Surat ut Teen

Surah: 95

Verse: 1

سورة التين

وَ التِّیۡنِ وَ الزَّیۡتُوۡنِ ۙ﴿۱﴾

By the fig and the olive

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Explanation of At-Tin and what comes after it Allah says: وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ By At-Tin and Az-Zaytun. Al-Awfi reported from Ibn Abbas that what is meant by At-Tin is the Masjid of Nuh that was built upon Mount Al-Judi. Mujahid said, "It is this fig that you have." وَالزَّيْتُونِ By Az-Zaytun, Ka`b Al-Ahbar, Qatadah, ... Ibn Zayd and others have said, "It is the Masjid of Jerusalem (Bayt Al-Maqdis)." Mujahid and `Ikrimah said, "It is this olive which you press (to extract the oil)." وَطُورِ سِينِينَ   Show more

تین سے مراد کسی کے نزدیک تو مسجد دمشق ہے کوئی کہتا ہے خود دمشق مراد ہے ، کسی کے نزدیک دمشق کا ایک پہاڑ مراد ہے بعض کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کی مسجد مراد ہے ، کوئی کہتا ہے کہ جودی پہاڑ پر مسجد نوح ہے وہ مراد ہے ۔ بعض کہتے ہیں انجیر مراد ہے زیتون سے کوئی کہتا ہے مسجد بیت المقدس مراد ہے ۔ کسی نے...  کہا کہ وہ زیتون جسے نچوڑتے ہو ، طور سینین وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھابلد الامین سے مراد مکہ شریف ہے اس میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ بعض کا قول یہ ہے کہ یہ تینوں وہ جگہیں ہیں جہاں تین اولو العزم صاحب شریعت پیغمبر بھیجے گئے تھے ، تین سے مراد تو بیت المقدس ہے ۔ جہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور طور سینین سے مراد طور سینا ہے جہاں حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا اور بلد امین سے مراد مکہ مکرمہ جہاں ہمارے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھیجے گئے ، تورات کے آخر میں بھی ان تینوں جگہوں کا نام ہے اس میں ہے کہ طور سینا سے اللہ تعالیٰ آیا یعنی وہاں پر حضرت عیسیٰ کو وہاں بھیجا اور فاران کی چوٹیوں پر وہ بلند ہوا یعنی مکہ کے پہاڑوں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا ، پھر ان تینوں زبردست بڑے مرتبے والے پیغمبروں کی زمانی اور وجودی ترتیب بیان کر دی ۔ اسی طرح یہاں بھی پہلے جس کا نام لیا اس سے زیادہ شریف چیز کا نام پھر لیا اور پھر ان دونوں سے بزرگ تر چیز کا نام آخر میں لیا ۔ پھر ان قسموں کے بعد بیان فرمایا کہ انسان کو اچھی شکل و صورت میں صحیح قدو قامت والا ، درست اور سڈول اعضاء والا خوبصورت اور سہانے چہرے والا پیدا کیا پھر اسے نیچوں کا نیچ کر دیا یعنی جہنمی ہو گیا ، اگر اللہ کی اطاعت اور رسول کی اتباع نہ کی تو اسی لیے ایمان والوں کو اس سے الگ کر لیا ، بعض کہتے ہیں کہ مراد انتہائی بڑھاپے کی طرگ لوٹا دینا ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جس نے قرآن جمع کیا وہ رذیل عمر کو نہ پہنچے گا ، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں لیکن اگر یہی بڑھاپا مراد ہوتا تو مومنوں کا استشناء کیوں ہوتا ؟ بڑھاپا تو بعض مومنوں پر بھی آتا ہے پس ٹھیک بات وہی ہے جوا وپر ہم نے ذکر کی جیسے اور جگہ سورہ والعصر میں ہے کہ تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ایمان اور اعمال صالح والوں کے کہ انہیں ایسی نیک جزاملے گی جس کی انتہا نہ ہو جیسے پہلے بیان ہو چکا ہے پھر فرماتا ہے اے انسان جبکہ تو اپنی پہلی اور اول مرتبہ کی پیدائش کو جانتا ہے تو پھر جزا و سزا کے دن کے آنے پر اور تیرے دوبارہ زندہ ہونے پر تجھے کیوں یقین نہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ تو اسے نہیں مانتا حالانکہ ظاہر ہے کہ جس نے پہلی دفعہ پیدا کر دیا اس پردوسری دفعہ کا پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ حضرت مجاہد ایک مرتبہ حضرت ابن عباس سے پوچھ بیٹھے کہ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں؟ آپ نے فرمایا معاذ اللہ اس سے مراد مطلق انسان ہے عکرمہ وغیرہ کا بھی یہی قول ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ کیا اللہ حکم الحاکمین نہیں ہے وہ نہ ظلم کرے نہ بےعدلی کرے اسی لیے وہ قیامت قائم کرے گا اور ہر ایک ظالم سے مظلوم کا انتقال لے گا ، حضرت ابو ہریرہ سے مرفوع حدیث میں یہ گذر چکا ہے کہ جو شخص والتین والزیتون پڑھے اور اس کے آخر کی آیت الیس اللّٰہ پڑھے تو کہہ دے بلی وانا علی ذالک من الشاھدین یعنی ہاں اور میں اس پر گواہ ہوں ۔ اللہ کے فضل و کرم سے سورہ التین کی تفسیر ختم ہوئی فالحمد اللہ ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] تین بمعنی انجیر کا درخت بھی اور اس کا پھل بھی اور اس کا واحد تینۃ ہے۔ بمعنی انجیر کا ایک دانہ۔ یہ ایک خوش ذائقہ معروف پھل ہے جس میں غذائیت بہت ہوتی ہے اور بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ اور تیانۃ بمعنی انجیر فروش اور متانۃ انجیر کے باغ کو کہتے ہیں یا ایسی جگہ کو جہاں انجیر کے درخت بکثرت پائے ج... ائیں۔ [٢] زیتون ایک درخت ہے جس سے زیتون کا تیل نکالا جاتا ہے اور اس کے پھل کو زیتونۃ کہتے ہیں اور تیل کو زیت پھر زیت کا اطلاق ہر قسم کے تیل پر ہونے لگا، خواہ وہ کسی چیز سے نکالا جائے اور زیات بمعنی تیلی، تیل نکالنے والا یا بیچنے والا۔ لیکن اس آیت میں انجیر یا اس کے درخت اور زیتون کے درخت کی قسم نہیں کھائی گئی بلکہ اس سرزمین کی قسم کھائی گئی ہے جس میں یہ درخت بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ اور وہ علاقہ شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔ اہل عرب کا جس طرح یہ قاعدہ ہے کہ وہ کسی چیز کا جزو اشرف بول کر اس سے مراد اصل چیز لے لیتے ہیں۔ اسی طرح ان میں یہ بھی دستور ہے کہ وہ کسی علاقہ کی مشہور پیداوار کا نام لے کر اس سے وہ علاقہ مراد لے لیتے ہیں اور اس بات کی تائید اس سورت کی اگلی دو آیات سے بھی ہوجاتی ہے یعنی طور سینین اور شہر مکہ سے کہ یہ سب مقامات انبیاء کے مولد و مسکن رہے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) والتین والزیتون : انجیر اور زیتون دو ایسے پھل ہیں جو اپنی جامعیت اور فوائد کی کثرت میں انسان کے جامع الفضائل ہونے کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں، اس لئے انہیں انسان کے احسن تقویم میں پیدا کئے جانے کے شاہد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اکثر مفسرین نے انجیر اور زیتون سے مراد سر زمین شام لی ہے جہاں یہ کثرت س... ے ہوتے ہیں اور جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ کے بہت سے پیغمبر پیدا ہوئے ہیں اور یہی بات راجح ہے، کیونکہ اس کے بعد طور سینا اور بلد امین کا ذکر ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ (I swear by the Fig and the Olive...95:1). This verse takes an oath by four objects. Two of them are trees, the fig tree and the olive tree. [ The third object ] is Tur, the mount of Sinai, and the fourth object is the City of Makkah. The two trees have been specified because they possess abundant blessings and advantages in the same way as Tur and the City of ... Makkah possess abundant blessings. Some authorities say that the &fig& and the &olive& symbolise, in this context, the lands in which these trees predominate: that is, the countries bordering on the eastern part of the Mediterranean, especially Palestine and Syria. Most of the Prophets (علیہم السلام) lived and preached in these lands, including Holy Prophet Ibrahim (علیہ السلام) . The latter Prophet was made to migrate from here to Makkah. The oaths, in this way, comprehend all the holy places where Allah-inspired men were born and raised as Prophets t. Syria was the land and home of all the Prophets (علیہم السلام) . Mount Sinai stresses specifically the messenger-ship of Musa (علیہ السلام) where Allah spoke to him. &Peaceful City& refers to Makkah, the birthplace and residence of the Final Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .  Show more

خلاصہ تفسیر قسم ہے انجیر (کے درخت) کی اور زیتون (کے درخت) کی اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر (یعنی مکہ معظمہ) کی کہ ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچہ میں ڈھالا ہے پھر (ان میں جو بوڑھا ہوجاتا ہے) ہم اس کو پستی کی حالت والوں سے بھی پست تر کردیتے ہیں (یعنی وہ خوبصورتی بدصورتی سے اور قوت صنعف سے ب... دل جاتی ہے اور برے سے برا ہوجاتا ہے مقصود اس سے بیان کرنا کمال قبح کا ہے جس سے ان کے دوبارہ پیدا کرنے پر حق تعالیٰ کی قدرت ہونا واضح ہوتا ہے کقولہ تعالیٰ اللہ الذی خلقنکم من ضعف الخ اور مقصود اس سورت کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت دوبارہ پیدا کرنے اور زندہ کرنے پر ثابت کرنا ہے جیسا کہ فما یکذیک بعد بالدین کے جملے سے اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور اس آیت کے عموم سے چونکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بوڑھے سب کے سب قبیح اور برے ہوجاتے ہیں اس ابہام کو دور کرنے کے لئے آگے آیت میں ایک استثناء بیان کیا جاتا ہے کہ) لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے تو ان کے لئے اس قدر ثواب ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگا (جس میں بتلا دیا کہ مومن صالح بوڑھے ضعیف ہوجانے کے باوجود انجام کار کے اعتبار سے اچھے ہی رہتے ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ ان کی عزت بڑھ جاتی ہے، آگے خلقنا اور رددنا پر تفریع ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق و تخلیق و تقلیب احوال پر قادر ہیں) تو (اے انسان) پھر کون چیز تجھ کو قیامت کے بارے میں منکر بنا رہی ہے (یعنی وہ کونسی دلیل ہے جس کی بنا پر تو ان دلائل کے ہوتے ہوئے قیامت کا منکر ہو رہا ہے) کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے (تصرفات دنیویہ میں بھی جن میں سے تخلیق انسانی اور پھر بڑھاپے میں اس پر تغیرات کا ذکر اوپر آیا ہے اور تصرفات اخرویہ میں بھی جن میں سے قیامت و مجازاة بھی ہے) معارف و مسائل والتین والزیتون، اس آیت میں چار چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے جن میں دو درخت ہیں ایک تین یعنی انجیر، دوسرے زیتون اور ایک پہاڑ طور اور ایک شہر یعنی مکہ مکرمہ کی، اس تخصیص کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ دونوں درخت کثیر البرکت کثیر المنافع ہیں جس طرح طور پہاڑ اور شہر مکہ کثیر البرکت ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں تین اور زیتون کے ذکر سے مراد وہ جگہ ہو جہاں یہ درخت کثرت سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ ملک شام ہے جو معدن انبیاء (علیہم السلام) ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی ملک میں مقیم تھے ان کو ہجرت شام ہے جو معدن انبیاء (علیہم السلام) ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی ملک میں مقیم تھے ان کو ہجرت کرا کر مکہ معظمہ لایا گیا تھا اس طرح ان قسموں میں تمام وہ مقامات مقدسہ شامل ہوگئے جہاں خاص خاص انبیاء (علیہم السلام) پیدا اور مبعوث ہوئے، ملک شام انبیاء علہیم السلام کا وطن اور مسکن ہے۔ کوہ طور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حق تعالیٰ کے ساتھ ہمکلام ہونے کی جگہ ہے اور سینین یاسینا اس مقام کا نام ہے جہاں یہ پہاڑ واقع ہے اور بلد امین مکہ مکرمہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مولد و مسکن ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ۝ ١ ۙ تين قال تعالی: وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ [ التین/ 1] قيل : هما جبلان، وقیل : هما المأکولان . ( ت ی ن ) وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ [ التین/ 1] انجیر کی قسم اور زیتون ۔ بعض کے نزدیک تین او زیتون دو پہاڑوں کے نام ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ کھانے کی دو چیزیں ہیں زيت ... زَيْتُونٌ ، وزَيْتُونَةٌ ، نحو : شجر وشجرة، قال تعالی: زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، والزَّيْتُ : عصارة الزّيتون، قال : يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور/ 35] ، وقد زَاتَ طعامَهُ ، نحو سمنه، وزَاتَ رأسَهُ ، نحو دهنه به، وازْدَاتَ : ادّهن . ( ز ی ت ) زیت وزیتونہ مثل شجر وشجرۃ ایک مشہور درخت کا نام ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] زیتون کے درخت سے روشن ہو رہا ہے ۔ جو نہ شر قی ہے اور نہ غر بی الزبت زیتون کے تیل کو بھی کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور/ 35] قریب ہے کہ اس کا تیل روشنی کرے ۔ اور زات طعامہ کے معنی ہیں اس نے طعام میں زیتون کا تیل ڈالا جیسے سمنھ اور دھنہ بہ کیطرح ذات راسہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل ڈالا جیسے سمنہ اور دجنہ بھ کیطرح ذات راء سہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل لگایا اور از دات بمعنی اذھب کے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(1 ۔ 3) قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور کہا گیا ہے کہ یہ شام میں دو مسجدیں ہیں یا یہ کہ دو پہاڑ ہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ ” تین “ اس پہاڑ کا نام ہے جس پر ” بیت المقدس “ ہے اور ” زیتون ‘ اس پہاڑ کا نام ہے ج سپر دمشق ہے۔ اور قسم ہے جبل کی یہ مدین میں ایک پہاڑ ہے جس پر موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف کلامی نصیبت...  ہوئی۔ قبطی زبان میں ہر ایک پہاڑ کو طور کہتے ہیں اور سینین اس پہاڑ کو جس پر عمدہ درخت ہوں اور اس امن والے شہر یعنی مکہ مکرمہ کی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 There has been much difference of opinion among the commentators about the explanation of this verse. Hasan Basri. `Ikrimah, `Ata' bin Abi Rabah, Jabir bin Zaid, Mujahid and Ibrahim Nakha'i (may AIlah bless them all) say that the fig implies the same fig which the people eat, and the olive the same which produces oil. Ibn Abi Hatim and Hakim have cited a statement from Ha 'Abdullah bin 'Abbas al... so in support of this. And the commentators who have accepted this explanation have, in view of the uses and virtues of the fig and the olive, expressed the opinion that Allah has sworn by these two fruits because of these very qualities. There is no doubt that the Arabic reader would understand the words do and zayun in the same meaning as are their well known meanings in Arabic, yet there are two reasons for which these meanings cannot be accepted. First, that in the subsequent verses, oaths have been sworn by the Mount Sinai and the City of Makkah, and there seems to be no relevance between the oaths sworn by the two fruits and the oaths by the two places. Second, the theme that follows the oaths is borne out by the Mt. Sinai and the City of Makkah but not by the two fruits. Wherever in the Qur'an AIlah has sworn by something, He has not sworn by it because of its glory or its uses and benefits but every oath has relevance to the theme that follows it. Therefore, the virtues and qualities of these two fruits cannot be regarded as the reason for swearing the oath by them. Some other commentators have taken tin and zaytun to imply some places. Ka`b Abhar, Qatadah an Ibn Zaid say that tin implies Damascus and zaytun Bait al-Maqdis (Jerusalem) . A view of Ibn 'Abbas has been cited by Ibn Jarir, Ibn Abi Hatim and Ibn Marduyah to the effect that tin implies the mosque of the Prophet Noah, which he built on Mt. Judi, and zaytun implies Bait al-Maqdis, but hearing the words wat-tin waz-zaytin, no ordinary Arab could think of these meanings, nor was it well known among the Arabs, who were the first addressees of the Qur'an that ain and zaytun were names of the places. However, there was a practice among the people of Arabia that they generally named a land where a certain fruit was produced in plenty after the name of the fruit itself. Accordingly, the meaning. Of tin and zaytun can be the land where these fruits are grown, and it is the land of Syria and Palestine, for among the Arabs of that period this very land was well known for the production of fig and olive. lbn Taimiyah„Ibn al-Qayyim, zamakhshari and Alusi (may Allah show them mercy) have adopted this very explanation; and although Ibn Jarir also has preferred the first view, yet he has conceded that ain and zaytun may also imply the land where these fruits are grown. Hafiz Ibn Kathir also has regarded this explanation as worthy of consideration.  Show more

سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :1 اس کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہوا ہے ۔ حسن بصری ، عکرمہ ، عطاء بن ابی رباح ، جابر بن زید ، مجاہد اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ انجیر سے مراد یہی انجیر ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور زیتون بھی یہی زیتون ہے جس سے تیل نکالا جاتا ہے ۔ ابن ابی حاتم اور...  حاکم نے ایک قول حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس کی تائید میں نقل کیا ہے ۔ اور جن مفسرین نے اس تفسیر کو قبول کیا ہے انہوں نے انجیر اور زیتون کے خواص اور فوائد بیان کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اللہ تعالی نے انہی خوبیوں کی وجہ سے ان دونوں پھلوں کی قسم کھائی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ایک عام عربی داں تین اور زیتون کے الفاظ سن کر وہی معنی لے گا جو عربی زبان میں معروف ہیں ۔ لیکن دو وجوہ ایسے ہیں جو یہ معنی لینے میں مانع ہیں ۔ ایک یہ کہ آگے طورِ سینا اور شہر مکہ کی قسم کھائی گئی ہے اور دو پھلوں کے ساتھ دو مقامات کی قسم کھانے میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی ۔ دوسرے ان چار چیزوں کی قسم کھا کر آگے جو مضمون بیان کیا گیا ہے ۔ اس پر طور سینا اور شہر مکہ تو دلالت کرتے ہیں ، لیکن یہ دو پھل اس پر دلالت نہیں کرتے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جہاں بھی کسی چیز کی قسم کھائی ہے ، اس کی عظمت یا اس کے منافع کی بنا پر نہیں کھائی ، بلکہ ہر قسم اس مضمون پر دلالت کرتی ہے جو قسم کھانے کے بعد بیان کیا گیا ہے ۔ اس لیے ان دونوں پھلوں کے خواص کو وجہ قسم قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ بعض دوسرے مفسرین نے تین اور زیتون سے مراد بعض مقامات لیے ہیں ، کعب احبار ، قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں کہ تین سے مراد دمشق اور زیتون سے مراد بیت ا لمقدس ۔ ابن عباس کا ایک قول ابن جریر ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے یہ نقل کیا ہے کہ تین سے مراد حضرت نوح کی وہ مسجد ہے جو انہوں نے جودی پہاڑ پر بنائی تھی ۔ اور زیتون سے مراد بیت المقدس ہے ۔ لیکن والتین و الزیتون کے الفاظ سن کر یہ معنی ایک عام عرب کے ذہن میں نہیں آسکتے تھے اور نہ یہ بات قرآن کے مخاطب اہل عرب میں معروف تھی کہ تین اور زیتون ان مقامات کے نام ہیں ۔ البتہ یہ طریقہ اہل عرب میں رائج تھا کہ جو پھل کسی علاقے میں کثرت سے پیدا ہوتا ہو اس علاقے کو وہ بسا اوقات اس پھل کے نام سے موسوم کر دیتے تھے ۔ اس محاورے کے لحاظ سے تین زیتون کے الفاظ کا مطلب مناسبت تین و زیتون ، یعنی ان پھلوں کی پیداوار کا علاقہ ہو سکتا ہے ، اور وہ شام و فلسطین کا علاقہ ہے کیونکہ اس زمانے میں اہل عرب میں یہی علاقہ انجیر اور زیتون کی پیداوار کے مشہور تھا ۔ ابن تیمیہ ، ابن القیم ، زمحشری اور آلوسی رحمہم اللہ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے ۔ اور ابن جریر نے بھی اگرچہ پہلے قول کو ترجیح دی ہے ، مگر اس کے ساتھ یہ بات تسلیم کی ہے کہ تین و زیتون سے مراد ان پھلوں کی پیداوار کا علاقہ بھی ہو سکتا ہے ۔ حافظ ابن کثیر نے بھی اس تفسیر کو قابل لحاظ سمجھا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٨۔ انجیر اور زیتون یہی مشہور دونوں پیڑ ہیں طور سینین اور طور سینا اس پہاڑ کا نام ہے جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خدا تعالیٰ سے باتیں کیں تھی۔ بلدامین سے مراد مکہ ہے کہ وہاں کے رہنے والوں کو بلکہ جانروں تک کو ہر طرح کا امن ہے۔ اب اس قسم کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے اس کی تفسیر میں ع... لماء کا اختلاف ہے لیکن سفیان ثوری کا قول اوپر گزر چکا کہ تفسیر کے باب میں جب مجاہد کا قول مل جائے تو حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے شاگردوں میں سے کسی دوسرے کے قول کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بھی اوپر گزر چکا ہے کہ تفسیر سیکھنے کی غرض سے مجاہد نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے تیس دفعہ قرآن شریف پڑھا ہے اور ہر ایک آیت کے معنی اور مطلب کو سمجھا اور حل کیا ہے۔ اسی سبب سے امام بخاری ١ ؎ نے اپنی کتاب بخاری کی کتاب التفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگردوں میں سے مجاہد کے قول پر زیادہ بھروسہ کیا ہے اب مجاہد کے قول کے موافق قسم کے بعد کی آیتوں کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھی شکل میں پیدا کیا پھر اولاد آدم میں سے جو لوگ نافرمان تھے ان کو دوزخ میں ڈال دیا جہاں ان کی وہ اچھی شکل بگڑ گئی مثلاً متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں ہوگئے اسی طرح بعض اور طرح طرح کی بدصورتوں میں ہوگئے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے منکرین حشر کو قائل کیا ہے کہ یہ مشرکین حشر ایک دفعہ کی اپنی پیدائش کو دیکھ کر پھر دوبارہ پیدا ہونے کا انکار کیوں کرتے ہیں۔ ہر ایک دنیا کا حاکم ایک وقت اپنی کچہری کا ٹھہراتا ہے ‘ خدا تعالیٰ تو سب حاکموں کا حاکم ہے اس نے نیک و بد کے انصاف کے لئے ایک دن جو ٹھہرایا ہے اس سے ان منکرین حشر کو تعجب کس بات کا ہے۔ اس معنی کے سوا اور معنی جو اس آیت کے اور مفسروں نے بیان کئے ہیں سب معنی مجاہد کے قول کے مخالف ہیں اس واسطے اکثر مفسروں نے ان معنوں کو قوی نہیں قرار دیا ترمذی ١ ؎ وغیرہ کی روایت اوپر گزر چکی ہے کہ اس سورة کے ختم کے بعد لفظ بلیٰ کہنا سنت ہے اور بعضی روایتوں میں بلیٰ وانا علی ذلک من الشاھدین بھی آیا ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری۔ تفسیر سورة والتین ص ٧٣٩ ج ٢ و تفسیر ابن کثیر ص ٥٢٧ ج ٤۔ ) (١ ؎ جامع ترمذی۔ تفسیر سورة والتین ص ١٩٣)  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(95:1) والتین والزیتون۔ واؤ قسمیہ۔ قسم ہے تین کی اور قسم ہے زیتون کی۔ التین اور الزیتون سے کیا مراد ہے اس کے متعلق متعدد اقوال ہیں :۔ (1) تین سے مراد یہی انجیر ہے جسے تم کھاتے ہو اور زیتون سے مراد یہی زیتون ہے جس کے پھل سے روغن نکالتے ہو۔ اپنی اپنی افادیت اور خصوصیات کی وجہ سے ممیز ہیں اور اسی و... جہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی ہے (ابن عباس، مجاہد، حسن بصری، ابراہیم، عطائ، مقاتل، کلبی) (2) تین اور زیتون دو پہاڑ ہیں۔ (عکرمہ) (3) تین وہ پہاڑ ہے جس پر دمشق آباد ہے اور زیتون مسجد بیت المقدس ہے ۔ (قتادہ) (4) اصحاب کہف کی مسجد تین ہے اور ایلیا زیتون ہے۔ (ابو محمد بن کعب) جمہور کی رائے اس طرف ہی گئی ہے کہ تین اور زیتون وہی عام پھل ہیں جو ہم استعمال کرتے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 15 انجیر اور زیتون دو مشہور پھل ہیں جو متعدد پہلوئوں سے انسانی صحت کے لئے نہایت مفید ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی قسم کھائی بعض مفسرین نے انجیر اور زیتون سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) مراد لی ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة التین۔ آیات ١ تا ٨۔ اسرار ومعارف۔ قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی کہ دونوں پھل ہیں جو انسانی بدن کو حسین بناتے ہیں خون صاف کرتے ہیں معدہ درست کرتے ہیں اعضاء رئیسہ کو طاقت بخشتے ہیں اور چہرے پر بشاشت لاتے ہیں اور قسم ہے طور پہاڑ کی اور اس شہر امین کی کہ یہ دونوں تجلیات ذاتی کامرکز ہونے کے سبب باطنی...  اور قلبی خوبصورتی عطا کرتے ہیں یعنی یہ چاروں کہ دو حسن ظاہر کا سبب ہیں اور دو کمال باطن کا اس بات پر گواہ ہیں کہ ہم نے انسان کو سب سے خوبصورت پیدا فرمایا شکل و صورت ، اعضا وپیوند ، عقل وخرد ، فکر و شعور ، اور باطنی طور پر ان کمالات کا حامل کہ یہ مشت عبار عشق الٰہی کا دعوی کرے اس قدرحسین امتزاج کہ مادہ کو عالم امر کے لطیفہ ربانی یعنی روح کا مسکن بنادیا اور اس میں مادی کمالات کے ساتھ روھانی عظمتوں کو جمع فرمادیا اسے دل ایک ایسا چراغ عطا کردیا جو نور نبتو سے روشن ہوتا ہے اور ذات باری کا طلب گار بن جاتا ہے پھر جب اسے چند روز دنیا میں اختیار ملاتو اس نے وہ گل کھلائے کہ اسے سب سے نیچے چوپایوں اور درندوں سے بھی نیچے پھینک دیا گیا ہے جو جتنی بلندی سے گرتا ہے اتنی ہی چوٹ زیادہ لگتی ہے شرف انسانیت سے گراتودرندوں سے بھی بدتر نکلا کہ ان کی درندگی بھوک مٹانے کے لیے ہوتی ہے مگر یہ اپنی ذات کو منوانے کے لیے مخلوق کو تباہ کردیتا ہے ہاں وہ لوگ بچ گئے اور اسی عظمت پر فائز رہے یاترقی کرگئے جن کو ایمان نصیب ہوا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایسا یقین کہ انکے اعمال سدھر گئے عمل صالح صرف وہ ہے جس کی تعلیم شریعت نے دی اور جو نبی (علیہ السلام) کے اتباع میں کیا جائے تو انکے لیے انعامات کی حد نہیں کہ دنیا میں بھی مسلسل کامیاب ہوں گے۔ مسلسل ترقی۔ کیفیات قلب میں مسلسل ترقی ہوگی اور آخرت میں بھی کبھی بھی ترقی بند نہ ہوگی ان کے انعامات کی انتہا نہیں یاد رہے کہ اگر کوئی سالک ایک ہی مقام پر رک گیا آگے شیخ میسر نہ آیا یا زندگی نے وفانہ کی تو اس مقام کے اندر بھی لذات و کیفیات بڑھتی رہتی ہیں اور کیا خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں واقعی مقامات ومنازل بھی نصیب ہوتے رہتے ہیں۔ سو اے انسان کیا یہ سارا نظام حیات ظاہری اور باطنی دیکھ کر جس میں ہر عمل کا نتیجہ ظاہر ہو تو پھر بھی قیامت کا اور بدلہ ملنے کا انکار کیا جائے گا اور کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ تمام حکمرانوں اور حکومتوں پر غالب اور حقیقی حکومت اللہ کی ہے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ التین۔ انجیر۔ الزیتون۔ زیتون۔ طور سنیین۔ طور سینا۔ صحرائے سینا۔ بلد الامین۔ امن والا شہر۔ احسن۔ بہترین۔ تقویم۔ بناوٹ۔ سانچہ۔ رددنا۔ ہم نے لوٹا دیا۔ اسفل زیادہ نیچے ۔ غیر ممنون۔ نہ ختم ہونے والا۔ تشریح : اس سورت سے پہلے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علی... ہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور شان رسالت کو بیان فرمایا تھا۔ سورة التین میں تین مقدس مقامات کی قسم کھا کر جو جلیل القدر پیغمبرون کی طرف منسوب ہیں فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اسے اتنا عظیم درجہ عطا کیا جو کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں یہ۔ اسے علم و عقل، فہم و فراست، اعلیٰ ترین صلاحیتوں اور قابلیتوں سے نوازا ہے۔ مسجود ملائکہ بنایا یعنی جس کے سامنے تمام فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ جب وہ انسان للہ اور اس کے رسلو کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنا کر نیک راہوں کا انتخاب کرتا ہے اور ایمان، عمل صالح کا پیکر، اخلاق کو بلندیوں پر فائز اور شدید سے شدید تر حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ وہ اخلاق کی بلند سطح سے نیچے نہیں اترتا اور اس بات کا یقین کا مل رکھتا ہے کہ یہ دنیا عارضی اور وقتی ہے۔ ایک دن اس پوری کائنات کے نظام کو درہم برہم کردیا جائے گا۔ میدان حشر میں اچھے یا برے تمام کاموں کا حساب دینا ہوگا۔ کسی کے ساتھ بےانصافی نہ ہوگی اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے آدمی کو ایسا بدلہ اور جزا دی جائے گی اور ایسی راحتیں دی جائیں گی جس کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوگا۔ اس کے برخلاف وہ آدمی جو ایمان اور عمل صالح سے دور، خود غرضیوں اور دنیاوی لالچ کا پیکر، خوف آخرت اور قیامت کے دن سے بےنیاز اور لاپرواہ اور اخلاقی اعتبار سے اس قدر پستی کی انتہا تک پہنچا ہوا جہاں انسانیت بھی شرما جائے۔ ایسا آدمی آخرت کر ہر حمت اور کرم سے محروم رہے گا۔ یعنی اللہ نے تو اس کو بہترین ساخت پر پیدا کیا تھا لیکن اس نے خود اپنے آپ کو ذلتوں تک پہنچا دیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے بعد کون جزا اور سزا کے معاملے میں آپ کو جھٹلا سکتا ہے۔ اللہ نے پوچھا کہ کیا اللہ ہی سب حاکموں اور حکمرانوں سے بڑھ کر حاکم اور حکمراں نہیں ہے۔ سورۃ التین کی آیات کی مزید وضاحت۔ والتین والزیتوں۔ انجیر اور زیتون کی قسم۔ انجیر اور زیتون شام و فلسطین کے علاقے میں پائے جانے والے وہ دو مشہور پھل ہیں جن کے فائدے سے سارا عرب واقف تھا۔ آج بھی انجیر اور زیتون عربوں کے کھانے کا ایک جزو ہے جسے بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انجیر اور زیتون سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں یہ پھل پایا جاتا ہے کیونکہ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ جو پھل یا چیز کسی علاقے میں کثرت سے پائی جاتی تھی اس پر اس علقے کا نام رکھ دیا کرتے تھے۔ زیتون اور انجیر فلسطین اور شام کے اس زرخیر علاقے میں پایا جاتا ہے جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے لے کر حضرت عیسیٰ تک بنی اسرائیل کے سیکڑوں نبیوں اور رسولوں کا مرکز تبلیغ رہا ہے۔ اس نے اس مقام کی قسم کھائی ہے۔ بعض علماء مفسرین نے فرمایا ہے کہ تین اور زیتون دو پہاڑوں کے نام ہیں۔ ایک پہاڑ پر دمشق (ملک شام) اور دوسرا زیتون پہاڑ ہے جس پر بیت المقدس واقع ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے انجیر اور زیتون یا ان علاقوں کی جہاں انبیاء کرام پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنا فریضہ تبلیغ دین ادا فرمایا قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اللہ نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ وطور سینین۔ او طور سینا کی قسم۔ طور سینا جزیرہ نمائے سینا کا دوسرا نام ہے اسی کو قرآن کریم میں سینا اور سنین فرمایا ہے۔ اللہ نے اس صحرائے سینا کی قسم کھائی ہے جہاں سے پوری قوم بنی اسرائیل فرعون کے ظلم سے نجات پا کر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ اس صحرا گے گزری تھی۔ اسی میں طور پہاڑ بھی واقع ہے جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی نازل ہوئی۔ اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا اور توریت جیسی کتاب عطا فرمائی دوسری قسم اس طور سنین کی کھائی ہے۔ وھذا البلد الامین۔ اور امن وامان والے شہر ( مکہ مکرمہ) کی قسم۔ یعنی مکہ مکرمہ وہ مبارک سرزمین ہے جہاں سے دنیا کی ابتداہوئی۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلے فرشتوں کی مدد سے اس شہر میں بیت اللہ کی تعمیر فرمائی۔ پھر طوفان نوح میں جب خانہ کعبہ کی دیواریں منہدم ہوگئیں تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ (علیہ السلام) نے پھر سے بیت اللہ کی دیواریوں کو اٹھاتے ہوئے بہت سی دعائیں کیں ان ہی میں سے ایک دعا یہ تھی ” الٰہی اس شہر کو امن وامان والا شہر بنا دیجئے “ اللہ نے ان کی دعاؤں کو قبول و منظور کرتے ہوئے اس طرح امن وامان والا شہر بنادیا کہ جب عرب میں ہر طرف بدامنی اور قتل و غارت گری عام تھی اس وقت بھی یہ شہر امن وامان کا مرکز تھا۔ اس شہر کی بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شہر میں سردار انبیاء حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بچپن، جوانی اور ادھیڑ عمری کی زندگی یہیں گزری۔ یہیں وہ پہاڑ جبل نور ہے جس کے غار حرا میں اللہ کا وہ کلام نازل ہونا شروع ہوا جو قیامت تک ساری انسانیت کے لئے مینارہ نور اور رہبر و رہنما ہے۔ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا آغاز اسی شہر سے کیا۔ یہی وہ شہر ہے جس میں آپ نے اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) نے کفار کی اذیتوں کے باوجود صبر و استقلال کا وہ عظیم مظاہرہ کیا جو اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحاہ کرام (رض) نے اللہ کے حکم سے اس شہر سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کو اپنے لئے پسند فرمایا۔ اللہ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس شہر کی قسم کھائی ہے۔ یہیں فریضہ حج ادا کیا جاتا ہے۔ اللہ نے تیسری قسم اس ” بلد امین “ کی کھائی ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت اور بہترین سانچے میں ڈھال کر بنایا ہے۔ یہ خود اپنی اس حیثیت کو بھلا کر اخلاقی پستیوں میں جا گرتا ہے ورنہ اللہ نے تو اس کو اعلیٰ ترین مقام عطا فرمایا تھا۔ فما یکذبک بعد بالدین۔ یعنی اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس کے بعد انصاف کے دن کے معاملے میں کون آپ کو جھٹلا سکتا ہے۔ الیس اللہ باحکم الحکامین۔ کیا وہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے۔ کیا اس کی حکومت و سلطنت، بادشاہت و شہنشاہیت تمام حکمرانوں اور بادشاہوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ جب معمولی بادشاہ اور حکمران بھی اپنے ملک میں بسنے والے اچھے اور نیک لوگوں کو انعام او اکرام سے نوازتے ہیں اور مجرموں کو سخت سزائیں دیتے ہیں۔ کیا اللہ احکم الحاکمین نہیں ہے جو گناہ گاروں کو سزا اور نیکوکاروں کو ان کے بہترین اعمال پر جزا دے سکے اور ہر ایک کے ساتھ پورا پورا انصاف کرسکے۔ یقینا اللہ ہی سب حاکموں کا حاکم ہے اور اسی کی سلطنت زمین اور آسمانوں پر چھائی ہوئی ہے۔ وہی سب کو انصاف عطا فرمائے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” سورة التین “ کی تلاوت فرماتے۔ چونکہ اسمیں اللہ نے بندوں سے پوچھا ہے کہ کیا میں تمام حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہوں ؟ تو آپ اس کا جواب دیتے……………(کہ میں اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں) ۔ علماء کرام نے فرمایا ہے کہ ہم سب کے لئے یہ مستحب اور باعث اجر ہے کہ ہم بھی اس کی تلاوت کرنے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ان الفاظ کو دھرائیں۔ …………  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : الم نشرح کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جونہی فراغت میسر ہو تو آپ اپنے رب کو یاد کیا کریں۔ التّین کی ابتداء میں چار قسمیں اٹھانے کے بعد ہر انسان کو یہ بات باور کروائی ہے کہ جس طرح اسے بہترین شکل و صورت اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، اسی طرح انسان کو بہتر سے بہتر اعمال کی کوشش ... کرنی چاہیے۔ بہترین اعمال کا خلاصیہ یہ ہے کہ ہر حال میں اپنے رب کے حکم کو یاد رکھا جائے۔ رب کریم نے اس سورة مبارکہ میں انسان کو اس کے مقام اور مرتبے کا احساس دلانے کے لیے چار چیزوں کی قسمیں اٹھائی ہیں۔ انجیر اور زیتون کی قسمیں اٹھائیں جس میں انجیر اور زیتون کے فوائد کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ بیت المقدس اور اس کے گرد و پیش کے علاقے اور اس کی تاریخی حیثیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) اور بیشمار انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے اور اس علاقہ میں حق و باطل کے کئی معرکے ہوئے۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) نے اپنی اقوام کو وہی دعوت دی جس کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا کی گئی۔ جس میں اشارہ ہے کہ تورات کی جو دعوت ہے وہی قرآن مجید کی دعوت ہے اور اس پر عمل کرنا ہی انسان کی تخلیق کا اوّلین مقصد ہے۔ طور سیناء ایسا پہاڑ ہے جہاں موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے ہم کلام ہوئے۔ اس کے ساتھ یہودیوں کی ایک تاریخ وابستہ ہے۔ اس لیے طور سیناء کی قسم اٹھا کر یہودیوں کی پوری تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مکہ معظمہ کی قسم اٹھائی گئی جسے امن کا شہر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس میں بیت اللہ موجود ہے جو ہدایت کا مرکز ہونے کے ساتھ امن کا باعث ہے۔ اسی شہر میں نبی آخر الزّمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا جن پر ایمان لانا اور اطاعت کرنا ہر شخص پر لازم ہے۔ اس طرح ان چار چیزوں کی قسمیں اٹھا کر حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ اور نبی۔ کی تاریخ، دعوت اور جدوجہد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ گویا کہ تین بڑے انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کی تاریخ کا حوالہ دے کر انسان کو یہ بات باور کروائی ہے کہ اے انسان ! تجھے تیرے رب نے بہت ہی اچھی شکل و صورت کے ساتھ پیدا فرمایا اور تجھے بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ہمکنار کیا ہے لہٰذا تجھے اپنا مقام و مرتبہ پہچاننا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ قرآن مجید نے انسان کو کئی بار یہ بات یاد کروائی ہے کہ اے انسان تجھے اللہ تعالیٰ نے مسجود ملائکہ کا شرف عطا کرتے ہوئے زمین میں خلیفہ بنایا اور ہر چیز کو تیری خدمت پر لگا دیا ہے۔ زمین و آسمانوں کی ہر چیز تیرے لیے ہے اور تو ” اللہ “ کے لیے ہے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے مرتبہ ومقام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اپنے مقام سے اس قدر نیچے گرپڑتے ہیں کہ پوری مخلوق سے پست ہوجاتے ہیں، غور فرمائیں ! کہ انسان ظلم کرنے پر اترتا ہے تو درندوں سے بڑا درندہ ثابت ہوتا ہے۔ بےحیائی کرنے پر آتا ہے تو ماں، بہن کے ساتھ منہ کالا کرلیتا ہے، غلاظت اختیار کرتا ہے تو تمام مخلوق سے زیادہ گندہ دکھائی دیتا ہے، بدعقیدہ بنتا ہے تو بچھو اور سانپ کی پوجا کرنے لگتا ہے گویا اس قدر اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے کہ گھٹیا ترین مخلوق میں سب سے گھٹیا بن جاتا ہے۔ حالانکہ رب ذوالجلال کا حکم ہے کہ اے انسان ! تجھے صرف میرے سامنے جھکنا اور میرا ہی حکم ماننا چاہیے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے اور اس کا حکم ماننے پر تیار نہیں جس کے نتیجے میں عام انسان تو درکنار کلمہ پڑھنے والے مسلمان بھی عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے حقیر سے حقیر تر دکھائی دیتے ہیں۔ (لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ) (الاعراف : ١٧٩) ” ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ ان سے بدتر ہیں اور یہی لوگ غافل ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے التین، زیتون، طور سیناء اور مکہ معظمہ کی قسم اٹھا کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ بیشمار انسان اپنے عقیدہ اور کردار کی وجہ سے پوری مخلوق میں گھٹیا ترین بن جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد عظیم ترین اعزازات سے سرفراز فرمایا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا ہے۔ (ص : ٧٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ : ٣٠) ٣۔ آدم (علیہ السلام) سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ابلیس کو ہمیشہ کے لیے اپنی بارگاہ سے راندہ درگاہ اور لعنتی قرار دیا۔ (الحجر : ٣٤۔ ٣٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر فرمایا۔ (الجا ثیہ : ١٣) (الرحمن : ٤) (العلق : ٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ انسانی فطرت مستقیمہ پر انجیر ، زیتون ، طور سینا اور پرامن شہر مکہ کی قسم اٹھائی ہے۔ اور یہ قسم دراصل اس حقیقت یعنی فطرت انسان کے لئے ایک موزوں اور مناسبت فریم کا کام دیتی ہے۔ ہم اس سے قبل ثابت کرچکے ہیں کہ جس حقیقت کی تصویر کو فریم کرنے کے لئے جن مناظر قدرت کی قسم اٹھائی جاتی ہے اس حقیقت اور من... اظر قدرت کے درمیان ایک خاص مناسبت ہوتی ہے اور یہ کسی جگہ واضح اور کسی جگہ بہت دقیق ولفیف ہوتی ہے۔ طور سینین سے مراد وہ پہاڑ ہے جس کے دامن میں اللہ اور موسیٰ علیہ اسلام کے درمیان مکالمہ ہوا تھا اور بلد امین سے مراد شہر مکہ ہے۔ ان دونوں مقامات کا دینی حقائق کے ساتھ تعلق بالکل واضح ہے۔ انجیر اور زیتون تو بظاہر ان دونوں کا تعلق واضح نہیں ہے کہ ان کا فطرت انسانی اور تخلیق انسانی یا دینی حقائق کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ تین اور زیتون کی تفسیر میں روایات اور اقوال بہت وارد ہیں۔ بعض اقوال میں آیا ہے کہ ” تپن “ سے مراد ” طوتینا “ کا مقام ہے جو دمشق کے قریب ہے .... بعض نے کہا کہ تین سے راد وہ درخت ہے جس کے پتے حضرت آدم اور حوا (علیہما السلام) نے اپنے جسم پر لپیٹے تھے ، جبکہ جنگ میں شیطان کے ورخلانے پر ان کا لباس سے محروم ہونا پڑا تھا۔ اور اس کے بعد یہ دونوں زمین پر اتارے گئے تھے اور انہوں نے یہاں زندگی کا آغاز کیا تھا۔ بعض اقوال میں یہ تفسیر کی گئی ہے کہ اس سے مراد کشتی نوح کے رکنے اور ٹھہرنے والی پہاڑی ہے جس میں انجیر کے درخت زیادہ اگے ہوئے تھے۔ زیتون کے بارے میں بہت سے اقوال وارد ہیں ، بعض کے مطابق اس سے مراد ” طورزیتا “ ہے جو بیت المقدس میں ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد خود بیت المقدس ہے ، بعض نے کہا کہ اس سے مراد زیتون کی وہ شاخ ہے جو وہ کبوتر لے کر آیا تھا جسے حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی سے چھوڑا تھا ، تاکہ آپ طوفان کے حالات کا مطالعہ کریں جب یہ کبوتر زیتون کی شاخ لے کر آیا تو آپ نے معلوم کرلیا کہ زمین کے بعض حصوں سے پانی اتر گیا ہے اور وہاں درخت اگ آئے ہیں۔ بعض حضرات اس طرف گئے ہیں کہ تین اور زیتون سے وہی پھل مراد ہیں جو ہم کھاتے ہیں اور جانتے ہیں اور ان سے کوئی اشاراتی مفہوم مراد نہیں ہے۔ یا اگر کوئی ہے تو صرف وہ جگہ ہے جہاں یہ اگتے ہیں۔ یہ تو تھے اقوال۔ جہاں تک زیتون کا تعلق ہے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ یہ طور کے پہاڑ میں لگتا ہے۔ وشجرة ............................ للا کلین (20:23) ” اور وہ درخت جو طور سینا سے نکلتا ہے تیل کی پیداوار دیتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن ہے “ اور سورة عبس میں ہے۔ وزیتونا ونخلا (29:80) ” اور زیتون اور کھجور کے درخت “۔ جبکہ تین کا ذکر پورے قرآن مجید میں صرف اس جگہ آیا ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا اقوال میں سے کسی ایک کے بارے میں ہم کوئی قطعی بات نہیں کرسکتے ، البتہ پورے قرآن مجید میں قسموں کے معاملے میں قرآن کریم کے انداز کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تین اور زیتون سے اشارہ ایسے مقامات یا ایسے واقعات کی طرف ہو جن کا تعلق دین اور ایمان سے ہو ، یا اس بات سے ہو جو جواب قسم کے طور پر آرہی ہے کہ انسان کو ہم نے ایک بہترین انداز پر پیدا کیا۔ شاید جنت کی وہ جگہ مراد ہو جہاں انسان نے اپنی زندگی کا آغاز کیا تاکہ ان دونوں قسموں کا یہ اشارہ بھی قرآن کریم کے عام انداز کے ساتھ ہم رنگ ہوجائے اور یہ فریم اس تصویر کے ہم آہنگ ہوجائے جو اس میں ہے۔ موضوع کے اعتبار سے سورت میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اوپر سورة ٴ والتین کا ترجمہ لکھا گیا ہے اللہ تعالیٰ شانہ نے تین اور زیتون اور البلد الامین (شہر مکہ مکرمہ) اور طور سینین کی قسم کھا کر انسان کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اسے احسن تقویم میں پیدا کیا پھر اسے پست ترین حالت میں لوٹا دیا۔ تین انجیر کو کہتے ہیں اور زیتون ایک مشہور درخت ہے جس کے پھلوں سے تی... ل نکالتے ہیں جسے سورة النور میں شجرۃ مبارکۃ سے تعبیر فرمایا ہے۔ تیسرا مقسم بہ (جس کی قسم کھائی گئی) ﴿ طُوْرِ سِيْنِيْنَۙ٠٠٢﴾ ہے۔ اسی کو سورة ٴ مومنون میں ﴿طُوْرِ سَيْنَآءَ ﴾ فرمایا ہے یہ وہی پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ تین اور زیتون کثیر البرکت اور کثیر المنافع درخت ہیں اور کوہ طور کا مشرف ہونا تو واضح ہی ہے۔ چوتھا مقسم بہ ﴿ الْبَلَدِ الْاَمِيْنِۙ٠٠٣﴾ یعنی مکہ معظمہ ہے، اس کا کثیر البرکت ہونا بھی معلوم ہی ہے وہاں کعبہ مکرمہ ہے۔ جسے سورة آل عمران میں ﴿مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَۚ٠٠٩٦ ﴾ فرمایا ہے ان چاروں چیزوں کی قسم کھانے کے بعد فرمایا کہ ہم نے انسان کو ﴿اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ﴾ (سب سے اچھے سانچہ) میں پیدا فرمایا ہے، درحقیقت انسان اللہ تعالیٰ کی بہت ہی عجیب مخلوق ہے اس کی روح عقل، شعور، ادراک، فہم و فراست تو بےمثال ہیں ہی، جسمانی ساخت، حسن و جمال، اعضاء وجوارح، قدو قامت، شیریں گفتگو، سمع و بصر، دیکھنے کی ادائیں، رفتار و گفتار کے طریقے، قیام و سجود کے مظاہر، سب ہی عجیب و حسین ہیں جن میں مجموعی حیثیت سے کوئی بھی اس کا شریک اور سہیم نہیں ہے۔ انسان قد و قامت والا ہے اس کے دو پاؤں ہیں دو ہاتھ ہیں، پاؤں سے سر تک لمبا قد ہے پھر اس کے سر میں چہرہ ہے جس میں منہ اور آنکھیں اور ناک کان ہیں۔ آنکھوں کی پتلیوں کی چمك، کنکھیوں کے اشارے، ہونٹوں کی مسکراہٹ، دانتوں کی جگمگاہٹ کو بھی ذہن میں لاؤ، دماغ میں مغز ہے سینے میں قلب ہے، دونوں علوم و معارف کا مخزن و مظہر ہیں ہر چیز حسن و جمال کا پیکر ہے۔ سر پر جو بال ہیں سراپا زینت ہیں اور داڑھی کے جو بال ہیں وہ بھی زینت ہیں (داڑھی مونڈنے والوں کو برا تو لگے گا لیکن بحکم حدیث سبحان من زین الرجال باللحی والنساء بالذّوائب ہم نے لکھ ہی دیا، حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ پاک ہے جس نے مردوں کو داڑھیوں کے ذریعہ اور عورتوں کے سر کے بالوں کے ذریعہ زینت دی۔ (والحدیث ذکرہ المناوی فی کنوز الحقائق وعزاہ الی الحاکم) سر کے نیچے سینہ ہے اس میں دل ہے جو تدبر کی جگہ ہے پھر اس کے نیچے پیٹ ہے جو خالی ہے اس کو بھرنا پڑتا ہے۔ انسان کے ہاتھوں کو دیکھو، دس انگلیاں ہیں ہر ایک میں تین تین پورے ہیں، پھر ہتھیلی ہے جس میں انگوٹھا بھی لگا ہوا ہے سب انگلیاں مڑتی ہیں، موڑنے سے ہتھیلی میں بھی گہراؤ پیدا ہوجاتا ہے پھر پہنچے پر موڑ ہے اوپر کو دیکھو تو کہنیاں بھی مڑتی ہیں اور اوپر نظر ڈالو تو مونڈھوں کے قریب بغلوں میں بھی موڑ ہے وہاں سے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھائے جاسکتے ہیں اور عام حالات میں نیچے لٹکے رہتے ہیں۔ دونوں انگوٹھے جو دونوں ہاتھوں میں ہیں بڑے کمال کی چیزیں ہیں۔ اگر انگوٹھا نہ ہوتا تو اشیاء کے پکڑنے سے عاجز ہوتے اس کے بغیر کسی چیز کو اٹھا نہیں سکتے، منہ میں دانت ہیں جو چبانے کا کام دیتے ہیں اور ان کی سفیدی میں سراپا حسن و جمال ہے، منہ میں زبان بھی ہے بات بھی کرتی اور چیزوں کا مزہ بھی چکھتی ہیں۔ سر میں کان جوڑے ہوئے ہیں، سننے کا کام تو سوراخوں ہی سے ہوجاتا ہے لیکن کانوں سے چہرہ اور سر میں ایک عجیب حسن آگیا ہے اور ایک بات اور مزیدار ہے وہ یہ کہ اگر کان ابھرے ہوئے نہ ہوتے تو چشمہ کہاں لگاتے، کانوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ چشمہ ان پر ٹھہرا رہتا ہے۔ حروف کی ادائیگی پر بھی نظر ڈالیے، اقصائے حلق سے لے کر ہونٹوں کے باہری حصہ تک حروف کی ادائیگی ہوتی ہے۔ خالق کائنات جل مجدہ نے جس حرف کا جو مخرج مقرر فرما دیا ہے اس کے علاوہ اور کسی جگہ سے نہیں نکل سکتا۔ انسانی قدو قامت کا نیچے والا نصف حصہ کمر کے نیچے سے شروع ہوتا ہے اس میں ٹانگیں ہیں جو رانوں اور پنڈلیوں اور گھٹنوں پر مشتمل ہیں، ان کے درمیان شہوت کی چیز ہے اور ناپاکی کے نکلنے کا راستہ بھی ہے۔ كمر کا موڑ جھکنے کے لیے ہے جو رکوع کرنے میں اور نیچے کی چیزیں اٹھانے میں کام دیتا ہے، پھر گھٹنوں کا موڑ ہے اس کے ذریعے اکڑوں بیٹھتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں اور کرسی پر بیٹھتے ہیں توپنڈلیاں لٹکا لیتے ہیں، اگر گھٹنوں کا موڑ نہ ہوتا تو کرسی پر بیٹھنا مشکل ہوجاتا، پھر ابھرے ہوئے ٹخنوں کا حسن دیکھو اور انگلیوں کا تناسب اور تناسق دیکھو ساتھ ہی ناخنوں کے حسن و جمال پر بھی نظر ڈالو، اور ہاں پاؤں کا پھیلاؤ بھی تو دیکھنا چاہیے اگر پاؤں پھیلے ہوئے نہ ہوتے صرف ایڑیوں پر ٹانگیں ختم ہوجاتیں تو میاں صاحب یہاں گرتے اور وہاں گرتے، نہ چلتے نہ پھرتے نہ دوڑتے نہ بھاگتے وغیرہ وغیرہ، یہ انسان کی جسمانی ساخت ہے جو کمال و جمال کا آئینہ ہے اور اعضائے انسانی کی حرکات میں جو ادائیں ہیں ان کے حسن کو بھی انسان ہی سمجھ پاتا ہے جسمانی کمال و جمال کے علاوہ اللہ جل شانہ نے انسان کو جو عقل و ادراک نصیب فرمایا ہے جس کے ذریعہ وہ دوسری مخلوقات پر حکمران ہے بحر و بر پر اس کی حکومت ہے اور جو کچھ اس نے اپنے آرام و راحت کی چیزیں ایجاد کی ہیں عمارتیں بنائی ہیں طیارے سیارے چلائے ہیں۔ ان سب میں اس کے ظاہری اعضاء اور فہم و ادراک دونوں چیزوں کا دخل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو فضیلت اور فوقیت دی ہے۔ سورة الاسراء میں اس کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا (رح) ٠٠٧٠﴾ (اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سوار کیا اور نفیس نفیس چیزیں ان کو عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سے مخلوقات پر فوقیت دی) کسی شاعر نے انسان کو خطاب کر کے کہا ہے۔ وتزعم انک جرم صغیر وفیک انطوی العالم الاکبر انسان کے احسن تقویم ہونے کا ایک بہت بڑا مظاہرہ اس میں بھی ہے کہ کسی بھی بدصورت سے بدصورت انسان سے سوال کیا جائے کہ تو فلاں خوبصورت حیوان کی صورت میں داخل ہونے کو تیار ہے تو وہ ہرگز قبول نہیں کرے گا، نہ کرسکتا ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” والتین “ از قبیل ذکر مکان و ارادہ مکین۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے۔ اور تین (انجیر) سے منبت تین یعنی انجیر کے پیدا ہونے کی جگہ مراد ہے اور وہ ملک شام ہے جہاں انجیر بکثرت پیدا ہوتی ہے اور ملک شام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقام ہجرت ہے جہاں ان پر اللہ کی طرف س... ے وحی نازل ہوئی تھی۔ ” والزیتون “ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے اور اس سے بھی منبت زیتون یعنی بیت المقدس مراد ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مولد ہے۔ المراد من الکلام القسم بمنابت التین ومنابت الزیتون (ابن جریر۔ قرطبی ج 20 ص 111) ۔ حضرت عکرمہ، قتادہ، ابن زید اور کعب رحمہم اللہ فرماتے ہیں۔ التین مسجد دمشق و الزریتون بیت المقدس (ابن جریر) اور حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ” والزیتون بیت المقدس “ (ابن جریر، قرطبی) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) قسم کھاتا ہوں انجیر کی اور زیتون کی۔