Surat ul Balad

Surah: 90

Verse: 5

سورة البلد

اَیَحۡسَبُ اَنۡ لَّنۡ یَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ اَحَدٌ ۘ﴿۵﴾

Does he think that never will anyone overcome him?

کیا یہ گمان کرتا ہے کہ یہ کسی کے بس میں ہی نہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Does he think that none can overcome him. Al-Hasan Al-Basri said that its Meaning that, "no one is able to take his wealth." Qatadah about this has said, "The Son of Adam thinks that he will not be asked about this wealth of his -- how he earned and how he spent it." Allah said: يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالاً لُّبَدًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی کوئی اس کی گرفت کرنے پر قادر نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] انسان جن تکلیفوں میں زندگی گزارتا ہے ان میں بیشتر ایسی ہوتی ہیں جو اس کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی، اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل کی وجہ سے ہوتی ہیں جن میں سے اکثر غلط اور ناجائز قسم کی ہوتی ہیں جنہیں وہ پورا کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ وہ دوسروں پر کئی طرح کی زیادتیاں بھی کرجاتا ہے اور اس بات سے غافل اور بےنیاز ہوتا ہے کہ کوئی ہستی اسے دیکھ بھی رہی ہے اور اس پر گرفت بھی کرسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ایحسب ان لن یقدر علیہ احد : جن سختیوں اور مصیبتوں میں آدمی زندگی بسر کرتا ہے ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنی حقیقت کو پہچانتا اور اس میں عاجزی اور انکسار کا جذبہ پیدا ہوتا، لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ اکڑفوں دکھاتا ہے اور سمجھتا ہے مجھ پر کون قابو پاسکتا ہے ؟ (اشرف الحواشی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَيَحْسَبُ اَنْ لَّنْ يَّقْدِرَ عَلَيْہِ اَحَدٌ۝ ٥ ۘ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ قادر الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه . ( ق د ر ) القدرۃ ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(7-5) کیا کافر اپنی قوت پر یہ سمجھتا ہے کہ اس کو سزا دینے اور اس کی گرفت پر اللہ تعالیٰ کا بس نہیں چلے گا۔ کلدہ اور ولید ابن مغیرہ کہتا ہے کہ میں نے تو حضور کی دشمنی میں اس قدر مال خرچ کردیا ہے مگر پھر بھی مجھے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ کیا وہ کافر یہ سمجھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ان بری حرکتوں کو دیکھا نہیں کہ اس نے خرچ کیا ہے یا نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ اَیَحْسَبُ اَنْ لَّـنْ یَّـقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ ۔ } ” کیا یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اوپر کوئی قابو نہیں پاسکے گا ؟ “ مشقت میں پڑے ہوئے انسان کا حال دیکھو۔ اس حالت میں بھی وہ غرور کرتا ہے ۔ ابوجہل کو دیکھو کیسے اکڑا ہوا ہے ۔۔۔ مقامِ غور ہے ! چاروں طرف سے مصائب و مشکلات میں گھرے ہوئے انسان کا اپنے خالق اور مالک کے سامنے یہ حال ہے تو اگر اس کے لیے دنیا میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتیں تو پھر یہ اللہ تعالیٰ سے کیسی کیسی بغاوتیں کرتا اور مخلوقِ خدا پر کیا کیا ستم ڈھاتا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 That is: Is man, who is ever exposed to such hazards, involved in the delusion that he can do what he likes, and there is no superior power to seize and suppress him? The fact, however, is that even before the occurrence of the Hereafter in this world itself, he sees that his destiny every moment is being ruled by some other Being against Whose decrees all his plans and designs prove ineffective. A single jolt of the earthquake, a blast of wind, a flood in the river and a sea-storm are enough to show how weak and feeble tnan is against the Divine forces. A sudden accident can reduce a strong and robust person to a cripple; one turn of the fortune deposes a mighty sovereign froth the position of authority. When the fortunes of the nations, which have climbed to the very apex of glory and prosperity, change, they are humiliated and disgraced even in the world where do one could dare look them in the face. How has then this man been deluded into thinking that no one else can have power over him ?

سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :6 یعنی کیا یہ انسان جو ان حالات میں گھرا ہوا ہے ، اس غرے میں مبتلا ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہے کرے ، کوئی بالاتر اقتدار اس کو پکڑنے اور اس کا سر نیچے کر دینے والا نہیں ہے؟ حالانکہ آخرت سے پہلے خود اس دنیا میں بھی ہر آن وہ دیکھ رہا ہے کہ اس کی تقدیر پر کسی اور کی فرمانروائی قائم ہے جس کے فیصلوں کے آگے اس کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں ۔ زلزلے کا ایک جھٹکا ، ہوا کا ایک طوفان ، دریاؤں اور سمندروں کی ایک طغیانی اسے یہ بتا دینے کے لیے کافی ہے کہ خدائی طاقتوں کے مقابلے میں وہ کتنا بل بوتا رکھتا ہے ۔ ایک اچانک حادثہ اچھے خاصے بھلے چنگے انسان کو اپاہج بنا کر رکھ دیتا ہے ۔ تقدیر کا ایک پلٹا بڑے سے بڑے با اقتدار آدمی کو عرش سے فرش پر لا گراتا ہے ۔ عروج کے آسمان پر پہنچی ہوئی قوموں کی قسمتیں جب بدلتی ہیں تو وہ اسی دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتی ہیں جہاں کوئی ان سے آنکھ ملانے کی ہمت نہ رکھتا تھا ۔ اس انسان کے دماغ میں آخر کہاں سے یہ ہوا بھر گئی کہ کسی کا اس پر بس نہیں چل سکتا ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(90:5) ایحسب ان لن یقدر علیہ احد۔ ہمزہ استفہام انکاری ہے ۔ الانسان یحسب کا فاعل ہے۔ ضمیر فاعل کس کی طرف راجع ہے اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں :۔ (1) یہ کہ اگر الانسان میں الف لام جنسی ہے تو ضمیر فاعل عام انسان کی طرف راجع ہوگی اور مطلب یہ ہوگا کہ باوجود یہ کہ انسان مصائب کش پیدا ہوا ہے سدا کا دکھیا ہے پھر بھی اس پر اس کو یہ غرور کہ ان لن یقدر علیہ احد : (کہ اس پر کوئی قابو نہ پائے گا) ۔ (تفسیرحقانی، تفسیر مظہری، ضیاء القرآن) (2) اگر الف لام عہد کا ہے تو ضمیر کا مرجع وہ کافر ہے جو اپنی قوت و طاقت پر گھمنڈ کر رہا ہے۔ یعنی ابو الاشد اسید بن کلدۃ (الخازن، بیضاوی، ایسر التفاسیر) (3) بعض کے نزدیک ضمیر کا مرجع الولید بن المغیرہ المخزومی ہے۔ (تفسیر الخازن) یحسب مضارع واحد مذکر غائب حسبان (سمع) مصدر سے جس کا معنی ہے خیال کرنا۔ ان مخففہ اصل میں ان تھا۔ لن یقدر مضارع منفی تاکید بلن ۔ قدرۃ (باب ضرب) مصدر سے۔ وہ قدرت نہیں رکھتا ہے۔ علیہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع الانسان ہے احد یقدر کی ضمیر کا مرجع ہے۔ بمعنی کوئی۔ ترجمہ ہوگا :۔ کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہیں پائے گا۔ علامہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں :۔ یا احد سے مراد اللہ ہے کہ جس نے ابو الاشد کو اتنی عظیم الشان طاقت و قوت عطا فرمائی تھی کہ اس کا خیال تھا کہ خدا بھی اس سے انتقام لینے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ان لن یقدر علیہ احد مفعول ہے یحسب کا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 یعنی جن ستخیوں اور مصیبتوں کو جھیلتے ہوئے آدمی زندگی بسر کرتا ہے ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنی حقیقت کو پہچانتا اور اس میں عاجزی و انکساری کا جذبہ پیدا ہوتا لیکن اس کی حالت یہ ہے کہ اکڑ خوں دکھاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھ پر کو نقابو پاسکتا ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی کیا اللہ کی قدرت سے اپنے کو خارج سمجھتا ہے جو اس قدر بھول میں پڑا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ایحسب ان ................................ احد یہ انسان مشقت میں پیدا کیا گیا اور جو اپنی اس دنیا کی پوری زندگی میں اس مشقت سے چھوٹ نہیں سکتا ، یہ اپنی حقیقت کو بھول جاتا ہے اور اس کا پیدا کرنے والا اسے جو قوت ، طاقت اور وجدان اور سازو سامان دیتا ہے ، تو وہ ان قوتوں میں ایسے تصرفات کرتا ہے جیسا کہ وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے اور اسے اس جوابدہی کی توقع نہیں ہے اور یہ خوف نہیں ہے کہ ایک بڑی قوت اور قدروالاا سے پکڑ سکتا ہے اور حساب لے سکتا ہے۔ اس لئے یہ انسان دیتا ہے ، پکڑتا ہے ، چھینتا ہے ، لوٹتا ہے ، جمع کرتا ہے ، اضافہ کرتا ہے ، فسق وفجور کرتا ہے ، نہایت بےخوفی اور نہایت بےباکی کے ساتھ ، یہ خدوخال اس انسان کے ہیں جس کا دل ایمان سے خالی ہو۔ پھر جب ایسے مواقع پر جیسے اس سورت میں مذکور ہیں ، اسے راہ خیر میں خرچ کرنے کی دعوت دی جائے تو پھر وہ کہتا ہے۔ الھکت ملا لبدا (6:90) ” میں نے ڈھیروں مال اڑادیا “۔ اور میرے لئے بس یہ کافی ہے کہ میں نے اس قدر مال اڑادیا۔ ایحسب ................ احد (7:90) ” کیا وہ سمجھتا ہے کہ کسی نے اس کو نہیں دیکھا “۔ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ تو دیکھ رہا ہے ، اللہ کا علم تو دلوں کی باتوں کو بھی گھیرے ہوئے ہے ، اللہ تو وہ سب کچھ کو دیکھ رہا ہے جو اس نے خرچ کیا اور اسے معلوم ہے کہ اس نے کس لئے خرچ کیا۔ لیکن یہ انسان اس حقیقت کو بھی بھول جاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ شاید وہ اللہ کی نظروں سے اوجھل ہے۔ انسان کے اس غرور اور اس زعم کے مقابلے میں کہ وہ طاقتور ہے اور زور آور ہے اور اس کی کنجوسی اور پھر بھی دعوائے اتفاق کثیر کے مقابلے میں ، قرآن خود اس کے نفس کا آئینہ اس کے سامنے رکھ کر اسے بتلاتا ہے کہ ذرا غور تو کرو کہ اللہ نے خود تمہارے نفس کے اندر اور تمہاری ساخت کے اندر تم پر کس قدر مہربانیاں کی ہیں اور کس قدر صلاحیتیں دی ہیں لیکن اے انسان تم نے تو ایک نعمت وصلاحیت کا شکر بھی ادا نہیں کیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اَيَحْسَبُ اَنْ لَّنْ يَّقْدِرَ عَلَيْهِ اَحَدٌۘ٠٠٥﴾ (کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کوئی قادر نہ ہوگا) یعنی انسان کا رویہ یہ بتاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو آزاد سمجھتا ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے دنیا و آخرت میں مواخذہ ہوگا اس کی بالکل پرواہ نہیں کرتا اس کا ڈھنگ یہ بتاتا ہے کہ وہ یہ سمجھ کر اپنے دنیاوی مشاغل میں لگتا ہے کہ میں آزاد ہوں اور جو چاہوں کروں، مجھے کوئی پکڑنے والا نہیں اور مجھ پر کسی کو کوئی قدرت نہیں حالانکہ جس ذات پاک نے اس کو پیدا فرمایا ہے قوت اور طاقت بخشی ہے وہ اس پر پوری طرح قادر ہے انسان کے اعمال میں اموال کا خرچ کرنا بھی ہے۔ وہ بےفکری کے ساتھ مال خرچ کرتا ہے اور گناہوں میں خرچ کرتا چلا جاتا ہے۔ اسراف بھی کرتا ہے۔ حرام مواقع میں خرچ کرتا چلا جاتا ہے اور شیخی بگھارتے ہوئے شیخی کے ساتھ کہتا ہے کہ میں نے خوب زیادہ مال خرچ کر ڈالا، ان معصیت والے اخراجات میں خرچ کرنے پر جرات بھی کی اور شیخی بھی بگھاری اور یہ بالکل نہ سوچا کہ ان مواقع میں خرچ کرنا میرے خالق اور مالک کی رضامندی کے خلاف ہے۔ وہ مجھے دیکھ رہا ہے اسی کو فرمایا ﴿ اَيَحْسَبُ اَنْ لَّمْ يَرَهٗۤ اَحَدٌؕ٠٠٧ ﴾ (کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس کو کسی نے نہیں دیکھا) یعنی اس کا ایسا سمجھنا غلط ہے کہ اگر کسی کو پتہ نہیں تو اس کے خالق کو تو پتہ ہے اسی نے مال دیا اور وہی معصیت میں خرچ کرنے پر مواخذہ کرے گا۔ تفسیر جلالین سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض کافروں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں خوب زیادہ مال خرچ کیا تھا اور بطور فخر یوں کہا تھا کہ میں نے بہت زیادہ مال خرچ کردیا اس پر مذکورہ وعید نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا یہ خیال کرنا غلط ہے کہ مجھے کسی نے نہیں دیکھا اللہ تعالیٰ نے اسے خرچ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور کتنا خرچ کیا ہے وہ بھی دیکھا ہے وہ اپنے علم کے مطابق مواخذہ فرمائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” ایحسب “ یہ زجر ہے کیا کافر انسان گمان کرتا ہے کہ اس پر کوئی قادر اور غالب نہ ہوگا اور کوئی اس کو اس کے برے عملوں کی سزا نہیں دے گا۔ اس کا یہ خیال غلط ہے۔ اسے اس کے گناہوں کی اللہ تعالیٰ ضرور سزا دے گا۔ ” یقول اھلکت مالا لبدا “ لبدا، بہت زیادہ۔ وہ بڑے فخر سے کہتا ہے کہ اس نے اپنے مشرک اور شرک پھیلانے والے اور اسلام سے روکنے والے دوستوں پر اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں بےدریغ دولت خرچ کی ہے کیا اس کا خیال ہے کہ باطل میں خرچ کرتے ہوئے اس کو کوئی نہیں دیکھتا اور اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی بلکہ ہم اس کو دیکھ رہے ہیں اور اس کا پورا محاسبہ کریں گے (ایحسب ان لم یرہ احد) حین کان ینفق او بعد ذلک فیسالہ عنہ یعنی ان اللہ سبحانہ وتعالیٰ یراہ فیجازیہ او یجدہ فیحاسبہ علیہ (بیضاوی) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) کیا وہ انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کوئی قابونہ پاسکے گا۔ یعنی شاید یہ سمجھتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر ہوگیا ہوں کہتے ہیں اس سے مراد ولیدبن مغیرہ ہے بعض نے کہا اس سے مراد ابی الاشدا سید بن کلدہ ہے جو بہت قد اور پہلوان تھا۔ بہرحال حضرت حق تعالیٰ نے تنبیہہ فرمائی کہ اپنی قوت اور دولت کے زعم میں پیغمبر کو ستاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں قدرت خداوندی سے خارج ہوں اور پیغمبر کی اذیت اور ناجائز مشرکانہ رسوم پر خرچ کرکے۔