Surat ul Bayyina

Surah: 98

Verse: 3

سورة البينة

فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ؕ﴿۳﴾

Within which are correct writings.

جن میں صحیح اور درست احکام ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Wherein are upright Books. Ibn Jarir said, "Meaning in the purified pages are Books from Allah that are upright, just and straight. They have no mistakes in them because they are from Allah, the Mighty and Majestic." The Differing only occurred after the Knowledge came Allah says, وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَي... ِّنَةُ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یہاں کتب سے مراد احکام دینیہ، قیمہ، معتدل اور سیدھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] اس آیت کے دو مطلب ہیں اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن کی ہر سورت ایک مستقل کتاب ہے اور یہ قرآن ایسی ہی ١١٤ مستقل کتابوں کا مجموعہ ہے۔ اس کی ایک ایک سورت اپنے موضوع و مضمون کے لحاظ سے مکمل ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس میں سابقہ تمام کتب سماویہ کا خلاصہ یا جو باتیں دین کی اصل بنیاد رہی...  ہیں سب ذکر کردی گئی ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فِيْہَا كُتُبٌ قَيِّمَۃٌ۝ ٣ ۭ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں ... لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو قَيِّمُ وماء روی، وعلی هذا قوله تعالی: ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف/ 40] ، وقوله : وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف/ 1- 2] ، وقوله : وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة/ 5] فَالْقَيِّمَةُ هاهنا اسم للأمّة القائمة بالقسط المشار إليهم بقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] ، وقوله : كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء/ 135] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] فقد أشار بقوله : صُحُفاً مُطَهَّرَةً إلى القرآن، وبقوله : كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 3] إلى ما فيه من معاني كتب اللہ تعالی، فإنّ القرآن مجمع ثمرة كتب اللہ تعالیٰ المتقدّمة . اور آیت کریمہ : ۔ دِيناً قِيَماً [ الأنعام/ 161] یعنی دین صحیح ہے ۔ میں قیما بھی ثابت ومقوم کے معنی میں ہے یعنی ایسا دین جو لوگوں کے معاشی اور اخروی معامات کی اصلاح کرنے والا ہے ایک قرات میں قیما مخفف ہے جو قیام سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ صفت کا صغیہ ہے جس طرح کہ قوم عدی مکان سوی لحم ذی ماء روی میں عدی سوی اور ذی وغیرہ اسمائے صفات ہیں اور اسی معنی میں فرمایا : ۔ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [يوسف/ 40] یہی دین ( کا ) سیدھا راستہ ) ہے ؛ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجاً قَيِّماً [ الكهف/ 1- 2] اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی بلکہ سیدھی اور سلیس اتاری ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَذلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [ البینة/ 5] یہی سچا دین ہے ۔ میں قیمتہ سے مراد امت عادلہ ہے جس کیطرف آیت کریمہ : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] تم سب سے بہتر ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَداءَ لِلَّهِ [ النساء/ 135] انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو ۔ میں اشارہ پایاجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] جو پاک اوراق پڑھتے ہیں جن میں مستحکم آیتیں لکھی ہوئی ہیں ۔ میں صحفا مطھرۃ سے قرآن پاک میں کی طرف اشارہ ہے ۔ اور کے معنی یہ ہیں کہ قرآن پاک میں تمام کتب سماویہ کے مطالب پر حاوی ہے کیونکہ قرآن پاک تمام کتب متقدمہ کا ثمرہ اور نچوڑ ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ فِیْہَا کُتُبٌ قَـیِّمَۃٌ ۔ } ” ان میں بڑے مضبوط احکام (تحریر) ہیں۔ “ لفظ ” کتاب “ کے بارے میں قبل ازیں بھی متعدد بار واضح کیا جا چکا ہے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ عام طور پر احکامِ شریعت کے لیے آتا ہے۔ تو پتا چلا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی کتاب کا اکٹھا نام البیِّنہ...  ہے۔ یہ وہی بات ہے جو قبل ازیں ہم لفظ ” ذِکْرًا “ کے حوالے سے سورة الطلاق میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ وہاں اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے : { قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَـیْکُمْ ذِکْرًا - رَّسُوْلًا یَّـتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مُـبَـیِّنٰتٍ …} ” اللہ نے تمہاری طرف ذکر نازل کردیا ہے۔ ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو اللہ کی آیات بینات تم لوگوں کو پڑھ کر سنا رہاہے…“ گویا تعبیر اور تعریف (definition) کے اعتبار سے اَلْبَـیِّنَہ اور ذِکْرًا ہم معنی اصطلاحات ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے واضح احکام کتاب کی صورت میں نازل کیے اور اس کتاب کی تفہیم وتعلیم کے لیے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی مبعوث فرمایا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ تمام احکام اس انداز میں کھول کر بیان فرما دیے کہ اب اس کے بعد ان مخاطبین کے پاس کفر و شرک کے ساتھ چمٹے رہنے اور ضلالت و گمراہی سے باز نہ آنے کا کوئی جو ازباقی نہیں رہا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(98:3) فیہا کتب قیمۃ : ھا ضمیر واحد مؤنث غائب صحفا کی طرف راجع ہے کتب قیمۃ موصوف صفت۔ قیمۃ صیغہ صفت مرفوع ۔ مؤنث۔ نکرہ ہے۔ بمعنی درست ، سچی، یا معاش اور معاد کو ٹھیک کرنے والی۔ مطلب یہ کہ :۔ گزشتہ آسمانی صحیفے اور کتابیں درست تھیں مستقیم اور انسانی زندگی کی اصلاح کرنے والی تھیں۔ قرآن مجید ان کا ... نچوڑ ہے اور ان کے مضامین کو حاوی ہے۔ جملہ صحفا کی صفت ہے یا ضمیر ھا سے حال ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی پیغمبر آخر الزمان اور قرآن بھیجنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ ) اور مشرکین عرب کو راہ حق پر لایا جائے، کیونکہ یہ لوگ اس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ ان کا راہ حق پر آنا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ ایک پیغمبر آئے جو ایک مقدس آسمانی کتاب جس میں عمدہ و دلنشیں مضامین ہوں، انہیں پڑھ...  کر سنائے۔ کسی حکیم یا صوفی یا بادشاہ عادل کے بس کی بات نہ ت ھی کہ انہیں راہ راست پر لے آتا۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فیھا کتب قیمة (3:98) ” جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہوں “۔ ” کتاب “ کا لفظ موضوع اور مضمون پر بھی بولا جاتا ہے۔ مثلاً کتاب الطہارہ ، کتاب الصلوٰة اور کتاب القدر ۔ کتاب القیامہ ، صحف مطہرہ سے مراد یہ قرآن ہے۔ جس میں راست اور درست کتابیں ہیں یعنی موضوعات ومسائل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ر... سالت اور یہ رسول نہایت وقت پر آئے۔ اور یہ صحیفے یہ سورتیں اور یہ موضوعات سخن اور مسائل آئے تاکہ زمین کے اندر ایسی انقلابی اصلاح کریں جس کے سوا اصلاح کی کوئی اور ٹورت ممکن ہی نہ تھی۔ اس دور میں دنیا کو اس رسول اور اس پیغام اور اس کتاب کی ضرورت کیونکر تھی ؟ اس کا جواب میں ایک عظیم اسلامی مفکر سید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ” انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر “ کے ایک اقتباس سے دوں گا۔ یہ اقتباس نہایت مختصر اور موضوع پر واضح ہے۔ وہ باب اول کے فصل اول میں لکھتے ہیں : چھٹی صدی عیسوی بلااختلاف تاریخ انسانی کا تاریک ترین اور پست ترین دور تھا ، صدیوں سے انسانیت جس پستی اور نشیب کی طرف جارہی تھی ۔ وہ اپنے آخری نقطے تک پہنچ چکی تھی اور رﺅئے زمین پر اس وقت کوئی طاقت نہ تھی جو گرتی ہوئی انسانیت کا ہاتھ پکڑ سکے اور ہلاکت کے غار میں گرنے سے اسے روک سکے۔ انسانیت کی حالت یہ تھی کہ نشیب کی طرف جاتے ہوئے روز بروز اس کی رفتار تیز ہورہی تھی۔ انسان اس صدی میں خدا فراموش ہوکر ، کامل طور پر خود فراموش بن چکا تھا۔ وہ اپنے انجام سے بالکل بےفکر اور بیخبر اور برے بھلے کی تمیز سے قطعاً محروم ہوچکا تھا۔ پیغمبروں کی دعوت کی آواز ، عرصہ ہوا ، دب چکی تھی۔ جن چراغوں کو یہ حضرات روشن کرگئے تھے وہ ہواﺅں کے طوفان میں یا تو بجھ چکے تھے۔ یا گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس طرح ٹمٹما رہے تھے جن سے چند خدا شناس دل ہی روشن تھے۔ جہ شہروں کو تو کیا روشن کرتے ، چند گھروں کو بھی پوری طرح روشن نہ کرسکتے تھے۔ دیندار اشخاص دین کی امانت کو اپنے سینے سے لگا کر زندگی کے میدان سے کنارہ کش ہوکر دیر وکلیسا اور صحراﺅں اور غاروں میں تنہائیاں اختیار کرچکے تھے اور زندگی کی کشمکش اس کے مطالبات ، اور اس کی خشک اور تلخ حقیقتوں سے دامن بچا کر دین وسیاست اور روحانیت اور مادیت کے معرکہ میں شکت کھا کر ، اپنے فرائض قیادت سے دسکش ہوگئے تھے اور جو زندگی کے اس طوفان میں رہ گئے تھے ، انہوں نے بادشاہوں اور اہل دنیا سے باز باز کرلی تھی ، اور ان کی ناجائز خواہشات اور ظالمانہ نظام سلطنت اور ظالمانہ نظام معیشت ان کے معاون ہوگئے تھے اور لوگوں کے مال کھانے اور ان کی قوت اور دولت سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں ان دنیا داروں کے شریک وسہیم ہوگئے تھے۔ “ ” اس دور میں بڑے بڑے مذاہب بازیچہ اطفال بن گئے تھے اور منافقین کے لئے یہ مذاہب تختہ مشق بنے ہوئے تھے۔ ان مذاہب کی ظاہری صورت اور معنوی حقیقتوں کو اس حد تک مسخ کردیا گیا تھا کہ اگر ان کے بانیاں اور داعیان کے لئے اس صدی میں آممکن ہوتا اور دیکھ سکتے کہ ان کے مذاہب کا کیا حشر ہوا ہے تو وہ ہرگز ان مذاہب کو پہچان ہی نہ سکتے۔ تہذیب و تمدن کے گہواروں میں خوسری ، بےراہ روی اور اخلاقی گراوٹ پیدا ہوگئی تھی ، اور اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ تمام اقوام اپنے اندرونی اختلافات ومسائل میں الجھ کر رہ گئی تھیں۔ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے نہ ان کے پاس کوئی پیغام تھا اور نہ انسانیت کے لئے کوئی دعوت تھی۔ درحقیقت یہ اقوام اور مذاہب اندر سے پوری طرح کھوکھلے اور بودے ہوچکے تھے۔ ان کی زندگی کے سوتے خشک ہوچکتے تھے۔ ان کے پاس نہ دینی ہدایات اور تعلیمات تھیں اور نہ نظام حکومت کے لئے کوئی معقول اصول تھے “۔ (کتاب مذکور ، ص 38:37 وص 40:39) یہ تیزرفتار جھلک ، بعثت محمدی سے قبل دنیا کے ادیان کی حالت کی نہایت ہی اچھی اور مختصر تصویر دکھاتی ہے۔ اہل کتاب اور مشرکین جن نکات کی وجہ سے کفر کی سرحدوں میں داخل ہوگئے تھے۔ قرآن کریم نے ان کی طرف بار بار اشارہ کیا ہے ، مثلاً یہودیوں اور نصاریٰ کے بارے میں قرآن نے یہ تصریح کی ہے۔ وقالت ............................ ابن اللہ (30:9) ” یہود نے کہا عزیز اللہ کا بیٹا ہے عیسائیوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے “۔ اور دوسرے مقام پر ہے۔ وقالت الیھود ............................ شی ئ (112:2) ” یہود نے کہا نصاریٰ کی کوئی دینی حیثیت نہیں ہے اور نصاریٰ نے کہا یہودیوں کی کوئی دینی بنیاد نہیں ہے “۔ اور یہودیوں کے بارے میں سورة مائدہ آیت 64 میں یہ ہے۔ وقالت ............................ یشائ (64:5) ” یہود کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، ان کے ہاتھ بندھ جائیں اور ان کی اس بات کے سبب ان پر لعنت ہو ، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ وہ خرچ کرتا ہے جس طرح چاہتا ہے “۔ اور مائدہ 72 میں ہے : لقد کفر ........................ ابن مریم (72:5) ” یقینا ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہے “ اور لقد کفر ................................ ثلثة (مائدہ :73) ” یقینا کافر ہوئے وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ تین کا تیسرا ہے “۔ اور مشرکین کے بارے سورة الکافرون میں ہے : قل یایھا ................................ ولی دین (1:109 تا 6) ” کہہ دو اے کافرو ، میں ان کی عبادت نہیں کرتا ، جن کی عبادت تم کرتے ہو ، اور نہ تم عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ، اور نہ میں عبادت کرنے والا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو ، اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے “۔ یہ اور دوسری آیات جن میں مشرکین اور دوسرے کفار کی طرف اشارہ ہے۔ اور اس کفر کے نتیجے میں دنیا کے اطراف واکناف میں شروفساد اور تخریب وزوال عام تھا۔ مولانا ندوی کے الفاظ میں : ” خلاصہ یہ کہ ساتویں صدی عیسوی میں روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نظر نہ آئی تھی جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جاسکے اور نہ ایس کوئی سوسائٹی تھی جو شرافت اور اخلاق کی اعلیٰ قدروں کی حامل ہو ، نہ ایسی کوئی حکومت تھی جس کی بنیاد عدل اور انصاف اور رحم پر ہو ، اور نہ کوئی ایسی قیادت تھی جس کے پاس کوئی علم و حکمت ہو ، نہ دنیا میں کوئی ایسا دین تھا جسے صحیح دین انبیاء کہا جاسکتا ہو ، اور ان کی تعلیمات اور خصوصیات کا حامل ہو “۔ یہ وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لئے ایک ایسا رسول بھیجے ، جو پاکیزہ صحیفے پڑھے ، جن کے اندر نہایت ہی راست اور درست تعلیمات ہوں۔ حقیقت یہ کہ مشرکین اور اہل کتاب کے کفار ، ایک ایسی نئی رسالت اور ایسے دن کے سوا کسی صورت میں بھی اس شروفساد اور اس زوال وگراوٹ سے نکل نہ سکتے تھے۔ یہاں قرآن مجید اس بات کی وضاحت کردیتا ہے کہ اہل کتاب نے جو انحراف کی راہ لی یا باہم اختلافات کیے تو یہ جہالت کی وجہ سے نہ تھے۔ یا اس وجہ سے نہ تھے کہ دین سماوی کی تعلیمات میں کچھ پیچیدگی یا اجمالی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ صحیح علم ان کے پاس آچکا تھا ، حق کے دلائل ان کے پاس موجود تھے اور اس کے باوجود انہوں نے باہم اختلاف کیا :  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) ان صحیفوں میں درست و مضبوط مضامین لکھے ہوئے ہوں ۔ یعنی عالم میں روشنی پھیلانے کے لئے جس ضرورت کو محسوس کیا جارہا تھا وہ رسول تشریف لائے اور ایسی کتاب پڑھتے ہوئے آئے جو پاک ورقوں میں لکھی ہوئی ہے مراد صحف مطہرہ سے قرآن ہے کتب سے مراد قرآن کی سورتیں ہیں کیونکہ قرآن کی ہر سورت اپنے مضامین کے اعتبار...  سے ایک مستقل کتاب ہے یا کتب سابقہ کے مضامین کا خلاصہ اس قرآن میں درج ہے یا عام مضامین مراد ہیں جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے یعنی اس کے علوم اور مضامین نہایت صحیح اور سیدھے اور نایت مضبوط ومعتدل ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہر سورت ایک کتاب ہے۔ پھر شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے سب دین والے بگڑگئے تھے ہر ایک اپنی غلطی پر مغرور اب چاہیے کسی حکیم یا ولی یا بادشاہ عادل سمجھائے راہ پر آویں سو ممکن نہ تھا جب تک ایسا رسول نہ آوے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی نہ فرمایا کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تنہا ذات مقدس ایک کھلی ہوئی واضح اور روشن دلیل ہے بہرحال اس ذات اقدس کو تشریف آوری کے بعد بجائے اس کے کہ اہل کتاب ان پر ایمان لے آتے اور ان کی تعلیم کو قبول کرلیتے اور ان کو دیکھا دیکھی مشرکین پر بھی اثر پڑتا اور مجوسی اور صائبین اور بت پرست بھی اسلامی تعلیم کی جانب مائل ہوتے لیکن ہوا کیا کہ یہودونصاری یعنی اہل کتاب ہم باہم دست و گریبان ہوگئے اور اس بینہ کے متعلق آپس مبں متفرق ہوگئے۔  Show more