Surat ul Balad
Surah: 90
Verse: 8
سورة البلد
اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾
Have We not made for him two eyes?
کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں ۔
اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ ۙ﴿۸﴾
Have We not made for him two eyes?
کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہیں بنائیں ۔
Have We not made for him two eyes, meaning, for him to see with them.
(الم نجعل لہ عینین…:” نجد “ کا لغوی معنی ” بلند جگہ “ ہے۔ ” النجدین “ وہ بلند جگہوں سے مراد ماں کی چھاتیاں ہیں۔ بچہ پیدا ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہدایت کے مطابق ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکتا ہے، انہیں منہ میں ڈال کر دودھ چوستا ہے جس پر اس کی زندگی کا دار و مدار ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس کی یہ رہنمائی نہ کرے تو کوئی بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ آنکھوں، زبان اور ہونٹوں کے الفاظ کے ساتھ ماں کی چھاتیوں کی مناسبت واضح ہے۔ اکثر مفسرین نے ” النجدین “ سے مراد خیر و شر کے دو واضح راستے لئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ کی بغاوت کرتے ہوئے اور بےتحاشا مال لٹاتے ہوئے یہ گمان کیسے کرلیا کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا اور نہ کوئی اس سے پوچھنے والا ہے ؟ حالانکہ جن آنکھوں سے وہ دیکھ رہا ہے وہ ہم نے بنائی ہیں، زبان اور ہونٹ جن سے ڈینگیں مار رہا ہے وہ بھی ہم نے پیدا کیے ہیں، پھر ہم نے اسے خیر و شر کے راستے کا شعور بھی عطا فرمایا ہے۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اسے آنکھیں عطا کرنے والا خود ہی دیکھ نہ رہا ہو، اسے زبان اور ہونٹ دینے والا اسے پوچھ بھی نہ سکتا ہو اور خیر و شر کا شعور عطا فرمانے والا اس سے اس شعور کے استعمال کے متعلق باز پرس ہی نہ کرے ؟
أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ ﴿٨﴾ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ ﴿٩﴾ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ﴿١٠﴾ (Did We not make for him two eyes, and a tongue and two lips, and showed him the two ways?...90:8-10) The word najdain is the dual form of najd which means an elevated or conspicuous road. The word najdain signifies the two high and conspicuous ways of good and evil, or of success and destruction. The preceding verse pointed out the ignorance and heedlessness of man. He thinks that Allah has no power over him, and that there is no one watching over his actions. The current verse mentions a few of the organs and abilities that Allah has endowed him with. If he reflects carefully on these endowments, he will appreciate His infinite wisdom and power within himself. He has a pair of eyes. The optic nerves and tissues are rather delicate. They send nervous impulses to the brain when stimulated by light rays from external objects. The structure of the eye itself is most delicate. Each eye consists of a hollow, spherical capsule [ eyeball ], made up of several layers and structures. It is set into a socket in the skull, and is protected by eyelids and eyelashes, and eyebrows. It works like an automatic machine. When a harmful object is seen coming from the front, the eyelids close on their own. The eyelashes block the dust from getting into the eyes. The eyebrows help keep things away from falling into the eyes directly from top. The facial bones, especially the orbit [ eye socket and the cheek bones ], protect the eye, if one were to fall on one&s face or something were to fall on the face. The second gift that man is endowed with is the &tongue&. This organ - the articulator - is the most amazing and important creation. It is the long piece of flesh fixed to the bottom of the mouth that can represent thoughts of the heart, the automatic and mysterious machine. The heart works in an amazing way. A thought occurs in the heart, the brain interprets it, and prepares appropriate topic and words. The words are uttered by the tongue. Such a complex task is performed so swiftly that the listener does not even realise how many systems have worked before the distinguishable sounds, letters and words were uttered. Nature has equipped man with two lips that play an important role in articulating the different sounds, letters and words. Nature has made the tongue such a swift-working articulator that within half a minute it may utter a word which may take him out from Hell and admit him into Paradise, as the word of faith, or may endear him to his enemy in the world, as by seeking forgiveness of his shortcomings. The same tongue within the same short span of time may take him to Hell, as by uttering the word of disbelief, or may make him his biggest enemy who was previously his closest friend, as by using obscene language against him. The tongue has many benefits as well as many ways of destruction. It is a double-edged sword that can operate against an enemy, and it can also cut one&s own throat. Therefore, Allah has kept it covered within the case of two lips. Probably, this is the reason why the pair of lips is mentioned. The Creator Who has endowed man with tongue has equipped him with a pair of lips in order to protect it. Therefore, he should be careful in its use. He should not unsheathe it unnecessarily. Allah has equipped him with a pair of eyes, a pair of lips and a tongue, and has equipped him with the ability to distinguish good from evil and right from wrong, thus: فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا then inspired it with its [ instinct of ] evil and piety [ 91:8] & Thus in the first instance man receives guidance from his own conscience. This is supported by the guidance of the Holy Prophets (علیہم السلام) and celestial books that clarify it. In sum, an ignoramus and heedless person, who denies the power of the Omnipotent, should look into his own being, he would be able to observe His attribute of perfect power and consummate wisdom. He should observe with his two eyes and confess with his tongue. He has been shown the two ways of good and evil; and of right and wrong so that he may choose between the two. Obviously, he should choose the good way. In his make-up, there exists the ability to take either way. All these bounties have not motivated man to attempt the steep course. Then the heedless man is warned that he should reflect on the clear proofs and arguments pertaining to Allah&s Omnipotence, pertaining to the Day of Judgment, life after death and Reckoning, and believe in these articles of faith. This faith requires that man should be a source of benefit and comfort to others; he should abstain from hurting them; he should believe in Allah; he should amend his own conduct and think of reforming others also, so that, on the Day of Judgment, he may be among the people of the right hand, the inmates of Paradise, enjoying a happy recompense for what he has done in this life. The unfortunate ones who persistently denied the Truth shall be encircled by the Hell-fire. This theme has been taken up from this point onward to the end of the Surah. Failing to do a few of the good deeds have been [ selectively ] described in a unique style.
آنکھ اور زبان کی تخلیق میں چند حکمتیں الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین وھدینہ النجدین، نجدین نثنیہ نجد کا ہے جس کے لفظی معنے اس راستے کے ہیں جو اوپر بلندی کی طرف جاتا ہے مراد اس سے کھلا واضح راستہ ہے اور ان دو راستوں میں ایک خیر و فلاح کا دوسرا شرو ہلاکت کا راستہ ہے۔ سابقہ آیت میں انسان کی اس غفلت و جہالت پر تنبیہ تھی کہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر اللہ تعالیٰ کو بھی قدرت نہیں، اور یہ کہ اس کے اعمال و افعال کو کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اس آیت میں چند ان نعمتوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود میں ایسی عطا فرمائی ہیں کہ خود ان کی صنعت و حکمت ہی پر غور کرے تو حق تعالیٰ کی بےمثال حکمت وقدرت کا نظارہ انہیں چیزوں میں کرے، ان میں پہلے دو آنکھوں کا ذکر فرمایا کہ آنکھ کے نازک پردے نازک شراین (رگیں) انمیں قدرتی روشنی، پھر آنکھ کی وضع ہیت کہ نازک ترین عضو ہے اس کی حفاظت کا کیا سامان خود اس کی خلقت میں کیا گیا کہ اسکے اوپر ایسے پردے ڈال دیئے جو خود کار مشین کی طرح جب کوئی مضر چیز سامنے سے آتی دکھائی دے خود بخود بغیر کسی اختیار کے بند ہوجاتے ہیں ان پردوں کے اوپر پلکوں کے بال کھڑے کردیئے کہ گردوغبار کو روک لیں، اسکے اوپر بھو وں کے بال رکھے کے اوپر سے آنیوالی چیز براہ راست آنکھ میں نہ پہچے، اس کو چہرے کے اندر اس طرح فٹ کیا گیا کہ اوپر سخت ہڈی ہے، نیچے رخسار کی سخت ہڈی ہے آدمی کہیں چہرے کے بل گر جائے یا اس کے چہرے پر کوئی چیز آپڑے تو اوپر نیچے کی ہڈیاں آنکھ کو بچالیں گی۔ دوسری چیز زبان ہے اس کی عجیب و غریب تخلیق اور دل کی باتوں کی ترجمانی جو اس پر اسرار اور خود کار مشین کے ذریعہ ہوتی ہے اسکے حیرت انگیز طریقہ کار کو دیکھو کہ دل میں ایک مضمون آیا دماغ نے اس پر غور کیا اس کیلئے عنوان اور الفاظ تیار کئے وہ الفاظ اس زبان کی مشین سے نکلنے لگے۔ یہ اتنا بڑا کام کیسی سرعت کیساتھ ہو رہا ہے کہ سننے والے کو یہ احساس بھی نہیں ہوسکتا کہ ان الفاظ کے زبان پر آنے میں اسکے پیچھے کتنی مشینری نے کام کیا ہے تب یہ کلمات زبان پر آئے ہیں۔ زبان کے ساتھ شفتین یعنی ہونٹوں کا ذکر اسلئے بھی کہ قدرت نے زبان کو ایسی سریع العمل مشین بنایا ہے کہ آدھے منٹ میں اس سے ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچا دے جیسے کلمہ ایمان یا دنیا میں دشمن کی نظر میں بھی اس کو محبوب بنا دے جیسے پچھلے قصور کی معانی اور اسی زبان سے اتنے ہی وقفہ میں ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم میں پہنچا دے جیسے کلمہ کفر یا دنیا میں اسکے بڑے سے بڑے مہربان دوست کو اس کا دشمن بنا دے جیسے گالی گلوچ وغیرہ، جس طرح زبان کے منافع بیشمار ہیں اس کی ہلاکت آفرینی بھی اسی انداز کی ہے گویا یہ ایک تلوار ہے جو دشمن پر بھی چل سکتی ہے اور خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتی ہے اسلئے حق تعالیٰ جل شانہ نے اس تلوار کو دو ہونٹوں کے غلاف میں مستور کرکے عطا فرمایا اور اس جگہ ہونٹوں کا ذکر کرنا اسطرف اشارہ ہوسکتا کہ جس مالک نے انسان کو زبان دی اس نے اس کو روکنے بند کرنے کے لئے ہونٹ بھی دیئے ہیں اسلئے اسکے استعمال میں سوچ سمجھ سے کام لے، بےموقع اس کو ہونٹوں کی میان سے نہ نکالے، تیسری چیز دو راستوں کی ہدایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر وشر اور بھلے برے کی پہچان کے لئے ایک استعداد اور مادہ خود اسکے وجود میں رکھد دیا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا، فالھمھا فجورھا وتقوھا یعنی نفس انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے فجور اور تقویٰ دونوں کے مادے رکھدیئے ہیں تو اس طرح ایک ابتدائی ہدایت انسان کو خود اسکے ضمیر سے ملتی ہے پھر اس ہدایت کی تائید کے لئے انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں آتی ہیں جو انکو بالکل واضح کردیتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جاہل اور غافل انسان قدرت حق کے منکر ذرا اپنے ہی وجود کی چند نمایاں چیزوں میں غور کرے تو قدرت و حکمت حق کے کمال کا مشاہدہ ہوجائیگا۔ آنکھوں سے دیکھو پھر زبان سے اقرار کرو پھر دو راستوں میں سے خیر کے راستے کو اختیار کرو۔ آگے پھر اس کی غفلت شعاری اور بےفکری پر تنبیہ ہے کہ ان روشن دلائل سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اور اسکے ذریعہ قیامت میں دوبارہ زندہ ہونے اور حساب دینے کا یقین ہوجانا چاہئے اس یقین کا متقضایہ یہ تھا کہ یہ خلق خدا کو نفع اور راحت پہنچاتا، ان کی ایذاؤں سے بچتا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور خود اپنی اصلاح کرتا اور دوسرے لوگوں کی اصلاح کی فکر کرتا تاکہ قیامت میں وہ اصحاب یمین یعنی اہل جنت میں شامل ہوجائے مگر اس بدنصیب نے ایسا نہ کیا بلکہ کفر قائم رہا جسکا انجام جن ہم کی آگ ہے۔ آخر سورت تک یہ مضمون بیان ہوا ہے اس میں چند نیک اعمال کے اختیار نہ کرنے کو ایک خاص انداز سے بیان فرمایا ہے۔
اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَيْنَيْنِ ٨ ۙ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ عين ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر/ 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود/ 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] . ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة، واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان/ 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] . ( ع ی ن ) العین اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور/ 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه/ 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود/ 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان/ 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان/ 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن/ 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن/ 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر/ 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء/ 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون/ 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک/ 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات/ 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔
(10-8) کیا ہم نے اس کو دیکھنے کے لیے آنکھیں اور بولنے کے لیے زبان نہیں دی اور پھر ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں راستے بتلا دیے۔
(90:89) الم نجعل لہ عینین ولسانا وشفتین۔ (کیا ہم نے نہیں بنائیں اس کے لئے دو آنکھیں اور ایک زبان دو ہونٹ) ۔ لہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب ۔ یرہ کی طرح یا عام انسان کی طرف راجع ہے یا ابوالاشد کی طرف۔ الم نجعل استفہام تقریری ہے۔ یعنی ہم نے بنائی ہیں (اس کے لئے) عینین مفعول لہ متعلق نجعل۔ لسانا وشفتین دونوں کا عطف عینین پر ہے۔ آنکھیں انسان کے لئے خارج کے محسوسات و مدرکات کے باب میں سب سے بڑی نعمت ہیں۔ اور زبان اور ہونٹ مافی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ ہیں شاید اسی لئے یہی تین نعمتیں نام کی صراحت کے ساتھ یہاں بیان ہوئیں۔ (تفسیر ماجدی) ان نعمتوں کے فائدے یوں بیان کئے گئے ہیں :۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم اگر تیری زبان ناجائز چیزوں کے لئے تجھ سے کشاکش کرے تو میں نے اس کے خلاف تیری مدد کے لئے دو ڈھکن تجھے دئیے ہیں تو اس کو ڈھکن میں بند کر دے (اور ناجائز بات زبان سے نہ نکال) اور اگر تیری نگاہ ناجائز چیزوں کے لئے تجھ سے کشاکش کرے۔ تو تیری مدد کے لئے میں نے دوغلاف تجھے دیدئیے ہیں۔ تو ان غلافوں میں اس کو بند رکھ۔ اور اگر تیری شرمگاہ ناجائز امور کی طرف تجھے کھینچے تو میں نے تیری امداد کے لئے دو پردے دیدئیے ہیں ان پردوں میں اس کو بند رکھ۔ (تفسیر مظہری)
فہم القرآن ربط کلام : جس شخص کا یہ خیال ہے کہ ” اللہ تعالیٰ “ اسے نہیں دیکھتا اسے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ” اللہ تعالیٰ “ اسے اس وقت سے دیکھ رہا ہے کہ جب اس کے رحم مادر میں نقش ونگار بنائے جا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کیا انسان اس پر پر غور نہیں کر تاکہ ہم نے اسے دو آنکھیں، ایک زبان اور دوہونٹ عطا کیے ہیں اور ہم نے اسے دوراستے دکھائے ہیں مگر اس نے مشکل گھاٹی سے گزرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ کیا سمجھیں کہ مشکل گھاٹی کیا ہے ؟ مشکل گھاٹی یہ ہے کہ کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑایا جائے، کسی قرابت دار فاقہ مست اور خاک نشین، یتیم یا مسکین کو بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشکل کاموں کا ذکر کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ عطا فرمائے ہیں۔ آنکھوں، ہونٹوں اور زبان کا ذکر فرماکر اشارہ کیا ہے کہ انسان بالخصوص مال دار آدمی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے غریبوں کے حالات دیکھے پھر ان کے ساتھ تعاون کرے اور دوسرے کو بھی تلقین کرے کہ وہ یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کا خیال رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے نیکی اور بدی کے راستوں کی نشاندہی کردی ہے۔ اس مقام پر مشکل گھاٹی سے مراد یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہے اور بدی سے مراد یتیموں اور مسکینوں کے حقوق سے نظریں بچانا اور ان کے حقوق غصب کرنا ہے، ہدایت سے مراد نیکی اور برائی کی نشاندہی ہے۔ یہاں نیکی کے پانچ کاموں کو مشکل گھاٹی پر چڑھنے کے مترادف قرار دیا ہے یہ پانچوں کام ایسے ہیں جن کی قرآن و سنت میں بڑی ترغیب اور فضیلت بیان کی گئی ہے یہ کام وہی انسان کرسکتا ہے جو ایمان میں سچا ہو اور اسے اپنے رب پر کامل یقین ہو کہ وہ اسے ان کاموں کا اجر عطا فرمائے گا۔ غلام کی گردن چھڑانے میں اس لیے اجر رکھا گیا ہے کہ وہ بےچارہ دوسرے کے ہاتھوں میں بےبس ہوتا ہے اور اپنی بےبسی کی وجہ سے نہ اپنی مرضی سے کوئی کام کرسکتا ہے اور نہ اپنے محسن کا بدلہ چکا سکتا ہے۔ یتیم کو کھانا کھلانے اور اس کی خدمت کرنے پر اس لیے اجر رکھا گیا ہے کہ وہ بےسہارا ہوتا ہے اور یہی حالت مسکین کی ہوتی ہے۔ ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عطا کیا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی طرح تعلیم دی، اسے ادب سکھایا اور اچھے انداز سے اس کی تربیت کی پھر وہ اسے آزاد کردیا اور اس کے ساتھ نکاح کرلیا۔ دوسرا یہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔ “ (رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ اور مسکین کے ساتھ تعاون کرنے والا۔ اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔ “ (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے دل کی سختی کے بارے میں شکایت کی آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔ “ (مسند احمد : کتاب باقي مسند المکثرین، باب مسند أبی ہریرہ ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں، دوہونٹ اور زبان عطا فرمائی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دو راستوں کی نشاندہی کی ہے۔ ٣۔ نیکی کے کاموں میں مشکل ترین کام غلام کو آزاد کروانا، مسکین کو بھوک کے دن کھانا کھلانا اور قریبی یتیم کی کفالت کرنا ہے۔ تفسیر بالقرآن نیکی اور برائی کے راستے : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) (الانعام : ١٦٠) (القصص : ٨٤) (یونس : ٥٢) (النازعات : ٣٧) (الدھر : ١٢) (احقاف : ٢٠)
الم نجعل .................................... النجدین انسان اپنی قوت پر ہمیشہ مغرور ہوجاتا ہے ، حالانکہ اس کے پاس جو چھوٹی موٹی قوت ہوتی ہے۔ وہ اسے اللہ نے دی ہوئی ہوتی ہے ، پھر انسان مال کے بارے میں بڑا بخیل واقع ہوا ہے ، حالانکہ یہ مال بھی اللہ ہی نے دیا ہے۔ اس کے باوجود ، نہ وہ ہدایت کی راہ لیتا ہے اور نہ شکر منعم بجالاتا ہے۔ اللہ نے اسے خو اس خمسہ عطا کیے۔ ان کے ذریعہ یہ عالم محسوسات میں کام کرتا ہے ، پھر اس کو آنکھیں دی گئیں اور ان کی ساخت کس قدر دقیق اور پیچیدہ ہے اور جن کے ذریعہ وہ چیزوں کو دیکھتا ہے ، پھر اللہ نے اسے قوت گویائی عطا کی اور آلہ گویائی بھی عجیب ہے ، زبان اور دو ہونٹ۔
اس کے بعد فرمایا ﴿ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَيْنَيْنِۙ٠٠٨﴾ (الآیتین) (کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں اور زبان اور ہونٹ نہیں بنائے) یہ استفہام تقریری ہے مطلب یہ ہے کہ ہم نے انسان کو آنکھیں بھی دیں، زبان بھی دی، ہونٹ بھی دیئے، انسان کے یہ اعضاء اس کے لیے بہت بڑے مددگار ہیں، آنکھوں سے دیکھتا ہے، زبان سے بولتا ہے، ہونٹوں سے حروف بھی ادا ہوتے ہیں اور بہت بڑی خوبصورتی کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے۔ ان اعضاء کے ذریعے انسان اپنی دنیاوی زندگی بھی اچھی گزار سکتا ہے اور ان کو اپنے خالق ومالک کی رضا مندی میں استعمال کر کے آخرت کی کامیابی حاصل کرسکتا ہے اسی لیے آخر میں ﴿وَ هَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِۚ٠٠١٠﴾ بھی فرما دیا یعنی ہم نے انسان کو دونوں راستے بتا دیئے خیر و فلاح کا راستہ بھی بتادیا اور شر اور ہلاکت کا راستہ بھی دکھا دیا، اب یہ انسان کی سمجھداری ہے کہ وہ اپنے اعضاء اپنی بصیرت و بصارت کو اپنے فکر و فہم کو اپنی کامیابی کے راہ پر خرچ کرے اپنے خالق ومالک کی شان خالقیت اور شان مالکیت اور شان ربوبیت کو تسلیم کرے اور اس کے مطابق زندگی کو بھی گزارے اپنا بھی بھلا کرے اور اللہ کی دوسری مخلوق سے بھی اچھا سلوک کرے۔ اس آخری بات کو آئندہ آیت میں بیان فرمایا ہے۔
5:۔ ” الم نجعل “ انعامات اور قدرت کاملہ کا بیان ہے۔ استفہام تقریر ہے۔ ہم نے انسان کو دیکھنے کے لیے دو آنکھیں دیں تاکہ وہ دلائل قدرت کا مشاہدہ کرے۔ بولنے کے لیے زبان دی اور دو ہونٹ دئیے جو بولنے میں معاون ہیں تاکہ وہ زبان سے حق بات پوچھے، حق کا اقرار کرے اور اس کی تبلیغ کرے اور ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں راستے دکھا دئیے اور دلائل سے دونوں کو واضح کردیا۔ اب انسان کو چاہئے کہ وہ خدادا قوتوں سے فائدہ اٹھائے اور حق کو قبول کرے۔