Surat ul Lail
Surah: 92
Verse: 13
سورة الليل
وَ اِنَّ لَنَا لَلۡاٰخِرَۃَ وَ الۡاُوۡلٰی ﴿۱۳﴾
And indeed, to Us belongs the Hereafter and the first [life].
اور ہمارے ہی ہاتھ آخرت اور دنیا ہے
وَ اِنَّ لَنَا لَلۡاٰخِرَۃَ وَ الۡاُوۡلٰی ﴿۱۳﴾
And indeed, to Us belongs the Hereafter and the first [life].
اور ہمارے ہی ہاتھ آخرت اور دنیا ہے
And truly, unto Us (belong) the last (Hereafter) and the first (this world). This means, `they both belong to Us and I (Allah) am in complete control of them.' Then Allah says, فَأَنذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّى
13۔ 1 یعنی دونوں کے مالک ہم ہی ہیں، ان میں جس طرح چاہیں تصرف کریں اس لئے ان دونوں کے یا ان میں سے کسی ایک کے طالب ہم سے ہی مانگیں کیونکہ ہر طالب کو ہم اپنی مشیت کے مطابق دیتے ہیں۔
[٦] یعنی آخرت کے مالک بھی ہم ہیں اور دنیا کے بھی۔ اب جو شخص ہم سے دنیا ہی طلب کرتا ہے اسے ہم دنیا ہی دیتے ہیں وہ بھی اتنی جتنی ہم چاہتے ہیں اور جو ہم سے آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اسے آخرت تو ضرور دیتے ہیں اور دنیا بھی اتنی ضرور دے دیتے ہیں جتنی اس کے مقدر ہے۔
وان لنا للاخرۃ و الاولی : راستہ بتانا صرف ہمارے ذمے کیوں ہے ؟ اس لئے کہ دنیا اور آخرت دونوں کے بنانے والے اور ان کے مالک ہمیں ہیں، تو ان کا راستہ بھی ہم ہی جانتے ہیں۔
وَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰى ١٣ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔
آیت ١٣{ وَاِنَّ لَـنَا لَلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی ۔ } ” اور ہمارے ہی لیے ہے اختیار آخرت کا بھی اور دنیا کا بھی۔ “ ظاہر ہے آخرت میں اللہ تعالیٰ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ کون انسان کامیاب ہوا ہے اور کون ناکام رہا ہے۔ اور دنیا میں بھی وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی قوم اب اس کی زمین پر بوجھ بننے جا رہی ہے اور اس طرح کے کس بوجھ سے کس وقت اس نے زمین کو آزاد کرنا ہے۔ گزشتہ سورت (سورۃ الشمس) میں قوم ثمود کے بارے میں اللہ کے ایسے ہی ایک فیصلے کا ذکر ہم بایں الفاظ پڑھ آئے ہیں : { فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰٹہَا ۔ } ” تو الٹ دیا ان پر عذاب ان کے رب نے ان کے گناہ کی پاداش میں اور سب کو برابر کردیا “۔ یعنی جب اس قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کا رسول (علیہ السلام) واضح نشانیوں کے ساتھ آگیا ‘ پھر اللہ کے رسول (علیہ السلام) نے اللہ کا پیغام پہنچا کر اور اپنے کردار و عمل کا نمونہ پیش کر کے اس قوم پر اتمامِ حجت کردیا۔ اس کے بعد بھی جب وہ قوم کفر اور سرکشی پر اڑی رہی تو انہیں ایسے ملیامیٹ کردیا گیا جیسے کسی باغ کی صفائی کے لیے اس کا ساراکوڑا کرکٹ جمع کر کے اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔
8 This statement has several meanings and all are correct: (1) ' "That from the world till the Hereafter, you are nowhere beyond Our grasp, for Ours are both this and the next world;" (2) "that both this world and the Hereafter are in any case under Our sovereignty, whether you follow the way shown by Us or not. If you adopt error, you will not harm Us but only yourselves; and if you adopt the right way, you will not do any good to Us, but will do good only to yourselves. Your disobedience cannot cause any decrease in Our sovereignty and your obedience cannot cause any increase in it;" (3) "that We alone are Master of both the worlds. If you seek the world, We alone can grant it; and if you seek the well being of the Hereafter, We alone have the power to bestow it too," This very theme has been expressed in Al-`Imran: 145: "Whoso makes effort with the intention of the reward of this world, We will reward him in this world, and whoso makes effort with the intention of the reward of the Hereafter, We shall grant him thereof", and the same has been expressed in Ash-Shu`ara: 20, thus: "Whoever seeks the harvest of the Hereafter, We do increase his harvest; and whoever seeks the harvest of this world, We do give him of it here, but in the Hereafter he will have no share at all." (For explanation, see E.N. 105 of Al`Imran, E.N. 37 of Ash-Shura) .
سورة الَّیْل حاشیہ نمبر :8 اس ارشاد کے کئی مفہوم ہیں اور وہ سب صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ دنیا سے آخر تک تم کہیں بھی ہماری گرفت سے باہر نہیں ہو ، کیونکہ دونوں جہانوں کے ہم ہی مالک ہیں ، دوسرے یہ کہ ہماری ملکیت دنیا اور آخرت دونوں پر بہرحال قائم ہے خواہ تم ہماری بتائی ہوئی راہ پر چلو یا نہ چلو ۔ گمراہی اختیار کرو گے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑو گے ، اپنا ہی نقصان کر لو گے ، اور راہ راست اختیار کرو گے تو ہمیں کوئی نفع نہ پہنچاؤ گے ، خود ہی اس کا نفع اٹھاؤ گے ۔ تمہاری نافرمانی سے ہماری ملک میں کوئی کمی نہیں ہو سکی اور تمہاری فرمانبرداری سے اس میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا ۔ تیسرے یہ کہ دونوں جہانوں کے مالک ہم ہی ہیں ۔ دنیا چاہو گے تو وہ بھی ہم ہی سے تمہیں ملے گی اور آخرت کی بھلائی چاہو گے تو اس کا دینا بھی ہمارے ہی اختیار میں ہے ۔ یہی بات ہے جو سورہ آل عمران آیت 145 میں فرمائی گئی ہے کہ وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَن يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا جو شخص ثواب دنیا کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم دنیا ہی میں سے دیں گے اور جو ثواب آخرت کے ارادہ سے کام کرے گا اس کو ہم آخرت میں سے دیں گے ۔ اور اسی کو سورہ شوری آیت 20 میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ مَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَن كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِن نَّصِيبٍ جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے ( تشریح کے لیے ملاحظ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، آل عمران ، حاشیہ 105 ۔ جلد چہارم الشوری ، حاشیہ 27 ) ۔
5: لہٰذا یہ حق ہم کو ہی حاصل ہے کہ دُنیا میں رہنے کے لئے اِنسان کو احکام اور ہدایات عطا فرمائیں، اور آخرت میں اُن اَحکام و ہدایات کی تعمیل یا خلاف ورزی پر ثواب اور عذاب کا فیصلہ کریں۔
(92:13) وان لنا للاخرۃ والاولی ۔ للاخرۃ معطوف علیہ والاولی معطوف۔ دونوں مل کر اسم ان ۔ لنا خبر ان۔ مجموعا جملہ عطف جملہ سابقہ پر ہے اور آخرت و دنیا (دونوں) ہمارے ہی بس میں ہیں۔
ف 10 یعنی دونوں ہمارے اختیار و تصرف میں ہیں لہٰذا جو شخص ان دونوں کا یاد دونوں میں سے کسی ایک کا طالب ہو، اسے ہمیں سے مطالبہ کرنا چاہیے، یا یہ مطلب ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کا ثواب ہمیں دینے والے ہیں۔
6۔ تاکہ ایمان وطاعت اختیار کر کے اس سے بچو اور کفر و معصیت اختیار کر کے اس میں نہ جاو کیونکہ اس میں جانے اور نہ جانے کی یہی اسباب ہیں۔
وان ................ والاولی (13:92) ” اور بیشک آخرت اور دنیا ، دونوں کے ہم مالک ہیں “۔ لہٰذا جو شخص اللہ سے دور ہونا چاہتا ہے وہ کہاں جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں تو کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ ان دونوں حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ راستہ بتانا اللہ نے اپنے ذمہ فرض قرار دیا ہے اور پھر سب لوگوں کو اللہ کے سامنے آنا ہے اور اللہ کے مقابلے میں ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ آغاز و انجام کا مالک اللہ ہے ، تو اللہ نے انسانوں کو خبردار کردیا کہ تم بھڑکتی ہوئی آگ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
﴿وَ اِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَةَ وَ الْاُوْلٰى ٠٠١٣﴾ (اور بلاشبہ ہمارے ہی لیے آخرت اور اولیٰ ہے) ۔ دنیا کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کو ہر طرح کا اختیار ہے جیسا چاہے اپنی مخلوق میں تصرف فرمائے اور آخرت میں بھی اسی کا اختیار ہوگا وہ اپنے اختیار سے اہل ہدایت کو انعام دے گا اور اہل ضلالت کو عذاب میں مبتلا فرمائے گا۔ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میں خود مختار ہوں اور آخرت میں میرا کچھ نہ بگڑے گا۔
(13) اور ہمارے ہی قبضے میں ہے وہ عالم اور یہ عالم یعنی آخرت اور دنیا مطلب یہ ہے کہ وہاں ہماری حکومت ہے اور یہاں بھی ہماری بادشاہی ہے اسی حکومت کی بنا پر اس عالم میں احکام جاری فرماتے ہیں اور اسی بادشاہت کی بنا پر اس عالم میں احکام بجا لانے والوں کو صلہ اور نافرمانی کرنیوالوں کو سزا دیتے ہیں۔