Surat ut Teen
Surah: 95
Verse: 8
سورة التين
اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَحۡکَمِ الۡحٰکِمِیۡنَ ٪﴿۸﴾ 20
Is not Allah the most just of judges?
کیا اللہ تعالٰی ( سب ) حاکموں کا حاکم نہیں ہے ۔
اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَحۡکَمِ الۡحٰکِمِیۡنَ ٪﴿۸﴾ 20
Is not Allah the most just of judges?
کیا اللہ تعالٰی ( سب ) حاکموں کا حاکم نہیں ہے ۔
Is not the Allah the best of judges, meaning, `is He not the best of judges, Who does not oppress or do any injustice to anyone' And from His justice is that He will establish the Judgement, and He will give retribution to the person who was wronged in this life against whoever wronged him. This is the end of the Tafsir of Surah At-Tin and all praise and thanks are due to Allah.
8۔ 1 جو کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس کے عدل ہی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ قیامت برپا کرے اور ان کی داد رسی کرے جن پر دنیا میں ظلم ہوا۔
[٩] یعنی دنیا کے بادشاہوں میں بھی عدل کا یہ قانون رائج ہے کہ مجرموں کو سزا دیتے ہیں اور اچھے اور نمایاں کام کرنے والوں کو انعام دیتے ہیں۔ تو اللہ جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس کے ہاں ہی یہ قانون رائج نہ ہوگا ؟ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ یہ دنیا چونکہ دارالعمل ہے اس لیے ان گروہوں کا حساب اسی دنیا میں فوراً نہیں چکا دیا جاتا بلکہ اس جزا و سزا کو آخرت پر مؤخر کردیا گیا ہے جو دارالجزاء ہے۔ البتہ اگر کسی فرد یا کسی قوم کا ظلم حد سے تجاوز کر جائے تو اللہ باقی لوگوں کو اس کے ظلم سے بچانے کی خاطر اس دنیا میں بھی اسے عذاب سے دو چار کرکے اور تباہ کرکے دوسروں کو اس سے بچا لیتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ سورت پڑھے تو جب ( اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ ۧ) 95 ۔ التین :8) پر پہنچے تو اس کے بعد کہے بَلٰی وَاَنَاعَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاھِدِیْنَ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)
(الیس اللہ باحکم الحکمین :) کوئی معمولی سا انصاف کرنے والا ہو وہ بھی اپنے اختیار میں جزا و سزا کا اہتمام کئے بغیر نہیں رہے گا، تو اللہ جو سب حاموں سے بڑا حاکم ہے، وہ اس کا اہتمام کیوں نہیں کرے گا ؟ ترمذی وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جب تم میں سے کوئی سورت ” والتین والزیتون “ پڑھے اور ” الیس اللہ باحکم الحکمین “ پر پہنچے تو کہے :(بلی وانا علی ذلک من الشاھدین) (ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة والتین : ٣٣٣٨)” کیوں نہیں ! اور میں اس پر شہادت دینے والوں میں سے ہوں۔ “ مگر یہ روایت صحیح نہیں، کیونکہ ترمذی (رح) نے فرمایا کہ ابوہریرہ (رض) سے ایک اعرابی نے یہ روایت بیان کی ہے جس کا نام ہی معلوم نہیں۔
اَلَيْسَ اللہُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ ٨ ۧ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔
آیت ٨{ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ ۔ } ” کیا اللہ تمام حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ “ دنیا میں تم لوگ چھوٹے چھوٹے حاکموں کو دیکھتے ہو کہ وہ اپنے غداروں اور باغیوں کو عبرتناک سزا دیتے ہیں اور اپنے وفاداروں کو انعام و اکرام سے نوازتے ہیں۔ کیا دنیا میں تم نے کوئی ایسا حاکم بھی دیکھا ہے جو اپنے باغیوں اور وفاداروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دے ؟ اگر دنیا میں محدود اختیار کا مالک کوئی حاکم ایسا نہیں کرتا تو وہ اللہ عزوجل اپنے فرمانبردار بندوں اور نافرمانوں کو کیسے برابر کر دے گا جو سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے ؟ کیا تم اللہ تعالیٰ کو احکم الحاکمین نہیں مانتے ہو ؟ مسند احمد ‘ سنن الترمذی ‘ سنن ابی دائود اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی سورة التین پڑھے اور اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَپر پہنچے تو کہے : بلٰی وانا علٰی ذٰلک من الشاھدین ” کیوں نہیں ! اور میں اس پر شہادت دینے والوں میں سے ہوں “۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ آیت پڑھتے تو فرماتے : سُبْحَانَکَ فَبَلٰی !
7 That is, "When you want and expect even the petty judges of the world to do justice, punish the culprits and reward the doers of good, what is your opinion about God? Is He not the greatest of all judges? If you think he is the . greatest of all judges, do you think that He will not do any justice? Do you expect that He will treat the good and the evil alike? Will those who commit the vilest of deeds in the world and those who perform righteous deeds, both end in the dust: neither will any be punished for his evil deeds, nor any be rewarded for his good works''" Imam Ahmad, Tirmidhi, Abu Da'ud, Ibn al-Mundhir, Baihaqi, Hakim and Ibn Marduyah have related, on the authority of Hadrat Abu Hurairah, that the Holy Prophet (upon whom be peace) said: "When one of you recites Surah Wat-tin waz-zaytun and reaches Alais-Allah-u bi-ahkam-il-Hakimin he should respond to it, saying: Bata wa ana ala dhalika min-ash-shahidin (Yes, and I am of those who bear witness to it) . According to some other traditions, the Holy Prophet responded with Subhanaka fa-bald when he recited this verse.
سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :7 یعنی جب دنیا کے چھوٹے چھوٹے حاکموں سے بھی تم یہ چاہتے ہو اور یہی توقع رکھتے ہو کہ وہ انصاف کریں ، مجرموں کو سزا دیں اور اچھے کام کرنے والوں کو صلہ و انعام دیں ، تو خدا کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا وہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ اگر تم اس کو سب سے بڑا حاکم مانتے ہو تو کیا اس کے با رے میں تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ کوئی انصاف نہ کرے گا ؟ کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ برے اور بھلے کو ایک جیسا کر دے گا ؟ کیا اس کی دنیا میں بد ترین افعال کرنے والے اور بہترین کام کرنے والے ، دونوں مر کر خاک ہو جائیں گے ، اور کسی کو نہ بد اعمالیوں کی سزا ملے گی نہ حسن عمل کی جزا ؟ امام احمد ، ترمذی ، ابو داؤد ، ابن المنذر ، بیہقی ، حاکم اور ابن مردویہ نے حضرت ابو ہریرہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سورہ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ پڑھے اور أَلَيْسَ اللَّـهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ پر پہنچے تو کہے بَلٰی وَ اَنَا عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاھِدِیْنَ ( ہاں ، اور میں اس پر شہادت دینے والوں میں سے ہوں ) ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضور جب یہ آت پڑھتے تو فرماتے سُبْحٰنَکَ فَبَلیٰ ۔
3: ابو داود اور ترمذی کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس آیت کے پڑھنے کے وقت یہ کہنا مستحب ہے کہ ’’بَلَیٰ وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْنَ‘‘(کیوں نہیں؟ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ سارے حکمرانوں سے بڑھ کر حکمران ہے)۔
(95:8) الیس اللہ باحکم الحکمین : سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم، پھر کیا اللہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے۔ الیس : ہمزہ استفہامیہ۔ لیس فعل ناقص ماضی واحد مذکر غائب۔ بمعنی نہیں ہے۔ اس فعل سے ماضی کی پوری گردان آتی ہے ۔ لیکن مضارع ، امر۔ اسم فاعل، اسم مفعول اس سے مشتق نہیں ہے۔ اللہ فاعل اور باحکم الحاکمین اس کی خبر۔ احکم۔ حکم سے اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ بہتر حکم کرنے والا۔
“3 کہ تم یہ سمجھو کہ وہ بندوں کو ان کے اچھے یا برے کاموں کا کوئی بدلہ دے گا یا وہ انہیں دوبارہ پیدا نہ کرسکے گا ؟ “ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم یہ سورة پڑھو اور الیس اللہ باحکم الحاکمین پر پہنچو تو یہ کہو ’ دبلی وانا علی ذلک لمن الشاھدین کیوں نہیں اور میں اس کی شہادت دینے والوں میں سے ہوں “ (فتح القدیر بحوالہ ترمذی ۔ ابن مردویہ)
10۔ شروع سورت میں چار چیزیں مقسم بہ ہیں، دو درخت کثیر النفع اور بقعہ کثیر البرکت کہ ایک مقام ہے تکلیم موسیٰ (علیہ السلام) کا، دوسرا آپ کا مولد و مسکن و محل نزول وحی، اور درختوں کی قسم کو مقصود سے مناسبت ظاہر ہے کہ درخت کو بھی اسی طرح نشو ونما ہوتا ہے، پھر سوکھ کر کٹنے کے قابل ہوجاتا ہے اور چونکہ یہاں بیان تھا اشرف المخلوقات کا اس لئے قسم بھی اشرف الاشجار کی مناسب ہوئی، اور طور اور بلد امین دونوں محل وحی ہیں تو مجازات آخرت سے ان کو زیادہ مناسبت ہوئی کہ وحی سے علم مجازاة کا ہوا ہے۔
﴿اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ (رح) ٠٠٨﴾ (کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے ؟ ) یہ استفہام تقریری ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ کائنات میں دیکھنے سے یہ پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شانہ سب حاکموں کا حاکم ہے سب پر اسی کی حکومت ہے تکوینی طور پر بھی سب اسی کے اختیارات ہیں اور تشریعی طور پر بھی سب اسی کے بھیجے ہوئے دین کے پابند ہیں جو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے یہاں دنیا میں بھی اسی کا حکم نافذ ہے اور آخرت میں بھی اسی کے فیصلے نافذ ہوں گے۔ ﴿وَ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَقِّ وَ قِيْلَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (رح) ٠٠٧٥﴾ فائدہ : حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص سورة والتین والزیتون پڑھنا شروع کرے پھر ﴿اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ (رح) ٠٠٨﴾ پر پہنچے تو یوں کہے : بَلٰی وَ اَنَا عَلٰى ذٰلِكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ (واقعی اللہ احکم الحاکمین ہے اور میں اس پر گواہ ہوں) اور جو شخص ﴿لَاۤ اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِۙ٠٠١﴾ پڑھنا شروع کرے پھر ﴿اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰۤى اَنْ يُّحْيِۧ الْمَوْتٰى (رح) ٠٠٤٠﴾ پر پہنچے تو یوں کہے بلی (واقعی یہی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے) اور جو شخص سورة المرسلات پڑھنا شروع کرے پھر ﴿فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۭ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ ٠٠١٨٥﴾ پر پہنچے تو یوں کہے امنا باللہ یعنی ہم اللہ پر ایمان لائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٨١) وھذا آخر تفسیر سورة التین، والحمد للہ رب العلمین والصلٰوة والسلام علی من ارسل بالقرآن المبین و علی اصحابہ اصحاب الھدی والتقی والیقین وعلی من تبعھم باحسان الی یوم الدین۔
8:۔ ” الیس اللہ “ یہ دلیل عقلی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام بادشاہوں میں سب سے بڑا بادشاہ ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے اس کا یہ فیصلہ ہے کہ حشر و نشر اور جزاء سزا حق ہے۔ سورة التین ختم ہوئی
(8) کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے یعنی کیا اس کی حکومت اور اس کی شہنشاہی تمام حکومتوں اور بادشاہوں سے بڑی نہیں ہے پھر جب معمولی بادشاہ بھی اپنی رعایا اور اپنے ماتحتوں کی خدمات کا صلہ عنایت کرنے کے لئے ایک دن مقرر کرتے ہیں اور انعامات دیتے ہیں اور مجرموں کو سزا دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ جو احکم الحاکمین ہے اگر اس نے قیامت کا دن سزاوجزا کے لئے مقرر کیا ہے تو اس کے تسلیم کرنے میں کیوں اشکال پیش آرہا ہے۔ حدیث میں آتا ہے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والتین کی آخری آیت پڑھتے تو فرماتے۔ بلی وانا علی ذلک من الشاھدین یعنی بیشک میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ تمام مجازی حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہیں۔ تم تفسیر سورة التین