Surat ul Lail

Surah: 92

Verse: 15

سورة الليل

لَا یَصۡلٰىہَاۤ اِلَّا الۡاَشۡقَی ﴿ۙ۱۵﴾

None will [enter to] burn therein except the most wretched one.

جس میں صرف وہی بد بخت داخل ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

None shall enter it save the most wretched. meaning, none will enter surrounded by it on all sides except the most wretched. Then Allah explains who this (the most wretched) is by His saying,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لا یصلھا الا الاشقی…: اسی آیت سے مرجیہ (ایک باطل فرقہ جس کے نزدیک ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے) نے استدلال کیا ہے کہ جہنم میں صرف کافر ہی جائیں گے، کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ کلیکن یہ عقیدہ ان صریح آیات و احادیث کے خلاف ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے مسلمان بھی جن کو اللہ تعالیٰ کچھ سزا دینا چاہے گا، کچھ عرصہ کے لئے جہنم میں جائیں گے، پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ملائکہ اور یدگر صالحین کی شفاعت یا محض اللہ کی رحمت سے نکال لئے جائیں گے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے :(ان اللہ لایغفران یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآئ) (النسائ : ١١٦)” بیشک اللہ یہ بات معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا۔ “ اب اگر وہ شخص جو شرک نہیں کرتا بلکہ مسلمان ہے، وہ جہنم میں جائے گا ہی نہیں تو ” یغفر مادون ذلک لمن یشآئ “ (اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا) بالکل بےمعنی کالم بن جائے گا، پھر تو یوں کہنا چاہیے کہ اس کے علاوہ وہ سب کچھ معاف کر دے گا،” لمن یشآئ “ (جسے چاہے گا) کی شرط کی ضرورت ہی نہیں۔ صحیح بخاری میں مذکور احادیث شفاعت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ اس آیت میں جو کہا گیا ہے کہ جہنم میں صرف بڑے بدبخت داخل ہوں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ پکے کافر اور نہایت بدبخت ہیں جہنم دراصل انھی کے لئے بنائی گئی ہے، جس میں وہ لازمی اور حتمی طور پر اور ہمیشہ کے لئے داخل ہوں گے۔ اگر کچھ نافرمان قسم کے مسلمان جہنم میں جائیں گے تو وہ لازمی اور حتمی طور پر اور ہمیشہ کے لئے نہیں جائیں گے، بلکہ بطور سزا داخل ہوں گے اور ان کا یہ دخول عارضی ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى الَّذِي كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ (None will enter it but the wretched one who rejected [ the truth ] and turned away....92:16). This describes the fire of Hell. It is quite clear that only a kafir will reject Allah and His Messenger. Apparently, it seems that a sinful believer who does not reject the truth will not enter Hell, whereas the Qur&an and Hadith are replete with clear texts that a sinful believer will enter Hell, unless he had repented, or someone interceded for him, or was forgiven out of pure Grace. He will abide in Hell until he has received punishment for the sins he has committed. After paying for his sins, he will be taken out of Hell, and through the blessings of his faith, he will be admitted into Paradise. Apparently, the wordings of the verse are contrary to this interpretation. Therefore, it is necessary that the interpretation of the verse under comment be brought in line with other Qur&anic verses and authentic Ahadith. It’ s plain and simple interpretation would be that this verse refers to entering the Hell for good, which is peculiar to the unbelievers. They will be tortured eternally in the Hell-fire. The sinful believers, on the other hand, will receive punishment for their sins and will eventually - at some time or the other - be taken out of Hell. Other scholars of Tafsir have given some other interpretations too, which can also be appropriate. Tafsir Mazhari has come up with another explanation according to which &the wretched one& and &the most God-fearing one& should not be taken in its general sense. Both words refer particularly to people who lived during the blessed time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . From amongst them, no Muslim, who lived at that time, will enter Hell through the blessings of the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) company, even though he might have committed some sins incidentally. All of The Blessed Companions will be Saved from the Ordeal of Hell The reason for this is that the Companions rarely ever committed sins. Furthermore, even if they did commit sins, they must have repented by dint of the fear of the Hereafter - as their living conditions indicate . If any of them committed a sin, his good deeds are so many that they can wipe out the sin as the Qur&an says: إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ &...Surely good deeds erase bad deeds [ 11:114] & Adopting the company of the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم is an act that can outweigh all other good deeds. The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم is reported to have said regarding the righteous members of the community: ھم قوم لا یشقیٰ جلیسھم ولا یخاف انیسھم &The one who sits with them is never deprived, and the one who feels happy in their company is never unsuccessful.& [ Sahihain ] Obviously, a person who sits in the company of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and is his intimate associate cannot be wretched. Therefore, there are express texts available in the authentic Traditions that all the noble Companions are safe from the punishment of Hell. The Qur&an itself bears testimony that – وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ...and to each Allah has promised good [ 4:95] & Husna in this statement refers to &Paradise&. In another verse, the Qur&an says: إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ Surely, those for whom the good (news) from Us has come earlier shall be kept far away from it. [ 21:101] Husna in this statement also refers to &Paradise&. The pronoun &it& in the phrase &from it& refers to &Hell&, signifying that they will be far away from Hell. A Tradition says that &Hell-Fire will not touch him who has seen me&. [ Tirmidhi transmitted it from Jabir (رض) ].

لایصلھآ الا الاشقی الذی کذب وتولی، یہ نار جہنم کے حال کا بیان ہے کہ اس میں داخل نہیں ہوگا مگر وہ ہی شخص جو بدنصیب ہے اور جس نے اللہ رسول کی تکذیب کی اور ان کی اطاعت سے روگردانی کی اور یہ ظاہر ہے کہ اللہ و رسول کی تکذیب کرنیوالا صرف کافر ہی ہوسکتا ہے۔ اس سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مومن گناہگار جو تکذیب کا مجرم نہیں جہنم میں نہیں جائے گا، حالانکہ قرآن و حدیث کی بیشمار نصوص اس سے بھری ہوئی ہیں کہ مومن بھی جو گناہ کرتا ہے اگر اس نے توبہ نہ کرلی یا کسی کی شفاعت سے یا خالص رحمت سے اس کو معاف نہ کردیا گیا تو وہ بھی جہنم میں جائے گا اور اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے تک جہنم میں رہے گا، البتہ سزا بھگتنے کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا اور پھر ببرکت ایمان جنت میں داخل ہوجائیگا، بظاہر اس آیت کے الفاظ اس کے خلاف ہیں اس لئے ضروری ہے کہ مراد اس آیت کی وہ ہو جو دوسری آیات قرآن اور احادیث صحیحہ کیخلاف نہ ہو، اس کی بہت آسان توجیہ تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لی گئی ہے کہ یہاں دخول جہنم سے مراد وہ دخول ہے جو ہمیشہ کے لئے ہو اور ایسا دخول صرف کافر کے ساتھ مخصوص ہے مومن کسی نہ کسی وقت بالاخر اپنے گناہ کی سزا پوری کرنے کے بعد جہنم سے نکال لیا جائیگا، علماء مفسرین نے اس کے سوا دوسری کچھ توجیہات بھی بیان فرمائی ہیں وہ بھی اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں اور تفسیر مظہری میں اس کی ایک توجیہ یہ کی ہے کہ اس آیت میں اشقی ٰ اور اتقیٰ سے مراد عام نہیں۔ بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں موجود تھے، ان موجودین میں سے کوئی مسلمان باوجود گناہ سرزد ہونے کے بھی برکت صحبت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جہنم میں نہیں جائے گا۔ صحابہ کرام سب کے سب جہنم سے محفوظ ہیں :۔ وجہ یہ ہے کہ اول تو ان حضرات میں کسی سے بھی گناہ کا صدور بہت ہی شاذ و نادر ہوا ہے اور بوجہ خوف آخرت کے ان کے حالات سے یہ لازم معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی سے کوئی گناہ ہوا بھی ہے تو اس نے توبہ کر لیہو گی۔ پھر اس کے ایک گناہ کے مقابلے میں اس کے اعمال حسنہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی وجہ سے بھی یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ ان الحسنت یدھبن السیات یعنی نیک اعمال برے اعمال کا کفارہ بنجاتے ہیں اور خود صحبت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایسا عمل ہے جو تمام اعمال حسنہ پر غالب ہے۔ حدیث میں صلحاء امت کے بارے میں آیا ہے ہم قوم لایشقے جلیسم ولایخاب انیسم (صحیحین) یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والا شقی و نامراد نہیں ہوسکتا اور جو ان سے مانوس ہو وہ محروم نہیں رہ سکتا۔ تو جو شخص سیدالانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جلیس اور انیس ہو وہ کیسے شقی ہوسکتا ہے۔ اسی لئے احادیث صحیحہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں کہ صحابہ کرام سب کے سب ہی عذاب جہنم سے بری ہیں۔ خود قرآن کریم میں صحابہ کرام کے بارے میں یہ موجود ہے وکلاً وعدا اللہ الحسنی، یعنی ان میں سے ہر ایک کے لئے اللہ نے حسنی یعنی جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور دوسری آیت میں ہے ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون یعنی جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے حسنی مقدر ہوچکی ہے وہ نار جہنم سے دور کریں گے اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جہنم کی آگ اس شخص کو نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا ہے (ترمذی عن جابر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَصْلٰىہَآ اِلَّا الْاَشْقَى۝ ١٥ ۙ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ شقي الشَّقَاوَةُ : خلاف السّعادة، وقد شَقِيَ «2» يَشْقَى شَقْوَة، وشَقَاوَة، وشَقَاءً ، . قال عزّ وجلّ : فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] ( ش ق و ) اشقاوۃ ( بدبختی ) یہ سعادت کی ضد ہے اور شقی ( س) شقوۃ وشقاوۃ وشقاء کے معنی بدبخت ہونے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔: فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ فَلا يَضِلُّ وَلا يَشْقى[ طه/ 123] وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥{ لَا یَصْلٰـٹہَآ اِلَّا الْاَشْقَی ۔ } ” نہیں پڑے گا اس میں مگر وہ جو انتہائی بدبخت ہے۔ “ ظاہر ہے جس انسان کو آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آجانے کے بعد بھی حقیقت نظر نہ آئی اس سے بڑا بدبخت اور کون ہوسکتا ہے اور اس سے زیادہ جہنم کے گڑھے میں گرنے کا مستحق کون ہوسکتا ہے ؟ کیونکہ اگر کوئی شخص اندھیرے میں یا کم روشنی میں ٹھوکر کھاجائے تو اس کی ٹھوکر کا پھر بھی کچھ نہ کچھ جواز بنتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دن کی روشنی میں اس وقت راستہ پہچاننے سے انکار کر دے جب سورج نصف النہار پر چمک رہا ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے وہ خود ہی قصور وار ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(92:15) لایصلھا الا الاشقی : لا یصلی مضارع منفی واحد مذکر غائب صلی (باب سمع) مصدر۔ وہ داخل ہوگا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع نارا ہے۔ اس آگ میں نہیں کوئی داخل ہوگا۔ الا الاشقی۔ استثناء متصل۔ یعنی سوائے اشقی (بدبخت) کے کوئی دوامی طور پر اس میں داخل نہیں ہوگا۔ اور اشقی وہ کافر اور مشرک ہے الذی کذب وتولی (اگلی آیت) اس جگہ اشقی (اسم تفضیل) بمعنی شقی (صفت مشبہ) کے ہے۔ اس لئے کافر بھی اس میں داخل ہے اور وہ مسلم فاسق بھی جس کی مغفرت نہ کی جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لا یصلھا الا الا شقی (15:92) ” اس میں نہیں جھلسے گا مگر وہ انتہائی بدبخت “۔ اور یہ انتہائی بدبخت وہ ہوگا جس کا نصیبہ تمام انسانوں میں برا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ آگ میں جھلس جانے کے بعد پھر وہ کہاں جائے گا اور اس بدبخت کی مزید تشریح۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) کہ اس میں سوائے اس بدبخت کے اور کوئی داخل نہ ہوگا۔