Surat ul Balad

Surah: 90

Verse: 18

سورة البلد

اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ ﴿ؕ۱۸﴾

Those are the companions of the right.

یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے ( خوش بختی والے ) ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They are those on the Right, meaning, those who have these characteristics are the companions of the Right Hand. The Companions of the Left Hand and Their Recompense Then Allah says, وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِأيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] یعنی جن ایمان داروں میں مندرجہ بالا صفات پائی جائیں تو ایسے ہی لوگ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں عرش عظیم کے دائیں طرف جگہ ملے گی۔ اور اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(اولئک اصحب المیمنۃ…: دائیں ہاتھ والے سے مراد یہ ہے کہ انہیں ان کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا، اسی طرح بائیں ہاتھ والوں کو ان کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا۔ ” اصحب المیمنۃ “ کا دوسرا معنی ہے برکت والے ، خوش نصیب اور ” اصحب المشمۃ “ کا معنی نحوستو الے، بدنصیب بھی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝ ١٨ ۭ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف/ 34] ، أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] ، وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج/ 44] ، أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 217] ، مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر/ 6] ، وأما قوله : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر/ 31] أي : الموکّلين بها لا المعذّبين بها كما تقدّم . وقد يضاف الصَّاحِبُ إلى مسوسه نحو : صاحب الجیش، وإلى سائسه نحو : صاحب الأمير . والْمُصَاحَبَةُ والِاصْطِحَابُ أبلغ من الاجتماع، لأجل أنّ المصاحبة تقتضي طول لبثه، فكلّ اصْطِحَابٍ اجتماع، ولیس کلّ اجتماع اصطحابا، وقوله : وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم/ 48] ، وقوله : ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] ، وقد سمّي النبيّ عليه السلام صاحبهم تنبيها أنّكم صحبتموه، وجرّبتموه وعرفتموه ظاهره وباطنه، ولم تجدوا به خبلا وجنّة، وکذلک قوله : وَما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير/ 22] . والْإِصحَابُ للشیء : الانقیاد له . وأصله أن يصير له صاحبا، ويقال : أَصْحَبَ فلان : إذا كَبُرَ ابنه فصار صاحبه، وأَصْحَبَ فلان فلانا : جعل صاحبا له . قال : وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء/ 43] ، أي : لا يكون لهم من جهتنا ما يَصْحَبُهُمْ من سكينة وروح وترفیق، ونحو ذلک ممّا يصحبه أولیاء ه، وأديم مصحب : أُصْحِبَ الشّعر الذي عليه ولم يُجَزَّ عنه . ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَهُوَ يُحاوِرُهُ [ الكهف/ 34] تو اس کادوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا ۔ أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ۔ وَأَصْحابِ مَدْيَنَ [ الحج/ 44] اور مدین کے رہنے والے بھی ۔ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] وہ جنت کے مالک ہوں گے ( اور ) ہمیشہ اس میں ( عیش کرتے ) رہیں گے ۔ وَلا تَكُنْ كَصاحِبِ الْحُوتِ [ القلم/ 48] اور مچھلی ) کا لقمہ ہونے والے ( یونس (علیہ السلام) کی طرح نہ ہونا ۔ اور آیت : ۔ مِنْ أَصْحابِ السَّعِيرِ [ فاطر/ 6]( تاکہ وہ ) دوزخ والوں میں ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَما جَعَلْنا أَصْحابَ النَّارِ إِلَّا مَلائِكَةً [ المدثر/ 31] اور ہم نے دوزخ کے دروغہ فرشتے بنائے ہیں ۔ میں اصحاب النار سے دوزخی مراد نہیں ہیں بلکہ دوزخ کے داردغے مراد ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔ پھر صاحب کا لفظ کبھی ان کی طرف مضاف ہو تو ہے جو کسی کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جیسے صاحب الجیش ( فوج کا حاکم اور کبھی حاکم کی طرف جیسے صاحب الاسیر ( بادشاہ کا وزیر ) المصاحبۃ والا صطحاب میں بنسبت لفظ الاجتماع کے مبالغہ پایا جاتا ہے کیونکہ مصاحبۃ کا لفظ عرصہ دراز تک ساتھ رہنے کو مقتضی ہے اور لفظ اجتماع میں یہ شرط نہیں ہے لہذا اصطحاب کے موقعہ پر اجتماع کا لفظ تو بول سکتے ہیں مگر اجتماع کی جگہ پر ہر مقام میں اصطحاب کا لفظ نہین بول سکتے اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] تمہارے رفیق کو سودا نہیں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صاحبکم کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ تم نے ان کے ساتھ زندگی بسر کی ہے ان کا تجربہ کرچکے ہو اور ان کے ظاہر و باطن سے واقف ہوچکے ہو پھر بتاؤ کہ ان میں کوئی دماغی خلل یا دیوانگی پائی جاتی ہے یہی معنی آیت وما صاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ [ التکوير/ 22] کے ہیں ۔ الا صحاب للشئی کے معنی ہیں وہ فرمانبردار ہوگیا اصل میں اس کے معنی کسی کا مصاحب بن کر اس کے ساتھ رہنے کے ہیں ۔ چناچہ اصحب فلان اس وقت بولتے ہیں جب کسی کا بیٹا بڑا ہو کر اس کے ساتھ رہنے لگے ۔ اور اصحب فلان فلانا کے معنی ہیں وہ اس کا ساتھی بنادیا گیا قرآن میں ہے : ۔ وَلا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ [ الأنبیاء/ 43] اور نہ ہم سے پناہ ہی دیئے جائیں گے ۔ یعنی ہماری طرف سے ان پر سکینت تسلی کشائش وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا ساتھ نہیں دیا جائے گا جیسا کہ اس قسم کی چیزوں سے اولیاء اللہ کی مدد کی جاتی ہے ۔ ادیم مصحب : کچا چمڑہ جس سے بال نہ اتارے گئے ہوں ۔ يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] ، وعلی هذا حمل :إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨{ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ۔ } ” یہ ہوں گے داہنے والے۔ “ یعنی یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھوں میں دیے جائیں گے۔ لفظ یمن کے معنی خوش بختی کے بھی ہیں۔ اس معنی میں آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ یہ وہ خوش قسمت لوگ ہوں گے جو رشد و ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے فوز و فلاح کی منازل تک پہنچ گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: یہ ’’اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ‘‘ کا ترجمہ ہے، اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ دائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ اور اِن سے مراد وہ نیک لوگ ہیں جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(90:18) اولئک اصحب المیمنۃ : اولئک اسم اشارہ جمع مذکر۔ وہ لوگ ، وہی لوگ، یعنی اوپر مذکور صفات والے۔ مبتداء اصحب المینۃ مضاف مضاف الیہ مل کر مبتداء کی خبر المیمنۃ سیدھا ہاتھ۔ دائیں سمت۔ یعنی دائیں سمت والے۔ بابرکت ، باسعادت ترجمہ :۔ وہی لوگ باسعادت اور خوش نصیب ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یہ دو ترجمے اس لحاظ سے ہیں کہ میمنہ کے معنی دائیں جانب کے بھی ہیں اور خوش بختی کے بھی۔ دائیں جانب والوں سے مراد وہ ہیں جنہیں عرش کی دائیں جانب جگہ ملے گیا ی جنہیں ان کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے وہ جو دنیا میں سیدھی راہ پر چلتے رہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ لوگ جو اس مشکل گھاٹی کو عبور کرتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا۔ اولئک ........................ المیمنة (18:90) ” یہ لوگ دائیں بازو والے ہیں “۔ ان کو دوسری جگہ اصحاب الیمین کہا گیا ہے۔ یہ دائیں بازو والے اور سعادت مندی کی صفت والے ہیں۔ دونوں معانی ایمانی مفہوم سے پیوست ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِؕ٠٠١٨﴾ جن مومن بندوں کا ذکر ہوا یہ اصحاب المیمنہ یعنی داہنے ہاتھ والے ہیں جن کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامے دیئے جائیں گے اور جن سے جنت میں داخل ہونے کا وعدہ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” اولئک “ یہ بشارت اخرویہ ہے۔ یہ سعداء ہیں جن کو اعمالنامے دائیں ہاتھوں میں دئیے جائیں گے۔ اور ان کا مقام جنت ہے۔ ” والذین کفروا “ یہ تخویف اخروی ہے جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا وہ اشقیاء ہیں ان کے اعمالنامے بائیں ہاتھوں میں دئیے جائیں گے اور ان پر آگ کو بند کردیا جائیگا۔ لوہے کے ستونوں کے درمیان آگ ہوگی اس میں ان لوگوں کو ڈالا جائیگا اور اوپر سے اس کو بند کردیا جائیگا۔ مطلب یہ ہے کہ دوزخ کے دروازے اور منافذ بند کردئیے جائیں گے تاکہ آگ کی گرمی میں کمی نہ ہو۔ والمراد مغلقۃ ابوابہا وانما اغلقت لتشدید العذاب والعیاذ باللہ تعالیٰ علیہم (روح ج 30 ص 140) ۔ سورة البلد ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) یہی لوگ صاحب نصیب اور دائیں جانب والے ہیں یعنی بڑے خوش نصیب وہ ہیں جن کے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں میں دیئے گئے اور بیٹھنے کو دائیں جانب جگہ ملی۔ تفصیل سورة واقعہ میں گزر چکی ہے یہاں عام مومنین مراد ہیں عوام ہوں یا خواص یعنی جن لوگوں نے اوامرالٰہی کی تعظیم کی اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ شفقت کا برتائو کیا آگے منکرین کا بیان ہے۔