْسَالٌ: فاترة عن التّحرّك . ( ک س ل ) الکسل کے معنی کسی ایسے معاملہ میں گراں باری ظاہر کرنا کے ہیں ۔ جس میں گرا نباری کرنا مناسب نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مذموم خیال کیا جاتا ہے اور یہ باب کسل کا مصدر ہے ۔ اور کسلان کی جمع کسالٰی وکسالٰی آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] اور نماز کو آتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لا یکسلہ المکا سل اس کو اسباب کا ھلی سست نہیں بناتے فحل کسل جو نر کی جفتی میں سست ہوجائے امراۃ مکسال زن سست جو ناز پر در وہ ہو نیکی وجہ سے اپنے کمرہ سے باہر نہ نکلے ( صفت ہو ) كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) اور یہ لوگ نماز کے لیے بھی ہارے ہوئے دل سے آتے ہیں اور اللہ کی راہ میں یہ لوگ کچھ خرچ نہیں کرتے مگر تنگ دلی کے ساتھ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (وَمَا مَنَعَہُمْْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْہُمْ نَفَقٰتُہُمْ الآَّ اَنَّہُمْ کَفَرُوْا باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ ) (وَلاَ یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ الاَّ وَہُمْ کُسَالٰی وَلاَ یُنْفِقُوْنَ الاَّ وَہُمْ کٰرِہُوْنَ ) یعنی اب جو چندہ یہ لوگ پیش کر رہے ہیں وہ تو جان بچانے کے لیے دے رہے ہیں کہ ہم سے سازو سام... ان لے لیا جائے اور ہمیں اس مہم پر جانے سے معاف رکھا جائے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:54) کسالی۔ کسلان کی جمع۔ سست۔ کاہل۔ جیسے سکاری سکران کی جمع ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دئیے ہوئے مال کی عدم قبولت کی یہ وجوہات ہیں۔ (1) انجم کفروا باللہ وبرسلہ۔ (2) لا یاتون الصلوۃ الادھم کسالی۔ (3) لا ینفقون الادھم کرھون۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 جیسے کسی پر زبر دستی بو جھ لاد دیا جائے۔ چونکہ ان دلوں میں ایمان نہیں ہے اس لیے انہیں نماز ایک بو جھ معلوم ہوتی ہے۔ ج معلوم ہوا کہ کفر اللہ کے ساتھ کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی۔ علمانے لکھا ہے کہ لوگوں کے سامنے ہو اتو نماز پڑھ لی اور اکیلا ہوا تو چھوڑ دی۔ یہ بھی کسل فی الصلوٰۃ ہے۔ ( کبیر)4 جیسے کسی ... کو جرمانہ ادا کرنا پڑے کیونکہ انہیں ثواب سے تو کوئی غرض نہیں۔ جو کچھ دیتے ہیں محض لوگوں کو نکا ہوں میں بدنامی سے بچنے کے لیے دیتے ہیں۔ اسی بنا پر حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ادو ازکوٰۃ اموالکم طیبتہ بھا نفو سکم۔ کہ طبیعت کی خوشی سے اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو۔ ( رازی )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد منافقین کے کفر اور نماز میں سستی اور خرچ کرنے میں بد دلی کا تذکرہ فرمایا (وَ مَامَنَعَھُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْھُمْ نَفَقٰتُھُمْ اِلَّآ اَنَّھُمْ کَفَرُوْا باللّٰہِ وَ بِرَسُوْلِہٖ ) (ان کے صدقات کو قبول ہونے سے منع کرنے والی کوئی چیز اس کے علاوہ نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ اور اس کے رس... ول کے ساتھ کفر کیا) اور کفر کے ساتھ کوئی عمل مقبول نہیں۔ اور گو وہ اسلام کے مدعی ہیں اور کفر کو چھپائے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا کفر ان کے ڈھنگ سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ نماز جو ایمان کے بعد سب سے بڑا فریضہ ہے اور جو ایمان کی سب سے بڑی اور سب سے پہلی علامت ہے اس کے لیے آتے ہیں تو سستی کے ساتھ ہارے جی آتے ہیں۔ گویا کہ ان پر بہت بڑی مصیبت آگئی۔ چونکہ دل سے نماز پڑھتے نہیں۔ دکھانے کے لیے پڑھتے ہیں اس لیے بد دلی کا اثر اس طرح بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نمازوں میں دیر سے آتے ہیں اور اس طرح سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رکوع سجدہ ٹھیک طرح ادا نہیں کرتے، جلدی جلدی نمٹانے کی دھن میں رہتے ہیں۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ یہ منافق کی نماز ہے جو بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب اس میں زردی آجاتی ہے۔ اور شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان ہوتا ہے تو کھڑے ہو کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے۔ یعنی جلدی جلدی سجدہ کرلیتا ہے اس میں بس اللہ کو ذرا یاد کرتا ہے۔ (رواہ مسلم) (ملاحظہ فرمائیے انوار البیان ج ٢) یہ تو ان کی نماز کا حال ہے اور جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا موقعہ آتا ہے تو مسلمانوں کو دکھانے کے لئے بددلی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔ جب ایمان نہیں تو آخرت کا یقین بھی نہیں لہٰذا مال خرچ کرنے پر ثواب کی امید بھی نہیں۔ جب ثواب کی امید نہیں تو خوش دلی سے خرچ کرنے کی کوئی وجہ نہیں، لا محالہ بد دلی سے خرچ کرتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

53: یہ ان منافقین کے صدقات قبول نہ ہونے کی وجہ ہے۔ یعنی اگرچہ وہ بظاہر نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور خرچ بھی کرتے مگر ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے۔ ان کے دل کفر ونفاق سے ملوث ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نماز خشوع و خضوع اور مستعدی سے نہیں پڑھتے اور خرچ بھی کرتے ہیں تو بےدلی کے ساتھ اور مجبوراً کرتے ہیں۔ اور اس...  سے ان کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا نہیں ہوتا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

54 اور ان کی خیرات قبول کئے جانے سے بجز اس امر کے اور کوئی بات مانع نہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کیا اور یہ نماز کو نہیں آتے مگر بڑی کاہلی اور ہار سے جی سے اور یہ خیرات نہیں کرتے مگر بادل ناخواستہ۔ یعنی یہ کفر اور اعتقاد کا فقدا... ن عدم قبولیت کا سب سے بڑا سبب ہے۔  Show more