Surat uz Dhuha

Surah: 93

Verse: 1

سورة الضحى

وَ الضُّحٰی ۙ﴿۱﴾

By the morning brightness

قسم ہے چاشت کے وقت کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reason for the Revelation of Surah Ad-Duha Imam Ahmad recorded from Jundub that he said, "The Prophet became ill, so he did not stand for prayer for a night or two. Then a woman came and said, `O Muhammad! I think that your devil has finally left you.' So Allah revealed, وَالضُّحَى وَالَّيْلِ إِذَا سَجَى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى By the forenoon. By the night when it darkens. Your Lord has neither forsaken you nor hates you. Al-Bukhari, Muslim, At-Tirmidhi, An-Nasa'i, Ibn Abi Hatim and Ibn Jarir, all recorded this Hadith. This Jundub (who narrated it) is Ibn `Abdullah Al-Bajali Al-`Alaqi. In a narration from Al-Aswad bin Qays, he said that he heard Jundub say that Jibril was slow in coming to the Messenger of Allah . So the idolators said, "Muhammad's Lord has abandoned him." So Allah revealed, وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى

مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہوگئے اور ایک یا دو راتوں تک آپ تہجد کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکے تو ایک عورت کہنے لگی کہ تجھے تیرے شیطان نے چھوڑ دیا اس پر یہ اگلی آیتیں نازل ہوئیں ( بخاری مسلم وغیرہ ) حضرت جندب فرماتے ہیں کہ جبرائیل کے آنے میں کچھ دیر ہوئی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ تو چھوڑ دئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے والضحٰی سے ماقلفی تک کی آیتیں اتاریں ، اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی پر پتھر مارا گیا تھا جس سے خون نکلا اور جس پر آپ نے فرمایا: ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت یعنی تو صرف ایک انگلی ہے اور راہ اللہ میں تجھے یہ زخم لگاہے ۔ طبعیت کچھ ناساز ہو جانے کی وجہ سے دو تین رات آپ بیدار نہ ہوئے جس پر اس عورت نے وہ ناشائستہ الفاظ نکالے اور یہ آیتیں نازل ہوئیں کہا گیا ہے کہ یہ عورت ابو لہب کی بیوی ام جمیل تھی اس پر اللہ کی مار ، آپ کی انگلی کا زخمی ہونا ، اور اس موزوں کلام کا بےساختہ زبان مبارک سے ادا ہونا تو بخاری و مسلم میں بھی ثابت ہے لیکن ترک قیام کا سبب اسے بتانا اور اس پر ان آیتوں کا نازل ہونا یہ غریب ہے ، ابن جریر میں ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ آپ کا رب آپ سے نہیں ناراض نہ ہو گیا ہو؟ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ اور روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں دیر ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرائے اس پر حضرت خضرت خدیجہ نے یہ سبب بیان کیا اور اس پر یہ آیتیں اتریں ، یہ دونوں آیتیں مرسل ہیں اور حضرت خدیجہ کا نام تو اس میں محفوظ نہیں معلوم ہوتا ہاں یہ ممکن ہے کہ ام المومنین نے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ فرمایا ، واللہ اعلم ، ابن اسحاق اور بعض سلف نے فرمایا ہے کہ جب حضرت جبرائیل اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے تھے اور بہت ہی قریب ہوگئے تھے اس وقت اسی سورت کی وحی نازل فرمائی تھی ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ وحی کے رک جانے کی بنا پر مشرکین کے اس ناپاک قول کی تردید میں یہ آیتیں اتریں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نیدھوپ پڑھنے کے وقت دن کی روشنی ، اور رات کے سکون اور اندھیرے کی قسم کھائی جو قدرت اور خلق خالق کی صاف دلیل ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے ۔ ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ ) 92- الليل:1 ) اور جگہ ہے ( فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۚ 96؀ ) 6- الانعام:96 ) ، مطلب یہ ہے کہ اپنی اس قدرت کا یہاں بھی بیان کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ تیرے رب نے نہ تو تجھے چھوڑا نہ تجھ سے دشمنی کی ، تیرے لیے آخرت اس دنیا سے بہت بہتر ہے ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے ۔ اور سب سے زیادہ تارک دنیا تھے ، آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات ہرگز مخفی نہیں رہ سکتی ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بورئیے پر سوئے ، جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑگئے ۔ جب بیدار ہوئے تو میں آپ کی کروٹ پر ہاتھ پھیر نے لگا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ اس بورئیے پر کچھ بچھا دیا کریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا واسطہ؟ میں کہاں دنیا کہاں؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس راہرو سوار کی طرح ہے جو کسی درخت تلے ذرا سی دیر ٹھہر جائے پھر اسے چھوڑ کر چل دے ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے پھر فرمایا تیرا رب تجھے آخرت میں تیری امت کے بارے میں اس قدر نعمتیں دے گا کہ خوش ہو جائے ان کی بڑی تکریم ہو گی اور آپ کو خاص کر کے حوض کوثر عطا فرمایا جائے گا ۔ جس کے کانرے کھوکھوکھلے موتیوں کے خیمے ہوں گے جس کی مٹی خالص مشک کی ہو گی ، یہ حدیثیں عنقریب آرہی ہیں ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ایک روایت میں ہے کہ جو خزانے آپ کی امت کو ملنے والے تھے وہ ایک ایک کرکے آپ کو بتا دئیے گئے ۔ آپ بہت خوش ہوئے اس پر یہ آیت اتری ۔ جب ایک ہزار محل آپ کو دئیے گئے ہرہر محل میں پاک بیویاں اور بہترین غلام ہیں ۔ ابن عباس تک اس کی سند صحیح ہے اور بہ ظاہر ایسی بات بغیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے روایے نہیں ہو سکتی ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے اہل بیت میں سے کوئی دوزخ میں نہ جائے ۔ حسن فرماتے ہیں اس سے مراد شفاعت ہے ۔ ابن ابی شیبہ میں ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت دنیا پر پسند کر لی ہے ، پھر آپ نے آیت ولسوف کی تلاوت فرمائی ۔ کہ آپ کی یتیمی کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا بچاؤ کیا ۔ اور آپ کی حفاظت کی اور پرورش کی اور مقام و مرتبہ عنایت فرمایا ۔ آپ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا یعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا چھ سال کی عمر میں والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہو گیا ۔ اب آپ دادا کی کفالت میں تھے لیکن جب آٹھ سال کی آپ کی عمر ہوئی تو دادا کا سایہ بھی اٹھ گیا ۔ اب آپ اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آئے ، ابو طالب دل و جان سے آپ کی نگرانی اور امداد میں رہے ۔ آپ کی پوری عزت و توقیر کرتے اور قوم کی مخالفت کے چڑھتے طوفان کو روکتے رہتے تھے اور اپنی جان کو بطور ڈھال کے پیش کردیا کرتے تھے ۔ کیونکہ چالیس سال کی عمر میں آپ کو نبوت مل چکی تھی اور قریش سخت تر مخالفت بلکہ دشمن جان ہوگئے تھے ابو طالب باوجود بت پرست مشرک ہونے کے آپ کا ساتھ دیتا تھا ۔ اور مخالفین سے لڑتا بھڑتا رہتا تھا ۔ یہ تھی منجانب اللہ حسن تدبیر کہ آپ کی یتیمی کے ایام اسی طرح گذرے اور مخالفین سے آپ کی خدمت اس طرح لی ، یہاں تک کہ ہجرت سے کچھ پہلے ابو طالب بھی فوت ہوگئے ، اب سفہاء و جہلا قریش اٹھ کھڑے ہوئے تو پروردگار عالم نے آپ کو مدینہ تشریف کی طرف ہجرت کرنے کی رخصت عطا فرمائی اور اوس و خزرج جیسی قوموں کو آپ کا انصاد بنا دیا ۔ ان بزرگون نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو جگہ دی ۔ مدد کی ، حفاظت کی اور مخالفین سے سینہ سپر ہو کر مردانہ وار لڑائیاں کیں ۔ اللہ ان سب سے خوش رہے ۔ یہ سب کا سب اللہ کی حفاظت اور اس کی عنایت احسان اور اکرام سے تھا ۔ پھر فرمایا کہ راہ بھولاپاکر صحیح راستہ دکھا دیا جیسے اور جگہ ہے ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان الخ یعنی اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمھاری طرف روح کی وحی کی ۔ تم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے ؟ تمھیں نہ کتاب کی خبر تھی بلکہ ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا ہدایت کردی ۔ بعض کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں مکہ کی گلیوں میں گم ہوگئے تھے اس وقت اللہ نیلوٹا دیا ۔ بعض کہتے ہیں شام کی طرف اپنے چچا کے ساتھ جاتے ہوئے رات کو شیطان نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر راہ سے ہٹا کر جنگل میں ڈال دیا ۔ پس جبرائیل علیہ السلام آئے اور پھونک مار کر شیطان کو تو حبشہ میں ڈال دیا اور سواری کو راہ لگا دیا ۔ بگوی نے یہ دونوں قول نقل کئے ہیں پھر فرماتا ہے کہ بال بچوں والے ہوتے ہوئے تنگ دست پاکر ہم نے آپ کو غنی کر دیا ، پس فقیر صابر اور غنی شاکر ہونے کے درجات آپ کو مل گئے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ سب حال نبوت سے پہلے کے ہیں بخاوی و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تونگری مال و اسباب کی زیادتی سے نہیں بلکہ حقیقی تونگری وہ ہے جس کا دل بےپرواہ ہو ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے اس نے فلاح پالی جسے اسلام نصیب ہوا اور جو کافی ہوا ، اتنا رزت بھی ملا اللہ کے دئیے ہوئے پر قناعت کی توفیق بھی ملی ، پھر فرمایا ہے کہ یتیم کو حقیر جان کر نہ ڈانٹ ڈپٹ کر بلکہ اس کے ساتھ احسان و سلوک کر اور اپنی یتیمی کو نہ بھول ، قتادہ فرماتے ہیں یتیم کے لیے ایسا ہو جانا چاہیے جیسے سگا باپ اولاد پر مہربان ہوتا ہے ، سائل کو نہ جھڑک جس طرح تم بےراہ تھے اور اللہ نے ہدایت دی تو اب جو تم سے علمی باتیں پوچھے صحیح راستہ دریافت کرے تو تم اسے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو ، غریب مسکین ضعیف بندوں پر تکبر تجبر نہ کرو ، انہیں ڈانٹو ڈپٹو نہیں برا بھلا نہ کہو سخت سست نہ بولو ، اگر مسکین کو کچھ نہ کرو ، تو بھی بھلا اچھا جواب دے ۔ نرمی اور رحم کا سلوک کر ، پھر فرمایا کہ اپنے رب کی نعمتیں بیان کرتے رہو ۔ یعنی جس طرح تمھاری فقیری کو ہم نے تونگری سے بدل دیا ، تم بھی ہماری ان نعمتوں کو بیان کرتے رہو ، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ بھی تھا واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بھا علیک قابیلھا واتمھا علینا یعنی اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی شکر گذاری کرنے والا ان کی وجہ سے تیری ثنا بیان کرنے والا ان کا اقرار کرنے والا کردے اور ان نعمتوں کو ہم پورا کر دے ۔ ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ تنعمتوں کی شکر گذاری میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کا بیان ہو ، مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے تھوڑے پر شکر نہ ادا کیا اس نے زیادہ پر بھی شکر نہیں کیا ۔ جس نے لوگوں کی شکر گذاری نہ کی اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا ۔ نعمتوں کا بیان بھی شکر ہے اور ان کا بیان نہ کرنا بھی ناشکری ہے ، جماعت کے ساتھ رہنا رحمت کا سبب ہے اور تفرقہ عذاب کا باعث ہے ، اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ بخاری و مسلم میں حضرت انس سے مروی ہے کہ مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انصار سارا کا سارا اجر لے گئے فرمایا نہیں جب تک کہ تم ان کے لیے دعا کیا کرو اور ان کی تعریف کرتے رہو ، ابو داؤد میں ہے اس نے اللہ کا شکر ادا نہ کیا جس نے بندوں کا شکر ادا نہ کیا ۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ جسے کوئی نعمت ملی اور اس نے اسے بیان کیا تو وہ شکر گذار ہے اور جس نے اسے چھپا یا اس نے ناشکری کی ۔ اور روایتمیں ہے کہ جسے کوئی عطیہ دیا جائے اسے چاہیے کہ اگر ہو سکے تو بدلہ اتار دے اگر نہ ہو سکے تو اس کی ثنا بیان کرے جس نے ثنا کی وہ شکر گذا ہوا اور جس نے اس نعمت کا اظہار نہ کیا اس نے ناشکری کی ۔ ( ابو داؤد ) مجاہد فرماتے ہیں یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے ، ایک روایت میں ہے کہ قرآن مراد ہے ، حضرت علی فرماتے ہیں طلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کرو ، محمد بن اسحاق کہتے ہیں جو نعمت و کرامت نبوت کی تمھیں ملی ہے اسے بیان کرو اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والوں میں سے جن پر آپ کو اطمینان ہوتا در پردہ سب سے پہلے پہل دعوت دینی شروع کی اور آپ کر نماز فرض ہوئی جو آپ نے ادا کی ۔ سورۃ الضحیٰ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کے احسان پر اس کا شکر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 چاشت اس وقت کو کہتے ہیں، جب سورج بلند ہوتا ہے۔ یہاں مراد پورا دن ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والضحی ، والیل اذا سجی …” الضحی ‘ ‘ سورج طلوع ہونے کے بعد جب پوری طرح روشن ہوجاتا ہے۔ ” سجی “ ” سجا یسجو سجوا “ (ن) پر سکون ہونا۔ ” ودع “ ” ودع یدع “ (چھوڑنا) سے باب تفعیل ہے جو چھوڑنے میں مبالغے کا معین رکھتا ہے۔ ” قلی “ “ ” قلی یقلی قلی وقلاء “ (ض ، س)” الرجل ابغضہ “ کسی سے بغض رکھنا۔ (٢) جندب بن سفیان (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوگئے تو دو یا تین رتایں (تہجد کے لئے) نہ اٹھے۔ ایک عورت ائٓی اور کہنے لگی :” اے محمد ! مجھے امید ہے کہ تمہارا شیطان تمہیں چھوڑ گیا ہے، دو تین راتوں سے میں نے اسے تمہارے پاس آتے نہیں دیکھا۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ (بخاری، التفسیر، باب قولہ :(ماودع ربک و ما قلی) ٣٩٥٠) جندب (رض) عنہماہی سے مروی دوسری روایت میں ہے کہ ایک دفعہ جبریل (علیہ السلام) نے آنے میں دیر کردی، یہاں تک کہ مشرکین کہنے لگے کہ محمد (ﷺ) کو اس کے رب نے چھوڑ دیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ (طبری : ٢٣/٣٨٨، ح : ٣٨٨٥٨) قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ دوپہر کو سورج خوب روشن ہوتا ہے، اس کے بعد سیاہ رات چھا جاتی ہے تو کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ہے، تو وحی کی روشنی کے بعد کچھ دیر اگر وقفہ ہوگیا تو کیوں سمجھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں چھوڑ دیا ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے ! بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح دن بھر آفتاب کی روشنی و گرمی کے بعد انسانی جسم کو آرام اور سکون کے لئے رات کی ضرورت ہے، اسی طرح وحی کے بار گراں کے بعد طبیعت کو سکون اور مزید وحی کے تحمل کے لئے وقفہ کی ضرورت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Occasion of Revelation Bukhari, Muslim and Tirmidhi have narrated from Sayyidna Jundub (رض) that once a finger of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was wounded and started bleeding, he said: ان انت الّا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت &You are merely a finger that is bleeding; [ what does it matter ] if you are hurt: it all happened in Allah&s cause.& Sayyidna Jundub (رض) عنہ narrated this incident and said that revelation of the Qur&an to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came to a halt, and that Jibra&il (علیہ السلام) stopped coming to him for a while. The unbelievers taunted, saying: |"Mulhammad&s Lord has forsaken him, and is displeased with him.|" Surah Ad-Duha was revealed on this occasion. According to the narration in Bukhari by Sayyidna Jundub (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was unable to wake up for a few nights for tahajjud prayer owing to illness. In this narration, there is no mention of &delay in revelation&. In Timidhi&s narration, there is mention about the &delay in revelation& but no mention about his inability to wake up for tahajjud prayer. These reports are not conflicting. The narrator might have narrated one incident at one time, and reported another incident at another time. The lady who taunted the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was Umm Jamil, the wife of Abu Lahab, as other reports indicate. &Delay in revelation& took place twice. Once in the very early stage of the call. This is known as fatrah al-wahy &temporary break in the revelation&. This was the longest period. Another narration states that when the pagans or the Jews asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about the soul, he promised them that he would give them a reply the next day. However, he forgot to add insha&Allah (if Allah wills). As a result, revelation ceased for a few days. The pagans began to taunt the Holy Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، saying that Allah had abandoned him, and is displeased with him. It was on this occasion that the Surah was revealed.

خلاصہ تفسیر قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب کہ وہ قرار پکڑے (قرار پکڑنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک حقیقی یعنی اس کی ظلمت کا کامل ہوجانا کیونکہ رات میں اندھیری رفتہ رفتہ بڑھتی ہے، کچھ رات گزرنے پر مکمل ہوجاتی ہے، دوسرے مجازی یعنی جانداروں کا اس میں سو جانا اور چلنے پھرنے اور بولنے چالنے کی آوازوں کا ساکن ہوجانا، آگے جواب قسم ہے) کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا اور نہ آپ سے بیزار ہوا (کیونکہ اول تو آپ سے کوئی بات ایسی نہیں ہوئی دوسرے حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ و معصوم بنایا ہے۔ پس آپ کفار کے خرافات و لغویات سے محزون حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس سے محفوظ و معصوم بنایا ہے۔ پس آپ کفار کے خرافات و لغویات سے محزون نہ ہوجائے جو چند روز وحی کی تاخیر کے سبب یہ کہنے لگے کہ آپ کو آپ کے خدا نے چھوڑ دیا ہے، آپ برابر نعمت وحی کے مشرف رہیں گے اور یہ شرف و کرامت تو آپ کے لئے دنیا میں ہے) اور آخرت آپ کے لئے دنیا سے بدرجہا بہتر ہے (پس وہاں آپ کو اس سے زیادہ نعمتیں ملیں گی) اور عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو (آخرت میں بکثرت نعمتیں) دے گا سو آپ (ان کے عطا ہونے سے) خوش ہو اویں گے ( اور جس کی قسم کھائی ہے اس کو اس بشارت سے مناسبت یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ظار میں اپنی قدرت و حکمت کے مختلف نشان ظاہر کرتا ہے دن کے پیچھے رات کو اور رات کے پیچھے دن کو لاتا ہے یہی کیفیت باطنی حالات کی سمجھو۔ اگر سورج کی دھوپ کے بعد رات کی تاریکی کا آنا اللہ تعالیٰ کی خفگی اور ناراضی کی دلیل نہیں اور نہ اس کا کوئی ثبوت ہے کہ اس کے بعد دن کا اجالا کبھی نہ ہوگا تو چند روز وحی کے رکے رہنے سے یہ کیونکر سمجھ لیا جائے کہ آج کل خد اپنے منتخب کئے ہوئے پیغمبر سے خفا اور ناراض ہوگیا اور ہمیشہ کے لئے وحی کا دروازہ بند کردیا، ایسا کہنا تو خدا تعالیٰ کے علم محیط اور حکمت بالغہ پر اعتراض کرنا ہے گویا اس کو خبر نہ تھی کہ جس کو میں نبی بنا رہا ہوں وہ آئندہ چل کر اس کا اہل ثابت نہ ہوگا نعوذ باللہ منہ۔ آگے بعض نعمتوں سے مضمون مذکور کی تائید ہے یعنی) کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر (آپ کو) ٹھکانا دیا ( کہ شکم مادر میں ہونے کے وقت ہی آپ کے والد کی وفات ہوگئی اللہ تعالیٰ نے آپ کے دادا سے پرورش کرایا پھر جب آپ آٹھ برس کے ہوئے تو ان کی بھی وفات ہوگئی تو آپ کے چچا سے پرورش کرایا، ٹھکانہ دینے کا مطلب یہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو (شریعت س) بیخبر پایا سو (آپ کو شریعت کا) رتہ بتلایا (کقولہ تعالیٰ ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان الخ اور وحی سے پہلے شریعت کی تفصیل معلوم نہ ہونا کوئی عیب نہیں) اور اللہ تعالیٰ نے آپ نادر پایا سو مالدار بنادیا (اس طرح کہ حضرت خدیجہ (رض) کے مال میں آپ نے بطور مضاربت کے تجارت کی، اس میں نفع ملا، پھر حضرت خدیجہ نے آپ سے نکاح کرلیا اور اپنا تمام مال حاضر کردیا۔ مطلب یہ کہ آپ ابتدا سے مورد انعامات رہے ہیں آئندہ بھی رہیں گے ان انعامات پر ادائے شکر کا حکم ہے کہ جب ہم نے آپ کو یہ نعمتیں دی ہیں) تو آپ (اس کے شکریہ میں) یتیم پر سختی نہ کیجئے اور سائل کو مت جھڑکئے (یہ تو شکر فعلی ہے) اور اپنے رب کے انعامات (مذکورہ) کا تذکرہ کرتے رہا کیجئے۔ معارف وسائل شان نزول :۔ اس سورت کے سبب نزول کے متعلق بخاری و مسلم میں حضرت جندب بن عبداللہ کی روایت سے آیا ہے اور ترمذی نے حضرت جندب سے یہ روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک انگلی زخمی ہوگئی اس سے خون جاری ہوا تو آپ نے فرمایا، ان انت الا اصب دمیت، وفی سبیل اللہ مالقیت، یعنی تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلودہ ہوگئی اور جو کچھ تکلیف تجھے پہنچی وہ اللہ کی راہ میں ہے (اس لئے کیا غم ہے) حضرت جندب نے یہ واقعہ ذکر کر کے رمایا کہ اس واقعہ کے بعد (کچھ روز) جبرئیل امین کوئی وحی لے کر نہیں آئے تو مشرکین مکہ نے یہ طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے خدا نے چھوڑ دیا اور ناراض ہوگیا، اس پر یہ سورت ضحیٰ نازل ہوئی حضرت جندب کی روایت جو بخاری میں ہے اس میں ایک دورات تہجد کے لئے نہ اٹھنے کا ذکر ہے، وحی میں تاخیر کا ذکر نہیں اور تمذی میں تہجد میں ایک دو رات نہ اٹھنے کا ذکر نہیں صرف وحی میں تاخیر کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں، ہوسکتا ہے کہ دونوں باتیں پیش آئی ہوں، راوی نے کبھی ایک کو بیان کیا کبھی دوسرے کو اور یہ عورت جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طعنہ دیا ام جمیل ابو لہب کی بیوی تھی جیسا کہ دوسری روایات میں ہے اور تاخیر وحی کے واقعات متعدد مرتبہ پیش آئے ہیں ایک شروع نزول قرآن میں پیش آیا جس کو زمانہ فترت وحی کہا جاتا ہے یہ سب سے زیادہ طویل تھا۔ ایک واقعہ تاخیر وحی جا اس وقت پیش آیا جبکہ مشرکین یا یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کی حیقیت کے متعلق سوال فرمایا اور آپ نے بعد میں جواب دینے کا وعدہ فرما لیا، مگر انشاء اللہ نہ کہنے کے سبب کچھ روز تک سلسلہ وحی کا بند رہا اس پر مشرکین نے یہ طعنے دینا شروع کئے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خدا نہ کہنے کے سبب کچھ روز تک سلسلہ وحی کا بند رہا اس پر مشرکین نے یہ طعنے دینا شروع کئے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خدا ان سے ناراض ہوگیا اور ان کو چھوڑ دیا، اسی طرح کا یہ واقعہ ہے جو سورة ضحیٰ کے نزول کا سبب ہوا یہ ضروری نہیں کہ یہ سب واقعات ایک ہی زمانے میں پیش آئے ہوں بلکہ آگے پیچھے بھی ہو سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالضُّحٰى۝ ١ ۙ ضحی الضُّحَى: انبساطُ الشمس وامتداد النهار، وسمّي الوقت به . قال اللہ عزّ وجل : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس/ 1] ، إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات/ 46] ، وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی/ 1- 2] ، وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات/ 29] ، وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى [ طه/ 59] ، وضَحَى يَضْحَى: تَعَرَّضَ للشمس . قال : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] ، أي : لك أن تتصوّن من حرّ الشمس، وتَضَحَّى: أَكَلَ ضُحًى، کقولک : تغدّى، والضَّحَاءُ والغداءُ لطعامهما، وضَاحِيَةُ كلِّ شيءٍ : ناحیتُهُ البارزةُ ، وقیل للسماء : الضَّوَاحِي ولیلة إِضْحِيَانَةٌ ، وضَحْيَاءُ : مُضيئةٌ إضاءةَ الضُّحَى. والأُضْحِيَّةُ جمعُها أَضَاحِي وقیل : ضَحِيَّةٌ وضَحَايَا، وأَضْحَاةٌ وأَضْحًى، وتسمیتها بذلک في الشّرع لقوله عليه السلام : «من ذبح قبل صلاتنا هذه فليُعِدْ» ( ض ح و ) الضحی ٰ ۔ کے اصل معنی دہوپ پھیل جانے اور دن چڑھ آنے کے ہیں پھر اس وقت کو بھی ضحی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس/ 1] سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات/ 46] ایک شام یا صبح وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی/ 1- 2] آفتاب کی روشنی کی قسم اور رات کی تاریکی کی جب چھاجائے ۔ وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات/ 29] اور اسکی روشنی نکالی ۔ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى[ طه/ 59] اور یہ لوگ ( اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہوجائیں ۔ ضحی یضحیٰ شمسی یعنی دھوپ کے سامنے آنا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ۔ یعنی نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاؤ گے ۔ تضحی ضحی کے وقت کھانا کھانا جیسے تغدیٰ ( دوپہر کا کھانا کھانا ) اور اس طعام کو جو ضحی اور دوپہر کے وقت کھایا جائے اسے ضحاء اور غداء کہا جاتا ہے ۔ اور ضاحیۃ کے معنی کسی چیز کی کھلی جانب کے ہیں اس لئے آسمان کو الضواحی کہا جاتا ہے لیلۃ اضحیانۃ وضحیاء روشن رات ( جس میں شروع سے آخر تک چاندنی رہے ) اضحیۃ کی جمع اضاحی اور ضحیۃ کی ضحایا اور اضحاۃ کی جمع اضحیٰ آتی ہے اور ان سب کے معنی قربانی کے ہیں ( اور شرقا قربانی بھی چونکہ نماز عید کے بعد چاشت کے وقت دی جاتی ہے اس لئے اسے اضحیۃ کہاجاتا ہے حدیث میں ہے (9) من ذبح قبل صلوتنا ھذہ فلیعد کہ جس نے نما زعید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کردیا وہ دوبارہ قربانی دے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(1 ۔ 5) قسم ہے پورے دن کی اور رات کی جب کہ وہ تاریک اور سیاہ ہوجائے، جس وقت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس وحی بھیجی ہے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے آپ سے دشمنی کی ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انشاء اللہ کہنا بھول گئے تھے تو اس کے بعد پندرہ روز تک وحی آنا بند رہی۔ تو اس وقت کافر کہنے لگے کہ آپ کے پروردگار نے آپ کو چھوڑ دیا ہے اور آپ سے دشمنی کرلی ہے اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں اور آخرت کا ثواب آپ کے لیے ثواب دنیا سے بدرجہا بہتر ہے، اور اللہ تعالیٰ آپ کو آخرت میں مقام شفاعت ہی عطا فرمائے گا کہ جس سے آپ خوش ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 Here, the word duha has been used in contrast to the night; therefore, it implies the bright hours of the day. A precedent of it are vv. 97-98 of Surah AI-A'raf, which say: Do the people of the settlements now feel secure that Our punishment will not come to them all of a sudden at night, while they might be fast asleep? Or, do they feel secure that Our punishment will not smite them all of a sudden during the day while they might be engaged in pastimes?" In these verses also since the word duha has been used in contrast to the night, it implies the day and not just forenoon.

سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :1 یہاں لفظ ضحی رات کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اس لیے اس سے مراد روز روشن ہے ۔ اس کی نظیر سورہ اعراف کی یہ آیات ہیں: أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ ( 97 ۔ 98 ) کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آ جائے جبکہ وہ سو رہے ہوں؟ اور کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن دہاڑے آ جائے جبکہ وہ کھیل رہے ہوں؟ ان آیات میں بھی چونکہ ضحی کا لفاظ رات کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اس لیے اس سے مراد چاشت کا وقت نہیں بلکہ دن ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١١۔ اگرچہ مفسروں نے اس سورة کی شان نزول میں طرح طرح کی باتیں لکھی ہیں سب سے زیادہ صحیح شان نزول وہی ہے جس کا ذکر صحیحین ١ ؎ کی جندب (رض) کی روایت میں ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت سے پہلے مکہ میں کچھ بیمار ہوگئے تھے اس بیماری کے سبب سے دو تین راتوں تک آپ تہجد کی نماز کو نہیں اٹھے یہ دیکھ کر ام جمیل ابو لہب کی بی بی نے کہا محمد کے رب نے محمد کو چھوڑ دیا۔ اس لئے انہوں نے رات کو اٹھنا بند کردیا۔ ام جمیل کی اس بات سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رنج رفع ہوجانے کی غرض سے یہ سورة نازل فرمائی اور فرمایا کہ اے نبی اللہ کے ‘ نہ اللہ نے تم کو چھوڑ دیا ہے نہ وہ تم سے کچھ خفا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا رنج رفع کرنے کے لئے یہ بھی فرمایا کہ دنیا تو اسی طرح کے رنج و الم پیش آنے کی جگہ ہے مگر چند روزہ دنیا گزر جانے کے بعد اے نبی اللہ کے تمہارے لئے عقبیٰ میں بڑے بڑے درجے ہیں اللہ تعالیٰ کی اسی طرح کی نصیحتوں کے اثر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا کی کسی راحت کی کچھ پرواہ نہیں کرتے تھے چناچہ مسند امام احمد ترمذی ١ ؎ وغیرہ میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن بوریہ پر سونے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو پر نشان پڑگئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں یہ دیکھ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھ کو معلوم ہوتا تو میں بوریہ پر کوئی چیز بچھونے کے طور پر بچھا دیتا۔ یہ سن کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا چند روزہ ہے اس لئے مجھ کو دنیا کی راحت درکار نہیں میری اور دنیا کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی مسافر تھوڑی دیر کسی سایہ دار درخت کے سایہ میں ٹھہر جاتا ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ آیت ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ کی شان نزول کی بابت صحیح سند سے تفسیر ابن ابی حاتم مستدرک ٢ ؎ حاکم بیہقی طبرانی وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک روز الہام کے ذریعہ سے آئندہ زمانہ کا وہ حال معلوم ہوا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد صحابہ کرام کے عہد میں پیش آیا کہ دور دور کے تمام شہر فتح ہوگئے اور اسلام کو نہایت ترقی ہوئی اور امت محمدیہ کو ہر طرح کی راحت نظر آئی۔ اس حال کے معلوم ہونے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت خوش ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو زیادہ خوش کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی۔ حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ دنیا کی راحت کے علاوہ اے نبی اللہ کے تمہاری امت کو اللہ تعالیٰ آخرت میں بھی وہ راحت دینے والا ہے جس سے تم خوش ہوجاؤگے اس معنی کی پوری تائید صحیح ٣ ؎ مسلم کی حضرت عبد اللہ بن عمر کی حدیث سے ہوتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک روز قیامت کے دن کا مت محمدیہ کا انجام یاد کرکے رونے لگے اسی وقت حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی اللہ کے قیامت کے دن میں تمہاری امت کے ساتھ وہ برتاؤ برتوں گا کہ تم خوش ہوجاؤگے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان احسانات کا ذکر فرمایا جو اس نے دنیا میں اپنے رسول پر کئے تھے تاکہ معلوم ہوجائے کہ دنیا جیسی امتحان کی جگہ جب اللہ تعالیٰ کے احسانات کا یہ حال ہے تو عقبیٰ جیسی جگہ میں جو عین احسان کی جگہ ہے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا کیا حال ہوگا پایا تجھ کو بھٹکنا کا یہ مطلب ہے کہ منصب نبوت قرآن کی نصیحتیں ان میں سے کوئی چیز بھی تم کو معلوم نہ تھی حضرت کی پیدائش سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد کا انتقال ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر چھ برس کی تھی جب والدہ کا انتقال ہوگیا اور والدہ کے انتقال کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا عبد المطلب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پرورش اپنے ذمہ لی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر آٹھ برس کی ہوئی تو عبد المطلب کا بھی انتقال ہوگیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پالا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑے ہوئے اور حضرت خدیجہ (رض) سے نکاح ہوجانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تنگ دستی بھی کسی قدر رفع ہوگئی۔ ان ہی باتوں کا ذکر آیتوں میں ہے اور اس ذکر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان کی یتیمی اور تنگ دستی یاد دلا کر یتیموں اور تنگ دستوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی نصیحت فرمائی ہے اور اللہ کے احسان کے بیان کرنے کا یہ مطلب ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کے ہر شخص کو اپنے نبی کی پیروی پر قائم رہنے کی توفیق دے تاکہ اللہ کے رسول کی پیروی کے طفیل سے یہ دولت قیامت کے دن حاصل ہو جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے ان کی امت کے حق میں کیا ہے صحیحین ١ ؎ میں انس (رض) کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی پر قائم نہ رہے تو ایسے لوگوں کو فرشتے حوض کوثر پر سے گھسیٹ کر دوزخ میں لے جانے لگیں گے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے یہ تو میرے طریقہ اور امت کے لوگ ہیں فرشتے کہیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے پر قائم نہیں رہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان فرشتوں کے جواب میں فرمائیں گے ایسے لوگوں کا مجھ سے دور ہی رہنا بہتر ہے اکثر مفسرین نے والضحیٰ سے لے کر ختم قرآن تک ہر سورة کے بعد اللہ اکبر کا کہنا ابی بن کعب کی روایت سے لکھا ہے مگر اس کی سند کا کچھ پتا نہیں لگا۔ (١ ؎ جامع ترمذی۔ ابواب الزھد ص ٧٢ ج ٢۔ ) (٣ ؎ صحیح مسلم باب دعاء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لامتہ وبکائہ وشفقتہ علیہم۔ ص ١١٣ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب اثبات حوض نبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٢٥٢ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(93:1) والضحی واؤ قسمیہ، الضحی مقسم بہٖ ۔ اس کے معنی ہیں وقت چاشت ۔ دن چڑھے۔ وہ وقت جبکہ دھوپ چڑھ جائے اور سورج روشن ہوجائے، آفتاب کی روشنی کی قسم۔ (ض ح و مادہ)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 مراد سا ارا دن ہے اس لئے کہ اگلی آیت میں رات کی قسم کھائی جا رہی ہے۔ (ابن جریر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الضحی۔ آیات ١ تا ١١۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ چھاجاتی ہے یعنی دن کی روشنی اور رات کی تاریکی گواہ ہیں کہ دن کے بعد رات بھی آسکتی ہے پھر خود رات گواہ ہے کہ جب مکمل ہوچکتی ہے تو تاریکی کم ہونے لگتی ہے اور پھر دن آجاتا ہے۔ قبض وبسط۔ یہی حال کیفیات قلب کا بھی ہے کہ کبی واردات بہت تیزا ورروشن ہوتی ہیں یعنی بسط ہوتا ہے اور کبھی قبض کی کیفیت وارد ہوتی ہے اور قبض سے یہ نہیں سمجھاجاسکتا کہ پھر بسط نہ ہوگا چند روز نزول وحی نہ ہواتوکفار نے طعنہ دیا کہ رب نے انہیں چھوڑ دیا ہے تو رب کریم نے جو اباارشاد فرمایا کہ آپ کے پروردگار نے نہ تو آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے خفا ہے کہ آپ معصوم عن الخطانبی ہیں اور اللہ کے محبوب رسول ہیں امام الانبیاء ہیں خود اللہ نے آپ کو ظاہری اور باطنی طور پر ایسے کمالات بخشے ہیں کہ مخلوق میں آپ جیسا کوئی دوسرا نہیں بھلا آپ سے کیوں ہوگابل کہ آپ کی حالت توہرآن پہلے سے بہتر ہوتی چلی جائے گی اور مسلسل ترقی نصیب ہوگی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر آن ترقی نصیب ہوگی۔ نبی کریم کو مبعوث ہونے سے لے کر ہمیشہ ہمیشہ ترقی نصیب ہوتی رہے گی کہ دنیا کی زندگی کا ہر لمحہ ترقی پذیر تھا جب اپ برزق میں جلوہ افروز ہوئے تو قیامت تک جہاں کوئی اللہ کا نام لے گایانی کی کرے گا اس کا اجر آپ کو بھی دیاجائے گا کہ سب آپ کی تعلیمات ہیں فرشتوں کا درود اور خود رب اعلی کا درود اس کے علاوہ ہیں عین میدان حشر میں آپ کا ارشاد ہے کہ مجھے ایسے کلمات سکھائیں جائیں گے جن سے میں دعا کروں گا وہاں بھی ترقی ہورہی ہے اور جنت میں تو آپ کی شان بہت بلند ہے ہر جنتی کو ہر لمحہ پہلے سے بہتر نصیب ہوگایہی حال اہل سلوک کا ہوتا ہے کہ ہر آن ترقی پذیر رہتے ہیں بشرطیکہ اللہ اتباع نبوت پر قائم رکھے کہ ان کی ترقی بوساطت رسول ہوتی ہے۔ اور دنیا میں بھی ہر روز ترقی نصیب ہوتی رہی دین پھیلتا گیا پھر ریاست مدینہ منورہ بنی پھر فتوحات نصیب ہوئیں کفر تباوہ ہوتاچلا گیا اور آپ کا دین ہر روز ترقی کرتاچلا گیا اللہ آج کے مسلمانوں کو بھی یہ توفیق دے ورنہ اسلام کی ترقی کارک جانا ہمارے مسلمان ہونے کو مشکوک بنارہا ہے اور آپ کو آپ کا رب اتنی نعمتیں عطا کرے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دنیا میں امت کو بڑھا کر اور آخرت میں امت کو بخشوا کر بھلا آپ یتیم تھے یہ اس کی حکمت مگر کس نازونعم سے پہلے یہ اس کا انعام اور آپ متلاشی تھے سو آپ کو منزل عطا کردی۔ عجیب بات ہے یہاں ترجمہ ، بھٹکتا ہواپایا ، لکھ دیا جاتا ہے جس پر بیشمار سوالات پیدا ہوجاتے ہیں اگر ترجمہ متلاشی یاجستجو اور تلاش میں لکھا جائے جو درست ہے تو بات صاف ہوجاتی ہے جیسے ہر شے فطری کمال کے لیے بےقرار ہوتی ہے کلی بنتی ہے تو چٹک کر غنچہ بننے کو ترپٹی ہے اور غنچہ پھول بننے کے لیے بےقرار ہوتا ہے ایسے ہی نبی اکرم کے مزاج گرامی میں ظہور نبوت اور بعثت کے لیے بےقراری رہتی تھی جس کے باعث آپ مہینوں الگ تھلگ ذکر کرتے تھے اور حرا میں تشریف لے جاتے یہاں اسی کا ذکر ہے کہ آپ کو جستجو تھی ہم نے منزل عطا کردی وہ اس کی حکمت تھی یہ اس کا انعام اور آپ کو ضرورت مند پایا کہ کوئی بندہ ساتھ نہ تھا مال و اقتدار نہ تھا پھر اس قدر محبت کرنے والے خادم عطا فرمائے کہ جہاں بھرگیا اور مال ومنال اور اقتدار آپ کے قدموں کی دھول بن گیا لہذا آپ کی بعثت پر اللہ کا شکر ایسے ادا ہوگا کہ یتیم وبے کس کو اس کا حق ملے اور کسی کمزور کو جھڑک کر اس کا حق نہ چھین سکے اور کسی ضرورت مند سے اس کی ضرورتوں کو روکا نہ جائے اور نہ اس کی سبکی کی جائے یعنی کمزور وبے نواکو بھی اس کا حق بھی ملے اور احترام بھی ، بحیثیت انسان اس کی عزت نفس محفوظ ہو یہ تمام امت پہ ہمیشہ واجب ہے کہ نبی (علیہ السلام) کی معرفت کا حکم دیاجارہا ہے۔ رہائش لباس وغیرہ حیثیت کے مطابق ہوناچاہیے۔ اللہ کی نعمتوں کو زبان سے بھی اور اپنے حال سے بھی بیان کیا کیجئے کہ رب جلیل نے جو کمالات دیے ہیں علم ، قوت ، اقتدار ، یا دولت وہ اسکے بندوں کو فائدہ پہنچائے اور اپنی رہائش صورت ، لباس ، سواری وغیرہ اپنے حال اور حیثیت کے مطابق ہو کہ یہ بھی اظہار نعمت ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ سجی۔ چھا گیا۔ ماقلی۔ نہ بیزار ہوا۔ سوف یعطی۔ بہت جلد عطا کرے گا۔ ترضی۔ تو خوش ہوجائے گا۔ اوی۔ ٹھکانا رہا۔ ضال۔ تلاش حق میں سرگرداں ۔ عائل ۔ مفلس و غریب۔ اغنی۔ مال دار کردیا۔ لا تقھر ۔ مت ڈانٹ۔ لا ینتھر۔ نہ جھڑک ۔ حدت ۔ بیان کر۔ تشریح : نبی کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ابتداء میں پہلی وحی کے بعد تیس چالیس دن تک وحی کا سلسلہ بند رہا۔ پھر اس کے بعد لگاتار وحی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وحی بند ہونے کے زمانہ میں ایک طرف تو آپ پریشان تھے۔ ادھر کفار مکہ کی طنز آمیز باتوں اور طعنوں سے آپ بہت غمگکین رہتے تھے۔ وہ کہتے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا تمہارا رب تم سے ناراض ہوگیا اور وحی کا سلسلہ بند ہوگیا ؟ ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ معلوم ہوتا ہے تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے (نعوذ باللہ) ۔ آپ کو تسلی دیتے ہوئے دن کی تیز روشنی اور چمک، رات کے اندھیرے اور تاریکی کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے رب نے نہ تو آپ کو چھوڑ اور نہ وہ آپ سے بیزار ہوا۔ یعنی جس طرح دن کی روشنی کے بعد رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے اور پھر اسی اندھیری رات سے ایک نئی صبح طلوع ہوتی ہے اسی طرح کچھ وت کے لئے وحی کا سلسلہ بند ہوجانے سے یہ کیوں سمجھ لیا گیا کہ اب کبھی روشنی نہ ہوگی۔ بلکہ وہ صبح ضرور ہوگی اور اس کی روشنی ہر طرف پھیل کر رہے گی۔ یہ تو اللہ کی مصلھت ہے کہ اس نے وحی کے سلسلہ کو وقتی طور پر روک لیا تاکہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے اندر وحی کے انوارات کو قبول کرنے کی مزید صلاحیت اور سہولت پیدا ہوجائے اور آپ آسانی سے وحی کے بوجھ کو برداشت کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کے لئے ہر آنے والا دور سے اور موجودہ دنیا کے مقابلے میں آخرت زیادہ بہتر ہوگی۔ یہ مشکلات کے بادل بہت جلد چھٹ جائیں گے۔ پھر اس کے بعد آپ پر اللہ تعالیٰ کی عطا اور بخش اتنی زیادہ ہوگی کہ آپ اس سے خوش ہوجائیں گے۔ مزید تسلی دیتے ہوئے تین نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ یتیم تھے کیا اسی اللہ نے آپ کو سہارا نہیں دیا ؟ آپ تلاش حق کی جستجو میں تھے کیا اسی نے آپ کی رہنمائی نہیں کی ؟ آپ نادار تھے کیا اسی نے آپ کو مال و دولت سے بےنیاز نہیں بنایا ؟ یہ ساری نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں۔ ان نعمتوں پر شکر کا طریقہ یہ ہے کہ آپ بےماں باپ کے بچوں پر شفقت کیجئے سختی نہ کیجئے۔ اگر کوئی سوال کرنے والا ہو تو اس کو جھڑکنے کے بجائے نرمی اختیار کیجئے۔ اور آپ کے پروردگار نے آپ کو جن نعمتوں سے نوازا ہے اس کا ذکر اور شکر کرتے رہیے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : سورة الّیل کے آخر میں نیک لوگوں کے بہتر انجام کا ذکر فرمایا اور سورة الضّحٰی میں تین قسمیں کھانے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے حوالے سے بتلایا ہے کہ آپ کی زندگی کا آنے والا دور پہلے دور سے بہتر ہوگا مقصد یہ ہے جو شخص نیک کام کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت بہتر کردیں گے۔ الضّحٰی کا معنٰی ہے روشن دن اور سجٰی رات کے اس وقت کو کہتے ہیں جب رات اپنی تاریکی اور سکون کے ساتھ ہر چیز پر چھا جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اوقات کی قسمیں اٹھا کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ کو نہ چھوڑا ہے اور نہ آپ پر ناراض ہوا ہے، چھوڑنا اور ناراض ہونا تو درکنار اس نے آپ کی زندگی کا ہر آنے و الا دور پہلے دور سے بہتر بنا دیا ہے۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ نبوت کے ابتدائی ایام میں وحی کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے موقوف کردیا گیا۔ اس مدّت کے بارے میں مفسرین اور محدثین کی مختلف آراء ہیں۔ اکثریت کی رائے کے مطابق زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن کی بتائی گئی ہے۔ اس دوران ایک طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی محبت اور وحی کی لذّت کے بارے میں فکر مند تھے اور دوسری طرف آپ کے مخالفوں نے یہ کہہ کر آپ کی پریشانی میں اضافہ کیا کہ اس کا رب اس پر ناراض ہوگیا ہے۔ ابولہب کی بیوی نے آپ کے پاس جاکر اس حد تک زبان درازی کی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تجھ پر جو شیطان آتا تھا اس نے تجھے چھوڑ دیا ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غم حد سے بڑھنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے الضحی نازل فرمائی جس میں روشن دن اور رات کی پُر سکون گھڑیوں کی قسمیں اٹھا کر تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا رب نہ آپ پر ناراض ہوا ہے اور نہ ہی اس نے آپ سے قطع تعلق کیا ہے۔ ” وَالضُّحیٰ “ اور ” سَجٰی “ کی قسمیں اٹھا کر یہ اشارہ کیا ہے کہ جس طرح رات اور دن کا آنا جانا معمول کی بات ہے اسی طرح وحی کا آنا اور اس کے درمیان وقفہ ہونا معمول کی کارروائی ہے۔ ان قسموں میں یہ سبق بھی موجود ہے کہ جس طرح رات اور دن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اسی طرح خوشی اور غم، آسانی اور مشکل ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جس طرح رات اور دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں اسی طرح خوشیاں اور پریشانیاں بھی آتی جاتی ہیں لہٰذا آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ پہلے دور سے آنے والا دور آپ کے لیے بہتر ہوگا اور دنیا سے آخرت بہت ہی بہتر ہوگی۔ رب کریم کی دی ہوئی تسلی اور گارنٹی کا نتیجہ ہے کہ آپ کو یتیمی کے دور میں بہتر سے بہترکفیل عطا ہوئے، جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی رفیقہ حیات نصیب فرمائی کہ جس نے تن، من، دھن آپ کے لیے وقف کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبوت کے ابتدائی دور اور بعد میں آپ کو بڑی سے بڑی آزمائشوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر غم اور مشکل کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی آسانی اور خوشی عطا فرمائی جو کسی انسان کے نصیب میں نہیں آئی۔ مکہ میں دشمنوں کے مقابلے میں جانثار ساتھی ملے، رات کے وقت ہجرت کے لیے نکلے تو صرف ابوبکر (رض) آپ کے ساتھ تھے مگر جب آٹھ سال کے بعد مکہ میں داخل ہوئے تو دس ہزار جانثار مجاہد آپ کے ہم رقاب تھے۔ جونہی بیت اللہ میں قدم رکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کی جان کے دشمن آپ کے سامنے سرجھکا کر معذرت پر معذرت کررہے تھے۔ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو دس لاکھ مربع میل کی مملکت پر توحید کا پرچم لہرا رہا تھا، روم اور فارس کی حکومتیں آپ سے لرزا براندم تھیں۔ یاد رہے کہ تفسیر عزیز کے مصنف نے الضحیٰ سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زلفیں لی ہیں اور اسی کو واعظ بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ من گھڑت بات ہے۔ جس کا کسی ضعیف روایت سے بھی ثبوت نہیں ملتا۔ (أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ وَبِیَدِيْ لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ یَوْمَءِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَاءِيْ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ ) (رواہ الترمذی : کتاب المناقب ) ” میں قیامت کے دن آدم کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا مگر اس اعزاز پر فخر نہیں کرتا اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اس پر میں اتراتا نہیں اور قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) سمیت تمام نبی میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں قیامت کے دن سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دستگیری فرمائی۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا ہر دور پہلے دور سے بہتر تھا۔ ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخرت تمام انسانوں کی آخرت سے بہتر ہوگی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والضحیٰ............................ فترضیٰ اللہ تعالیٰ ان دو خوبصورت اوقات کی قسم اٹھاتا ہے جن میں غوروفکر کے بہتر اور زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ یہ اوقات ہی اپنے اندر اشارات رکھتے ہیں۔ یوں اس کائنات کے مظاہر اور نفس انسانی کے درمیان ایک ربط پیدا کردیا جاتا ہے ، اور قلب بشری کو یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ یہ خوبصورت کائنات ایک روح رکھتی ہے ، جو نفس انسانی کے ساتھ ہمقدم ہوکر چلتی ہے ، اور یہ ورح ہر زندہ مخلوق کے ساتھ ایک گونہ محبت رکھتی ہے ، اس طرح ہر زندہ دل ، اس کائنات کے اندر نہایت ہی انس و محبت کے ساتھ زندہ رہتا ہے ، وہ اس میں اجنبی نہیں ہوتا اور نہ پریشان ہوتا ہے۔ اور اس سورت میں اس کائنات کے ساتھ انس وہم آہنگی کا ایک گہرا اثر بھی ہے۔ اس سورت میں انس و محبت کی پینگیں بڑھانا مقصود ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ اللہ نے تو آپ کے ماحول میں محبت کا نور پھیلا دیا ہے ، یہ پوری کائنات انسان کے ساتھ زمزمہ خواں ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ اس جہاں میں اکیلے اور پریشان حال ہوں۔ قسم کے اس کائناتی اشارہ کے بعد اب بصراحت تاکید آتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اوپر سورة الضحیٰ کا ترجمہ لکھا گیا ہے یہ سورة مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کے سبب نزول کے بارے میں معالم التنزیل میں ایک تو یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیماری کی وجہ سے دو تین رات نماز نہیں پڑھی یعنی نماز تہجد ناغہ ہوگیا، ایک عورت (فتح الباری میں ہے کہ یہ بات ابو لہب کی بیوی ام جمیل نے کہی تھی) نے کہا کہ بس جی سمجھ میں آگیا کہ جو شیطان ان کے پاس آتا تھا اس نے ان کو چھوڑ دیا، دو تین رات سے قریب نہیں آیا اور ایک بات یہ لکھی ہے کہ یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذوالقرنین، اصحاب کہف اور روح کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کل کو بتاؤں گا انشاء اللہ کہنا رہ گیا تھا لہٰذا چند دن تک وحی نازل نہیں ہوئی اس پر مشرکین نے کہا کہ محمد کو ان کے رب نے چھوڑ دیا اور اس سے بغض کرلیا، اس پر یہ سورت نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے دن کی قسم کھائی اور رات کی قسم کھائی اور قسم کھا کر فرمایا ﴿ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰىؕ٠٠٣﴾ (آپ کے رب نے آپ کو نہ چھوڑا ہے اور نہ دشمنی کی) ۔ رات اور دن کی قسم کھائی ہے مقسم بہ سے اس کی مناسبت بیان فرماتے ہوئے صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں کہ وحی کا تتابع اور ابطاء مشابہ لیل و نہار کے تبدل کے ہے اور دونوں متضمن حکمت کو ہیں پس جیسا ایک تبدل دلیل تو دیع و عداوت کی نہیں اسی طرح دوسرا تبدل بھی۔ اور دوسری بشارات مکمل ہیں اسی عدم کو تودیع کی پس مقسم بہ کو بواسطہ اس کے سبب سے مناسبت ہوئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” والضحیٰ “ جمہور مفسرین نے لکھا ہے کہ کسی مصلحت سے چند دن جبریل (علیہ السلام) وحی لے کر نہ آئے تو مشرکین نے کہنا شروع کردیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خدا اس سے ناراض ہوگیا ہے اور اس نے اس کو چھوڑ دیا ہے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں مشرکین کی خرافات کا جواب دیا گیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نہ آپ سے ناراض ہوگیا ہے اور نہ اس نے آپ کو چھوڑ ہی دیا ہے۔ (خازن، ابن کثیر، کبیر وغیرہ) ۔ ” الضحیٰ “ چاشت کا وقت، دن کا اجالا۔ ” سجی “ ای غطی بظلامہ (جلالین) ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے روز روشن اور شب تاریک شاہد اور گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نہ آپ کو چھوڑ دیا ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوگیا ہے جس طرح دن کا اجالا اور رات کی تاریکی یکساں نہیں ہیں اسی طرح تمام حالات یکساں نہیں ہیں کبھی قبض اور کبھی بسط، کسی وقت آسودگی اور کسی وقت تنگی ہوتی ہے یہی حال وحی کا ہے کہ کبھی آتی ہے اور کبھی نہیں آتی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) قسم کھاتا ہوں میں دن چڑھے کی یعنی چاشت کے وقت کی