Surat ul Balad

Surah: 90

Verse: 19

سورة البلد

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا ہُمۡ اَصۡحٰبُ الۡمَشۡئَمَۃِ ﴿ؕ۱۹﴾

But they who disbelieved in Our signs - those are the companions of the left.

اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا یہ کم بختی والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But those who disbelieved in Our Ayat, they are those on the Left. meaning, the companions of the Left Hand. عَلَيْهِمْ نَارٌ مُّوْصَدَةٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا ہُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۝ ١٩ ۭ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ مشأمة : مصدر ميميّ منته بالتاء للمبالغة، من الثلاثي شأم، وزنه مفعلة بفتح المیم والعین

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(19 ۔ 20) اور جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو جھٹلایا مثلاً کلدہ وغیرہ وہ لوگ جہنمی ہیں ان کو بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا اور ان پر آگ محیط ہوگی جس کو بند کردیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩{ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا } ” اور جنہوں نے انکار کیا ہماری آیات کا “ { ہُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ ۔ } ” وہ ہوں گے بائیں والے۔ “ یعنی ان کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھوں میں پکڑائے جائیں گے۔ لغوی اعتبار سے جس طرح یمن کے معنی خوش بختی کے ہیں اسی طرح الْمَشْئَمَۃ کے مادے میں بدبختی کے معنی پائے جاتے ہیں (شومئی قسمت کی ترکیب اردو میں بھی مستعمل ہے) ۔ لہٰذا اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ ہوگا کہ ” یہ بدبختی والے لوگ ہوں گے “۔ قرآن مجید میں آخرت کی کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے دائیں والے (اصحاب المیمنہ یا اصحاب الیمین) اور بائیں والے (اصحاب المشئمہ یا اصحاب الشمال) کا ذکر بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ البتہ سورة الواقعہ کی اس آیت میں نسل انسانی کے تین گروہوں کا تذکرہ بھی ہوا ہے : { وَکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً ۔ } کہ اس دن تم لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو جائو گے۔ ان میں سے دو گروہ تو یہی (دائیں اور بائیں والے) بتائے گئے ہیں ‘ جبکہ تیسرے گروہ کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے : { وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ - اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ ۔ } (الواقعۃ) ” اور آگے نکل جانے والے تو ہیں ہی آگے نکل جانے والے۔ وہی تو بہت مقرب ہوں گے “۔ گویا یہ تیسرا گروہ اہل جنت میں سے بہت ہی خاص لوگوں یعنی مقربین بارگاہ پر مشتمل ہوگا۔ بہرحال آیت زیر مطالعہ میں ان بدقسمت لوگوں کا ذکر ہوا ہے جنہیں بائیں ہاتھ میں اعمال نامے پکڑا کر جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 For an explanation of "the people of the right hand and of the left hand", see E.N.'s 5, 6 of Surah Al-Waqi'ah.

سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :15 دائیں بازو اور بائیں بازو کی تشریح ہم سورہ واقعہ کی تفسیر میں کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الواقعہ ، حواشی 5 ۔ 6 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: یہ ’’اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ‘‘ کا ترجمہ ہے اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ بائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ اور اِن سے مراد وہ بد کار ہیں جن کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(90:19) والذین کفروا بایتنا ہم اصحب المشئمۃ۔ واؤ عاطفہ، الذین اسم موصول جمع مذکر۔ کفروا جمع مذکر غائب۔ کفر (باب نصر) مصدر۔ صلہ۔ بایتنا متعلق کفروا۔ اسم موصول بمعہ اپنے صلہ کے مبتدائ۔ اصحب المشئمۃ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مبتداء کی خبر۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب تخصیص کے لئے لائی گئی ہے۔ اور جب لوگوں نے ہماری آیات سے انکار کیا۔ وہی منحوس (بدبخت) ہیں۔ مشئمۃ : (ش ء م۔ حروف مادہ) بائیں طرف (جلالین) ۔ اصحب المشئمۃ۔ بائیں طرف والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یہ دو ترجمے بھی اس لحاظ سے ہیں کہ مشمہ کے معنی بائیں جانب کے بھی ہیں اور نحوست و بدنصیبی کے بھی بائیں جانب والوں سے مراد وہ ہیں جو عرش کی بائیں جانب کھڑے کئے جائیں گے یا جنہیں ان کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔9 یعنی انہیں دوزخ میں پھینک کر اس کے تمام دروازے بند کردیئے جائیں گے تاکہ انہیں کسی طرف سے ہوا نہ لگنے پائے اور نہ وہ بھاگ کر کہیں جاسکیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین ........................ موصدة ” بائیں بازو والے فریق کے بیان میں دوسری صفات کو ترک کردیا گیا ہے۔ والذین ................ بایتنا (19:90) ” اور جنہوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا “۔ کیونکہ جب کافر ہوگئے تو بات ختم ہوگئی۔ کفر کے ساتھ کوئی نیکی جمع ہی نہیں ہوسکتی اور نہ کسی برائی کا علیحدہ اعتبار ہوتا ہے اس لئے کہ ہر برائی کفر کے اندر ہی ہوتی ہے اور یہ کفر اسے ڈھانپ لیتا ہے ، لہٰذا اب اس بات کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یہ لوگ غلاموں کو آزاد نہیں کرتے ، اور کھانا نہیں کھلاتے ، پھر ان لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کردیا اور کافر ہوگئے تو پھر کوئی نیکی ان کے لئے مفید ہی نہیں ہے۔ یہ بائیں ہاتھ کے لوگ ہیں یا بدبخت لوگ ، دونوں مفہوم مراد ہوسکتے ہیں ، وہ بائیں ہاتھ والے بھی ، اور منحوس بھی ہیں اور یہی دونوں مفہوم یعنی دائیں جانب اور نیک بخت ایمانی مفہوم میں بھی یکجا ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں نے جرات کرکے دشوار گزار گھاٹی کو عبور نہ کیا۔ علیھم ................ موصدة (20:90) ” ان پر آگ چھائی ہوئی ہے “۔ یعنی آگ کے دروازے ان پر بند ہیں یعنی حقیقی معنی میں کہ اندر کرکے ان پر جہنم کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں اور یا اس معنی میں کہ آگ کا عذاب ان پر چھایا ہوا ہے۔ یہ لازمی معنی ہے کہ وہ اس سے خارج نہ ہوسکیں گے۔ جب آگ کہ ہٹانہ سکیں گے تو وہ ان پر بند ہے۔ یہ دونوں مفہوم لازم وملزوم ہیں۔ یہ بنیادی حقائق جو اس انسان کی زندگی کا بنیادی امور ہیں ، ایمانی عقیدے کے اساسیات ہیں ، سب کے سب اس چند سطری سورت میں سمودیئے گئے ہیں اور نہایت وضاحت اور زور دار انداز سے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ ہے ممتاز خصوصیت قرآن کے انداز بیان کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِنَا هُمْ اَصْحٰبُ الْمَشْـَٔمَةِؕ٠٠١٩﴾ (اور جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا یہ بائیں ہاتھ والے ہیں) ان کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیئے جائیں گے اور انہیں دوزخ میں جانا ہوگا جس میں ہمیشہ رہیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) اور جو لوگ ہماری آیتوں کے منکر ہوئے وہ بدبخت اور بائیں جانب والے ہیں یعنی وہ کفر کی وجہ سے بدبخت اور اصحاب الشمال ہیں قیامت میں ان کو بائیں جانب جگہ دی جائے گی۔